8 C
Lahore
Monday, December 9, 2024

Book Store

تشہیر

تشہیر


ابوالفرح ہمایوں

بہت دنوں کا ذکر ہے، چند باصلاحیت اداکار دوستوں نے ایک تھیٹریکل کمپنی کی بنیاد ڈالی۔ ہیر لڈکولٹ کو تمام تجارتی انتظامات کی ذمے داریاں سونپ دی گئیں۔ ہیرا لڈکولٹ ایک انتہائی ذہین منتطم تھا۔ اس نے پہلے ہی دن اندازہ لگا لیا کہ غیر معروف اداکار جس قدر بھی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں ، کمپنی اس وقت تک ترقی نہیں کر سکے گی، جب تک کوئی عوام کا پسندیدہ اور مقبول اداکار اس میں شامل نہ ہو۔
اس نے فی الفور ہنری گرانٹ سے رابطہ قائم کیا اور اسے اپنی ٹیم میں شامل ہونے پر آمادہ کر لیا۔ یہ کمپنی کی پہلی کامیابی تھی کہ انھیں ایک ہر دل عزیز اداکار کا تعاون حاصل ہو گیا۔ ہنری گرانٹ چار پانچ سال قبل ہی اداکاری کے میدان میں وارد ہوا تھا اور اس مختصر سے عرصے میں اس نے ہر طرف اپنی شہرت اور مقبولیت کا ڈنکا بجا دیا تھا۔
ہنری گرانٹ کی شمولیت کسی بھی ڈرامے کے لیے کامیابی کی ضمانت سمجھی جانے لگی تھی۔ اس لحاظ سے ہیرا لڈکولٹ نےاپنی کمپنی ’’دی فرینڈز تھیٹریکل‘‘ کے لیے شہرت، دولت اور کامیابی کے خزانے کی چابی حاصل کر لی۔
بالاآخر پہلے کھیل کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے لیے شیکسپئر کے مشہور ڈرامے ’’ہیملٹ‘‘ کا انتخاب ہوا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی یورپ کے دوسرے ممالک کے شائقین بھی ڈرامے دیکھنے کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے بے قرار ہو گئے۔ ہیرا لڈکولٹ اُنھیں بھی مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس کا خیال تھا کہ دوسرے ممالک سے آنے والے انگریزی زبان سے نابلد ہوں گے، یا اگر تھوڑی بہت جانتے بھی ہوں گے تو اس کی بنیاد پر کھیل کا صحیح لطف نہیں اٹھا سکیں گے۔ ایسے لوگوں کے لیے یقیناً کوئی انتظام کرنا چاہیے کہ وہ ڈرامے کی کہانی اور اصل روح سے پہلے ہی واقف ہو جائیں، تاکہ انھیں ڈراما سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ اس مشکل کا حل کولٹ کے زرخیز ذہن نے فوراً تلاش کر لیا۔ ڈرامے کے اہم نکات اس نے جمع کیے اور اس کا اطالوی، ہسپانوی، جرمن اور فرنچ زبانوں میں ترجمہ کروا کے چھپوا لیا۔
ایک دن کولٹ کو ایتھنز سے ایک خط موصول ہوا، جس کے ساتھ کافی بڑی رقم کا ایک چیک بھی منسلک تھا۔ مسٹر کرلامبو نے لکھا تھا کہ وہ پچاس شائقین پر مشتمل ایک وفد کے ہمراہ ’’ہیملٹ‘‘ دیکھنے آ رہے ہیں۔ کولٹ نے بلا تاخیر مسٹر کرلامبو کو ٹکٹیں روانہ کر دیں۔
اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اُسے اچانک خیال آیا کہ پمفلٹ یونانی زبان میں تو شائع کرایا ہی نہیں۔ اس نے فوراً بھاگ دوڑ شروع کر دی، لیکن یونانی زبان جاننے والا کوئی نہیں مل رہا تھا۔ کولٹ کے لیے سخت مشکل آن پڑی۔
’’یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح حل ہونا چاہیے اور وہ بھی جلد از جلد۔‘‘ کولٹ نے ایک اداکارہ کے سامنے اپنا مسئلہ پیش کرتے ہوئے کہا۔
’’یہاں تو ایسا آدمی شاید ہی کوئی مل سکے۔‘‘ اداکارہ سوزان نے چند لمحے سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ’’تم ایڈنبرایونیورسٹی کیوں نہیں چلے جاتے۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں کوئی نہ کوئی یونانی زبان جاننے والا مل جائے گا۔‘‘
’’مشورے کا شکریہ۔ ایڈنبرا یونیورسٹی آنا جانا کچھ آسان نہیں۔ کوئی اور صورت اگر نہیں بنی تو پھر مجبوراً تمہاری تجویز پر عمل کروں گا۔‘‘
کولٹ کچھ دل برداشتہ ہو کر اُٹھ گیا۔ سامنے ہی اسے ہنری گرانٹ نظر آ گیا۔ اس نے گرانٹ سے اپنی مشکل کا ذکر کر دیا۔
’’یہ کون سی ایسی پریشانی کی بات ہے۔ تم فوراً وان فزجیرالڈ کے پاس چلے جاؤ۔ وہ تمہاری مشکل حل کر دے گا۔‘‘ گرانٹ نے شان ِبے نیازی سے کہا۔
’’یہ کون ذات شریف ہیں؟‘‘ کولٹ نے دلچسپی سے پوچھا۔
وان فزجیرالڈو ایک آئرش دکاندار ہے۔ ہائی اسٹریٹ پر اس کی ریڈی میڈ گارمنٹ کی بہت بڑی دکان ہے۔ وہ ایک ہنس مکھ اورزندہ دل انسان ہے۔ ’’تم آج ہی وہاں چلے جاؤ۔ اسے میرا حوالہ دینا، تمہارا کام فوراً ہو جائے گا۔
’’لیکن وہ آئرش ہے، کیا وہ یونانی زبان پر دسترس رکھتا ہے؟‘‘ کولٹ نے حیرانی سے پوچھا۔
میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں، وہ یونانی زبان بالکل اہل زبان کی طرح جانتا ہے۔ کافی عرصہ وہ ایتھنز میں رہا ہے اور اب بھی کاروباری سلسلے میں اس کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔‘‘ گرانٹ نے کولٹ کو آگاہ کیا۔
’’یار! تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ تم خود ہی اس کے پاس چلے جاؤ اور ترجمہ کروا کے پمفلٹ بھی چھپوا لو۔ اخراجات کیشئر سے لے لینا۔‘‘ کولٹ نے گویا گرانٹ کو حکم دیا اور گرانٹ نے فوراً ہامی بھر لی۔ ’’میں وان کو ابھی پکڑتا اور جلد از جلد کام مکمل کرانے کی کوشش کرتا ہوں۔ تم بے فکر ہو جاؤ۔‘‘ دونوں نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنے اپنے کام پر چل پڑے۔
تین دن بعد گرانٹ نے ترجمے کا پلندہ لا کر کولٹ کے حوالے کر دیا۔ ترجمہ چھپوا لیا گیا۔ پھر بالاآخر وہ رات آن پہنچی، جس کا بے شمار لوگوں کو نہایت بے چینی سے انتظار تھا۔ پہلا شو انتہائی کامیاب رہا۔ ڈراما ختم ہونے کے بعد کولٹ نے چیدہ چیدہ شخصیتوں کو ڈنر پر مدعو کیا۔ کھانے کے دوران بات چیت ہوتی رہی اور تبصرے بھی ہوتے رہے۔
کولٹ نے مسٹر کرلامبو سے ان کی رائے دریافت کی۔ ’’واہ! ایسا عمدہ ڈراما اور پیشکش کا اندازہ اتنا خوبصورت، اداکاری بھی لاجواب تھی۔ میں تو آپ لوگوں کی کارکردگی سے بہت متاثر ہوا۔‘‘ مسٹر کرلامبو نے شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: ’’لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ آپ نے یہ پمفلٹ ہمیں کیوں نہیں دیا تھا؟‘‘ اور اس نے پمفلٹ کولٹ کے سامنے کر دیا، جو وان فزجیرالڈ نے یونانی زبان میں شائع کروایا تھا۔
کولٹ کے چہرے پر ایک فاخرانہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ ’’دراصل یہ آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ معززین کے لیے نہیں ہے۔ کمپنی نے ڈرامے کے اہم خیالات کا یونانی زبان میں ترجمہ کروایا ہے، تاکہ جو لوگ انگریزی زبان سے کما حقہ واقف نہیں، وہ ڈرامے کی روح کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔‘‘
’’کیا آپ نے اس ترجمے کو پڑھا ہے؟‘‘ مسٹر کرلامبو نے چبھتی ہوئی نگاہ مسٹر کولٹ پر ڈالی۔
’’نہیں، میں یونانی زبان سے ناواقف ہوں۔‘‘ کولٹ نے اعتراف کیا۔
’’ترجمے کا کام آپ لوگوں نے کس سے کروایا تھا؟‘‘ مسٹر کرلامبو نے سوال کیا۔
’’یہاں ایک دکاندار ہے، وان فزجیرالڈ، جو تیار شدہ ملبوسات کا کاروبار کرتا ہے۔ وہ یونانی زبان جانتا ہے۔ ہم نے سارا کام اسی سے کروایا ہے۔‘‘ کولٹ نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا اچھا! میں سمجھ گیا۔ وان فزجیرالڈ بہت ہی چلتا پرزہ ہے۔ میں اس کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ مسٹر کرلامبو نے ایک طویل قہقہہ لگایا۔ ’’تجارت میں اس کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانا خوب جانتا ہے۔‘‘
’’لیکن بات کیا ہے؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟ ‘‘کولٹ نے جزبز ہو کر کہا۔ ’’آپ کو اس ترجمے میں کیا خامی نظر آئی ہے؟ براہ کرم بتائیے تاکہ میں اسے درست کروا لوں۔‘‘
’’میں آپ کو اس پمفلٹ کا ترجمہ انگریزی میں سناتا ہوں، تب آپ کی بے چینی رفع ہو جائے گی اور آپ لوگ جان لیں گے کہ وان فزجیرالڈ کتنا بڑا فن کار ہے۔‘‘ اور مسٹر کرلامبو نے وہ پمفلٹ پڑھنا شروع کیا:
’’ڈراما ’’ہیملٹ‘‘ مصنف: ولیم شیکسپیئر
’’ڈرامے کے ایک سین میں ایک کردار یولونیس اپنے بیٹے لاریز کو ملبوسات کے انتخاب کے بارے میں سمجھاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ مختلف مواقع پر کون کون سے ملبوسات کب اور کس سلیقے سے استعمال کرنے چاہئیں۔ لباس کا درست انتخاب واقعی ایک مشکل کام ہے لیکن اس سے زیادہ نازک کام دکان کا انتخاب ہے۔ یوں تو لندن میں ہزاروں دکانیں ہیں، جہاں طرح طرح کے ملبوسات بھرے پڑے ہیں، لیکن ہائی اسٹریٹ پر واقع وان فزجیرالڈ کا اسٹور کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ وہاں انواع و اقسام کے ملبوسات موجود ہیں۔ مناسب دام، خوبصورتی، پائیداری اور بہترین تراش خراش اس دکان کا خاصہ ہے۔ ’ہیملٹ‘ کا ہیرو ہنری گرانٹ اپنا لباس یہیں سے خریدتا ہے۔ یہ دکان ہائی اسٹریٹ پر واقع ہے۔
جس طرح ’ہیملٹ‘ ایک ناقابل فراموش کھیل ہے، اسی طرح وان فزجیرالڈ بھی عظیم ہے۔ آپ اگر ایک بار وہاں چلے گئے تو پھر آئندہ کسی اور دکان پر جانے کا نام بھی نہ لیں گے۔‘‘

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles