صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
زندۂ جاوید خدمات ۔ 2
04/10/2013
شاعرِ مشرق نے کہا تھا ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
سید ابوالاعلیٰ مودودی اِس عہد کے بہت بڑے دیدہ ور تھے۔
اِس عہد میں اُن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ بیسویں صدی کی ہماری وہ نسل جو مغربی افکار کی یلغار سے اسلام سے بدظن ہوتی جا رہی تھی
اور اُسے چند منتشر فرسودہ تعلیمات کا ایک مجموعہ سمجھنے لگی تھی ٗ اُس میں اپنی تحریروں کے ذریعے ایمان کی شمعیں روشن کیں
اور یہ جذبہ پیدا کیا کہ دینِ فطرت آنے والے زمانوں میں ایک غالب تہذیب کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
مولانا نے مضبوط دلائل کے ساتھ مغربی تہذیب کا سحر توڑا اور سرمایہ داری اور اشتراکی نظام ہائے زندگی کی تباہ کاریوں پر سے پردہ اُٹھایا
اور مغربی علوم کی لغزشوں میں سخت گرفت کی اور دوسری طرف اسلام کے اعلیٰ و ارفع نظام کی پشتِ ترکیبی پر روشنی ڈالی
اور دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا کہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا صرف اسلامی زندگی میں ہے۔
اُنہوں نے کوئی اچھوتا نظریہ پیش نہیں کیا تھا ٗ وہ تو فقط اسلام کو اِس کی خاص شکل میں دنیا کے سامنے رکھ دینا چاہتے تھے۔ اوہام اور رسوم و رواج کی آلائشوں سے پاک صاف اسلام ۔
نئی اور پرانی جاہلیتوں سے پاکیزہ اسلام ۔ زندہ ٗ متحرک اور انقلاب آفریں اسلام۔ ایک نظام ٗ ایک تہذیب اور ایک تمدن کی صورت میں اسلام ۔ دلوں میں اُتر جانے والا اور ذہنوں کو مسخر کرنے والا اسلام ۔
نوجوانوں میں اُمید و یقین اور عمل کی جوت جگانے دینے والا اسلام ۔ غالب اور کارفرما اسلام ۔
ترقی و تعمیر کی ہر امکانی صورت سے آگے اسلام۔
مولانا نے اسلامی نظام کی تشریح و تعبیر میں لاکھوں صفحات قلم بند کیے اور اُن کی معرکۃ الآرا کتابوں کی تعداد سو سے تجاوز کر گئی جن کا ترجمہ دنیا کی ہر بڑی زبان میں ہو چکا ہے۔
اِس کرۂ ارض پر جہاں کہیں اسلامی تحریک اُٹھی ہے ٗ اِس میں مولانا کے لٹریچر نے بنیادی کردار ادا کیا ہے
اور آج بھی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا جو خواب نوجوانوں کے سینوں میں ایک طوفان اُٹھائے ہوئے ہے
اُس میں مولانا کی عظمتِ کرداد کا بہت بڑا حصہ ہے۔
فرسودہ تصورات نے جو پیچ در پیچ جالے بُن رکھے تھے ٗ اُنہوں نے حکمت و دانائی سے اُنہیں تارتار کیا
اور جمود کے تمام بت پاش پاش کر ڈالے اور جنگل کے جنگل صاف کر کے فکر و عمل کی شاہرائیں تعمیر کیں۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی
کی حیثیت سے پیش کیا اور بے پناہ ریاض اور استغراق سے کام لیتے ہوئے قرآن و حدیث کے حوالے سے
ایک جامع خاکہ تیار کیا جس میں نظامِ عقائد ٗ نظامِ عبادات ٗ نظامِ اخلاق ٗ نظامِ قانون ٗ
نظامِ معیشت باہم مربوط اور ایک دوسرے سے پیوست نظر آتے ہیں۔ اِس واضح نقشے نے نوجوانوں کو
سب سے زیادہ متاثر کیا۔ مستشرقین مدتوں اسلام کے خلاف یہ زہریلا پروپیگنڈہ کرتے آئے تھے کہ
اسلام کے اندر کوئی ادارہ ہے نہ دستور سازی کے مستحکم انتظامات۔ وہاں تو غلام ہیں ٗ لونڈیاں ہیں
اور خونخوار جنگیں ہیں۔ ہمارے اچھے اچھے دماغ مغربی علوم و فنون سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ
وہ قرآنی اصلاحات کو عجب عجب معنی پہننانے اور مسلمانوں کے اندر شکستِ خوردگی کا
احساس پیدا کرنے لگے۔
مولانا نے قطعیت کے ساتھ بتایا کہ اسلام کے اندر اقتدار ِ اعلیٰ کا تصور کیا ہے ٗ حکومت کی نوعیت کیا ہے ٗ حکمرانوں اور شہریوں کے حقوق و فرائض کیا ہیں ٗ مشاورت کی جدید شکلیں کیا ہو سکتی ہیں
بنیادی حقوق کا پھیلاؤ کس قدر ہے ٗ حکومت فرد کی آزادی پر کتنی قدغن لگا سکتی ہے اور
فرد حکومت پر کہاں تک تنقید کر سکتا ہے۔ اِس طرح اسلام کے معاشی اصول جدید زندگی میں کیا انقلاب لائیں گے
محنت کا اجر کیا ملے گا اور سرمائے کو کس حد تک پروان چڑھانے کی اجازت ہو گی اور
اجتماعی مصالح اور مفادات کا کس حد تک خیال رکھا جائے گا۔ مولانا نے اِن مباحث میں
جدید اصلاحات استعمال کیں اور جدید ترین معاشی نظریات کا پوسٹ مارٹم کیا
اِس لیے جدید تعلیم یافتہ طبقوں کو اُن کی باتیں سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی
اوروہ اسلام کی عظمت کے قائل ہوتے گئے۔
مولانا مودودی کا دوسرا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے اندر قرآن فہمی کا ذوق و شوق پیدا کیا۔ ہمارے زیادہ تر علماء نے قرآن سے زندگی کے معاملات میں راہنمائی حاصل کرنے کے بجائے
اِسے جھاڑ پھونک تک محدود کر دیا تھا۔ دوسری طرف مستشرقین نے اﷲ کی آخری کتاب پر ایسے
ایسے رکیک حملے کیے کہ ہمارے تجدد پسند اسکالر ڈگمگا گئے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ ہمارے بعض
مفسرین نے اِس کی تشریح و تفسیر کے ضمن میں ایسے ایسے مباحث چھیڑ دیے جن کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بیشتر تراجم اِس قدر اُلجھے ہوئے تھے کہ اﷲ تعالیٰ کا مدعا سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ مولانا کی تفہیم القرآن نے زبردست انقلاب برپا کر دیا ہے۔
نوجوانوں کا قرآن سے شغف بڑھتا جا رہا ہے اور اُنہیں ربِ کائنات کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے لذت آنے لگی ہے۔ اُردو زبان میں قرآن کی ترجمانی اتنے عمدہ اسلوب میں ہوئی ہے کہ زبان پر فصاحت و بلاغت میں
رچے ہوئے جملے ازخود زباں پر رواں ہو جاتے ہیں۔ زبان عام فہم اتنی اور رواں دواں ایسی کہ
موجوں کی روانی کا ایک سحر قائم ہو جائے۔ جلال بھی ہے اور جمال بھی ٗ بوندوں کی پھوار بھی ہے
اور بجلی کا کڑکا بھی۔ جیسے جیسے مضامین بیان ہوتے ہیں ٗ الفاظ اپنی کیفیات میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں۔
مولان سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ تجدیدی کام بھی کسی اعتبار سے کم نہیں کہ
اُنہوں نے اسلامی تاریخ کو مسلمانوں کی تاریخ سے مہمیز کیا۔
اُنہوں نے تاریخ میں اُتر کر یہ بتایا کہ اسلامی تہذیب کو روبہ زوال کن کن عوامل نے کیا ٗ کیا کیا فتنے اُٹھے
اور کہاں کہاں لغزشیں ہوئیں۔
اُن کا یہ بے لاگ تجزیہ احیائے اسلام کی کوششوں میں راہنمائی کرتا رہے گا
اور مسلمان حکمرانوں کی بے اعتدالیاں اسلام کے کھاتے میں نہیں ڈالی جا سکیں گی۔
مولانا کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اُنہوں نے اسلام کے تاریخی تسلسل اور عظیم روایات کے درمیان مضبوط رشتہ قائم رکھا
اور اجتہاد کا حق فقط اُن اصحاب کو دیا جو قرآن و حدیث اور فقہی لٹریچر پر کامل دسترس رکھتے ہوں
جن کی سیرت اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہو اور جو عصری مسائل کا ادراک اور اُنہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
مولانا نے پوری صراحت کے ساتھ یہ بھی ثابت کیا ہے اسلام کے اندر پاپائیت کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں۔
یہ حقیقت بھی ناقابلِ تردید ہے کہ مولانا اپنے دور کے بڑے ہی روشن خیال ٗ بڑے ہی معتدل مزاج
اور بڑے ہی جدت پسند ذہن کے انسان تھے۔ اُنہوں نے دینی معاملات کی تشریح اور تعبیر میں
حیاتیاتی ٗ نفسیاتی ٗ معاشی ٗ عمرانی اور بین الاقوامی تقاضے جس خوبی و عمدگی سے جذب کیے ہیں
وہ اُنہی کا خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں شدت نہیں۔ وہ انسانی فطرت کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں
اور دین میں بے جا تنگی اور سختی پیدا کرنے کے شدید مخالف اور انسانی جذبوں اور داعیوں کے
زبردست نبض شناس تھے۔ اُن جیسا بالغ نظر ٗ وسیع الظرف اور مکالمے پر یقین رکھنے والا دینی
اور سیاسی راہنما معلوم نہیں اب کب پیدا ہو۔ اﷲ تعالیٰ اُن پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا رہے۔