9 C
Lahore
Tuesday, December 10, 2024

Book Store

Defination of lonliness in sufism|واصف علی واصف

تنہائی کیا ہے؟

یہ سچ ہے کہ دُور رہنے والے کو اجنبی نہیں کہا جاتا اور بالکل اسی طرح مسکرا کر ہر ملنے والے کو دوست نہیں کہا جاتا۔
تنہائی تو محض ایک خیال کا نام ہے ۔اگر اس خیال میں دوسرے اجمال شامل ہو جائیں تو تنہائی ختم ہو جاتی ہے۔
تنہائی شرکت ہے، وہ بھی کسی بندے کی یا خدا کی۔
بزرگوں کا کہنا ہے کہ یہ جو میلا ہے ، دراصل اک ہجوم کا نام ہے۔ اس میلے میں ہر انسان اکیلا ہے۔ جب تک کوئی آپ کا شریک اور ساتھی نہ ہو۔
جب تک کوئی آپ کے خیالات پر سوار نہ ہو۔ ورنہ انسان تنہا ہی ہے۔ یہ جو تنہائی ہے یہ آپ کا اپنا ہی نام ہے۔
تنہائی کا علاج اصل میں کسی سے مانگنا نہیں بلکہ کسی کی تنہائی دُور کرنے کا نام ہے۔
تنہائی کا علاج اس طرح نہیں کرنا کہ آپ کسی کو فون کریں کہ آ جاؤ۔ کیونکہ اگر وہ آ بھی گیا تو اس طرح آپ کی تنہائی دُور نہیں ہو گی۔
تنہائی کیا ہے؟
یہ کہ کسی کی تنہائی دُور کریں۔ تنہائی جسم کا نام نہیں ،یہ روح کی تنہائی ہے ،، روح کی ویرانی ہے۔
روح کی ویرانی کب آتی ہے؟ یادوں کا ختم ہو جانا ہی تنہائی ہے۔ یہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہے۔
جب آپ کا دل #کٹھور ہو جائے تو تنہائی مل جاتی ہے ۔ کٹھور ہندی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے سخت۔ لہٰذا جب آپ دل کے سخت ہو جائیں، اور مطلب پرست ہو جائیں تو تنہائی آ جائے گی۔
اللہ تعالٰی فرماتاہے اگر تُم میری یاد سے غافل ہو جاؤ گے توتمہیں سکون نہیں ملے گا۔ یعنی سکون نہ ہو تو تنہائی ہوتی ہے۔
اللہ نے کہا کہ نہیں پاؤ گے سکون مگر اللہ کی یاد میں۔
اللہ کی یاد میں سکون پانے کا مطلب کیا ہے؟ یہی کہ پھر تنہائی ختم ہو جائے گی۔
تنہائی آپ کی روح کی ویرانی کا نام ہے۔ یہ کہیں باہر سے نہیں آتی بلکہ اسے اندر سےہی زنگ لگتا ہے۔ پھر پارٹنر شپ ختم ہو گئی، یا کسی کے شریک ہونے کا غم ختم ہو گیا، تو وہ جذبہ بھی ختم ہو گیا۔
یعنی کسی کو شریک پاؤ نہ کسی کے ساتھ شریک رہو ، تو یہی تنہائی ہے۔
یہ باہر سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہے۔
یعنی دل میں یاد نہ ہو تو تنہائی ہے اور اگر دل آباد ہو تو تنہائی نہیں ہوتی۔ دل کی آبادی ہی تنہائی کا علاج ہے، اگر دل ویران ہو جائے تو پھر تنہائی ہو گی۔
اس لیے دل ویران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا ہمیں افسوس ہو گا کہ ساری عمر گزر گئی اور ہم روحانیت کا علم حاصل کرتے رہے مگر پھر بھی دل میں تنہائی ہی رہی۔
تنہائی اصل میں کیا ہے؟ یہ دل کی ویرانی ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ تنہائی کب نہیں ہوتی؟ جب دل آباد ہو۔ تنہائی باہر سے آتی ہے نہ اندر سے بلکہ یہ تو بدقسمتی سے آتی ہے۔اس وقت آتی ہے جب یاد کم ہو جائے۔
اللہ والےکہتے ہیں کہ قبر میں بھی تنہائی نہیں ہوتی۔ وہاں بھی رونقیں ، میلے ہوتے ہیں۔ سب بزرگ وہاں آتے ہیں۔ وہاں سب تیار ہیں۔
ہم ان کو یاد نہیں کرتے ۔ یہ کمال کی بات ہے جو آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔ آدھی زندگی میں آپ کے مانوس، آپ کے پاس رہنے والے، آپ کے محبوب چہرے ، سب وہاں رہتے ہیں۔
یہ جو آرزوئیں تھیں، اب یہ سارے لوگ وہاں ہیں۔ جنہیں آپ یاد کرتے تھے۔ وہ سارے لوگ وہاں جا چکے۔
آپ کے دوست، بزرگ، درویش، پیر اور فقیر سب ہی اُدھر جا چکے۔ میرا خیال ہے میلہ وہاں زیادہ لگ گیا ہے۔ اب اصل میلہ تو وہاں ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیں بھی میلے میں چلنا چاہیے۔
ایک ہی بات ہو سکتی ہے۔ یا آپ کا محبوب کوئی نہ ہو یا پھر طویل زندگی نہ ہو، کیونکہ محبوب کے بغیر طویل زندگی عذاب ہے۔
محبوب کسی انسان کا نام ہوتا ہے ۔ مقصد سے محبت نہ نظریے سے، قوم سے محبت نہ وطن سے ، ادھر سے محبت نہ اُدھر سے محبت۔
یہ صرف اور صرف بندے سے اور ان میں بھی سب سے بڑے بندے سے محبت اور محبتوں کی انتہا،

الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ سے محبت۔ بس اسی کا نام محبت ہے۔

محبت آخر پھر کس سے ہونی چائیے؟ صرف اللہ کریم اور اللہ کے حبیب پاک سے ہونی چائیے۔ محبت انسان سے ہو اور اس کے لیے جنس کا ہونا ضروری ہو۔ یا تو اللہ تعالٰی یہ بات جانتا نہ ہو مگر وہ تو جانتا ہے کہ یہ مجھ سے کس طرح محبت کریں گے؟ اُنھوں نے تو مجھے دیکھا ہی نہیں ہے۔
اللہ کہتا ہے کہ میرے ساتھ محبت کرو، وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے، اس سے کیا محبت کریں گے، وہ اول بھی ہے اور آخر بھی ہے۔
اگر کوئی کہتا ہے کہ جو زندگی دیتا ہے وہ اللہ ہے، اور مجھے اس سے بڑی محبت ہے، تو اُس سے کہو کہ جو زندگی لے جاتا ہے وہ بھی تو اللہ ہی ہے۔ تو پھر محبت کیا ہے؟
محبت اُس وقت ہو گی جب اللہ تعالٰی اپنا محبوب پاک عطا فرمائے اور پھر اُن سے آپ محبت کریں۔ اپنی زندگی سے محبت کریں اور آپ کے محبوبوں سے محبت کریں اور اُن کے محبوبوں سے محبت کرو اور چلتے چلتے ، اور پھر محبت والوں سے محبت کرو۔

زندگی یہ ہے آپ محبت والوں سے محبت کریں۔

ایسا نہ ہو کہ ہم شریعت کے فتوے ہی لگاتے رہیں کہ انصاف کرو ۔ پھر کسی کو ماریں اور اُسے بتائیں کہ مرنے کے بعد قبر کا عذاب کیسا ہو گا؟
کتابوں میں کیا کچھ لکھا ہے؟ ایسی کتابوں کا نام یہ بنتا ہے کہ اگر اللہ معاف نہ کرے تو کیا ہو گا؟
اور اگر اللہ معاف کر دے تو پھر کیا ہو گا؟ تو کیا اللہ معاف نہیں کرتا؟ اگر اللہ چائے تو کافروں کو معاف کر دے۔ کیا آپ اُسے روک سکتے ہیں؟
جنت میں بھی یہ لوگ فساد مچائیں گے کہ یا اللہ وہ شخص جنت میں کیسے آ گیا؟
اللہ فرمائے گا وہ کیا تیرے پاس آیا ہے؟
وہ کہے گا کہ ہم ایسی جنت میں نہیں رہیں گے۔
اللہ نے کہنا ہے کہ تُو دوزخ میں چلا جا۔
اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میں تو اُس سے راضی ہوں لیکن انسان ناراض ہو جاتا ہے۔
کوئی شخص جو کسی انسان کے ساتھ رنجش رکھتا ہے وہ برباد ہو گیا۔

جنت کسے کہتے ہیں؟

کسی انسان کے ساتھ عناد نہ رکھنا ہی اصل جنت ہے۔ ہر اس چیز اور بات پر راضی رہنا، وہ جو چوری کرکے لے گیا اُس پر بھی راضی رہنا، مال لے گیا اُس پر بھی راضی رہنا۔
آپ جس سے نفرت رکھتے ہو ہو سکتا ہے وہ آدمی وہاں پر پہلے بیٹھا ہو , تو پھر آپ کی جنت رہ جائے گی۔
آپ نے اللہ کریم سے کہنا ہے کہ ,اسے نکال دے۔ اُس نے نکالنا نہیں ہے۔
اس لیے بہتر یہ ہے کہ آپ راضی رہنے کی کیفیت میں آجائیں۔ جنت اسی کیفیت کا نام ہے اور جھگڑے کا نام دوزخ ہے۔
جو لوگ گھروں میں جھگڑے کرتے ہیں وہ توبہ کریں۔ میں کہتا ہوں نہ لڑا کرو، تو پھر پتا ہے کیا کرتے ہیں؟
نفرت کی لڑائی کرتے ہیں۔ اور نفرت غصہ وغیرہ تو جنت والی کیفیت نہیں ہے۔
جنت کا معانی ہے معاف کرنا، معافی دینا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles