16 C
Lahore
Friday, December 6, 2024

Book Store

سفید خون

سفید خون

صنف نازک کا ایک قدیم المیہ اور تازہ قوانین کی گونج

لالچ اور ہوس کب تک خونی رشتوں کو پامال کرتے رہیں گے ؟
کیا قوانین کے ساتھ ساتھ سوچ کی تبدیلی ضروری ہے ؟

تحریر ؛۔ جاوید ایاز خان, بہاولپور

یہ آج سے تقریبا” ۳۰ سال قبل کی بات ہے ۔میں روز صبح اپنی ڈیوٹی پر جانے کے لیے نزدیکی چوک کے بس اسٹاپ سے بذریعہ بس لیاقت پور جایا کرتا تھا ہر جانب سے آنے اور جانے والی بس اس اسٹاپ سے ہو کر گزرتی ہےاور یہاں ضرور رکتی ہے اور اسی جگہ سے دیہاتی علاقوں کو جانے کی سواری بھی ملتی ہیں۔
لاہور فیصل آباد کراچی اور ہر طرف سے آنے والی بسیں بھی یہاں رکتی اور سواریاں اُتارتیں ۔یہ سواریاں پوری رات کا سٖفر کر کے تھکی ہاری یہاں تھوڑا آرام اور چائے پانی پینے کے بعد اپنے اپنے دیہی علاقوں کو روانہ ہو جاتیں۔دیہاتی اور پرانی بسیں یہاں سے روانہ ہوتیں جن کے لیے ان سواریوں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ۔
اس لیے ان دیہاتی مسافروں کے لیے ایک الگ بس اسٹاپ بنایا گیا تھا جہاں سے یہ بسیں روانہ ہوتی تھیں اور جہاں ہر وقت ایک میلے کا سماں رہتا تھا ۔اس دن جب میں بس اسٹاپ پر پہنچا تو مختلف اطراف سے آنے والی بسوں سے بہت سے مسافر اتر چکےتھے اور اپنا سامان سنبھال رہے تھے۔ حسب معمول بڑی رونق اور چہل پہل تھی لیکن دیہاتی بس اسٹاپ پر مجھے بڑا غیر معمولی رش اور شور و غل سنائی دیا ۔
ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی جھگڑا ہو رہا ہے۔ لوگوں کا ہجوم کے درمیان سے شور و غل کی آوازیں آ رہی تھیں ۔میں بھی اس ہجوم میں داخل ہو گیا کہ وجہ تنازع جان سکوں ۔
کیا دیکھتا ہوں کی ایک ادھیڑ عمر طویل قد دیہاتی خاتون ایک بڑے اور مضبوط اعصاب کے شخص جو بظاہر ایک وضعدار دیہاتی نظر آتا تھا، کو تھپڑوں اور جوتی سے مار رہی تھی اور ساتھ ساتھ چیخ چیخ کر بدعائیں بھی دے رہی تھی۔
وہ شخص جس کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایاں تھے، خاموشی سے سر جھکائے یہ سب برداشت کر رہا تھا۔ بار بار کہتا مارو اور مارو اپنا غصہ ٹھنڈا کر لو ۔ ہجوم اس خاتون کو روکنے کی کوشش کرتا مگر وہ کہتا اسے مارنے دو۔ یہ میری بڑ ی بہن ہے۔
خاتون بھی رکنے کا نام نہ لیتی۔ روتی جاتی اور مارے بھی جاتی اور چلاتی، اچھا بھائی ہے۔ میرے بچوں پر ظلم کر رہا ہے۔ میرا اور میرے بچوں کا حق کھا گیا۔ میرا حصہ ہڑپ کر گیا۔ مجھے دھوکا دیا ہے ۔
لوگوں  نے بمشکل انہیں ایک دو سرے سے الگ کیا مگر خاتون کا غصہ تھا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا تھا ۔ لوگوں  نے اسے پانی پلایا اور ایک نزدیکی دکان میں لے جا کر بٹھایا اور واقعہ کی وجہ جاننی چاہی تو پتا چلا کہ خاتوں اور وہ شخص دونوں سگے بہن بھائی ہیں ۔
بہن بڑی ہے اور فیصل آباد میں رہتی ہے اور بھائی یہاں کے ایک دیہات کا اچھا زمیندار ہے جو اپنی بہن کو لینے آیا تھا مگر بہن نے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور اپنے تھپڑوں اور جوتی سے اس کی تواضع شروع کر دی ۔لوگوں کے پوچھنے پر اس خاتون نے بتایا کہ یہ شخص میرا چھوٹا بھائی ہے۔
ہم اپنے والدین کے اکلوتے بیٹا اور بیٹی ہیں ۔میرے شادی بہت پہلے میرے والد نے فیصل آباد میں کر دی تھی اور میری ایک بچی ہے ۔میرے والد پچھلے سال انتقال کر گئے تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے چھوٹے بھائی  نے ان کی زندگی میں ہی دھوکا بازی سے ان کے بڑھاپے کا فائدہ اٹھا کر ساری آبائی جائداد کی وارثت اپنے نام کرا لی ہے۔ پوچھنے پر مجھے تسلی دی کہ تمہاری ایک بیٹی ہے اور میرا ایک بیٹا۔ ہم دونوں کی شادی کر دیں گے اس طرح تمام جائیداد ہمارے بچوں کے نام رہے گی اور تقسیم نہ ہو گی۔
میں بھائی کے جھانسے میں آ گئی اور خاموشی اختیار کر لی مگر چند ماہ بعد وہ اس رشتے سے بھی منکر ہو گیا اور اپنے بیٹے کا رشتہ کسی اور جگہ طے کر دیا ہے ۔اب میں وراثت میں حق مانگتی ہوں تو کہتا ہے تمہیں جہیز دے دیا تھا۔
جب تم میرے پاس آتی ہو تو کچھ نہ کچھ رقم اور فصل سے حصہ بھی دے دیتا ہوں اور جائیداد تو مجھے میرا والد خود دے کر گیا تھا۔ اب تم کس چیز کا حصہ مانگتی ہو ؟
جبکہ میرے سسرال اور میری بچی کا مجھ پر شدید دباوُ ہے کہ جائیداد سے حصہ لیا جاےُ۔ وہ مجھے قصور وار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں جاؤ اپنا حصہ لے کر آؤ۔
ہمارے گھر میں یہی ہر وقت کا جھگڑا رہتا ہے۔ سسرال اور میکے کے اس رویے نے میرا چین و سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بتاؤ، میں کہاں جاؤں؟ کس سے فریاد کروں؟ اس موقع پر کچھ لوگ رویے کی وجہ سے خاتون کو برا کہہ رہے تھے اور کچھ اس کے رویے کی مذمت اور کچھ اس سے ہمدردی جتا رہے تھے۔
گو میرے نزدیک بھی اس خاتوں کا طریقہ کار درست نہ تھا اور یہ بظاہر ان کا گھریلو معاملہ تھا۔ گھر پر ہی حل ہونا چاہیے تھا یا پھر قانونی طریقہ اختیار کیا جاتا تو بہتر تھا ۔بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ محسوس ہو رہا تھا مگر آج تک میرے ذہن پر نقش ہے۔
مجھے اس خاتون کی دلیری اور جرات کبھی نہیں بھولتی جو ان پڑھ ہونے کے باوجود وہ اپنی وراثت اور حق کے لیے آواز اُٹھا رہی تھی۔ اپنے بچوں کا حق طلب کر رہی تھی جو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اسے دیا گیا تھا۔ عورت کو وارثت سے محروم کرنے کا یہ کوئی نیا قصہ نہ تھا۔ اسے دقیانوسی سوچ کہیں، بے شعوری یا لالچ و حرص؟
آج کی دنیا اور معاشرے میں اس طرح کے بے شمار واقعات آئے دن نظر آتے ہیں ۔جہاں بھائی تو بھائی، والدین خود مختلف حیلوں بہانوں سے خواتین کو ان کے اس جائز حق سے محروم کر دیتے ہیں ۔
یہاں تک کہ بھائی بھائی آپس میں بہنوں کے علاوہ بھائیوں کا حق بھی مختلف جھوٹ فریب، دھوکا دہی اور حیلوں بہانوں سے بڑی ڈھٹائی اور خود غرضی سے وراثت کے علاوہ بھی کھا جاتے ہیں۔ خونی رشتوں کا احترام لالچ کی دھول میں دب کر رہ جاتا ہے اور نہیں سوچتے کہ قبر کی جانب ان کا سفر دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں غصب شدہ مال اور ان کی وہ اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔
جن کی خاطر وہ سب کچھ کرتے ہیں۔ اسی لیے مال اور اولاد کو انسان کا امتحان کہا گیا ہے ۔ دیکھا جائے تو ہماری خواتین کا ہماری زندگی مٰیں ہر کردار بہت خوبصورت ہر روپ مثالی اور محبت سے بھرپور ہے۔
کہیں وہ عظمت کا مینار، کہیں قربانی کا پیکر، کہیں ہمدرد و غمگسار، کہیں وہ محبت، الفت اور چاہت کی جیتی جاگتی تصویر وہ ماں ، بیٹی، بیوی یا بہن جو بھی ہو معاشرے کی تعمیر میں ان کا اپنا اپنا اہم کردار ہے مگر اس کے باوجود وہ معاشرے میں مختلف قسم کے استحصال کا شکار نظر آتی ہیں۔
ویسے تو پوری دنیا میں عورت مختلف نوعیت کے مسائل میں گھری ہے مگر پاکستان میں کچھ زیادہ ہی دشواریاں پیش آتی ہیں۔
خواتین کی وراثت بھی ان میں سے ایک معاشرتی المیہ ہے۔ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو کتنے ناز اور پیار سے پالتے ہیں۔ انہیں اور ان کی عزت کو جان سے پیارا سمجھتے ہیں۔ بہن اور بیٹی کو کوئی میلی آنکھ سے دیکھے، ہم برداشت نہیں کرتے۔
کچھ بھی کر سکتے ہیں مگر نہ جانے کیا ہوتا ہے کہ جب جائیداد یا مال کی تقسیم کا مسلہ آتا ہے، تو یکدم ہماری سوچ اور رویہ بدل جاتا ہے۔ جو ہماری محبت اور پیار پر غالب آ جاتا ہے۔ ہمارا خون اس قدر سفید ہو جاتا ہے کہ ہم رشتوں کا احترام بھی کھو دیتے ہیں اور وہی بھائی جو ان بہنوں کی گود میں پلتے ہیں، مال و جائیداد ہتھیانے کا کوئی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
ہماری عدالتیں ایسے کیسوں سے بھری پڑی ہیں ۔ ہمارے معاشرہ میں عورتیں خاندانی دباؤ سے یا جذباتی بلیک میلنگ میں آ کر بھائیوں کو اپنا حق وارثت معاف کر دیتی ہیں، لیکن یہ معافی دل سے نہیں ہوتی بلکہ مجبوری ہوتی ہے ۔
بہنیں بھائیوں سے حق مانگیں اس کا ہمارے ہاں صدیوں سے رواج ہے ہی نہیں۔ اس لیے جو بہن وراثت میں اپنا حق وراثت مانگتی ہے۔ معاشرہ اسے عزت کے بجائے نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جیسے وہ کسی جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔
اس معاشرے میں اپنا حصہ اور حق مانگنے پر سارے رشتے بے نقاب ہو جاتے ہیں اور اپنا حصہ چھوڑنے پر یہی کانٹے گلاب ہو جاتے ہیں ۔ حصہ مانگنے والی خاتون کو سوشل بائیکاٹ اور رشتے ختم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ وہ بے چاری کمزور سی بہن اور بیٹی معاشرے کی نفرت کا شکار ہو کر اپنی نظروں میں ہی گرنا شروع ہو جاتی ہے۔ جیسے کوئی جرم کر بیٹھی ہو ۔
وہ خاندانی اور معاشرتی دباؤ کو برداشت نہیں کر پاتی اور اپنے شرعی حق سے دستبردار ہونا ہی بہتر خیال کرتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی عجیب ہے۔ جہاں ہماری عزت تو بیٹی کے ہاتھ میں ہوتی ہے مگر جائیداد اور پراپرٹی بیٹے کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
معاشرے کا یہ دوھرامعیا رصدیوں سے یونہی چلا آرہا ہے اُس خاتون کی دردبھری داستان سن کر مجھے بے شمار اس طرح کے واقعات یاد آ گئے جو ہمارے اردگرد رونما ہوتے ہیں اور ہمارا معاشرہ بڑی بے حسی سے برداشت کرتا ہے اور اس برائی کو برائی کہنے کی جرات بھی نہیں کرتا ۔
نت نئے قانون وراثت بننے کے باوجود معاشرہ میں بے شمار ایسے طریقے اور حربے ہیں جو بڑے آرام سے اپنے ہی خون کو وارثت جیسے حق سے نہ صرف محروم کر دیتے ہیں بلکہ بسا اوقات تو جائیداد کا لالچ ان بےچاریوں کو جان تک سے مار ڈالتا ہے ۔اور خواتین ایک طرف بھائی اور دوسری جانب اولاد کی جانب سے شدید ذہنی دباؤ میں آ کر خود کشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
ہمارے ہاں اس قدر شعور کی کمی ہے کہ خود والدین اپنی آخرت کی پروا کیے بغیر اپنے ہاتھوں ہی بیٹوں کو جائیداد دینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی کو دی گئی جائیداد کسی غیر خاندان میں چلی جائے گی ۔ لڑکیوں سے زبردستی کر کے یا خاندان سے محبت کا جھانسہ دے کر انہیں اپنے ہی ہاتھوں وارثت سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
وٹہ سٹہ کی شادی اسی المیہ کا حصہ بھی ہے کیونکہ وہاں ایک دوسرے کو جائداد نہیں دی جاتی ۔میں کئی ایسے گھرانوں کو جانتا ہوں جہاں بچیاں بوڑھی ہو کر مر جاتی ہیں مگر ان کی شادی صرف وراثت کے خوف سے نہیں ہو پاتی اور یہ جائیداد ان خواتین کے جذبات کا گلہ گھونٹ دیتی ہے! ہمارے ملک کے کئی علاقوں میں تو قرآن سے اور چھوٹی عمر کے بچوں سے شادی جیسی فرسودہ اور غیر اسلامی رسوم آج بھی موجود ہیں۔
جو واقعات آئے دن اخبارات اور ٹی وی پر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کچھ قبائلی دیہاتی اور پسماندہ علاقوں میں وراثت کی تقسیم سے بچنے کے لیے اپنی ہی بہنوں اور بیٹیوں کو مختلف الزامات اور حیلوں بہانوں سے قتل اور قید تک کر دیا جاتا ہے ۔اگر کہیں عورتوں کو حصہ دینا بھی گوارا کر لیا جاتا ہے تو انصاف نہیں ہوتا ۔
حق تلفی کے سینکڑوں بہانے تلاش کر لیے جاتے ہیں ۔ قیمتی اور زرخیز جائیدادوں اور زمینوں سے محروم کر دینا بھی رواج پا چکا ہے ۔ہم روز اخبارات میں بے شمار ایسے واقعات پڑھتے ہیں اور سرسری طور پر افسوس کر کے بھول جاتے ہیں۔
اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو بےشمار المیے اور داستانیں ہماری یادوں میں دفن موجود ہیں، جنہیں بیان کرنے کا حوصلہ تک بھی شاید ہمارے پاس نہیں ہوتا ۔ لیکن مجھے آج بھی خانیوال کی اس خاتون کا قصہ یاد ہے، جس کی ٹانگیں اس کے بھائی نے صرف اس لیے توڑ ڈالیں تھیں کہ وہ وراثت میں اپنا حصہ مانگتی تھی اور پھر وہ اپنی بیساکھیوں کے سہارے انصاف کی تلاش میں عدالتوں کے چکر کاٹتی رہی ۔
مجھے اپنے علاقے کی وہ بوڑھی خواتین بھی یاد ہیں جو جائیداد کی بھینٹ چڑ ھ کر اپنے ارمانوں کا گلہ دبائے تمام عمر کنواری بیٹھی رہیں مگر معاشرتی خوف کے ڈر سے بغاوت کا حوصلہ تک نہ کر پائیں ۔
میری نظر سے ایسے بے شمار واقعات گزرے جہاں خواتین نے بغاوت کا حوصلہ تو کیا مگر اپنے لیے خوشی کے سپنے سجاتے سجاتے قبرستانوں کا حصہ بن گئیں ۔میں ایک ایسی خاتون سے ملا جسے بھائیوں نے حصہ دے کر احسان تو کیا مگر تمام عمر وہ اس جائیداد کے قبضہ کے لیے ترستی رہی ۔
بے شمار ایسے واقعات سنے جہاں عورتوں کو جائیداد کی خاطر اپنے بہت کم عمر نابالغ بچوں سے بیاہ دیا گیا یا پھر اپنے ہی خاندان میں بوڑھوں سے دوسری یا تیسری شادی کر کے اپنی جائیداد کو تقسیم سے بچا لیا گیا ۔
وٹہ سٹہ اور بدلے کی شادیاں بھی کسی حد تک اسی عمل کا حصہ ہوتی ہیں اور دو طرفہ وراثت کی تقسیم سے بچنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں ۔
بینک ملازمت کے دوران میں  نے بے شمار قریب المرگ بزرگ دیکھے جو آخری عمر میں اپنی رقوم اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتے یا پھر بیٹے خود اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرا لیتے  تاکہ کل کو اپنی خواتین کو وراثت نہ دینی پڑے.
میرے قریبی عزیزوں کا گھر جو ان کے ماں باپ کی خون پسینے کی کمائی سے ایک ایک پائی جوڑ کر تعمیر کیا مگر چھے بہن بھائیوں میں تقسیم نہ ہو سکا اور رفتہ رفتہ کھنڈر بن گیا۔ آج بہن بھائیوں کی محبت نفرت میں بدل چکی ہے۔
ان میں اکثر بستر مرگ پر ہیں اور جائیداد ان کا منہ چڑا رہی مگر ان کی نہ ختم ہونے والی لڑائی جاری ہے۔ بھائی بہنوں کو کچھ دینے پر تیار ہی نہیں ۔
ابھی چند دن قبل پشاور میں دو بھائیوں  نے وراثت مانگنے پر بہن پر تشدد کیا اور والدہ بچانے آئی تو اسے بھی دھکے دئیے۔ اس واقعہ کی دردناک ویڈیو سوشل میڈیا پر آئی تو ایک شور مچ گیا۔ دونوں بھائی گرفتار ہوئے لیکن پھر معاملہ دب گیا۔ اب وہ دیکھیں سزا کب پاتے ہیں؟ اور اپنے انجام کو کیسے پہنچ پاتے ہیں؟
آج کل لوگوں کا معمول ہے کی اپنی پرانی آبائی جائیداد اور زمین بیچ کر نئی جائیداد بیٹوں یا بہوؤں کے نا م پر خریدتے ہیں تاکہ بیٹیوں کی وراثت کا حق ہی ختم ہو جائے اور گھر کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھائیوں کی محبت میں ان کی ہمنوا بن جاتی ہیں، جبکہ والد کی کمائی سے خریدی گئی ہر شے پر بھی تمام اولاد کا حق ہوتا ہے مگر یہاں تو باپ کے گھر کا وارث پہلے دن سے ہی بیٹے کو سمجھا جاتا ہے کیونکہ بیٹی یا بہن تو پرایا دھن تصور کی جاتی ہے۔
بیٹے کی اولاد کا سوچا جاتا ہے لیکن بیٹیوں اور بہنوں کی اولاد کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ بیٹی یا بہن اپنے خاندان ماں باپ اور بھائی کی محبت میں یہ قربانی دے تو دیتی ہے مگر پھر ساری عمر سسرال اور  اپنی ہی اولاد کے طعنے برداشت کرتی ہے
ان کے علاوہ نہ جانے اور کتنی مثالیں اور داستانیں ہوں گی جو ہمارے معاشرے اور گھر گھر کے المیے اور روگ بن چکیں  مگر سامنے نہیں آ سکیں اور وہ واقعات شاید اس سے بھی زیادہ دردناک ہوں؟
یہ اس المیہ کا وہ لمحہ فکریہ ہے جس پر عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے ہمارے مذہبی ۔سماجی ۔صحافی اور دانشور طبقوں کی جانب سے ایک بھرپور مہم کی شدید ضرورت ہے تاکہ یہ حساس معاملہ لوگوں کی زندگی میں دکھ کے بجائے خوشی اور مسرت کا موجب ہو جائے اور باپ کی موت کے دکھ کے ساتھ وراثتی جائیداد سے محرومی کا دکھ شامل نہ ہو ۔
ہمارے معاشرے میں بےشمار اچھے نیک اور عظیم لوگ آج بھی موجود ہیں جو انصاف کی مثالیں قائم کر کے اس شرعی تقسیم کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق کرتے ہیں اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتے خدا خوفی اور انصاف کی یہ مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں جو سب کے لیے ایک عملی نمونہ ہیں ۔

وراثت کیا ہے ؟

ایک انسان اپنی پوری زندگی سخت محنت اور جدوجہد میں گزارتا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان اور بچوں کا پیٹ پال سکے ۔ان کی رہائش اور ضروریات کا احساس کرتے ہوئے گھر، زیور، زمین جائیداد اور رقم کا انتظام کرتا ہے۔
اپنی منقولہ و گیر منقولہ جائیداد اپنے بیوی بچوں کی سہولت کے لیے جمع کرتا اور ان پر خرچ کرتا ہے۔
آخری لمحات میں خرچ کے باوجود جو مال و متاع بچ جاتا ہے وہ اس کی وراثت کہلاتی ہے ۔
یعنی وراثت ایک فرد کی موت کے بعد نجی ملکیت، لقب، قرض، مراعات ، حقوق اور فرائض کی ادائیگی کا رواج ہے۔ جس کے قوانین معاشروں میں ضرور مختلف ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں مگر کیونکہ مال و دولت اور جائیداد ایک پسندیدہ اور دل لبھانے والی چیز ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے میراث کے احکامات بلکل سادہ، صاف، واضح متعین کر دیے ہیں۔
اس میں کوئی الجھاؤ یا شبہ نہیں چھوڑا جو اس کے پسماندگان اور حق وراثت رکھنے والے تمام شرعی وارثان میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطا بق تقسیم ہونی چاہیے ۔ جس کے لیے اسلام وہ دین ہے جس  نے حق وراثت کی تشریح بڑے واضح طور پر کی اور جائیداد کی تقسیم کا ایک پورا نظام قائم کیا جس کی مثال اس سے قبل کسی تہذیب و ثقافت اور مذہب وملت میں نظر نہیں آتی ۔
میراث کی تقسیم ، وارثوں کے حصے، حصوں کی حکمت، میراث سے قرض کی ادائیگی ، وصیت پوری کرنے اور  اس پر عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب کی وعید سورۃ النساء میں بیان فرما دی ہے ۔
قیامت کے دن اس بارے میں سوال بھی ہو گا ۔اس لیے یہ ایک حساس معاملہ ہے ۔میراث کی تقسیم میں مقرر حصوں اور مقدار کی مکمل حکمت مصلحت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہماری چھوٹی سی عقل اور شعور اس کی گہرائی تک نہیں جا سکتے ۔
اس لیے ہم پر اس بارے میں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات پر ہی مکمل عمل لازم ہے ۔ ہم سب ان احکامات الہی کو مانتے اور بیان ضرور کرتے ہیں لیکن ہمارے اس فرسودہ معاشرے میں کچھ لوگوں کے رویے ان احکامات اور ہدایت الہی پر عمل کر نہیں پاتے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی احکامات سے عدم واقفیت،شاہانہ اور جاگیردارانہ ذہنیت قبائلی رسوم علاقائی کلچر اور ہندو تہذیب کے اثرات کی بنا پر خواتین کی وراثتی حق تلفی ایک عمومی انسانی اور معاشرتی رویہ ہے۔
ہمارے دقیانوسی معاشرے میں عورت کو اپنی عزت جائیداد اور ملکیت تو سمجھا جاتا ہے مگر اس کو وراثتی حق اور جائیداد سے حصہ دینا مشکل ہو جاتا ہے اور یہ سب ہمارے ملک کے مختلف صوبوں میں مختلف انداز اور طریقوں سے انجام پاتا ہے،
اسے کوئی گناہ یا برائی تصور نہیں کیا جاتا اور اسی رویے کی بدولت ہمارا معاشرہ اور وہ لوگ جو شاید وراثت کے بارے احکامات الہی اور ملکی قوانین سے لاعلم ہوتے ہیں ۔ہم کیونکہ سینکڑوں سال سے ہندو معاشرے سے متاثر ہو کر جہیز، کنیا دان جیسی ہندوانہ رسوم اور اپنے قبائلی خاندانی رواج و روایت کو وجہ اور جواز بنا کر
مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی ہی بہنوں اور بیٹیوں سے اس وراثتی ناانصافی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق ۸۵ فیصد پاکستانی خواتین وراثت سے محروم رہتی ہیں اورپاکستان میں آئے دن اس بارے میں سخت سے سخت قوانین بنائے جا رہے ہیں خاص طور سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں  نے گزشتہ دو دہائیوں میں خواتین کی وراثت اور جائداد میں حصہ کے حوالے سے کچھ نئے قوانین بنے اور کچھ پرانے قوانین میں ترامیم عمل میں لاکر ایک عظیم کام کر دیا ہے جو قابل ستائش ہے۔
پاکستان کی سینٹ میں وراثتی جائیداد میں عورت کے حصہ سے متعلق تنازعات اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کا بل بھی پاس ہو چکا جو ایک انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے اور اب تو وارثتی حقداروں کا تعین بھی نادرا کے ذریعے صرف پندرہ دن میں بذریعہ کمپیوٹر ہو رہا ہے ۔
یہ ایک بڑی سہولت ہے ورنہ ایک وراثتی سرٹیفیکیٹ کے لیے وکیلوں اور عدالتوں کے چکر لگا لگا کر ہی لوگ بوڑھے ہو جاتے تھے۔ یہ اچھا اقدام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ بہرحال دیرآید درست آید ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات ہماری سوچ اور رویے کو تبدیل کر دیں گے؟ کیا ہم دل سے عورت کا وراثت میں حصہ اور حق آسانی سے تسلیم کر لیں گے ؟
کیا ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی شادیاں قرآن شریف سے کرنا بند کر دیں گے ؟؟
کیا حق بخشوانے کا رواج دم توڑ دے گا ؟
کیا ہم صرف جائیداد بچانے کے لیے خواتین کی شادی نہ کر کے اور گھر بٹھا کر بوڑھا کرنا ختم کر دیں گے ؟
کیا ہندوانہ رسم جہیز اور شرعی وراثت کا فرق سمجھ پائیں گے ؟
دور جہالت فرسودہ ہندوانہ رواج اور روایا ت سے بغاوت کر پائیں گے ؟
کیا جائیداد محفوظ کرنے کے لیےچھو ٹی عمر کے بچوں اور بچیوں سے شادی اور وٹہ سٹہ کا رواج ختم ہو پائے گا ؟
ان قوانین پر عملداری کیسے ممکن ہو ؟
اس کے لیے قوانین کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معاشرتی رویے اور نظام  تبدیل کرنا ہوں گے اور اس مسئلے پر قانون سازی اور سزاوں کے ساتھ ساتھ پہلے بڑے پیمانے پر اس بارے میں اجتماعی شعور بیدار کرنے کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ تبدیلی اور سوچ پیدا کرنا ہم سب کی معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے سماجی ادارے، صحافی استاد مذہبی سکالرز اور علماٗ اس میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
اس نازک موضوع کو عوام الناس کا شعور بیدار کرنے کے لیے قومی تعلیمی نصاب میں شامل کیا جانا بھی ضروری ہے۔ خاص طور پر خواتین میں یہ شعور بیدار ہو اور وہ اپنے حق کو عین اللہ اور اس کے رسول کے احکامات و ہدایات کی روشنی میں لینا جائز اور عین اسلامی فریضہ سمجھیں۔
بھائیوں کی محبت میں اپنی اولاد کا حق غصب کر کے زیادتی کے مرتکب نہ ہوں اور ساتھ ساتھ وراثت کے معاملہ میں حق تلفی زیادتی اور ہیرا پھیری کرنے والے بھی اپنے اپ کو قصوروار سمجھیں ۔
تاکہ ہمارے معاشرے میں بےشمار معاشرتی و انسانی المیے رونما نہ ہو سکیں ۔کوئی بھی معاشرتی برائی اس وقت تک نہیں رک یا ختم نہیں ہو سکتی جب تک معاشرے میں اسے برا نہ سمجھا جائے اور اس فعل سے نفرت نہ کی جائے ۔
بلکہ ہمیں اس بارے میں خواتین سے ہمدردانہ رویے اپنا کر اس معاشرتی برائی کا سدباب کرنا چاہیے  اور اچھی روایات اور اسلامی رواجوں کو اپنانا چاہیے جس کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم قوانین اور سزاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ اور رویے میں تبدیلی لائیں ۔
اسلام سے قبل عرب میں وراثت صرف مردوں میں تقسیم ہوتی تھی ۔ کیونکہ دنیا کی دیگر تہذیبوں میں عورت کو ایک کمتر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے دنیا کی بیشتر تہذیبوں اور مذاہب میں وراثت کا نامکمل تصور ضرور ملتا ہے مگر اسلام، جو زندگی کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،اس بارے میں مکمل ہدایت دیتا ہے ۔
اللہ اور ہمارے پیارے نبی کا ہم مسلمانوں پر بڑا احسان ہے کہ ہمیں ایک مکمل اور جامع اسلامی قانوں وارثت عطا فرمایا اور خواتین کو وہ حقوق عطا کیے جس کا تصور اس سے قبل دنیا میں موجود نہ تھا اور مردوں کو ان حقوق کی درست ادائیگی پر آخرت میں بہترین اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔
سورۃ النسا ء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
اللہ تمہیں تمہاری اولاد ( کی وراثت ) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں، دو سے زائد تو ان کے لیے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر اکیلی ہو تو اس کے لیے آدھا حصہ ہے۔
یہی نہیں بلکہ اسلام میں عورت مختلف حیثیتوں میں وراثت کی حقدار قرار دی گئی ہے ۔چاہے وہ رشتہ ماں، بیوی، بیٹی، نانی، دادی، نواسی، پوتی ، بہن ،(سگی، ۔ماں شریک ، باپ شریک )خالہ اور پھوپھی ہر ایک اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق وارثت کی حقدار ہیں۔
اسی ہی طرح جو رشتے حقدار نہیں ہیں ان کا تعین بھی صاف صاف بیان کردیا گیا ہے یعنی یہ معاملی صنفی امتیاز کا نہیں بلکہ ایک شرعی نظام کے تحت اللہ تعالیٰ کے طے شدہ اصولوں اور احکامات کا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کے یہ واضح احکامات جان لینے کے بعد ہمیں یقین کر لینا چاہیے کہ مردوں کی طرح خواتین کا بھی ماں باپ کے ترکہ میں حصہ ہے۔ وہ بھی مردوں کی طرح ترکہ میں سے اپنا حصہ شرعی طور پر مانگنے کا اور لینے حق رکھتی ہیں ۔
پاکستان میں واضح قوانین اور سزاؤں کے تعین کے باوجود ان پر عملدرآمد نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں خواتین کے بنیادی حقوق کا استحصال اور اس پر خواتین کی خاموشی اور ڈر عام سی بات ہے وہاں جوں جوں جہالت کے خاتمے سے لوگوں کا شعور بیدار ہوتا جا رہا ہے، اب بے شمار ایسی خواتین سامنے آ رہی ہیں جو اپنے حق کے لیے اپنی معاشرتی اور قانونی جنگ لڑتی نظر آتیں ہیں۔
ساتھ ساتھ اب ہمارے معاشرے میں بھی تیزی سے یہ شعور بیدار ہو رہا ہے کہ انہوں  نے وراثت کے بارے میں اسلامی احکامات کے مطابق عمل کرنا ہے ۔
مندرجہ بالا واقعات سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے ملک میں بعض خواتین میں اب اتنی جرات پیدا ہو چکی ہے کہ وہ معاشرتی تنقید کے باوجود اس ناانصافی کو چیلنج کرنے کا حوصلہ پیدا کرتی ہیں اور اس کے لیے اپنی ذات کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کرتیں۔
اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتیں۔ ان میں اتنی جرات اور ہمت کیسے پیدا ہو جاتی ہے؟ اور کیا معاشرے کے دیگر افراد ان کی جرات اور ہمت سے کچھ سیکھ سکتے ہیں ؟ یقینا” لیکن ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔
جہاں مذہب اور ریاست تو عورت کو یہ حق دیتی ہے مگر معاشرہ یہ حق چھینتا ہو ؟ وہاں خواتین کے ساتھ ساتھ صاحب علم لوگوں کو بھی اس طرح کی جرات اور حوصلے کی کئی مثالیں قائم کر نے کی ضرورت ہے ۔تاکہ مذہب اور قانون کی مکمل عملداری ممکن ہو سکے۔
لالچی معاشرے اور دقیانوسی ہندوانہ روایات کے یہ پرانے ناسور آپ ہی پھوٹ کر بہ جائیں اور معاشرے کے تمام لوگ اپنی تمام خواتین کو عزت کے ساتھ ساتھ وارثت میں شرعی حصہ اور حق دینا بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق فرض اور ملکی قانون کی عملداری سمجھیں ۔
حق وارثت اور وراثتی قوانین کو اسکولوں اور کالجوں میں نصاب کا حصہ بنایا جائے اور خواتین کے حقوق کی آگاہی کا باقاعدہ نظام مرتب اور رائج کیا جائے اور ہمارے ملک کا میڈیا ۔
یہاں کے دانشور مذہبی و سماجی تنظیمیں اور خاص طور پر اسکول، علما ٔ، مسجد اور منبر اس شعوری بیداری و آگاہی کی مہم اور تحریک میں علاقائی زبانوں میں بیان و تحریر کر کے خصوصی کردار ادا کریں تاکہ لوگ سمجھ سکیں کیونکہ انفرادی شعور ی بیداری سے ہی اس المیہ سے نجات ممکن ہے۔
تاکہ معاشرے کو قانون اور ریاست کے جانب نہ دیکھنا پڑے بلکہ ہر شخص انفرادی طور اس فرض کی ادائیگی میں اپنا شرعی اخلاقی اور قانونی کردار ادا کر نے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھے۔
وقت آ گیا ہے کہ قانون پر عملداری اب سوچ کی تبدیلی سے کی جائے

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles