19 C
Lahore
Friday, December 13, 2024

Book Store

صحت کی بادشاہی

احساس کے انداز

صحت کی بادشاہی

جاوید ایاز خان

۷ اپریل عالمی یوم صحت

ہمارے سرائیکی علاقے میں بڑے بوڑھے جب کسی کو دعا دیتے ہیں تو کہتے ہیں۔
“اللہ وڈی حیاتی تے صحت دی بادشاہی ڈیوے۔ ”
یعنی خدا آپ کو لمبی عمر اور صحت کی بادشاہی عطا فرمائے۔
بچپن میں جب ہم صحت کے بارے میں کوئی شعور رکھتے تھے اور نہ ہی صحت کی اہمیت سے کوئی خاص آگاہی تھی۔ تو مجھے یہ دعا اس وقت عجیب لگتی تھی۔
سمجھ نہ آتی تھی مگر جوں جوں بڑے ہوے اور شعور کی منزلوں کو چھوا تو پتا چلا کہ دنیا میں زندگی اور ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت تو واقعی صحت اور تندرستی ہے ۔
عافیت سے جینے کے لیے تندرستی بےحد اہم ہے ۔ انسان روٹی ،کپڑے اور مکان کے بغیر تو گزارہ کر سکتا ہے مگر بیماری کے ساتھ جینا ایک دشوار ترین المیہ بن جاتا ہے۔
دیگر تمام سہولیات بیماری کی حالت میں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔
پھر جب مختلف بیماریوں اور جسمانی تکالیف سے لوگوں تڑپتے اور علاج کی عدم دستیابی سے جان دیتے دیکھا،
تو اب اس دعا کی اہمیت سمجھ آئی کہ طویل عمر صحت کے بغیر بےکار ہے ۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صحت کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک بڑی دیر سے ہوا ۔ اس سلسلہ میں عالمی یوم صحت جس کی بنیاد ۱۹۴۸ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے رکھی تھی،
ہر سال ۷ اپریل کو منایا جاتا ہے۔
اس کا مقصد تمام دنیا کی توجہ عالمی صحت کو لاحق مسائل کی جانب توجہ دلانا
اور صحت کو درپیش خطرات کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔
تمام دنیا کی اقوام ،حکومتیں ،این جی او ز اور ماہرین صحت اور انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے حفاظت،
اس کے بچاؤ کے موضوع پر مختلف سرگرمیاں کرتے،
اور صحت و سلامتی کو متوقع خطرات سے نبرد آزما ہونے
اور حفظان صحت کے حل کی تلاش میں سر جوڑ لیتے ہیں ۔
دنیا کے دیگر ترقی پزیر ممالک کی طرح ہمارے سیاستدان اور حکمران بھی صحت پر خاطر خواہ توجہ دینے میں ناکام رہے۔ پاکستان میں بنیادی صحت کا حصول بھی خواب بن کر رہ گیا ۔
بے شمار وبائیں اور بیماریاں اس ملک پر حملہ آور ہوتی رہیں ،
جس سلسلہ میں عالمی اداروں کی جانب سے فراہم کردہ امداد سے کئی اقدامات کرنے کی کوشش بھی کرپشن اور بد انتظامی کی نذر ہو کر رہ گئی ۔
صحت اور علاج رفتہ رفتہ غریب لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی چلی گئی۔
بیماری پر اُٹھنے والے اخراجات لوگوں کی دسترس میں نہ رہے ۔ ایک طرف سرکاری ہسپتال ان کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر تھے،
تو دوسری جانب قانون کا مذاق اُڑاتے عطائی اور نیم حکیم انہیں لوٹتے رہےاور ساتھ ساتھ پیروں فقیروں کے دم درود کو عروج ملا۔
مگر صحت ان سے دور ہوتی چلی گئی، اس طرح صحت کی بادشاہی صحت کی فقیری میں بدل گئی ۔
حکومت کی مہیا کردہ عامیانہ طرز اور صحت کے متعلق خاص قسم کی سہولیات تک عام انسانوں کی رسائی مشکل تر ہوتی چلی گئی ۔
ابھی ہم پولیو ،ملیریا ،ٹائیفائڈ ،گردوں ،امراض قلب اور کینسر جیسے موذی امراض سے نہ نکل پائے تھے کہ ہیپاٹائٹس ،
ایڈز ،
ڈینگی ،
گانگو وائرس
اور پھر کرونا جیسی جان لیو ا وباؤں میں گھر گئے۔
دوسری جانب چولستان اور تھر میں غربت ، غذائی قلت اور بروقت علاج کی عدم دستیابی کی باعث بے شمار نومولود بچے مرتے رہے۔
ان کی تعدادہزاروں تک جا پہنچی ۔ہماری بڑھتی آبادی کا وزن موجود ہیلتھ سسٹم نہیں اُٹھا پا رہا تھا ۔
حکومت پاکستان کی سابقہ اور موجودہ قیادت نے صحت اور عام آدمی کے علاج کے بارے میں نہ صرف سوچا بلکہ اس کے لیے عملی قدم بھی اُٹھایا۔
ایسے میں صحت کارڈ کا اجراء ہی اس کا بہترین حل نظر آتا ہے،

جو ایک ایسا انقلابی قدم ہے جو ایک طرف تو لوگوں کو مفت علاج اور
دوسری جانب صحت کے شعبے میں پرائیویٹ ہسپتالوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔
کیونکہ صرف حکومت اور غیر ملکی امداد ہی اتنی بڑی آبادی کو صحت کی سہولیات نہیں دے سکتی۔
اس کے لیے کمرشل بنیاد پر کام کرنے اور معیاری مراکز صحت کے قیام کی اشد ضرورت ہے،
جس میں ڈاکٹر اور سرمایہ دار دونوں کے مفادات شامل ہوں اور لوگوں کو بروقت اور معیاری علاج بلا تفرق مہیا کیا جا سکے ۔
کہتے ہیں علاج سے احتیاط بہتر ہوتی ہے ہماری حکومت کو علاج سے زیادہ بیماری سے بچاو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
صحت کارڈ کے ساتھ ساتھ چند شعبوں پر توجہ اور کنٹرول بیماری سے بچاؤ کا ذریعہ بن کر پاکستان میں صحت کے شعبہ میں حقیقی انقلاب لا سکتے ہیں ۔
ان میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کے ساتھ ساتھ ماحول کی آلودگی سے بچاؤ کا شعور اور تربیت ضروری ہے۔
نئی نسل میں درختوں سے محبت کے جذبے کی بیداری اور ان کی افادیت کا شعور پیدا کرنا لازم ہے۔
جس کے لیے آلودہ پانی سے نجات ایک اہم جز کی حیثیت رکھتا ہے ۔
بےلگام اور خطرناک حد تک بڑھتی عطائیت کا خاتمہ اور اس لعنت سے چھٹکارہ ،
عوام میں صحت عامہ کے بارے میں ہیلتھ ایجوکیشن
اور تربیت میں اضافہ صحت کے بارے میں آگاہی اور شعور اجاگر کرنا ،
اشیا ء خور و نوش میں بڑھتی ہوئی ملاوٹ کا سدباب ،
پھیلنے والے جراثیم کی روک تھام ،
ڈاکٹر حضرات اور صحت سے وابستہ اہل کاروں میں پیشہ وارانہ جذبے کی بیداری ،
جعلی اور ناقص کوالٹی کی ادویات سے نجات
یا ڈرگ کنٹرول کی سخت پالیسی
ہی ہماری صحت کی ضامن ہو سکتی ہے ۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر زندگی کے معمولات اگر اسلام اور سنت نبوی کے مطابق گزارے جائیں تو ان سب اقدامات کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
کیونکہ احتیاط علاج سے کہیں بہتر ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دین فطرت ہے جو پوری انسانیت کی ہر شعبہ میں مکمل راہنمائی کرتا ہے۔
اس کی پاکیزہ تعلیمات جہاں عقائد و عبادت ،معاشرت و معاملات اور اخلاق و آداب کے تمام پہلوؤں کو جامع معلومات فراہم کرتی ہیں، وہیں حفظان صحت و تندرستی کے معاملے میں بھی اسلام کی معتدل ہدایات موجود ہیں۔
جن پر عمل پیرا ہو کر ہم نہ صرف صحت مند زندگی گزار سکتے بلکہ بہت سی مہلک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
مسلمان کا ہر عمل حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہو سکتا ہے ۔ہمارے پیارے نبیﷺ  نے فرمایا کہ کھانا پینا سادہ رکھیں۔ تھوڑی سی بھوک رکھ کر کھائیں۔ آج پوری طبی دنیا تسلیم کر چکی کہ سادہ خوراک بیماریوں سے بچاؤ کا بہترین حل ہے۔
زیادہ کھانے سے معدہ خراب ہوتا ہے۔ معدہ کی خرابی بے شمار بیماریوں کو جنم دیتی ہے ۔
آپﷺ  نے جلد سونے اور جلد اُٹھنے کی تاکید فرمائی۔
فجر اور عصر کے بعد سونے سے منع فرمایا۔
جدید سائنس آج مان رہی ہے کہ اس عمل سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ دیر تک جاگنا اور جلد بیدار نہ ہونا ڈیپریشن کی ایک بڑی وجہ  ہے جو آج کی سب سے بڑی اور خطرناک بیماری شمار کی جاتی ہے ۔
آپ ﷺ کی سنت اور احکامات جسمانی صفائی ستھرائی ، سرمہ ،مسواک ،ہاتھ دھونا ،آہستہ اور خوب چبا کر کھانا ،کھانے کے بعد پانی نہ پینا، ورزش، قیلولہ ،روزے اور پانچ وقت وضو اور نماز کی ادائیگی، اچھی صحت کی ضمانت ہیں ۔
کاش دنیا اس بارے میں دین اسلام اور ہمارے پیارے نبیﷺ  کی پیروی اختیار کر لے تو عالمی یوم صحت منانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔
ہمارے بیمار معاشرے کو صحت کی بادشاہی عطا ہو جائے، کیونکہ صحت مند جسم ہی ایک صحت مند ذہن اور اچھی سوچ کا مالک اور ضامن ہو سکتا ہے ۔

۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles