31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

پیوند

ہندی کہانی

پیوند

بلراج کومل

چونکہ مغربی اُفق پر بادل چھائے ہوئے تھے، ڈوبتے سورج کی سُرخی دکھائی نہ دیتی۔ اُس سے تھوڑی دیر قبل روشنی کی لال لکیر سی نظر آئی ضرور، مگر جلد اندھیرے میں غائب ہو گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک سانپ نے اپنے دانت پیوست کر کے اپنا سارا کالا زہر یک لخت انڈیل دیا ہو۔ پربھاشنکر کے اردگرد بھی اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
پربھا شنکر نے پان دان اُٹھا کر کھولا اور اپنی آنکھیں کسی قدر سکوڑ کر اس کے اندر غور سے دیکھا۔ اس میں صرف آدھا پان تھا جو مرجھا کر سوکھ چکا تھا۔ پچھلے دو دن سے وہ ہنس مُکھ سے کہتا ہی رہا کہ پان کی گڈی لے آئے مگر بے سود۔ بڑی احتیاط سے اس نے پان کے دو حصے کیے۔ ایک حصہ پان دان میں محفوظ کر دیا اور دوسرے آدھے حصے پر چونا، کتھا رگڑنے لگا۔ پھر اُسے اپنے منہ میں رکھتے ہوئے تھوڑا سا تمباکو بھی پھانک لیا۔
سامنے کمرے کے اندر، سٹریٹ لیمپ کی روشنی پڑ رہی تھی۔ اس کی مدد سے کھونٹی پر سے اپنا کوٹ نکال کر پہن لیا اور سر پر ٹوپی رکھ لی۔ اس کی عادت تھی کہ گھر سے باہر نکلتے تھوڑا سا پانی ضرور پیتا۔ جب تک پاروتی زندہ تھی، وہ باہر جانے کو تیار ہوتا تو وہ پانی کا گلاس لے کر منتظر کھڑی رہتی۔
پچھلے ایک سال سے بہت سارے کام اسے خود ہی کرنے پڑتے تھے۔ پربھا شنکر پانی پینے اس مقام پر پہنچا جہاں پانی رکھا ہوا تھا۔ پانی پینے کے بعد جیسے ہی پلٹا، اسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے کوٹ کی آستین پکڑ کر اسے روک لیا ہے۔ وہ پوچھے بغیر رہ نہ سکا۔ ’’کیوں ہنس مُکھ کی ماں، کیا بات ہے؟‘‘ پھر وہ چونک سا گیا۔ سوالات خاموش تاریکیوں میں کھوئے جا رہے تھے۔
بڑے لڑکے منی شنکر کی موت کے بعد پربھا شنکر بے حد اُداس رہنے لگا تھا۔ پاروتی پہلے اس کی آستین تقریباً کھینچ کر اسے متوجہ کرتی تھی اور پھر اس سے ہم کلام ہوتی۔ اسے اپنی شادی کے دو سال بعد کی ایک بات یاد آ گئی۔ بوڑھے والدین اس وقت زندہ تھے اور وہ سب مل جل کر رہتے۔ پربھا شنکر نے ابھی ابھی صبح کا کھانا ختم کیا تھا۔ اپنے کام پر نکلنے ہی والا تھا کہ پاروتی نے اس کی آستین کھینچ کر اسے روکا اور خوشخبری سنائی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔
ایک مشترکہ خاندان کی ساری پابندیوں اور رسموں کے باوجود وہ دونوں ساتھ ساتھ رہے۔ وہ شاذونادر ہی تنہائی میں ایک دوسرے سے مل سکتے تھے یا بات کرتے۔ کوئی نہ کوئی ہمیشہ آس پاس ہوتا۔ راتوں کو پربھا شنکر اپنے والدین کو گیتا پڑھ کر سناتا۔ جب وہ فارغ ہو کر آتا تو پاروتی دن بھر کی مصروفیت سے تھک کر، بستر کنارے بیٹھی ہوئی نیند سے بوجھل آنکھوں کو بڑی مشکل سے کھلا رکھنے کی کوشش کرتی۔ پربھا شنکر بڑا کم گو آدمی تھا۔
جس دن پاروتی مر گئی، اس دن بھی اسی طرح آستین پکڑ کر اسے روکا اور پوچھا تھا۔ ’’کیا آج کے دن بھی تمہارا کام پر جانا ضروری ہے۔ کیا تم آج رُک نہیں سکتے؟‘‘
اس کے فوراً بعد، یہ محسوس کرتے ہوئے کہ پربھا شنکر اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں کوئی تبدیلی برداشت نہیں کرتا، اس نے کہا۔ ’’ہاں، ہاں، تم رُک نہیں سکتے۔ پتا نہیں کیوں میں نے ایسا سوچا۔ لو، یہ پانی لو اور جاؤ۔‘‘
اس لیے جب کوٹ کی کہنی کے پاس سے پھٹی آستین دروازے کی کنڈی میں پھنس گئی، تو پربھا شنکر نے بے ساختہ پن سے، بے خبری کے عالم میں پوچھا ’’کیوں ہنس مکھ کی ماں کیا ہے؟‘‘ مگر جواب میں وہ مانوس آواز نہیں تھی۔ اس لیے پربھا شنکر خود ہی کہتا رہا۔ ’’کیا تم کہہ رہی تھیں کہ کوٹ پھٹا ہوا ہے؟ کیا میں اس پر پیوند لگا دوں؟ مگر مجھے سوئی دھاگا کہاں سے ملے گا؟‘‘
تھوڑی دیر کے لیے، پربھا شنکر اسی جگہ کھڑا رہا، کف افسوس ملتا ہوا۔ اچانک، جیسے پاروتی کی ناراضگی کو اس کے چہرے پر پڑھ لیا ہو، اس نے کہا۔ ’’تم ہی کہو کہ میں کیا کروں؟ تم جانتی ہو کہ میں بار بار ایسے کاموں کے لیے اپنی بہو کے پاس جا نہیں سکتا۔ ٹھیک ہے۔ میں خود پیوند لگا لوںگا۔ یہی ٹھیک رہے گا نا؟‘‘
اس نے لفظ پیوند کو تین چار بار خود ہی دہرایا۔ ایک بار پھر وہ خیالوں میں کھو گیا۔ ان کا گھر آگ میں جل کر خاکستر ہو گیا تھا۔ ان کے پاس ایک انچ بھی جگہ نہیں تھی۔ اس کا باپ پیشے سے پجاری تھا۔ اس کی بہنیں ابھی کنواری تھیں۔ اس لیے پربھا شنکر جبکہ وہ ابھی پندرہ سال کا بھی نہ تھا، ایک دکان میں تمباکو کاغذوں میں لپیٹ کر چھوٹے چھوٹے پیکٹ بنانے کی ملازمت کرنے لگا۔ اس نے تب تک ورٹیکلر کا آخری امتحان دے ڈالا تھا۔
پانچ سال کی ان گنت مصیبتوں و پریشانیوں کے بعد اسے ماہانہ پندرہ روپے کی تنخواہ پر ایک دور اُفتادہ انجان گاؤں کے پرائمری اسکول میں استاد کی حیثیت سے ملازمت مل گئی۔ گھر کا خرچ چلانے اور بہنوں کی شادی کرنے تک اس کی عمر پینتیس سال ہو گئی۔ تب کہیں جا کر اس کی شادی کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ شادی کے فوراً بعد، پاروتی کو لانے کے لیے وہ جب سسرال گیا تو اس وقت جو گفتگو ہوئی، وہ اسے اب بھی یاد تھی۔ اس نے کہا تھا، ’’اب میں جوان نہیں رہا۔ میرے سارے خواب بے جان ہو چکے، پھر بھی، کیا تم میرے ساتھ رہنا پسند کرو گی؟‘‘
پاروتی نے وہ الفاظ دہرا دیے جو اس کی ایک سہیلی نے اسے رٹائے تھے۔ ’’میرے لیے تم سب کچھ ہو۔ مجھے اور کیا چاہیے؟‘‘
پربھا شنکر نے کہا تھا، ’’مگر ہمارے گھر میں حالات ایسے ہیں کہ تم تین چیزیں باندھ رہی ہو تو تیرہ چیزیں بکھری پڑیں گی۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے بجائے تمہارا بیشتر وقت سمجھوتہ کرنے اور پیوند لگانے میں ہی کٹ جائے گا۔‘‘
پاروتی کا جواب جیسے پہلے ہی سے نوک زبان پر تھا۔ ’’ٹھیک ہے، تم جتنے بھی پیوند لگانے کو کہو گے، میں پیوند لگاتی جاؤں گی اور تھکوں گی نہیں۔‘‘
مگر اب وہ کہاں تھی؟ وہ تو آخر تھک ہی گئی نا؟ پربھا شنکر نے اپنے دیوتا کے سامنے چراغ جلانے کے لیے ماچس کی ڈبیہ تلاش کی۔ اسے تیلی نہ ملی مگر ایک خالی ڈبیا کے اندر ایک سوئی اور دھاگا ملا جنہیں لے کر وہ گھر کے سامنے والے راستے پر آ گیا۔ اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں اس نے پھٹے حصے کے سائز کا اندازہ لگایا۔
گدے کے نیچے رکھے چیتھڑوں میں سے اس نے مناسب سائز کا ایک کپڑا نکالا تھا۔ وہ چیتھڑا کوٹ سے میل نہیں کھا رہا تھا مگر اسی قسم کا کپڑا کہاں سے لایا جائے؟
پربھا شنکر نے اپنی نظریں سوئی پر جما دیں اور اسٹریٹ لیمپ کی روشنی میں سوئی میں دھاگا پرونے لگا۔ اپنی زبان سے دھاگے کے سرے کو گیلا کیا اور اُسے کسی قدر مروڑ کر سخت کیا۔ بار بار کوشش کی مگر دھاگا پرونے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
ٹھیک اسی وقت، اسٹریٹ لیمپ کے پاس کھیلتے ایک لڑکے نے اُسے دیکھا۔ تھوڑی دیر تک اس نے پربھا شنکر کو اپنی کوششوں میں ناکام ہوتے ہوئے دیکھا۔ تب اس کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ پہلے پہل لڑکا دیوار سے گرتا ہوا پلستر کھُرچنے لگا پھر پربھاشنکر کی کشمکش کو دیکھنے لگا۔ تب پربھاشنکر نے اسے دیکھا اور پوچھا ’’تم کون ہو بیٹا؟‘‘ کیا تم منو ہو؟ دیا شنکر کے بیٹے؟‘‘
’’جی ہاں دادا۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا۔
پربھاشنکر لڑکے کے مؤدبانہ جواب سے خوش ہو گیا اور کہا:
’’بیٹا! کیا تم یہ دھاگا پرو سکتے ہو؟‘‘
’’ہاں دادا، مگر ایک شرط پر۔‘‘ منو نے جواب دیا۔ ’’تم مجھے ایک کہانی سناؤ گے۔‘‘
’’وہ تو تمہاری دادی تھی، جو کہانیاں سناتی تھی۔ مگر میں…نہیں‘‘
’منو نے ٹوک کر کہا۔‘‘ دادا، آپ بہانہ بنا رہے ہیں مگر یہ بہانہ نہیں چلے گا۔ دادی نے تمہیں بھی بہت سی کہانیاں سنائی ہوں گی۔ ان میں سے کوئی کہانی مجھے سنا دو۔‘‘
پربھاشنکر نے ہار مان لی۔ اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ تم پہلے سوئی میں دھاگا پرو دو، میں تمہیں کہانی سناؤں گا۔‘‘
منو نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ پربھاشنکر نے ایک چیتھڑا اپنی پھٹی آستین پر لگایا اور جس قدر بھی ممکن تھا، توجہ سے سینے لگا۔
’’ایسا ہوا کہ بے شمار سال پہلے…‘‘ پربھاشنکر نے کہنا شروع کیا۔
’’کوئی سو سال پہلے؟‘‘ منو نے پوچھا۔
’’نہیں۔ یہ ہوا تھا کوئی ایک ہزار سال پہلے۔‘‘ پربھا نے کہا۔ ’’ایک راجہ تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا۔ اس کا نام چرایو تھا۔ اس کا مطلب ہے لمبی عمر والا۔ وہ بہت خوبصورت تھا۔ بچپن ہی سے۔ اُسے جو بھی دیکھتا، اس کی خوبصورتی کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا گیا، اس کی خوبصورتی بھی بڑھتی گئی۔ جب کبھی راجہ رانی اسے دیکھتے، ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔‘‘
’’دادا، یہ کیا بات ہوئی؟ ہے نا؟‘‘ منو نے کہا۔ ’’جب وہ اتنا خوبصورت تھا تو کیا بات ہے کہ جب بھی راجہ رانی اسے دیکھتے، خوش ہونے کے بجائے آنسو بہانے لگتے؟‘‘
’’ہاں، بیٹا۔‘‘ پربھاشنکر نے کہا۔ ’’راجہ رانی اس کی خوبصورتی سے پریشان تھے۔ وہ اس وقت سے خوف کھا رہے تھے جب اس کی خوبصورتی زائل ہو جائے گی۔ اسی لیے وہ رنجیدہ ہو کر رو پڑتے۔ جب شہزادے کی عمر سولہ سال کی ہو گئی تو ساری ریاست میں خوشیاں منائی گئیں۔ اسی دوران راجہ کے پاس ایک خبر پہنچی کہ ان کے صدر مقام پر ایک سادھو آیا ہے جس کے پاس کراماتی قوت ہے۔ وہ شہر کے باہر بڑ کے پیڑکے نیچے ٹھہرا ہوا ہے اور اس کے اطراف مقدس آگ دن رات جلتی رہتی ہے۔
’’راجہ رانی اس سے ملنے گئے۔ انھوں نے سونے کی تھالی میں کچھ پھل اسے پیش کیے اور پوچھا۔ ’’کیا آپ ہماری ایک خواہش پوری کریں گے؟‘‘
’’کیا خواہش ہے؟ مجھے بتاؤ۔‘‘ سادھو نے کہا۔
’’شہزادہ ہماری اکلوتی اولاد ہے۔‘‘ رانی نے کہا۔ ’’ہماری خواہش ہے وہ سداجوان و خوبصورت رہے جیسا کہ اب ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے…‘‘ سادھو نے کہا۔ ’’مگر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر لو۔‘‘
’’دن رات ہمیں یہی فکر کھائے جا رہی ہے۔‘‘ راجہ نے کہا۔ ’’فیصلے پر پھر سے غور کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں تمہیں ریشم کا ایک جاددوئی لباس دوں گا، جسے وہ ہمیشہ پہنے رہے۔ وقت کا اس پر کچھ اثر نہیں ہو گا جب تک کہ وہ اس کے بدن پر رہے گا۔ ڈھلتی عمر کا بھی کوئی نشان اس کے بدن پر نہیں ہو گا۔‘‘
’’راجہ ، رانی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
انھوں نے ادب سے جھک کر اس کی قدم بوسی کی۔ سادھو نے تب یہ کہا۔ ’’مگر اس لباس سے ایک شرط جڑی ہوی ہے۔ اگر تم دونوں میں سے کسی نے بھی اپنے بیٹے کے بارے میں کوئی بُری بات سوچی، تھوڑی سی بھی تو لباس میں ایک چھید ہو جائے گا۔ اور وہ بڑھتا ہی جائے گا۔‘‘
’’یہ سن کر راجہ راجی گہرا دُکھ محسوس کرنے لگے۔ اور تب راجہ نے کہا۔ ’’ہمارا لڑکا ہمیں اس قدر عزیز ہے کہ ایسا خیال ہمارے ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔‘‘
رانی نے بات آگے بڑھائی۔ ’’اگر اتفاقاً ایسا ہو گیا تو کیا ہم اُس پر پیوند لگا نہیں سکتے؟‘‘
سادھو نے کہا۔ ’’پیوند لگایا جا سکتا ہے مگر وہ بہت مشکل ہو گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ راجہ، رانی نے ایک ساتھ پوچھا۔
سادھو نے کہا۔ ’’جو کوئی پیوند لگائے گا، اس کی عمر کے اتنے ہی سال کم ہو جائیں گے جتنے وہ ٹانکے لگائے گا۔ ایک اور شرط بھی ہے اور وہ یہ کہ وہ سال گناہوں سے بالکل پاک ہوں۔ ایک بھی گناہ نہ کیا ہو۔ اور وہ پورے سال بالکل بے داغ ہوں۔‘‘
یہ سُن کر راجہ اور رانی نے کچھ توقف کیا اور گہری سوچ میں پڑ گئے۔ انھوں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ ایسا ہی ہونے دیجیے۔ ہم یہ دونوں شرطیں مان لیتے ہیں۔‘‘
’’اس پر پھر غور کرو۔‘‘ سادھو نے تنبیہہ کی۔ ’’جس لمحے لباس میں چھید پڑا، اس کے پچھلے تمام برسوں کا اثر جسم پر ظاہر ہونے لگے گا۔ جب تک وہ پیوند لگ نہیں جاتا، اس کا جسم اپنی طاقت و توانائی سے محروم رہے گا مگر اتنا ضرور ہے کہ جب تک وہ لباس اس کے جسم پر ہو گا، وہ مرے گا نہیں۔‘‘
’’مگر راجہ، رانی اور کچھ سوچنا نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے جلدی سے ریشم کا وہ لباس دینے کی گزارش کی۔ سادھو نے اس لباس پر ٹھیک درمیان میں ’’سو استک‘‘ کا نشان بنا، راجہ، رانی کو دے دیا۔ یہ لباس لے کر راجہ، رانی، محل لوٹ آئے۔
انھوں نے بڑا دربار لگایا جہاں ایک خصوصی جشن میں، تمام رسم و رواج و روایات کے ساتھ بے حد شاندار طریقے سے شہزادے کو وہ ریشمی لباس پہنا دیا گیا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا دادا؟‘‘ منو نے پوچھا۔
پربھاشنکر پیوند لگانے کا کام جاری رکھتے ہوئے بولا۔
’’سال گزرتے گئے۔ راجہ رانی بہت معمر ہو گئے مگر چرایو بدستور جوان اور ہشاش بشاش رہا۔ اس نے زندگی کے بھرپور مزے لوٹے۔ وہ کسی شہزادی سے شادی کرتا، اس کے ساتھ رہتا اور جیسے ہی وہ بوڑھی ہو جاتی، اسے چھوڑ کر کسی دوسری سے شادی کر لیتا۔ اس سلسلے کا کوئی اختتام ہی نہ تھا۔
’’ایک دن، راجہ، رانی محل کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے تو انھوں نے کسی کی دلخراش چیخ سنی۔ جب دیکھا تو پتا چلا کہ وہ ان شہزادیوں میں سے ایک تھی جنہیں شہزادے نے شادی کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ راجہ نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی، مگر اس نے اپنی زبان کاٹ لی اور خودکشی کر لی۔
راجہ رانی اس سے اتنے دُکھی ہوئے کہ وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس طرح کی سدا بہار جوانی نہ ہی ہوتی تو اچھا تھا۔‘‘
’’اور جیسا کہ سادھو نے پیش گوئی کی تھی، چرایو کے اس ریشمی جادوئی لباس میں ایک چھید پڑ گیا۔ اچانک چرایو کے جسم میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ اس کی ساری جلد، تہ در تہ لٹکنے لگی اور اس کے پورے بدن پر بہتے ہوئے زخم نمایاں ہو گئے۔ لوگوں نے اسے دیکھا تو چہرے موڑ لیے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔
چرایو لڑکھڑاتا ہوا راجہ، رانی کے پاس آیا اور گڑگڑا کر روپڑا۔ ’’مجھے بچاؤ۔ مجھے اس سے بچاؤ۔‘‘ رانی کی آنکھوں سے آنسو رُکتے نہ تھے۔ وہ اس کے پاس گئی اور پیوند لگانے لگی مگر چھید تھا کہ بھرتا ہی نہ تھا، اس لیے کہ راجہ رانی گناہوں سے پوری طرح پاک نہ تھے۔
اس کے بعد درباریوں نے کوشش کی مگر بے سُود۔ اور ہر دن وہ چھید بڑا ہوتا گیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ کسی بھی شخص نے برس کے برس گناہوں سے پاک رکھے ہوں اور چھید بھر سکیں؟ اپنے لڑکے کی اس خطرناک و نازک صورتحال کے غم سے نڈھال ہو کر راجہ رانی مر گئے مگر چرایو زندہ رہا۔‘‘
منو نے پوچھا۔ ’’مگر شہزادے نے وہ لباس نکال کر پھینک کیوں نہیں دیا؟
پربھاشنکر نے جواب دیا۔ ’’تمہیں یاد ہے نا؟ سادھو نے کہا تھا کہ اگر اس نے لباس اُتارا تو وہ مر جائے گا۔ دوسری بات یہ کہ شہزادے کو اب بھی امید تھی کہ کبھی کوئی ایسا آدمی اُسے مل جائے گا جو ایسا پیوند لگا سکے اور وہ پھر سے جوان ہو جائے۔
’’ لوگ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی رات کی تاریکیوں میں ایک بے حد بوڑھا آدمی، جسم پر بے حد پھٹا ہوا لباس پہن کر، لڑکھڑاتا ہوا ان کے گھروں کے سامنے آتا اور پوچھتا ہے۔
’’کیا آپ اس لباس پر پیوند لگا دیں گے؟‘‘ پھر تھوڑی دیر انتظار کر کے آگے بڑھ جاتا ہے۔ مایوس اور رنجیدہ۔‘‘
منو، کافی دیر تک سوچتا رہا۔ کچھ دیر تک اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک بات آئی۔ آنکھوں میں چمک آئی اور وہ کہہ اٹھا۔
’’دادا، تم گل کے نکڑ پر، زینوں پر بیٹھے ، راتوں میں اس کا انتظار کرنا اور اگر تم اسے دیکھو تو مجھے آواز دینا۔ ہم دونوں اس کا لباس اُتار کر پھینک دیں گے۔ اس سے کم از کم اُس کی آوارہ گردی، خستہ حالی تو دور ہو جائے گی… ہے نا؟‘‘
’’ہاں… پربھاشنکر نے کہا۔
اس کے بعد منو کو اطمینان سا ہوا اور گھر چل دیا۔ پربھاشنکر، تھوڑی دیر وہیں بیٹھا رہا۔ جب وہ پھر پیوند سینے لگا تو سوئی اس کی انگلی میں چُبھ گئی۔ اس نے سوئی اور دھاگا کھینچ لیا، اُٹھا اور گھر کے اندر تاریکی میں کھو گیا…!!
٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles