پاگل خانہ
مقبول جہانگیر
( حصہ ششم)
(ڈاکٹر بی اسٹار؟)
’’یہ پروفیسر برنارڈ کون ہے؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔ ’’کچھ پیشگی تعارف کرا دو، تو اچھا ہے۔ ویسے نام تو اُن کا بھی حرف ’بی‘ ہی سے شروع ہوتا ہے۔
’’مَیں صرف اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ پروفیسر برنارڈ صرف ایک ہفتہ قبل یہاں لایا گیا۔ ساٹھ سال کی عمر کا آدمی ہے ….. سارا دِن اَپنے کمرے میں کچھ لکھتا رہتا ہے۔ کسی سے بات چیت نہیں کرتا۔‘‘
’’بہت خوب، مَیں اُسے ضرور ملوں گا۔ پہلے ڈاکٹر رُتھ فورڈ سے تو مل لوں۔‘‘
وہ دونوں اُس بند دروازے کے پاس آئے جو پاگل خانے کو نچلی منزل سے الگ کرتا تھا۔ رینالڈس نے انٹرکام بکس کا ڈھکنا کھولا اور ایک بٹن دبایا۔
بکس کے اندر لگے ہوئے متعدد نیلے، پیلے اور سرخ بلبوں میں سے نیلے رنگ کا ایک بلب بٹن دباتے ہی روشن ہو گیا۔ انٹرکام کے اندر سے عجیب ….. مدھم سی آواز آنے لگی جیسے کوئی شخص منہ سے سیٹی بجا رہا ہو۔‘‘
’’فرمائیے جناب! مَیں ڈاکٹر رُتھ فورڈ سے کیا کہوں؟‘‘ رینالڈس نے فاسٹر سے پوچھا۔
’’یہی کہو کہ مَیں اُن سے ملنے کے لیے آ رہا ہوں۔‘‘
یکایک انٹرکام کے اسپیکر پر ڈاکٹر رتھ فورڈ کی آواز ابھری۔ ’’ہاں ….. رینالڈس! کیا بات ہے؟‘‘
’’جناب! وہ آپ نے حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر فاسٹر کو نیچے بھیج دو، اِس لیے وہ نیچے آ رہے ہیں۔‘‘ رینالڈس نے جواب دیا۔
’’ہاں، ہاں اُن سے کہو آ جائیں ….. مَیں انتظار کر رہا ہوں۔‘‘
اور چند لمحوں کے بعد آہنی دروازہ ایک گونج دار آواز کے ساتھ آہستہ آہستہ کھلنے لگا۔
’’آپ نیچے تشریف لے جا سکتے ہیں جناب!‘‘ رینالڈس نے فاسٹر سے کہا۔ فاسٹر نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
’’تمہارا شکریہ ادا کرنا مجھ پر واجب ہے، مسٹر رینالڈس! تم اچھے آدمی ہو اَور مَیں تمہارے بارے میں تعریفی کلمات ڈاکٹر رُتھ فورڈ سے کہوں گا۔
ہو سکتا ہے مَیں جلد دوبارہ اُوپر آ جاؤں۔ پروفیسر برنارڈ سے ملاقات کا اشتیاق تم نے میرے دل میں پیدا کر دیا ہے۔‘‘
’’مَیں ہر وقت آپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہوں گا، جنابِ والا!‘‘
رینالڈس نے مسکرا کر معنی خیز انداز میں یہ جملہ کہا اور فاسٹر جواب دیے بغیر جلدی سے سیڑھیاں اتر گیا۔
سیڑھیاں اترتے ہوئے فاسٹر انتہائی سنجیدگی سے رینالڈس کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ اُس کے بارے میں کون سے الفاظ ڈاکٹر رُتھ فورڈ سے کہے گا۔
سیڑھیاں اترنے سے پہلے فاسٹر نے مڑ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں بنی ہوئی چھوٹی سی کھڑکی میں اُسے رینالڈس کا چہرہ نظر آیا۔
رینالڈس اُسے نیچے جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ فاسٹر نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور اُس نے گردن کے اشارے سے اُس کا جواب دیا۔
پھر فاسٹر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔ ایک لمحے کے بعد انٹرکام کے بکس میں سے گونج دار آواز پیدا ہوئی۔ رینالڈس نے ایک بٹن دبایا:
’’ہاں ڈاکٹر!‘‘ اُس نے کہا۔ ’’اب مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘
رینالڈس کی یہ آواز کھڑکی میں سے ہوتی ہوئی فاسٹر کے کانوں تک بھی پہنچی۔ اُس کا قدم آخری نچلی سیڑھی پر تھا۔ فاسٹر وہیں رک گیا۔
انٹرکام کے اندر لگے ہوئے سپیکر پر اُسے ڈاکٹر رُتھ فورڈ کی ہلکی سی آواز سنائی دے رہی تھی، وہ رِینالڈس سے کہہ رہا تھا:
’’سات بج چکے ہیں۔ کیا رات کا کھانا تیار ہے؟‘‘
’’میرا خیال ہے، کھانا چند لمحوں میں اوپر پہنچنے والا ہو گا۔ بہرحال مَیں چیک کیے لیتا ہوں۔ رینالڈس نے جواب دیا۔
’’ہاں ….. چیک کرو ….. کھانا وقت پر ….. شیڈول کے مطابق ملنا چاہیے ….. جیسا کہ یہاں کا دستور ہے۔‘‘
’’بہت بہتر جناب ….. آپ کے ارشاد کی تکمیل ہو گی۔‘‘ رینالڈس نے کہا۔
فاسٹر نے سوچا ’’عجیب بات ہے ….. یہ کس کھانے کا ذکر ہو رہا ہے ….. شاید پاگلوں کو سات بجے کھانا دیا جاتا ہو گا ….. یا ….. یہ بھی اِن دونوں کے مابین کوئی خفیہ گفتگو تھی۔‘‘
اُس نے معنی خیز انداز میں اپنی گردن ہلائی۔ پھر آخری سیڑھی اتر کر راہداری میں اُس جناب مڑ گیا جدھر ڈاکٹر رُتھ فورڈ کا دفتر تھا۔
ڈاکٹر رتھ فورڈ کا پیغام انٹرکام پر وصول کرنے کے بعد رینالڈس نے اُس میکنزم کی آواز سنی جس کے ذریعے کھانا اوپر پہنچایا جاتا تھا۔
اُسے اطمینان ہوا کہ کھانا وقت پر اَور اَپنے شیڈول کے عین مطابق آ رہا تھا۔ اُس نے دیوار میں لگے ہوئے سوئچ بورڈ کا ایک اور بٹن دبا دیا۔ دو سیکنڈ بعد دیوار شق ہوئی اور اُس میں ایک فٹ لمبا اور ڈیڑھ فٹ چوڑا چوکھٹا سا نمودار ہوا۔
رینالڈس نے چوکھٹے کے اندر ہاتھ ڈالا اور اَیلومونیم کی بنی ہوئی ایک ٹرے اٹھائی۔ ٹرے میں چاولوں کی ایک پلیٹ، تلے ہوئے گوشت کا ایک ٹکڑا، چند سلائس اور دو سیب پڑے تھے۔
رینالڈس نے ٹرے اٹھا کر بٹن دبا دیا۔ دیوار میں بننے والا سوراخ برابر ہو گیا۔
وہ یہ ٹرے اٹھائے ڈاکٹر بائرن کے کمرے کی طرف چلنے لگا۔ ٹرے فرش پر رکھ کر اُس نے جیب سے کنجیوں کا گچھا نکالا۔
ایک کنجی منتخب کی اور اُسے قفل میں ڈال کر آہستہ سے گھمایا۔ پھر دھیمے سے دروازہ کھولا اور فرش پر رکھی ہوئی کھانے کی ٹرے اٹھا کر کمرے میں داخل ہوا۔
اُسے دیکھ کر سخت تعجب ہوا کہ ڈاکٹر اِس وقت معمول کے خلاف اپنے کشادہ اَور آرام دہ بستر پر لیٹا گہری نیند سو رہا ہے۔
ایک لحظے کے لیے رینالڈس ڈاکٹر بائرن کے قریب پہنچ کر رکا اور جھک کر اُس کا جائزہ لیا۔ بلاشبہ وہ سو رہا تھا۔
رینالڈس نے سوچا: ڈاکٹر کو جگا دینا چاہیے، ورنہ کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا اور ٹھنڈا کھانا ڈاکٹر بائرن کو پسند نہ تھا۔ اُس کی جھڑکیاں سننے کی تاب رینالڈس میں نہ تھی۔
ویسے بھی فاسٹر سے اُس کی تُو تُو مَیں مَیں ہو چکی تھی۔ لیکن ڈاکٹر کو جگانے کی پھر بھی اُسے جرأت نہ ہوئی۔ کھانا بعد میں گرم بھی کیا جا سکتا ہے ….. بہتر ہے ڈاکٹر کو سونے دیا جائے۔
رینالڈس نے کھانے کی ٹرے پرلی میز پر رکھنے کا فیصلہ کیا، مگر اِس دوران میں اُسے کچھ خبر نہ ہوئی کہ کمرے میں اُس کے اور ڈاکٹر بائرن کے علاوہ ایک اور جاندار شے بھی موجود ہے۔
یہ وہ ننھا سا مٹی کا پتلا تھا جو ڈاکٹر نے الماری سے باہر اُس میز پر رکھ دیا تھا جہاں اُس کے سائنسی آلات وغیرہ بکھرے ہوئے تھے اور یہی وہ پُتلا تھا جس کے بارے میں ڈاکٹر بائرن نے ڈاکٹر فاسٹر کو بتایا تھا کہ اِس کا ظاہر مکمل ہو چکا ہے، البتہ باطن کا مرحلہ باقی ہے۔
رینالڈس یہ نہیں دیکھ پایا تھا کہ مٹی کا یہ پتلا مشینی انداز میں میز پر سے چھلانگ لگا کر فرش پر بچھے قالین تک پہنچ چکا ہے۔
پھر وہ ایک ایک انچ سرکتا ہوا اُس دروازے کی طرف بڑھا جسے رینالڈس اندر آتے ہوئے بند کرنا بھول گیا تھا۔ اُدھر رینالڈس نے کھانے کی ٹرے میز پر رکھی، اِدھر مٹی کا پتلا کھلے دروازے سے باہر نکل گیا ۔
جب رینالڈس کمرے سے باہر آ کر دروازہ مقفل کر رہا تھا، اُس وقت مٹی کا پتلا راہداری کے آخری سرے تک پہنچ چکا تھا۔
رینالڈس سیدھا اُس میکنزم کے قریب پہنچا جہاں سے اُس نے کھانے کی ٹرے نکالی تھی۔ بٹن دبایا، دیوار میں وہی سوراخ نمودار ہوا۔
اُس نے اندر ہاتھ ڈال کر دوسری ٹرے نکالی۔ بٹن دبا کر سوراخ بند کر دیا۔ ٹرے لے کر بُونی کے کمرے کی طرف روانہ ہوا۔ مٹی کا پتلا اُس کے بالکل پیچھے دیوار کے ساتھ بےحس و حرکت کھڑا رَہا۔
جب رینالڈس راہداری کی دوسری جانب بُونی کے کمرے کی طرف مڑا، تب پُتلا اُچھل کر آگے بڑھا اور اُس بٹن کے عین نیچے پہنچ گیا جسے دبا کر رینالڈس نے دیوار میں ایک فٹ لمبا اور ڈیڑھ فٹ چوڑا سوراخ بنایا تھا۔
بٹن مٹی کے پتلے کی پہنچ سے خاصا دور تھا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے پُتلے نے اِدھر اُدھر گردن گھمائی۔ دیوار کے ساتھ ہی اُسے لوہے کا پتلا سا پائپ دکھائی دیا۔
یہ وہ پائپ تھا جس کے ذریعے پانی زیریں منزل سے بالائی منزل پر آتا تھا۔ پُتلے نے اُس پائپ پر ننھے منے بندر کی طرح چڑھنا شروع کیا۔
ایک دو بار وُہ پائپ پر سے پھسل بھی گیا، لیکن پتلے نے ہمت نہ ہاری۔ تیسری کوشش میں اُس کا چھوٹا سا ہاتھ اور چھوٹے سے ہاتھ کی باریک پتلی انگلی کا سرا دِیوار پر لگے بٹن تک جا پہنچا۔
پتلے نے کسی تاخیر کے بغیر انگلی کا دباؤ بٹن پر ڈال دیا۔
ایک ثانیے کے بعد دیوار میں وہی سوراخ نمودار ہوا، مگر اِس مرتبہ اُس میں کھانے کی ٹرے موجود نہیں تھی۔ مٹی کے پتلے کو معلوم نہ تھا کہ تیسری ٹرے آنے میں کتنا وقفہ ہو گا، تاہم وہ جست کر کے اُس سوراخ کے اندر دَاخل ہوا۔ اُس نے میکانکی انداز میں گردن جھکا کر دیکھا۔
اُس کے سامنے گہرا اَور تاریک خلا تھا جس کے اندر بجلی کے دو تین موٹے موٹے تاروں اور ایک آہنی پلیٹ فارم کے سوا کچھ نہ تھا۔ مٹی کا پتلا فریم کے اندر چپک گیا۔
پندرہ سیکنڈ بعد نیچے سے کھانے کی تیسری ٹرے اوپر آئی اور عین اُسی لمحے رینالڈس وہاں نمودار ہوا۔ اُس نے آہنی پلیٹ فارم پر رکھی ہوئی ٹرے اٹھائی اور بٹن دبا کر سوراخ بند کر دیا۔
مٹی کا پتلا تیزی سے اچھل کر نیچے جاتے ہوئے آہنی پلیٹ فارم پر کود گیا جو آہستہ آہستہ خلا میں گر رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد یہ آہستہ سے رک گیا۔ مٹی کے پتلے نے چھلانگ لگائی اور دِیوار میں بنے ہوئے ایک فٹ لمبے اور ڈیڑھ فٹ چوڑے سوراخ میں سے باہر نکل آیا۔
نچلی منزل میں غیرمعمولی سناٹا تھا جیسے وہاں کوئی ذی روح کبھی نہیں آیا۔ فاسٹر کے سامنے ایک چھوٹی سی راہداری تھی جس کے دائیں جانب ڈاکٹر رُتھ فورڈ کا دفتر تھا۔
فاسٹر دبے پاؤں چلتا ہوا دَفتر کے نزدیک پہنچ گیا۔ دروازہ بند تھا، وہ دَروازے پر دستک دینے ہی والا تھا کہ اُس کے کانوں میں کسی کے قدموں کی آہٹ آئی۔
فاسٹر نے چونک کر اُدھر دیکھا۔ سفید یونیفارم پہنے وہی نرس آ رہی تھی جسے پہلی بار فاسٹر نے عمارت کے اندر آتے ہوئے دیکھا تھا۔ نرس نے سوالیہ نگاہوں سے فاسٹر کی طرف دیکھا۔ فاسٹر نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’ڈاکٹر رتھ فورڈ میرا اِنتظار کر رہے ہیں۔ رینالڈس نے اُنھیں بتا دیا ہے کہ مَیں اوپر سے نیچے آ رہا ہوں۔‘‘
نرس نے کچھ کہے بغیر اثبات میں گردن ہلائی اور وَاپس اُدھر مڑ گئی جدھر سے آئی تھی۔ فاسٹر نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی، پھر دھکا دے کر دروازہ کھولا اور اَندر دَاخل ہو گیا۔
ڈاکٹر رُتھ فورڈ اُسی طرح اپنی میز کے پیچھے بیٹھا دکھائی دیا جس طرح پہلی بار فاسٹر نے اُسے بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ سر جھکائے کاغذات کا مطالعہ کر رہا تھا۔
فاسٹر کے آنے کی آہٹ پائی، تو اُس نے منہ اوپر اٹھایا۔ اتنے میں فاسٹر دروازہ اَندر سے بند کر کے رُتھ فورڈ کے قریب آ چکا تھا۔
’’کہیے، مریضوں سے ملاقات کیسی رہی؟‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے فاسٹر سے پوچھا۔
فاسٹر نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ جواب میں خود بھی مسکرایا۔
رُتھ فورڈ کے ہونٹوں سے مسکراہٹ یک لخت غائب ہو گئی۔ چند لمحے دونوں ایک دوسرے کی صورت دیکھتے رہے۔ آخر رُتھ فورڈ نے پھر کہا:
’’سنائیے ڈاکٹر فاسٹر! مریضوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟‘‘
’’ابھی تمام مریضوں کو مَیں نہیں دیکھ پایا۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’تاہم جن لوگوں سے مَیں مِل پایا ہوں، اُن کی حالت دیکھ کر رنج ہوا …..‘‘
رُتھ فورڈ کی بھنوئیں سکڑ گئیں۔ ’’رنج ہوا!‘‘
اُس نے فاسٹر کے الفاظ زیرِلب دہرائے۔ ’’آخر کیوں؟‘‘
’’اِس لیے کہ اُن قابلِ رحم مریضوں کو آپ نے چار دِیواری کے اندر ….. آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر رکھا ہے جبکہ جدید ترین …..‘‘
’’مَیں سمجھ گیا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں …..‘‘ رُتھ فورڈ نے اُس کی بات کاٹ دی۔
’’میرا اِحساس بھی وہی ہے جو آپ کا ہے ….. جدید ترین سائنسی طریقے اپناتے ہوئے ہم بےشک ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں جہاں یہ مریض زیادہ دماغی سکون اور خوشی پا سکیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم کوشش کے باوجود اَیسا نہیں کر سکے۔
اُن میں سے ہر مریض انتہائی شدید نوعیت کا پاگل ہی نہیں، خوفناک اور سفّاک قاتل بھی ہے، اگر ہم اُنھیں آزاد چھوڑ دیں، تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہاں کیا ہو جائے۔
عین ممکن ہے وہ ایک دوسرے ہی کو مار ڈالیں۔‘‘
’’مَیں تسلیم کرتا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’مگر آپ کم از کم اِس قدیم اور فرسودہ عمارت کے بجائے اُن مریضوں کو کسی نئی عمارت میں بھی تو منتقل کر سکتے تھے۔
آپ جانتے ہی ہیں ماحول کس قدر اِنسان کے ذہن پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اچھے ماحول میں برا ذہن بھی اچھا ہو جاتا ہے اور برا ماحول ملے، تو اچھے خاصے صحت مند افراد ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔‘‘
رُتھ فورڈ کی مسکراہٹ بحال ہو گئی۔
’’آہا ….. آپ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ فنکارانہ ذہن بھی رکھتے ہیں، مسٹر فاسٹر! ….. بےشک فنکارانہ تصوّرات بھی اپنی جگہ قیمتی چیز ہیں، لیکن حقیقت کی دنیا میں اِن سے پائیدار کام نہیں لیا جا سکتا۔
ہمارے ہاں اِس وقت جتنے مریض داخل ہیں، نفسیاتی ماہرین نے اُن سب کو معاشرے کے لیے بےحد خطرناک قرار دِیا ہے۔ اور اُن ماہرین کی تائید ہماری عدالتوں نے بھی اپنے فیصلوں میں کر دی ہے۔
اُن میں سے ہر خونی کو قانون آسانی سے موت کی سزا دَے سکتا تھا، لیکن محض اِسی سبب سے اُن کی جانیں بچ گئیں کہ ڈاکٹروں نے اُنھیں پاگل اور لاعلاج قرار دَے دیا ہے۔
ذرا سوچیے، اُن لوگوں کے درمیان دن رات رہ کر ہماری کیفیت کیا ہوتی ہو گی۔‘‘
’’مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کہ آپ بھی اُن بےچاروں کو لاعلاج سمجھتے ہیں، حالانکہ میری رائے یہ ہے کہ اُن میں سے ہر مریض صحت مند ہو سکتا ہے۔‘‘
’’یہ محض آپ کا خیالِ خام ہے ڈاکٹر …..‘‘ رُتھ فورڈ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’وہ لوگ ٹھیک نہیں ہو سکتے اور زندگی کے آخری سانس تک ایسے ہی رہیں گے۔‘‘
’’مگر ….. مَیں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات نے اُنھیں لاعلاج قرار دَے دیا ہے، تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن ماہرین کا فیصلہ گویا حرفِ آخر ہے۔
آپ براہِ کرم مجھے اُن میں سے صرف ایک مریض کے بارے میں ہی بتا دیجیے کہ وہ کیسے لاعلاج ہے۔‘‘ فاسٹر نے بلند آواز میں کہا۔
ڈاکٹر رُتھ فورڈ گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ اگرچہ اُس کی نگاہیں فاسٹر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں، تاہم اُس کے بُشرے پر جو آثار پھیلے ہوئے تھے، اُن سے پتا چلتا تھا کہ وہ سخت ذہنی کشمکش سے دوچار ہے۔
کمرے میں گمبھیر سناٹا طاری تھا۔ آخر رُتھ فورڈ نے کہنا شروع کیا:
’’مَیں آپ کو ڈاکٹر بائرن کی مثال دیتا ہوں۔ بھلا بتائیے کیا آپ اُس شخص کے ذہن سے یہ وہم خارج کر سکتے ہیں کہ وہ خود ساختہ مٹی کے پُتلوں میں جان ڈالنے پر قدرت رکھتا ہے۔
اُس کے دماغ کی آخری گہرائیوں تک یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ وہ خدا کی طرح مٹی کا پُتلا بنا کر اُس میں روح پھونک سکتا ہے اور پھر اُس پتلے کو حکم دے کر اُس سے جو کام چاہے، لے سکتا ہے۔
بولیے اُس شخص کا علاج آپ کیونکر کریں گے۔ آپ ابھی ابھی اُس سے مل کر آ رہے ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر بائرن کا مرض اتنا پیچیدہ ہرگز نہیں جتنا آپ لوگ سمجھے ہوئے ہیں۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’دراصل یہ ایک عام نفسیاتی کیس ہے۔ جدید سائنس نے ثابت کر دیا کہ ہر انسان کے اندر اَیسی خفیہ صلاحیتیں یا طاقتیں موجود ہیں جن کے کمالات انتہائی حیران کن ہیں۔
یہ پوشیدہ قوتیں مادے پر بہرحال حاوی ہو سکتی ہیں۔ مَیں اِس ضمن میں ایک دو نہیں، سینکڑوں مثالیں دے سکتا ہوں۔
انسان بھی بلاشبہ ایک مادی چیز ہے، مگر اِس کے اندر جو عظیم خفیہ قوت ایک خاص تربیت کے تحت کام کر رہی ہے۔ اُسے اگر بروئےکار لایا جائے، تو یہ بےجان اور بےروح مادی اشیا میں تصرف کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
’’ہپناٹزم اور مسمریزم وغیرہ اَیسی عظیم قوت کے ادنیٰ کرشمے ہیں۔ آپ اِسے یوں سمجھیں کہ جب مادے کے کرشمے لامتناہی ہیں جو ایک کثیف اور شکل بدل لینے والا عنصر ہے، تب سوچیے کہ روح جو نہایت لطیف ہے، اُس کے کرشمے کس قدر عظیم ہوں گے۔
ڈاکٹر بائرن خدا نہیں بن رہا ….. اور نہ بن سکتا ہے۔ اُس نے اپنے بیان میں ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ وہ خدا بننا چاہتا ہے،
بلکہ وہ تو صرف یہ کہتا ہے کہ جو قوتِ خیالیہ اُس کے اندر موجود تھی، اُس نے اُسے دریافت کر لیا ہے اور اَب وہ اِس قابل ہے کہ اپنی یہ قوت عارضی طور پر کسی بھی بےجان اور بےروح مادی جسم کے اندر منتقل کر سکتا ہے۔‘‘
’’بہرحال ….. وہ لاعلاج ہے۔‘‘ رُتھ فورڈ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’البتہ ہم اُس پر ایک تجربہ ضرور کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر بائرن بلاشبہ غیرمعمولی دماغی قوتوں کا مالک ہے اور مجھے اُس کا قرب حاصل رہا ہے، اُس زمانے میں جبکہ وہ دماغی توازن سے محروم نہیں ہوا تھا۔
یہی سبب ہے کہ مَیں نے اُسے اِس عمارت کے سب سے اچھے کمرے میں رکھا اور اُس کے آرام و آسائش کی تمام چیزیں بہم پہنچائی ہیں۔
مجھے اِس کا بھی ذرّہ برابر افسوس نہیں کہ وہ مجھے گالیاں دیتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں اگر ہمارا تجربہ کامیاب رہا، تو شاید ہم اُسے واپس لا سکیں۔‘‘
یہ کہہ کر رُتھ فورڈ نے اپنی میز پر رکھا ہوا چمڑے کا ایک خوبصورت ڈبا اٹھایا۔ اُسے کھولا۔
فاسٹر نے دیکھا کہ ڈبے کے اندر ایک لمبی اور اِنتہائی چمک دار سرجیکل آری رکھی ہے۔
فاسٹر کو یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ یہ وہ آری ہے جس سے انسانی کھوپڑیاں آپریشن کے وقت کاٹی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہونے کے باوجود یہ خوفناک چمک دار آری دیکھ کر فاسٹر کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
’’خدا کی پناہ!‘‘ وہ بدحواس ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔
’’کیا آپ ڈاکٹر بائرن کی کھوپڑی چیرنے کا ارادہ کر رہے ہیں؟‘‘
’’یہ آخری تجربہ ہو گا۔‘‘ رُتھ فورڈ نے اطمینان سے کہا۔
’’مَیں خود بھی چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر بائرن ٹھیک ہو جائے۔ ایسا قابل اور تجربےکار ڈاکٹر ہمارے ہاں کوئی اور نہیں۔‘‘
’’اور اَگر یہ تجربہ ناکام ہو گیا، تب؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔ ’’کیا آپ نے ڈاکٹر بائرن کے لواحقین وغیرہ سے آپریشن کی اجازت لے لی ہے؟‘‘
’’ڈاکٹر بائرن دنیا میں تن تنہا شخص ہے۔ اُس نے ابھی تک شادی نہیں کی …..
اپنے ایک پرانے وصیت نامے کی رو سے وہ ساری جائیداد اَور نقد رقم وغیرہ ہمارے شفاخانے کے نام کر چکا ہے …..
اگر تجربہ ناکام رہا، تب بھی ہم نقصان میں نہیں رہیں گے۔
کم از کم ایسے فرد سے نجات مل جائے گی جو بےجان پُتلوں میں زندگی کی روح پھونک کر تمام دنیا کے لیے ہولناک خطرے کا کسی بھی وقت سبب بن سکتا ہے۔‘‘
فاسٹر مبہُوت اور دَہشت زدہ ہو کر رُتھ فورڈ کی طرف تکتا رہا۔
پھر اُس کی نگاہ آری پر پڑی جو اَبھی تک رُتھ فورڈ کے ہاتھ میں تھی اور وُہ اُسے محبت آمیز نظروں اور شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے بار بار دَستے کے ذریعے گردش دے رہا تھا۔
’’میرا خیال ہے، ڈاکٹر بائرن کا علاج نفسیاتی طریق پر زیادہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔‘‘ فاسٹر نے آخرکار آہستہ سے کہا۔
’’ہو سکتا ہے آپ کا خیال درست ہو، مگر مَیں اِس پر بوجوہ عمل نہیں کر سکتا۔‘‘
رتھ فورڈ کا لہجہ بےحد سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا۔
’’مَیں نے آج تک دماغ کے جتنے بھی آپریشن کیے ہیں، ایک آدھ کے سوا سب کے سب کامیاب رہے۔ اگر ڈاکٹر بائرن کی زندگی کے چند دن ابھی باقی ہیں، تو …..‘‘
دروازے پر دستک سنائی دی۔ رُتھ فورڈ نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ دستک مسلسل جاری تھی۔
’’کون ہے؟ اندر آ جاؤ۔‘‘ رُتھ فورڈ نے پکار کر کہا۔
دروازہ آہستہ سے کھلا اور نرس ایک چھوٹی سی خوبصورت ٹرالی دھکیلتی ہوئی اندر آئی۔ ٹرالی کے اوپر کھانے پینے کی چیزیں ایک ٹرے میں سجی ہوئی تھیں۔
رتھ فورڈ نے نرس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
’’ہر چیز شیڈول کے مطابق ہونی چاہیے۔ مَیں تم سے بہت خوش ہوں ….. ٹھیک ہے ….. تم جا سکتی ہو ….. باقی دیکھ بھال مَیں خود کر لوں گا۔‘‘
نرس الٹے قدموں لَوٹ گئی۔ جاتے ہوئے اُس نے دروازہ اَچھی طرح بند کر دیا۔
رُتھ فورڈ نے ہاتھ بڑھا کر ٹرالی اپنے نزدیک کر لی۔ ایک کیتلی میں گرم گرم چائے بھری تھی۔ دو پلیٹوں میں سینڈوچز تھے ۔
ایک میں سلائس۔ خالی پلیٹیں، چمچے، چائے کی پرچیں، پیالیاں اور چینی دان اُن کے علاوہ تھا۔ رُتھ فورڈ نے اپنی گھومنے والی کرسی موڑی اور چائے پیالیوں میں انڈیلتے ہوئے بولا:
’’ہاں ڈاکٹر! بولو یہاں کام کرو گے؟‘‘
اب فاسٹر کے حیران ہونے کی باری تھی۔ اُس نے ہنس کر کہا :
’’کیا میرے خیالات جاننے کے باوجود آپ اپنے ادارے میں مجھے رکھنے پر تیار ہیں؟‘‘
’’کیوں نہیں؟ اِس میں آخر ہرج ہی کیا ہے۔‘‘
رُتھ فورڈ بھی ہنسا، مگر اُس کی ہنسی کا انداز فاسٹر کو پسند نہ آیا۔ یہ مصنوعی اور کھوکھلی ہنسی تھی جس کے پیچھے یقیناً کوئی شرارت یا تحقیر پوشیدہ تھی۔
سب لوگ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اور ہمارے مابین بھی علمی نوعیت کا اختلاف ہے، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ مَیں آپ کی قابلیت، اعلیٰ صلاحیت یا تجربے کا منکر ہوں۔
عین ممکن ہے کچھ عرصے بعد مَیں آپ کے خیالات سے اتفاق کرنے لگوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ مجھ سے متفق ہو جائیں۔
بہرحال ….. مَیں صاف کہہ دینا پسند کرتا ہوں کہ اگر آپ یہاں آ گئے، تو مَیں نہ صرف خوشی محسوس کروں گا، بلکہ مجھے اطمینان رہے گا کہ مَیں نے صحیح کام کے لیے صحیح آدمی منتخب کیا ہے۔‘‘
اُس نے چائے کی پیالی بنا کر فاسٹر کے آگے رکھی، پھر سینڈوچز کی پلیٹ آگے بڑھائی۔ فاسٹر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک سینڈوچ اٹھا لیا۔
’’مَیں اِن خیالات کے لیے آپ کا ازحد ممنون ہوں، ڈاکٹر رُتھ فورڈ …..
یقیناً آپ فراخ دل اور حوصلہ مند آدمی ہیں کہ میری باتیں سننے کے باوجود مجھے اِس ادارے میں ملازمت دینے پر تیار ہو گئے، تاہم مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ مَیں خود کو یہاں کے لیے مناسب نہیں سمجھتا۔‘‘
رتھ فورڈ نے گہرا سانس لیا اور آہستہ سے بولا ’’آپ نے مجھے مایوس کیا ہے ڈاکٹر فاسٹر! مَیں سمجھ رہا تھا کہ آپ میں آگے بڑھنے کا عزم ہے۔‘‘
’’عزم تو ہے ….. مگر یہاں کام کرنے کا نہیں۔‘‘
’’آپ ذہنی طور پر شکست کھا گئے شاید۔‘‘ رتھ فورڈ طنز پر اتر آیا۔
’’شکست؟‘‘ فاسٹر کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ ’’مَیں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ ذرا بات واضح کیجیے۔‘‘
رتھ فورڈ ہنسا۔ ’’آپ بھول گئے ….. مَیں یاد دِلاتا ہوں۔ جب آپ اوپر کی منزل میں جا رہے تھے، تو مَیں نے بطورِ امتحان ایک شرط عائد کی تھی اور وُہ یہ تھی کہ آپ ڈاکٹر بی سٹار کو شناخت کریں گے …..
مگر آپ اُنھیں شناخت کرنے میں ناکام رہے۔
مَیں جانتا تھا کہ آپ اُنھیں شناخت نہیں کر پائیں گے، تاہم مَیں نے آپ کے نیچے آ جانے کے بعد جان بُوجھ کر یہ ذکر اِس لیے نہیں چھیڑا تھا کہ آپ خواہ مخواہ نادم ہوں گے۔
آپ کی ذہنی شکست اِس ناکامی کا ثبوت ہے۔‘‘
رتھ فورڈ کو مطلق خبر نہ تھی کہ وہ ٹرالی جو نرس دھکیل کر کمرے میں لائی تھی، اُس کے نچلے خانے میں ڈاکٹر بائرن کا بنایا ہوا مٹی کا جاندار پُتلا چھپا ہوا ہے۔
وہ ایک بڑے سے سفید نیپکن میں لیٹا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ پُتلے نے نیپکن سے خود کو آزاد کیا ور نہایت خاموشی سے ٹرالی کے اگلے پہیّے پر چڑھ گیا۔
’’ڈاکٹر فاسٹر! اب خاموش کیوں ہو؟ جواب دو۔‘‘
رتھ فورڈ کی آواز کمرے کی فضا میں گونج رہی تھی۔ ’’تم یہاں اِسی لیے رہنا نہیں چاہتے کہ جو کام مَیں نے تمہارے سپرد کیا تھا۔ وہ تم خوش اسلوبی سے نہیں کر پائے ….. تم پہلے ہی امتحان میں فیل ہو گئے۔‘‘
’’امتحان؟‘‘ فاسٹر اب اپنے غصّے پر قابو نہ پا سکا۔
’’آپ کون ہوتے ہیں میرا اِمتحان لینے والے؟ یہ حق آپ کو دیا کس نے کہ میرا اِمتحان لیں۔ معاف فرمائیے ڈاکٹر رُتھ فورڈ! مَیں بھی آپ ہی کی سطح کا ایک ڈاکٹر ہوں۔
آپ مجھ سے عمر، تعلیم یا تجربے میں کوئی فوقیت نہیں رکھتے۔ کیا آپ نے مجھے اسکول کا کوئی لڑکا سمجھا ہے؟
مَیں اپنے پیشے میں خاص شہرت اور مقام کا مالک ہوں۔ یہ اور بات کہ آپ اِس سے بےخبر ہیں۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ مَیں نے یہاں آ کر سخت غلطی کی۔ آپ خطاب کے لائق ہی نہیں ہیں۔‘‘
مٹی کا پتلا رفتہ رفتہ ….. کوئی آہٹ پیدا کیے بغیر ….. ٹرالی کے بڑے سے پہیّے پر چڑھتا جا رہا تھا۔
’’تم خود کو کوالیفائیڈ ڈاکٹر سمجھتے ہو؟‘‘ رُتھ فورڈ نے حقارت سے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے ….. یقیناً تم کوالیفائیڈ ڈاکٹر ہو گے، مگر اِس ادارے کے لیے تم جاہلِ مطلق ہو۔ مَیں تمہاری اہلیت تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہوں۔
مَیں تمہارے بارے میں مزید تحقیق کروں گا۔ مجھے شبہ ہے کہ تم نے اپنی جو اَسناد اَور سرٹیفکیٹ وغیرہ پیش کیے ہیں، وہ بھی جعلی ہوں گے۔‘‘
فاسٹر طیش میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اُس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
’’مسٹر رُتھ فورڈ! زبان سنبھال کر گفتگو کیجیے۔ مَیں آپ کے پاگل خانے کا کوئی مریض یا رینالڈس نہیں ہوں، اگر اب آپ نے کوئی بےہودہ لفظ اپنی زبان سے میرے بارے میں نکالا، تو مَیں آپ کی زبان گدّی سے کھینچ لوں گا۔
مَیں جس قدر طرح دیے جاتا ہوں، اُسی قدر آپ منہ زوری کرتے جاتے ہیں۔‘‘
مٹی کا پُتلا اِس دوران میں پہیّے کے عین اوپر پہنچ چکا تھا۔ اُس نے اپنے ننھے ننھے دونوں بازو اُوپر اٹھائے اور رُتھ فورڈ کی لمبی چوڑی میز کا کنارہ سختی سے تھام لیا۔
پھر آہستہ آہستہ وہ زور لگا کر اُوپر اٹھا اور اَپنا چھوٹا سا سر میز کے کنارے تک لانے میں کامیاب ہو گیا۔
رتھ فورڈ سکون سے اپنی کرسی پر بیٹھا فاسٹر کی صورت تَک رہا تھا۔ اُس کے رویّے سے ظاہر ہوتا تھا کہ فاسٹر کے اشتعال میں آنے سے اُسے اندرونی مسرّت ہو رہی ہے۔
فاسٹر کے پاس اب اِس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ یہاں سے رخصت ہو جائے۔ یہ سوچ کر اُس نے جانے کے لیے دروازے کی طرف قدم بڑھایا۔
رتھ فورڈ نے آہستہ سے کہا ’’مجھے افسوس ہے کہ میرے منہ سے بعض جملے ایسے نکل گئے جو مناسب نہ تھے۔ امید ہے تم معاف کرو گے۔‘‘
فاسٹر کے اُٹھے ہوئے قدم رک گئے۔ اُس نے پلٹ کر رتھ فورڈ کی طرف دیکھا اور کہا:
’’مجھے بھی آپ سے کوئی پُرخاش نہیں، لیکن مَیں یہاں اب ٹھہرنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’ٹھیک ہے ….. مَیں تمہیں زبردستی روکنا نہیں چاہتا۔‘‘ رتھ فورڈ نے کہا۔
’’لیکن میری خواہش یہ ہے کہ تم کم از کم چائے کی پیالی تو ختم کرتے جاؤ۔ بیٹھو ….. اور غصّہ تھوک دو۔‘‘
فاسٹر دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ رتھ فورڈ نے سینڈوچز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ایک اور کھاؤ ….. ابھی ہمیں کچھ اور ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘
فاسٹر نے ایک اور سینڈوچ اٹھا لیا۔ رتھ فورڈ نے اُس کے لیے چائے کی دوسری پیالی بنائی۔
فاسٹر دل ہی دل میں اُس کے بدلے ہوئے رویّے پر متعجب تھا۔
’’تمہاری رائے میں اُن مریضوں کے ساتھ ہمیں کیا سلوک کرنا چاہیے؟‘‘ رتھ فورڈ نے پوچھا۔
’’دیکھیے! مَیں صرف ایک بات جانتا ہوں اور وُہ یہ کہ اُن مریضوں کو تھیراپی طریقۂ علاج کی سخت ضرورت ہے اور یہ علاج کچھ مشکل نہیں۔‘‘
مٹی کا پتلا بڑی بڑی کتابوں اور موٹی موٹی فائلوں کے پیچھے چپ چاپ حرکت کرتا ہوا رُتھ فورڈ کی میز کے کنارے آخری سرے تک پہنچ چکا تھا۔
اب اُس کے اور تیز دھار چمکیلی آری کے درمیان مشکل سے دو فٹ کا فاصلہ ہو گا۔
ڈاکٹر رتھ فورڈ نے آری چمڑے کے کیس میں دوبارہ بند کرنے کے بجائے یونہی ایک طرف رکھ دی تھی۔
’’گویا تمہیں یقین ہے کہ تھیراپی کے ذریعے یہ خطرناک اور قاتل مریض ٹھیک ہو سکتے ہیں۔‘‘ رتھ فورڈ نے پوچھا۔
’’کوشش کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’اِس کے علاوہ آپ اُنھیں ہر ممکن حد ذہنی اور جسمانی آزادی دیجیے۔ اُنھیں یہ مت بتائیے کہ وہ دماغی عدم توازن کا شکار ہو چکے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے۔ اگر آپ ایک صحیح الدماغ شخص سے باربار یہ کہتے رہیں کہ وہ پاگل ہو گیا ہے، تو ایک نہ ایک لمحہ ایسا ضرور آ جائے گا جب وہ سچ مچ پاگل ہو جائے گا۔
ذہنی مریض اِس بات سے بےحد چڑتے ہیں کہ اُنھیں پاگل کہا یا سمجھا جائے یا اُن کے ساتھ ایسا رویّہ اختیار کیا جائے جس سے وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ وہ عام افراد کے ساتھ رہنے اور اُن میں اٹھنے بیٹھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں۔
یہ طرزِ عمل غلط بھی ہے اور خطرناک بھی ….. اِسے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
مَیں نے اوپر جن چند مریضوں سے گفتگو کی ہے، یقین فرمائیے اُن میں ایک مریض بھی لاعلاج نہیں۔
آپ اُنھیں جس قدر سہولتیں اور رَاحتیں فراہم کر سکتے ہیں، وہ فراہم کیجیے۔ اُن کا دماغی توازن اعتدال پر آ جائے گا۔‘‘
رتھ فورڈ نہایت غور سے فاسٹر کی تقریر سن رہا تھا۔ ایک دو مرتبہ اُس کے ہونٹوں پر تبسّم کی خفیف سی لکیر نمودار ہوئی۔ فاسٹر چپ ہوا، تو وہ کہنے لگا:
’’بےشک! مَیں اِن باتوں سے اتفاق کرتا ہوں اور تم نے محسوس کیا ہو گا کہ مَیں نے امکانی حد تک مریضوں کو آزادی دی ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر بائرن کو دیکھیے …..‘‘
’’ڈاکٹر بائرن غیرمعمولی قوتوں اور خوبیوں کا آدمی ہے …..‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’ایسا حیرت انگیز آدمی مَیں نے ابھی تک کوئی اور نہیں دیکھا۔
اُس کا ذہن ایک عجوبہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ عدم توازن کا شکار ہو گیا، تاہم مَیں اُس کی حالت سے مایوس نہیں ہوں۔
ڈاکٹر بائرن محض پٹڑی سے اتر گیا ہے، اُسے معمولی توجہ کے بعد پٹڑی پر لایا جا سکتا ہے۔‘‘
’’یقیناً وہ غیرمعمولی دماغ رکھتا ہے۔ مَیں تسلیم کرتا ہوں۔‘‘ رتھ فورڈ نے کہا۔
’’لیکن اُس کا ذہن خطرناک منصوبے بنا رہا ہے جسے روکنا ضروری ہے۔‘‘
مٹی کا پتلا آہستہ آہستہ آری کی طرف بڑھ رہا تھا اور پھر اُس نے آری کا دستہ تھام کر اُسے اٹھا لیا …..
آری اُس کے وزن سے بھاری تھی۔
وہ ایک مرتبہ لڑکھڑایا، لیکن فوراً ہی سنبھل گیا۔ اُس نے اپنے دونوں ننھے منے ہاتھوں سے آری مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔
’’خطرناک منصوبے؟‘‘ فاسٹر کہہ رہا تھا۔
’’ڈاکٹر بائرن کے خطرناک منصوبوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟‘‘
’’وہی مٹی کے پتلے جن میں وہ جان ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘ رتھ فورڈ نے کہا۔
فاسٹر ضبط کے باوجود ہنس دیا۔ ’’دیکھیے، اِس میں کوئی خطرناک منصوبہ نہیں ہے۔
مَیں نے خود بائرن کے بنائے ہوئے پتلوں کو مسکراتے اور پلکیں جھپکاتے دیکھا ہے۔ یہ شعبدہ اَیسا ہے کہ ذرا سی مشق کے بعد ہر شخص دکھا سکتا ہے۔
مَیں حیران ہوں کہ آپ ذہن اور نفسیات کا علم رکھنے کے باوجود اِس سے بےخبر ہیں۔
واقعہ صرف اتنا ہے کہ ڈاکٹر بائرن کے دماغ کی لہریں اُن افراد کے دماغ کی لہروں پر حاوی ہو جاتی ہیں جنہیں وہ اَپنے بنائے ہوئے مٹی کے پتلے دکھاتا ہے۔
ڈاکٹر بائرن یہ چاہتا ہے کہ اُس کے بنائے ہوئے پُتلے دوسروں کو جاندار دِکھائی دیں اور وُہ اُنھیں جاندار دِکھائی دینے لگتے ہیں، ورنہ حقیقت میں وہ بےجان ہی ہوتے ہیں۔
پہلے پہل مَیں خود بھی چکرایا تھا، لیکن جب سنجیدگی سے غور کیا، تو بھید کھل گیا۔‘‘
مٹی کا پتلا تیز دھار آری دونوں ہاتھوں میں تلوار کی طرح سنبھالے اب میز سے اتر کر ٹرالی کے پہیّے پر قدم رکھ چکا تھا اور نیچے اتر رہا تھا۔
رتھ فورڈ نے تیسرا سینڈوچ اٹھایا۔ ’’بہرحال مَیں فیصلہ کر چکا ہوں کہ ڈاکٹر بائرن کا آپریشن ضرور کروں گا۔ اِس کے ساتھ ساتھ مٹی کے تمام پُتلے بھی توڑ دوں گا۔‘‘
’’آپریشن کا مشورہ مَیں نہیں دوں گا، البتہ پتلے توڑنے کا آپ کو اختیار حاصل ہے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
رتھ فورڈ نے سینڈوچ دانت سے کاٹ کر چبانا شروع کیا۔ عین اُسی لمحے فاسٹر نے دیکھا کہ ننھا سا مٹی کا پتلا رتھ فورڈ کی کرسی کے عین پیچھے نمودار ہوا۔
فاسٹر کو اَپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ وہ بےحس و حرکت اپنی کرسی پر بیٹھا پلک جھپکائے بغیر اور منہ کھولے اُس متحرک مٹی کے پُتلے کو دیکھ رہا تھا۔
معاً فاسٹر کی نگاہ چمکدار اَور خنجر کی سی تیز دھار رَکھنے والی آری پر پڑی جسے پُتلے نے دونوں ہاتھوں پر اٹھا رکھا تھا۔
’’ڈاکٹر رُتھ فورڈ خبردار!‘‘ فاسٹر یکایک دہشت زدہ آواز میں چلّایا۔ ’’اپنی جان بچاؤ۔‘‘
لیکن فاسٹر نے پہلے ہی دیر کر دی تھی۔ ابھی یہ جملہ بمشکل اُس کے ہونٹوں سے نکلا ہی تھا کہ پُتلے نے آری فورڈ کی گُدّی میں گھونپ دی۔
رتھ فورڈ کے حلق سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اُس کا سر جھک کر میز پر رکھے لیمپ سے ٹکرایا اور سینڈوچ کا آدھا ٹکڑا اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
اُس کے ساتھ ہی چائے کی پیالی پرچ سمیت لڑھکتی ہوئی فرش پر گری اور دونوں چیزیں ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ رتھ فورڈ کی گُدّی میں تیزدھار آری دستے تک اتر چکی تھی۔
فاسٹر نے دیکھا کہ سرخ سرخ خون کا فوّارہ اُس کی کٹی ہوئی گردن سے اُبل رہا ہے۔ رتھ فورڈ نے ہلکا سا جھٹکا کھایا جیسے گردن اٹھانے کی کوشش کر رہا ہو، مگر فوراً ہی جھٹکے سے لڑھکتا ہوا فرش پر ڈھیر ہو گیا۔
فاسٹر کو یوں محسوس ہوا جیسے خود اُس کے بدن سے جان نکل چکی ہے۔ پوری قوت صَرف کر کے وہ چلّایا:
’’نرس ….. نرس!‘‘
پھر فاسٹر نے دیکھا کہ مٹی کے پتلے نے رتھ فورڈ کی کرسی کے ہتھے سے فرش پر چھلانگ لگائی اور دَروازے کی طرف بھاگا جو اِسی لمحے کھلا تھا اور نرس اندر آ رہی تھی۔
فاسٹر نے وحشیانہ انداز میں اُچھل کر پُتلے کو دَائیں ہاتھ کی مٹھی میں جکڑ لیا۔ اس کی گرفت میں آ کر پُتلا تلملایا اور آزاد ہونے کی جدوجہد کرنے لگا۔
فاسٹر کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔ اُس نے پتلے کو اَپنے چہرے کے قریب کیا اور غور سے اُس کی شکل دیکھی۔ شکل دیکھتے ہی فاسٹر کی روح کھنچ کر جیسے آنکھوں میں آ گئی ہو۔
پُتلے کی شکل اور ڈاکٹر بائرن کی شکل میں ذرّہ برابر فرق نہ تھا۔ فاسٹر کو یوں لگا جیسے ڈاکٹر بائرن ہی سکڑ کر اِتنا مختصر ہو گیا ہے۔
’’شیطان …..!‘‘ فاسٹر نے دانت پیس کر پتلے سے کہا۔ ’’دیکھ مَیں تیرا کیا حشر کرتا ہوں۔‘‘
اور یہ کہتے ہی فاسٹر نے پتلے کو اَپنے بدن کی تمام تر قوت کے ساتھ فرش پر دے مارا۔
فرش پر گرتے ہی پُتلا یوں بےحس و حرکت ہو گیا جیسے اُس میں جان نہ رہی ہو، لیکن ایک ثانیے بعد ہی وہ اُٹھ کر کمرے کے ایک گوشے میں بھاگا۔
فاسٹر نے لپک کر اُس پر اپنا دایاں پاؤں رکھا اور زور سے دبا دیا۔ اُس کے مضبوط جوتے تلے مٹی کا پتلا بری طرح کچلا جا چکا تھا۔
فاسٹر کے کانوں میں ایسی آواز آئی جیسے انسانی جسم پھٹ رہا ہو، پاش پاش ہو رہا ہو۔ اُس نے بری طرح ہانپتے ہوئے اپنا پاؤں کچلے ہوئے پتلے پر سے ہٹایا۔
بلاشبہ اُس کے اعضا بکھر گئے تھے۔ فاسٹر دھڑام سے کرسی پر گر گیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر سسکیاں لینے لگا۔
’’کیا بات ہے ڈاکٹر ….. یہاں کیا ہوا؟‘‘ اُس نے اپنے عقب میں نرس کی آواز سنی۔
فاسٹر نے گردن اٹھائی اور عین اُسی لمحے نرس کی نگاہ ڈاکٹر رُتھ فورڈ کی خون میں نہائی ہوئی لاش پر پڑی۔
وہ میز کے بالکل برابر میں اوندھے منہ گرا تھا اور اُس کی گدّی میں اُس وقت بھی وہ آری دستے تک پیوست تھی۔
نرس کا بدن تھرتھرایا ….. اور وُہ فرش پر گرنے ہی والی تھی کہ فاسٹر نے اُسے سہارا دَے کر گرنے سے بچا لیا۔
’’کیا ہوا ڈاکٹر رُتھ فورڈ کو؟‘‘ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔
’’ایک خوفناک حادثہ ابھی ابھی رونما ہوا ہے۔‘‘ فاسٹر نے اُسے بتایا۔
’’جلدی کرو ….. اوپر کی منزل کا دروازہ کھولو ….. مَیں اِس میکنزم سے ناواقف ہوں۔ ایک ایک لمحہ بےحد قیمتی ہے۔ کنٹرول سسٹم کا بٹن دباؤ۔‘‘
’’لیکن ….. ڈاکٹر رُتھ فورڈ ….. اِنھیں دیکھیے ….. شاید یہ ابھی زندہ ہوں۔‘‘ نرس نے کہا۔
’’نہیں ….. بہت دیر ہو چکی ….. یہ مر چکے ہیں ….. جلدی کرو ….. اوپر کا آہنی دروازہ کھولو نرس، ورنہ ہم سب اِسی طرح مارے جائیں گے۔‘‘ فاسٹر چلّایا۔
’’جیسا مَیں کہتا ہوں، ویسا کرو ….. اوپر ….. قاتلوں کی ایک فوج تیار ہو رَہی ہے اور مجھے اُس فوج کو ہر صورت میں تباہ کرنا ہے۔‘‘
نرس پہلے تو مبہوت ہو کر فاسٹر کی شکل دیکھتی رہی، پھر جیسے سب کچھ اُس پر روشن ہو گیا۔ وہ ڈیسک کی طرف لپکی۔
‘‘بزر مسلسل بجاتی رہو۔‘‘ فاسٹر نے ہانپتے ہوئے کہا اور دِیوانوں کی طرح بھاگتا ہوا کمرے سے نکل کر اوپر جانے والی راہداری کی جانب مڑ گیا۔
ایک ایک دو دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا وُہ اُوپر جا رہا تھا۔
اب اُس کے کانوں میں بزر کی آواز بھی آ رہی تھی۔ نرس نے فاسٹر کی ہدایات پر پورا عمل کیا تھا ….. سیڑھیاں ختم ہوئیں اور اُوپر کی منزل کا پہلا برآمدہ طے کر کے وہ آہنی دروازے کے نزدیک پہنچ گیا۔
اُس نے دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔
دروازے کے اندر دَاخل ہوتے ہی فاسٹر نے انٹرکام کے اندر لگا ہوا وہی بٹن دبایا جسے وہ رِینالڈس کو دباتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔ پھر اُس نے مائیکروفون میں چیخ کر کہا:
’’نرس! مَیں اوپر کی منزل میں داخل ہو چکا ہوں۔ اب تم دروازہ بند کر سکتی ہو۔‘‘
بزر کی گونج دار آواز یک لخت تھم گئی اور آہنی دروازہ آہستہ آہستہ بند ہو گیا۔
انٹرکام بند کر کے فاسٹر جونہی مڑا، اُس نے دیکھا کہ رینالڈس اپنے کمرے کے باہر کھڑا حیرت سے اُسے دیکھ رہا ہے۔ اِس سے پہلے کہ وہ کچھ کہے، فاسٹر چلّایا:
’’رینالڈس! جلدی کرو ….. بائرن ….. ہمیں فوراً ڈاکٹر بائرن کو روکنا ہے۔‘‘
رینالڈس کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوف کے آثار بھی پھیل گئے۔
وہ دوڑتا ہوا فاسٹر کے پاس آیا اور اَپنی جیب سے کنجیوں کا گچھا نکال لیا۔
’’خیر تو ہے؟ کیا ہوا؟‘‘ اُس نے مضطرب لہجے میں فاسٹر سے پوچھا۔
’’خیر ہی تو نہیں ہے۔‘‘ فاسٹر نے راہداری میں دوڑتے ہوئے جواب دیا۔
’’ڈاکٹر بائرن کے کمرے کا دروازہ کھولو ….. ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے رینالڈس!‘‘
وہ دونوں آگے پیچھے بائرن کے کمرے کے قریب پہنچے۔ دروازہ باہر سے مقفل تھا۔
اُس نے تاخیر کیے بغیر قفل میں کنجی ڈالی اور دَروازہ کھول دیا۔
پہلے فاسٹر اندر دَاخل ہوا، بعدازاں رینالڈس۔ فاسٹر نے اپنے عقب میں اُس کی آواز سنی۔ وہ کہہ رہا تھا:
’’ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ڈاکٹر سویا ہے ….. وہ دَیکھیے ….. اپنے بستر پر پڑا سو رَہا ہے۔‘‘
لیکن ڈاکٹر بائرن سو نہیں رہا تھا، بلکہ مر چکا تھا اور حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اُس کا جسم بری طرح کچلا ہوا نظر آتا تھا جیسے کسی زبردست قوت نے اُسے مسلنے کی کوشش کی ہو۔
بائرن کی ہڈیاں اور پسلیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، ٹانگیں باقی بدن سے قریباً الگ ہو چکی تھیں اور ایک بازو ٹوٹ کر پرے جا گرا تھا۔
’’خدا کی پناہ! یہ مَیں کیا دیکھ رہا ہوں۔‘‘ رینالڈس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز برآمد ہوئی۔
’’بائرن کا یہ حشر کس نے کیا ہے؟‘‘
’’مَیں نے کیا ہے ….. مَیں نے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’ہاں ….. بےشک ….. وہ بائرن ہی تو تھا جس پر مَیں نے اپنے پاؤں کا پورا دَباؤ ڈالا تھا۔
مَیں نے اُسے ہلاک کیا ہے۔ اگر مَیں ایسا نہ کرتا، تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کیسی بھیانک بَلا دنیا پر مسلط ہو جاتی ….. رینالڈس! اِسے مَیں نے مارا ہے ….. مَیں نے۔‘‘
’’آپ نے؟‘‘ رینالڈس نے فاسٹر کو پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا۔ ’’آپ بھلا کس طرح ڈاکٹر بائرن کو مار سکتے تھے؟ نہیں!‘‘
اُس نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’ڈاکٹر بائرن کا کمرا مَیں نے خود مقفل کیا تھا اور اُس کی کنجی میرے پاس تھی۔
اِس دوران میں میرے علاوہ کوئی شخص ڈاکٹر کے کمرے میں داخل نہیں ہوا اَور نہ ہو سکتا تھا …..
اور آپ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کو آپ نے ہلاک کیا ہے۔
مَیں پوچھتا ہوں اگر یہ سچ ہے، تو کیسے؟ آپ ڈاکٹر کے کمرے میں کیونکر داخل ہوئے اور اِسے ہلاک کرنے سے آپ کا مقصد کیا تھا؟‘‘
یک لخت فاسٹر کو محسوس ہوا جیسے اُس کی جسمانی طاقت زائل ہو رَہی ہے۔
اُسے کمرا گھومتا ہوا نظر آیا۔ وہ جلدی سے ڈاکٹر بائرن کی کرسی پر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
’’دراصل بات یہ ہوئی رینالڈس! ….. ڈاکٹر بائرن کے بنائے ہوئے مٹی کے ایک پُتلے میں جان پڑ گئی تھی …..
وُہ کسی نہ کسی طرح نیچے پہنچ گیا تھا۔‘‘
رینالڈس نے انتہائی مشکوک نگاہوں سے فاسٹر کو گھورا اَور کہنے لگا:
’’ڈاکٹر! آپ نے آج کئی ذہنی مریضوں کی ڈراؤنی اور طویل کہانیاں سنی ہیں ….. میرا خیال ہے آپ خاصے تھکے ہوئے ہیں۔ بہتر ہے آپ آرام کر لیں۔‘‘
فاسٹر نے گردن اٹھا کر شعلہ بار نظروں سے اُسے دیکھا اور کہا:
’’نہیں، نہیں! مَیں بالکل ٹھیک ہوں ….. میرے حواس صحیح کام کر رہے ہیں۔
کیا تم سمجھتے نہیں کہ بائرن کا بنایا ہوا ایک پتلا قطعی اُس کا ہم شکل تھا اور بائرن نے اُس کے بےجان جسم میں اپنی روح منتقل کر دی تھی۔
وہ پتلا اِس کمرے سے نکل کر ڈاکٹر رتھ فورڈ کو قتل کرنے نچلی منزل میں واقع اُس کے کمرے تک پہنچ گیا۔ چائے کی اُس ٹرالی کے ذریعے جو نرس ڈاکٹر کے کمرے میں لائی تھی۔
پھر اُس پتلے نے میری آنکھوں کے سامنے آپریشن کرنے والی تیز دھار آری سے ڈاکٹر رتھ فورڈ کی گردن کاٹ ڈالی ….. اور وُہ فوراً ہلاک ہو گئے۔ یہ سب کچھ میرے سامنے ہوا رینالڈس!‘‘
’’ڈاکٹر رُتھ فورڈ ہلاک ہو گئے؟‘‘ رینالڈس کی آواز بھی اب کانپ رہی تھی۔
’’ہاں، ہاں! ….. مَیں جو کہتا ہوں۔ اُسی پُتلے نے اُنھیں قتل کیا جو بائرن نے اپنی شکل پر بنایا تھا۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’میری بات پر یقین نہیں آتا تمہیں۔‘‘
رینالڈس نے فوراً کچھ نہ کہا، بلکہ مسلسل ٹکٹکی باندھے فاسٹر کو گھورتا رہا۔ آخر اُس نے آہستہ سے کہا:
’’ڈاکٹر! آپ کی بیان کردہ کہانی پر مَیں تو کیا کوئی بھی فرد بشرطِ ہوش و حوا س یقین نہیں کرے گا۔‘‘
’’اوہو، پھر وہی بحث ….. مَیں کہتا ہوں ایسا ہی ہوا ہے ….. مَیں نے خود اُس پتلے کو دیکھا۔
اُس نے آپریشن کرنے والی آری اٹھائی اور ڈاکٹر رتھ فورڈ کی گردن میں، بلکہ اُن کی گدّی میں گھونپ دی۔ پھر مَیں نے اُس پُتلے کو پکڑ لیا۔
وہ میرے ہاتھ کی گرفت میں اِس طرح تلملا رہا تھا جیسے کوئی چوہا یا مینڈک ….. پھر مَیں نے اُس کا چہرہ دَیکھا ….. یقین کرو، وہ ہُو بہو ڈاکٹر بائرن تھا۔
ذرا بھی فرق نہ ہو گا۔ اُس وقت مجھ پر ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ مَیں غصّے سے بےقابو ہو گیا۔ مَیں نے اُس شیطانی پتلے کو فرش پر دے مارا اَور اُسے پاؤں سے کچل دیا …..
اب خیال آتا ہے کہ مَیں نے غلطی کی۔ مجھے اُس پُتلے کو ہلاک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مَیں اُسے زندہ رَکھتا، تو بہتر تھا۔‘‘
رینالڈس نے ڈاکٹر بائرن کی کچلی ہوئی لاش پر نگاہ ڈالی۔ پھر اُس نے گردن گھما کر فاسٹر کی طرف دیکھا۔
’’ڈاکٹر! میری رائے یہ ہے کہ آپ ذہنی اور جسمانی طور پر شدید تھکن کا شکار ہیں ….. مَیں ایک کمرا آپ کے لیے کھولے دیتا ہوں۔ اُس میں آرام فرمائیں۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہے ہو تم؟‘‘ فاسٹر دھاڑا۔
’’تمہارا خیال ہے مَیں غلط کہہ رہا ہوں? مَیں پاگل ہو چکا ہوں ….. یہ واقعہ پیش نہیں آیا۔‘‘
’’نہیں جناب! میرا یہ مقصد نہیں تھا۔‘‘ رینالڈس نے جلدی سے کہا۔
’’بلکہ ….. مَیں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ اگر آپ کچھ دیر آرام کر لیتے، تو …..‘‘
’’میرے پاس آرام کا وقت نہیں ہے۔‘‘ فاسٹر نے ناراض ہو کر کہا۔ ’’ابھی مجھے بہت کام کرنا ہے۔‘‘
اور یہ کہہ کر وہ دَروازے سے باہر نکل گیا۔ رینالڈس اُس کے تعاقب میں آیا۔ باہر آن کر رینالڈس دروازے میں قفل ڈالنے کے لیے رکا۔ فاسٹر غرّایا۔
’’اب اِس کمرے کو مقفل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ڈاکٹر بائرن مر چکا ہے ….. وہ یہاں سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتا۔‘‘
اور اِس کے ساتھ ہی فاسٹر کی آنکھوں میں عجیب سی چمک نمودار ہوئی۔ وہ دَانت نکال کر ہنسا اور کہنے لگا:
’’وہ صرف ڈاکٹر بائرن ہی نہیں تھا رینالڈس! ….. بلکہ اصل میں ڈاکٹر بائرن اسٹار تھا ….. ڈاکٹر بی اسٹار۔‘‘
رینالڈس نے انتہائی سنجیدگی سے فاسٹر کی طرف دیکھا۔ چند ثانیے تک اُس نے کوئی جواب نہ دیا، پھر آہستہ سے بولا:
’’یہ گمان آپ کو کیسے ہوا کہ ڈاکٹر بائرن ہی ڈاکٹر بی اسٹار تھا؟‘‘
’’صاف ظاہر ہے۔ ڈاکٹر بائرن نے خود مجھ سے کہا تھا کہ ….. رُتھ فورڈ نے اُسے یہاں قید کر رکھا ہے۔
رتھ فورڈ کے لیے بائرن کے دل میں نفرت اور حقارت کے سوا کچھ نہ تھا جبکہ مَیں نے دوسرے مریضوں سے بھی ملاقات کی اور اُن میں سے کسی نے رتھ فورڈ کے بارے میں مجھ سے شکایت نہیں کی۔
رتھ فورڈ نے محض مجھے دھوکا دینے کے لیے کہہ دیا تھا کہ ڈاکٹر بی اسٹار مرد نہیں، عورت ہے۔‘‘
رینالڈس حقارت آمیز انداز میں مسکرایا، لیکن زبان سے اُس نے کچھ نہ کہا۔ فاسٹر نے اپنی تقریر جاری رکھی:
’’اور تم بھی ڈاکٹر رتھ فورڈ سے ملے ہوئے تھے۔ تم نے بھی مجھے بہکانے اور فریب دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا، تاہم مَیں تمہیں قطعی قصوروار نہیں ٹھہراتا۔
تم بہرحال ایک اردلی ہو اَور اَپنے آقا کا حکم بجا لانا تمہارے فرائض میں داخل ہے ….. بولو، کیا مَیں غلط کہتا ہوں۔ ڈاکٹر بائرن ہی ڈاکٹر بی اسٹار تھا؟‘‘
رینالڈس نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا اور کمرا مقفل کر کے آگے بڑھ گیا۔ فاسٹر اُس کے ساتھ چل رہا تھا۔ یکایک رینالڈس نے اُس سے پوچھا:
’’ڈاکٹر! اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’مَیں تمہارے دفتر میں جا کر پولیس کو فون کروں گا۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’یہاں قتل کی واردات ہوئی ہے اور پولیس کو اطلاع دینا میرا فرض ہے۔‘‘
لیکن رینالڈس نے اپنے کمرے کے دروازے پر فاسٹر کو روک دیا اور کہا:
’’ڈاکٹر! پولیس کو فون کرنے کے کیا نتائج نکلیں گے۔ اُن پر آپ نے غور کر لیا ہو گا ۔‘‘
’’مَیں تمہارا مطلب نہیں سمجھا رینالڈس! ….. کھل کر کہو، کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ڈاکٹر! ذرا سوچو، پولیس کو فون کر کے آپ اُسے کیا بتائیں گے۔ یہی کہ ڈاکٹر رتھ فورڈ کو ایک ننھے منے مٹی کے پُتلے نے قتل کر دیا ہے؟۔‘‘
’’ہاں! مَیں یہی بتاؤں گا۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’یہی حقیقت ہے۔ اِس کے سوا اَور مَیں کیا بتا سکتا ہوں۔‘‘
رینالڈس کے ہونٹوں پر پھر وہی حقارت آمیز مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اِس لیے تو مَیں آپ کو کچھ دیر کسی کمرے میں آرام کا مشورہ دَے رہا تھا۔
آپ ذہنی طور پر اِس وقت اپنے آپ میں نہیں ہیں۔ جب آپ پولیس سے یہ کہیں گے کہ مٹی کے ایک حقیر پُتلے نے ڈاکٹر رتھ فورڈ کو مار ڈالا ہے، تو کیا آپ سمجھتے ہیں، پولیس اِس بیان پر یقین کر لے گی؟‘‘
فاسٹر بھونچکا ہو کر اُس کی صورت تکنے لگا۔
رینالڈس نے فاسٹر کو مزید بولنے کا موقع دیے بغیر کہا:
’’ایک ایسا مٹی کا پُتلا جسے ایک پاگل شخص ڈاکٹر بائرن نے بنایا تھا اور بقول آپ کے اِس پُتلے میں ڈاکٹر نے جان ڈال دی تھی۔‘‘
’’لیکن ….. لیکن ….. یہ سب کچھ حقیقت ہے ….. مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’صرف آپ نے دیکھا یا کسی اور نے بھی دیکھا؟‘‘ رینالڈس نے سوال کیا۔
’’کیا پولیس اِسے درست مان لے گی؟ قانون اِسے تسلیم کر لے گا؟ نہیں ڈاکٹر فاسٹر نہیں ….. ایسا مضحکہ خیز بیان دے کر آپ اپنے بارے میں پولیس کو یہ تاثر دیں گے کہ آپ دماغی توازن سے محروم ہو چکے ہیں۔
بھلا مجھے بتائیے کوئی صحیح الدماغ آدمی آپ کی اِس کہانی پر یقین کر لے گا؟
کیا آپ نے بُونی، باربرا یا بُرونو کی بیان کردہ کہانیوں پر یقین کر لیا تھا؟‘‘
’’پھر وہی بکواس!‘‘ فاسٹر چلّایا۔ ’’مَیں نے یہ واقعہ خود دَیکھا ہے …..
مَیں چشم دید گواہ ہوں اِس واردات کا۔ میرے سامنے مٹی کے پُتلے نے ڈاکٹر رتھ فورڈ کو ہلاک کیا۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ نہیں مانتے، تو پھر شوق سے پولیس کو فون کر دیجیے۔‘‘ رینالڈس نے شانے اُچکا کر کہا۔
’’وہ سیدھے آپ کو پاگل خانے لے جائیں گے اور کیا عجب مجھے آپ کو بھی یہیں بند کر دینے کا حکم مل جائے ….. آیے میرے کمرے سے ٹیلی فون کر لیجیے پولیس کو۔‘‘
رینالڈس نے فاسٹر کا راستہ چھوڑ دیا اور کمرے کی طرف اشارہ کیا، مگر فاسٹر اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ اُسے احساس ہوا کہ وہ صحیح کہہ رہا ہے۔
فاسٹر کی بیان کردہ کہانی پر کوئی شخص یقین نہیں کرے گا۔ بھلا مٹی کا ایک چھوٹا سا پُتلا ڈاکٹر رتھ فورڈ کو کیسے قتل کرے گا؟
یکایک اُسے پُتلے کا خیال آیا کہ اَبھی تک کچلی ہوئی حالت میں وہیں ڈاکٹر رتھ فورڈ کے دفتر میں فرش پر پڑا ہو گا۔ اُس نے رینالڈس سے کہا:
’’وہ پُتلا تو موجود ہے ….. مَیں اُسے بطور شہادت پیش کر سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ واقعی اپنے حواس میں نہیں ہیں ڈاکٹر۔‘‘ رینالڈس نے اُسے قابلِ رحم نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’مٹی کے ایک پُتلے کو بطور شہادت پیش کریں گے اور کہیں گے کہ یہ ہے وہ کھلونا جس نے ڈاکٹر رتھ فورڈ کو کھوپڑی چیرنے والی آری کے ذریعے قتل کیا۔‘‘
’’لیکن نرس نے بھی یہ واقعہ دیکھا ہے …..‘‘ فاسٹر نے کہنا چاہا مگر رک گیا۔ اُسے یاد آیا کہ نرس نے یہ واقعہ نہیں دیکھا۔ وہ تو بعد میں آئی تھی۔
’’پولیس اُن واقعات اور معاملات پر غور کرتی ہے جو اِسی دنیا میں پیش آئے ہوں اور جن کے بارے میں یہ شبہ نہ ہو کہ یہ کسی فوق الفطرت ہستی کے کارنامے ہیں۔‘‘ رینالڈس نے کہا۔
’’مٹی کے پُتلے قتل کی وارداتیں نہیں کیا کرتے۔ پولیس تو یہ دیکھے گی کہ ڈاکٹر رتھ فورڈ جب اپنے دفتر میں قتل ہوا، تو اُس وقت اُس کے پاس کون تھا۔
سیدھی سی بات ہے کہ اُس موقع پر آپ ڈاکٹر رتھ فورڈ کے کمرے میں موجود تھے۔ آپ کے سوا کوئی اور فرد وَہاں نہ تھا،
لہٰذا پولیس یہ منطقی نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہو گی کہ ڈاکٹر رتھ فورڈ کو آپ نے قتل کیا ہے۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ یہ کام مٹی کے پُتلے کا ہے، مگر کوئی آپ کی بات پر کان نہ دھرے گا۔
پس اب آپ میرا بھی کہنا مانیے ….. مَیں اِس منزل میں ایک کمرا آپ کے لیے کھولے دیتا ہوں …..
وہاں آرام فرمائیے ….. باقی معاملات مجھ پر چھوڑ دیجیے ….. مَیں سنبھال لوں گا۔‘‘
’’نہیں ….. ہرگز نہیں ….. تم مجھے پاگل بنا کر ایک کمرے میں قید کر دینا چاہتے ہو؟‘‘ فاسٹر حلق پھاڑ کر چلّایا۔ ’’ایسا کبھی نہیں ہو سکتا خواہ انجام کیسا ہو۔ مَیں پولیس کو سب کچھ بتاؤں گا۔
تم مجھے باز نہیں رکھ سکتے ….. پرے ہٹ جاؤ ….. مَیں پولیس کو فون کر رہا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اُس نے رینالڈس کو دھکا دے کر پرے ہٹایا اور کمرے میں گھس گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ ایک گوشے میں لوہے کی الماری کھڑی تھی اور اُس کے ساتھ ہی میز پڑی تھی۔
چند فائلوں اور قلم دان کے علاوہ ایک کونے میں ٹیلی فون بھی رکھا تھا۔ فاسٹر نے ٹیلی فون کا ریسیور اُٹھانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ اُس کی نظر ایک لمبی ٹرالی پر پڑی۔
ایسی ٹرالیاں اسپتالوں میں مریضوں کو لانے لے جانے کے کام آتی ہیں۔
ٹرالی پر سفید چادر اَوڑھے کوئی سو رہا تھا۔ فاسٹر نے حیرت سے ٹرالی پر سوئے ہوئے اُس شخص کو دیکھا۔ سر سے پاؤں تک اُس نے چادر اَوڑھ رکھی تھی۔
فاسٹر نے سوالیہ نظروں سے رینالڈس کی طرف دیکھا:
’’کون ہے یہ؟‘‘
رینالڈس نے جواب میں دانت نکال دیے۔ فاسٹر نے ریسیور وَاپس کریڈل پر پٹخا اور بڑھ کر سفید چادر ہٹا دی۔ یہ ایک نوجوان کی لاش تھی جس کا چہرہ زرد تھا۔
فاسٹر نے اندازہ کیا کہ اِسے مرے ہوئے چوبیس گھنٹے گزر چکے ہیں۔ وہ بوکھلا کر پیچھے ہٹا۔ اُس نے اِس اثنا میں یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ نوجوان کی گردن پر رسّی کا گہرا نشان اُبھرا ہوا ہے۔
غالباً اُس کی گردن میں رسّی کا پھندا ڈال کر ہلاک کیا گیا تھا۔ فاسٹر نے رینالڈس سے پوچھا:
’’کیا اِسے پھندا ڈال کر مارا گیا ہے؟‘‘
’’جی ہاں جناب! آپ کا اندازہ دُرست ہے۔‘‘ رینالڈس نے اطمینان سے جواب دیا۔
’’دو روز ہوئے اِسے ہلاک کیا گیا تھا ….. مجھے اتفاق سے لاش ٹھکانے لگانے کا موقع نہ مل سکا۔‘‘
’’کیا کہتے ہو؟‘‘ فاسٹر تھرّاگیا۔ ’’کون ہے یہ اور اِسے کس لیے ہلاک کیا گیا؟‘‘
’’جناب! اِس کا نام رینالڈس ہے ….. اور مَیں نے اِسے ہلاک کیا۔ یہ میرا اَردلی تھا۔‘‘
فاسٹر کی کنپٹیاں تپنے لگیں۔ اُس کے کانوں میں رینالڈس کی آواز جیسے بہت دور سے آ رہی ہو۔
’’خدا رَحم کرے! یہ مَیں کیا سُن رہا ہوں۔‘‘
فاسٹر نے اپنے آپ سے کہا۔ ’’یہ رینالڈس ہے ….. تمہارا اَردلی ….. اور تم کون ہو؟‘‘
رینالڈس پھر دانت نکال کر ہنسا۔ ’’معافی چاہتا ہوں ڈاکٹر! مَیں نے خواہ مخواہ آپ کو پریشان کیا ….. تاہم آپ کا قیاس غلط ثابت ہوا ….. ڈاکٹر بائرن ….. ڈاکٹر بی اسٹار نہ تھا، ڈاکٹر بی اسٹار تو مَیں خود ہوں۔‘‘
فاسٹر کے دل کی حرکت ایک لمحے کے لیے بند ہوئی۔ اُس کے بدن کا لہو خشک ہو رہا تھا۔
اُس نے صرف اتنا دیکھا کہ وہ اُسے پکڑنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے ….. اور اِس سے پیشتر کہ فاسٹر اپنے بچاؤ کے لیے کوئی حرکت کرے، رینالڈس کا گھونسا پوری شدت سے فاسٹر کی ناک پر پڑا۔
ضرب اتنی زبردست تھی کہ فاسٹر سنبھل نہ سکا۔ یک بیک وہ چکرایا اور دَھڑام سے فرش پر گر کر بےہوش ہو گیا۔
فاسٹر کی آنکھیں بہت مشکل سے کھلیں یا یوں کہیے کہ آنکھیں تو کھل چکی تھی، مگر وہ یہی سمجھتا رہا کہ آنکھیں نہیں کھلیں ۔ اِس مغالطے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اُس کے اردگرد گہرا اَندھیرا اَور اَعصاب شکن سنّاٹا پھیلا ہوا تھا۔
فاسٹر خاصی دیر بےحس و حرکت وہیں پڑا یہ سوچنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ آخر ہے کہاں، لیکن اُسے کچھ یاد نہ آ رہا تھا۔ ذہن ماؤف تھا۔ اُس نے کہنیوں کا سہارا لے کر اٹھنا چاہا، لیکن ناکام رہا۔ بازوؤں اور ٹانگوں نے جنبش کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے فاسٹر کو یوں لگا جیسے اُس کا تمام بدن مفلوج ہو چکا ہے۔
یہ تصوّر اِس قدر دَہشت انگیز تھا کہ اُسے اپنے دل کی حرکت بند ہوتی محسوس ہوئی۔
پھر رفتہ رفتہ شعور و اِحساس کی وہ قوت واپس آنے لگی جس کے بارے میں وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید ہمیشہ کے لیے زائل ہو چکی ہے۔ یہ قوت زائل نہیں ہوئی تھی، اُس کے اندر موجود تھی۔
اب اُس کے حواسِ خمسہ میں سے دو حواس پوری طرح بیدار ہو چکے تھے، دیکھنے اور سننے کے حواس۔
اُس کی بصارت اِس گہری تاریکی میں اپنے آس پاس مختلف اشیا دیکھنے کے قابل ہو رہی تھی اور سماعت میں دور ….. بہت دور سے ہوا کی سائیں سائیں اور کچھ ایسا شور برابر آ رہا تھا جیسے جنگل میں مینہ برس رہا ہو۔ فاسٹر نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ ننگے اور ٹھنڈے فرش پر پڑا ہے۔
اِس کا مطلب یہ تھا کہ اُس کی حسِ لمس بھی ناکارہ نہیں ہوئی تھی۔ اُس نے اطمینان کا سانس لیا۔ پھر اُسے یاد آنے لگا کہ وہ کہاں ہے اور کیا واقعہ پیش آیا تھا۔
ڈاکٹر بی اسٹار ….. رینالڈس ….. ڈاکٹر بائرن، ڈاکٹر رتھ فورڈ ….. اور ….. اور ….. وہ مٹی کا پُتلا ….. جس نے آری کے ایک ہی وار سے ڈاکٹر رتھ فورڈ کو مار ڈالا تھا۔
خدا کی پناہ! کیا وہ کوئی بھیانک خواب تھا؟ فاسٹر نے اپنے آپ سے سوال کیا ….. پھر خود ہی جواب دیا ….. نہیں ….. وہ خواب ہرگز نہیں تھا ….. ایک جیتی جاگتی حقیقت سامنے تھی۔
ڈاکٹر بائرن کے بنائے ہوئے مٹی کے اُس ننھے منے پُتلے نے میری آنکھوں کے سامنے آری اٹھائی اور رُتھ فورڈ کی گدّی میں گھونپ دی تھی اور ….. پھر ….. پھر کیا ہوا تھا؟
ہاں! ….. یاد آیا۔ وہ رِینالڈس نہیں تھا، وہ تو ڈاکٹر بی اسٹار تھا۔ اُس نے اپنے اردلی رینالڈس کو قتل کر دیا تھا ….. مَیں نے رینالڈس کی لاش بھی ٹرالی پر پڑی دیکھی تھی۔
فاسٹر اِس سے زیادہ نہ سوچ سکا۔ اُس کا سر بری طرح چکرایا اور آنکھوں کے آگے یک لخت ایک بار پھر گھپ اندھیرا چھا گیا۔ اُس کے بدن پر زبردست نقاہت طاری ہو رہی تھی۔
فاسٹر نے چیخنے کی کوشش کی، مگر آواز حلق سے نہ نکلی۔ وہ دوبارہ بےہوش ہو رَہا تھا۔ انتہائی اذیت سے دوچار ہوتے ہوئے اُس نے اپنی ناک پر ہاتھ لگایا۔
درد کی سخت لہر اُس کے تن بدن میں دوڑ گئی۔ اُسے یاد آیا کہ اُس کی ناک پر رینالڈس ….. نہیں ….. ڈاکٹر بی اسٹار نے زوردار گھونسا مارا تھا …..
شاید اُس کی نکسیر پھوٹ گئی تھی۔ اُس نے ناک اچھی طرح ٹٹولی۔بانسہ ابھی سلامت تھا۔ البتہ ناک کے اوپر ہونٹوں کے آس پاس خون جما ہوا تھا۔
یہ خون ابھی خشک نہیں ہوا تھا۔ اِس سے فاسٹر کو یہ اندازہ کرنے میں آسانی ہوئی کہ اُسے اِس تاریک جگہ میں آئے ہوئے زیادہ دَیر نہیں گزری۔ ہو سکتا ہے دو یا تین گھنٹے ہوئے ہوں یا اِس سے کچھ زیادہ۔
باہر سے آنے والی بارش اور ہوا کی مدھم آوازوں سے بھی یہی پتا چلتا تھا کہ بارش ابھی رکی نہیں اور یقیناً وہ اِسی ہیبت ناک منحوس پاگل خانے ہی کے اندر کہیں قید کر دیا گیا ہے۔
اِس احساس نے جیسے فاسٹر کو واقعی پاگل کر دیا۔ آخر کسی کو کیا حق ہے اُسے یوں قید کرنے کا؟ اُس نے کوئی جرم نہیں کیا، کسی کو نقصان نہیں پہنچایا۔ وہ قطعی نارمل ہے۔
اُس کا ذہن صحیح کام کر رہا ہے۔ پھر یہ کیا مذاق ہے؟ فاسٹر نے فرش سے اٹھنے کی جدوجہد شروع کی اور اَب اُسے پہلی بار معلوم ہوا کہ اُس کے بازو اَور ٹانگیں مفلوج نہیں ہوئیں، بلکہ رسیوں سے بندھی ہوئی ہیں۔
اُس نے دیوانہ وار چلّانا شروع کیا۔
کمرے میں اُس کی اپنی آواز گونج رہی تھی۔ جس قدر وُہ چیختا، اتنی ہی شدت سے اُس کی آواز دیواروں سے ٹکرا کر واپس آتی۔
ایک لحظے کے لیے وہ چپ ہوا اَور سوچنے لگا شاید اُسے کسی تہہ خانے میں پھینک دیا گیا ہے، ورنہ آواز کی ایسی گونج عام سے کمرے میں پیدا نہیںہو سکتی۔ ضرور یہی بات ہے۔
تاہم اِس وقت یہ غور کرنے کا موقع نہ تھا کہ وہ تہہ خانے میں ہے یا کہیں اور۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ بازوؤں اور ٹانگوں پر بندھی ہوئی رسیّاں کیونکر کھولی جائیں۔
نہ جانے کتنی دیر وہ اُنھیں کھولنے اور آزاد ہونے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔ بالآخر نڈھال ہو کر اُس نے یہ سعی ترک کر دی۔
یہ تصوّر نہایت بھیانک تھا کہ اگر وہ اِسی طرح بندھا پڑا رَہا اور کوئی اُس کی مدد کرنے نہ آیا، تب کیا ہو گا؟ کیا وہ یہیں اِسی حالت میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے گا؟ یہ موت کس قدر تکلیف دہ ہو گی …..
فاسٹر کا سر یکبارگی زور سے چکرایا اور وُہ نیم بےہوش سا ہو گیا۔
اُس کی کمر کے نیچے فرش خاصا ٹھنڈا تھا اور یہ ٹھنڈ لحظہ بہ لحظہ اُس کے رگ و پے میں سرایت کرتی جا رہی تھی۔
دفعتاً اُس نے ایک عجیب سی آواز سنی۔ یہ آواز اُس کے دائیں ہاتھ کی طرف سے آئی تھی۔ اُس نے آنکھیں کھول دیں اور گردن گھما کر اُدھر دیکھا۔
روشنی کی چند کرنیں دیوار سے راستہ بنا کر اُس تک پہنچ رہی تھیں۔ فاسٹر پلکیں جھپکائے بغیر اُدھر دیکھتا رہا۔ آہستہ آہستہ دیوار کا یہ خلا پھیلتا گیا۔
روشنی کچھ اور بڑھ گئی۔ پھر فاسٹر نے دیکھا کہ دیوار میں نصف فٹ لمبا اور اِتنا ہی چوڑا ایک چوکور سوراخ سا بن گیا۔
روشنی اُس حلقے سے باہر تھی۔ غالباً دیوار میں بنی ہوئی یہ کوئی چھوٹی سی خفیہ کھڑکی تھی اور کھڑکی سے باہر کوئی برآمدہ ہو گا جہاں روشنی پھیلی ہوئی تھی۔
فاسٹر کے دل کی دھڑکنیں آپ ہی آپ تیز ہو گئیں۔ اُس کی نظریں ابھی تک اُسی چوکور سوراخ پر جمی ہوئی تھیں۔ چند ثانیے بعد سوراخ میں سے روشنی غائب ہو گئی اور فاسٹر کو ایک انسانی چہرہ نظر آیا۔
اُس چہرے پر دو چمکیلی آنکھیں اور طوطے کی خم دار چونچ جیسی ناک صاف دکھائی دے رہی تھی۔
فاسٹر نے اپنی آنکھیں دوبارہ بند کر لیں۔
باہر سے اُس کا جائزہ لیا جا رہا تھا اور یہ معلوم کرنے کی کوشش ہو رہی تھی کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا۔ اتنے میں کسی نے اُس کا نام لے کر پکارا۔
’’ڈاکٹر فاسٹر ….. ڈاکٹر فاسٹر …..! کیا آپ ہوش میں ہیں؟ ڈاکٹر فاسٹر ….. کیا آپ میری آواز سُن رہے ہیں؟‘‘
فاسٹر نے کوئی جواب نہ دیا۔ اُس کا دماغ اِس وقت تیزی سے کام کر رہا تھا۔ اگر وہ جواب نہ دے، تب کیا ہو گا؟ آواز دینے والا یہ شخص یا تو خود کسی راستے یا دروازے سے کمرے کے اندر آئے گا یا کسی اور کو جا کر آگاہ کرے گا کہ فاسٹر جواب نہیں دیتا۔
بہرحال، کوئی نہ کوئی دریافتِ حال کے لیے آئے گا ضرور اَور وُہ بہترین موقع ہو گا جب وہ کوئی کارروائی کر سکے گا ….. لیکن وہ اَپنے اِس منصوبے پر آپ ہی آپ ….. دل ہی دل میں ….. ہنس دیا ….. بھلا وہ کیا کارروائی کر سکتا ہے؟
اُس کے تو ہاتھ پاؤں رسیّوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ تاہم یہ توقع تو تھی کہ آنے والا جو کوئی بھی ہو گا، اُس کی شناخت ہو جائے گی۔ ایک بار پھر فاسٹر کے کانوں میں وہی آواز آئی:
’’ڈاکٹر ….. ڈاکٹر فاسٹر ….. کیا آپ میری آواز سنتے ہیں ڈاکٹر …..!‘‘
فاسٹر کی آنکھیں بند تھیں اور جسم بےحس و حرکت۔ اُس نے تصوّر کی آنکھ سے دیکھا کہ دو پُراسرار چمکیلی آنکھیں برابر اُس کا جائزہ لے رہی ہیں۔
دو یا تین منٹ بعد فاسٹر نے اپنی دائیں آنکھ ذرا سی کھولی اور اُدھر دیکھا۔ روشنی مکمل طور پر غائب ہو چکی تھی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ فاسٹر کی طرف سے جواب نہ ملنے کے بعد آواز دینے والا، چھوٹا سا چوکور سوراخ بند کر کے جا چکا ہے، لیکن فوراً ہی سوراخ دوبارہ کھلا۔
روشنی کمرے میں آئی۔ اِس مرتبہ فاسٹر نے اپنی نصف آنکھ کھلی رکھی، البتہ بدن کو حرکت نہ دی۔ ایک بار پھر دو اِنسانی آنکھیں اُسے گھور رَہی تھیں۔
فاسٹر نے اندازہ کیا کہ اُس کے اور اِن دو آنکھوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔
مشکل سے آٹھ نو فٹ کا فاصلہ ہو گا ….. وہ دَم سادھے پڑا رَہا ….. معاً اُس کے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز آئی:
’’ڈاکٹر فاسٹر! کیا آپ سو رہے ہیں؟ اگر سو رہے ہیں، تو مہربانی کر کے اٹھ جائیے۔ اگر سو نہیں رہے، تب بھی آنکھیں کھول دیجیے۔
یقین کیجیے ہم آپ کو صدمہ پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے ….. ویسے آپ کو ذہنی آرام اور جسمانی سکون کی شدید ضرورت ہے۔
ابھی وقت ضائع نہیں ہوا، آپ ٹھیک ہو سکتے ….. آپ ٹھیک ہو جائیں گے اور پھر ہمارے ساتھ کام کر سکیں گے۔‘‘
یہ رینالڈس کی آواز تھی ….. یا ….. ڈاکٹر بی سٹار کی؟ فاسٹر نے دونوں آنکھیں کھول دیں۔
’’خدا کا شکر ہے، آپ بیدار ہو گئے۔‘‘ ڈاکٹر بی اسٹار کی آواز سنائی دی۔
’’مجھے افسوس ہے کہ ایک بےوقوف آدمی نے میری ہدایات کے قطعی برعکس آپ کو اِس کمرے میں پہنچا دیا۔ حالانکہ مَیں نے اُسے کہا تھا کہ اِنھیں اُس کمرے میں لے جاؤ جو ڈاکٹر بائرن ….. آنجہانی ڈاکٹر بائرن کے قبضے میں تھا ….. کیا آپ وہاں جانا پسند کریں گے، ڈاکٹر فاسٹر؟‘‘
فاسٹر سے اب ضبط نہ ہو سکا۔ اُس نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
’’ڈاکٹر بی اسٹار! جیسا کہ تم خود کہتے ہو، تمہارا یہ رویّہ انتہائی غیرقانونی اور غیراخلاقی ہے ….. اور میرا خیال ہے تمہیں اِس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
جتنا جلد تم مجھے آزاد کر دو، اتنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ تم نے پہلے مجھ پر ہاتھ اٹھایا اور پھر رسیّوں میں جکڑ کر یہاں قید کر دیا …..‘‘
’’آہا ….. آپ خفا ہو گئے ڈاکٹر!‘‘ ڈاکٹر بی اسٹار نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’بخدا یقین کیجیے یہ سب کچھ غیرشعوری طور پر ہوا …..
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے اِس ادارے میں آپ کی آمد کے فوراً بعد کیسی بھیانک وارداتیں ہوئی ہیں ….. قتل کی وارداتیں ….. پہلے ڈاکٹر بائرن کا قتل، پھر ڈاکٹر رتھ فورڈ کا وحشیانہ قتل …..
اور عجیب بات ہے کہ اُن دونوں آدمیوں سے آخری ملاقات کرنے والے آپ ہی تھے۔
اِس سے آپ یہ مطلب ہرگز نہ لیں کہ اُن دونوں کو آپ نے قتل کیا ہے ….. ہرگز نہیں ….. آپ کی بھلا اُن سے کیا دشمنی تھی؟ اور آپ کا یہ کہنا بھی درست ہی ہو گا کہ ڈاکٹر رتھ فورڈ کو مٹی کے اُس پُتلے نے قتل کیا جسے ڈاکٹر بائرن نے تخلیق کیا تھا …..
مَیں ایک ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے آپ کی بات سمجھ سکتا ہوں، ڈاکٹر فاسٹر ….. لیکن پولیس یا عدالتوں کے جج صاحبان نہیں سمجھ سکتے۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا؟
’’اِس لیے مَیں نے یہی مناسب خیال کیا کہ آپ کو چند روز کے لیے اپنا مہمان بناؤں۔ اب پولیس اپنی تفتیش ختم کرے گی، تب آپ باہر آ جائیے گا ….. اور ہاں ….. ایک بار پھر مَیں آپ کو آگاہ کرتا ہوں کہ کسی پولیس افسر کے سامنے یہ نہ کہہ بیٹھیے گا کہ ڈاکٹر رتھ فورڈ کو مٹی کے ایک پُتلے نے قتل کیا ہے ….. یہ کہنے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔‘‘
غصّے کے مارے فاسٹر کا خون کھول گیا: ’’یہ کیا بکواس ہے؟ ڈاکٹر رتھ فورڈ کو اَگر پُتلے نے قتل نہیں کیا، تو پھر کس نے کیا ہے؟ مَیں نے کیا؟‘‘ وہ چلّایا۔
’’یہ مَیں نے کب کہا، ڈاکٹر فاسٹر!‘‘ بی اسٹار کا لہجہ بےحد نرم تھا۔
’’آپ ذرا ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی کوشش کریں گے، تو ساری حقیقت آپ پر عیاں ہو جائے گی۔ جذبات سے مغلوب ہو کر بھڑکنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
اچھا یہ بتائیے کیا آپ کو اِس عمارت میں داخل ہوتے ہوئے کسی نے دیکھا تھا یا آپ جب لندن سے چلے، تو کسی کو بتا کر آئے تھے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
فاسٹر کے ذہن کو یک لخت جھٹکا سا لگا۔ وہ کوئی تلخ جواب دینے ہی والا تھا کہ رک گیا۔ بی اسٹار یا رِینالڈس، جو کوئی بھی یہ شخص ہے، فی الحال ٹھیک ہی کہتا ہے ….. مٹی کے بےجان پُتلے کسی کو آری سے قتل نہیں کیا کرتے، لیکن فاسٹر کا مشاہدہ تو یہی تھا۔ اِس مشاہدے کو وہ کیسے جھٹلا دیتا؟
اِس کے علاوہ ڈاکٹر بائرن کی پُراسرار حالات میں موت ….. یہ بھی نرالا واقعہ تھا۔
فاسٹر کو یاد آیا کہ اُس نے اپنے پاؤں تلے مٹی کے پُتلے کو دبا کر ریزہ ریزہ کر دیا تھا ۔
بعدازاں جب اُس نے ڈاکٹر بائرن کی لاش دیکھی، تو وہ بھی اِس بری طرح مسخ ہو چکی تھی جیسے اُسے کسی بھاری مشین کے نیچے رکھ کر کچلا گیا ہو۔
یہ کام بڑے سے بڑا طاقتور اِنسان بھی سرانجام نہیں دے سکتا ….. آخر یہ کیا معمّہ ہے؟
’’آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا، ڈاکٹر فاسٹر!‘‘ اُس کے کانوں میں ڈاکٹر بی اسٹار کی آواز آئی۔ ’’بہرحال آپ خوب سوچ بچار کر لیجیے اور مجھے اپنا دوست سمجھیں۔‘‘
’’مَیں بھی آپ کا دشمن نہیں۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔ ’’لیکن اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اِس وقت تک جو رویّہ آپ نے میرے ساتھ روا رَکھا ہے، وہ آپ کی شانِ شایاں ہے نہ میرے مراتب کے مطابق ….. آخر مَیں بھی آپ ہی کے درجے کا ایک ڈاکٹر ہوں۔
خواہ عمر اور تجربے میں کم تر ہی سہی، مگر ہوں تو ایک ڈاکٹر ….. اور آپ ہی کی دعوت پر یہاں آیا تھا۔ یہ میری بدنصیبی تھی کہ مَیں ڈاکٹر رتھ فورڈ کے ہتھے چڑھ گیا۔
اُس نے مجھ سے نہ صرف غلط بیانیاں کیں، بلکہ مجھے ایک جان لیوا آزمائش میں بھی ڈال دیا۔
بہرحال ….. مَیں آپ کا شکرگزار ہوں ….. اگر آپ مناسب سمجھیں، تو یہ رسیّاں کھلوا دَیں اور مجھے کسی اچھی جگہ منتقل کیے جانے کا حکم صادر فرمائیں۔
مَیں یقین دلاتا ہوں کہ جو کچھ آپ کہیں گے، اُس کے مطابق عمل کروں گا۔‘‘
’’مجھے آپ سے ایسے ہی اخلاق کی توقع تھی مسٹر فاسٹر!‘‘ بی اسٹار نے کہا۔ ’’آپ تھوڑی دیر توقف کیجیے، مَیں آپ کی ساری تکالیف کا ازالہ کر دوں گا۔‘‘
فاسٹر کو بہت جلد ایک صاف ستھرے اور رَوشن کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ یہ کمرا پاگل خانے کی دوسری منزل پر سب سے آخری کونے میں بنا ہوا تھا۔
کمرا اَگرچہ چھوٹا سا تھا مگر اِس میں ضرورت اور آرام کی ہر شے موجود تھی۔ تکلیف تھی، تو صرف اِس قدر کہ اِس کا ایک ہی دروازہ تھا جو ہر وقت باہر سے مقفل رکھا جاتا تھا اور کمرے کی شمالی دیوار میں بنی ہوئی چھوٹی سی کھڑکی میں نصف انچ قطر کی آہنی سلاخیں لگی تھیں۔
فاسٹر کو اِجازت تھی کہ وہ جب چاہے، اُس کھڑکی کے پٹ کھول کر نیچے لان کا نظارہ کر سکتا ہے۔ مگر لان میں اُگے ہوئے جھاڑ جھنکاڑ، لمبی لمبی گھاس، اُس میں سرسراتے ہوئے نیولوں، سانپوں اور دُوسرے حشرات الارض کے سوا اَور کچھ نہ تھا۔
ڈاکٹر بی اسٹار نے اُسے بتایا کہ لان میں مختلف قسم کے سانپ پالے جا رہے ہیں اور اُن کے زہروں پر پاگل خانے ہی کی لیبارٹری میں تجربات کیے جاتے ہیں۔
سانپوں کی بعض اقسام ایسی ہیں جن سے پاگل پن دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اُس نے فاسٹر کو اَبھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ اُس نے ڈاکٹر بائرن اور ڈاکٹر رتھ فورڈ کی لاشیں کس طرح ٹھکانے لگائیں اور پولیس کو اِس سلسلے میں کیا رپورٹ دی۔
فاسٹر کو انتظار تھا کہ ایک آدھ دن میں کوئی نہ کوئی تفتیشی افسر آئے گا اور سوال و جواب کرے گا، لیکن جب پانچ دن گزر گئے اور کوئی نہ آیا، تو فاسٹر کے اضطراب میں اضافہ ہونے لگا۔
ڈاکٹر بی اسٹار پچھلے دو دِنوں سے نہیں آیا تھا اور اُس کے بجائے پاگل خانے کی وہی نرس فاسٹر کا ناشتا اور کھانا لے کر آتی جسے اُس نے پہلے دن دیکھا تھا اور جو ڈاکٹر رتھ فورڈ کے قتل کے دن چائے اور سینڈوچ لے کر دفتر میں آئی تھی۔
نرس کمرے کے اندر نہیں آتی تھی بلکہ وہ باہر ہی دروازے کی نچلی جھرّی کے راستے ٹرے کمرے میں دھکیل دیتی۔ فاسٹر نے کئی بار اُس سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر وہ سنی اَن سنی کر کے چلی جاتی یا کبھی کبھار معنی خیز انداز میں مسکرا دَیتی۔
چھٹا دن تھا اور فاسٹر بپھرے ہوئے چیتے کی طرح کمرے میں گھوم رہا تھا کہ اچانک دروازہ کھلا اور ڈاکٹر بی اسٹار اَندر آیا۔
فاسٹر نے دیکھا کہ ڈاکٹر کے عقب میں ایک قوی ہیکل شخص مؤدّب کھڑا ہے جس کا قد چھے فٹ چار اِنچ ہے۔ جسم کسی گینڈے کی طرح گٹھا ہوا اَور بےحد مضبوط۔ اُس کے چہرے پر گھنی مونچھیں تھیں اور ٹھوڑی پر چھوٹی سی گنجان ڈاڑھی۔
پہلی نظر میں فاسٹر کو یہ دیوقامت شخص روسی معلوم ہوا، لیکن ڈاکٹر بی اسٹار نے جب تعارف کرایا، تو پتا چلا کہ اِس کا نام آئیوان ہے اور وُہ ہنگری کا باشندہ ہے۔
آئیوان معمولی انگریزی جانتا تھا۔ ڈاکٹر بی اسٹار نے فاسٹر کو بتایا کہ رینالڈس کی جگہ خالی پڑی تھی، اُسے کسی تنومند اور اَن تھک شخص کی تلاش تھی جو رینالڈس کی جگہ لے سکے، چنانچہ آئیوان نے اِس خدمت کی حامی بھری ہے۔
وہ پہلے بھی مختلف پاگل خانوں میں محافظ کی حیثیت سے کام کر چکا ہے اور خطرناک سے خطرناک پاگلوں کو قابو میں کرنے کے فن سے خوب آگاہ ہے۔
فاسٹر کو آئیوان کی شکل و صورت میں ایک بھیانک اور وَحشی قاتل نظر آیا جو اَپنے آقا ڈاکٹر بی اسٹار کے ذرا سے اشارے پر کسی بھی مریض کی گردن توڑ سکتا تھا۔
فاسٹر نے یہ محسوس کیا کہ آئیوان سے تعارف کرانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ فاسٹر پر اُس کا رعب بیٹھ جائے۔
ڈاکٹر بی اسٹار اپنے اِس مقصد میں سو فی صدی کامیاب رہا تھا۔
’’معافی چاہتا ہوں، مَیں دو دِن غیرحاضر رہا۔‘‘ ڈاکٹر بی اسٹار نے کہنا شروع کیا۔ ’’دراصل وہی قضیّہ تھا …..
ڈاکٹر بائرن اور ڈاکٹر رتھ فورڈ کی موت کا۔
میری کوشش یہ تھی کہ کوئی شخص یہاں آن کر تم سے پوچھ گچھ نہ کرے، ورنہ بات بڑھ بھی سکتی تھی۔
خدا کا شکر ہے کہ مَیں نے خوش اسلوبی سے یہ معاملہ ختم کرا دِیا۔ اب تم بےفکر ہو جاؤ۔‘‘
’’مَیں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ڈاکٹر ….. آپ واقعی مخلص آدمی ہیں۔‘‘ فاسٹر نے اب مصلحت سے کام لینا ہی مناسب جانا۔
’’اور مجھے اِس بات کی بھی سخت ندامت ہے کہ مَیں آپ کے بارے میں شدید غلط فہمی میں مبتلا رہا ….. اُمید ہے آپ میری معذرت قبول کریں گے۔
مَیں ابھی اِس شعبے میں نیا نیا آیا ہوں، زیادہ تجربہ ہے نہ مشاہدہ ….. اب ایسا موقع قدرت نے فراہم کر دیا ہے کہ مَیں آپ سے کچھ سیکھ سکوں گا …..
مجھے آپ نے بتایا تھا کہ ابھی یہاں کئی ذہنی مریض ایسے ہیں جن سے میری ملاقات ہو گی ….. مگر …..‘‘
’’ہاں، ہاں ….. مجھے معلوم ہے۔ مَیں یہ موقع فراہم کر دوں گا۔ شاید تم اُن کی حالت سدھارنے میں کامیاب ہو جاؤ۔
مَیں بہت جلد تمہاری ملاقات ایک ایسے مریض سے کراؤں گا جس کا کیس حیرت انگیز ہے۔ وہ بظاہر پاگل نہیں، لیکن حقیقت میں اُس کا ذہنی توازن اِس قدر بگڑا ہوا ہے کہ اُسے درست کرنا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔‘‘
’’غالباً آپ ڈاکٹر برنارڈ کا ذکر کر رہے ہیں جو ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے ہیں؟‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’ڈاکٹر برنارڈ؟ ہاں ….. وہ بھی عجیب و غریب کیس ہے۔‘‘ بی اسٹار نے اثبات میں گردن ہلائی۔
’’لیکن تم پہلے مسٹر فوربس سے مل لو ….. ڈاکٹر برنارڈ سے پھر کبھی ملنا۔‘‘
’’فوربس؟‘‘ فاسٹر نے سوالیہ انداز میں کہا اور بےاختیار اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
بی اسٹار نے حیران ہو کر کہا۔
’’اُس کا نام فوربس ہی ہے ….. مگر تم مسکرائے کیوں؟‘‘
’’اِس لیے کہ اِس پاگل خانے کا یہ پہلا مریض ہے جس کا نام حرف ’بی‘ سے شروع نہیں ہوتا۔‘‘
’’آہا ….. بہت خوب …..!‘‘ بی اسٹار نے قہقہہ لگایا۔ ’’بہت خوب ….. لیکن یہ بھی انوکھا اتفاق ہے کہ یہاں اکثر مریض مردوں اور عورتوں کے نام حرف ’بی‘ سے شروع ہوتے ہیں۔
بہرحال تم مسٹر فوربس سے کب ملنا پسند کرو گے؟
ویسے وہ ….. بےضرر آدمی ہے ….. اور اُس کی داستان اتنی پیچیدہ ہے کہ باید و شاید …..‘‘
’’اگر آج ہی مسٹر فوربس کے نیاز حاصل ہو جائیں، تو میری کئی دن کی بوریت دور ہو جائے گی۔‘‘
فاسٹر نے ملتجیانہ لہجے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے ….. دوپہر کو کھانے کے بعد آئیوان آئے گا اور تمہیں فوربس کے پاس پہنچا دے گا۔
مجھے یقین ہے تم اُس سے مل کر خوش ہو گے۔ اِس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتاؤ؟‘‘
’’نہیں! مجھے ہر طرح کا آرام ہے۔‘‘ فاسٹر نے جھوٹ بولا۔
’’البتہ مَیں یہ کہنا بھول گیا کہ میری کار باہر پورچ میں کھڑی ہو گی، اُسے کسی مناسب جگہ رکھوا دَیں، تو اچھا ہے۔‘‘
’’اپنی کار کی فکر نہ کرو، وہ تو ہم نے پہلے ہی دن گیراج میں بند کروا دِی تھی۔
ابھی تھوڑی دیر میں آئیوان تمہارا کھانا لے کر آئے گا۔ کھانے کے بعد تم فوربس سے ملنے چلے جانا۔‘‘
’’بہت بہت شکریہ ….. ویسے مَیں اب خاصا ذہنی سکون محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
’’تم ٹھیک ہو جاؤ گے ڈاکٹر ….. بالکل ٹھیک ہو جاؤ گے۔
مجھے دراصل تمہاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔ ڈاکٹر رُتھ فورڈ کے مارے جانے کے بعد مَیں سنجیدگی سے اِس امر پر غور کر رہا ہوں کہ تمہیں اُس کی کرسی پر بٹھا دوں ….. تم اِس ادارے کو اچھی طرح سنبھال سکتے ہو۔‘‘
’’مجھے آپ کے حکم سے سرتابی کی مجال نہیں، جناب!‘‘ فاسٹر نے خوشامدانہ انداز میں کہا۔ ’’لیکن ڈاکٹر رتھ فورڈ کی طرح مجھے بھی مٹی کے کسی پُتلے نے قتل کر دیا، تو؟‘‘
ڈاکٹر بی اسٹار بھونچکا ہو کر فاسٹر کی صورت تکنے لگا۔ فاسٹر کو اُس کی آنکھوں میں خوف کی ہلکی سی جھلک نظر آئی، لیکن جلد ہی غائب ہو گئی۔
بی اسٹار نے معنی خیز انداز میں گردن ہلائی اور مسکرا کر کہنے لگا
’’گھبراؤ مت فاسٹر ….. ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے ….. اگر تم مر گئے، تو ڈاکٹر رُتھ فورڈ کی خالی جگہ کبھی پُر نہ ہو سکے گی۔‘‘
یہ کہہ کر وہ مڑا اَور اُس نے قوی ہیکل آئیوان کو کچھ اشارہ کیا۔
آئیوان ادب سے پرے ہٹ گیا۔ ڈاکٹر بی اسٹار کمرے سے باہر نکلا اور اُس کے نکلتے ہی آئیوان نے دروازہ بند کر کے مقفل کر دیا۔
فاسٹر نے گہرا سانس لیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا لوہے کے اُس پلنگ پر جا بیٹھا جو کمرے کے ایک گوشے میں پڑا تھا۔ یہ پلنگ خاصا پرانا، لیکن مضبوط تھا اور یقیناً کسی نیلام گھر سے خرید کر لایا گیا ہو گا۔
اُس پر ایک موٹا سا گدّا اَور گدّے پر گلابی رنگ کی چادر بچھی تھی۔
اِس پلنگ کے علاوہ کمرے میں رکھی ہوئی دوسری چیزوں میں دو کرسیاں، ایک لمبی چھوٹے پایوں کی میز اور ایک کتابوں کی الماری بھی تھی۔
بُک شیلف میں تیس چالیس کتابیں بھری تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے صدیوں سے اُن کتابوں کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ کتابیں گرد میں اَٹی ہوئی تھیں اور اُن کے اوپر مکڑیوں نے جالے بُن دیے تھے۔
فاسٹر نے وقت گزارنے کے لیے ایک کتاب نکالی۔ کتاب اتنی بوسیدہ ہو چکی تھی کہ اُسے کھولتے ہی دو تین ورق جھڑ کر کمرے کے فرش پر بکھر گئے۔
کتاب میں سے عجیب سی بدبُو اُٹھ رہی تھی۔ فاسٹر نے گھبرا کر کتاب جہاں سے اٹھائی تھی، وہیں رکھ دی۔ اُس کے ہاتھ گردآلود ہو گئے تھے۔
کمرے کے دوسرے گوشے میں لگے ہوئے بیسن کے نزدیک جا کر اُس نے ٹونٹی گھمائی۔ پانی کی پتلی سی دھار برآمد ہوئی۔
فاسٹر نے ہاتھ دھوئے اور پھر کھانے کا انتظار کرنے لگا۔ لیکن کوفت سے زیادہ اُسے صرف ہنگرین دیوقامت شخص آئیوان کے تصوّر سے وحشت ہو رہی تھی۔
اُس کی چھٹی حِس بتا رہی تھی کہ عنقریب کوئی اور غیرمعمولی واقعہ یا حادثہ پیش آنے والا ہے۔
اِس کے علاوہ فاسٹر کو یہ احساس بھی ستا رہا تھا کہ آئیوان کے بارے میں ڈاکٹر بی اسٹار نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔
کسی نئے آدمی کو وہ اَپنے پاگل خانے میں ایسی ذمےداری کی جگہ نہیں سونپ سکتا تھا۔
اِس کے معنی یہ تھے کہ آئیوان یہاں کا پرانا آدمی ہو گا اور کسی مصلحت کے تحت ڈاکٹر بی اسٹار نے یہ ظاہر کیا کہ وہ نیا نیا آیا ہے۔
فاسٹر کو اِس خطرناک عمارت سے نکلنے کے لیے بےحد احتیاط اور حاضردماغی سے کام لینے کی ضرورت تھی اور جلدبازی میں نہ صرف بنا بنایا کھیل بگڑ جاتا، بلکہ اُس کی جان کے لالے بھی پڑ سکتے تھے۔
اُس نے طے کیا کہ وہ آئیوان کو رام کر کے اُس سے راز اگلوانے کی پوری پوری کوشش کرے گا ۔
اُسے بی اسٹار کی یہ بات بھی درست معلوم نہ ہوتی تھی کہ آئیوان انگریزی زبان نہیں جانتا۔
دروازہ دوبارہ کھلا اور اِس مرتبہ اتنی آہستگی سے کھلا کہ فاسٹر کو قطعی خبر نہ ہو سکی۔ وہ اَپنے خیالات میں اتنا محو تھا کہ جب آئیوان اُس کے قریب آن کھڑا ہوا۔
تب فاسٹر نے نگاہ اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ آئیوان کا چہرہ سنجیدہ تھا اور وُہ بالکل مشینی انسان کی طرح حرکت کر رہا تھا۔
فاسٹر سے کچھ کہے بغیر اُس نے کھانے کی ٹرے آہستہ سے میز پر رکھ دی اور باہر جا کر دروازہ بند کر دیا۔ آئیوان کے جانے کے بعد دو منٹ تک فاسٹر نے انتظار کیا۔ پھر دبے پاؤں چل کر دروازے تک گیا اور کان لگا کر کوئی بیرونی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔
باہر خاموشی تھی۔ فاسٹر نے یہ جاننے کے لیے کہ دروازہ یونہی بند ہے یا آئیوان نے اُسے مقفل کر دیا ہے، اُنگلی کی مدد سے دروازے کو باہر کی طرف دھکا دیا۔ دروازہ بند رہا۔
پھر فاسٹر نے مزید ہمت کر کے ہتھیلی کا دباؤ دروازے پر ڈالا۔ دروازہ ٹس سے مس نہ ہوا، تب اُسے یہ جاننے میں دقت نہ ہوئی کہ آئیوان نے دروازہ مقفل کر دیا ہے۔
فاسٹر واپس آیا اور اَب پہلی بار اُسے شدید بھوک اور پیاس کا احساس بھی ہوا۔ اُس نے ٹرے پر نگاہ ڈالی۔
ایک پلیٹ میں پانچ سات سلائس تھے۔ ایک پیالے میں کسی سبزی کا سُوپ اور دُوسری پلیٹ میں گائے کے بھنے ہوئے گوشت کے چند ٹکڑے اور دو اُبلے ہوئے انڈے پڑے تھے۔
بظاہر تمام چیزیں تازہ ہی نظر آتی تھیں۔ کھانے کے ساتھ پانی نہیں تھا۔
ابھی فاسٹر نے پہلا ہی لقمہ لیا تھا کہ دروازہ پھر کھلا اور اِس مرتبہ آئیوان پانی کی دو بوتلیں ہاتھ میں تھامے اندر آیا۔
اُس نے پہلے جیسے مشینی انداز میں دونوں بوتلیں میز پر رکھیں اور باہر جا کر دروازہ مقفل کر دیا۔ فاسٹر نے اُس سے بات کرنے کے لیے پہلے سے جو جملے سوچ رکھے تھے، وہ دِل ہی دل میں رہ گئے۔
آئیوان نے اُسے بات کرنے کا موقع ہی نہ دیا۔
کھانا لذیذ تھا اور کم از کم اِس معاملے میں فاسٹر کو ڈاکٹر بی اسٹار کا شکرگزار ہونا پڑا۔ کھانے سے فارغ ہو کر فاسٹر پلنگ پر لیٹ گیا اور پاگل خانے سے بھاگ نکلنے کی ممکنہ تدبیروں پر غور کرنے لگا، لیکن کوئی ایسی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔
اوپر کی منزل کے ہر کمرے میں پاگل مرد اَور عورتیں بند تھیں اور بیرونی کھڑکیوں پر آہنی سلاخیں لگا کر اُنھیں قطعی محفوظ بنا دیا گیا تھا۔
سب سے بڑی رکاوٹ وہ آہنی دروازہ تھا جو ایک خصوصی کنٹرول سسٹم کے ذریعے کھلتا اور بند ہوتا ۔
یہ کنٹرول نچلی منزل میں ڈاکٹر بی اسٹار کے دفتر میں سے کیا جاتا تھا۔ گویا یہ ڈاکٹر بی اسٹار کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ کسے نیچے آنے یا اوپر جانے کی اجازت دیتا ہے۔
اِس سسٹم کے تحت دیوقامت آئیوان کو بھی وہ اَپنے دفتر ہی سے انٹرکام کے ذریعے کنٹرول کرتا تھا۔
آدھ گھنٹے بعد آئیوان کمرے میں داخل ہوا اَور اُس نے مشینی انداز میں کاغذ کا ایک پرزہ فاسٹر کی طرف بڑھایا۔ اُس پر چند سطریں لکھی تھیں:
’’اب تم آئیوان کے ساتھ فوربس سے ملنے جا سکتے ہو ….. بظاہر وہ بےضرر آدمی ہے لیکن کبھی کبھی مشتعل بھی ہو جاتا ہے۔
آئیوان سے کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں۔ یہ شخص میرے حکم کا تابع ہے اور تم اِس سے اپنی پسند کے مطابق کوئی کام نہیں لے سکتے ….. زیادہ سوچنا بند کر دو …..
سوچنے سے تمہارا ذہنی توازن دوبارہ بگڑ سکتا ہے ….. تم جب تک ہمارے پاس ہو، ہر طرح سے محفوظ رہو گے اور یہاں سے اِس وقت تمہارا جانا خود تمہارے لیے پریشانیوں کا باعث بن جائے گا۔
مَیں تمہارے آرام و رَاحت کا ہر طرح خیال رکھوں گا اور یہی بات آئیوان کو سمجھائی گئی ہے۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ کیا پسند کرتے ہو۔ آخر میں پھر واضح کر دوں کہ آئیوان کو ناراض مت کرنا …..
یہ اچھا آدمی نہیں ….. مَیں تمہیں دھمکی نہیں دے رہا ….. صرف دوستانہ طور پر آگاہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘‘
اِس تحریر کے نیچے ڈاکٹر بی اسٹار کے دستخط تھے۔ ایک لمحے کے لیے فاسٹر سناٹے میں آ گیا اور بلاشبہ اُس کا ذہنی توازن جواب دینے لگا۔
آئیوان بےحس و حرکت، دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اپنی جگہ کھڑا تھا۔ فاسٹر نے دُزدیدہ نظروں سے آئیوان کا جائزہ لیا۔
وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آئیوان کے چہرے یا آنکھوں میں کس قسم کے تاثرات ہیں، مگر اُسے اپنے مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آئیوان کے سرخ چہرے پر کسی قسم کا تاثر نہ تھا۔
اُس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وُہ سامنے دیوار پر کسی غیرمرئی شے کو گھور رَہا تھا۔
فاسٹر کو یہ دیکھ کر بےحد تعجب ہوا کہ آئیوان نے اتنے عرصے میں ایک بار بھی اپنی پلکیں نہیں جھپکائیں۔ فاسٹر، فوربس کو بھول کر آئیوان کے جائزے اور مشاہدے ہی میں کھو گیا۔
فی الوقت دو باتیں فاسٹر کے دماغ میں آئیں۔ ایک یہ کہ آئیوان اِس کرۂ ارض کی مخلوق نہیں ….. یا کم از کم اِس دنیا کا انسان نہیں، ورنہ کون ہے جو پلکیں نہیں جھپکاتا۔
شعوری اور غیرشعوری طور پر ہر انسان جاگتے ہوئے ہزاروں بار یہ عمل دہراتا ہے۔ دوسری جو بات فاسٹر کے دماغ میں آئی،اُس نے فاسٹر کی رگوں کا خون تقریباً خشک کر دیا۔
اگر آئیوان اِسی کرۂ ارضی کا انسان ہے، تو یقینی بات ہے کہ اِس کاسۂ سر میں اوّل تو اپنا دماغ موجود نہیں، دوم اگر موجود ہے، تو وہ کسی اور کے قابو میں ہے۔ دوسری توجیہ علمِ نفسیات اور جدید ترین سائنس کی روشنی میں قابلِ قبول نظر آئی۔
پھر فاسٹر کا دھیان کاغذ کے پرزے کی طرف گیا جو آئیوان کے ہاتھ ڈاکٹر بی سٹار نے بھیجا تھا۔ اُس میں بعض الفاظ ایسے تھے جن سے فاسٹر کو گمان نہیں، یقین ہو رہا تھا کہ ڈاکٹر بی اسٹار غیرمعمولی قوتوں اور صلاحیتوں کا آدمی ہے۔
وُہ دُوسرے انسانوں کے خیالات بعینہٖ پڑھنے کے قابل ہے۔ آئیوان کے آنے سے پہلے فاسٹر اِس عمارت سے نکل بھاگنے کے طریقوں پر غور کر رہا تھا۔
اُسے قطعی احساس نہ ہوا کہ اُس کے خیالات کی لہریں ڈاکٹر بی اسٹار کے ذہن تک پہنچ رہی ہیں۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ ڈاکٹر بی اسٹار، ٹیلی پیتھی کا زبردست ماہر ہے۔
اِس تصوّر ہی سے فاسٹر کا بدن پسینے میں بھیگ گیا اور اُس میں حرکت کرنے کی سکت نہ رہی۔
آئیوان بدستور اَپنی جگہ کسی مشینی آدمی کی طرح سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا اَپنے سامنے دیوار پر کسی غیرمرئی شے کو پلکیں جھپکائے بغیر گھور رَہا تھا۔
فاسٹر کو اَب آئیوان کی موجودگی سے خوف محسوس ہونے لگا۔ اپنی تمام تر قوتِ ارادی جمع کر کے وہ اُٹھ کھڑا ہوا اَور آئیوان سے مخاطب ہو کر بولا:
’’مہربانی کر کے مجھے فوربس کے پاس لے چلو۔‘‘
اُس کا خیال تھا کہ آئیوان اب تو جواب میں کچھ کہے گا، لیکن اُس نے کچھ نہ کہا۔ چپ چاپ وہ مڑا اَور دَروازہ کھول کر ایک طرف کھڑا رَہا۔
فاسٹر کمرے سے باہر آیا اور آئیوان نے دروازہ مقفل کر دیا، پھر وہ رَاہداری میں چل پڑا۔ فاسٹر اُس کے عقب میں تھا۔ آئیوان نے ایک بار بھی مڑ کر نہ دیکھا کہ فاسٹر آ رہا ہے یا نہیں۔
جیسے اُسے یقین تھا کہ فاسٹر ضرور آ رہا ہو گا۔ فاسٹر نے دیکھا کہ آئیوان کے قدم راہداری کے فرش پر ایک ہی انداز میں پڑ رہے ہیں، نپے تُلے قدم ….. جن میں حیرت انگیز تسلسل قائم تھا۔
وہ تیر کی طرح سیدھا ہو کر چل رہا تھا۔ ایک ثانیے کے لیے فاسٹر کو یوں لگا جیسے آئیوان چابی سے چلنے والا بہت بڑا کھلونا ہو اَور یہ کھلونا ڈاکٹر بی اسٹار نے ایجاد کیا ہو۔
راہداری سے نکل کر آئیوان اُسی رفتار کے ساتھ ایک اور لمبی غلام گردش میں داخل ہوا۔ جہاں ہلکی ہلکی تاریکی تھی۔ روشنی سے ایک دم اندھیرے میں آن کر فاسٹر کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
وہ اَندھوں کی طرح راستہ ٹٹول کر چلنے لگا۔ پھر اُس کی آنکھیں گرد و پیش کا منظر دیکھنے کے قابل ہو گئیں۔ آئیوان ایک جگہ رک کر فاسٹر کا انتظار کر رہا تھا۔
پھر کچھ کہے بغیر اُس نے دیوار میں بنا ہوا ایک چھوٹا سا دروازہ کھولا اور فاسٹر کو اندر جانے کا اشارہ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب فاسٹر نے اِس مشینی انسان کو کوئی اشارہ کرتے دیکھا۔
اُس کا چہرہ اَور آنکھیں اب بھی ہر قسم کے تاثرات اور جذبات سے یکسر خالی تھیں۔ فاسٹر نے ایک اور کوشش کی کہ شاید اِس مرتبہ آئیوان اپنا منہ کھولے اور وُہ اِس کی آواز سن سکے۔
جاری ہے۔ (فوربس سے ملاقات کا قصہ پڑھیں حصہ ہفتم میں)
https://shanurdu.com/pagal-khana-part-7-forbus/