36 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

زندگی کے بعد،موت سے پہلے

 

زندگی کے بعد،موت سے پہلے

شکیل احمد چوہان

’’میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی مجھے ایکسپلائٹ کرے۔‘‘
سکندر سعید  نے فریش جوس کا سِپ لیتے ہوئے حتمی انداز میں کہا تھا، اپنے سامنے بیٹھی ہوئی رمشا دُرانی کو۔ رمشا کی آنکھوں میں چمک تھی۔ سکندر کو دیکھتے ہوئے وہ مسکرائی۔
سکندر! تم نے کبھی سوچا ہے تم اب تک کتنی لڑکیوں سے فلرٹ کر چکے ہو۔ تم لڑکے اتنے تنگ نظر کیوں ہوتے ہو۔ تم کرو تو ٹھیک، دوسرا کرے تو کریکٹر ڈھیلا۔ لڑکیاں ہی ہمیشہ کمپرومائز کرتی ہیں، تم لڑکے کیوں نہیں۔ لڑکا براڈ مائنڈڈ ہو تو کوئی بات نہیں، بچہ ہے۔ اگر لڑکی ہو تو بے حیا، بے شرم، کریکٹریس۔ ایساکیوں ہے؟
تمھاری انھی باتوں کی وجہ سے ممی میرے اور تمھارے رشتے کے خلاف تھیں۔‘‘ سکندر نے موڈ دکھاتے ہوئے کہا تھا۔
معاف کرنا مسٹر سکندر سعید! تمھارے گھر میں آنٹی کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ حد تو یہ ہے آنٹی تو انکل کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔
تمھیں اپنا پرامس یاد ہے نا؟ شادی سے پہلے تم جاب، بزنس یا پیشن، آئی ڈونٹ نو جو بھی ہے چھوڑ دو گی۔ سکندر نے رمشا کے تیور دیکھ کر اُسے اُس کا وعدہ یاد کرایا تھا اُکتاہٹ کے ساتھ۔
میں ایک نمبر کی ایڈیٹ ہوں جو تمھارا پرپوزل ایکسپٹ کر لیا۔ یو نو سکندر! آنٹی نے میرے آفس سے انوسٹی گیشن کی تھی میرے کریکٹر کے بارے میں۔ میرے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا تمھاری فیملی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا۔
ڈونٹ ووری رمشا! آئی ہوپ ممی اور تمھارے بیچ انڈراسٹینڈنگ ڈویلپ ہو جائے گی۔‘‘ اس بار سکندر نے رمشا کی پریشانی دیکھ کر تشفی دی۔
سکندر! مجھے آنٹی اور اپنی انڈراسٹینڈنگ کی فکر نہیں ہے اور نہ ہی یہ گلہ ہے کہ اُنھوں نے میرا پروفائل دیکھ کر اس رشتے پر اپنی رضامندی ظاہر کی تھی۔ مجھے فکر صرف اس بات کی ہے۔۔۔
رمشا بات کرتے کرتے رُک گئی۔ وہ نیلے سمندر کی طرف دیکھنے لگی جہاں پر لہریں سمندر کے اندر سے زور لگا کر آتیں اور جاتے جاتے ساحل کی تھوڑی بہت ریت اپنے ساتھ بہا لے جاتیں۔ اُس نے گلاس کے پیندے میں بچا ہوا اپنا فریش جوس ڈوبتے سورج کی طرف دیکھتے ہوئے ختم کیا۔
تمھیں اُس پروڈکشن ہاؤس میں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میرا خود کا اسٹبلش بزنس ہے۔ گاڑی ہے بنگلہ ہے اور کیا چاہیے تمھیں؟‘‘ سکندر کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ رمشا نے سنا تو اُس کے چہرے پر اُداس مسکراہٹ نے دستک دی۔
سکندر انگیجمنٹ اور ایگری منٹ میں فرق ہوتا ہے۔ خیر تمھارے نزدیک ان دونوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انگیجمنٹ کرنے کے لیے پہلے ایگری منٹ نہیں کیا جاتا۔ سکندر میں پیسوں کے لیے کام نہیں کرتی۔ فلم میکنگ میرا پیشن ہے۔‘‘ رمشا یہ کہہ کر گاڑی کی طرف چل دی۔ وہ کلفٹن پر ڈوبتے سورج کو اکیلا چھوڑ گئی تھی۔ سورج نے نہانے کے لیے پردہ کرنے کی بجائے اپنی لائٹیں ہی آف کر دی تھیں۔
آج آفس سے چھٹی تھی میں اور سکندر لنچ کرنے کے بعد کلفٹن چلے گئے۔ یہ سکندر میری فیلنگز کیوں نہیں سمجھتا۔ وہ بچپن ہی سے مجھے ہرٹ کرتا آیا ہے۔ میں ہی ہوں جو اُس کے لیے مری جاتی ہوں۔ اُس نے کبھی بھی میری کیئر نہیں کی۔ اب کہہ رہا ہے آفس سے ریزائن کر دو۔
اُسے پتا ہونا چاہیے میں نے اُس سے کی ہوئی ہر کمٹمنٹ ہمیشہ پوری کی ہے۔ اگر میں نے کہا ہے کہ میں کام چھوڑ دوں گی تو اُسے میری بات پر ٹرسٹ کرنا چاہیے۔ ماما نے ہزار دفعہ مجھ سے کہا
’’رومی! سکندر ایک شکی مزاج لڑکا ہے۔ تم اُس سے شادی کر کے مشکل میں پڑ جاؤ گی۔‘‘
سکندر ہر وقت مجھے ڈکٹیشن دیتا رہتا ہے۔ میں یہ کروں وہ نہ کروں، آخر کیوں؟
رمشا بی بی۔۔۔! رمشا بی بی۔۔۔!‘‘ دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ رمشا نے اپنی ڈائری بند کر کے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دی اور اُٹھ کر دروازہ کھولا۔
کیا ہے؟ رمشا نے دروازہ کھولتے ہوئے بے زاری سے پوچھا ۔
وہ جی۔۔۔ بیگم صاحبہ نے آپ کو بلایا ہے۔ آپ کی شادی کے لیے اُنھوں نے بڑے اچھے اچھے سوٹ منگوائے ہیں۔
ملازمہ نے چہکتے ہوئے خبر کے ساتھ ساتھ پیغام بھی دیا۔
تم جاؤ۔۔۔ میں آتی ہوں۔ رمشا نے اُسی بے زاری سے کہتے ہوئے فٹ سے دروازہ بند کر لیا ۔
’’ماما کو کون سمجھائے؟‘‘ اُس نے خود سے کہا ۔
یہ دیکھو۔۔۔! یہ لہنگا میں نے اسپیشل آڈر پر تیار کروایا ہے۔‘‘ رمشا کی ماں نے اُس کے لاؤج میں داخل ہوتے ہی کہہ دیا تھا۔
مجھے نہیں پہننا یہ لہنگا وہنگا۔ رمشا نے منہ بناتے ہوئے اپنے باپ کی بغل میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
رومی۔۔۔! یہ بہت مہنگا ہے۔ رمشا کی ماں کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ اُس کا باپ بول اُٹھا
’’مہنگا ہو یا سستا۔۔۔ رومی نے کہہ دیا نہیں پہننا تو مطلب نہیں پہننا۔‘‘
’’دُرانی صاحب۔۔۔! آپ نے بگاڑا ہے اِسے۔ لہنگا نہیں پہنو گی تو کیا جینز پہنو گی بارات والے دن؟‘‘
آئیڈیا بُرا نہیں ہے۔‘‘ رمشا کے باپ اطہر جلال دُرانی نے سنجیدگی سے کہا۔ رمشا نے اپنے باپ کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے زور سے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔ اُس کے باپ نے بھی اُس کا بھرپور ساتھ دیا۔
’’دُرانی صاحب۔۔۔! ہر بات کا مذاق مت بنایا کریں!‘‘رمشا کی ماں نے قدرے غصے سے کہا تھا۔
زینب بیگم۔۔۔! غصہ کیوں کر رہی ہو، چند دن کی مہمان ہے رومی اس گھر میں۔‘‘ دُرانی صاحب نے زینب کا بگڑا موڈ دیکھ کر کہا۔
رومی بیٹا۔۔۔! تم جاؤ، ریسٹ کرو۔ رمشا کے جانے کے ساتھ ہی زینب ایک بار پھر غصے سے بول پڑی
دُرانی صاحب۔۔۔! ہمارے والدین نے بھی ہمیں لاڈوں سے پالا تھا پر آپ جیسے چوچلے نہیں کیے تھے۔ جوان بچی ہے کیا ضرورت ہے اِسے کام کرنے کی۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ ہمارا سب کچھ اِسی کا ہے آج بھی اور کل بھی۔۔۔
زینب بیگم۔۔۔! اُس نے کہا ہے کہ شادی سے پہلے وہ اپنا کام چھوڑ دے گی۔ تم بھی سکندر اور نائلہ بھابھی کی طرح اُس کے شوق کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ مجھے تو رمشا کی سمجھ نہیں آئی، میڈیا اور کمیونیکیشن میں ماسٹر کرنے کے بعد سکندر کے لیے سب کچھ چھوڑ رہی ہے۔
آپ کو پتا ہے نائلہ بھابھی بڑی مشکل خاتون ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی آپ کے دوست کو اشاروں پر نچایا ہے۔ اب وہ شادی سے پہلے ہی رومی کو بھی اپنی جی حضوری پر لگانا چاہتی ہیں۔ سکندر، شازیہ اور آپ کے دوست سعید صاحب کی کیا مجال نائلہ بھابھی کی مرضی کے بغیر کچھ کر سکیں۔ دُرانی صاحب۔۔۔! میں نے اِسی لیے اِس رشتے کی مخالفت کی تھی۔ آپ نے میری ایک نہیں سنی تھی۔‘‘ زینب نے سخت لہجے میں گلہ کیا تھا۔
زینب۔۔۔! شادی تم نے کرنی ہے یا رومی نے؟ تم ہر دفعہ یہ قصہ لے کر بیٹھ جاتی ہو۔
اطہر جلال دُرانی نے غصے کا جواب غصے سے ہی دیا تھا۔
ہا۔۔۔ ہائے دُرانی صاحب۔۔۔! بات کرتے ہوئے کچھ تو سوچ لیا کریں۔ اب میں اس عمر میں شادی کروں گی۔ ہمارا صوبہ الگ۔۔۔ زبان الگ۔۔۔ برادری الگ۔۔۔ یہاں تک کہ فرقہ بھی الگ۔۔۔ آپ نے کچھ نہیں دیکھا بس رشتہ طے کر لیا۔ بڑی آپا نے کتنی بار وقاص کے لیے رمشا کا رشتہ مانگا تھا۔‘‘ زینب نے بھی بھڑکتے ہوئے ہی کہہ دیا تھا۔
تمھیں اعتراض اس بات پر ہے کہ وقاص کو کیوں انکار کیا یا دوسری باتوں پر؟‘‘ دُرانی صاحب نے بھی اُسی کے لہجے میں سوال کیا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے پر بھڑکے ہوئے تھے۔
کراچی منی پاکستان ہے۔ ہم ایک ملک میں رہتے ہوئے ایک نہ ہو سکے۔ پاکستان بننے سے پہلے دو قومی نظریے پر لڑائی تھی۔ اب ہم نے ایک قوم ہو کر ذاتوں، برادریوں، فرقوں پرلڑنا شروع کر دیا ہے۔‘‘ دُرانی صاحب نے کہا اور غصے سے اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔
پاپا۔۔۔! آپ دونوں ایک آئیڈیل کپل تھے، میری انگیجمنٹ کے بعد آپ دونوں میں اکثر جھگڑا ہوتا ہے۔‘‘ رمشا نے اپنے باپ کا ہاتھ تھامتے ہوئے نرمی سے کہا تھا۔
رومی بیٹا۔۔۔! ہماری زندگی بڑی پُرسکون گزری ہے۔ تمھاری ماما سے ساری زندگی میرا کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ تمھاری ماما بہت لوِنگ اور کیئرنگ ہیں۔ وہ دیہاتی تھیں پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں۔ تمھارے گرینڈ فادر نے رشتہ کر دیا تھا۔ مجھے اعتراض تھا پھر بھی ہماری شادی ہو گئی۔ اباجی کے فیصلے کے خلاف جانے کی مجھ میں جرأت نہیں تھی۔ تمھاری پیدائش کے بعد ڈاکٹر نے مجھے بتایا
’’مسٹر دُرانی۔۔۔! آپ کی وائف دوبارہ ماں نہیں بن سکتیں۔‘‘
چند سال میں نے یہ بات تمھاری ماما سے چھپائے رکھی۔ جب اُنھیں پتا چلا تو بہت روئیں۔ اُنھیں بیٹے کی بڑی خواہش تھی۔ پھر ایک دن مجھے کہنے لگیں
’’درانی صاحب۔۔۔! میں آپ کی دوسری شادی کروانا چاہتی ہوں۔‘‘
میں نے ہنستے ہوئے پوچھا وہ کیوں؟ تو کہنے لگیں
’’مجھے بیٹا چاہیے۔‘‘
پھر بولیں
میں نے آپ کے لیے گاؤں کی ایک لڑکی پسند کی ہے۔ وہ لڑکی بڑی اچھی ہے۔ بڑی خدمت کرے گی ہم دونوں کی۔۔۔‘‘
ماما آپ کی سیکنڈ میرج کروانا چاہتی تھیں؟ ویری فنی۔۔۔ وہ بھی بیٹے کے لیے۔ بڑا اچھا پلاٹ ہے اس پر اسکرپٹ لکھنا چاہیے۔ میں عمار کو یہ آئیڈیا سناؤں گی۔‘‘ رمشا نے جلدی سے اپنے باپ کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔ رمشا منہ میں چیونگم ڈالے اپنی دُھن میں تھی۔ وہ کہانی کے اندر کہانی تلاش کر رہی تھی۔
رومی بیٹا۔۔۔! میں نے تمھیں ہمیشہ بیٹوں سے بڑھ کر چاہا ہے۔ تمھاری ہر خواہش پوری کی ہے۔ تمھارا ہر فیصلہ مانا ہے۔ سچ کہوں میں بھی سکندر سے تمھارے رشتے کے حق میں نہیں تھا۔ میرے تمھاری ماما والے اعتراضات نہیں تھے۔ ذات۔۔۔ برادری ۔۔۔ فرقہ وغیرہ۔
میرے ابا جی کہا کرتے تھے
’’شادی دو لوگوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے۔‘‘
سکندر اچھا لڑکا، خاموش اور گہرا۔ اُس میں بے شمار خوبیاں ہیں جنھیں تم بھی نہیں جانتی۔ وہ جو نظر آتا ہے اُس سے بہت مختلف ہے۔ مجھے اعتراض اُس کے گھر والوں کی وجہ سے تھا۔ سعید نے ساری زندگی نائلہ بھابھی کی ہاں میں ہاں ملائی ہے۔ شازیہ نے پسند کی شادی کی تھی۔ اُس کا میاں نکھٹو ہے۔ وہ سسرال کے رحم وکرم پر ہے۔ شازیہ اِسی لیے اپنی ماں کی ضرورت سے زیادہ خوشامد کرتی ہے۔ ایسے گھروں میں کرسی کی جنگ ہوتی ہے۔ تم ٹھہری رائٹر، ڈائریکٹر اور تمھاری ساس گھر کی پرڈیوسر تمھارے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا، نائلہ بھابھی کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا۔
پھر آپ اس رشتے پر ایگری کیوں ہو گئے تھے؟‘‘ رمشا نے افسردگی سے پوچھا تھا۔ چیونگم اُس نے منہ سے نکال کر ڈسٹ بین میں پھینک دی تھی۔
رومی بیٹا۔۔۔! صرف تمھاری خوشی کے لیے۔ کیوں کہ یہ تمھارا فیصلہ تھا۔ ایک وجہ اور بھی تھی۔ سکندر مجھے بہت پسند ہے۔ میری شادی میرے اباجی نے میری مرضی کے خلاف کی تھی۔ میری محبت کوئی اور تھی ۔ اباجی کا فیصلہ درست ثابت ہوا تھا۔ تمھاری ماں بہت اچھی لائف پاٹنر ثابت ہوئی۔ پھر بھی ساری زندگی اپنی محبت کو نہ پانے کا افسوس رہا۔ جسے میں محبت کرتا تھا وہ تین دفعہ طلاق لینے کے بعد چوتھی بار بیوہ ہوئی ہے۔
رومی کے بجھے ہوئے چہرے پر تھوڑی دیر کے لیے حیرت کے چراغ جلے تھے جن میں سے کچھ دیپ وقتی خوشی کے بھی تھے۔
تمھاری ماما اور میری یہی لڑائی ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ تمھارا رشتہ میں کروں اپنی مرضی سے، تمھاری خالہ کی طرف نہ سہی کسی اور جگہ مگر فیصلہ میرا ہو۔ میںنے اُسے کئی بار سمجھایا کہ یہ میرا ہی فیصلہ ہے۔ بس میں نے رومی کی خوشی کا خیال رکھا ہے مگر اُسے یقین نہیں آتا۔
ڈونٹ ووری پاپا۔۔۔!‘‘ رمشا نے اپنے باپ سے لپٹتے ہوئے کہا تھا۔ بیٹی ہوتے ہوئے رمشا نے اپنے باپ کو تسلی دی۔
آئی ایم افریڈ۔۔۔ مگر کیوں؟ یہ میرا خود کا فیصلہ تھا۔۔۔ پھر ڈر کیسا۔۔۔ پھر بھی ۔۔۔ بی کیئرفل۔۔۔ مگر کس سے؟۔۔۔ رمشا درانی۔۔۔! سکندر تمھاری محبت ہے۔ بچپن سے تم نے اُسے چاہا ہے۔ اُسی کے متعلق سوچا ہے۔ تمھیں تو اُس پر بڑا کونفیڈینس ہے پھر کس سے ڈر رہی ہو۔ سکندر سے یا اپنے فیصلے سے۔۔۔ سکندر ہی تمھارا فیصلہ تھا اور تمھارا فیصلہ بھی تو سکندر ہی ہے۔۔۔ پاپا نے کہا تھا اُس کی ممی پرانے ذہن کی عورت ہے۔۔۔ تم آج کی جنریشن ہو۔۔۔ مگر سکندر مجھے سمجھتا نہیں ہے۔۔۔ ڈونٹ ووری رمشا۔۔۔ ایوری تھنگ ول بی فائن۔۔۔
رمشا درانی اپنے بستر پر لیٹی ہوئی خود سے ہی جنگ کر رہی تھی۔ وہ خود ہی سوال کرتی اور خود ہی اپنی مرضی کے جواب دے رہی تھی۔ وہ خود ہی خدشوں کی آگ جلاتی پھر خود ہی تسلی کا پانی اُس پر ڈال کر بجھا دیتی۔ یہ سلسلہ رمشا کے نیند کی آغوش میں جانے تک جاری رہا۔ اگلے ویک اینڈ پر وہ پھر سکندر سے ملی تھی۔
’’تم کب اپنا کام چھوڑ رہی ہو؟ ایک ماہ رہ گیا ہے ہماری شادی میں۔‘‘ سکندر نے پہلا سوال یہی پوچھا تھا۔
سکندر۔۔۔! سکندر۔۔۔! تم سمجھتے کیوں نہیں۔ یہ کام نہیں ہے۔ یہ میرا پیشن ہے میرا اور میرے دوستوں کا ۔ ہمارا خواب تھا جو ہم سب نے مل کر پورا کیا ہے۔ ہم سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔
اُلٹے سیدھے کمرشل بنا کر کیا کر سکتے ہو تم لوگ؟ سکندر نے بگڑتے ہوئے کہا۔
تمھارا پروڈکشن ہاؤس سینکڑوں کمرشلز بنا چکا ہے کون جانتا ہے تمھیں اور تمھارے اُن بے وقوف دوستوں کو، اگر تم کچھ کرنا ہی چاہتی ہو تو مجھے جوائن کر لو بزنس کمیونٹی میں۔ میری ایک ساکھ ہے چیمبر آف کامرس میں میرا اور میری کمپنی کا ایک مقام ہے۔ دنیا بزنس مینوں کو جانتی ہے۔ تمھارے جیسے بے وقوفوں کو نہیں۔ سکندر نے یہ سب رمشا کو روکھے لہجے میں کہا تھا۔ اُس کے بعد اُس نے اپنی آنکھیں رمشا کے چہرے پر جما دیں۔
مسٹر سکندر۔۔۔! کمپیٹیشن بزنس اور آرٹ کا نہیں ہے میری اور تمھاری بات ہے۔ تم بزنس کرو اور مجھے میرا کام کرنے دو۔ رمشا نے تحمل سے جواب دیا تھا۔
کبھی پیشن کہتی ہو اور کبھی کام کہتی ہو۔ میں آٹھ گھنٹے کے لیے آفس جاتا ہوں۔ کام زیادہ ہو تو دو چار گھنٹے اور سہی۔ تمھارا کیسا کام ہے نہ دن کا پتا نہ رات کی خبر۔ یہ پیشن نہیں پاگل پن ہے۔‘‘ سکندر نے سختی سے کہا تھا۔
سکندر تمھیں کتنے لوگ جانتے ہیں؟ رمشا نے سکندر کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ سکندر کے چہرے پر کئی سوال تھے۔ اس بار رمشا کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔
میں بتاتی ہوں۔۔۔ سو ڈیڑھ سو کے قریب بزنس مین اور باقی تمھاری فیکٹری کے آٹھ نو سو ورکر ٹوٹل ایک ہزار، یہ ہے تمھاری شہرت کا عالم۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں یہ شہرت کے لیے نہیں کرتی۔ مجھے یہ کام کر کے مزہ آتا ہے۔ ہر پروجیکٹ میں نئے لوگوں سے ملنا۔۔۔ نئی جگہ شوٹ کرنا۔۔۔ ٹریول کرنا۔۔۔ سردی گرمی۔۔۔ بہار خزاں کو کیمرے کی آنکھ کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھوں سے دیکھنا۔۔۔ محسوس کرنا۔۔۔ میں نے رات کے پچھلے پہر کی سنجیدگی بھی دیکھی ہے اور صبح کا سکون بھی جلتی دوپہروں کا جوش بھی دیکھا ہے اور گرجتی برستی راتوں کا خوف بھی۔۔۔ سردی میں ٹھٹھرتی زندگیاں بھی دیکھی ہیں۔ جسے تم پاگل پن کہتے ہو یہ زندگی کو قریب سے دیکھنے کا طریقہ ہے۔ رمشا کو اپنی فلم کا اسکرپٹ زبانی یاد تھا۔
سکندر۔۔۔ پلیز ڈونٹ مائینڈ۔۔۔! تم صبح آٹھ بجے ایک آفس میں آتے ہو اور شام پانچ بجے گھر واپس چلے جاتے ہو۔ مہینہ میں ایک دو بزنس ٹور کر لیتے ہو۔ میں ایسی زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں زندگی کو موت سے پہلے پہلے انجوائے کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے رات پاپا کی ایک بات بہت اچھی لگی۔ انھوں نے کہا:
’’رمشا۔۔۔! تمھاری زندگی ہے اس لیے میں نے تمھیں یہ اختیار دیا تھا کہ تم خود اپنا لائف پاٹنر چنو۔ ‘‘
میںنے تمھیں سلیکٹ کیا تھا۔ ہم جب بھی ملتے ہیں تم یہ فضول باتیں لے کر بیٹھ جاتے ہو۔ تم نے کبھی بھی رومینٹک بات نہیں کی۔ سم تھنگ نیو سکندر پلیز۔۔۔! یہ فضول بحث مت چھیڑا کرو۔
بی پرکیٹپکل رمشا۔۔۔! اکارڈنگ ٹو مائی نالج۔۔۔ تم تو ایسی نہیں تھی۔ تم دوسری لڑکیوں سے بہت مختلف تھی اسی لیے تم مجھے پسند آئی۔
اور اب تم مجھے بدلنا چاہتے ہو؟ ٹیل می سکندر۔۔۔! تم لڑکوں کو گرل فرینڈ ایک دم ماڈرن چاہیے اور بیوی سیدھی سادھی ہاؤس وائف۔ ایسا کیوں ہے؟ میں جیسی ہوں۔۔۔ ویسی ہی رہنا چاہتی ہوں۔ لڑکی کتنی ہی ماڈرن اور ویسٹرن کیوں نہ ہو جائے اُسے خود کی تعریف اچھی لگتی ہے۔ خاص طور پر اُس کے منہ سے جسے وہ دل دے بیٹھی ہو۔ میری بھی ایسی ہی خواہش ہے مگر تم ہر بار میرے کام کو ڈسکس کرنا شروع کر دیتے ہو۔ سکندر۔۔۔! میں فلم اداکارہ نہیں ہوں۔۔۔ میں کیمرے کے آگے نہیں۔۔۔ پیچھے کام کرتی ہوں۔۔۔ تم اور آنٹی کیوں نہیں سمجھتے۔۔۔ بہت فرق ہے۔۔۔
فرق جو بھی ہو تم نے کمٹمنٹ کی تھی کہ تم یہ کام چھوڑ دو گی۔‘‘ سکندر نے حتمی انداز میں کہا۔
ویٹر نے ٹیبل پر کھانا لگانا شروع کر دیا تھا۔
اوکے یار۔۔۔! اب ڈنر کر لیں؟‘‘ رمشا نے ویٹر کو دیکھ کر جلدی سے کہا۔ وہ مزید بحث کے موڈ میں نہیں تھی۔
آج میں اور سکندر ڈنر کے لیے گئے تھے۔ میری رئیل اسٹوری کا اسکرین پلے بھی کچھ کچھ فلمی سا ہے۔ وہی ٹیپیکل مین جو عورت کو قید کرنا چاہتا ہے۔ کیا سکندر کو مجھ پر اعتماد نہیں ہے؟‘‘ رمشا کا بال پین رُک گیا تھا۔ اُس نے بال پین کے کیپ کو اپنی کنپٹی سے لگایا اور سوچوں میں گم ہو گئی تھی۔
نہیں تو۔۔۔ یہ میرا وہم ہے۔ سکندر ایسا نہیں سوچتا۔ وہ بس یہ چاہتا ہے کہ شادی کے بعد میں ریسٹ کروں۔ اسے میری کیئر ہے۔ ایوری تھنگ فائن۔‘‘ رمشا نے خود کو تسلی دی۔ بال پین کی کیپ اُس کی کنپٹی پر ہی تھی۔
پر سکندر نے ہمیشہ مجھے کری ٹی سائز کیا ہے۔‘‘ ایک خیال نے آخر دماغ پر ضرب لگائی تھی۔
ڈونٹ ووری رمشا۔۔۔! وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے۔‘‘ دوسرے خیال نے جلدی سے مرہم پٹی کر دی تھی۔ رمشا نے بال پین کی کمر پر اپنی نازک انگلیاں جمائیں اور لکھنا شروع کیا
میں سکندر کے لیے اپنا کام چھوڑ دوں گی۔ وہ جو کہے گا میں ویسا ہی کروں گی۔ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اُس سے۔
رمشا نے اپنی ڈائری بند کی اور سو گئی۔ اگلے دن۔۔۔
رمشا۔۔۔! تمھیں بریک تھرو مل رہا ہے اور تم کام چھوڑ رہی ہو۔‘‘ عمار زیدی نے حیرت سے کہا تھا۔
یہ شروع ہی سے ایسی ہے۔ منزل کے قریب آکر راستہ بدل لیتی ہے۔‘‘ راؤ فرحان نے ایڈیٹنگ کرتے کرتے ہی کہا۔
احسن۔۔۔! تم یہ فلم اکیلے ہی ڈائریکٹ کر لو۔‘‘ رمشا نے حتمی انداز میں کہا۔ احسن زیدی کے چہرے پر حیرت بکھر گئی۔
رمشا یو نو۔۔۔ پرڈیوسرز نہیں مانیں گے۔ اُنھوں نے تمھیں اور مجھے اکھٹے سائن کیا تھا۔ اب میں کیا کہوں کہ میری پاٹنر اب یہ فلم نہیں کرے گی؟‘‘ احسن زیدی نے تشویش سے جواب دیا۔
رمشا۔۔۔! کتنی اسٹرگل کے بعد ہمیں فنانسرز ملے ہیں۔ عمار اور تم نے اسکرپٹ پر کتنی محنت کی ہے۔ فرحان نے بڑی مشکل سے اُس جرمن ڈی پی او کو اس پروجیکٹ کے لیے ہائر کیا ہے۔ اگلے ہفتے سے ہم سیٹ پر جا رہے ہیں۔ احسن زیدی نے پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کیا۔ وہ اپنی پریشانی چھپا نہیں سکا۔
سوری یار احسن۔۔۔! ویری سوری۔۔۔! سکندر کو یہ سب پسند نہیں ہے۔ رمشا نے شرمندگی سے کہا۔
یہ تم کہہ رہی ہو جس نے ساری زندگی اپنے دل کی سنی ہے۔ رمشا یہ پروڈکشن ہاؤس تم نے ضد کر کے بنوایا تھا۔ فرحان اور عمار تمھاری ضد پر چینل چھوڑ کر آئے، میں نے آسٹریلیا جانے کا پروگرام کینسل کر دیا، یہ اتنا بڑا سیٹ اَپ ہم سب کی سالوں کی محنت کے بعد بنا ہے اور تم اب اسے چھوڑنے کی بات کر رہی ہو؟‘‘ احسن نے قدرے خفگی سے کہا تھا۔
احسن۔۔۔! تم سمجھے نہیں۔ میں اپنی انویسمنٹ کا تقاضا نہیں کر رہی ہوں۔‘‘ رمشا نے جلدی سے بات کاٹی۔
’’تم نے ثابت کر دیا کہ تم ایک بزنس مین کی بیوی بننے جا رہی ہو۔‘‘ عمار زیدی نے کچھ ناراضی سے کہا۔
یہ تو میں نے احسن کو کہا تھا کہ تم سے بات کرے۔ ہم تینوں مل کر تمھاری رقم واپس کر سکتے ہیں۔ بات روپوں کی نہیں تمھاری ہے۔ تم اپنا ٹیلنٹ ویسٹ کرنے جا رہی ہو۔
رمشا۔۔۔! عمار نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ اس پروڈکشن ہاؤس کو اور ہمیں تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ راؤ فرحان نے جلدی سے لقمہ دیا۔
ایک طرف میری محبت ہے اور دوسری طرف میرے خواب۔۔۔ میرے خوابوں میں سے ایک خواب میری محبت بھی تھا۔۔۔ اب محبت کو چھوڑتی ہوں تو خواب پورے نہیں ہوتے۔۔۔ محبت نے میرا ایک خواب تو پورا کر دیا۔۔۔ اس لیے میں دوسرے خوابوں سے دست بردار ہوں۔‘‘ رمشا نے بڑی اچھی ایکٹنگ کی۔
’’رمشا کی بچی۔۔۔! تجھے سارے ڈائیلاگ یاد ہیں۔‘‘ عمار زیدی نے خوشی سے کہا۔
عمار۔۔۔! یاد کیوں نہ ہوتے۔ ڈائریکٹر جب تک کریکٹر کو سمجھ نہیں پاتا وہ اُسے پردے پر لا نہیں سکتا۔ میں تمکنت والے کریکٹر کے ساتھ جیتی ہوں۔ تم نے بہت اچھا لکھا ہے۔ تمکنت والا کریکٹر ساری اسٹوری اسی کے گرد گھومتی ہے۔
میں نے لکھا۔۔۔؟ عمار نے حیرت سے کہا۔
رمشا۔۔۔! یو نو یہ تمھاری اسٹوری ہے۔ میں نے تو اسکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھے ہیں۔
وہ چاروں اپنے گلے شکوے بھول کر اپنی فلم کے کرداروں کو ڈسکس کرنا شروع ہو گئے تھے۔ وہ یہ بھول ہی گئے کہ رمشا اس پروجیکٹ کو چھوڑنے والی ہے۔
رمشا۔۔۔! اتنا اچھا اسکرپٹ تم دونوں کی محنت کا ثمر ہے۔۔۔ کیوں فرحان؟‘‘ احسن زیدی نے اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔
’’یس۔۔۔ یہ تو ہے۔‘‘ راؤ فرحان نے چند لمحے ایل سی ڈی  سے نظریں ہٹائی تھیں۔ وہ پھر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔
’’زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے‘‘ یہ ٹائٹل بھی رمشا کا ہی تھا۔ میں نے تو اس کہانی کا نام ’’ست رنگی زندگی‘‘ رکھا تھا۔ تمکنت والا کریکٹر بھی رمشا کی وجہ سے ہی بن پایا ہے۔‘‘ عمار زیدی نے ایمان داری سے اعتراف کیا۔
’’نو۔۔۔ نو۔۔۔ نو۔۔۔! یہ عمار تمھاری محنت ہے۔ تمکنت نے اُردو لٹریچر پڑھا ہے اور وہ شعر بھی کہتی ہے۔ میں کہاں اچھی اُردو لکھ سکتی ہوں۔ اسپیشلی اس کردار کے ڈائیلاگ اُوسم۔ وہ تم ہی لکھ سکتے تھے۔میرے اور احسن کے استاد سید منصور کہا کرتے تھے کہ رائٹر ہمیشہ معصوم آدمی ہوتا ہے۔ چالاک ایڈیٹر ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر ہمیشہ ذہین آدمی بن سکتا ہے بے وقوف نہیں۔ کیوں احسن یاد ہے نا؟‘‘ رمشا نے احسن زیدی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اُن دنوں کو یاد کر رہی تھی جب وہ اور احسن مشہور فلم ڈائریکٹر سید منصور کے اسسٹنٹ ہوا کرتے تھے۔
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ احسن نے فوراً کہا۔ وہ دوبارہ سے بولا مسکراتے ہوئے۔
سید منصور کہا کرتے تھے:
’’احسن۔۔۔! تم بے وقوف ہو اور رمشا ذہیں۔ دونوں ٹائٹل سر جی نے دیے تھے۔ دو میں دیتا ہوں۔ فرحان چالاک ہے اور عمار معصوم۔‘‘ احسن زیدی نے بھی ماضی کی کھڑکی کھولی تھی تھوری دیر کے لیے پھر وہ کہنے لگا۔
’’رمشا درانی۔۔۔! ہمیں تمھاری ضرورت ہے تم ہمیں چھوڑ کر مت جاؤ!‘‘
’’یار میں خود کچھ کرنا چاہتی ہوں پر سکندر کو کون سمجھائے۔ وہ کہتا ہے کہ شادی سے پہلے کام چھوڑ دو۔‘‘ رمشا نے سپنوں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ کہا تھا۔
’’میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔‘‘ فرحان نے گردن موڑی اور اُن تینوں کی طرف متوجہ ہوا۔
تم آفس میں آتی جاتی رہا کرو۔ ہم انویسٹرز کو بھی نہیں بتائیں گے۔ تم ہفتے میں ایک دو دن سیٹ پر گزار لیا کرو اور سکندر سے بھی کہہ دو کہ تم نے کام چھوڑ دیا ہے۔ اس طرح سکندر بھی خوش ہو جائے گا اور انویسٹرز کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
فرحان نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ عمار نے جلدی سے فرحان کی بات پر تصدیق کی مہر لگا دی۔
اِٹ از بیٹر۔۔۔!‘‘ احسن نے رمشا کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ رمشا کو مشورہ دے رہا تھا یا خود کو تسلی۔ بس اُس نے جلدی سے کہہ دیا۔
آئی ویل سی۔ رمشا نے کالا چشمہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔ وہ اپنے آفس سے جا چکی تھی۔ کالا چشمہ لگانے سے بھی حقیقت سفید ہی رہتی ہے۔
’’یہ کیا دیکھے گی۔۔۔؟ احسن نے رمشا کے جانے کے بعد کہا۔
رمشا غرور بہت کرتی ہے پر مغرور نہیں۔‘‘ راؤ فرحان نے معصومیت سے ایل سی ڈی پر نظریں جمائے ہی کہہ دیا۔ اُس کی بات سن کر احسن اور عمار نے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
کیا مطلب ہے اس کا؟ احسن نے ہنستے ہنستے پوچھا۔
بھائی۔۔۔! میں سمجھا نہیں سکتا۔۔۔ پر وہ ہے ایسی ہی۔‘‘ راؤ فرحان اپنی بات پر قائم تھا۔
وہ دل کی بہت اچھی ہے۔۔۔ مگر اُس کے مزاج میں تکبر تو ہے۔۔۔تکبر کیوں نہ ہو۔۔۔ منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئی ہے، سکندر اُس پر جان دیتا ہے۔‘‘ عمار نے تبصرہ کیا۔
بالکل۔۔۔بالکل۔۔۔! میں بھی تو یہی کہہ رہا تھا۔‘‘ راؤ فرحان نے احسن کی طرف دیکھ کر جلدی سے کہا۔ احسن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اُبھری۔ وہ بولا
’’اچھائی اور تکبر۔۔۔ وہ تو خود کو تلاش کر رہی ہے۔‘‘
میں کون ہوں اور کسے تلاش کرنا چاہتی ہوں۔ کیا میں محبت اور خواب کے درمیان خود کو تلاش کر رہی ہوں۔ زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے کا وقت کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ جب آپ زندگی جی چکے ہوتے ہیں، زندگی کی آنکھیں بند ہونے والی ہوتی ہیں اور موت آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ کو ڈرا رہی ہوتی ہے۔ موت آپ کے دروازے کے باہر کھڑی ہوتی ہے مگر اُس کا خوف آپ کے جسم کے اندر تک ہوتا ہے۔
مجھے نہ تو میری محبت ملی اور نہ ہی میرا ایک بھی خواب پورا ہوا۔ روح نکلنے کی دیر ہے پھر میں منوں مٹی تلے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔ پھر میرے سارے خواب دنیا میں ہی رہ جائیں گے۔
رمشا بی بی۔۔۔ رمشا بی بی۔۔۔‘‘ ملازمہ دروازہ پیٹ رہی تھی۔ تمکنت کا کردار جلدی سے رمشا کے اندر سے نکل کر کاغذ کے پنّوں میں گھس گیا۔ فلم کا سکرپٹ رمشا کے ہاتھ میں تھا۔ کردار تو اس کے اندر سے جا چکا تھا پر وہ کریکٹر میں ہی تھی۔
کوثر۔۔۔! تمھیں ہزار بار سمجھایا ہے شور مت مچایا کرو۔ رمشا دروازہ کھولتے ہی اپنی ملازمہ پر بھڑکی۔
رمشا بی بی۔۔۔! بیگم صاحبہ نے آپ کو جلدی بلایا ہے۔ کوثر نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
’’کون سی قیامت آ گئی ہے؟ رمشا نے ترش لہجے میں کہا پوچھا۔
وہ آپ کی ہونے والی ساس اور اُن کے گھر والے آپ کا مہندی والا سوٹ لے کر آئے ہیں۔ اس بار کوثر کا موڈ بھی کچھ بہتر تھا۔ رمشا یہ سن کر کچھ کھو سی گئی۔ کوثر نے غور سے اُسے دیکھا۔
رمشا بی بی۔۔۔! اگر بُرا نہ منائیں تو ایک بات کہوں؟‘‘ رمشا نے ابرو کے اشارے سے بولنے کی اجازت دی۔
لگتا ہے آپ خوش نہیں ہیں۔ آپ کی شادی ہونے والی ہے۔ اتنے سوٹ، گہنے آپ کے لیے خریدے جا رہے ہیں۔ آپ پھر بھی کچھ بجھی بجھی سی لگ رہی ہیں۔
کیا سوٹ اور گہنوں سے خوشی ملتی ہے؟‘‘ رمشا نے پوچھا۔ یہ پتا نہیں خود سے یا کوثر سے بہرحال اُس نے پوچھا تھا۔
رمشا بی بی۔۔۔! آپ تو نصیبوں والی ہو۔ پسند کی شادی، سوٹ، گہنے، اتنا سارا جہیز، سی ویو پر نیا فلیٹ، نئی گاڑی اور کیا چاہیے ہوتا ہے ایک لڑکی کو؟‘‘ کوثر نے سارے جواب بھی خود دیے اور پھر سوالیہ نظروں سے رمشا کو بھی دیکھا۔
محبت اور خواب زندگی کے دوران ہی زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے روح نکلنے کا صرف انتظار رہتا ہے۔ صرف انتظار ہی انتظار۔ رمشا پھر سے تمکنت کی زبان بول رہی تھی۔ انتظار سن کر کوثر کو بھی یاد آگیا تھا کہ وہ رمشا کے پاس کیوں آئی تھی۔
انتظار ہو رہا ہے آپ کا رمشا بی بی۔۔۔! ڈرائنگ روم میں جلدی سے آجائیں۔ کوثر نے جاتے ہوئے کہا۔
’’رمشا۔۔۔! تم نے بہت انتظار کروایا ہے ہمیں۔‘‘ نائلہ نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔
تمھیں خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ہم کب سے ویٹ کر رہے ہیں۔‘‘ اُسی انداز میں اُسی طرح کی بات شازیہ نے بھی کی تھی اپنی ماں کو خوش کرنے کے لیے۔ زینب نے صورتِ حال دیکھی تو فوراً بول پڑی۔
رومی کی کل رات سے طبیعت خراب ہے۔ آپ نے گھر سے نکل کر اپنے آنے کی اطلاع دی تھی۔ میں نے رومی سے کہا بھی تھا میں منع کر دیتی ہوںپر اس نے کہا
نہیں ماما۔۔۔! اچھا تھوڑی لگتا ہے۔ اُنھیں آنے دیں۔‘‘ رمشا نے حیرت سے اپنی ماں کی طرف دیکھا تھا جو کہ اُس کے بچاؤ میں جھوٹ بول رہی تھی۔
ماما۔۔۔! آپ نے جھوٹ کیوں بولا؟ رمشا نے اپنی ساس کے جانے کے بعد پہلا سوال یہی پوچھا تھا۔
تو پھر کیا کرتی؟ حد ہوتی ہے رومی۔۔۔! کتنی دیر وہ سب تمھارا انتظار کرتی رہیں جب آہی گئی تھی تو اُن سے خوش اخلاقی سے مل ہی لیتی۔
’’ماما۔۔۔! میرا اور سکندر کا سادگی سے نکاح نہیں ہو سکتا ہے۔ تمکنت بھی دلاور سے نکاح ہی کرتی ہے۔‘‘
’’تمکنت کون ہے؟‘‘ زینب نے تشویش سے پوچھا۔
’’تمکنت میری ساتھی ہے۔‘‘ رمشا نے کھوئے ہوئے کہا۔
احسن تم اتنی جلدی کیوں مان گئے تھے صرف دو دن کا کام تھا۔ اب پندرہ دن بعد عائشہ رضوی آئے گی اور سارا کام بھی اُسی کا ہے۔‘‘ عمار نے حیرت سے احسن سے پوچھا۔
عائشہ کی رمشا سے بڑی بنتی ہے۔ فلم کا کلائمکس میں رمشا کے بغیر شوٹ نہیں کرنا چاہتا۔ کام تو دو دن کا تھا مگر اگلے دو دن رمشا کسی صورت نہیں آسکتی۔ کل اس کی بارات ہے اور پرسوں ولیمہ اس لیے میں نے عائشہ کی بات مانی۔
کیا پندرہ دن بعد رمشا آسکتی ہے؟ راؤ فرحان نے سوال کیا۔
’’رمشا مینج کر لے گی۔ تقریباً ساری فلم اُس نے ہمارے ساتھ کروائی ہے۔‘‘
مشورہ کس کا تھا؟ راؤ فرحان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
رمشا کی شادی ہو گئی تھی۔ اُس کے سارے دوستوں نے شادی میں شرکت کی تھی۔ رمشا بہت خوش تھی۔ ایک تو اُس کی محبت اُسے مل گئی اور دوسرا اُس کی فلم تقریباً مکمل تھی۔
مجھے میری محبت مل گئی ہے۔ میں سکندر کے ساتھ بہت خوش ہوں۔ میرا خواب میری فلم بھی تقریباً کمپلیٹ ہے۔ فرحان نے بڑی اچھی ایڈوائس دی تھی۔ میں فلم کمپلیٹ کرنے کے بعد رائٹ ٹائم پر سکندر کو سب کچھ بتا دوں گی۔ آئی ہوپ سکندر مائنڈ نہیں کرے گا۔ آفٹر آل اب ہمارا ریلشن مضبوط ہوا ہے۔ میرا وہم تھا سکندر رومینٹک نہیں ہے۔
رومی۔۔۔! مائی ڈارلنگ کہاں ہو؟ سکندر نے بیڈروم میں داخل ہوتے ہی آواز لگائی۔ رمشا ٹیرس پر بیٹھی ہوئی تھی جہاں سے سمندر جھومتا، لہراتا، شورمچاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ رمشا نے سکندر کی آواز پر جلدی سے اپنی ڈائری بند کر دی۔
تو تم یہاں ہو۔۔۔ یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے؟ سکندر نے رمشا کو ڈائری چھپاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
کچھ نہیں۔۔۔ ڈائری ہے۔۔۔‘‘ رمشا نے رُک رُک کر جواب دیا۔
’’تم نے ڈائری کب سے لکھنا شروع کر دی ہے؟‘‘
’’بچپن سے۔‘‘ رمشا نے صرف اتنا ہی کہا۔
اکارڈنگ ٹو مائی نالج۔ بچپن میں تمھیں ڈائری لکھنے کا شوق نہیں تھا۔ سکندر نے یقین کے ساتھ کہا۔
’’تم سے کبھی ذکر نہیں کیا۔‘‘ رمشا نے جواب دیا۔
ہم بھی تو دیکھیں ہماری رومی ڈائری میں کیا لکھتی ہے؟‘‘ سکندر نے اپنے بازو کی کمان رمشا کی تیر جیسی پتلی کمر پر ڈالی اور اُسے اپنے سینے سے لگایا۔
سوری سکندر۔۔۔! میں ڈائری تمھیں پڑھنے کے لیے نہیں دے سکتی۔‘‘ رمشا نے اعتماد سے کہا سکندر سے آنکھیں ملاتے ہوئے۔
’’کیوں؟ ایسا کیا لکھا ہے اس میں جو میں نہیں پڑھ سکتا؟‘‘ سکندر نے اپنے بازو کو کستے ہوئے پوچھا۔
’’وہ باتیں جو میں خود سے کرتی ہوں۔‘‘ رمشا نے بغیر آنکھ جھپکتے ہوئے جواب دیا۔
تمھاری باتیں سننے کے لیے بندہ حاضر ہے۔ تم اب ڈائری لکھنا بند کر دو۔‘‘ سکندر نے جلدی سے بات بدلی۔ دراصل وہ رمشا کے چہرے پر سنجیدگی ختم کرنا چاہتا تھا۔ اُسے رمشا پر کچھ شک تھا جو رمشا نے اُس کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا۔ سکندر وہ چھپانا چاہتا تھا۔
’’چلو جلدی سے تیار ہو جاؤ ڈنر پر چلتے ہیں!‘‘ سکندر نے اپنے بازو کی گرفت ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔
رمشا۔۔۔! میں نے تمھاری ہر خواہش پوری کی ہے۔ تم نے کہا ممی کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ میںنے تمھارے لیے فلیٹ خرید لیا۔۔۔ تم ہو کہ۔۔۔‘‘ سکندر کچھ پوچھنا چاہتا تھا اگر مگر سے بات اپنا راستہ بھول جاتی۔
سکندر۔۔۔! ڈو یو ہیو اینی آبجیکشن؟‘‘ رمشا نے سیدھا ہی کہہ دیا۔ وہ دونوں ڈنر کرنے کے بعد گھر لوٹے ہی تھے۔
’’کس بات پر؟‘‘ سکندر نے فوراً پوچھا۔
جب سے تم نے میرے ہاتھ میں ڈائری دیکھی ہے تم مجھ پر شک کر رہے ہو۔ اب تمھارے کہنے پر میں ڈائری لکھنا تو نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ رمشا نے روکھے لہجے میں کہا۔ سکندر نے زوردار قہقہہ لگایا اور رمشا کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنے سامنے بیڈ پر بٹھا لیا تھا۔ رمشا نے سلکی نائٹی پہن رکھی تھی۔ سکندر نے کپڑے چینج کرنے تھے وہ ابھی تک بلیک ٹوپیس میں ہی تھا۔
’’جن دنوں میں MBA کر رہا تھا، میرے ایک ٹیچر اکثر کہا کرتے تھے:
بزنس پاٹنر اور لائف پاٹنر پر اعتماد کرنا بہت اچھی بات ہے۔ اعتماد نہ کرنا اُس سے بھی اچھی بات ہے۔ مجھے آبجیکشن تمھاری ڈائری لکھنے پر نہیںہے، تجسس یہ ہے کہ لکھتی کیا ہو ڈائری میں ؟‘‘ سکندر نے یہ سب کہا تو بڑے آرام سے تھا مگر اُس کا چہرہ بدلا ہوا تھا۔
’’میری ٹیچر کہا کرتی تھیں:
اللہ سے کی ہوئی باتیں اور ڈائری میں لکھی ہوئی باتیں کسی کو بھی نہیں بتانی چاہییں۔‘‘ رمشا نے سکندر کی آنکھوں میں دیکھ کر اعتماد سے جواب دیا۔
’’مطلب یہ ہوا تم مجھے ڈائری پڑھنے کے لیے نہیں دو گی؟‘‘ سکندر نے سلگتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’یس آف کورس۔۔۔!‘‘ رمشا نے اُسی اعتماد سے دو ٹوک کہہ دیا تھا۔
اُس دن کے بعد سے رمشا اور سکندر کے تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے تھے۔ رمشا اپنی ڈائری اپنے میکے چھوڑ آئی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ سکندر اُس کی غیرموجودگی میں وہ ڈائری ضرور پڑھے گا۔ اُس کا خیال تھا سکندر سارا فلیٹ چھان مارے گا ڈائری پڑھنے کے لیے۔
ایک دن سکندر کہنے لگا:
’’رمشا۔۔۔! ہماری شادی کو دو ہفتے گزر گئے ہیں۔ ممی نے کہا ہے اب ہمیں گھر آجانا چاہیے۔‘‘
’’آنٹی نے کہا تھا:
سکندر بیٹا۔۔۔! اگر تمھارے چوچلے ختم ہو گئے ہوں تو میڈم کو گھر لے آؤ!‘‘ رمشا نے سکندر کو یاد کروایا تھا۔
’’تم فون پر میری باتیں سنتی ہو؟‘‘ سکندر نے ناگواری سے کہا۔
’’سکندر۔۔۔! رات کو آنٹی کا فون آیا تھا۔ تم نے سمجھا میں سوئی ہوئی ہوں، تم نے لیٹے لیٹے ہی اُن سے بات کر لی تھی۔‘‘ رمشا نے بے تاثر چہرے سے تفصیل بتائی۔
’’جو بھی ہے۔۔۔ یہ غلط بات ہے رمشا۔۔۔!‘‘ سکندر نے برہمی کا اظہار کیا۔
’’سکندر ۔۔۔! تم نے کئی بار میرا موبائل چیک کیا ہے۔ میں نے تو کبھی بھی تم سے گلہ نہیں کیا۔‘‘ رمشا نے بھی موڈ دکھایا۔ سکندر نے اپنا موبائل رمشا کی طرف بڑھا دیا بغیر کچھ کہے مگر اُس کا چہرہ بول رہا تھا۔ رمشا کافی دیر سکندر کو دیکھتی رہی پھر گھائل آواز میں بولی:
’’سکندر۔۔۔! ہماری شادی کو صرف دو ہفتے ہوئے ہیں اور ہم دونوں میں یہ ٹینشن شروع ہو گئی ہے۔ سکندر میں نے تمھاری خاطر اپنا کیرئیر چھوڑ دیا۔‘‘ رمشا نے اپنی قربانیاں گنوانا شروع کی ہی تھیں کہ سکندر کو اپنے بلیدان یاد آگئے تھے۔ وہ جھٹ سے بول پڑا:
’’میں نے رمشا تمھاری خاطر اپنے سارے پلان کینسل کر دیے۔ میں ہنی مون کے لیے سوئزرلینڈ جانا چاہتا تھا۔ تم نے کہا یہیں کراچی میں سی ویو پر اپنا ایک فلیٹ ہونا چاہیے۔ وہ میںنے خرید لیا۔ تم نے کہامجھے نئی گاڑی چاہیے، وہ میں نے دلوا دی پھر تم نے کہا چند دن اکیلے اسی فلیٹ میں گزارنے ہیں، ممی سے لڑ جھگڑ کر یہ خواہش بھی میں نے پوری کر دی۔‘‘ سکندر نے بڑے تحمل سے بات کی۔
’’ساری ٹینشن کی وجہ یہ ڈائری ہے۔‘‘ رمشا نے غصے سے وہ ڈائری بیڈ پر سکندر کے سامنے پھینک دی۔ سکندر نے حیرت سے رمشا کی طرف دیکھا۔
’’سکندر۔۔۔! اس میںایسا کچھ نہیں ہے جس کی وجہ سے تم مجھ پر شک کرو۔‘‘ رمشا کے آنسو نکل آئے تھے۔ سکندر نے دیکھا تو جلدی سے رمشا کو گلے لگا لیا۔
سکندر۔۔۔! میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں میرے دل پر ایک بوجھ ہے میں نے تم سے کچھ چھپایا ہے میں تمھیں بتانا چاہتی ہوں۔
یہی نا۔۔۔ ’’زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے‘‘ کا دو دن کا کام باقی ہے جسے تم میری اجازت سے پورا کرنا چاہتی ہو۔
رمشا نے جلدی سے خود کو سکندر کی باہوں سے چھڑایا اور اُس کا چہرہ دیکھنے لگی جس پر رُعب دار مسکراہٹ تھی۔
رمشا۔۔۔! میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ فرق صرف اتنا ہے مجھے تم لوگوں کی طرح کھٹی میٹھی باتیں نہیں آتیں اور جہاں تک ممی کی بات ہے وہ اچھی ہیں یا بُری ہیں۔ میری تو آخر ماں ہیں۔ ڈیڈی نے ہماری خاطر اُن کی ہر اچھی بُری بات برداشت کی۔ میں اتنا تنگ نظر نہیں ہوں۔ وہ تو ممی کو تمھارا کام بالکل پسند نہیں ہے اُنھوں نے صرف اس شرط پر ہماری شادی کے لیے ہاں کی تھی کہ تمھیں اپنا کام چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ سکندر کے چہرے پر اطمینان تھا مگر رمشا اب تک حیرت میں ڈوبی ہوئی تھی۔
ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ تمھاری فلم کا اینڈ کیا ہے؟‘‘ سکندر نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
تمھیں یہ سب کچھ کیسے پتا ہے؟ رمشا نے کافی دیر بعد سکندر سے صرف اتنا پوچھا۔
جب تم نے اپنے دوستوں کو فلم چھوڑنے کا کہا تھا اُس کے بعد فرحان نے تمھیں آئیڈیا دیا۔جس پر تم نے عمل درآمد بھی شروع کر دیا پھر ایک دن احسن زیدی کا مجھے فون آیا۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ احسن نے مجھے بتایا
’’سکندر بھائی۔۔۔! وہ آپ کے بغیر بھی مر جائے گی اور فلم بھی اُس کی زندگی ہے۔‘‘
میں نے احسن سے کہا: مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ رمشا۔۔۔! خالی تم ہی نہیں محبت کرتی۔ اُس سے کہیں زیادہ میں بھی کرتا ہوں۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تم بچپن سے ڈائری لکھ رہی ہو۔ جس ٹیچر نے یہ کہا تھا لائف پاٹنر اور بزنس پاٹنر پر اعتماد کرنا اچھی بات ہے اور نہ کرنا اُس سے بھی اچھی بات ہے میں نے اپنے اُس ٹیچر کو ادب کے ساتھ جواب دیا تھا:
’’سر ۔۔۔! اگر اعتماد نہیں کر سکتے تو پھر شادی بھی نہ کریں اور جہاں تک بزنس کی بات ہے وہ آپ نے کبھی کیا نہیں اس لیے اُس کا مشورہ مت دیں۔‘‘
اب آتے ہیں تمھاری فلم کی طرف۔ بعض اوقات تعریف وہ کام نہیں کرتی جو تنقید کر جاتی ہے۔ میں اتنے سالوں سے تمھارے کام کی تعریف کرتا آیا ہوں۔ تم لوگ پچھلے پانچ سالوں سے فلم کی کہانی کو ہی ڈسکس کرتے رہتے تھے۔ پھر میں نے تنقید شروع کر دی۔ اسکرپٹ بھی تیار ہو گیا اور فلم بھی بن گئی۔‘‘
رمشا کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔۔۔ وہ خوشی سے سکندر کے گلے لگ گئی۔
’’تھینک یو سو مچ سکندر جانو۔۔۔!‘‘
سکندر نے رمشا کو فلم مکمل کرنے کی اجازت دے دی۔ رمشا نے اپنا کام دل جمی سے کیا۔ چند ماہ بعد آخر وہ دن آہی گیا جس کا رمشا نے بچپن سے خواب دیکھا تھا۔ بڑے پردے پر اپنے کام کو دیکھنا۔ اس عرصے کے دوران سکندر نے جیسے تیسے کر کے اپنی ماں کو راضی کر لیا کہ وہ رمشا کو کام کرنے دیں۔ رمشا نے پریمپر سے ایک دن پہلے ہی اپنے سارے رشتے داروں کو اپنی فلم دکھا دی تھی۔
اُس کے سارے خاندان نے اُس کے کام کو سراہا، اُ س کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیا۔پریمیر والے دن رمشا اپنی محبت کے ساتھ اپنے پہلا خواب دیکھنے کے لیے سیمنا ہال پہنچی۔
ساری فلم کے دوران رمشا اسکرین کم اور سکندر کا چہرہ زیادہ دیکھتی رہی۔ سکندر نے بغیر کوئی تبصرہ کیے خاموشی سے ساری فلم دیکھی۔
حسبِ توقع کریٹکس او رعوام نے فلم کو بہت سراہا ۔ فلم نے پہلے ہفتے ہی کھڑی توڑ بزنس کیا۔ فلم کے ہٹ ہونے کے بعد تک سکندر نے فلم کے بارے میں اپنی رائے نہیں دی جس کا رمشا کو بے صبری سے انتظار تھا۔
سکندر۔۔۔! تم نے اپنے کمینٹس نہیں دیے۔‘‘ رمشا نے تجسس سے پوچھا۔
کس بارے میں؟‘‘ سکندر نے بے پرواہی سے کہا۔
سکندر۔۔۔! یو نو میں فلم کی بات کر رہی ہوں۔ رمشا نے کچھ خفگی سے کہا تھا۔
مجھ سے ریویو مت لو۔ تمھیں بُرا لگے گا۔ سکندر نے سنجیدگی سے سمجھایا۔
ٹیل می سکندر۔۔۔! پلیز میں سننا چاہتی ہوں۔ میرے پاس تمھارے لیے ایک بہت بڑی خوش خبری ہے۔ تم مجھے رویو دو پھر میں خوش خبری سناتی ہوں۔‘‘ رمشا نے بچے کی طرح ضد کی۔
ٹو دی پوائنٹ یا ڈیٹیل میں بتاؤں؟‘‘ سکندر اچھے موڈ میں تھا۔
ڈٹیل میں۔ رمشا نے جلدی سے کہا اور متوجہ ہو گئی سکندر کی طرف۔
تمھاری فلم سوشل لَو اسٹوری تھی۔ اب آتا ہوں کہانی کی طرف۔ تمکنت ایک لڑکی ہے جو اُردو لٹریچر میں ماسٹر ہے۔ اُسے محبت ہو جاتی ہے اُس رکشے والے سے جو اُسے یونی ورسٹی پِک اینڈ ڈراپ کرتا ہے۔ تمکنت مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ گھر والوں کی مرضی کے برخلاف دلاور خان سے شادی کر لیتی ہے جس کا تعلق سوات سے ہے۔ دلاور خان اپنے گھر والوں کا واحد کفیل ہے۔ دلاور اپنے گھر والوں کو شادی کی اطلاع نہیں دیتا اور تمکنت کے گھر والے مرضی کی شادی کرنے پر اُس سے تعلق ختم کر دیتے ہیں۔
سکندر بول رہا تھا اور رمشا غور سے سن رہی تھی۔ جیسے وہ دوبارہ سے فلم سکندر کے چہرے میں دیکھ رہی ہو۔
’’فلم کی کہانی وقفے وقفے سے فلیش بیک میں جاتی ہے۔ تمکنت کو جب یہ احساس ہو جاتا ہے کہ اب اُس کی موت آنے والی ہے بس وہ چند گھنٹوں کی مہمان ہے تب فلم شروع ہوتی ہے۔ وہ اُسی رات اپنے یونی ورسٹی کے دن یاد کرتی ہے پھر اُسے دلاور سے یک طرفہ محبت ہو جاتی ہے۔ وہ پھر دیکھتی ہے جب اُس نے اپنی ماں سے دلاور سے شادی کی بات کی تھی۔
اُس کا باپ یہ بات سن لیتا ہے وہ اس پر تشدد کرتا ہے وہ گھر سے بھاگ کر دلاور خان کے ساتھ نکاح کر لیتی ہے۔ تمکنت دلاور کے ساتھ خوش ہوتی ہے۔ تمکنت مختلف ڈائجسٹوں کے لیے لکھنا شروع کر دیتی ہے۔ جس سے گھر کا سرکل چل پڑتا ہے۔ دلاور اپنے رکشے کی ساری بچت سوات بھیج دیتا ہے۔ اس دوران تمکنت بیمار رہنے لگی ہے۔ دلاور اُس کا بہت علاج کرواتا ہے مگر بے سود۔ تمکنت کا لکھنا بند ہو جاتا ہے۔ ڈائجسٹوں سے آنے والے چیک بھی بند ہو جاتے ہیں۔ دلاور رکشہ چلاتا یا تمکنت کو ہسپتالوں میں لے کر گھومتا۔ تمکنت کی بیماری دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دن ڈاکٹرز دلاور کو بتاتے ہیں آپ کی بیوی کا لیورٹرانس پلانٹ کرنا پڑے گا جس کے اوپر لاکھوں روپے کا خرچہ ہے۔ یہ سن کر دلاور خان پریشان ہو جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں تمکنت جینا چاہتی ہے دلاور کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ بچ جائے مگر وہ بے بس تھا۔ وہ رکشہ چلانے والا لاکھوں روپیہ کہاں سے لاتا۔
گھر میں غربت کی وجہ سے جھگڑئے شروع ہو گئے۔ دلاور کو اپنے گھر، اپنے ماں باپ اور چھوٹے بھائی بہنوں کے لیے ہر مہینے خرچہ بھیجنا ہوتا تھا۔ دلاور نے اٹھارہ گھنٹے رکشہ چلانا شروع کر دیا۔ دلاور کی مجبوری کو تمکنت اُس کی لاپرواہی سمجھ رہی تھی۔ دلاور اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے رکشہ نہ چلاتا تو سارے سلسلے کیسے چلتے۔ تمکنت کو دلاور کا ساتھ چاہیے تھا۔
پھر تمھاری فلم کاکلائمیکس آگیا۔
دلاور۔۔۔! میں نے تمھارے لیے اپنا گھر چھوڑا۔ تمھاری محبت کی خاطر اپنے سارے خواب چھوڑ دیے۔ میں اس ملک کی بڑی ڈرامہ رائٹر بننا چاہتی تھی، تم سے شادی کر کے میرا وہ خواب بھی پورا نہیں ہو سکا۔ مجھے گاڑی چاہیے تھی، میں رکشے پر دھکے کھا رہی ہوں۔ میں ڈیفنس میں بنگلہ چاہتی تھی، اس جھونپڑی میں مجھے رہنا پڑ رہا ہے۔ گندا پانی پی پی کر مجھے ہیپاٹائٹس سی ہو گیا ہے۔‘‘
تمکنت حوصلہ کرو اللہ سب خیر کرے گا۔ ان شاء اللہ تمھارا سارا خواب بھی پورا ہو گا اور تم کو اللہ شفا بھی دے گا۔‘‘
’’رکشہ چلانے والوں کو ڈیفنس میں گھر نہیں ملتا۔‘‘
’’گھر تو گھر ہوتا ہے ڈیفنس میں ہو یا پھر سوات میں ہو۔‘‘
جب تک تم سوات پیسے بھیجتے رہو گے ہمارا کہیں بھی گھر نہیں بن سکتا۔ تم اپنے ماں باپ کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ آخر میں نے بھی تو اپنے والدین کو تمھارے لیے چھوڑا ہے۔‘‘
تمکنت۔۔۔! اللہ کا خوف کرو۔ میںنے کب کہا تھا کہ تم اپنے ماں باپ کو چھوڑو۔ میں نے تو تمھیں کہا تھا اگر وہ اجازت دیں تو ٹھیک نہیں تو تم اپنے ماموں کے بیٹے سے شادی کر لینا۔
دوسری بات : ہم اپنا اماں اور ابا کو نہیں چھوڑ سکتا، ہم ان کو خرچہ بھیجے گا خواہ اس کے لیے ہمیں چوبیس گھنٹے رکشہ کیوں نہ چلانا پڑے۔‘‘
’’اگر تم اپنے ماں باپ کو نہیں چھوڑ سکتے تو پھر مجھے چھوڑ دو۔‘‘
’’ہم نے تمھیں قید تھوڑی کیا ہے۔ اگر تم ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو جاؤ تمھارا مرضی۔‘‘
تمکنت نے اپنا دوائیوں والا شاپر بیگ اور اپنی ڈائری کو پکڑا اور گھر سے نکل گئی۔ وہ اُسی رات واپس اپنے ماں باپ کے گھر پہنچی، اُس کی ماں نے اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر اُسے اندر آنے دیا، وہ اپنے کمرے میں اندھیرے میں بیٹھی ہوئی تھی جہاں روشن دان سے روشنی آرہی تھی۔ روشن دان سے اندر آتی روشنی سے فلم شروع ہوئی تھی۔ پھر وہاں ہی کہانی واپس آگئی۔ تمکنت نے اپنی ڈائری میں لکھا:
’’زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے کا وقت کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ میری محبت، میرا خواب ثابت نہیں ہوئی۔ وہ تو میرے لیے عذاب ثابت ہوئی۔ میں دلاور خان تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ دلاور خان میں مر رہی ہوں۔ اللہ کرے تم بھی مر جاؤ۔‘‘
اس کے بعد اُس نے شاپر بیگ کے اندر موجود ساری گولیاں کھالیں اور اس کی ڈیتھ ہو گئی۔ تمکنت کی ڈیتھ کے ساتھ ہی دلاور کا ایکسیڈنٹ ہوتا ہے اور وہ بھی مر جاتا ہے۔
یہ تھی تمھاری فلم کی کہانی۔‘‘ سکندر نے لمبی سانس لی۔ رمشا اب بھی اُس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
’’سکندر جانو۔۔۔! یہ تو تم نے اسٹوری سنائی ہے۔ تمھارا رویو کہاں ہے؟‘‘
’’رمشا۔۔۔! تمھاری کہانی اچھی تھی مگر کہانی کے اندر بہت زیادہ جھول تھے۔ اب گنتی جانا ۔ پہلے تمکنت والا کریکٹر ڈسکس کر لیں۔
تمکنت نے بھاگ کر شادی کی۔ میں یہ نہیں کہتا لڑکیاں ہمارے معاشرے میں گھر سے بھاگ کر شادی نہیں کرتیں۔ مجھے یہ اعتراض ہے کہ اس طرح اُسے ہائی لائٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
تمکنت اپنی محبت کو ساری فلم میں احسان بنا کر پیش کرتی رہی۔ رمشا۔۔۔! محبت احسان نہیں ہے۔ محبت تو احساس کا نام ہے۔
تکلیف میں شکوہ کرتی رہی۔ شکوہ تب کرو جب جوابِ شکوہ لکھ سکو۔
عورت مکان کو گھر بناتی ہے گھر چھوڑ کر نہیں جاتی اور آپ کی تمکنت پہلے اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر چلی گئی بعد میں اپنا گھر بھی چھوڑ دیا۔
دلاور کے مرنے کی بددُعا کی۔ محبت کرنے والے دُعا دیتے ہیں بددُعا نہیں کرتے۔
تمکنت نے خودکشی کی۔ خودکشی مایوسی کی علامت ہے اور مایوسی کفر ہے۔
رمشا ڈارلنگ۔۔۔! اچھا اسکرپٹ وہ ہوتا ہے جس میں انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ پازیٹو میسج بھی ہو۔ تمھارا اسکرپٹ ہی اُلٹ تھا۔ نہ تو اس میں انٹرٹینمٹ تھی اور نہ ہی پازیٹو میسج تھا۔ ڈائریکشن میں بھی بے شمار خامیاں تھیں۔
بس۔۔۔ بس۔۔۔ سکندر۔۔۔!‘‘ رمشا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں تو تمھیں ایویں سمجھتی تھی۔ خوش خبری نہیں پوچھو گے؟‘‘ رمشا نے بات بدلی۔
تم ماں بننے والی ہو۔‘‘ سکندر نے مسکراتے ہوئے خوش خبری خود ہی سنا دی۔
تمھیں اس کی بھی خبر مل گئی ہے۔ میں بہت خوش ہوں سکندر۔۔۔! مجھے میری محبت بھی مل گئی اور میرے خواب بھی پورے ہو گئے۔ رمشا نے سکندر کا ہاتھ چومتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
رمشا۔۔۔! تمھارا مسئلہ پتا کیا ہے؟ تم رائٹر، ڈائریکٹر ہو ہی نہیں۔ مگر تم ماننے کو تیار نہیں۔ اصل میں تم خود میں ایک کریکٹر ہو۔ تمکنت والا کریکٹر دراصل تم خود ہی تھی۔ وہ عمار نے نہیں لکھا، تم نے خود اُس سے لکھوایا تھا اور فلم میں ’’دلاور‘‘ تم نے مجھے بنا دیا اور اُسے بے وجہ ہی مروا دیا۔
اچھا رائٹر وہ بنتا ہے جو اپنی پرسنلٹی کے شیڈو سے نکل آتا ہے اور اچھا ڈائریکٹر وہ بنتا ہے جس کے اوپر کسی کا بھی شیڈو نہ ہو، بلکہ ڈائریکٹر کو سورج کی طرح ہونا چاہیے جس پر بھی اُس کی روشنی پڑے وہ چمک اٹھے۔
اِس کہانی میں تم زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے کی بے بسی دکھانا چاہتی تھی۔ جس میں تم بُری طرح سے ناکام رہی ہو۔ وہ بے بسی سرکاری ہسپتالوں میں دیکھنے کو ملتی ہے یا پھر غربت کے مارے گھرانوں میں۔ نہ تو تم کبھی ہاسپٹل گئی ہو اور نہ ہی کسی غریب مریض سے ملی ہو جس کے پاس اپنے علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔۔۔ اور وہ موت کی کھائی میں نہیں گرنا چاہتا۔
رمشا۔۔۔! اصل میں تمکنت تم خود ہی ہو۔۔۔ رمشا سے تمکنت تک۔۔۔
یہ تمھاری خودساختہ کہانی تھی۔
تمھاری نسبت احسن بڑا اچھا ڈائریکٹر ہے۔ عائشہ رضوی تمھارے ساتھ اس لیے کمفیٹیبل فیل کرتی تھی کہ تم ایک عورت ہو۔‘‘
’’میری سمجھ میں ایک بات نہیں آرہی۔۔۔ اتنی خامیوں کے باوجود یہ فلم چلی کیسے؟‘‘ رمشا نے حقیقت میں پوچھا تھا یا پھر سکندر کو خوش کرنے کے لیے کہاتھا۔
’’سیدھی سی بات ہے۔ فلمیں پاکستان میں کم بن رہی ہیں، جو ماضی قریب میں بنتی رہی ہیں، اُن سے بہرحال بہت بہتر ہے اور جو تم نے چالاکی کی وہ یہ تھی کہ تمکنت کو زبردستی مظلوم بنا دیا تھا۔‘‘
’’تو کیا عورت مظلوم نہیں ہے؟‘‘ رمشا نے جلدی سے پوچھا۔
’’ہمیشہ عورت مظلوم نہیں ہوتی۔ میری ممی اور شازیہ کہاں سے مظلوم ہیں؟ آنٹی کہاں سے مظلوم ہیں اور تم خود کو ہی دیکھ لو۔
رمشا مائی ڈیئر وائف۔۔۔! جس سوشل سرکل میں ہم رہتے ہیں وہاں عورت ظالم ہو سکتی ہے مظلوم نہیں۔ اگر تم اچھی رائٹر، ڈائریکٹر بننا چاہتی ہو تو سفر کرو۔ کتابیں پڑھو اور لوگوں کو اُن کے لیول پر جا کر ملو پھر ریالٹی دیکھ سکو گی۔ در در کے دھکے کھانا پڑتے ہیں پھر جا کر کہانیاں ہاتھ لگتی ہیں۔ تم نے اور عمار نے اے سی والے روم میں بیٹھ کر ہی دلاور خان کا کریکٹر لکھ دیا تھا۔ تم دونوں زندگی میں کبھی سوات نہیں گئے ہو گے۔‘‘
’’سکندر جانو۔۔۔! بس بھی کرو۔ تم نے تو میری فلم کا حشر نشر کر دیا ہے۔‘‘ رمشا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سکندر کے سنجیدہ چہرے پر بھی مسکراہٹ نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔
’’ٹیل می۔۔۔ تمھیں یہ سب کچھ کیسے معلوم ہے؟‘‘ رمشا نے پوچھا۔ سکندر نے لمبی سانس بھری اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا:
’’جب ہم دونوں نے ہوش سنبھالا تھا تو PTVکا ڈرامہ اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ اُس میں سے چند ایک سانسیں میںنے بھی محسوس کی تھیں۔ ورلڈ کلاس ڈرامے PTV نے دیے ہیں۔ اس کے علاوہ پرشن سینما بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ انڈیا کا آرٹ سینما بھی ٹھیک تھا۔ فلم کے حوالے سے ہالی وڈ کی تو ساری دنیا پر حکمرانی رہی ہے۔ میں نے یہ سارا کام دیکھا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں:
گھوڑی نہیں چڑھے تو کیا ہوا۔۔۔۔۔ چڑھتے ہوئے تو دیکھا ہے۔‘‘
’’اور ہمارا کام؟‘‘ رمشا نے جلدی سے پوچھا۔
’’رمشا۔۔۔! فلم میں ہم لوگ بہت پیچھے ہیں۔ پچھلے دس سال میں صرف تین چار ورلڈ کلاس فلمیں پاکستان میں بنی ہیں۔ اُن میں سے دو ایک ہی صاحب کی تھیں، اُنھوں نے بھی PTV پر مار کھائی تھی، اس لیے اُنھیں اسکرپٹ کی سوجھ بوجھ ہے۔
فلم میں سب سے اہم اسکرپٹ ہی ہوتا ہے۔ حالیہ دو چار پاکستانی فلمیں دیکھی ہیں۔ سب نے یہ کیا انڈیا کی تین سے چار فلمیں اٹھائیں اُنھیں جوڑ کر ایک نئی فلم بنا ڈالی۔ انھیں وقتی کامیابی تو مل گئی ہے پر ایسی فلمیں لوگوں کے دلوں میں نہیں رہتیں۔‘‘سکندر خاموش ہو گیا تھا مگر رمشا اسے سننا چاہتی تھی۔
انسانی فطرت ہے وہ اپنے پسندیدہ موضوع پر گھنٹوں بات کر سکتاہے اور سن بھی سکتا ہے۔ ایسا ہی رمشا کے ساتھ بھی تھا۔ سکندر نے کبھی بھی اس سے فلم پر بات نہیں کی تھی۔ اُس دن کی تھی تو خوب کی۔
’’سکندر۔۔۔! ایک بات کہوں۔۔۔ میری بڑی خواہش تھی تم مجھ سے گھنٹوںمیرے فیورٹ موضوع پر بات کرو۔ آج میری یہ وِش بھی پوری ہو گئی ہے۔‘‘ رمشا نے جھومتے ہوئے کہا۔
تمھاری خواہش پوری کرتے کرتے میرا گلہ خشک ہو گیا ہے۔ پچھلے ایک گھنٹے سے مسلسل بول رہا ہوں۔ صرف تمھیں خوش کرنے کے لیے۔ رمشا۔۔۔! مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے۔‘‘ سکندر نے کہا۔
آج کا ڈنر میری طرف سے۔۔۔ سالٹ اینڈ پیپر چلتے ہیں۔‘‘ رمشا نے چہکتے ہوئے اپنا پروگرام بتایا۔
’’آج نہیں۔۔۔ میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ میرا ڈرائیو کا کوئی موڈ نہیں ہے۔‘‘ سکندر نے سستی سے جواب دیا۔
’’ڈرائیو بھی میں کروں گی اور ڈنر بھی میری طرف سے اور کل صبح ہم گھر بھی چلے جائیں گے۔‘‘ رمشا نے ایک کے ساتھ ایک فری والی آفر دی تھی۔ سکندر نے سنا تو وہ مسکرا اٹھا۔
’’میں فریش ہو کر آتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے سکندر چلا گیا۔ جب سکندر واپس لوٹا فلم ڈائریکٹر کسی ملکہ حسن سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
رمشا نے سفید چوڑی دار پائجامہ اوپر فراک پہنی۔۔۔ ریڈ لپ اسٹک ۔۔۔ اُس کے دودھیا چہرے پر جچ رہی تھی۔ کھلے گیسوں کچھ چھوٹے ضرور تھے مگر سیاہ رات سے زیادہ کالے تھے۔ سکندر ہمیشہ کی طرح بلیک ٹوپیس پہنے ہوا تھا سفید شرٹ کے ساتھ۔
رمشا نے اپنے فیورٹ ریسٹورنٹ میں اپنی مرضی کا کھانا آرڈر کیا۔
’’سکندر۔۔۔! مجھے آج ایسا لگ رہا ہے میں سولہ سال کی ینگ لڑکی ہوں، وہ کیا کہتے ہیں اُسے دو۔۔۔ شی۔۔۔‘‘
’’دوشیزہ۔‘‘ سکندر نے ہنستے ہوئے لقمہ دیا۔
’’ہاں وہی دوشیزہ ہوں جو پہلی بار اپنے لور کے ساتھ ڈیٹ پر آئی ہو اور اُس کی ہارٹ بیٹ اُس کے قابو میں نہ ہو۔ اُسے اپنے لور سے ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ظالم دنیا کا ڈربھی ہو۔ کہیں کوئی دیکھ ہی نہ لے، گھر والوں کو پتا چل گیا تو کیا ہو گا۔‘‘
’’تم واقعی سولہ سال کی لڑکی کی طرح ہی بی ہیو کر رہی ہو۔‘‘ سکندر نے تعجب سے بتایا۔
سکندر۔۔۔! میں آج سے پہلے تمھیں سمجھ ہی نہیں پائی۔ پاپا تمھارے بارے میں ٹھیک کہتے تھے کہ جو تم نظر آتے ہو ایسے تم ہو نہیں۔
’’کیا کہا تھا انکل نے میرے بارے میں؟‘‘ سکندر نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’وہ میں پھر بتاؤں گی آج میں تمھیں اپنے دل کا حال بتانا چاہتی ہوں۔‘‘
’’بتاؤ میں سن رہا ہوں۔‘‘
سکندر۔۔۔! میں۔۔۔ ہماری شادی والے دن بھی اتنی خوش نہیں تھی۔ فلم کی ریلیز پر بھی اتنا ہیپی موڈ نہیں تھا۔ آج ایسے جیسے مجھے زندگی مل گئی ہو۔‘‘
ڈنر کرنے کے بعد وہ ریسٹورنٹ سے نکلے، گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ڈرائیور سیٹ والا دروازہ کھولتے ہوئے رمشا بولی
’’سکندر۔۔۔! کیا تمھیں سکندرِ اعظم کی بیوی کا نام پتا ہے؟‘‘
نہیں تم بتاؤ۔‘‘ سکندر نے تنگ کرنے کے لیے کہا۔
بتاؤ نا۔‘‘ رمشا نے گاڑی کی ڈرائیور سیٹ پر بیٹھتے ہوئے نازو انداز سے کہا۔
’’رخسانہ اُس کا نام تھا۔‘‘ سکندر نے جواب دیا۔
رخسانہ۔‘‘ رمشا نے تصدیق کی تھی یا حیرت سے دوبارہ وہی نام دہرایا تھا۔ خدا جانے۔
مجھے آج لگ رہا ہے تم سکندرِ اعظم ہو اور میں تمھاری کوئین رخسانہ ہوں۔‘‘ رمشا کار ڈرائیو کر رہی تھی اور سکندر اُس کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔
گاڑی سی ویو والی سڑک پر تھی۔ میکڈونلڈ سے پہلے جو سپیڈ بریکر آتے ہیں، اُسی مقام پر ایک لینڈکروزر نے رمشا والی سائیڈ پر زوردار ٹکر ماری۔ لینڈکروزر والا اسپیڈ میں تھا۔ رمشا کی کار اُلٹ گئی۔ بڑا میجر ایکسیڈنٹ ہوا تھا۔
رمشا اس حادثے میں شدید زخمی ہوئی، سکندر بھی زخمی ہوا تھا۔ چند دن بعد سکندر کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دیا گیا مگر رمشا آئی سی یو میں ہی تھی۔ اُس کی حالت انتہائی تشویش ناک تھی۔ جب رمشا کو ہوش آیا اُس نے سکندر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔
’’سکندر۔۔۔!! سکندر۔۔۔!!‘‘ رمشا نے رُک رُک کر کہا۔
اُس کے آنسو پلکوں کے کواڑ کھول کر صحرا جیسے خشک گالوں پر گرے تھے۔
صحرا جیسے خشک گالوں کے نیچے ہونٹ ایسے، جیسے گیلی چکنی مٹی تیز دھوپ سے پھٹ جاتی ہے۔
آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے تھے، بالکل ویسے ہی جیسے بھوکے چہروں پر غربت اپنے نشان چھوڑ جاتی ہے۔
یہ تمکنت جس کا نام رمشا تھا، اپنے سارے غرور کے ساتھ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھی۔
اُس کا چہرہ کسی ساہوکار کا بہی کھاتہ نظر آرہا تھا جس پر کئی کھاتے درج تھے۔
انگلیاں تنور میں ڈالی جانے والی خشک شاخوں جیسی ہو چکی تھیں۔
آنکھوں میں روشنی غریب کے دیپ جتنی جس کے نیچے اندھیرا ہی رہتا ہے۔
’’بولو۔۔۔! میں سن رہا ہوں۔‘‘ سکندر نے رمشا کے خشک رخساروں سے اشکوں کو صاف کیا تھا۔
’’میں کب سے اس حالت میں ہوں؟‘‘
’’اٹھارہ دنوں سے۔۔۔۔۔‘‘ سکندر نے مختصر سا جواب دیا۔
سکندر نے اپنے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’سکندر۔۔۔! میں جینا چاہتی ہوں۔۔۔ مجھے لگتا ہے تمکنت مجھے بھی مار دے گی۔ عمار نے بہت کہا تھا تمکنت کو نہ مارو۔۔۔ مگر میں دلاور کی تمکنت کو مارنا چاہتی تھی۔۔۔ اب وہ مجھ سے بدلہ لے رہی ہے۔۔۔‘‘
رمشا ایک بار پھر تمکنت کے کریکٹر میں کھو گئی تھی۔ سکندر کسی گہری سوچ میں تھا۔
میں زندگی کو قریب سے دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔ اب موت میرے سامنے کھڑی ہے۔۔۔‘‘ بات کرتے کرتے رمشا کی سانس پھول گئی۔ ڈاکٹروں نے سکندر کو وارڈ سے باہر بھیج دیا۔ ٹھیک دس منٹ بعد ڈاکٹروں نے رمشا کی ڈیتھ کی خبر سنا دی تھی۔ رمشا نے بغیر سمجھے۔۔۔ بغیر دیکھے زندگی کے بعد۔۔۔ موت سے پہلے کے وقت کو لکھ دیا تھا۔
قسمت میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔۔۔ اُس کا سفید سلکی جوڑا سفید اُونی کفن میں تبدیل ہو گیا۔

…ختم شد…

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles