32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

عہدِ حاضر میں کھیلوں کی اہمیت

عہدِ حاضر میں کھیلوں کی اہمیت

 تحریر: محمد توفیق
ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ
پی او ایف واہ کینٹ

کھیل کی کہانی دراصل انسانی تہذیب و تمدّن کی کہانی ہے۔ عہدِ حاضر میں کھیلوں کو سماجی تقدّس حاصل ہے اور یہ انسانوں کی کردار سازی، باہمی رواداری اور عالمی بھائی چارے کےلطیف ترین جذبات کو فروغ دینے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ انسانی تہذیب کو بنانے اور سنوارنے میں ادب ،فلسفہ اور فنونِ لطیفہ کے علاوہ جس عنصر نے اہم ترین کردار ادا کیا ہے وہ کھیل ہی ہے۔
دراصل انسانی جسم ایک عظیم عطیہ خداوندی ہے جس کی ترتیب کےساتھ حفاظت ، دیکھ بھال اور پرورش ایک مقدس فریضہ ہے۔ قدیم اولمپکس کا تو یہی فلسفہ اور روح تھی۔ اسی لیے تو وہٹ مین نے کہا ہے کہ ” دنیا میں اگر کوئی چیز مقدس ہے تو انسانی جسم ہے”۔
کھیلوں کی تاریخ کا مطالعہ دراصل انسان کی بتدریج شعوری ترقی کا مطالعہ ہے۔ جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند اور تندرست قوموں کو ہی فطرت بنی نوع انسان کی قیادت سونپتی ہے۔ آج دنیا میں عسکری ، اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں انہی قوموں کو عروج حاصل ہے جو کھیل کے میدان میں سرِ فہرست ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2025ء میں عوامی جمہوریہ چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے “عالمی لیڈر ” کا درجہ حاصل کر لے گا اور یوں اس مقولے کو سچ ثابت کر دکھائے گا کہ “دنیا میں بہترین دماغ انگریز کا، بہترین زبان عربوں کی اور بہترین ہاتھ چینیوں کے ہیں”۔
سو تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اقتصادی پیمانے یعنی جی ڈی پی فی کس آمدنی وغیرہ کی بجائے کھیل کے میدان میں برتری ہی دراصل زندہ معاشروں کی ترقی کا اصل پیمانہ ہوا کرتی ہے۔فی کس آمدنی جیسی اقتصادی اصلاحات تو گمراہ کُن ہیںجس میں آپ چند لوگوں کے عیش کی اوسط نکال کر پوری آبادی پر پھیلا دیتے ہیں۔
کرونا کی حالیہ وبا نے بھی نسلِ انسانی کو چتاؤنی دے ڈالی ہے کہ وہ سالانہ 2 ٹریلین ڈالرزاسلحہ و گولہ بارود کی تیاری میں جھونکنے کی بجائے انسان کی صحت کی سہولتوں اور معیارِ زندگی پر صَرف کرےتبھی ہم ایک مہذّب، پرسکون اور محفوظ دنیا کے باسی کہلائے جا سکتے ہیں کہ جون ایلیا کے بقول :۔

بستیاں چاند ستاروں پہ بسانے والو
کرۂ ارض پہ بجھ رہے ہیں چراغ

کھیلوں کی تاریخ

تاریخِ انسانی میں کھیلوں کا آغاز کب، کہاں اور کیونکر ہوا؟ اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی رائے دینا تو ممکن نہیں لیکن یہ امر یقینی ہے کہ کھیلوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی حضرتِ انسان کی۔ جب سے حضرتِ انسان نے دماغ سے کام لینا شروع کیا وہ اپنے ماحول میں موجود جانوروں، چرند پرند اور اپنے جیسے انسان کو مسخر کرنے کے طریقے سوچتا رہا۔
یہ بنیادی طور پر فطرت پر قابو پالینے کو خواہش ہی تھی جس کے زیرِ اثر اس نے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو مضبوط اور بہتر بنانے کے لیے ورزش کا انداز اختیار کیا اور عقلِ سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے ان علوم میں مہارت پیدا کی جس کی بدولت وہ جنگلی جانوروں کا شکار اور انسان سے جنگ و جدل میں برتری حاصل کرنے کے قابل ہو سکے۔
ہر چند کھیلوں کے آغاز کے حوالے سے تاریخ دھندلی ہی سی تصویر مہیا کر پاتی ہے لیکن تمام قدیم تہذیبوں میں کھیل کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ قدیم مصری تیراکی، دوڑوں ، کشتیوں، تیر اندازی اور گیند سے کھیلی جانے والی کھیلوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔
یونانی اور رومی رتھوں کی دوڑ، جیولن تھرو، ڈسکس، ہیمر تھرو اور ایسے کھیل جن میں جانوروں اور مشینوں سے مدد لی جاتی تھی، میں شرکت کیا کرتے تھے۔ فرانس ، افریقہ اور آسٹریلیا کے غاروں میں تیس ہزار سال قبل کے ایسے آثار ملے ہیں جن کے مطابق اس عہد کا انسان تیراندازی کے فن میں یکتا تھا۔
اہرامِ مصر کی دیواروں پر ایسی علامتیں کندہ ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم مصری تیراندازی میں مہارت رکھتے تھے۔ قدیم اور تہذیبوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کھیلوں کی مختلف سرگرمیوں میں دلجمعی سے حصہ لیتے تھے۔ ان کا یہ عمل گویا اپنی بقا کی خاطر شکار کے علم سے آگاہی کا غماز تھا۔
سو کھیل کی اصل روح آغاز ہی سے خود کو جنگ و جدل اور دشمنوں سے بچاؤ کے لیے تیار کرنے میں پوشیدہ رہی ہے۔ قدیم یونانی تو قدیم اولمپک کھیلوں کے بانی بھی تھے۔
یورپ میں رینیسانس کے بعد کھیلوں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ بالخصوص پولو کا کھیل امراء اور فٹبال کا کھیل غریب طبقے میں پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
جدید عہد بالخصوص انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب کے باعث عوام کو خوشحالی ، سکون اور فراغت نصیب ہوئی اور صحتمند سرگرمیوں کے لیے وقت میسر آیا تو کھیل علاقائی، قومی اور عالمی سطح پر منظم ہوئے۔ اولمپک کے احیاء  نے ان کی دلچسپی اور ذوق و شوق میں اضافہ کیا اور کھیلوں کی عالمی تنظیمیں معرض وجود میں آئیں۔
گریٹ ڈپریشن کے دوران عوام  نے سستی کھیلوں یعنی سافٹ بال اور باؤلنگ میں دلچسپی لی۔ بیسویں صدی میں ٹیلی وژن پر کھیلوں کے مقابلوں نے ایک بڑے کاروبار کی شکل اختیار کر لی۔ انگلش پبلک سکولوں میں ان بیشتر کھیلوں کے قواعد و ضوابط ترتیب پائے اور امراء کے زیرِ اثر ان کھیلوں میں اور کے تصور نے اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔
جدید اولمپک کھیلوں کا بانی “کو برٹن” بھی انگلش پبلک سکول نظام میں جنم لینے والی کی تعلیمات اور اخلاقیات سے بہت متاثر تھا جن کی مدد سے کھیلوں میں حصہ لینے کا بنیادی مقصد کردار سازی ہونا چاہیے نہ کہ مالی منفعت۔
دراصل 1870ء میں جرمن باشندے ارنسٹ کرٹیئس کے ہاتھوں قدیم اولمپیا کی دریافت نے اہل یورپ کو جیسے رومانس میں مبتلا کر ڈالا۔ شیکسپیئر ، ملٹن اور والٹیئرز جیسے عظیم اہلِ علم نے اپنی تحریروں میں اولمپیا کا ذکر اتنی خصوصیت کے ساتھ کیا کہ کھیلوں کے مختلف مقابلوں کو اولمپکس کا نام دینے کا گویا فیشن اور رواج سا ہو گیا۔ 1840ء اور 1850ء کی دہائی میں دو قدیم یونیورسٹیوں آکسفورڈ اور کیمبرج نے کھیلوں بالخصوص کشتی رانی اور اتھلیٹکس کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
سکولوں نے غیر منتظم ، غیر واضح نوکیلے کھیلوں کے کھردرے پن کے کونوں کو تراش خراش کر انہیں قابلِ عمل اور مقبولِ عام بنا دیا اور قوانین کے سانچے میں ڈھال کر انہیں مہذّب اور جدید شکل دی۔
برّاعظم یورپ کے دیگر ممالک کی کہانی برطانیہ اور امریکہ سے مختلف رہی لیکن بنیادی ہدف اور نکتہ یہی رہا کہ جسمانی ورزش کی خواہش اور مقبولیت ان ممالک میں بھی اپنے اپنے انداز سے پروان چڑھتی گئی ۔
کون سا طریقہ یا انداز زیادہ بہتر ہے؟ اس پر البتہ عالمانہ بحث بھی زوروں پر رہی مثلاً جرمنی میں جمناسٹک کو اپنے مخصوص سماجی اور سیاسی نظریات کے زیرِ اثر فروغ دیا گیا۔ جرمن قومیت پسند لیڈر فریڈرک لڈونگ  1778 – 1852 ) نے اسے ٹرنوویٹ کا نام دیا۔
سویڈش میں پہرہنر لنگ ( 1776 – 1839 )کے فلسفے کے زیرِ اثر اپنے برانڈ کے جمناسٹک کو فروغ دیا۔ فرانس میں البتہ معاملہ مختلف رہا وہاں روایتی اعتبار سے امراء اور عسکری حلقوں میں مقبول کھیل یعنی گھڑ سواری، نشانہ بازی، شمشیر زنی اور بعد ازاں 1880ء میں سائیکل کی ایجاد کے بعد سائیکلنگ کو مقبولیت حاصل ہوئی جس سے وہاں سائیکلنگ کے سٹیڈیم یعنی “ویلیوڈروم” تعمیر ہوئے جہاں مختصر سے لے کرطویل فاصلے کی ریس منعقد ہوا کرتی تھی۔
بعد میں یہ سائیکل دوڑیں سڑک پر آ گئیں جس کے باعث آج فرانس “ٹور ڈی فرانس” کے لیے دنیا بھر میں مقبول ہے۔ دراصل فرانس کی سیڈان کے مقام پر 1870ء میں جرمنوں کے ہاتھوں شکست نے وہاں سوچ میں بنیادی تبدیلی پیدا کی۔ اہلِ علم نے فرانسیسی نوجوانوں کی تن آسانی کوقومی زوال اور گراوٹ کی بڑی وجہ قرار دیا۔
اس سوچ کے زیرِ اثر متوسط طبقے کو ورزش کی جانب مائل کرنے کے لیے جمنازیم کی وسیع پیمانے پر تعمیر ہوئی۔
ایک یورپی ملک جو کھیلوں کی اس دوڑ میں حیرت انگیز طور پر پیچھے رہا ، وہ یونان تھا۔ ہر چند یہ یونان میں قدیم اولمپیا کی دریافت ہی تھی جس نے اہلِ یورپ کو کھیلوں کی جانب راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جدید کھیلوں کا صنعتی ترقی سے براہِ راست تعلق ہے۔
یونان صنعتی ترقی کے میدان میں دوسرے ممالک سے پیچھے تھا۔ سو اسی تناسب سے کھیلوں کے شعبے میں بھی کمزور رہا۔ ہر چند پتھر اٹھانے یعنی ویٹ لفٹنگ ، دوڑنے اور پتھر پھینکنے کے روایتی کھیل وہاں مقبول تھے اور ان کا ذکر وہاں کے لوک گیتوں میں بھی ملتا ہے۔

کھیل کے معیشت، ثقافت اور فنونِ لطیفہ پر اثرات

کھیلوں کے ارتقاء سے جغرافیہ، معیشت، تاریخ اور ثقافت پر بھی اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔معیشت پر اثر کی تو یہ کیفیت ہے کہ آج کے دور میں کھیل دنیا کی امیر ترین صنعت کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ اولمپک کھیل ، ورلڈ کپ فٹبال اور بے شمار عالمی سطح کے دوسرے کھیلوں کی میزبانی سے میزبان ملکوں کو اربوں روپے کے معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
سیاحوں کی آمد و رفت سے سیاحت اور تجارت کو بھی فروغ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں دنیا کی مختلف ثقافتوں سے بھی آگاہی حاصل ہوتی ہے مثلاً یہ کہ کینیا اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں وسیع و عریض کھلے میدانوں کے باعث دوڑنے اور پیدل چلنے کی مہارت اور غیرمعمولی صلاحیت رکھنے والے دنیا کے بہترین اتھلیٹ ثابت ہوئے ہیں۔کھیلوں میں خواتین کی شرکت اور معیشت پر اس کے اثرات، سپورٹس جرنلزم اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ، کھیل کا صحت و عمر سے تعلق اور سماج پر اس کے اثرات، ٹیلی وژن اور سپانسرشپ، کھیلوں میں پروفیشنلزم اور تجارتی کمپنیوں کا اثرو رسوخ، ایسے موضوعات ہیں جو اپنے اندر جہانِ حیرت سموئے ہوئے ہیں۔
کھیل اور فنونِ لطیفہ نے بھی ایک دوسرے کو براہِ راست متاثر کیا ہے۔ نامور لکھاری قدیم اولمپکس کے فاتحین کی شان میں اعلیٰ پائے کے ادبی شاہکار تخلیق کیا کرتے تھے۔
رابرٹ فراسڈ کے خیال میں ” ردھم کے بغیر شاعری کرنا، نیٹ کےبغیر ٹینس کے کھیل کے برابر ہے”۔ لینن موریس نے کہا تھا ” کھیل اور شاعری میں ایک طرح کی دوستی ہے، دونوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہماری زندگی کو عام سطح سے بلند کر سکیں۔ یہ دونوں ہر اس جگہ پائی جاتی ہیں جہاں زندگی کی ذرا بھی رمق باقی ہو”۔

کھیلوں میں خواتین کی شرکت

ماضی کے بیشتر معاشرے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ شکنی کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اعلیٰ اقدار کی پاسداری کے امین انگریزی پبلک سکول نظام نے بھی خواتین کی حوصلہ افزائی سے اجتناب ہی کیا جس کے باعث 1896ء کے اوّلین اولمپک کھیلوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہو سکی۔
بیسویں صدی کا آغاز سے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کا رجحان پیدا ہوا اور انہوں نے بتدریج کھیلوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ خاص طور پر امریکہ میں اسے 1972ء کے 1سے بہت تقویت ملی جس سے کھلاڑی خاتون طالبات کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔اسی ایکٹ کے تحت جنسی امتیاز کی بنیاد پر خواتین کو کھیلوں میں شرکت سے محروم رکھنے کی قانوناً ممانعت کر دی گئی۔
اس کے علاوہ کھیلوں کو فنڈ فراہم کرنے والی تنظیموں نے بھی اس ضمن میں مثبت کردار ادا کیا مثلاً کرکٹ کلب اور انگلستان کے روئنگ کلب دونوں کے 1787ء اور 1818ء میں قیام کے بعد ان کے انتظامی امور خالصتاً مردوں کے ہاتھوں میں تھے لیکن دونوں کو لاٹری سپورٹس فنڈ کے اصرار پر اپنے دروازے خواتین کے لیے کھولنے پڑے۔
خواتین کی اس خوشگوار آمد اور شرکت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے کھیلوں کے قوانین اور ان میں حصہ لینے کی شرائط کو ان کے لیے زیادہ باسہولت بنانے کے اقدامات اٹھائے گئے مثلاً سائیکلنگ فیڈریشن نے مختصر سکرٹ جیسے لباس کی حوصلہ افزائی کی کہ روایتی بھاری بھرکم لباس میں تو دوڑ کر بس نہیں پکڑی جا سکی، زمانے کو کیسے پکڑتے۔
اسی طرح باسکٹ بال اور اتھلیٹکس کی تنظیموں نے خواتین کے لیے مقابلوں کو قابلِ عمل بنانے کے لیے متعدد تبدیلیاں کیں یوں وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ خواتین پر کھیلوں کے دروازے کھلتے چلے گئے اور اب تو ان کی مؤثر شمولیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیجنگ اولمپکس میں شریک کل کھلاڑیوں کی تعدادکا 40 فیصد سے زاید خواتین پر مشتمل تھا لیکن خواتین نے محض کھیلوں میں شرکت ہی کو اپنی منزل جان کر اس پر اکتفا کرنے کی بجائے بہتر معاوضوں، جنسی استحصال اور امتیاز سے بچاؤ کے لیے اپنی تنظیموں کے ذریعےجد و جہد کی۔
کھیلوں کے مقابلوں کی انعامی رقم میں مرد ، خواتین سے کہیں زیادہ پاتے تھے۔ کھیلوں میں تجارتی مصلحتوں کے زیرِ اثر رنگینی کا عنصر کو شامل کرنے کی انسانی جبلّت کے زیرِ اثر مردوں نے بھی ان کے مطالبے کی حوصلہ افزائی کی کیونکہ کھیلوں کو اس “سویٹ ڈش” کی ضرورت بھی تھی سو مرد برضا و رغبت ان کے مطالبوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے چلے گئے۔
بہرحال بلی جین کنگ اورمارٹینا نیورا ٹیلووا جیسی دیگر کھلاڑیوں کی جدوجہد رنگ لائی اور اب صورتحال یہ ہے کہ ومبلڈن ٹینس جیسے روایتی گرینڈ سلیم سمیت دنیا کے تقریباً تمام بڑے مقابلوں میں ان کے معاوضوں اور انعامی رقم مردوں کے ہم پلّہ ہو چکی ہے۔پہلی مرتبہ 2009ء میں معتبر وژڈن میگزین کی 120 سالہ تاریخ میں ایک خاتوں کرکٹر “کلیئر ٹیلر” کو یہ اعزاز دیا گیا ہے۔عدم کے بقول

طاقتیں دو ہی ہیں زمانے میں
جس سے سارا نظام جاری ہے
ایک خدا کا وجود برحق ہے
دوسری عورت کی ذاتِ باری ہے

کھیل اور صحا فت

وسط 1990 میں “نیو یارک ٹائمز” پہلا اخبار تھا جس نے کھیلوں کا صفحہ متعارف کرایا۔آج کے عہد میں قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہے۔ کسی فلسفی کیا خوبصورت بات کہی ہے “قلم ہاتھ کی زبان اور تحریر خاموش آواز ہے”۔ اچھا صحافی وہ ہے جس میں صرّاف کا اخلاق، محافظ کی پھرتی اور استاد کی لیاقت ہو۔ سپورٹس جرنلزم ، صحافت کی وہ شاخ ہے جو کھیلوں کے مقابلوں اور اسے سے جڑے واقعات اور انکشافات سے متعلق ہے۔
اپنے آغاز میں اخبارات کے دفاتر میں کھیلوں کے شعبے کو یعنی کھلونا شعبہ کہا جاتا تھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ سنجیدہ اور سنگین واقعات سے تعلق نہیں رکھتا تھا لیکن جوں جوں کھیلوں میں دولت، طاقت اور اثر و رسوخ بڑھتا گیا، کھیلوں کی صحافت بھی اہمیت اختیا ر کرتی چلی گئی۔
کسی بھی دوسرے صحافی کی طرح کھیلوں کا صحافی بھی محض منتظمین اور ٹیم کی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اندر کی کہانی کو کھوج کر لانا ہی اس کا اصل کمالِ فن ہے۔
اپنی اس تحقیقی کھوج کے باعث انہیں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی اور کھلاڑی ان سے فاصلہ برقرار رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔
جدید کھیلوں کے تنازعات یعنی جُوا ، میچ فکسنگ، ڈوپنگ، طاقت اور سیاست کا استعمال،نسل پرستی، اولمپکس اور دوسری عالمی کھیلوں کی تنظیموں میں کرپشن اور رشوت کا دور دورہ جیسے موضوعات پر قلم کُشائی نے عوام الناس میں ان گھپلوں کو بے نقاب کرنے اور ان کے خلاف ادراک فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔یوں وہ لاشعوری طور پر ہی سہی ، کھیلوں کے معاملات کو شفاف بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
کھیلوں کی رپورٹنگ کرنے والے کئی قابلِ قدر صحافیوں کا تعلق وکٹورین عہد کے انگلستان سے تھا جہاں فٹبال، کرکٹ، اتھلیٹکس اور رگبی کی رپورٹنگ اور کمنٹری کے فرائض نہایت اعلیٰ پائے کے صحافی کیا کرتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ امریکہ میں بیس بال کی طرح برطانیہ میں کرکٹ کو حاصل سماجی رتبہ ہے۔
مانچسٹر گارڈین نے بطور کرکٹ نامہ نگار اور موسیقی کے ناقد کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جسے “نائٹ ہڈ” کے اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
ریڈیو کے عالمی شہرت یافتہ کمنٹیٹر جان آرنلڈ، جنہوں نے بی بی سی پر برسوں اپنی آواز کا جادو جگایا ، وہ اپنی معیاری شاعری کے لیے بھی شہرت رکھتے تھے۔رچی بینو، بل لاری، ٹونی گریگ، ٹونی کوزیئر اور سنیل گاوسکر دنیائے کرکٹ کے ممتاز تبصرہ نگار ہیں۔
آج اخبار میں کھیلوں کا صفحہ اپنے اندر غیرمعمولی انسانوں کی جد و جہد کی داستانیں سمیٹے گویا انسان کے دل کو خوشیوں سے لبریز کر دیتا ہے۔ اس کا بہترین اظہار “ایرل وارن” نے ان الفاظ میں کیا

“I ALWAYS TURN TO THE SPORTS SECTION FIRST. THESPORTS PAGE ACCOUNTS PEOPLE’S ACCOMPLISHMENTS, THE FIRST HAS NOTHING BUT FAILURES”.

کھیل، جدید ٹیکنالوجی اور خوراک 

جدید ٹیکنالوجی کے باعث کھیلوں میں استعمال ہونے والی مصنوعات یعنی “سپورٹس گیئر” کے معیار میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے جس کے باعث کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی بہت بہتر ہوتی چلی گئی۔ مثلاً آج المونیم اور گریفائٹ جیسی دھاتوں کے امتزاج سے بننے والے ریکٹ کی فریم اور گٹ کئی گنا زیادہ دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کے باعث ان کی بال سپیڈ میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔
کشتی رانی میں ” شاول بلیڈ” اور کنوئنگ میں ” ونگ پیڈل” کے متعارف ہونے سے کھیل کے معیار میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ “ایروڈائنیمک” کے اصولوں کے تحت بنا ہیلیئم دھات سے بنا چھوٹے ٹائر والا 5.9کلوگرام کا بائیسکل جو روایتی 8.1کلوگرام کے سائیکل سے کہیں ہلکا ہونے کے باعث “ڈریگ” میں 7 فیصد کمی کا باعث اور 4000 میٹر کے دوران 5 سیکنڈ کی برتری کا باعث بنتا ہے۔آسٹریلیا کے پیراک آئن تھارپ کے لیے “شارک سکن” کے نام سے خصوصی کاسٹیوم تیار کیا گیا جو تیراکی کے دوران پانی کی مزاحمت کو کم درجے پر رکھتا ہے۔
کھیلوں کی شعور اور اس کا پھیلاؤ “ٹیکنالوجی کے انقلاب” ہی کی بدولت ممکن ہوا۔ مثلاً ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کی ایجاد سے دور دراز مقامات پر کھیلے جانے والے مقابلوں کے نتائج سے فوری آگاہی ممکن ہو پائی۔ پھر ریل کے آرام دہ سفر نے طویل فاصلوں پر منعقد ہونے والے مقابلوں تک کھلاڑیوں کی رسائی ممکن بنا دی۔
ذرائع آمدورفت نے کھیل کے میدانوں تک ہر کسی کا پہنچنا ممکن بنایا۔ تھامس ایڈیسن کے بلب کی ایجاد  نے برقی قمقموں کی روشنی میں رات کے وقت کھیلوں کی روایت کو جنم دیا۔ آج کا کھلاڑی اپنی اور حریف کی کارکردگی کی ریکارڈنگ دیکھ کر اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آج کھلاڑیوں کی خوراک پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ نپولین کا مشہور قول ہے ” جنگ میں فوجیں اپنے پیٹ کے بل پر آگے بڑھتی ہیں”۔
کھیل کی جنگ میں بھی پیٹ کا کلیدی کردار ہے۔ سالم بکرے ڈکار جانے، منوں دودھ کی سردائی نوش کر جانے اور مرغن اشائے خورد و نوش کابے تحاشا استعمال کرنے والے، موٹی توندوں والے پہلوانوں کا دور اب قصہ پارینہ بن چکا۔ اب تو “اسپورٹس نیوٹریشن” کا سائنس اتنی ترقی کر چکا ہے کہ اتھلیٹ پٹھوں کو ” گلوکوجن” سے تقویت پہنچانے کے لیے ” کاربوہائیڈ ریٹ لوڈنگ” کی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔
کھیلوں میں فزیوتھراپی اور ادویات کے استعمال کی عمدہ جانکاری کے باعث اب نہ صرف چوٹوں کے جلد مندمل ہونے بلکہ زخمی ہونے کے ممکنہ امکانات کو بھی معدوم کیا جا سکتا ہے۔اس شعبے میں آئے دن نت نئی اختراعات اور ایجادات وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔

کھیل ، صحت، عمر، مذہب اور سماج

کھیل تندرستی اور درازئ عمر کا ایک اہم ترین ذریعہ ہیں لیکن جسمانی استطاعت سے بڑھ کر ورزش بھی انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ سو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ” کھیل سب کے لیے” کے ساتھ ” چوٹیں سب کے لیے” کا مقولہ جڑا ہوا ہے۔
اعتدال کے ساتھ کھیلوں میں حصہ لینا درازئ عمر کا باعث بنتا ہے ۔سویڈن کے شوٹر آسکر نے 27 برس کی عمر میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ خواتین میں 70 سالہ ہیلڑا نے میونخ میں یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ امریکی گالفر جارج نے 106برس کی عمر تک گالف کھیلی، نارویجین ہرمن نے 109سال تک اسکینگ جیسے برق رفتار کھیل میں حصہ لیا، شہرہ آفاق کرکٹر ڈبلیو جی گریس ساٹھ سال کی عمر تک فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے جبکہ سری لنکا کا جے سوریا 40 برس کی عمر میں عالمی سطح پر متحرک ہے۔
کیمرون کے فٹبالر راجرملا نے 42 سال39دن کی عمر میں ورلڈ کپ فٹبال کا میچ کھیلا تھا۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھوک، افلاس اور بیماریوں پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے اور اوسط عمر 90 برس سے بڑھ چکی ہے۔ وہاں ” اولڈ ہاؤسز” بوڑھوں سے بھرے پڑے ہیں جو عمرِ خضر پاتے ہیں جس کی ایک وجہ صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی ہے۔
یونیورسٹی آف برسٹل کی ایک حالیہ ریسر چ کے مطابق ورزش کرنے والے افراد پر ذہنی دباؤکم ہوتا ہے۔ جس کے باعث ان کا موڈ خوشگوار ہوتا ہے اور وہ طویل عمر پاتے ہیں۔
کھلاڑی ہر انسان کی طرح اپنے ماحول اور حالات سے متاثر اور ان کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ مذہب بھی انسانی خیالات کو ترتیب دینے اور اس کی سوچ کا دھارا بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح کھیل بھی اپنے ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
الجزائر کی حسینہ بوملکہ نے اولمپکس میں مختصر لباس کے ساتھ شرکت کی اور طلائی تمغہ جیتاتو اس کے ملک میں ایک طبقے کی خواتین نے اسے ذہنی ترقی اور حقوقِ نسواں کا استعارہ قرار دیا تو دوسری طرف مختصر کاسٹیوم کے ساتھ اولمپکس میں حصہ لینے پر اسے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح دنیا بھر میں مختلف کھلاڑیوں نے اپنے طور پر غربت، ڈکٹیٹرشپ ، نسلی امتیاز پر مبنی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کی اور معاشرے میں تبدیلی کی سوچ کا باعث بنے۔
عظیم سائیکلسٹ لارنس آرم سٹرانگ کی مثال ہی لیجیے جس نے ایک عالمی ریس کا فائنل جان بوجھ کر ہارا تاکہ اس کے حریف ایون باسو کو کامیابی مل سکے جس کی والدہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھیںاور باسو کو ان کے علاج معالجے کے لیے اس انعامی رقم کی اشد ضرورت تھی۔
پھر ویسٹ انڈیز کے کورٹنی واش کو کون بھول سکتا ہے جس نے عبدالقادر کو رن آؤٹ نہ کرتے ہوئے ورلڈ کپ سے دستبرداری تو قبول کر لی لیکن اخلاقی قدروں کی لاج رکھی۔ اسی طرح ٹینس کی کھلاڑی سینٹینا نے جیت کے بعد اپنے حریف کو روتا دیکھ کر ریکٹ پھینک دیا اور اعلان کیا کہ وہ آئندہ کسی بھی ایسے مقابلے میں نہیں اترے گی جہاں اس کی جیت کسی دوسرے کے آنسوؤں کا باعث بن جائے۔
کاسیس کلے جب محمد علی بنا تو اس نے اسلامی تعلیمات کے زیرِ اثر ہی ویتنام میں جاری قتلِ عام میں یہ کہہ کر انکار کر دیا اس کا مذہب اسے ایسی جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دیتا۔ محمد علی سے کہا گیا ، کھیل میں زیادہ  قابلیت اہم ہے یا ہمت۔
ان کا جواب تھا ہمت۔ کیونکہ جب مخالف باکسر کا مکّا آپ کو زمیں بوس کر دیتا ہے تو آپ کی تو ہار ہو چکی ہوتی ہے، یہ آپ کی ول پاور ہے جو آپ کودوبارہ قدموں پر کھڑا کرتی ہے۔
اولمپک میں طلائی تمغہ جیت کر محمد علی امریکہ واپس آیا تو محض سیاہ فام ہونے کے باعث امریکی صدر نے اس سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا جس پر محمد علی نے اپنا تمغہ دریائے ہڈسن میں پھینک دیا تھا۔
مارٹن لوتھر کنگ اور محمد علی نے جب نسلی امتیاز کے خلاف آواز بلند کی تو انہیں پاگل اور نظام کے باغی قرار دیا گیا لیکن ایسے ہی ” پاگلوں” کے عزم کے باعث آج امریکہ میں وہ ناقابلِ یقین تبدیلی رونما ہوئی ہے جس کا چند برس قبل تصور بھی محال تھا۔
ہر چند نسل پرستی کی جڑیں یورپ اور امریکی معاشرے میں بہت گہری ہیں جن کا اندازہ برطانوی شاہی خاندان کی امریکی شہزادی مرکل میگھن کے بیان سے لگایا جا سکتا ہے “میرے بچے کی پیدائش سے قبل یہ استفسار کیا جا رہا تھا کہ وہ کتنا سیاہ فام ہو گا”۔

ٹیلی وژن سپانسر شپ اورپروفیشنل ازم کا رجحان

پہلی مرتبہ جب اہلِ ہمت کی تحقیقی جدوجہد کے باعث محمد علی کا باکسنگ مقابلہ ٹیلی وژن کی نشریاتی لہروں پر دنیا بھر میں نمودار ہوا تو شائقینِ کھیل نے آنکھیں مل کر ناقابلِ یقین حیرت اور خوشی کے ملے جُلے کے ساتھ اسے دیکھا۔ ان کے نزدیک یہ کارنامہ انسان کے چاند پر قدم رکھنے جیسے حیرت انگیز مناظر سے ملتا جُلتا تھا۔صنعتی انقلاب اور نت نئی ایجادات کے بعد یورپ میں خوشحالی کا دور دوراہ ہوا۔
روز مرّہ استعمال کی اشیاء کی بڑے پیمانے پر پیداوار شروع ہوئی۔ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے مارکیٹنگ کے جدید اور گلیمرز انداز تخلیق کیے ۔ سرابوں اور خوابوں کے یہ سوداگر اشتہار بازی کے سیلاب کے ذریعے معصوم ذہنوں میں اشیاء کی مصنوعی خواہش بیدار کرتے ہیں۔
انیسویں صدی میں کھیلوں میں رونما ہونے والی سب سے بڑی تبدیلی اس کا پیشہ ورانہ انداز اختیار کر لینا ہے۔جس کی بڑی وجوہات میں کھیلوں کو تجارتی نقطۂ نظر سے ایک منافع بخش کاروبار کا درجہ دینے، کھلاڑیوں کی ان کی خدمات کا معاوضہ دینے، لوگوں کا دیہات سے شہروں میں منتقل ہونے کے رجحان کے باعث تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ اور بیس بال، باکسنگ، گھڑ دوڑ اور دیگر کھیلوں میں جُوئے وغیرہ کا رجحان ہے۔1820ء میں بیس بال سے جسے امرکہ کے ” قومی مشغلہ” کا درجہ حاصل ہو چکا تھا، کھلاڑیوں کو معاوضے دینے کے رجحان کا آغاز ہوا۔ 1871ء میں پہلی پیشہ ورانہ لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی تک سیاہ فام کھلاڑیوں کو پیشہ ورانہ کھیلوں میں سفید فاموں سے مقابلے کی اجازت نہیں تھی ۔ اس قبیح روایت کو 1947ء میں بیس بال لیگ میں سیاہ فام کھلاڑی جیکی روبنسن کی شمولیت نے کمزور کیا۔
کایا کچھ یوں پلٹی کہ 2002ء میں این ایف ایل اور این بی اے میں شریک اسی فیصد پیشہ ور کھلاڑی سیاہ فام تھے، جن میں مائیکل جورڈن سب سے زیادہ معاوضہ پاتے تھے۔ ان کے علاوہ کریم جبار، شکیل اونیل جیسے بڑے نام بھی نمایاں ہیں۔
ٹوکیو اولمپکس کے نشریاتی حقوق امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک نے 5 ارب ڈالر میں حاصل کیے ہیں۔1964ء کی ٹوکیو گیمز میں سٹلائیٹ کے استعمال کے ذریعے محض چند سیکنڈز کے وقفے سے پوری دنیا ان کھیلوں کو دیکھ پائی جبکہ 1928ء میں فرانس میں منعقدہ سرمائی اولمپکس میں پہلی مرتبہ ٹیلیوژن پر براہِ راست رنگین نشریات پیش کی گئیں۔
ٹیکنالوجی کے فروغ کے باعث تصویر کے معیار میں بہت اضافہ ہوا جبکہ “سلو موشن” کے ذریعے اب ہم ہر کھلاڑی کی نقل و حرکت کا جائزہ بہت باریکی سے لے سکتے ہیں حتیٰ کہ سطح آب کے نیچے کام کرنے والے کیمروں کے ذریعے اب تماشائی سؤمنگ پول کی گہرائی میں بھی جھانک سکتے ہیں۔
یہی نہیں اب ٹیلیوژن نیٹ ورکس سے ملنے والی رائلٹی کے ذریعے اولمپکس کو اپنی آدھی سے زیادہ آمدنی بھی حاصل ہو رہی ہے۔
کھیل مہذّب معاشروں کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ یہ انسانی شخصیّت کے نوکیلے کونوں کو تراش خراش کر گول اور شائستہ اطور بناتی ہے۔ کھیلوں کی تاریخ اپنے دامن میں بہت سے دلچسپ حقائق سمیٹے ہوئے ہے جن میں سے چند ایک کا مختصر احوال کچھ یوں ہے:۔
٭
گالف دنیا کا واحد کھیل ہے جسے چاند پر بھی کھیلا گیا۔ 6 فروری 1971ء میں اپالو۔14کے کمانڈر ایلن بی شیپرڈ نے چاند پر 2 گالف بالوں کو ہٹ لگائی۔
٭
کار ریسنگ کے عالمی چیمپئن مائیکل شو ماکر کو دنیا کا پہلا بلینیر کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔
٭
مچھلی کے شکار کو دنیا کا سب سے بڑا اور مقبول کھیل سمجھا جاتا ہے۔ سب سے بڑے شکار کا ریکارڈ 2,664پاؤنڈ کی سفید شارک ہے۔
٭
امریکی قوم شکاریات کے سب سے بڑی دلدادہ ہے جہاں دس ملین سے زاید افراد کے پاس شکار کا لائسنس ہے۔ ٹیکساس کو اس ضمن میں اختصاص حاصل ہے۔
٭
آسٹریلیا میں بھیڑوں کی گنتی کرنا ایک باقاعدہ کھیل کا درجہ رکھتی ہے جس کا پہلی مرتبہ انعقاد نیو ساؤتھ ویلز میں 2002ء کو ہوا۔ پیٹر ڈیسیلی نے 277 بھیڑوں کو درست گن کر ابتدائی مقابلہ جیتنے کا اعزاز اپنے نام کیا۔
٭
اسٹونیا کے فٹبال گراؤنڈ میں 150 سالہ قدیم بلوط کا درخت (اوک ٹری) موجود ہےجسے 1940ء میں اس وقت لگایا گیا جب یہ سٹیڈیم ایک پارک تھا۔ اس درخت کو 2015ء میں یوروپین ٹری آف دا ایئر کا اعزاز بھی ملا۔
٭
دنیا کی سب سے مقبول سائیکل ریس ٹور ڈی فرانس میں باہمی احترام اور سپورٹس مین سپرٹ کے فروغ کے ایسے غیر تحریر ی قوانین موجود ہیں جن کے باعث دورانِ ریس کوئی ایسا شہر راستے میں آئے جہاں ریس میں شریک کوئی سائیکلسٹ پروان چڑھا ہو تو اس کے احترام میں باقی سائیکلسٹ اپنی رفتار دھیمی کر دیتے ہیں تاکہ اس کو سائیکل ریس کی رہنمائی کا اعزاز مل سکے۔ اسی طرح اگر دورانِ ریس کسی شریک سائیکلسٹ کو پیشاب کی حاجت محسوس ہو تو دیگر سائیکلسٹ رک کر اس کا انتظار کرتے ہیں۔
٭
ٹور ڈی فرانس میں ہر مرحلے کے فاتح کو پیلی جرسی پہننے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے جس کا تاریخی پسِ منظر یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جس فرانسیسی اخبار نے اس ریس کو سپانسر کیا تھا وہ پیلے رنگ کے کاغذ پر چھپتا تھا۔
٭
کنٹکی ڈربی کو امریکہ کے قدیم ترین کھیل کا درجہ حاصل ہے جس کا آغاز 1875ء میں ہوا۔
٭
یہ دلچسپ کہاوت ہے کہ بیس بال کے کھیل میں بھوری آنکھوں والے کھلاڑی ، نیلی آنکھوں والے کھلاڑیوں سے بہتر کھیل پیش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles