جدید تدریسی تقاضے اور اساتذہ کی اخلاقی و پیشہ وارانہ ترجیحات
فاروق طاہر، حیدرآباد، انڈیا
تدریس صرف پڑھانے، سکھانے یا پھر معلومات کی ترسیل کا نام نہیں۔ یہ علم و افکار کی تبلیغ و ترویج کا ایک مقدس وسیلہ ہے۔
تدریس کی حیثیت جب ایک پیشہ سے زیادہ باقی نہ رہے تب تبلیغ و ترویج جیسی اہم ترجیحات بھی نام نہاد معلومات کی ترسیل کی نذر ہو جاتی ہیں۔
اسے صرف نوکری سمجھنے والے اساتذہ کے درمیان آج بھی ایسے کئی دیانت دار موجود ہیں جن کے دم سے درس و تدریس کا امتیاز اور وقار باقی ہے۔
یہ ایک پیشے کا نام نہیں بلکہ مختلف علوم، صلاحیتوں اور استعداد کے مجموعہ و یکجائی کا نام ہے۔
درس و اکتساب پر معاشرے کے بدلتے مزاج اور جدت طرازیوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔
آج درس و اکتساب ہی نہیں بلکہ زندگی کے بیشتر شعبے ٹیکنالوجی کے زیرِاَثر آ چکے۔
جدید تدریسی تقاضوں کی تکمیل اور طلبہ کی ٹیکنالوجی سے رغبت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اساتذہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے روزمرہ کے تدریسی افعال کا لازمی حصہ بنائیں۔
کمرأ جماعت کی افادیت اور تاثیر میں مسلسل اضافے کے خواہش مند اساتذہ کے لیے درس و اکتساب میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بھی اہمیت کا حامل ہے۔
ٹیکنالوجی کو صرف ’’سلیکان کوٹنگ‘‘ کی طرح استعمال کرنے کے بجائے، اساتذہ اسے طلبہ سے بہتر روابط ہموار کرنے، ان کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے موثر طریقے سے بروئے کار لائیں۔تدریس میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے مراد ہرگز یہ نہیں کہ جس طرح سالہا سال سے روایتی کاپی پیسٹ کے طریقے ہمارے زیر استعمال رہے ہیں۔
اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کو بھی روایتی انداز (کاپی پیسٹ) میں مزید آگے بڑھایا جائے۔ جس طرح پاور (طاقت و عہدے)کا نشہ سیاست دانوں کو کرپٹ (مغرور و بدقماش) کر دیتا ہے۔
پاور پوائنٹ کا بےجا اور خراب استعمال بھی اساتذہ اور ان کی تدریس کو بےاثر کر دیتا ہے۔ تدریس خاص طور سے اس وقت اور بھی بے وقعت ہو جاتی ہے۔
جب اساتذہ کے پاس سلائیڈز تو موجود ہوں لیکن وہ ان سلائیڈز کی وضاحت اور تشریح سے قاصر رہیں۔
ٹیکنالوجی (پاور پوائنٹ و دیگر ای مواد) کو تحصیل، تفہیم اور ترسیل علم کا واحد و حتمی ذریعہ سمجھنے کے بجائے اساتذہ اسے تحصیل، تفہیم اور ترسیل علم کے کارگر وسیلوں میں سے ایک وسیلہ ہی تصور کریں۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے تدریسی امور کو موثر و مثبت بنانے کے لیے ٹیکنالوجی سے مربوط نئے تدریسی امور و زاویوں پر نہ صرف سنجیدگی سے غور و خوص، بلکہ انھیں تدریسی افعال میں عملاً نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ڈیجیٹل درسیات کی تیاری و تدوین، ٹیکنالوجی کے جال میں گرفتار آج کے معاشرے میں اور بھی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔
اساتذہ کو خود اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ جہاں، دنیا انٹرنیٹ کے ترسیلی جال میں سمٹ کر ایک چھوٹی سی بستی کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
وہاں بچوں کے درس و اکتساب کے کارگر وسیلے اور طریقہ کار کیا ہوں گے؟
نصابی کتب اور اسباق کی ڈیجیٹل پیشکش (جس پر آج ہم تکیہ کیے ہوئے ہیں) یہ درس و اکتساب کو کامیاب بنانے کے لیے ناکافی ہیں۔
طلبہ کے تعلیمی و اکتسابی تسلسل کو مجروح کیے بغیر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر مہمیز کرنے والے ڈیجیٹل پلاٹ فارمس و وسائل کی فراہمی درسیات، مواد، تکنیک اور طریقوں کی تخلیقی صورت گیری نہایت ضروری ہے۔
ہم روایتی کمرأ جماعت سے بلاک بورڈ کی جگہ اسمارٹ بورڈ کی تنصیب ،چاک اور ڈسٹر کے بجائے اسمارٹ ٹیچنگ ٹولس کو رواج دے کر ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتے ہیں کہ ہمارے کلاس رومس اسمارٹ ہو چکے ہیں۔
بھلا صرف ٹیکنالوجی و ٹیکنالوجیکل ٹولس کی فراہمی سے روایتی کلاس روم، اسمارٹ کلاس روموں میں کیسے تبدیل ہو سکتے ہیں۔
بچوں میں جان ہوتی ہے۔ ان میں محبت ، نفرت کی پہچان پائی جاتی ہے۔ وہ بے حس و بے جان نہیں ہیں۔
ان کے اندر عقل، دانش، غیرت و حمیت، خوشی، مایوسی، رنج و غم، دوستی، دشمنی، سود و زیاں جیسے مختلف جذبات پائے جاتے ہیں۔
کمرا جماعت کو لاکھ جدید تدریسی ٹیکنالوجیکل ٹولز(ٹیکنالوجی آلات) سے آراستہ و پیراستہ کر دیا جائے۔
اساتذہ جب تک بچوں کی اکتسابی انفرادیت کو ملحوظ نہیں رکھیں گے، یہ ٹولس بچوں میں تحریک و ترغیب پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔
اساتذہ جب تک بچوں کے جذبات و احساسات کی قدر نہیں کریں گے۔ بچے درس و اکتساب کی طرف مائل نہیں ہوں گے۔
کیا بےجان آلات و ٹولز، جان دار بچوں کی نفسیات سمجھ سکتے ہیں؟
روایتی کمرأ جماعت، جدید تعلیمی ٹولز و ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ اساتذہ کی شفقت، محبت، دیکھ بھال، احساس ذمہ داری اور ان کی ترجیحات سے اسمارٹ کلاس روم میں تبدیل ہو گا۔
اساتذہ جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیمی ٹولز پر ہی اکتفانہ کریں
بلکہ بچوں کی نفسیات و جذبات سے کماحقہ واقفیت حاصل کرتے ہوئے ان کے قلب و ذہن میں گھر بنائیں تاکہ ان کی تدریس اسمارٹ کہلائے۔
مچھلی کے شکار کے لیے گَل پر کیچوے لگائے جائیں گے تو ہی مچھلیاں پکڑی جائیں گی۔
کیچووں یا آٹے کے لدوں کے بجائے لکڑی کے ٹکڑے یا پھر کچھ اور لگائیں گے
تو یہ عمل بے سود ثابت ہو گا اور کوئی مچھلی ہاتھ نہیں لگے گی۔
یاد رہے! آپ کا سامنا کسی روبوٹ سے نہیں بلکہ اشرف المخلوقات سے ہے۔
درس و تدریس میں ٹیکنالوجی سے پیدا شدہ نئی صورت حال سے نبرد آزمائی کے لیے ہمیں ایسی درسگاہوں کی ضرورت ہے جو تخلیق، ایجاد اور دریافت کو فروغ دے۔
جدیدیت سے پیدا شدہ افراتفری پر حکمت و دانائی سے قابو پائے۔ جہاں کمزور روایات کی اصلاح ہو۔ متناسب و مکمل شخصیت کی تعمیر ہو۔
جدید طریقہ تعلیم سے مراد صرف درسیات(Pedagogy)کی تبدیلی ہی نہیں
بلکہ ایک منفرد معیاری ،سائنسی نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔
اساتذہ کو تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور تعلیمی ٹیکنالوجی سے متعلق اپنے افکار و نظریات میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
آج ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر پل کوئی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ ایک منٹ میں انگنت ٹوئٹس کیے جاتے ہیں۔
فیس بک پیج یا کسی دوسرے سوشل میڈیا پلاٹ فارم پر ہر منٹ بے شمار ناظرین اپنی حاضری درج کرواتے رہتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے مختلف تعلیمی پلاٹ فارم ترسیل علم میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔
اسکول اور کمرأ جماعت میں پئیر لرننگ جس طرح فروغ اکتساب میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
ٹیکنالوجی بھی پئیر لرننگ کی طرح طلبہ کو ایک خودکار اکتسابی کلچر (اسکیومارفزمSkeuomorphism) فراہم کرتی ہے۔
جہاں طلبہ کسی تحدید و بندش کے بغیر تعلیمی نظام سے تعامل و ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے مسلسل سیکھتے رہتے ہیں۔
اس طریقہ کار کو ماہر تعلیم ڈونالڈ نارمیان (Donald Norman) نے اسکیو مارفزم سے تعبیر کیا ہے۔ جدید تعلیمی دنیا میں اسکیومارفزم تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والی ایک خاص اصلاح ہے۔
ڈونالڈ نارمیان اس اکتساب کو تمام تحدیدات و بندشوں سے ماورا قرار دیتا ہے۔
اسکیومارفزم ایک ایسے تعلیمی ماحول کو وجود میں لاتی ہے جس کے زیر اثر طلبہ ایک خاص تعلیمی ماحول میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ازخود سیکھنے لگتے ہیں۔
برمنگھم یونیورسٹی کے ماہر تعلیم ڈین اوہارا (Dan O’Hara) کے مطابق اسکیومارفزم تکنیک، ٹیک انڈسٹری میں صرف چند سالوں سے ہی استعمال کی جا رہی ہے۔
اُن کے مطابق اسکیومارفزم کوئی ایسی شے نہیں جسے ڈیزائن کیا جائے،
بلکہ یہ مخصوص تعلیمی ماحول اور ٹیکنالوجی کے تعامل سے از خود انجام پانے والا اکتساب ہے۔
سہل انداز میں اسے ماحول کے ذریعہ اکتساب کا نام دیا جا سکتا ہے۔
انسانوں کے اندر موجود جمالیاتی حس، جس طرح انہیں حسن و قبیح کا احساس دلاتی ہے۔
اسکیومارفزم بھی ایک خاص تعلیمی نظام میں ٹیکنالوجی سے مل کر از خود اکتساب کو فروغ دیتی ہے۔
#فِلکر Flickr(فلکر ڈاٹ کام) پر رکھی گئی لاتعداد تصاویر اکتساب کے آفاقی معیار کی نمائندگی کرتی ہیں ۔یہ اکتسابی عمل میں اہمیت کی حامل ہیں۔
#ایپل اسٹور پر ہر منٹ میں 47000 سے زیادہ ایپس ڈاؤن لوڈ کئے جاتے ہیں۔
اس بات سے تشنگان علم کی علمی پیاس کی شدت اور حصول علم کی نئی جہات کا انداز لگایا جا سکتا ہے۔
2004 سے قبل اس طرح کی سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔
آن لائن ڈیٹا کی دستیابی نے سیکھنے کے خواہشمند افراد کو بہت تیزی سے اپنی جانب راغب کیا۔
ٹیکنالوجی نے سیکھنے والوں کو بیک وقت کئی مہارتوں اور استعدادوں کی نہ صرف معلومات بہم پہنچائیں بلکہ انھیں عبور سے بھی ہمکنار کیا۔
آن لائین ڈیٹا نے ایک آدمی، ایک کام کے نظریے کو مات دے کرآدمی کو کثیرالجہات بنا دیا ہے۔
تیزی سے بدلنے والی دنیا میں یہ ایک بڑی تلخ حقیقت ہے کہ اسکولوں میں سالہا سال سے کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے۔
آج بھی اسکولوں میں روایتی انداز میں یا پھر نمائشی طور پر ٹیکنالوجی کو جگہ دی گئی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ٹیکنالوجی پر مبنی طریقہ تدریس کے ناکام تجربات کی بھی کئی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں ۔
ـ”Failed iPad Experiment Shows BYOD Belongs in Schools.”
“LA,Cancles iPads in the schools’ program,a failure of vision,not technology.
اسکولوں میں کثیر سرمایہ کاری کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ
ٹیکنالوجی کو مدارس میں نافذ کرنے کے ہمارے منصوبے، طریقے اورحکمت عملیاں ناکام ہو گئی ہیں۔
حقائق کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ
تعلیم اور تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی کے نفاذ میں ناکامی ٹیکنالوجی کی ناکامی نہیں
بلکہ ہمارے تعلیمی نظام،
تعلیمی منصوبہ بندی ،
تعلیمی نصاب ،
درسیات،
اور تعلیمی طریقہ کار کی ناکامی ہے۔
بحیثیت معلم ہماری غلطیوں میں ایک اہم غلطی کاپی پیسٹ (نقل،چسپاں) ہے۔
Ctrl+C اور Ctrl+V سے اکتسابی و درسیاتی مسائل کا حل ناممکن ہے۔
خاص طور پر اس طرح کے عمل سے مسائل اور بھی پیچیدہ اور پریشان کن بن جاتے ہیں۔
کاپی پیسٹ کا غلط استعمال اسکولوں میں ٹیکنالوجی کے نفاذ کے دوران ریکارڈ کی گئی غلطیوں میں سے ایک نمایاں طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔
مذکورہ مباحث کی روشنی میں ایک نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ
موجودہ صورت حال میں تدریسی منظر نامے کو بڑی حد تک تبدیل کرنا بےحد ضروری ہے۔
بنیادی تدریسی اصولوں میں تبدیلی کے لیے ایک فعال تدریسی نمونہ و ماڈل کی ضرورت ہے
تاکہ کاملیت کے حصول کے سفر میں ہمیں پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہ پیش آئے۔
اساتذہ کو جامع تعلیم (Holistic Education) کی حمایت میں آگے آنا چاہیے۔
جامع تعلیم کی فراہمی سے سیکھنے والوں کی اکتسابی عادات میں فرق پیدا ہو گا
بلکہ شرح اکتساب میں بھی خوشگوار تبدیلی واقع ہو گی۔
کمرا جماعت کی اکتسابی سچائیوں میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ
طلبہ جس اُستاد کو پسند کرتے ہیں، اس کے مضمون کو بھی پسند کرتے ہیں۔
باالفاظ دیگر یوں کہہ لیجئے کہ طلبہ اسی مضمون کو پسند کرتے ہیں جس کی تدریس ان کے پسندیدہ اساتذہ انجام دیتے ہیں۔
اس حقیقت کے پیش نظر اساتذہ کے پاس طلبہ کی فلاح و بہبود پر مبنی ایک مبسوط روزمرہ کا واضح منصوبہ ہونا چاہیے۔
اس منصوبے سے طلبہ نہ صرف کامیابی کی سمت جست لگائیں گے
بلکہ ان کی اکتسابی مسرت کے اشاریے میں بھی نمایاں ترقی ریکارڈ کی جائے گی۔
درس و اکتساب کے تشویشناک پہلوؤں میں اساتذہ کے لیے جو سب سے زیادہ تشویش کا پہلو ہے وہ درحقیقت کمرا جماعت کا انتظام و انصرام(Classroom Management) ہے۔
اساتذہ اگر طلبہ سے محبت و شفقت سے پیش آتے ہیں، تو کلاس روم کا انتظام بدنظمی و بھونڈے پن سے محفوظ رہے گا۔
بیشتر اساتذہ کمرا جماعت کے انتظام و انصرام کو صرف نظم و ضبط کے زاویہ سے ہی دیکھتے ہیں۔ان کے نزدیک کمرا جماعت کے انتظام و انصرام سے مراد
جماعت میں طلبہ کو خاموش رکھنا ہے۔ کمرا جماعت کا انتظام و انصرام درحقیقت تدریسی اہداف کا حصول،
تدریسی طریقہ کار و تکنیک کا اطلاق،
مثبت تدریسی افعال،
تدریسی محاصل پر نگاہ اور طلبہ کے اکتساب کی رفتار و ترقی کی نشاندہی وغیرہ سے منسوب ہے۔
سینئر اساتذہ خاص طورپر کمرا جماعت کے تصور کو وسیع تناظر میں دیکھیں۔
اپنے ساتھی اساتذہ کو کمرا جماعت کے کامیاب انتظام و انصرام پر مبنی
ایک واضح فریم ورک (عملی منصوبہ) فراہم کریں،
تاکہ وہ انتظام و انصرام کا موثر منصوبہ ترتیب دیں۔
طلبہ کو درسی سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہوئے کچھ وقت کے لیے تو کمرا جماعت کا انتظام و انصرام بحال رکھا جا سکتا ہے۔
لیکن ایک فعال کمرا جماعت کے (کلاس روم) کے قیام کے لیے اساتذہ کا مشفقانہ رویہ،
ہمدردانہ طرز عمل،
طلبہ،
اساتذہ کے مابین خوش گوار تعلقات بہت اہم ہیں۔
ایک بے جان خیالی منصوبہ کافی نہیں ۔
کمرا جماعت کے انتظام و انصرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ایک حقیقی
(فزیکل/عملی) مبسوط، جامع، فعال ومتحرک منصوبے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔
اساتذہ کے لیے پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق ضروری ہے .
یہ نہ صرف ان کی اساسی ذمہ داریوں کا احاطہ کرتا ہو بلکہ طلبہ کی زندگی میں ان کے کردار، معنویت اور اہمیت کو بھی وضاحت سے پیش کرتا ہو۔
تدریسی پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق سے اساتذہ کی تدریس سے وابستگی و بلند عزائم ،
درس و اکتساب کے اہداف کے حصول میں ان کی فعال شرکت داری سے ظاہر ہونا چاہیے۔
یہ بہت ضروری ہے کہ جو شخص بھی تدریس کو بطور پیشہ اپنانا چاہتا ہے،
وہ خود کومثالی تدریسی نظریات (ٹیچنگ آئیڈیلز) کے مطابق ڈھال لے۔
اساتذہ کو ہر پل یہ بات ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ
اُستاد معاشرے کا ایک باوقار اور معتبر فرد ہی نہیں
بلکہ ہر گھڑی اس پر شاگردوں اور معاشرے کی نگاہیں گڑی رہتی ہیں۔
پیشہ تدریس اسی لیے تقاضا کرتا ہے کہ اُستاد پرسکون ،
صابر مزاج،
ملنسار،
ہمدرد،
مونس و غم خوار ،
بہتر سامع
اور اچھی و بہتر گفتگو کرنے والا ہو۔
ان صفات کو اپنی ذات میں پیدا کرنے کے اساتذہ کو شب روز سال کے بارہ مہینے
عملی مشقتوں و مجاہدوں سے گزارنا پڑتا ہے۔
اسی وجہ سے استاد کو سماج میں عزت و عظمت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔