26 C
Lahore
Thursday, March 28, 2024

Book Store

مائی چیمی کا فیصلہ

 

 

مائی چیمی کا فیصلہ

شکیل احمد چوہان

بڑے فیصلے انسان کو بڑا بناتے ہیں، کجھور کا پھل اور فیصلے کا ثمردیر سے ملتا ہے، جب تک تم دونوں حق پر فیصلے کرتے رہو گے تمھارا ڈیرہ آباد رہے گا۔ پنچائت میں نہ جھوٹ بولنا اور نہ ہی جھوٹے کی وکالت کرنا، پولیس کے سپاہی سے کبھی نہ بگاڑنا، تھانے دار آتے جاتے ہیں، سپاہی وہی رہتے ہیں۔
کچہری کے چکر لگا لگا کر بندے رُل جاتے ہیں۔ تگڑے سے تگڑا وکیل بھی پٹواری کے لکھے ہوئے کو مٹا نہیں سکتا، پٹواری پواڑہ (فساد) ڈالتا ہے، اُس سے بنا کر رکھنا۔
دسمبر 1965 کے جاڑوں کی راتوں میں سے ایک رات مائی چیمی اپنے پوتوں امانت اور سلامت کو سمجھا رہی تھی زندگی کے گُر۔۔۔ اور فیصلے کرنے کے اُصول۔ امانت اور سلامت اپنی دادی کی باتیں سنتے سنتے سو گئے۔
زہرہ بیٹی! ویروں (بھائیوں) پر رضائی اچھی طرح ڈال دو اور تم بھی سو جاؤ۔‘‘ مائی چیمی نے لالٹین کو بجھاتے ہوئے اپنے بستر پر کمر سیدھی کی اپنا گول تکیہ ایک طرف رکھا اور سو گئی۔
مائی چیمی ایک بیوہ عورت، جس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ بیٹے اور بہو سے زیادہ اُسے اپنی بارہ سالہ پوتی زہرہ، دس سالہ امانت اور آٹھ سالہ سلامت زیادہ پیارے تھے۔ وہ اصل سے زیادہ سود سے محبت کرتی تھی۔
چانن پور گاؤں کے سارے فیصلے پچھلے اٹھارہ سالوں سے مائی چیمی کرتی آرہی تھی، اس کا ہر فیصلہ اپنی مثال آپ تھا۔ مائی چیمی بڑے سے بڑے کھڑپینچ کو آناً فاناً اپنی دانائی سے زیر کر دیتی، وہ دھیرج سے دونوں اطراف کی اول فول سنتی رہتی، مائی چیمی کا لب و لہجہ اور طرزِ تکلم بلبل کی مانند میٹھی زبان میں ہوتا تھا۔
اگلی صبح ہی اس کے پاس گاؤں کی ایک بیٹی کا فیصلہ آ گیا جو پاس والے گاؤں میں بیاہی تھی اور ناراض ہو کر میکے میں بیٹھی تھی۔ لڑکے والے لڑکی کے گھر جانے کی بجائے مائی چیمی کے ڈیرے پر آئے تھے۔
’’بہن چیمی آپ سے فیصلہ کروانا ہے۔‘‘ رحمت جوئیہ نے کہا جو کہ شہباز جوئیہ کا تایا تھا۔
اپنا پتر شہباز اپنی گھر والی کو وسانا (بسانا) چاہتا ہے پَر کڑی اڑ کر بیٹھی ہے کہ مجھے لِخط (طلاق) چاہیے۔ نہ تو ہمارے پینڈ میں کسی نے کبھی لِخط دی ہے اور نہ ہی ہمارے پِنڈ کی کسی دھی (بیٹی) کو لِخط ہوئی ہے۔
رحمت جوئیہ بولتا رہا اور مائی چیمی سنتی رہی۔ پنچائت بیٹھ چکی تھی۔ چانن پور گاؤں والوں کی نظریں مائی چیمی پر ٹکی ہوئی تھیں۔
لِخط لینے سے بہتر ہے۔۔ ۔ توئے کی کالک منہ پر مل لی جائے۔ اگر لِخط ہوئی تو اس علاقے میں ایسا پہلی بار ہو گا اور اُس کی ساری ذمہ داری چانن پور والوں پر ہو گی۔‘‘ رحمت جوئیہ نے آخری بات کی۔
چوہدری رحمت! طلاق حلال ہے۔۔۔ حلال کام کرنے سے منہ کالا نہیں ہوتا اور جہاں تک توئے کی کالک کی بات ہے اُسے پانی دھو دیتا ہے اور گناہوں کی کالک پانی سے صاف نہیں ہوتی۔۔۔ تم صرف گناہوں کی کالک کی فکر کرو۔۔۔ توئے کو ہم خود ہی مانج (صاف) لیں گے۔۔۔ کھانا کھا کر جانا فیصلہ کل ہو گا۔‘‘ مائی چیمی نے تحمل سے جواب دیا۔
اُسی دن رات عشاء کے بعد بشیر حسین کے گھر چانن پور گاؤں کے سارے سیانے اکٹھے ہوئے۔ شبانہ عرف شبو، شہباز جوئیہ کی بیوی تھی اور بشیر حسین کی بیٹی۔
جب شبو کا رشتہ بشیر نے قبول کیا تھا مائی چیمی نے اُسی وقت ہی کہا تھا
پا بشیر! تم نے مشورہ کرنا بھی بہتر نہ سمجھا، شبو میری بھی دھی ہے، میں تمھیں اچھا مشورہ ہی دیتی۔
بس آپا وڈی (بڑی)! کیا بتاؤں انھوں نے مجھے اپنے ڈیرے پر بلایا، رشتے کی ہاں کروا کر ہی اٹھنے دیا۔ اچھا بھلا اپنے ماسی کے پتر کی منگ تھی۔ اُس شودے نے انکار کر دیا۔‘‘ بشیر حسین خود کو ملامت کر رہا تھا۔
بشیر حسین کی ایک بھیگا زمین جوئیہ خاندان کی زمین کے ساتھ تھی جہاں پر چانن پور کا رقبہ ختم ہوتا وہاں سے دبھڑی وال کا رقبہ شروع ہوتا۔
جوئیہ خاندان دبھڑی وال کے چوہدری تھے اور بشیر حسین اُن کا مزارع۔ ایک دن شہباز جوئیہ کی نظر شبانہ عرف شبو پر پڑی تو اُس نے شبانہ کا راستہ روک لیا۔
کیا تو بشیرے کی بیٹی ہے؟
شہباز جوئیہ اپنی نیلی اتھری گھوڑی پر بیٹھے بیٹھے ہی بولا۔ شبو نے شہباز کو دیکھے بغیر سر کو ہاں میں جنبش دی میچی ہوئی آنکھوں کے ساتھ۔ قرب وجوار میں دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ شبو اپنے باپ کو کھانا دینے کھیتوں میں آئی تھی۔ اُس دن اس کی ماں کی طبیعت جو خراب تھی۔ شہباز جوئیہ بھونڈے اور لُچرپن سے پھر بولا
’’تیرے حسن کی بڑی دھوم سنی تھی۔۔۔ سب سچ کہتے ہیں۔۔۔ جو سنا تھا اس سے بڑھ کر دیکھ لیا۔‘‘
شہباز جوئیہ نے گھوڑی سے چھلانگ لگائی اور شبو کی طرف بڑھا۔ شبو نے جلدی سے اپنے باپ کی دارانتی اپنی چادر سے نکال کر شہباز جوئیہ کی طرف تان دی۔ جب شبو نے شہباز کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا اُس نے اُسی لمحے دارانتی اپنی حفاظت کے لیے اپنی چادر میں چھپا لی تھی۔
چوہدری! آگے نہ بڑھنا۔ شبو نے اپنی بند آنکھیں کھولیں، آنکھوں میں انگارے بھرے ہوئے تھے۔
اوئے ہوئے۔۔۔ آنکھوں میں بھانبھڑ(الاؤ) ہیں۔۔۔اَتھری گھوڑی اور اَتھری کڑی دونوں ہی شہباز جوئیہ کی ضد ہیں۔
چوہدری! کسی کی امانت کو اپنی ضد مت بنا۔۔۔ گھوڑی ضد ہو سکتی ہے۔۔۔ کُڑی نہیں۔۔۔‘‘ شبونے اعتماد سے جواب دیا سخت لہجے میں۔
ایک ضد دوسری ضد پر بیٹھ تو سکتی ہے۔۔۔آ جا! رانی بنا دوں گا تجھے۔۔۔ جو آگ تو نے لگائی ہے۔۔۔ بس اُسے بجھاتی جا۔۔۔‘‘ شہباز جوئیہ نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ہونٹوں کو دانتوں سے چباتے ہوئے کہا۔
میں کسی اور کے دل کی رانی ہوں۔۔۔ چوہدری! ہٹ جا میرے راستے سے۔‘‘ شبو نے درانتی کو کس کر پکڑا اور غصے سے شہباز جوئیہ کو للکارا۔
یا تو میں تجھے مار دوں گی۔۔۔ نہیں تو اپنی جان دے دوں گی۔۔۔ پر جو تو چاہتا ہے وہ کبھی نہیں ہو سکتا۔
شبو نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
شہباز جوئیہ ایک بھیڑئیے کی طرح شبو پر ٹوٹ پڑا اور اُسے اپنی تگڑی گرفت میں لے لیا، درانتی چھین کر اُسے دور پھینک دیا۔
کنجر!۔۔۔ دلّے۔۔۔ بے غیرت۔۔۔!‘‘ شبو نے شہباز کی گرفت سے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا۔
باسمتی چاول کی فصل اپنے جوبن پر تھی اور وہ جگہ دونوں دیہاتوں کے درمیان میں، دوپہر کا وقت بھی شہباز جوئیہ کے حق میں تھا۔ شہباز اور شبو گتھم گتھا تھے۔
’’چھوڑ دے بے غیرت مجھے!‘‘ شبو ایک زخمی شیرنی کی طرح غرائی۔
تو ایک مرد کے شکنجے میں ہے۔
شہباز جوئیہ چلایا۔ اچانک شبو کے ہاتھ وہ دارانتی لگ گئی۔ اس نے پورے زور سے چلائی جو شہباز کے بائیں بازو پر جا کے لگی، گھاؤ گہرا تھا، شہباز جوئیہ زمین پر بیٹھ گیا دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں بازو کو پکڑے ہوئے۔
اَخ تھو۔۔۔ شبو نے شہباز کی طرف تھوکا حقارت سے۔
تو اپنے آپ کو مرد کہتا ہے۔۔۔ پہلے تو بھکاری بنا اور اپنی خواہش کی بھیک مانگی۔۔۔ پھر تو ڈاکو بن گیا۔۔۔ مرد کدھر سے ہے تو؟ بھکاری مانگتا ہے۔۔۔ اور ڈاکو چھینتا ہے۔۔۔ صرف مرد حاصل کرتا ہے۔۔۔ لعنت تجھ جیسے مرد پر۔۔۔!
شبو کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹ گئے تھے، اُس کے جسم پر جگہ جگہ شہباز کی درندگی کے نشان تھے پر اس کی عزت بچ گئی۔ شبو نہ روئی تھی اور نہ ہی اُس نے شہباز سے رحم کی اپیل کی تھی۔ وہ لڑی اپنی عزت کی حفاظت کے لیے اور جیت گئی۔ گھر واپسی پر اُس نے کھال سے منہ دھویا، اپنے بال سمیٹے، اپنی چادر سے اپنا چہرہ اور جسم ڈھانپا اور چُپ چاپ گھر واپس آگئی۔
اگلے دن ایک خبر آئی، اُس کے ماسی کے بیٹے اور منگیتر نے منگنی توڑ دی۔ چوہدری شہباز نے شبو کے منگیتر صابر کے کان بھرے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر اُس کا نکاح اپنے گاؤں کی ایک لڑکی سے کروا دیا۔ اب تک اندر کی بات شبو اور شہباز کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ چند دن بعد شبو کے باپ نے گھر آ کر فیصلہ سنایا
’’کل شبو کی جنج (بارات) دبھڑی وال سے آ رہی ہے۔‘‘
شبو نے بہت شور شرابہ کیا پر اس کا باپ زبان دے چکا تھا۔ شبو کا بھائی شاہد جو کہ اس وقت میٹرک میں تھا، وہ اپنی بہن کے بہت قریب تھا، اس نے شبو کو قسم دے کر ساری بات پوچھ لی۔
’’شبو باجی! تم شادی کر لو۔۔۔ اللہ خیر کرے گا۔‘‘ شاہد حسین نے اپنی بہن کو مشورہ دیا۔
سارے لو گ برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مائی چیمی اندر شبو کے پاس چلی گئی۔ شبو گم سم بیٹھی تھی۔ شاہد اُس کے پاس تھا۔
شبو بیٹی! مجھے لگتا ہے۔۔۔ کچھ گپت (راز) ہے جو تم مجھ سے چُھپا رہی ہو۔۔۔ دیکھو دھی رانی! مجھے سچ سچ بتاؤ اندر کی بات۔۔۔
شبو نے ساری بات مائی چیمی کو بتائی۔ شاہد بھی وہیں موجود تھا۔ شبو نے اپنے آنسو صاف کیے۔
شاہد تم باہر جاؤ!  شبو نے شاہد سے کہا۔ شاہد باہر چلا گیا۔
’’اب تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ مائی چیمی نے پوچھا۔
ابھی آپ نے ساری بات سنی کہاں ہے۔ شاہد کے سامنے بتا نہیں سکتی تھی۔‘‘ شبو نے مائی چیمی کو جواب دیا۔
امّاں چیمی! شادی کی پہلی رات ہی سے شہباز میرے جسم کو گدھ کی طرح نوچ رہا ہے۔ وہ روز رات کو شراب پی کر آ جاتا اور صبح تک میرے جسم کو نوچتا رہتا ہے۔ اماں چیمی! وہ میرے جسم پر جلتی ہوئی سگریٹ بجھاتا ہے اور کہتا ہے
تم میری ملکیت ہو جو چاہے تمھارے ساتھ کروں۔۔۔ مجھے کون روک سکتا ہے۔۔۔ یہ بھی کہتا ہے
ابھی ضد پوری کی ہے۔۔۔ انتقام ابھی باقی ہے۔۔۔ شہباز کے ساتھ بیس دن میں نے انگاروں پر گزارے ہیں۔
شبو نے اپنے خاموش آنسو صاف کیے جو چپ چاپ گرتے جا رہے تھے، مائی چیمی اور شبو رات گئے تک باتیں کرتی رہیں۔
اگلے دن مائی چیمی کے ڈیرے پر پنچائت لگ گئی۔ مائی چیمی اپنے رنگلے پلنگ پر گول تکیے کے ساتھ ٹیک لگائے پوری شان سے بیٹھی تھی۔ پچپن سال کی عمر میں بھی کسی جوان کو کلائی سے پکڑ لے تو وہ چھڑا نہ سکے۔۔۔
مائی چیمی اونچے لمبے قد کاٹھ کی پُروقار عورت تھی۔ چوہدری رحمت نے بولنا شروع کیا ہی تھا کہ شہباز بول پڑا۔ اُسے اپنے تایا کا مائی چیمی کے سامنے عاجزانہ لب ولہجہ ناگوار گزرا تھا۔
تایا! اتنے ترلے کیوں ڈال رہے ہو۔۔۔ مائی نے اگر فیصلہ ہمارے حق میں نہ دیا تو۔۔۔ میں شبو کو اُٹھا کر لے جاؤں گا۔ شہباز جوئیہ نے اپنے تیور دکھائے۔
’’چوہدری رحمت! پٹا ڈال اس منڈے کو۔۔۔! نہیں تو۔۔۔۔ مجھے ڈالنا آتا ہے۔‘‘ مائی چیمی نے تحمل سے کہا۔
کاکا شہباز! شبو کو اُٹھانے سے پہلے تو اُٹھ جائے گا دنیا سے۔۔۔‘‘ مائی چیمی کی آواز پر چانن پور کے لوگوں نے لبیک کہا۔
چوہدری برکت! سمجھا اپنے بیٹے کو پنچائت میں بڑوں کی بات میں نہیں بولتے۔
ماسٹر نذیر نے شہباز کے باپ کو یاد کرایا۔ پوری پنچائت میں شور پڑ گیا۔ کوئی کہہ رہا تھا
’’ہم نے کُڑی نہیں بھیجنی، دبھڑی وال والے جو کر سکتے ہیں کر لیں۔‘‘
دوسری طرف سے آواز آئی
’’بڑا بے ہدایتا منڈا ہے۔۔۔ تائے نے بگاڑ دیا ہے۔‘‘
مائی چیمی نے اپنا ہاتھ ہوا میں لہرایا۔ پنچائت میں خاموشی چھا گئی۔
چوہدری رحمت! تو بول کیا چاہتا ہے؟ مائی چیمی نے چوہدری رحمت کو مخاطب کیا۔
بہن چیمی! کُڑی ٹور دے۔ چوہدری رحمت نے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
چوہدری رحمت! ٹھیک ہے۔۔۔ پر میری کچھ شرطیں ہیں۔۔۔ شبو میرے گھر سے جائے گی میری بیٹی بن کر، حق مہر میں د س ایکڑ زمین شبو کے نام لکھ دو۔۔۔ چوہدری رحمت! بے شک طلاق حلال ہے پھر بھی کوئی ماں اپنی بیٹی کے لیے طلاق نہیں چاہتی۔۔۔ یہ فیصلہ میں نے ماں بن کر کیا ہے۔۔۔ منصف بن کر نہیں۔۔۔
تم دونوں بھائیوں کا رقبہ ملا کر بھی میرے رقبے کا آدھا بنتا ہے، تحصیل میں بھی میری زیادہ چلتی ہے، تیرا آدھا گاؤں تیرے ساتھ ہے اور میرا پورا گاؤں میرے ساتھ کھڑا ہے، تھانے دار میرے اشارے کا منتظر ہے۔۔۔ جو باتیں تیرے منڈے کے بارے میں مجھے پتہ ہیں کوئی نہیں جانتا۔۔۔ کاکا شہباز! کان کھول کر میری بات سن! اب شبو بشیر حسین کی بیٹی نہیں۔۔۔ چیمی جٹی کی بیٹی ہے۔۔۔ یاد رکھنا! مائی چیمی جٹی کی بیٹی! شکر کر میں نے تجھے جوائی مان لیا ہے۔
اگر شبو کو کنڈا چبھا تو تجھے لوہے کا سووا چبھو دوں گی۔ چوہدری رحمت تو اچھی طرح میری زبان کو جانتا ہے۔ کل شبو کو تحصیل لے جاؤ اور اُس کے نام دس ایکڑ لگا دو پھر میں شبو کو تمھارے ساتھ بھیج دوں گی۔
مائی چیمی نے اپنا فیصلہ سنایا۔ رحمت جوئیہ اور برکت جوئیہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ اس سے پہلے وہ مشورہ کرتے، شہباز جوئیہ فٹاک سے بول پڑا
’’منظور ہے!‘‘
پنچائت ختم ہو گئی۔ سارے لوگ چلے گئے۔
اماں چیمی! دس ایکڑ میں دس ہزار قبریں بن جاتی ہیں، تم نے صرف میری قبر بنائی ہے۔‘‘ شبو نے فیصلے کے بعد مائی چیمی سے کہا۔
اگر تمھاری قبر بنی تو اس کے ساتھ شہباز جوئیہ کا مقبرہ ضرور بنے گا۔‘‘ مائی چیمی نے دھیمی آواز میں کہا تھا۔
’’وہ جو کہتی ہے۔۔۔ وہ کر دیتی ہے۔۔۔ میرا مشورہ مانو لخظ دے دو، میں اپنی رجو بیٹی کا ساکھ (رشتہ) دیتا ہوں۔ رحمت جوئیہ کہہ رہا تھا برکت اور شہباز کو۔۔۔
برجھائی سمجھا اپنے لاڈلے کو۔۔۔ اوئے شہباز! تجھے پُتر سے بڑھ کر چاہا ہے۔‘‘ رحمت جوئیہ فکرمندی سے کہہ رہا تھا۔ وہ فکر کیوں نہ کرتا رحمت اور برکت کی سات بیٹیوں میں صرف ایک بیٹا شہباز ہی تھا۔
میں نے بچپن سے تجھے جوائی مان لیا تھا۔۔۔ رجو تیرے نام کی انگوٹھی پہن کے بیٹھی رہی اور تو نے ایک کمّی کی دھی کو کڑے پہنا دئیے۔
تایا! میں رجو سے نکاح کر لوں گا۔۔۔ بس آخری ضد پوری کر دے۔۔۔ میں نے شبو کو ایک بار لے کر آنا ہے۔۔۔ کسی بھی شرط پر۔۔۔ اُس کے بعد اسے۔۔۔
’’اُسے کیا؟ ہمیں بھی تو بتا۔‘‘ اس بار برکت جوئیہ بولا غصے سے۔
جوئیہ خاندان نے مائی چیمی کی شرط مان لی۔ شبو کی دوبارہ رخصتی ہوئی، مائی چیمی کے گھر سے۔ شہباز جوئیہ نے بڑے اعزاز سے شبو کو اپنی نیلی گھوڑی پر بٹھایا اور اپنے گھر کی بجائے اپنے ڈیرے پر لے آیا جو گاؤں سے ہٹ کر تھا۔
دیسی دارو ہے۔۔۔ چکھ لے۔۔۔! تھوڑی کڑوی ہے۔۔۔! پہلے کون سا تو میٹھا بولتی ہے۔‘‘ شہباز جوئیہ شراب کے نشے میں دُھت، گلاس شبو کی طرف بڑھا کر بولا۔
’’دیکھ ! میں نے ایک ضد کو دوسری ضد پر بٹھا ہی لیا۔ تجھے نیلی گھوڑی پر بٹھا کر لایا ہوں۔‘‘
گدھ مردار کھاتے ہیں۔۔۔ وہ زندہ جسم کو نوچتا تھا۔ شہباز نام ہونے کے باوجود وہ ذات کا گدھ ہی تھا۔ اُس نے شبو کے ننگے دھڑنگے جسم کو رات بھر نوچا۔۔۔ صبح سے پہلے اُس ننگے بدن کو کپڑے پہنانے کا حکم ملا۔۔۔ شبو نے کپڑے پہن لیے ۔ فجر کی اذان ہو چکی تھی۔ سخت سردی میں باہر کُہرا جما ہوا تھا۔ شہاز نے کہا
’’چلو گاؤں چلتے ہیں۔‘‘
شبو کو اُس نے پھر سے گھوڑی پر بٹھایا اور اپنے ڈیرے پر موجود کنویں کے پاس آ کر رُک گیا۔ شبو نے شہباز کی طرف دیکھا، شہباز کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ اُبھری۔
دن نکلتا ہے پھر گاؤں چلتے ہیں، تم گھوڑی سے اُتر آؤ سردی بھی بہت ہے۔‘‘ شہباز نے ہاتھ بڑھایا شبو گھوڑی سے نیچے اُتر آئی چپ چاپ۔ وہ مسلسل شہباز کے چہرے کو دیکھ رہی تھی شاید کچھ پڑھنا چاہ رہی تھی۔ شبو کے پچھلی طرف کنواں تھا اور سامنے دلدل یعنی شہباز جوئیہ۔
مائی چیمی! یہاں اس وقت۔۔۔‘‘ شہباز اچانک بول پڑا۔ شبو نے پلٹ کر دیکھا۔ اسی لمحے شہباز نے شبو کو کنویں میں دھکیل دیا۔
تڑکے ہی چانن پور گاؤں میں شبو کے مرنے کی خبر پہنچی پر مختلف انداز میں۔۔۔
’’شبو نے شہباز کو زخمی کیا اور خود وہاں سے بھاگی۔۔۔ تاریکی ہونے کی وجہ سے کنویں میں گر گئی۔‘‘
شبو کی موت کو تین دن گزر گئے۔ مائی چیمی ایک دم خاموش ہو گئی تھی۔ چوتھے دن پنچائت بیٹھ گئی۔
جو کچھ شہباز جوئیہ نے اپنی صفائی میں کہا ہے میں اُسے سچ مانتی ہوں۔‘ ‘ یہ کہہ کر مائی چیمی اپنے پلنگ سے اُٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔
’’یہ کیسا فیصلہ ہے؟‘‘
’’جو سچ ہے!‘‘
کسی اور سے فیصلے کروا لیا کرو چانن پور والو!
’’تو کیا شہباز جوئیہ کو سولی پر لٹکا دیتی؟‘‘
’’مائی چیمی بوڑھی ہو گئی ہے۔‘‘
’’میں نے پہلے ہی کہا تھا شبو کو مت بھیجو!‘‘
ہم اٹھارہ سال سے مائی چیمی کا ہر فیصلہ مانتے آئے ہیں، یہ بھی مانتے ہیں۔‘‘ برکت جوئیہ نے آخری بات کہی تھی، رحمت جوئیہ فکرمند تھا۔
’’تایا تو کیوں فکر کرتا ہے؟‘‘ شہباز جوئیہ نے رحمت جوئیہ سے کہا۔
’’تو ابے کو نکاح کی تاریخ دے۔۔۔ فکر نہ کر۔۔۔ تایا!‘‘
ابھی قبر کی مٹی گیلی ہے اور زخم ہرے ہیں۔۔۔ ابھی نہیں شہباز پُتر! تو شہر چلا جا چند دنوں کے لیے۔‘‘ رحمت جوئیہ رندھی آواز کے ساتھ کہہ رہا تھا۔
’’چھوڑ تایا! شہر چلا جا۔۔۔‘‘ شہباز نے اپنی چادر کو جھاڑا گرجتے ہوئے۔
چند دن گزر گئے، خاموشی سے کئی فیصلے آئے مائی چیمی کے پاس مگر مائی چیمی جٹی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ ایک دن خبر آئی شہباز جوئیہ بھی اُسی کنویں میں گر کر مر گیا ہے۔ سارے علاقے میں مشہور ہو گیا کہ وہ ڈیرہ منحوس ہے اور وہاں جنوں اور ڈائنوں کا قبضہ ہے۔
اس کہانی کا پورا سچ صر ف چار لوگ جانتے تھے۔ شہباز جوئیہ، شبانہ عرف شبو، مائی چیمی جٹی اور میں۔۔۔ جی ہاں میں! تین لوگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، صرف میں زندہ ہوں ۔جس دن شہباز کنویں میں گرا تھا اُسی رات مائی چیمی نے مجھے اپنے گھر بلایا تھا اور اِس کہانی کا سارا سچ بھی بتایا، بہت ساری نصیحتیں کیں، اُس رات کے بعد مائی چیمی جٹی نے کبھی صبح کا اُجالا نہیں دیکھا۔
اُسے اپنے غلط فیصلے پر بہت پچھتاوا تھا۔ نرم بستر سے قبر کی سخت زمین پر لیٹنے سے پہلے، اُس نے مجھے شہباز کی جاسوسی کے لیے کہا تھا۔ میں کئی دن شہباز کی جاسوسی کرتا رہا ایک دن شہباز جوئیہ ایک ویشیا کو لے کر آیا شہر سے۔۔۔ اپنے سارے دوستوں کو اس نے بھیج دیا تھا۔
آدھی رات تک ویشیا اور شہباز شراب پیتے رہے۔ اُس کے بعد اُن دونوں نے منہ کالا کیا۔ رات کے پچھلے پہر شہباز پیشاب کی غرض سے کمرے سے باہر نکلا۔ میں نے کمرے کی باہر سے کنڈی لگا دی۔
وہ لڑکی نشے میں دُھت سوئی ہوئی تھی۔ مائی چیمی نے شہباز کو اکیلے ہی دبوچ لیا۔ میں نے مدد کرنا چاہی تو مائی چیمی بولی
’’بیٹا! تیرا کام صرف مخبری کرنا تھا۔‘‘
شہباز جوئیہ کو کنویں میں جنوں نے نہیں گرایا تھا۔ اُسے مائی چیمی نے یوں مارا جیسے پاگل کتے کو مارا جاتا ہے۔ اتنا مارا کہ وہ خود موت کی بھیک مانگنے لگا پھر اُس سے پوچھا کہ تم نے شبو کو کیسے مارا؟
اُس نے بتایا کہ وہ پوری رات نشہ کر کے اُس کے جسم کو نوچتا رہا پھر صبح نیلی گھوڑی پر بٹھا کر کنویں تک لایا اور دھوکے سے اُسے دھکا دے دیا۔
مجھے آج بھی یاد ہے اچھی طرح سے مائی چیمی کے الفاظ
’’کاکا شہباز! تو بچ سکتا ہے۔۔۔ اگر تو مجھے کنویں میں گرا دے پھر نہ کہنا مائی چیمی نے انصاف نہیں کیا۔‘‘
شہباز جوئیہ نے کوشش بہت کی اپنی جان بچانے کی مگر ناکام رہا۔ میں نے ہمیشہ مائی چیمی کی بلبل کی مانند میٹھی آواز سنی تھی۔
اُس دن مائی چیمی کی آواز میں کٹھور پن اور ہیبت تھی، اُس نے شہباز کی کسی التجا پر کان نہیں دھرے۔ مائی چیمی نے شہباز کو گریبان سے پکڑا اور اُسے کنوئیں میں پھینک دیا، میں پاس کھڑا تھا۔
مائی چیمی کو اس فیصلے پر شبو کے والدین اور بھائی نے مجبور کیا تھا۔ مجھے پچاس سال پہلے کہے ہوئے شبو کی ماں کے الفاظ اچھی طرح سے یاد ہیں
آپا وڈی! فیصلہ منصف بن کر نہیں۔۔۔ ایک ماں بن کر کرنا۔۔۔ شبو کی ماں بن کر۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ شبو لخط لے۔
مائی چیمی نے شبو کے گھر والوں کی خواہش پر وہ فیصلہ کیا تھا جو اس کا آخری فیصلہ ثابت ہوا۔ مجھے مائی چیمی نے ایک نصیحت یہ بھی کی تھی
منصف فیصلوں کی جگہ رشتوں کو ترجیح دے تو فیصلے غلط ہوتے ہیں اور ایک غلط فیصلہ کئی زندگیاں برباد کر دیتا ہے۔
میں نے مائی چیمی کی باتوں کو ہمیشہ یاد رکھا، اپنے فیصلوں کے دوران اور آج میں سرخرو ہوں۔
آج پچاس سال بعد بھی مائی چیمی کو نہیں بھولا، صرف اس کے فیصلوں کی وجہ سے۔ آج میری آنکھوں میں آنسو ہیں اپنی دلیر بہن کو یاد کر کے۔
مجھے فخر ہے کہ میں مائی چیمی جٹی کا شاگرد اور شبو کا بھائی ہوں
ریٹائرڈ جسٹس شاہد حسین

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles