23 C
Lahore
Thursday, May 2, 2024

Book Store

ویلنٹائن کی حقیقت

ویلنٹائن کی حقیقت۔۔

ارم ناز

شام کے سات بج چکے تھے. وہ جلدی جلدی دفتر کے کام سمیٹتی کبھی کھڑکی سے باہر اور کبھی گھڑی کو دیکھ رہی تھی.
آج موسم کے تیور بھی بگڑے ہوئے تھے اور باس نے کام بھی زیادہ دے دیا تھا، جوں ہی اس کا کام مکمل ہوا، اس نے بیگ سنبھالا اور باہر کی جانب لپکی۔
دفتر سے باہر نکلتے ہی جنوری کی یخ بستہ ہواؤں نے اس کا استقبال کیا۔ ہر سو دھند خاموشی اور سرد ہواؤں کا راج تھا۔
ایک لمحے کو تو اس کا وجود کپکپا کر رہ گیا۔ جسم میں پھریریاں اُٹھنے لگیں لیکن پھر کسی کی فکر نے اس کےسارے احساس ختم کر دئیے۔ سوچوں کے بھنور میں گم ، سرد موسم سے بے نیاز وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر اپنے شوہر کا انتظار کرنے لگی۔ شدید دھند کے باعث حمزہ نے کہا تھا کہ وہ خود لینے آئے گا۔
گاڑی کا ہارن بجا ، دروازہ کھلا۔

وہ میکانکی انداز میں اُٹھی اور گاڑی میں جا بیٹھی ۔
’’معاف کرنا ماہم، آج کچھ دیر ہوگئی، دراصل کام والی نے کھانا بنانے میں دیر کر دی تھی‘‘۔ حمزہ نے کہا
’’کوئی بات نہیں حمزہ! کھانا تو لے آئے ہو؟‘‘
’’وہ تو لے آیا ہوں لیکن کھانے کا کرو گی کیا؟ کسے دینا ہے‘‘۔
کھانا۔۔قبرستان لے کے جانا ہے۔۔آج سردی بھی بہت ہے ‘‘۔
’’قبرستان؟؟
’’بس اب لے چلو حمزہ اور سوال نہیں، اسی لیے روزانہ میں خود ہی چلی جاتی ہوں‘‘۔
یہ بڑبڑاتے ہوئے، ماہم نے گاڑی کی سیٹ سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ جانے کیوں آج اس کا دل بہت بوجھل سا تھا۔ جیسے کچھ ہونے کو ہے۔حمزہ نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
اچانک بریک لگی تو ماہم کی آنکھ کھل گئی۔ حمزہ بولا؛
“ماہم! قبرستان آ گیا ہے، آؤ چلیں‘‘۔
حمزہ نے کھانے کا ڈبہ اٹھایا اور وہ ماہم کی پیروی میں قبرستان کی جانب چل پڑا۔ چند ہی قدم کے فاصلے پر ایک قبر کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی بنی تھی۔
ماہم  نے جھونپڑی میں جھانکا وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس  نے ادھر ادھر تلاش کرنا شروع کیا ۔۔اندھیری رات سرد موسم اور دھند میں ٹھیک سے دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا۔ تھوڑی کوشش سے چند گز کے فاصلے پر ایک وجود قبر سے لپٹے بے سدھ پڑا تھا، بکھرے بال، خستہ حالت، تن پر میلے کچیلے چیتھڑوں کی مانند کپڑے مگر ہوش و حواس سے بیگانہ۔
ماہم  نے دیکھتے ہی آواز دی،
’’ اماں، اماں جی۔‘‘ لیکن جواب ندارد۔ نہ ہی کوئی جنبش ۔اس نے دیوانہ وار آگے بڑھ کر انہیں ہلایا جلایا لیکن وہ بے جان وجود جانے کب سے اپنے خالق سے جا ملا تھا۔
روتی بلکتی ماہم کو اٹھاتے ہوئے جب حمزہ نے قبر کے اس کتبے کو دیکھا جس سے اماں جی لپٹی تھیں تو سکتے میں آ گیا۔
’’سارہ بنت شاہد‘‘

۞۞۞

ماہم مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ تم مجھ سے اتنی بڑی بات چھپا سکتی ہو۔ سارہ کا انتقال ہو چکا ہے! اور تم نے مجھے کبھی بتایا ہی نہیں۔ کالج کے دنوں میںہر وقت تم اس کی باتیں کرتی رہتی تھی۔ میں باہر پڑھنے گیا تب بھی ہر فون کال پر تم اپنی اور سارہ کی شرارتیں بتاتی تھی۔

میں بھی کہوں جو دوست تمہیں اتنی عزیز تھی۔ دل و جان کے اتنے قریب تھی، تم سے اتنی غافل کیسے ہو گئی؟
وہ ہماری شادی پر کیوں نہیں آئی؟ کبھی ملی کیوں نہیں؟ ایک دم سے اس کا ذکر تمہاری زبان سے کیسے ختم ہو گیا؟ اور وہ اماں۔۔وہ اماں کون تھیں؟؟
ماہم نے اشکبار آنکھوں سے حمزہ کو دیکھا اور گویا ہوئی۔

۞۞۞

ساڑھے چار ہزار،۔ پانچ سو اور مل جائیں تو  اچھا سا تحفہ مل جائے گا۔کیا کروں؟ سوچ سارہ، سوچو۔

ارے ہاں! چپکے سے جا کے امی کے پرس سے نکال لیتی ہوں۔ انہیں کیا پتا چلے گا؟ ویسے بھی وہ تو سو چکی ہیں۔ چلو پھر پہلے یہ کام کر لیں۔
جیسے ہی سارہ پیسے نکال کے کمرے میں آئی۔ موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی۔ٹرن۔۔دوسری جانب اس کی سب سے پیاری اور قریبی دوست ماہم تھی۔
’’ہیلو! ماہم کیسی ہو؟ ‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں سارہ، تم کیا کر رہی تھی؟‘‘
’’میں بھی اے ون،(ہنستے ہوئے) بس ذرا پیسوں کا حساب کتاب لگا رہی تھی‘‘۔
’’وہ کس لیے؟‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ، ماہم تم نے حمزہ کو دینے کے لیے تحفہ خرید لیا کہ نہیں؟‘‘
’’کس چیز کا تحفہ سارہ؟ صبح کون سا اس کی سالگرہ ہے؟‘‘
’’ارے پاگل ماہم! صبح ویلنٹائن ڈے ہے نا۔
۱۴ فروری، محبت کرنے والوں کا دن۔میں تو علی کو تحفہ ضرور دوں گی اور اس کے لیے پچھلے مہینے سے پیسے جمع کر رہی تھی، علی کا پسندیدہ پرفیوم خریدوں گی اور مزے کی بات بتائوں پانچ سو روپے امی کے پرس سے بھی چرائے ہیں‘‘۔
سارہ! میں نے پہلے بھی تمہیں منع کیا تھا کہ علی اچھا لڑکا نہیں ہے، وہ تمہارے ساتھ کچھ بھی غلط کر سکتا ہے۔ اس شخص پر اعتبار مت کرو، جو تم سے صرف لفاظی کر کے اپنا دل بہلا رہا ہے، وہ اچھا انسان کیسے ہو سکتا؟
اس کے لیے تم اپنے ماں باپ کو دھوکا دے کر پیسے بھی چرا رہی ہو۔۔

یہ کتنی غلط بات ہے۔ آنٹی انکل کی تم اکلوتی اولاد ہو اور وہ تم سے کتنا پیار کرتے ہیں تمہیں اندازہ بھی ہے؟ اور ویلنٹائن جیسی خرافات پتا نہیں کہاں سے ہمارے ملک میں آ گئی ہے۔
جس کی نہ ہمارا مذہب اجازت دیتا ہے نہ معاشرہ۔ بس تم جیسی لڑکیوں کو بیوقوف بنانے کے لیے لڑکوں کے یہ حربے ہیں‘‘۔
اچھا ماہم بی بی! (غصے سے) اب میرا موڈ خراب نہ کرو، ہر وقت تم علی کے حوالے سے ٹوکتی ہی رہتی ہو۔میں اس وقت تمہارا یہ وعظ نہیں سن سکتی۔
کل پہلے تحفہ خریدوں گی، پھر علی سے ملنے اس کے گھر جاؤں گی اور ہاں اس نے کہا تھا کہ وہ اپنے والدین سے بھی مجھے ملائے گا اور تم پر ثابت کر دوں گی، وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا اس لیے تو اپنے گھر والوں سے ملا رہا۔‘‘

یہ کہہ کر سارہ نے نہ صرف کال ختم کر دی بلکہ فون بھی بند کر دیا۔

۱۳ فروری کی رات میں اسے بار بار فون کرتی رہی کہ منع کروں۔ وہ علی کے گھر جانے کی غلطی نہ کرے۔ صبح کالج بھی جلدی گئی لیکن وہ کالج آئی ہی نہیں۔
واپسی پر آنٹی جب اسے لینے آئیں تو وہ بھی میری ہی طرح پریشان اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔ اس کا فون بند اور وہ خود لاپتا تھی۔

حمزہ ! مجھے کیا پتا تھا میری سارہ سے یہ آخری بات ہو گی؟ میں اسی وقت آنٹی انکل کو بتا دیتی، وہ اسے روک لیتے۔ کالج ہی نہ جانے دیتے‘‘۔
سارہ کی گمشدگی پر انکل آنٹی کو علی کے بارے میں بتایا تو انہوں  نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن نہ سارہ کا پتا چلا اور نہ ہی علی کا کوئی سراغ ملا۔
’’چار دن بعد سارہ ملی لیکن زندہ نہیں بلکہ مردہ۔۔آہ! میری پیاری دوست۔ سارہ کو علی نے اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کے مار دیا تھا اور اس کی لاش کو مسخ کر دیا، تاکہ شناخت نہ ہو سکے۔

انکل اپنی بیٹی کی یہ حالت برداشت نہ کر سکے اور ہارٹ اٹیک سے چل بسے اور آنٹی۔؟انھیں  پے در پے صدمات نے پاگل سا کر دیا۔

وہ نیم دیوانہ وار جگہ جگہ ہر کسی سے کہتی پھرتی تھیں،’’ اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرو۔ ان کودرندوں سے بچا لو‘‘۔
’’حمزہ !جب سے مجھے آنٹی کے بارے میں پتا چلا روزانہ ان کے لیے کھانا لے کر چلی جاتی تھی۔
میں نے کئ بار کوشش کی آنٹی کو اپنے گھر لے آؤں۔ ان کو اسپتال بھی لے کے گئی لیکن ہر بار وہ وہاں سے بھاگ کر اپنی بیٹی کے پاس آ جاتی تھیں، جس میں ان کی جان بستی تھی۔
مجھے نفرت ہے اس ویلنٹائن اور اس طرح کے مغرب زدہ تہواروں سے۔ اس دن کو منانے کے لیے میری دوست اپنی عزت و جان سے گئی۔

حمزہ !ہم نوجوان نسل ان فضول اور واہیات تہواروں کو کیوں سچ مان کر اپنی عزت اور آبرو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
ہم کیوں نہیں سوچتے جدت پسندی کے نام پر بے حیائی کے یہ تہوار ہمارے نہیں بلکہ اغیار کے ناپاک اذہان کی پیداوار ہیں۔
جو ہمارے بچوں کے اخلاق و کردار کو تباہ کر دیں گے۔

ہم کیوں بے حس ہو گئے ہیں؟ ہم اپنے والدین کو چھوڑ، کسی غیر مرد پر کس طرح اعتبار کر بیٹھتے ہیں؟ ہماری ایک غلطی انھیں زندہ درگور کر دے گی ۔
کیوں نہیں سوچتے ہمارے بعد ہمارے والدین کا کیا ہو گا؟ وہ کیسے جئیں گے؟ کاش کہ ہم سنبھل جائیں۔ اپنے دین کے احکامات پر عمل کریں تو کوئی سارہ بھی رسوا نہ ہو۔
کوئی گھر نہ اجڑے۔ کوئی بھی ماں یوں بےیار و مددگار نہ مرے‘‘ ۔

ایسی کئی سارہ اور ان کی کہانیوں آپ کو اپنے اردگرد دیکھنے اور سننے کو ملتی ہوں گی۔ بس ذرا غور کرنے کا وقت ہے کہ ویلنٹائن جیسا تہوار منانا ضروری ہی کیوں ہے؟
اور پھر اس کو منانے کے لیے کسی غیر مرد پر اندھا اعتبار کرنا؟ کسی غیر مرد سے راہ و رسم بڑھانا جبکہ ہمارا دین اور معاشرہ بھی اس کی اجازت نہیں دیتا، کیا ٹھیک ہے؟؟
اگر جواب ’’ناں ہے‘‘ تو پھر تباہی تو مقدر بنے گی ہی۔ ذرا غور کریں۔


ویلنٹائن کی تاریخ

محبت کے نام پر چودہ فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے،
ایک ایسا غیر اسلامی تہوار ہے ،
جس کے متعلق بہت سی تاریخی روایات تو موجود ہیں،
لیکن وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ روایات سچ پر مبنی ہیں یا کسی انسان کی بے لگام خواہشات اور ذہنی اختراع  نے اسے معاشرے میں رواج دیا۔
ایک داستان تو یہ مشہور ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں روم پر کلا ڈیوس دوم کی حکومت تھی۔
بادشاہ کو لڑنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے مضبوط فوج تیار کر کے دشمن ممالک پر حملہ کر دیا۔جنگ جب طوالت اختیار کر گئی اور بہت سے فوجی مارے گئے تو وہ ازسرِنو بھرتیاں کرنے لگا تاکہ دوبارہ بھرپور حملہ کیا جا سکے ۔
لیکن اس بار کلاڈیوس نے دوبارہ جنگی لشکر کی تیاری کا حکم دیا تو اسے بہت دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
جب وجوہ کا پتا لگایا گیا تو بادشاہ پر عیاں ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر طویل جنگ پر جانے کے لیے راضی نہیں۔
اس مسئلے کے حل کے لیے بادشاہ نے کہا، کیونکہ کنوارہ نوجوان زیادہ بہادری سے لڑتا ہے۔ اس لیے نیا قانون بنا کر شادی پر پابندی لگادی جائے۔
فوجی لشکر میں شامل ہونے سے اس لیے کتراتے تھے۔ کیونکہ اس دور میں لشکر بہت لمبے عرصے محاذ پر رہتے تھے ۔
کئی مرتبہ مہینوں اور بعض دفعہ سالوں وہ اپنے عزیز و اقارب سے نہ مل پاتے۔ نہ ہی ان کی خیر خبر ہوتی تھی۔
ان ہی دنوں روم کے کیتھولک چرچ میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری تھا۔
ایسی صورتحال میں ویلنٹائن پادری نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، لوگوں کی خفیہ شادیاں کروانا شروع کر دیں۔
بادشاہ کو جب معلوم ہوا تو اس نے نہ صرف ویلنٹائن کو گرفتار کیا بلکہ اس جرم کی پاداش میں چودہ فروری کو اسے پھانسی دے دی گئی۔

تاہم دیگر داستانیں یہ بھی بتاتی ہیں
ویلنٹائن چونکہ خود عیسائی تھا تو وہ رومی بادشاہ کی قید سے تشدد کا نشانہ بننے والے مسیحیوں کو فرار کرواتا تھا اور اسی لیے اسے سزائے موت دی گئی۔
دوسری حکایت یہ ہے کہ اس دن کا آغاز تقریباً ۱۷۰۰ سال قبل رومیوں کے دور میں ہوا۔ جب وہاں بت پرستی عام تھی۔
ویلنٹائن نامی ایک پادری کو بت پرستی اختیار نہ کرنے کے جرم میں اسے سزائے موت سنائی گئی۔
وہ جب جیل میں قید تھا تو وہاں قیدیوں میں مسیحیت کا پرچار کرتا تھا۔ اس کا درس سننے کے لیے تمام قیدی ایک جگہ جمع ہو جاتے تھے۔

ایک دن جب جیلر کی بیٹی اپنے باپ سے ملنے جیل آئی تو ویلنٹائن نے اسے دیکھا اور اس کی محبت میں گرفتار ہوگیا۔
ویلنٹائن قید کے ان ایام میں اکثر اسے محبت بھرے خطوط لکھتا اور اس سے خفیہ ملاقاتیں بھی کرتا تھا، حالانکہ مسیحیت میں راہب کسی سے ایسے تعلقات استوار نہیں کر سکتے۔
پھانسی سے قبل بھی اس نے جیلر کی بیٹی کو آخری خط لکھا جس کے آخر میں درج تھا:
’’تمہارا ویلنٹائن‘‘،یہ واقعہ بھی چودہ فروری کا ہے۔
اس طرح ویلنٹائن پادری کی تقلید میں محبت کے اظہار کے لیے خط و کتابت اور کارڈز کا یہ سلسلہ بعد میں رواج پا گیا۔
اس حوالے سے تیسری کہانی یونانی دیوی دیوتاؤں سے منسوب ہے۔
چودہ فروری کا دن رومی دیوی یونو ’’جو عورتوں اور شادی بیاہ کی دیوی ہے۔‘‘ کا مقدس دن مانا جاتا ہے۔

جبکہ بعض کے مطابق قدیم رومی باشندے تیرہ سے پندرہ فروری تک اپنے ایک دیوتا’’ لوپرکیلیا‘‘ کے نام پر میلا منعقد کرتے تھے۔جس کے آغاز پردو بکرے اور ایک کتا ذبح کیا جاتا تھا۔ بکروں کی قربانی اچھی فصلوں اور کتا روحانی درجات بلند کرنے کے لیے قربان کیا جاتا۔

جس کے بعد وہ دیوتاؤں سے بدی کی طاقتوں سے نجات، معاشرے کو اچھائی کی طرف راغب کرنے اور زمین کی زرخیزی کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔
قدیم روم میں جوان لڑکے اور لڑکیوں کی ملاقات اور میل جول پر سخت پابندی تھی، سوائے اس ایک میلے کے۔
اسی تہوار پر گائوں کی تمام لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیے جاتے اور مرد بغیر دیکھے جس لڑکی کا نام نکالتے وہ اگلے سال میلے تک اس کی ساتھی اور بعض اوقات شریکِ حیات بن جاتی تھی،
لیکن میلے کی تمام رسومات غیر اسلامی اور لغویات پر مبنی ہوتی تھیں۔
تاہم ان مختلف کہانیوں کے باوجود ویلنٹائن ڈے کی حقیقت آج تک پراسرار ہی ہے۔ جس پر سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
پانچویں صدی عیسوی کے اختتام پر اس دن کو عیسائیت میں ممنوع قرار دیا گیا
مگر پاپائے روم پوپ گیلاسئیس نے باقاعدہ اعلان کر کے چودہ فروری کو تہوار کے طور پر سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کر کے اسے منانے کی عام اجازت دے کر، فحاشی کے اس تہوار کو رائج کر دیا۔


پہلا ویلنٹائن ڈے

کہا جاتا ہے کہ پہلا باقاعدہ ویلنٹائن ڈے ۲۰۷ء میں منایا گیا۔ قرون وسطی کے دور میں بھی ویلنٹائن کی مبارکبادی جاتی تھی ، لیکن ویلنٹائن کی باقاعدہ تحریری یا کارڈز کی شکل میں مبارکباد کا آغاز ۱۴۱۵ء میں ہوا۔
۱۴۱۴ء میں ’’اینگن کورٹ‘‘ کے مقام پر جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں ڈیوک آف آرلینز فرانسیسی شاعرکو گرفتار کر کے لندن ٹاور میں قید کر دیا گیا۔ تو اس نے فروری ۱۴۱۵ء میں اپنی بیوی کے نام ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے ایک نظم لکھی۔
اور اپنی بیوی کو بھجوائی (اس مسودے کو برٹش لائبریری لندن میں محفوظ کر کے رکھا گیا ہے)۔ یہ دنیا میں ویلنٹائن ڈے کا پہلا کارڈ تھا۔


ویلنٹائن ڈے کے تحائف

اٹھارویں صدی کے وسط تک لوگ چھوٹے موٹے تحائف اور ہاتھ سے تحریر شدہ مسودوں کے ذریعے ہی ایک دوسرے کو اس دن کی مبارکباد دیتے تھے، لیکن ۱۸۴۰ء میں ایسٹر اے ہولینڈ نے امریکا میں بڑے پیمانے پر ہاتھ سے مختلف ڈیزائن و اشکال سے تیار شدہ ویلنٹائن کارڈ فروخت کرنے کا آغاز کیا۔ ہولینڈ ، کو’’ویلنٹائن کارڈز کی ماں‘‘کہا جاتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کام  نے صنعت کی حیثیت اختیار کر لی۔
۱۹۱۰ء میںامریکن ’’ہال مارک‘‘ کمپنی نے خصوصی طور پر ویلنٹائن ڈے کے کارڈوں کی طباعت کا آغاز کے کے اس دن کی مقبولیت میں مزید اضافہ کر دیا۔
ویلنٹائن کے دن پر کارڈوں کے ساتھ چاکلیٹ دینے کا رواج برطانیہ میں شروع ہوا،
جب ۱۸۶۸ء میں رچرڈ کیڈبری نے ویلنٹائن پر چاکلیٹس اور کینڈیز کے خوبصورت دل کی شکل والے ڈبے دینے کا آغاز کیا۔
پھر بیسویں صدی کے آغاز میں ملٹی نیشنل کمپنیوں  نے کارڈز، پھولوں اور چاکلیٹس کے لیے باقاعدہ اشتہاری مہم شروع کر دی۔ ویلنٹائن ڈے اس قسم کی تجارت کے لیے بڑا سنہرا دن تھا۔


اعداد و شمار

ایک اندازے کے مطابق امریکا میں کرسمس کے بعد یہ دوسرا بڑا تہوار ہے۔
اوسطاً ایک امریکی اس دن ۱۰۰ سے ۱۵۰ ڈالر تحفہ خریدنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ اس دن تقریباً ۱۴۵ ملین کارڈز (کرسمس سے بھی زیادہ) ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔،
جن میں ۸۵ فیصد خواتین بھیجتی ہیں۔ جبکہ ۷۳ فیصد مرد پھولوں کو تحفے کے طور پر دیتے ہیں۔سال ۲۰۲۰ء میں امریکی شہریوں نے ویلنٹائن کی مد میں ۲۷ اعشاریہ ۴ بلین ڈالر خرچ کیے۔
۳۶ ملین سے زیادہ دل کی شکل والے چاکلیٹ کے ڈبے فروخت ہوئے۔
۳ اعشاریہ ۳ ملین ڈالر پھولوں کی خریدوفروخت پر صرف کیے گئے۔ مزید برآں ریستورانوں میں کھانا، زیورات، کپڑے اور دیگر تحائف بھی اس دن دئیے جاتے ہیں۔


اسلام اور ویلنٹائن

بحیثیت مسلمان ہم پر فرض ہے کہ ہم اللہ کے دین پر عمل کریں۔
اسلام تو حیا کا دین ہے۔ یہ ہمیں نیکی کرنے کا حکم دیتا اور برائی و بے حیائی سے روکتا ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
’’ہر دین میں کوئی نہ کوئی امتیازی اور اخلاقی خوبی ہوتی ہے۔ اسلام کی امتیازی خوبی حیا ہے‘‘(سنن ابن ماجہ ۴۱۸۱)۔
صد افسوس مسلمان اور مسلم ملک کے باسی ہونے کے باوجود ہم مغرب کی اندھی تقلید میں مذہب سے بہت دور ہو چکے اور الہامی کتاب کے حکم کو فراموش کر کے ایسے کام سرِعام کرتے ہیں، جو ہمارے دین کا حصہ نہیں۔
جس کی ایک مثال ویلنٹائن ڈے کا منانا ہے۔ جس کے ہر پہلو میں بے پردگی و بے حیائی کا عکس نمایاں ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سوہ نور میں فرماتا ہے؛
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو
جو شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے تو وہ تو بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے
اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے‘‘(آیت ۲۱)۔
اسلام نے تو ہمیشہ پاکیزگی و حیا کی تعلیم دی ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے؛
’’(اے نبی) مسلمان مردوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے بہت پاکیزہ (حکم ) ہے،
بے شک اللہ ان کے کاموں سے خبردار ہے۔ اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
اور اپنی پاک دامنی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں‘‘ (سورہ نور۳۰۔۳۱)
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہم پر واضح کر دیا کہ ان کی امت میں کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے
جو غیر اللہ کی شباہت اختیار کر کے ان کی پیروی کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ جس نے بھی کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے ‘‘۔
(مسند احمد۵۰/۲ )، سنن ابوداؤد ۴۰۲۱)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا، وہ من و عن مسلم امہ میں وقوع پزیر ہو چکا ہے۔
ذرا‏ئع ابلاغ کی ہر خاص و عام تک رسائی اور بھی دعوتِ برائی دے رہی۔ نتیجتاً مغرب سے متاثر ہو کر نہ صرف پاکستانی بلکہ دیگر اسلامی ممالک کے نوجوان بھی خوشی سے ان کی تمام فسخ رسومات اور تہوار کو منانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔


پاکستان میں ویلنٹائن ڈے

ملکِ خدادا میں اگر نوؔے کی دہائی سے پہلے نگاہ دوڑائیں تو ویلنٹائن، ہیلووین، نیو ائیر، مدر، فادر ڈے یا ایسے کسی دن کا کوئی نام و نشان نظر نہیں آئے گا ۔
اس سنہرے دور میں، لوگوں کی زندگیاں حد سے زیادہ ٹیکنالوجی کے زیرِاثر نہیں تھیں۔ والدین اور اولاد، دونوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا۔
والدین بچوں کی تعلیم و تربیت اور انہیں اپنے اسلاف کی اقدار و روایات سے روشناس کروانے کی بھر پور کوشش کرتے تاکہ وہ اغیار کا طرزِ زندگی نہ اپنا لیں۔
مگر جب وطنِ عزیز میں ترقی کے نام پر، پرائیویٹ میڈیا چینلز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی یلغار ہوئی، تو نوجوان نسل جو بہت سی لغویات سے بچی ہوئی تھی،
ان کو محفوظ رکھنا ممکن نہ رہا۔
جب آزادیٔ صحافت کا نعرہ لگایا گیا تو میڈیا نے آہستہ آہستہ مغربی ثقافت وبیہودہ روایات کو فروغ دینا شروع کیا
جو ہمارے مذہبی و ثقافتی دستور کے منافی تھیں۔ بچے تو بچے والدین بھی جدت پسندی کا نام پر، اس کا شکار ہو گئے ۔
نتیجتاً، وہ نوجوان بچے جو ماں باپ اور بزرگوں کے زیرِ سایہ رہ کر اعلیٰ اخلاقی اقدار اور تربیت میں پروان چڑھتے تھے۔ وہ سب کچھ میڈیا سے سیکھنے لگے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا میڈیا اور ماڈرن ازم بن گیا۔
یوں ہر مغربی تہوار سے مشرق کا نوجوان واقف ہو گیا۔
سونے پر سہاگہ کہ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں موجود ’’نام نہاد روشن خیال اور آزاد‘‘ طبقے نے اس بیہودہ دن کو مغرب کے زیرِ اثر ترویج کر کے اسے باقاعدہ بطور پر تہوار کا روپ دے دیا ہے۔
ٹی وی چینلوں پر اس حوالے سے مارننگ شو پیش کیے جاتے ہیں۔
براہِ راست خصوصی پروگرام نشر ہوتے اور ڈرامے چلائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس تہوار کو مزید مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے۔
مستزاد یہ کہ شاپنگ مالز، مارکیٹیں اور ریستوران بھی پھولوں اور سرخ غباروں سے سجا دئیے جاتے ہیں۔ جن افراد کو ان تہواروں کے بارے میں نہیں پتا ہوتا، وہ بھی اتنی سجاوٹ اور جوش و خروش دیکھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید برآں کالجز اور یونیورسٹیوں میں اس دن باقاعدہ تقریبات اور میوزیکل نائٹس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
یہ سب دیکھ کر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر سال اس کو ’’عالمی یوم محبت ‘‘اور ’’ یوم تجدید محبت ‘‘ کے طور پر منانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں۔
کیا یہ سب اسلامی معاشرے سے میل کھاتا ہے؟
یقیناً نہیں۔
یوں تو فروری ۲۰۱۷ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عوامی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو مسلم ثقافت کے منافی قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی۔
پاکستان الیکٹرنک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو بھی ہدایت کی تھی کہ وہ ویلنٹائن ڈے کے حق میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی چینلوں کی نگرانی کرے۔ خلاف ورزی کی صورت میں تادیبی کارروائی کی جائے۔
لیکن اس کے باوجود یہ تہوار ہمارے ملک میں اپنے پنجے گاڑھے ہوئے موجود ہے۔
یوں تو بہت سے طبقۂ فکر اور مذہبی رحجان رکھنے والے اصحاب لوگوں کو اس خرافات سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
۲۰۰۹ء میں اسلامی جمعیت طلبہ نے اس بے حیائی کے دن کو ’’یومِ حیا‘‘ کے طور پر منایا شروع کیا تاکہ نوجوانوں میں ایسی سوچ اجاگر ہو کہ وہ خود ہی ایسے لغو تہواروں سے بچیں۔ اپنے کردار و اخلاق پر توجہ دیں لیکن،
ان کوششوں کے باوجود مغرب کا دلدادہ ماڈرن طبقہ اس تہوار کو انتہائی جوش و خروش سے مناتا ہے۔
لمحۂ فکریہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت خداداد میں ویلنٹائن، ہیلووین، اور نیو ائیر جیسے ایام کو جان بوجھ کر دوام بخشا جا رہا
تاکہ یہاں کے نوجوان لا دینیت اور بے حیائی جیسے کاموں میں مصروف ہو کر رہ جائیں۔
پاکستان بالخصوص مسلم امہ کے نوجوانوں میں جدت پسندی اور آزاد خیالی سوچی سمجھی سازش کے تحت پیدا کی جا رہی ہے
تاکہ مسلمان اپنے حقیقی مقصد سے پیچھے ہٹ کر رقص و سرور میں ہی گم ہو کر رہ جائیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم نوجوانوں میںا خلاق و کردار کو پروان چڑھانے کے لیے ایسے پروگراموں کا اہتمام کیا جائے
کہ وہ اس طر ح کے تمام لغو و واہیات تہواروں سے خود ہی بائیکاٹ کر کے
خود کو اخلاق و کردار کا وہ خوبصورت نمونہ بنائیں،
جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گُفتار میں، کردار میں، اللہ کی برُہان!

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles