28 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

میٹھے لوگ اور  کڑوے سچ

احساس کے انداز

میٹھے لوگ اور کڑوے سچ

تحریر : جاوید ایاز خان

کہتے ہیں اچھی دوستی کی مثال عطر کی دکان کے مانند ہوتی ہے۔ اگر اس میں بیٹھو گے تو کچھ نہ  لینے پر بھی اس دکان کی مہک اور خوشبو ضرور حاصل کر لو گے۔
بُری دوستی آگ کی بھٹی کی مانند ہے جہاں سے آگ نہ بھی لگے تو کپڑوں میں دھوئیں کی کالک ضرور لگ جاتی ہے۔
ستارے اور دوست ایک جیسے ہوتے ہیں، چاہے کتنے ہی طویل فاصلے پر  ہوں، ان کی روشنی اور خوشبو آپ تک پہنچتی رہتی ہے ۔
ہمارے بچپن کے  چار دوستوں کا گروپ بھی اسی طرح کی ایک دکان تھا جس نے ہمیں دنیاوی برائیوں اور بدکرداری سے بچائے رکھا اَور خوبیوں کی مہک ہم آج  تک محسوس کرتے ہیں۔ ان میں ایک  کلیدی نام  اُستاد منیر خان کا بھی ہے۔
ہمارا دوست سعید چشتی مرحوم کہتا تھا کہ دوستی اور رشتوں کی گہرائی کا احساس الفاظ سے نہیں برتاؤ اور رویے سے ہوتا ہے۔
اُستاد منیر نہ ہوتا تو میں ٹائپیسٹ سے بیس گریڈ کا آفیسر نہ بن سکتا جو کچھ میں  نے اس کے اخلاق ، رویے اور محبت سے سیکھا وہ کسی اسکول یا کالج میں پڑھنے اور سیکھنے کو نہیں ملتا  ۔
اس کی زبان کے میٹھے پن  سے ہمارے لہجوں میں نرمی پیدا ہوئی۔
اُستاد منیر اپنی غربت کے باوجود محبت اور پیار کے رویوں کی غیر تعلیمی اکیڈمی سے ہرگز کم نہ ہے ۔
اگر یہ پڑھ لکھ جاتا تو شاید کوئی تاریخ مرتب کر جاتا وہ ان پڑھ ہے، مگر جاہل نہیں ہے۔
اس کی ہر بات میں خاموش حکمت ہوتی ہے۔
کہتے ہیں تمیز اور ضمیر جس انسان میں ہو اس جیسا خوبصورت انسان کوئی نہیں ہوتا ۔
اُستاد جی میں یہ دونوں خوبیاں دکھائی دیتی ہیں ۔
اس کی باتوں کی مٹھاس اور خلوص آپ کو اس کا گرویدہ کرنے کو کافی ہوتا ہے ۔
منیر خان کوئی ایک شخص کا نام نہیں یہ ایک کردار ہے، جو ہمارے معاشرے میں ہر زمانے میں مختلف شکلوں اور ناموں سے موجود رہتا ہے۔
اُستاد جی ! یہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔
میرے سوال پر اُستاد جی نے میری جانب گھور کر دیکھا اور بولے یا رمجھے ان پڑھ سمجھ رکھا ہے ۔کیا؟ اور پھر اپنی سگریٹ پی پی کر مڑی تڑی انگلیوں کے اشارے سے ٹھک سے جواب دیا
اگر دو اور دو امیری جیب میں ہوں تو چار ورنہ زیر
اس حاضر جوابی نے ہم سب دوستوں کو حیران کر دیا وہ بات تو درست کر رہا تھا۔
ہم  نے کہا، بھلا بتاؤ اگر ہم تینوں تمہیں ایک ایک روپیہ دیں تو تمہارے پاس کتنے روپے ہو جائیں گے؟
بولا چار روپے! ہم  نے کہا کہ وہ کیسے یہ تو تین بنتے ہیں؟
کہنے لگا، تین تو تم دو گے مگر ایک روپیہ پہلے سے میری جیب میں موجود ہے چار ہی ہوئے نہ؟
اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا، ان پڑھ ضرور ہوں پر جاہل نہیں۔
پڑھے لکھوں کے ساتھ اُٹھتا بیٹھتا ہوں۔
اُستاد منیر خان عرف ببر شیر پچاس سال قبل سائیکل مرمت کا کام کرتا تھا اور اپنے کام میں مہارت سے زیادہ  اس کی  چرب زبانی کی باعث لوگ اسے اُستاد جی کہتے تھے۔
اس کی دکان کے برابر میں ہمارے علاقے کے مشہور باربر اور ختنہ ساز اُستاد چاچا پاری کا اڈا تھا۔
لوگ انہیں اُستاد شاگرد کہتے تھے۔
یہ دونوں عمر کے فرق کے باوجود اپنے اپنے فن میں یکتا تھے ۔
آپ نے بال کٹوانے ہوں یا سائیکل مرمت کرانی ہو ان کی خدمات کے بغیر کچھ بھی  ممکن نہ تھا۔
ہم چاروں دوستوں میں اُستاد جی ہی برسر روزگار تھا اور اپنی خون پسینے کی کمائی وہ ہمیں چائے پلانے اور  خود بگلے کا تھرڈ کلاس سگریٹ پینے پر خرچ کر دیتا۔
ہمیں کئی فائدے ہوتے۔۔ ہمارے سائیکل مفت مرمت ہوتے ،مفت کی چائے اور اُستاد جی کے ماہرانہ اور عالمانہ مشورے اور ساتھ ساتھ مختلف لطیفے سننے کو ملتے جو نایاب ہوتے ۔
اُستاد جی روز صبح ایک طنزیہ فقرہ ایجاد کرتے جو عام طور اپنے پیشے کے مدمقابل کے بارے میں ہوتا جو تمام دن دوستوں کی زبان پر گردش کرتا اور مشہور ہو جاتا مگر دوسری صبح ایک نیا فقرہ  مارکیٹ میں آ جاتا ۔
یوں اُستاد جی کے اقوال مارکیٹ میں گردش کرتے رہتے ۔
ایک مرتبہ پتا چلا کہ اُستاد جی اپنی زمین بیچ رہے ہیں۔
پوچھا اُستاد جی! زمین کیوں بیچ  رہے ہو؟ تو اُلٹا سوال کر دیا ریاست بہاولپور کے وارثان کیوں بیچ رہے ہیں؟ میں لاجواب ہو گیا اور ان کے کڑوے سوال کا جواب نہ دے سکا۔
جوانی میں اُستاد جی ہر جھگڑے اور لڑائی میں مظلوم اور کمزور کا ساتھ دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور خدائی خدمتگار بن جاتے تھے ۔
لڑے کبھی نہیں صرف بڑھکیں مار کر گزارہ کر لیتے اور ہیرو بن جاتے۔
اس لیے ان کو ببر شیر بھی کہتے ہیں ۔
میں  نے اس بارے میں  پوچھا تو بولے جب کام دھونس دھپے سے نکلتا ہو تو طاقت کیوں استعمال کریں طاقت کا ستعمال آپ کا بھرم کھو دیتا ہے ۔
سرائیکی میں کہتے ( مار نہ کٹ اندھر چا گھٹ ) یعنی نہ مارو نہ پیٹو بس کمزور  آنت دبا دو ۔ ایک دفعہ ان کے ہمراہ  تھانے میں ایک کٹھا یعنی پنچایت میں جانا پڑا. ہمارے ایک دوست کے  بوڑھے والد پر ایک جھوٹی درخواست دی گئی تھی۔
اُستاد جی نے چند باتیں کیں اور پنچایت ہمارے حق میں ہو گئی۔
اس نے سب مخالفین کی بولتی بند کردی میں بہت حیران ہوا باہر آ کر میں نے پوچھا۔
اُستاد جی آپ نے تو سب کچھ جھوٹ  بولا۔
اُستاد جی مسکرائے اور پوچھا۔
درخواست جھوٹی تھی؟
میں نے کہا ہاں ! بولے اس طرح کی پنچایت جھوٹ بول کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔
جھوٹ کو ثابت کرنے کے لیے سو جھوٹ اور بولے جا سکتے ہیں، لیکن سچ  کو ثابت کرنے کے لیےایک سچ بولنا بھی  مشکل ہوتا ہے ۔
سچ کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ اکیلا رہ جاتا ہے۔
اس لیے جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کی ضرورت ہے۔  سو بددیانت ہوں تو ان میں ایک دیانتدار  بھی بددیانت نظر آتا ہے ۔
میں اُستاد جی کے کڑوے سچ کی کڑواہٹ آج بھی محسوس کرتا ہوں۔
اُستادجی کے یہ کڑوے سچ عملی زندگی میں ہمیشہ درست لگتے رہے ۔
ایک مرتبہ ان کے مخالفین نے حسد اور رشک کی بنا پر انھیں شدید زخمی کر دیا۔
وہ اُستادجی کی مقبولیت میں کمی لانا چاہتے تھے میں بھی مزاج پرسی کو گیا۔ اُستاد جی بولے یار گھبراؤ نہیں۔ اونٹ بیٹھ جائے یا لیٹ جائے، کتے کا قد اس سے بڑا نہیں ہو سکتا۔ میرے دشمن کا قد  بھی کبھی مجھ سے بڑھ نہیں سکتا ۔
اُستاد جی کی شادی ہوئی اور وہ بیوی کو پیارے ہوئے بیوی بچوں کی کے لیے روزگار کے لیے ساری ببر شیری نکل گئی۔ دنیا  کی فکر ختم ہوئی اور بچوں کی فکر لاحق ہوئی۔
مجھے ان کی تنگدستی کی خبر ملی تو میں ان کے پاس گیا اور کچھ رقم ان کی جیب میں ڈال دی اور پوچھا:
اُستاد جی کافی ہے؟
تو بے ساختہ جواب دیا، اگر خرچ نہ کروں تو زیادہ ہیں! یہ کڑوا سچ اُستاد جی ہی بول سکتے ہیں ۔اللہ اُستاد جی کو لمبی زندگی دے۔ کاش میں اسے بتا اور  یہ باور کرا سکوں کہ بہت زیادہ کڑوا سچ دراصل جھوٹ ہی ہوتا ہے ۔
جیسے ہم کہتے ہیں کہ امریکا پاکستان کا دوست ہے؟ حکومت کہتی ہے کہ ہم کرپشن بددیانتی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو آہنی ہاتھوں سے  پکڑیں گے؟ ملک سے غربت ختم کر دیں گے ؟ دکاندار کہتا ہے آج نقد کل اُدھار؟
اُستاد کہتا ہے مار نہیں پیار؟  سچ ضرور بولیں مگر سچ کو کڑوا نہیں ہونا چاہیے!
کہتے ہیں سیدھے راستے اور سیدھے لوگ اکثر لوگوں کو پسند نہیں آتے !

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles