18 C
Lahore
Saturday, December 7, 2024

Book Store

پاگل خانہ|pagal khana| part 4| barbara

پاگل خانہ

مقبول جہانگیر

(حصہ چہارم)

(باربرا)

’’اب آپ جس شخصیت سے ملاقات کریں گے، وہ خود کو باربرا کہتی ہے۔‘‘

’’بہت خوب!‘‘ فاسٹر مسکرایا۔ ’’معلوم ہوتا ہے تمہارے اِس پاگل خانے میں جتنے بھی پاگل موجود ہیں، اُن سب کے نام حرف ’بی‘ سے شروع ہوتے ہیں۔
بُونی، بُرونو اور اَب باربرا اَور مَیں خاص طور پر بی اسٹار کو شناخت کرنے کے کام پر بھیجا گیا ہوں۔
کم از کم یہ تو واضح کر دو کہ یہ سب کچھ کسی مقصد کے تحت کیا گیا ہے یا اِن لوگوں کے نام واقعی ’بی‘ سے شروع ہوتے ہیں؟‘‘

’’جنابِ والا! مجھے کسی منصوبے یا مقصد کا علم نہیں۔‘‘ رینالڈس نے جواب میں کہا۔ ’’آپ اِسے محض اتفاق ہی سمجھیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ اِس مرتبہ تم مجھے باربرا نامی کسی عورت سے ملوا رَہے ہو۔ ہو سکتا ہے وہی عورت ڈاکٹر بی سٹار ہو۔‘‘

’’مَیں کیا عرض کر سکتا ہوں جناب۔ جبکہ مجھے بلاضرورت زبان کھولنے سے منع کر دیا گیا ہے۔‘‘ رینالڈس نے کہا اور قفل میں کنجی ڈال دی۔
دروازہ آہستہ سے کھلا، پہلے رینالڈس اندر گیا، پھر اُس نے ایک طرف ہٹ کر فاسٹر کو اَندر آنے کا اشارہ کیا۔ پہلے دونوں کمروں کے برعکس یہ کمرا زیادہ بڑا، صاف اور رَوشن تھا۔
فاسٹر نے دیکھا کہ کمرے میں نہ صرف اچھا فرنیچر موجود ہے، بلکہ کپڑوں کی ایک الماری اور خوبصورت ڈریسنگ ٹیبل بھی ہے۔
سنگھار میز پر طرح طرح کی پرفیومز، کریمیں، پاؤڈر اور لپ اسٹک اور نہ جانے کون کون سی کاسمیٹک پڑی تھیں۔ ایک طرف آرام دہ بستر لگا اور دُوسری طرف دیوان پڑا تھا۔
ایک لمحے کے لیے فاسٹر کو اِحساس ہوا ممکن ہے باربرا ہی ڈاکٹر بی اسٹار ہو کہ ایسا اہتمام کسی خاص شخصیت کے لیے ہی کیا جا سکتا ہے۔

باربرا نے کرسی سے اُٹھ کر فاسٹر کا مسکراتے ہوئے استقبال کیا اور مترنم آواز میں کہا ’’اِس کرم کا بےحد شکریہ کہ آپ تشریف لائے۔‘‘

فاسٹر نے گہری نظروں سے باربرا کا جائزہ لیا۔ وہ صاف ستھرا اَور نئی تراش خراش کا نفیس لباس پہنے ہوئی تھی۔ عمر زیادہ سے زیادہ ستائیس، اٹھائیس برس ہو گی۔
پہلی نظر ہی میں وہ فاسٹر کو اچھی لگی اور جنون یا کسی خبط کے کوئی آثار اُس کے چہرے سے نمایاں نہ تھے۔ فاسٹر کو تعجب ہوا کہ اُسے بھلا یہاں کیوں رکھا گیا ہے۔
باربرا کی شخصیت پُرکشش تھی اور اُسے اچھی خاصی صحت مند حسین عورتوں میں شمار کیا جا سکتا تھا۔

فاسٹر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کیا آپ ہمارا اِنتظار کر رہی تھیں؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘ باربرا نے اثبات میں گردن ہلائی۔ فاسٹر متعجب ہو کر رینالڈس کی طرف دیکھنے لگا، لیکن وہ خاموش رہا۔

’’آپ ہمارا اِنتظار کیوں کر رہی تھیں؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔ ’’مَیں نے اپنے یہاں آنے کی پیشگی اطلاع تو نہیں دی تھی۔‘‘

’’پھر بھی مَیں آپ کی منتظر تھی۔‘‘ باربرا نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’تشریف رکھیے ….. کیا آپ وکیل نہیں ہیں؟‘‘

فاسٹر نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’معاف فرمائیے، مَیں وکیل نہیں ہوں، لیکن اب آپ کا اشتیاق دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ مَیں وکیل کیوں نہ ہوا۔‘‘

باربرا اَگرچہ مسلسل مسکرا رَہی تھی، لیکن فاسٹر نے دیکھا کہ اُس کے جواب سے خاتون کو کسی قدر مایوسی ہوئی اور اُس کا روشن چہرہ بجھ گیا۔

’’کیا آپ اِس وقت کسی وکیل کا انتظار کر رہی تھیں؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔

’’جی ہاں!‘‘ باربرا نے سخت لہجے میں کہا اور اُس کی خوش اخلاقی اپنے دل نواز تبسم سمیت رخصت ہو گئی۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ خوش نہیں ہے اور فاسٹر سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی۔
آنِ واحد میں اُس کے بدلے ہوئے رویّے پر فاسٹر حیرت زدہ اَور شرمندہ نظر آنے لگا۔
باربرا نے فاسٹر کی موجودگی قطعی نظرانداز کرتے ہوئے رینالڈس کی طرف شعلہ بار نگاہوں سے دیکھا اور کڑک کر کہا:

’’مَیں نے تم سے کہا تھا کہ کسی وکیل کا بندوبست کرو اَور تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وکیل بہت جلد آنے والا ہے۔
مگر اب مَیں دیکھتی ہوں کہ تم وکیل کے بجائے نہ جانے کس مسخرے کو پکڑ لائے ہو۔ کون ہے یہ شخص اور کیا چاہتا ہے؟‘‘

’’یہ ڈاکٹر فاسٹر ہیں۔‘‘ رینالڈس نے سنجیدگی سے تعارف کراتے ہوئے کہا۔

’’گویا ایک اور ڈاکٹر تم نے مجھ پر مسلط کر دیا۔‘‘ باربرا نے غصّے سے آنکھیں نکالتے ہوئے رینالڈس کو گھورا۔
’’کیا دنیا کے تمام ڈاکٹر میرے ہی لیے رہ گئے ہیں؟
مَیں پوچھتی ہوں وکیل کہاں ہے جو مجھ سے ملنے کے لیے آنے والا تھا۔ بولو، جواب دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دَھم سے کرسی پر گر گئی اور فرش پر نگاہیں گاڑ دیں۔
رینالڈس اور فاسٹر دونوں خاموش کھڑے رہے۔ فاسٹر کو اُس کے مقابل پڑی کرسی پر بیٹھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ باربرا نے تھوڑی دیر بعد گردن اٹھائی۔
طیش کے مارے اُس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اُس نے گرج کر کہا:

’’اب منہ سے پھوٹتے کیوں نہیں؟ وہ وَکیل اب تک کیوں نہیں آیا؟ جانتے ہو کسی کو حبسِ بےجا میں رکھنا کتنا بڑا جرم ہے؟ مگر تم کیا جانو گے؟ تم محض دو ٹکے کے آدمی ہو رینالڈس …..
اور تمہارا کام اپنے ذلیل آقا کے احکام پر کتے کی طرح دم ہلانا ہے اور بس۔
یہ کام تم بےحد خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہو۔ سوال یہ ہے کہ اِس مسخرے کو جس کا نام ڈاکٹر فاسٹر بتاتے ہو، میرے کمرے میں لانے کا مقصد کیا ہے؟
کیا مَیں بیمار ہوں؟ نہیں قطعی نہیں ….. مَیں ہر طرح صحت مند ہوں۔ مجھے کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے، البتہ وکیل درکار ہے ….. ایک ایسا وکیل جو میری بات سمجھ سکے اور دُوسروں کو سمجھا سکے …..
ایسا وکیل جو جان سکے کہ مَیں نے جو کچھ کیا، اُس میں ذرا برابر میری خطا نہ تھی، لیکن افسوس ….. تم لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہے ہو۔
مَیں خبردار کیے دیتی ہوں کہ اِس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے گا۔‘‘

رینالڈس اب بھی یوں بےپروائی سے کھڑا رَہا جیسے اُس نے باربرا کی تقریر کا ایک لفظ بھی سنا نہ ہو۔ فاسٹر نے تب کرسی اپنی طرف کھینچی اور اِطمینان سے بیٹھ گیا۔

’’باربرا! غصّہ تھوک دو۔ مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارے لیے وکیل کا بندوست کر دوں گا۔‘‘
فاسٹر نے نرم آواز میں کہا۔ باربرا نے حقارت آمیز نظروں سے پلٹ کر فاسٹر کو دیکھا اور بولی:

’’مَیں تم سے کلام نہیں کرنا چاہتی، مسٹر ڈاکٹر ….. مہربانی کر کے تم اپنی زبان بند رکھو۔‘‘

’’اگر مَیں زبان بند رکھوں گا، تو تم یہاں سے کبھی رہائی نہ پا سکو گی، باربرا!‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’اِس لیے بہتر ہے اپنے حالات سے مجھے آگاہ کرو اَور مَیں تمہاری بات سن کر کسی اچھے سے وکیل کو بلوا لُوں گا۔ ورنہ اِس طرح لڑنے جھگڑنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔
یہ بھی سن لو کہ مَیں تمہیں ہرگز بیمار نہیں سمجھتا اور نہ تمہارا علاج کرنے یہاں آیا ہوں۔‘‘

فاسٹر کے اِن جملوں نے باربرا کا غصّہ ٹھنڈا کر دیا۔ پہلی بار اُس نے فاسٹر کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا اور ہلکا سا تبسّم اُس کے ہونٹوں پر نمودار ہوا۔ وہ بولی:

’’تم باتیں بہت لچھے دار کرتے ہو۔ ڈاکٹر ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔ مَیں بچی نہیں ہوں جو تم مجھ بہلانے آ گئے۔ سنو، مَیں خود میڈیکل پروفیشن کے بارے میں خاصی معلومات رکھتی ہوں۔
اگر تمہیں کچھ شک و شبہ ہے، تو مجھ سے سوال کر سکتے ہو۔ بہرحال یہ بتاؤ کہ تم یہاں کس لیے آئے ہو؟‘‘

’’مَیں صرف تم سے ملنے آیا ہوں۔ تمہیں دیکھنے کا اشتیاق تھا۔‘‘
فاسٹر نے جھوٹ میں پناہ لی۔ ’’مَیں نے سنا تھا تم بہت حسین ہو اَور اَب تمہیں دیکھنے کے بعد …..‘‘

’’یقین ہو گیا کہ مَیں واقعی حسین عورت ہوں۔‘‘ باربرا نے جملہ خود ہی مکمل کر دیا اور فاسٹر کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گیا۔

’’خیر چھوڑو اِس بات کو، مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ تم میڈیکل پروفیشن کے بارے میں کچھ جانتی ہو۔‘‘ فاسٹر نے کہنا شروع کیا ….. پھر وہ باربرا کی طرف تھوڑا سا جھکا اور آہستہ سے بولا۔
’’مجھے احساس ہو رہا ہے باربرا، تم خود ڈاکٹر ہو۔ کیا مَیں صحیح کہتا ہوں؟‘‘

’’تم ایسے سوالات مجھ سے کیوں کر رہے ہو؟‘‘ باربرا کی پیشانی پر سلوٹیں نمودار ہوئیں۔

’’اِس لیے کہ مَیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں اور اَب یہ تم پر منحصر ہے کہ میرے سوالوں کا کیا جواب دیتی ہو۔‘‘

اگر تم واقعی میری مدد کرنے کے درپے ہو، تو تمہیں اِس کا ایک آسان طریقہ مَیں بتائے دیتی ہوں، بشرطیکہ تم اِس پر عمل کرنے کا وعدہ کرو۔‘‘ باربرا کا لہجہ بےحد سنجیدہ تھا۔

’’وعدہ تو مَیں نہیں کر سکتا، البتہ وہ آسان طریقہ سن کر مجھے خوشی ہو گی۔‘‘ فاسٹر نے محسوس کیا کہ اُس کا واسطہ نہایت چالاک اور حاضردماغ عورت سے ہے۔

’’بس تو پھر مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘ باربرا نے کہا۔ ’’اِس سے بڑھ کر تم میری کچھ اور مدد نہیں کر سکتے۔ یہاں سے چلے جاؤ۔
مَیں نے دیکھ لیا ہے تم محض میرا وَقت برباد کرنے آئے ہو۔ مجھے تم سے کوئی توقع نہیں ہے ….. تم مجھے صورت ہی سے احمق نظر آتے ہو اور اَحمقوں سے مَیں اپنا دماغ کھپانے کی عادی نہیں ہوں۔‘‘

’’بعض اوقات احمق ہی ایسے مشورے دے دیتے ہیں جو بڑے بڑے عقل مندوں کو نہیں سُوجھتے۔‘‘ فاسٹر نے ناراض ہوئے بغیر کہا۔
’’ہو سکتا ہے مَیں بھی تمہیں کوئی مفید مشورہ دَے سکوں۔ مَیں واقعی احمق ہوں اور اُمید ہے تم خوش اخلاقی سے کام لیتے ہوئے ایک احمق کو معاف کر دو گی۔ مَیں تمہاری کہانی سننا چاہتا ہوں۔‘‘

’’لیکن تم اُس پر یقین نہیں کرو گے۔‘‘ باربرا نے منہ بنا کر کہا۔
’’کوئی ڈاکٹر اُس پر یقین نہیں کرتا اور تم بھی ڈاکٹر ہو۔‘‘

’’کیا تمہیں یقین ہے کہ وکیل تمہاری کہانی پر یقین کر لے گا؟‘‘ فاسٹر نے سوال کیا۔ اُس نے دیکھا کہ باربرا کچھ پریشان سی ہو گئی۔
فاسٹر نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’وکیل بھی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے کوئی وکیل بھی تمہاری کہانی پر یقین نہ کرے۔
اِس لیے بہتر یہی ہے کہ تم مجھے تمام واقعات سے آگاہ کر دو۔ مَیں وعدہ کر چکا ہوں کہ ضرورت محسوس ہوئی، تو تمہارے لیے خود بہترین وکیل کا بندوبست کر دوں گا۔‘‘

باربرا نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں پھنسائیں اور اُن پر نگاہیں جما دیں۔۔
وہ گہری سوچوں میں گم تھی۔ پھر کسی فیصلے پر پہنچ کر اُس نے گردن اٹھاتے ہوئے کہا:

’’مَیں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ….. اِس میں میری کوئی خطا نہیں تھی ….. یہ سب کیا دھرا تو لُوسی کا تھا۔‘‘

’’لُوسی؟ وہ کون ہے؟ ذرا تفصیل سے بتاؤ۔ مَیں ہمہ تن گوش ہوں۔‘‘ فاسٹر نے اُسے حوصلہ دیا، لیکن باربرا خاموش رہی۔ چند لمحے بعد اُس نے آہستہ سے کہا:

’’سمجھ میں نہیں آتا کہاں سے شروع کروں۔ یہ بےحد طویل اور پیچیدہ دَاستان ہے ….. تم اکتا جاؤ گے اور شاید تمہارے پاس اِتنا وقت بھی نہ ہو کہ …..‘‘

’’مَیں اِس وقت بالکل فرصت سے ہوں۔‘‘ فاسٹر نے جلدی سے کہا۔
’’اِس لیے تم اطمینان سے ….. شروع سے آخر تک ….. تمام چھوٹی بڑی جزئیات کے ساتھ مجھے اپنی داستان سناؤ۔ مَیں اکتاؤں گا نہیں …..
اور کیا عجب کہ مَیں تمہاری داستان بحیثیت ایک ڈاکٹر، یقین ہی کر لوں۔ سب ڈاکٹر ایک جیسے تو نہیں ہوتے نا؟‘‘

باربرا نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ باہر اب دوبارہ بارش زور پکڑ رہی تھی اور بجلی کی بار بار کڑک چمک میں اضافہ ہو گیا تھا۔ باربرا نے کہا:

’’مجھے وہ دِن اچھی طرح یاد ہے ….. آسمان پر سورج چمک رہا تھا اور نرم، خوش گوار دُھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔
وہ اَیسا بےہودہ دِن ہرگز نہیں تھاجیسا آج کا دن ہے ….. روشن روشن، اُجلا اجلا اور صاف ستھرا ….. بےحد دل خوش کُن دن تھا وہ …..‘‘

کار دَرمیانی رفتار سے کھلی اور حدِ نظر تک طویل سیدھی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے خوبصورت مکان پیچھے کی جانب دوڑ رہے تھے۔
مکان اگرچہ پرانے تھے، تاہم اُن میں رہنے والوں نے اُن کی مرمت اور صفائی کا خوب خیال رکھا تھا۔ ہر مکان کے آگے چھوٹا سا باغیچہ تھا اور باغیچے میں ننھے منے بچے کھیلتے کودتے نظر آ رہے تھے۔
باربرا کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ ہر مکان کو دیکھ کر وہ آپ ہی آپ کھلکھلا دیتی۔
اُسے ہر مکان اپنا ہی گھر معلوم ہوتا تھا۔ برابر والی نشست پر ادھیڑ عمر کا شخص باربرا کی اِس بےپناہ مسرّت سے بےخبر کار چلا رہا تھا۔
وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ دفعتاً وہ باربرا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا:

’’خدا کا شکر ہے، تم خوش تو ہوئیں۔‘‘

’’ہاں جارج! مَیں آج بہت خوش ہوں۔ کاش! تم جان سکتے کہ دوبارہ گھر جا کر مجھے کتنی خوشی ہو رَہی ہے۔‘‘

’’مجھے احساس ہے باربرا!‘‘ جارج نے جواب دیا۔ ’’مجھے توقع ہے کہ گھر میں بھی تم خوش رہو گی۔‘‘

’’مَیں اِس وقت بھی خوش ہوں اور آئندہ بھی رہوں گی۔‘‘ باربرا نے ہنس کر کہا۔ ’’تم میرے بارے میں فکر مت کرو۔ جارج جو کچھ ہونا تھا، ہو چکا۔
اب گزشتہ واقعات پر رنج و الم بےسود ہے۔ زندگی رونے دھونے اور غمگین رہنے سے کبھی نہیں کٹتی، یہ بات میری عقل میں آ چکی ہے۔ مَیں نے مسرتوں ہی میں زندگی کا راز پا لیا ہے۔‘‘

’’بہت خوب ….. بہت خوب …..‘‘ جارج نے بھی گویا خوش ہو کر دانت نکال دیے۔ ’’یہ بہت اچھی بات ہے باربرا۔ اب سب کچھ تم پر منحصر ہے۔
چاہو تو اَپنی زندگی باغ و بہار بنا لو، چاہو تو اِسے اجاڑ دو ….. اور یہ حقیقت تم خود بھی اچھی طرح جانتی ہو، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’ہاں، جارج! مَیں اچھی طرح جان گئی ہوں۔‘‘ باربرا سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور وِنڈ شیلڈ میں سے باہر جھانکنے لگی۔ غالباً وہ اَپنا مکان پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔

اُن کا مکان بھی خاصا خوبصورت اور جدید طرز کا تھا۔ پرانے ڈیزائن سے ہٹ کر بنا یا گیا تھا دو منزلہ ….. سرخ اینٹوں کا بنا ہوا …..
جارج جُوں ہی مکان کے کھلے دروازے سے کار گزار کر پورچ میں رکا، باربرا جلدی سے دروازہ کھول کر نیچے اتری اور بچوں کی طرح تالیاں بجا بجا کر خوش ہونے لگی۔
جارج نے اُسے پریشان اور کسی قدر مشکوک نگاہوں سے دیکھا، لیکن منہ سے کچھ نہ کہا۔ اِس وقت وہ اَپنے آپ پر ضبط کرنا ہی مناسب سمجھتا تھا۔
مبادا کوئی ایسی ویسی بات زبان سے نکل جائے اور باربرا کو دُکھ پہنچے۔ باربرا اُس کی چھوٹی بہن تھی اور جارج اپنی چھوٹی بہن کو مزید صدمہ پہنچانا پسند نہیں کرتا تھا۔

’’معلوم ہوتا ہے میری غیرحاضری میں تم نے مکان کی مرمت کرائی ہے۔‘‘ باربرا نے کہا۔ ’’یہ رنگ و رَوغن بھی تازہ ہے۔‘‘

’’ہاں! مَیں نے سوچا تم جب اپنے گھر واپس آؤ، تو تمہیں گھر بھی صاف ستھرا ملے۔‘‘ جارج نے جواب دیا۔ ’’تمہیں نیا رنگ و رَوغن پسند آیا؟‘‘

’’بہت ….. بہت!‘‘ باربرا نے ایک بار پھر تالی بجائی۔ ’’تم کتنے اچھے ہو جارج! میرا کتنا خیال رکھتے ہو؟‘‘

جارج نے اِس دوران میں کار کی ڈگی کھولی اور بڑا سا سُوٹ کیس باہر نکال کر زمین پر رکھ دیا۔
پھر اُس نے ڈگی بند کر دی اور کار کی پچھلی نشست پر پڑا ہوا ایک چھوٹا سا سفری بیگ بھی اٹھایا اور باربرا کی طرف بڑھایا۔
غالباً یہ بیگ باربرا ہی کا تھا، لیکن اُس نے جارج کے ہاتھ سے بیگ نہیں لیا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کی نظریں دوسری منزل کی ایک کھڑکی پر جمی ہوئی تھیں۔
جارج نے دیکھا کہ باربرا کے چہرے پر وحشت کے آثار ہیں اور وُہ پلکیں جھپکائے بغیر کھڑکی کو دیکھ رہی ہے۔ جارج نے آہستہ سے بیگ زمین پر رکھ دیا اور کہا:

’’باربرا ….. کیا بات ہے؟ کھڑکی کو یوں کیوں دیکھ رہی ہو؟‘‘

جارج کی آواز پر باربرا چونک پڑی۔ ’’ک ….. کچھ نہیں ….. کچھ نہیں۔ مجھے شبہ سا ہوا تھا کہ اوپر ….. کھڑکی میں کوئی کھڑا تھا۔‘‘

جارج کی بھنوئیں سکڑ گئیں۔ ’’باربرا ….. کیا کہتی ہو؟ مکان کی اوپری منزل میں بھلا کون ہو سکتا ہے؟‘‘

لیکن اُس کا فقرہ باربرا نے کاٹ دیا۔ ’’یقیناً کوئی ….. تھوڑی دیر پہلے وہاں موجود تھا۔
مَیں نے اُسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جارج۔ مَیں قسم کھا سکتی ہوں۔ میری آنکھیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ ضرور کھڑکی میں کوئی …..‘‘

’’آخر تھا کون؟‘‘ جارج کو غصّہ آ گیا۔ ’’کون تھا؟ کوئی بھوت پریت ….. یا کوئی آدمی؟‘‘

’’ہاں ….. ہاں!‘‘ باربرا نے کھڑکی پر نگاہیں جمائے آہستہ سے کہا۔
’’میرا خیال ہے جارج ….. وہ ….. وہ ….. لُوسی کے سوا اَور کوئی نہ تھا۔‘‘

جارج نے سخت بیزار ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ باربرا گھبرا کر جارج کے پاس آئی اور اُس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی:

’’کیا بات ہے جارج! تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘

’’ابھی تک تو میری طبیعت ٹھیک ہی تھی باربرا!‘‘ جارج نے کہا۔ ’’مگر اب معلوم ہوتا ہے تم اپنے ساتھ ساتھ مجھے بھی پاگل کر دو گی …..
یاد کرو کہ تم نے اسپتال میں مجھ سے کیا وعدہ کیا تھا۔ تم نے کہا تھا کہ آئندہ کبھی لُوسی کا ذکر نہیں کروں گی۔ بولو، یاد ہے تمہیں اپنا وعدہ۔‘‘

باربرا نے شرمندہ ہو کر اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’ہاں یاد ہے ….. لیکن جارج ….. مَیں نے خود اُسے اپنی آنکھوں …..‘‘

’’غلط ….. بالکل غلط۔‘‘ جارج نے ناراض ہو کر کہا۔
’’یہ تمہارا وَہم ہے اور کچھ نہیں۔ لُوسی بھلا یہاں کیسے آ سکتی ہے؟‘‘

’’مجھے افسوس ہے جارج!‘‘ باربرا نے گردن جھکا کر کہا۔ ’’مَیں نے خواہ مخواہ تمہیں تکلیف پہنچائی ….. لیکن یقین کرو ….. مَیں نے اوپر کی منزل میں …..
اُس کھڑکی میں کسی کی جھلک ضرور دَیکھی تھی ….. مَیں سمجھی وہ لُو …..‘‘ اُس نے لُوسی کا نام پورا نہیں لیا کہ جارج پھر خفا ہو گا۔ ’’مجھے معاف کر دو جارج ….. آئندہ ایسی غلطی نہ ہو گی۔‘‘

اور یہ جملے کہتے ہوئے باربرا نے ایک بار پھر گردن اٹھا کر اُسی کھڑکی کی طرف دیکھا جیسے یقین ہو کہ وہاں پھر کوئی اُسے نظر آئے گا، مگر وہاں کوئی نہ تھا۔

جارج نے باربرا کے سر پرپیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’تم جسے لُوسی سمجھ رہی ہو، وہ کوئی اور ہے باربرا ….. مَیں دراصل تمہیں بتانا بھول گیا تھا۔‘‘

باربرا نے بےحد تشویش سے جارج کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’کون ہے وہ؟‘‘

’’ابھی تھوڑی دیر میں تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا۔ مکان کے اندر تو چلو۔‘‘

’’جارج! پہلے مجھے بتاؤ کہ مکان میں کون ہے؟‘‘ باربرا نے سنجیدگی سے کہا۔
’’جب تک تم نہ بتاؤ گے، مَیں مکان کے اندر ہر گز قدم نہ رکھوں گی۔ مَیں اب بچی نہیں ہوں کہ تم مجھے بہلاتے پھرو۔‘‘

جارج ایک دم ہنس پڑا۔ ’’اوہو ناراض ہو گئیں تم تو ….. بھئی ذرا صبر سے کام لو۔‘‘

دفعتاً پہلی منزل کا بڑا دَروازہ کھلا اور ایک پست قامت، پھولی ہوئی عورت دروازے میں کھڑی نظر آئی۔ اُس کے موٹے اور بھّدے بدن پر نرسوں کی سفید یونیفارم منڈھی ہوئی تھی۔
جارج اور باربرا کو دیکھ کر وہ پتھر کی بنی ہوئی سیڑھیاں اتر کر آگے آئی۔ اُس کے ہونٹوں پر بےہنگم سی مسکراہٹ تھی۔

باربرا نے منہ بنا کر کہا ’’گویا تم نے میرے لیے نرس کا بھی پہلے سے انتظام کر رکھا ہے حالانکہ …..‘‘

جارج نے نرس کو مخاطب کیا ’’مس ہگنز! اِن سے ملو، یہ ہیں میری بہن باربرا!‘‘

’’ہیلو باربرا …..‘‘ نرس نے دانت نکالتے ہوئے اُس کی طرف دیکھا۔
’’مَیں تمہیں دیکھنے کے لیے بےچَین تھی۔ جارج نے تمہارا ذکر کر کے مجھے بےحد مشتاق بنا دیا تھا۔‘‘

باربرا نے اُس کی گرم جوشی کا جواب نہایت سرد مہری سے دیا اور صرف اتنا کہا:
’’ہیلو مس ہگنز ….. امید ہے تم سے مل کر مجھے خوشی ہو گی۔‘‘

اور یہ کہتے ہی باربرا، جارج اور مس ہگنز کو وہیں چھوڑ کر مکان کے اندر دَاخل ہو گئی۔ جارج اور مس ہگنز نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا اور پھر وہ دونوں بھی باربرا کے پیچھے پیچھے آئے۔
باربرا نے مڑ کر اُنھیں دیکھا، پھر تیز تیز قدموں سے چلتی وہ جارج کے قریب آئی اور اُس کا بازو تھام کر ایک طرف لے گئی۔

’’تم نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی اِسے رکھ لیا۔‘‘ باربرا نے چپکے سے اُسے کہا۔
’’مجھے یہ عورت بالکل اچھی نہیں لگی ….. یقین کرو ….. مَیں اب قطعی ٹھیک ٹھاک ہوں اور مجھے اب کسی نرس ورس کی ضرورت نہیں ہے۔
گھر کا کام کاج مَیں خود کر لیا کروں گی اور کام ہے بھی کتنا۔ بس تم اِسے آج ہی چھٹی دے دو ….. اِس کا حساب صاف کر دو۔‘‘

’’باربرا!‘‘ جارج نے کسی قدر سخت لہجے میں کہا۔ ’’یہ کیا بدتمیزی ہے۔ وہ سنے گی، تو اُسے کتنا رنج پہنچے گا۔ مس ہگنز بہت اچھی نرس ہے …..
وہ تم سے پیار و محبت کا سلوک کرے گی، تمہاری خدمت کرے گی ….. تم جانتی ہو، مَیں سارا دِن گھر میں نہیں رہ سکتا۔ مجھے اپنے کام دھندے کے سلسلے میں دن اور رَات کا بیشتر حصّہ گھر سے باہر گزارنا پڑتا ہے۔
اتنے بڑے مکان میں تم تنہا گھبرا جاؤ گی …..
تمہیں یاد ہو گا کہ اسپتال کے ڈاکٹر نے بھی تمہیں مشورہ دِیا تھا کہ چند روز کے لیے کسی نرس کو رکھ لیا جائے تاکہ وہ تمہاری دیکھ بھال کر سکے۔
لہٰذا تم فکر نہ کرو ….. مس ہگنز کی خدمات ہم نے عارضی طور پر حاصل کی ہیں۔‘‘

باربرا نے مزید کچھ کہنا چاہا، لیکن مس ہگنز نے موقع نہ دیا۔ وہ فوراً وہاں آئی اور باربرا کا ہاتھ پکڑ کر بولی:

’’آؤ باربرا! مَیں تمہیں تمہارا کمرا دِکھاؤں۔‘‘

’’مَیں خود چلی جاؤں گی۔ اپنے کمرے میں، مس ہگنز!‘‘ باربرا نے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
’’مَیں اِس گھر میں اجنبی نہیں ہوں۔ ہر کمرا میرا دَیکھا بھالا ہے۔‘‘

نرس نے بےبسی سے شانے اچکا کر جارج کی طرف دیکھا۔ جارج نے اُسے آنکھ کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا، پھر بلند آواز سے بولا:

’’ٹھیک ہے مس ہگنز ….. باربرا خود اَپنے کمرے میں چلی جائے گی۔ تم مہربانی کر کے باہر سُوٹ کیس اور بیگ پڑا ہے، وہ اَندر لے آؤ۔‘‘

’’بہت بہتر جناب!‘‘ نرس نے کہا اور باہر چلی گئی۔ باربرا اَبھی تک اوپر جانے والی سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔ نرس کے جانے کے بعد جارج نے باربرا سے کہا:

’’باربرا! تمہیں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ بےچاری نرس نے آخر تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم اُس پر خفا ہو رہی ہو۔‘‘

مجھے افسوس ہے جارج! اگر تم کہو تو مَیں مس ہگنز سے معذرت کر لوں؟‘‘

’’ہاں ….. شاباش ….. بہت اچھی لڑکی ہو تم۔‘‘
جارج نے خوش ہو کر کہا۔ ’’چند دن کی بات ہے، پھر مس ہگنز خود ہی چلی جائے گی۔‘‘

اتنے میں نرس نے باری باری دونوں چیزیں لا کر ایک طرف رکھ دیں۔ باربرا اُتر کر آئی اور نرس کا ہاتھ پکڑ کر بولی:

’’مجھے معاف کر دو مس! مَیں نے خواہ مخواہ تمہاری دل آزاری کی۔‘‘

مِس ہگنز کو باربرا سے یہ توقع نہ تھی، لہٰذا وُہ بھونچکا ہو کر اُس کی صورت تکنے لگی۔ آخر اُس نے ہنس کر کہا:

’’مَیں نے تمہاری کسی بات کا برا نہیں مانا، باربرا۔ لیکن مَیں جانتی ہوں کہ تم اسپتال سے آئی ہو اَور گرم دواؤں نے تمہارے اعصاب بےحد زود حِس کر دیے ہیں۔ تمہیں سکون اور آرام کی ضرورت ہے۔‘‘

یہ کہہ کر نرس نے باربرا کا بیگ اٹھا لیا اور اُسے اوپر کی منزل میں لے گئی۔ جارج اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔

بالائی منزل آرائش اور زیبائش کے اعتبار سے زیریں منزل کے مقابلے میں بہت آگے تھی۔ گیلری میں دبیز قالین بچھا تھا اور کمرے میں ضرورت کی ہر شے موجود تھی۔
دروازوں اور کھڑکیوں پر نئے ریشمی پردے لہرا رَہے تھے۔ فرنیچر بھی صاف ستھرا اَور پالش کیا گیا تھا۔
باربرا کے لیے ایک گوشے میں مسہری بچھی تھی اور اُس پر نرم گدّے کے اوپر نیلی چادر اَور پائنتی پر نیا سرخ کمبل سلیقے سے تہہ کیا رکھا تھا۔

’’تمہارا بستر مَیں نے کئی دن پہلے تیار کر دیا تھا، باربرا۔‘‘ نرس نے کہا۔ ’’اب تم بستر میں آرام کرو، مَیں تمہارے لیے ہلکا سا ناشتا تیار کرتی ہوں۔‘‘

’’مس ہگنز! مَیں نے دوپہر کے وقت کبھی بستر میں آرام نہیں کیا۔‘‘ باربرا نے آہستہ سے کہا۔ ’’مہربانی کر کے جارج کو بلاؤ۔‘‘

’’اوہو! تم سمجھی نہیں …..‘‘ نرس نے کہا۔ ’’میرا مطلب تھا کہ دور کا سفر کر کے آئی ہو، تھکی ماندی ہو ….. تھوڑی دیر آرام کر لو۔
اِس طرح تھکن دور ہو جائے گی اور تم دوبارہ خود کو ہشاش بشاش محسوس کرو گی۔ جارج کو بلانے سے کیا فائدہ؟ اُسے بھی آرام کرنے دو۔‘‘

’’مگر مَیں کوئی تھکن محسوس نہیں کر رہی ہوں۔‘‘ باربرا نے احتجاج کیا۔ ’’پھر تم کیوں مجھے زبردستی بستر میں بٹھانا چاہتی ہو؟ جارج کو بلاؤ۔‘‘

اتنے میں دروازے پر آہٹ ہوئی اور جارج کمرے میں آیا۔ غالباً اُس کے کانوں تک باربرا اَور مس ہگنز کی آواز پہنچ گئی تھی۔

’’کیا بات ہے باربرا؟ تمہیں مجھ سے کچھ کہنا ہے؟ کسی چیز کی ضرورت ہے؟‘‘

’’دیکھو جارج! یہ مجبور کر رہی ہے کہ مَیں بستر میں دبک جاؤں ….. ابھی تو دوپہر ہے۔‘‘

’’نرس ٹھیک کہتی ہے باربرا! تمہیں آرام کرنا چاہیے ….. تم نے مجھ سے کیا وعدہ کیا تھا؟
یہی کہ ڈاکٹر کی ہر ہدایت پر چوں چرا کیے بغیر عمل کرو گی اور ڈاکٹر نے کہا تھا کہ تمہیں زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہے …..
تمہیں اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے، باربرا۔ اِس میں تمہاری بہتری ہے۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے ….. مگر ….. یہ میرا گھر ہے، جارج ….. اسپتال تو نہیں ہے۔‘‘ باربرا نے کہنا شروع کیا، لیکن جارج نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

’’باربرا! تم بھول رہی ہو ….. یہ صرف تمہارا گھر نہیں ….. میرا گھر بھی ہے ….. بلکہ یوں کہو کہ ہم دونوں کا گھر ہے اور اَب …..
آئندہ سے ہم دونوں اِس گھر میں اکٹھے ہی رہیں گے ….. اور اَگر تم نے ڈاکٹر یا نرس کی ہدایت پر عمل نہ کیا، تو جانتی ہو اُس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
یہی کہ تمہیں دوبارہ اسپتال داخل کرا دِیا جائے گا۔ بولو، کیا تم دوبارہ اُسی اسپتال میں جانا پسند کرو گی؟ مَیں سمجھتا ہوں تم پسند نہیں کرو گی۔‘‘

اسپتال میں دوبارہ دَاخلے کے ذکر ہی سے باربرا کے تمام بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی۔ اُس نے روتے ہوئے کہا:

’’نہیں، نہیں ….. مَیں دوبارہ اَسپتال میں جانا نہیں چاہتی۔‘‘

’’شاباش ….. تم بہت سمجھدار لڑکی ہو۔‘‘ جارج نے کہا۔
’’مَیں بھی نہیں چاہتا کہ تمہیں پھر اسپتال بھیجوں ….. لیکن اِس کے لیے لازمی ہے کہ تم ڈاکٹر کے کہنے پر عمل کرو ….. جو کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں، اُس میں تمہارا ہی فائدہ ہے۔‘‘

’’ہاں، اور کیا۔‘‘ مس ہگنز نے جارج کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’ڈاکٹر کو معلوم ہوتا ہے کہ مریض کے حق میں کون سی بات بہتر ہے اور کون سی مضر۔
مریض کو چاہیے کہ جو ہدایات ڈاکٹر دے، اُس پر پوری طرح عمل کرے۔ اِس لیے پیاری باربرا، تم بستر میں لیٹ جاؤ اور ممکن ہو تو گہری نیند کا لطف اٹھاؤ۔‘‘

باربرا اَبھی تک آنسو بہا رہی تھی۔ اُس نے جارج کی طرف ایک ثانیے کے لیے دیکھا۔ پھر آہستہ آہستہ مسہری کی طرف بڑھ گئی۔ جارج نے اپنی جیب سے پائپ اور تمباکو کی تھیلی نکال کر پائپ بھرنا شروع کیا۔

’’جب تم سو کر اُٹھو گی، تو دیکھنا کتنی تازہ دَم ہو جاؤ گی۔ مَیں پھر تمہیں دیکھنے آؤں گا۔‘‘

’’ہاں! ضرور آنا۔ مجھے تم سے چند ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ باربرا نے جارج سے کہا۔

’’وہ باتیں بھی ہو جائیں گی۔ اُن باتوں کے لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے باربرا۔ تم فکر نہ کرو ….. اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو، تو نرس کو بتاؤ۔‘‘

یہ کہہ کر وہ مڑا اَور دَروازے سے باہر نکل گیا۔ باربرا نے کن انکھیوں سے نرس کی طرف دیکھا۔ وہ مسلسل مسکرا رَہی تھی۔ اُس کا جی چاہا کہ وہ نرس کا منہ نوچ ڈالے۔

’’ڈاکٹر نے کہا ہے کہ …..‘‘ مس ہگنز نے کہنا شروع ہی کیا تھا کہ باربرا نے فقرہ مکمل کر دیا۔

’’آرام کرو ….. بستر میں آرام کرو۔ یہی کہا تھا نا ڈاکٹر نے۔‘‘

کسی قدر نادم ہو کر نرس نے جلدی سے الماری کھولی اور خوبصورت نیا نائٹ گاؤن نکال کر بستر پر رکھ دیا۔

’’رات کو اَگر آنکھ کھلے، تو اِسے پہن کر بستر سے نکلنا۔‘‘ اُس نے باربرا سے کہا۔
’’غسل خانے میں گرم اور ٹھنڈا دونوں طرح کا پانی بھی موجود ہے۔ تم کتنی خوش نصیب ہو باربرا، ایسا محبت کرنے والا بھائی خدا نے تمہیں دیا ہے۔
اَب تمہارا بھی فرض ہے کہ اپنے بھائی کی پریشانیوں میں اضافہ نہ کرو۔ جو وہ کہے خوش دلی سے مانو۔‘‘

باربرا نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا:

’’ہاں! تم ٹھیک کہتی ہو ….. جارج بہت اچھا بھائی ہے ….. مجھ سے بڑی محبت کرتا ہے۔‘‘

پھر اُس نے جلدی جلدی لباس تبدیل کیا اور بستر میں گھس گئی۔
نرس نے شیشے کا گلاس اٹھایا اور غسل خانے میں چلی گئی۔ ایک منٹ بعد وہ وَاپس آئی۔
باربرا نے دیکھا کہ گلاس میں بھورے رنگ کا پانی اوپر تک بھرا ہوا ہے۔ نرس نے گلاس باربرا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا:

’’یہ پی جاؤ ….. تم اطمینان سے گہری نیند سو سکو گی۔‘‘

باربرا نے ہونٹ بھینچ لیے اور ناک سکوڑ کر گلاس میں دیکھا۔ یقیناً یہ کوئی دوا تھی جس میں سے تیز ناگوار بُو اُٹھ رہی تھی۔

’’مس ہگنز! یہ کیا چیز ہے؟‘‘ اُس نے پوچھا۔ ’’اگر یہ نیند کے لیے ہے، تو مَیں بتائے دیتی ہوں کہ یہ پی کر بھی مجھے نیند نہ آئے گی۔‘‘

’’یہ صرف نیند کے لیے نہیں ہے ….. اِس سے تمہارے تھکے ہوئے کمزور اَعصاب کو بھی سکون ملے گا۔ بس اچھی بچی کی طرح پی جاؤ۔‘‘

’’لیکن میرے اعصاب پُرسکون ہیں اور مجھے اِس وقت نیند کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ باربرا ایک دم چلّائی۔

’’دیکھو، دیکھو تم پھر مشتعل ہو رہی ہو۔‘‘ نرس نے خبردار کیا۔ ’’مشتعل ہو کر چیخنا چلّانا تمہارے لیے مضر ہے لڑکی۔
اگر تمہارے بھائی نے آواز سن لی ….. دیکھو، تمہارے ہاتھ بھی کانپ رہے ہیں۔ اور پھر تم کہتی ہو کہ تمہارے اعصاب پُرسکون ہیں ….. مجھے خدشہ ہے جارج تمہیں دوبارہ اَسپتال لے جائے گا۔‘‘

اسپتال کا نام سنتے ہی باربرا کا چہرہ زرد پڑ گیا۔ اُس نے جلدی سے گلاس کا کنارہ ہونٹوں سے لگایا اور ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔ اِس کا ذائقہ عجیب اور کڑوا کڑوا سا تھا۔

’’شاباش ….. بس اِسی طرح کہا مانو گی، تو دنوں کے اندر سرخ و سفید ہو جاؤ گی۔‘‘
نرس نے خالی گلاس اُس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا۔
پھر اُس نے باربرا کو بستر میں لٹا کر اچھی طرح کمبل اوڑھا دیا۔ اِس کام سے فارغ ہو کر اُس نے کھڑکیوں کے پردے چڑھا دیے۔ کمرا نیم تاریک، نیم روشن ہو گیا۔

’’اب تم آرام سے سو جاؤ۔‘‘ مس ہگنز نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں تھوڑی تھوڑی دیر بعد آن کر تمہیں دیکھتی رہوں گی۔ رات کے کھانے پر ہم خوب باتیں کریں گے۔‘‘

’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم رات کو بھی یہیں ٹھہرا کرو گی۔‘‘ باربرا نے اُسے گھورا۔

’’ہاں! اور وُہ اِس لیے کہ مَیں دن رات کے لیے ملازم رکھی گئی ہوں، لہٰذا تمہیں گھبرانے یا تنہائی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میرا کمرا تمہارے کمرے کے برابر ہی میں ہے۔‘‘

یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئی اور آہستہ سے دروازہ بند کر دیا۔ باربرا نے چھت پر نظریں جما دیں۔ کڑوی کسیلی دوا پی کر اُس کا جی متلا رہا تھا۔
اِس کے علاوہ اُسے مس ہگنز کی گھر میں موجودگی سے شدید ذہنی کوفت ہو رہی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ وہ اَور جارج دونوں گھر میں ہنسی خوشی رہیں گے، کوئی تیسرا فرد نہ ہو گا …..
پہلے بھی وہ دونوں بہن بھائی خاصے خوش و خرم رہ کر زندگی کے دن گزار رَہے تھے کہ لُوسی نے درمیان میں آ کر بدمزگی پیدا کر دی …..
اور اَب ….. یہ کمینی ….. حرّافہ ….. مس ہگنز آن ٹپکی ….. کہتی ہے مَیں رات کو بھی یہیں رہوں گی۔

باربرا کے ذہن میں جیسے سوئیاں سی چبھ رہی تھیں۔ بےچَین ہو کر وہ کروٹیں بدلتی رہی۔ پھر اُس نے تمام خیالات ذہن سے جھٹک کر سنجیدگی سے سونے کی کوشش شروع کر دی۔
کمبل سے منہ ڈھانپ کر اُس نے آنکھیں بند کر لیں۔ نہ جانے کتنی دیر وہ یوں ہی آنکھیں بند کیے بےحس و حرکت لیٹی رہی، لیکن نیند نہ آئی۔
آہستہ آہستہ اُس کے ذہن میں طرح طرح کے پریشان کن اور ڈراؤنے خیالات آنے لگے۔ تب اُس نے سوچا کہ اگر وہ اَپنی معمول کی گولیاں کھا لے، تو نیند آ جائے گی ….. مگر ….. یہ گولیاں کھانے سے ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا۔
حالانکہ یہ گولیاں نقصان دہ بھی نہ تھیں۔
جب بھی وہ یہ گولیاں استعمال کرتی، اُسے محسوس ہوتا کہ اُس کا ذہن تر و تازہ ہو گیا ہے اور اُس کی جسمانی قوتیں تیزی سے بحال ہو رہی ہیں۔ کاش! اِس وقت اُس کے پاس ایک ہی گولی ہوتی۔

یکایک باربرا کے کانوں میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجنے کی مدھم سی آواز آئی۔ اُس کی آنکھیں خودبخود کھل گئیں۔ آنکھیں کھلنے کے بعد اُسے محسوس ہوا کہ گھنٹی کی آواز زیادہ وَاضح اور صاف سنائی دے رہی ہے۔
وہ کان لگائے یہ آواز سنتی رہی ….. خدا جانے ٹیلی فون کہاں رکھا تھا۔ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی اور فون سننے والا کوئی نہ تھا۔ باربرا نے کمبل ہٹا کر ایک طرف پھینک دیا۔
بستر سے اٹھ کر دبے پاؤں بند دروازے تک گئی اور اُس سے کان لگا کر کھڑی رہی۔ بلاشبہ ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی ….. اُس نے آہستہ سے دروازہ اَندر کی طرف کھولا …..
خدا کا شکر ہے کہ نرس نے اُسے مقفل نہیں کیا تھا۔ دروازہ ذرا سا کھل گیا اور اُسی درز میں سے باربرا نے باہر جھانکا۔ عین اُسی لمحے اُس نے نیچے جارج کی آواز سنی۔
اُس نے ٹیلی فون کا ریسیور اُٹھا لیا تھا اور کسی سے باتیں کر رہا تھا۔

باربرا نے تھوڑا سا دروازہ اَور کھولا۔ پھر چپکے سے باہر نکل آئی۔ اُس نے دیکھا کہ جارج نیچے ہال میں کھڑا تھا۔ پھر اُس نے ریسیور ایک طرف رکھ دیا اور پکار کر کہا:

’’مس ہگنز! تمہارا فون ہے۔‘‘

باربرا نے چند لمحے بعد نرس کی آواز سنی، لیکن وہ اَندازہ نہ کر پائی کہ نرس مکان کے کس حصّے میں ہے۔ البتہ یہ یقینی تھا کہ وہ نچلی منزل ہی کے کسی کمرے میں تھی۔
باربرا اَپنی جگہ کھڑی برابر نیچے دیکھتی رہی۔ ایک ثانیے بعد نرس ہال کمرے میں نمودار ہوئی اور بڑھ کر ریسیور اُٹھا لیا۔ جارج ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔
وہ جانے کو مڑا ہی تھا کہ مس ہگنز کی فون پر ہونے والی گفتگو کے چند الفاظ سن کر رک گیا۔ نرس کہہ رہی تھی:

’’ہاں، ہاں! مَیں ہگنز بول رہی ہوں ….. ارے نہیں، نہیں ….. خدا کی پناہ ….. کیا کہا تم نے؟
اوہو، ہاں ….. مَیں جانتی ہوں۔ وہ کہاں ہے …..
اب وہ کیسی ہے؟ کوئی خطرے کی بات تو نہیں؟ ٹھیک ہے ….. مَیں بہت جلد پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں۔ بس یوں سمجھو چل پڑی ہوں۔‘‘

اور اِس کے ساتھ ہی اُس نے فون بند کر دیا۔ جارج نے پوچھا:

’’کیا بات ہے، مس ہگنز! خیریت تو ہے؟ جب آپریٹر نے کہا کہ اسپتال سے فون ہے، تو مَیں سمجھا کہ …..‘‘

’’یہ فون میری ماں کا تھا۔ اُس کا ابھی ابھی حادثہ ہو گیا ہے۔
گلی کی نکڑ پر کسی سائیکل سوار نے اُسے ٹکر مار کر گرا دِیا۔ اب وہ اَسپتال میں ہے۔ مجھے فوراً جانا ہو گا۔‘‘

جارج کسی قدر پریشان ہو گیا۔ ’’کیا ابھی جانا ضروری ہے؟
اسپتال میں تمہاری ماں کی دیکھ بھال ہو جائے گی۔ تم کل چلی جانا، یہاں باربرا کا خیال بھی تو تمہیں رکھنا ہے۔‘‘

’’بہرحال میرا جانا ضروری ہے۔ اسپتال والے کہتے ہیں کہ چوٹ زیادہ آئی ہے۔ ویسے بھی وہ بوڑھی عورت ہے اور قدرتی طور پر مجھے یاد کرتی ہو گی۔
باربرا کی فکر نہ کرو، مَیں نے اُسے دوا پلا دی ہے اور اَب وہ گہری نیند سو رہی ہو گی۔
کم از کم چار پانچ گھنٹے سے پہلے وہ بیدار نہیں ہو سکتی۔ مَیں ہر صورت میں سورج غروب ہونے سے پہلے لَوٹ آؤں گی۔‘‘

’’پھر تو ٹھیک ہے۔‘‘ جارج نے کہا اور کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی۔ ’’اب سے بیس منٹ بعد ایک ریل جانے والی ہے، تم اُس پر جا سکتی ہو …..
مَیں تمہیں اسٹیشن لیے چلتا ہوں، لیکن خدا کے لیے شام تک واپس آ جانا۔ مجھے باربرا کی طرف سے ابھی اطمینان نہیں ہے۔‘‘

’’تم فکر نہ کرو جارج! مَیں شام تک لَوٹ آؤں گی۔ باربرا میرے آنے تک سوتی ہی رہے گی۔ تم اتنے میں گیراج سے گاڑی نکالو، مَیں اپنا پرس لے آؤں۔‘‘

’’تمہیں پورا یقین ہے کہ باربرا جاگے گی نہیں؟‘‘ جارج نے پوچھا۔

’’ہاں، ہاں! کہہ تو رہی ہوں کہ تم فکر نہ کرو۔ وہ شام تک گھوڑے بیچ کر سوئے گی۔‘‘ نرس نے جواب دیا۔

جارج نے نگاہیں اٹھا کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا۔ باربرا اَگر فوراً ہی پیچھے نہ ہٹ جاتی، تو جارج ضرور اُسے دیکھ لیتا۔
پھر اُسے شک ہوا کہیں اوپر ہی نہ آ جائے، چنانچہ وہ دَبے پاؤں واپس کمرے میں آ گئی اور بستر میں لیٹ کر کمبل اوڑھ لیا۔ اُس کا شک صحیح نکلا۔ چند ہی لمحوں بعد اُس نے کمرے کے باہر ….. سیڑھیوں پر قدموں کی آہٹ سنی۔ پھر آہستہ سے دروازہ کھلا۔
اُس نے فوراً آنکھیں بند کر لیں اور محسوس کیا کہ جارج کھلے دروازے میں کھڑا اُس پر نگاہ جمائے ہوئے ہے۔ باربرا بےحس و حرکت پڑی تھی۔
پھر اُس نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی اور اَگلے ہی لمحے جارج کے سیڑھیاں اترنے کی آواز اُس کے کانوں میں آئی۔

دو تین منٹ انتظار کے بعد وہ بستر سے اٹھی اور اِس مرتبہ دروازے کی طرف جانے کے بجائے اُس کھڑکی کی طرف گئی جو لان کی طرف کھلتی تھی۔
اُس نے کھڑکی پر پڑا ہوا پردہ ذرا ساہٹایا اور شیشے میں سے باہر جھانکا۔ مس ہگنز اور جارج دونوں گیراج کی طرف جا رہے تھے۔
باربرا کے دیکھتے ہی دیکھتے جارج نے گیراج سے کار نکالی۔ پھر اُس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا۔ نرس اُس میں بیٹھ گئی۔ دروازہ بند ہوا اَور پھر آہستہ آہستہ کار باہر سڑک پر پہنچ کر نظروں سے اوجھل گئی۔

باربرا نے کھڑکی کے پاس کھڑے کھڑے گہرا سانس لیا۔ اب وہ پورے مکان میں تن تنہا تھی۔ یک لخت کسی اندرونی خیال کے زیرِاثر وہ لپک کر غسل خانے میں گئی۔
وہاں اندھیرا تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی لگا ہوا بٹن ٹٹول کر اُس نے بتّی روشن کی۔ سامنے ہی بیسن لگا ہوا تھا جس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے خانوں کی الماری بنی ہوئی تھی۔
باربرا نے سب سے پہلی دراز کھولی۔ اُس کے اندر لپ اسٹک اور کاسمیٹک کا دوسرا سامان بھرا ہوا تھا۔ ان میں چھوٹی قینچیاں بھی شامل تھیں۔
اُس نے جلدی جلدی دراز کی تمام چیزیں الٹ پلٹ ڈالیں۔ اِس عمل کے دوران بھی اُس کا ہاتھ کانپنے لگا۔ اُسے جس چیز کی تلاش تھی، وہ اِس دراز میں نہیں تھی۔
کانپتے ہاتھوں سے اُس نے دوسری درازکھولی۔ اُس میں بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھری ہوئی تھیں جن سے باربرا کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔
وہ بےتابانہ ایک خاص چیز تلاش کر رہی تھی اور اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ چیز نہ ملی، تو اُس کی حرکتِ قلب بند ہو جائے گی۔

دفعتاً وہ چیز اُس کے کانپتے ہاتھوں میں آ گئی جس کی اُسے تلاش تھی۔ حیرت انگیز طور پر باربرا کے ہاتھوں اور اُنگلیوں کی کپکپاہٹ جاتی رہی۔ یہ پلاسٹک کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سی بوتل تھی۔
اُس کا ڈھکنا بند تھا اور باربرا کو اُس میں سے نیلے رنگ کے کیپسول اوپر تک بھرے نظر آ رہے تھے۔ باربرا کی مسّرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
دروازہ بند کر کے وہ چمکتی آنکھوں سے یہ نیلے کیپسول تکتی رہی۔ پھر اُس نے احتیاط سے ڈھکنا کھولا اور اَپنی بائیں ہتھیلی پر کیپسول الٹ دیے۔
اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اتنے ڈھیر سارے کیپسول! وہ سمجھتی تھی کہ جارج نے غسل خانے کی درازوں میں سے نیلے کیپسولز کی تمام بوتلیں نکال لی ہوں گی، لیکن ایک بوتل تو اَبھی تک موجود تھی۔
باربرا نے ایک ایک کر کے کیپسول واپس بوتل میں ڈال دیے، صرف آخری کیپسول اپنی مٹھی میں دبا کر ڈھکنا بند کر دیا۔ ایک بار پھر اُس نے وہی دراز کھولی اور شیشی رکھ کر دراز بند کر دی۔

شدتِ جذبات سے اب اُس کا سارا بدن تھرتھرا رَہا تھا۔ باربرا نے نیلا کیپسول یوں مٹھی میں بھینچ رکھا تھا جیسے وہ کوئی انمول ہیرا ہو۔
یکایک اُس نے منہ کھولا اور کیپسول زبان کے نیچے رکھ لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ کیپسول حلق سے نیچے اتار چکی تھی۔
اُس نے پانی کا سہارا لینے کی بھی ضرورت محسوس نہ کی۔ چند ثانیے کے اندر اَندر کیپسول نے اپنا اثر دکھایا۔
باربرا کا تھرّاتا ہوا بدن اور تمتماتا ہوا چہر اَصلی حالت پر لَوٹ آئے۔ اب وہ بالکل پُرسکون تھی، اُس نے سوچا اب بستر میں لیٹ کر آرام کر ہی لینا چاہیے۔

اُس نے غسل خانے سے باہر جانے کے لیے قدم اٹھایا، مگر باہر جانے کو اُس کا جی نہیں چاہتا تھا۔ بہت دن بعد اُسے کیپسول کھانے کو ملا تھا۔
اُسے وہم ہوا کہ شاید ایک کیپسول وہ اَثر نہ دکھائے جس کی اُسے ضرورت تھی،پلٹ کر تیزی سے اُس نے وہی دراز کھولی اور شیشی نکالی۔ ڈھکنا کھولا اور دُوسرا کیپسول آناً فاناً منہ میں رکھ کر نگل گئی۔
دوسرا کیپسول کھانے کے بعد اُس کی ظاہری حالت میں عظیم تغیّر رونما ہوا۔ وہ آپ ہی آپ مسکرانے اور قہقہے لگانے لگی۔
اُس کا دل چاہا کہ باہر فضاؤں میں آزاد پرندوں کی طرح پرواز کرے۔ بےپناہ خوشی کا ایک فوارہ اُس کے اندر ہی اُبل پڑا تھا۔
جی بھرکر ہنسنے کے بعد اُس نے کیپسول کی بوتل واپس دراز میں رکھی۔ غسل خانے کی بتی بجھائی اور باہر آ گئی۔

لیکن جونہی وہ اَپنے بستر کی طرف بڑھی، اُس کے پاؤں من من بھر کے ہو گئے۔ دل یکبارگی اِس طرح دھڑکا جیسے اچھل کر سینے سے باہر آن گرے۔
چہرہ یوں سکڑ گیا جیسے خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ آنکھیں پھیل گئیں اور اُسے محسوس ہوا کہ دونوں کیپسول قطعی بےکار گئے۔ اُس نے اُن کے ذریعے جو مسرّت حاصل کرنا چاہی تھی، اُس کی عمر چند لمحے تھی۔۔
باربرا نے دیکھا کہ اُس کی مسہری کے بالکل قریب رکھی ہوئی کرسی پر ایک نوجوان لڑکی اطمینان سے بیٹھی مسکرا رَہی ہے۔
وہ باربرا کی ہم سِن تھی اور اُسی کی طرح حسین، مگر اُس کے چہرے پر مکاری اور سفّاکی پھوٹی پڑتی تھی۔

’’لُوسی ….. تم….. یہاں؟‘‘ باربرا کے ہونٹوں سے یہ دو تین لفظ وقفے وقفے سے نکلے۔

’’ہاں….. مَیں…..‘‘ لُوسی نے چمکتے ہوئے دانت نکال دیے۔ ’’کیوں….. مجھے دیکھ کر تمہیں کچھ خوشی نہیں ہوئی؟‘‘

اُس کے لہجے میں اتنا طنز اور اَیسی کاٹ تھی کہ باربرا کے منہ سے دیر تک مزید کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ وہ اَپنی جگہ بت بنی کھڑی لُوسی کو تکتی رہی۔

’’کھڑی کیوں ہو، باربرا؟ اپنے بستر پر لیٹ جاؤ۔‘‘ لُوسی نے ہنس کر کہا۔ ’’اب مَیں آ ہی گئی ہوں، تو مجھ سے دو چار باتیں ہی کر لو۔‘‘

’’مگر….. یہ تو بتاؤ کہ تم یہاں آئیں کس طرف سے؟‘‘ باربرا نے پوچھا۔

’’مَیں سمجھی نہیں تم کہنا کیا چاہتی ہو؟‘‘ لُوسی اب بھی مسکرا رَہی تھی۔ ’’جیسے تم آئیں، ویسے ہی مَیں بھی آ گئی۔‘‘

میرا مطلب یہ تھا کہ تم اِس کمرے میں کیسے آ گئیں، جبکہ دروازہ تو اندر سے بند ہے۔‘‘ باربرا نے کہا۔

لُوسی نے قہقہہ لگایا۔ ’’دروازہ بند نہیں تھا۔ کھلا ہوا تھا۔ تمہارا خیال ہے مَیں کوئی بدروح یا چڑیل ہوں جو بند دروازے سے پار کر جاتی ہوں۔‘‘ ایک لحظ رک کر لُوسی نے پھر کہا۔
’’مَیں تو نہ جانے کب سے تمہاری واپسی کا انتظار کر رہی ہوں، باربرا…..!‘‘

باربرا کے جسم کا تمام خون سمٹ کر کنپٹیوں کے آس پاس جمع ہو گیا۔ اُس نے سہم کر لُوسی کی طرف دیکھا اور بولی:

’’کیا کہتی ہو؟ تم اِس مکان میں پہلے سے موجود تھیں اور میرا اِنتظار کر رہی تھیں؟ کیا جارج کو تمہارے بارے میں پتہ نہیں چلا؟‘‘

لُوسی نے نفی میں گردن ہلائی۔ ’’جارج نے مجھے نہیں دیکھا، حالانکہ مَیں گیراج ہی میں موجود تھی اور اَبھی تھوڑی دیر پہلے مَیں نے ہی باہر سے فون کیا تھا۔‘‘

’’تم نے؟‘‘ باربرا مزید بدحواس ہو گئی۔ ’’تمہارا مطلب ہے، وہ فون جو اَبھی تھوڑی دیر پہلے مس ہگنز کے لیے تھا، گویا وہ فون کسی نے اسپتال سے نہیں کیا تھا؟‘‘

’’مَیں دراصل جارج اور مس ہگنز کو اِس مکان سے نکالنا چاہتی تھی۔‘‘ لُوسی نے کہا۔
’’تاکہ تم سے باتیں کرنے کا موقع مل جائے۔ مجھے معلوم تھا کہ جُوں ہی مَیں مس ہگنز کو فون کروں گی اور اُسے بتاؤںگی کہ اُس کی بوڑھی ماں ایک حادثے کا شکار ہو کر اسپتال میں ہے، وہ فوراً اسپتال جانے کے لیے تیار ہو جائے گی۔
جارج چونکہ بےحد شریف آدمی ہے، اِس لیے مس ہگنز کو اَپنی کار میں ریلوے اسٹیشن تک چھوڑنے ضرور جائے گا۔ یہ تدبیر کامیاب رہی اور دَیکھ لو وہ دونوں جا چکے ہیں۔‘‘

’’لُوسی! تم نے یہ حرکت کچھ اچھی نہیں کی۔‘‘ باربرا نے افسردگی سے کہا۔ ’’تم نے خواہ مخواہ مس ہگنز کو پریشان کیا۔

’’خیر! اب تو مَیں یہ حرکت کر گزری، مگر دیکھتی ہوں کہ تم مجھے دیکھ کر خوش نہیں ہو۔‘‘ لُوسی ایک دم سنجیدہ ہو گئی۔

’’مَیں اِس لیے خوش نہیں ہو سکتی کہ اگر جارج کو ذرا سا بھی احساس ہو گیا کہ تم یہاں آئی تھیں اور مجھ سے مل چکی ہو، تو وہ مشتعل ہو جائے گا۔
مشتعل ہو کر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ….. تم جانتی ہو کہ وہ اَپنے غصّے پر قابو نہیں پا سکتا۔‘‘

’’بس اِسی لیے تو مَیں چاہتی ہوں کہ جو کچھ کرنا ہے، وہ ہم فوراً کر ڈالیں۔‘‘ لُوسی نے کہا اور کرسی سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

’’مَیں تمہارا مطلب نہیں سمجھی۔ آخر ہمیں کیا کرنا ہے؟‘‘ باربرا پر اَب خوف کے بجائے حیرت غلبہ پا رہی تھی۔

’’بےشک تم میرا مطلب نہیں سمجھو گی۔ مَیں نے ابھی تفصیل سے تمہیں کچھ بھی تو نہیں بتایا ….. ہم …..‘‘

باربرا کو ہلکا سا چکر آیا۔ اُسے کمرے کا فرش گھومتا دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے غسل خانے کے دروازے سے سہارا لینے کی کوشش میں ہاتھ بڑھایا۔

’’کیا بات ہے باربرا؟ خیریت تو ہے؟‘‘ لُوسی نے گھبرا کر پوچھا۔

’’کچھ نہیں، یونہی ذرا چکر سا آ گیا تھا۔‘‘

لُوسی نے تیز نظروں سے باربرا کا جائزہ لیا۔ ’’کیا تم دوبارہ وُہی کیپسول تو نہیں کھانے لگی ہو؟‘‘

’’نہیں، نہیں ….. بالکل نہیں۔‘‘ باربرا نے جلدی سے کہا۔
’’کیپسول تو مَیں نے بہت دن ہوئے چھوڑ دیے۔ جیسی چاہے قسم لے لو ….. البتہ نرس نے مجھے دوا ضرور پلائی تھی۔‘‘

لُوسی مسکرائی۔ ’’مگر وہ تو قطعی بےضرر چیز تھی۔ نرس خود بھی یہ سمجھ رہی ہے کہ اُس نے تمہیں گہری نیند کی دوا دِی ہے، حالانکہ مَیں نے وہ دَوا ہی بدل دی تھی …..
بہرحال تمہاری یہ حالت مجھ سے چھپی نہیں رہ سکتی، باربرا! تم جھوٹ بول رہی ہو ….. مجھے یقین ہے تم نے کیپسول ضرور کھایا ہے۔‘‘

لُوسی کی چمکیلی نظروں کی تاب نہ لا کر باربرا آہستہ آہستہ اپنے پلنگ کی طرف بڑھی اور بستر پر گردن جھکا کر بیٹھ گئی۔
’’ سچ کہہ رہی ہوں لُوسی! مَیں نے کوئی کیپسول نہیں کھایا۔ اور اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں ….. مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے۔‘‘

لُوسی نے گہرا سانس لیا۔ ’’یہ بات تو تم کہہ رہی ہو، مگر تمہارے بھائی جارج کو اَبھی تک یقین نہیں آیا کہ تم تندرست ہو چکی ہو …..
اور اِس کی ایک معقول وجہ بھی ہے۔ اگر تم ٹھیک ٹھاک ہو گئیں، تو جارج کے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے ….. دراصل وہ یہی چاہتا ہے تم ٹھیک ٹھاک نہ رہو۔‘‘

’’لُوسی! خدا کے واسطے ایسی باتیں نہ کرو۔‘‘ باربرا نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔
’’آخر تمہیں ایسی باتوں سے کیا ملتا ہے؟ تم سمجھ سکتی ہو کہ مَیں کس قدر پریشان ہو جاتی ہوں۔‘‘

’’حقائق تو حقائق ہی ہوتے ہیں باربرا! کبوتر اگر آنکھیں بند کر کے یہ سمجھ لے کہ بلی اُسے نہیں دیکھ رہی، تو یہ کبوتر کی بھول ہے اور اِسی بھول میں وہ بلّی کا نوالہ بن جاتا ہے۔
یہی کیفیت اِس وقت تمہاری ہے۔ تم سمجھتی ہو کہ جارج جو کچھ کر رہا ہے، وہ تمہاری بہتری کے لیے کر رہا ہے۔ حالانکہ معاملہ اِس کے برعکس ہے اور اِس حقیقت سے تم خود بھی اچھی طرح آگاہ ہو۔‘‘

باربرا خاموشی سے گردن جھکائے بیٹھی رہی۔ لُوسی نے پھر کہا:

’’اچھا یہ بتاؤ جارج نے تمہیں اسپتال میں کس لیے داخل کرایا تھا۔‘‘

’’بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے؟‘‘ باربرا کے ہونٹوں پر بھی پہلی بار مسکراہٹ آئی۔
’’میرا علاج معالجہ کرانے کے لیے۔‘‘

’’بہت خوب ….. مجھے پتہ تھا تم یہی کہو گی ….. لیکن تم احمق ہو، باربرا۔ ذرا سوچ کر بتاؤ کیا تمہارا صحیح علاج ہو گیا؟‘‘

باربرا نے بےچَین ہو کر لُوسی کی طرف دیکھا۔ ’’اگر صحیح علاج نہ ہوا ہوتا، تو ڈاکٹر مجھے گھر آنے کی اجازت کیوں دیتا؟‘‘

لُوسی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ ’’اری بےوقوف! سب ڈاکٹر ایک ہی جیسے ہیں ….. اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ مریضوں کا ڈھنگ سے علاج نہ کریں اور زبانی کلامی اُنھیں یقین دلاتے رہیں کہ تم اب ٹھیک ٹھاک ہو۔
گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اب گھر جاؤ اور آرام کرو۔ خیر اِدھر مجھ سے نظریں ملا کر بات کرو باربرا۔
تم خوب جانتی ہو کہ جارج کے بارے میں جو کچھ مَیں کہتی ہوں، وہ حرف بہ حرف درست ہے۔
سنو ….. وہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ تم تندرست ہو جاؤ۔ بولو کیا مَیں غلط کہتی ہوں؟‘‘

باربرا نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور آنکھیں بند کر کے کانپتی ہوئی آواز میں بولی:

’’چپ رہو لُوسی ….. خاموش ہو جاؤ۔ مَیں اب مزید کچھ نہیں سننا چاہتی۔‘‘

’’لیکن تمہیں سننا پڑے گا باربرا۔‘‘ لُوسی نے بلند آواز میں کہا۔ ’’تمہیں سب کچھ سننا پڑے گا۔ اِس لیے کہ اِسی میں تمہاری بھلائی ہے۔
سنو، تمہیں ایک موقع مل چکا ہے، دوسرا موقع شاید نہ ملے ….. تمہارا وَقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ تم اب بھی نہ سنبھلو گی، تو ضائع ہو جاؤ گی، لہٰذا اپنے آپ کو بچانے کے لیے جدوجہد کرو۔
یہ آخری موقع ہے۔ مجھ سے ضد اور بحث کرنے کے بجائے تم حقائق کا سامنا کرو۔ حوصلے اور ہمت سے۔ مجھے برا کہنے کے بجائے تمہیں میرا شکرگزار ہونا چاہیے، باربرا …..
مَیں تمہیں صحیح مشورہ دَے رہی ہوں۔ کیا تمہیں ابھی احساس نہیں ہوا کہ اگر مَیں درمیان میں نہ ہوتی، تو جارج تمہیں کبھی کا ختم کر چکا ہوتا۔‘‘

باربرا نے کانوں سے انگلیاں نکال لیں اور آنکھیں کھول دیں۔ آنسوؤں کے دو قطرے اُس کے دونوں رخساروں پر ڈھلک آئے۔

’’لُوسی ….. مجھے غلط نہ سمجھو ….. اور مجھ سے خفا مت ہونا۔ مَیں جانتی ہوں تم جو کچھ کہتی ہو وہ سچ ہے ….. مگر یہ تو سوچو کہ مَیں کر ہی کیا سکتی ہوں۔
جارج بہرحال میرا سگا بھائی ہے ….. مَیں اُس کے بارے میں ایسی تکلیف دہ باتیں سننے کی تاب نہیں رکھتی۔‘‘

’’بس تو پھر مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ، باربرا!‘‘ لُوسی اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ ’’اگر تم جارج کے ہاتھوں قتل ہونا ہی پسند کرتی ہو، تو پھر مَیں کیا کر سکتی ہوں؟ اچھی طرح جان لو کہ جارج تمہاری جان کے درپے ہے۔
وہ کبھی تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا …..
پہلے اُس نے تمہیں اسپتال میں داخل کروایا اور اَب یہاں لا کر اِس کمرے میں قید کر دیا ہے اور تمہاری نگرانی کے لیے اُس نے وہ پھولی ہوئی عورت مسلط کر دی ہے۔
وہ عورت ….. جسے تم اپنے بےوقوفی کے باعث نرس سمجھ رہی ہو، وہ نرس ہرگز نہیں ہے۔‘‘

’’پھر وہ کون ہے؟‘‘ باربرا نے پوچھا۔ لُوسی ٹہلتی ہوئی کھڑکی کھڑکی کی طرف گئی اور پردہ سرکا کر باہر جھانکنے لگی۔

’’وہ جارج کی محبوبہ ہے، نرس نہیں ہے۔ جارج نے اُسے تمہاری نگرانی پر مقرر کیا ہے اور عین ممکن ہے وہ نرس تمہیں زہر دے کر ہلاک کر ڈالے۔‘‘

’’نہیں، نہیں! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ باربرا چیخ اُٹھی۔
’’تم ایسا بھیانک مذاق مت کرو لُوسی! جارج نے مس ہگنز کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق صرف دیکھ بھال اور کام کاج کے لیے رکھا ہے۔‘‘

’’آخر تمہیں کیسے پتہ چلا کہ مس ہگنز واقعی نرس ہے؟‘‘ لُوسی نے پلٹ کر سوال کیا۔

’’اِس لیے کہ …..‘‘ باربرا گڑبڑا گئی۔ اُس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا جواب دے۔ مگر لُوسی نے خود ہی فقرہ مکمل کر دیا۔
’’اِس لیے کہ یہ بات خود جارج نے تم سے کہی ہے اور تم نے اپنی سادگی کے باعث اُس کی بات پر یقین کر لیا۔ کیا ڈاکٹر نے خود تم سے کہا تھا کہ گھر میں نرس کی موجودگی ضروری ہے؟
یقیناً نہیں کہا ہو گا۔ پس ثابت ہوا کہ مس ہگنز نرس نہیں ہے۔
تم خود اِس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرو باربرا …..۔ اچھا یہ بتاؤ اِس مکان کا مالک کون ہے؟‘‘

’’مالک تو مَیں ہوں۔‘‘ باربرا نے کہا۔ ’’تم جانتی ہو لُوسی! جب والد کا انتقال ہوا تھا، تو اُنھوں نے ہر چیز میری ملکیت میں دے دی تھی۔

یہ مکان بھی اُن کی وصیت کے مطابق مجھے ملا ہے، اِس میں جارج کا کوئی حصّہ نہیں۔‘‘

’’بالکل ٹھیک!‘‘ لُوسی نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’قانون کے مطابق تم اِس مکان کی واحد مالک ہو ….. لیکن یہ سوچو کہ اگر خدانخواستہ تمہیں کچھ ہو گیا، تب یہ مکان اور اِس کی ساری چیزیں کس کی ملکیت میں چلی جائیں گی؟‘‘

باربرا نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا اور ہچکیاں لے کر رونے لگی۔

’’ایسی باتیں نہ کرو لُوسی، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

’’مَیں جانتی ہوں تمہیں ڈر لگ رہا ہو گا۔ مگر یہ باتیں ضروری ہیں باربرا۔ اگر تم اِن پر توجہ نہ دو گی، تو گویا اپنے ہاتھوں اپنی ہی قبر کھودو گی …..

سوال یہ ہے کہ جارج کو تمہیں یہاں ایک کمرے اور ایک غسل خانے میں قید کر دینے کا کیا حق ہے؟ پھر مزید ظلم یہ کہ اُس نے ایک عورت تم پر پہرےدار کی حیثیت سے مسلط کر دی جو دن رات تمہاری نگرانی کرے گی۔
اِس بات کے لیے کوشاں رہے گی کہ تم تندرست نہ ہونے پاؤ …..
اور اَگر تم اُس کے ہاتھ سے دوا وَغیرہ پینے سے انکار کرو، تو وہ تمہیں دوبارہ دماغی امراض کے اسپتال بھجوانے کی دھمکی دیں گے۔
اگر تم نے کوئی مزاحمت نہ کی، تو سمجھ لو کہ تمہاری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔‘‘

’’جارج میرا بھائی ہے۔‘‘ باربرا نے روتے ہوئے کہا۔ ’’وہ اَیسا ہرگز نہیں کر سکتا ….. کیا وہ اَپنی چھوٹی اور اکلوتی بہن کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے؟‘‘

’’ضرور اُتار سکتا ہے، احمق لڑکی ….. بلکہ اُس نے موت کے گھاٹ اتارنے کا عمل شروع بھی کر دیا ہے۔‘‘
لُوسی نے کہا۔
’’اور یہ کام اُس کے لیے اب بہت آسان ہو گیا ہے۔ اُسے زیادہ سے زیادہ یہ کرنا ہو گا کہ اسپتال کے ڈاکٹر سے کہے کہ تم اُس کے قابو میں نہیں آ رہی تھیں اور یہ کہ تمہیں گھر پر کنٹرول میں رکھنا ممکن نہیں رہا۔
جارج کی گواہی دینے کے لیے وہ نام نہاد مکّار عورت موجود ہے جسے تم نرس سمجھتی ہو۔
وہ بھی کہے گی کہ باربرا کا دماغ خراب ہو چکا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ کسی بھی لمحے کوئی غلط سلط چیز نہ کھا لے یا کھڑکی سے کود کر خودکشی نہ کر لے۔
یہ بھی ڈر ہے کہ اپنے کپڑوں میں آگ لگا کر بھسم نہ ہو جائے۔ ہزار طرح کے بہانے بنائے جا سکتے ہیں اور جب ایک مرتبہ اُس نے تمہیں پاگل ثابت کر دیا، تو پھر تمہارے واحد وارث کی حیثیت سے اِس جائیداد پر قبضہ جما لینا جارج کے لیے مشکل نہ ہو گا۔
یہ عورت ….. مس ہگنز، جارج کے ساتھ اِس گھناؤنی سازش میں برابر کی شریک ہے اور یہ آہستہ آہستہ تمہیں ایسی دوائیں دیتی رہے گی کہ تم اپنے حواس کھو بیٹھو …..
اسپتال میں یا اپنے مکان ہی پر اگر تم مر گئیں، تب بھی جارج پر کوئی آنچ نہ آئے گی۔‘‘

’’پھر تم جارج سے کیوں نہیں کہتیں؟‘‘ باربرا نے کہا۔ لُوسی نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا:

’’مَیں نہیں کہہ سکتی۔ تم جانتی ہو باربرا، جارج مجھے پسند نہیں کرتا۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ تم مجھ سے ملا جلا کرو یا میری سنو۔‘‘

’’ہاں یہ بات تو ہے۔‘‘ باربرا نے کہا۔ ’’تم ہی بتاؤ کہ اِن حالات میں مَیں کیا کر سکتی ہوں؟‘‘

’’تم اب بھی بہت کچھ کر سکتی ہو باربرا۔‘‘ لُوسی نے آہستہ سے کہا۔
’’جان بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وُہ یہ کہ جتنی جلدی ممکن ہو، اِس قیدخانے سے نکل بھاگو۔‘‘

’’لیکن یہاں سے نکل کر مَیں جاؤں گی کہاں؟‘‘ باربرا نے پوچھا۔

’’تم میرے ساتھ رہنا۔‘‘ لُوسی نے کہا۔ ’’اب زیادہ عذر مت کرو۔ بس نکل چلو۔‘‘

’’وہ تو ٹھیک ہے ….. مگر ….. تمہارے ساتھ بھی مَیں کتنے دن رہ سکتی ہوں۔‘‘
باربرا نے ذرا تامل کے بعد کہا۔ ’’جارج مجھے آسانی سے ڈھونڈ لے گا۔ وہ سمجھ جائے گا کہ مَیں تمہارے ساتھ چلی گئی ہوں۔‘‘

’’مَیں نے اِس امر پر بھی خاصا سوچ بچار کیا ہے۔‘‘ لُوسی نے کہا۔
’’مَیں تمہیں اپنے گھر کے بجائے کہیں اور لے چلوں گی۔ کسی گمنام جگہ ہم کمرا کرائے پر لے لیں گے۔ اِس طرح تمہیں اپنی صحت بحال کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔
یہاں رہو گی، تو وہ نرس ہر وقت تمہیں الٹی سیدھی دوائیں پلا کر سوتے رہنے پر مجبور کرے گی۔
اِس کے علاوہ وُہ تمہیں گھر سے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت بھی نہ دے گی۔ اُدھر جارج بھی موقع کی تلاش میں رہے گا کہ تم سے چھٹکارا پا سکے …..
اگر وہ تمہیں ہلاک نہ کر سکا، تو کم از کم اتنا تو کر سکتا ہے کہ دوبارہ پاگل خانے میں داخل کرا دَے ….. اور اِس کے بعد تم وہاں سے مر کر ہی نکل سکو گی۔‘‘

باربرا کے بدن پر دوبارہ لرزہ طاری ہو گیا۔

’’نہیں ….. نہیں ….. مَیں ابھی مرنا نہیں چاہتی ….. مجھے بچاؤ ….. لُوسی، مجھے بچاؤ۔‘‘

’’گھبراؤ نہیں باربرا، مَیں تمہیں بچانے ہی کے لیے آئی ہوں بس جو کچھ مَیں کہوں، اُس پر عمل کرتی جاؤ۔ میرے ساتھ چلی چلو۔ مَیں کسی اچھے وکیل سے بات بھی کروں گی۔‘‘

’’کیا تمہارے پاس وکیل کی فیس دینے کے لیے اتنی رقم ہے؟‘‘ باربرا نے پوچھا۔

’’میرے پاس تو نہیں، مگر تمہارے پاس ضرور ہے۔‘‘ لُوسی نے کہا اور باربرا گردن اٹھا کر حیرت سے اُس کی صورت تکنے لگی۔ لُوسی نے مسکرا کر کہا:

’’کیا تم نے سو پاؤنڈ کی رقم ایک جگہ چھپا کر نہیں رکھی؟‘‘

باربرا دَم بخود رَہ گئی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ راز لُوسی کو کیسے معلوم ہوا۔
سو پاؤنڈ کی رقم بےشک اُس نے اپنے کمرے میں چھپا کر رکھی ہوئی تھی، لیکن اُس نے تو اِس رقم کا ذکر کبھی کسی سے نہیں کیا تھا حتیٰ کہ جارج کو بھی معلوم نہیں تھا ….. پھر لُوسی کو کیسے پتہ چلا؟

’’لُوسی! سچ سچ بتاؤ کہ تمہیں اِس رقم کا علم کیونکر ہوا؟‘‘ باربرا نے خوف زدہ ہو کر پوچھا۔

’’واقعی تم اپنے ہوش و حواس میں نہیں ہو۔‘‘ لُوسی نے کہا۔ ’’کیا تم بھول گئیں، خود تم ہی نے تو مجھے اِس رقم کے بارے میں بتایا تھا؟‘‘

باربرا نے ذہن پر زور دِیا کہ اُس نے کب لُوسی کو بتایا تھا، مگر اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ اِس رقم کا ذکر اُس نے کبھی لُوسی سے نہیں کیا تھا۔

’’مَیں نے تمہیں کبھی نہیں بتایا ….. اور تمہیں کیا، کسی کو بھی اِس رقم کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔‘‘ باربرا نے کہا۔

’’اب تمہیں یاد نہیں آتا، تو مَیں کیا کروں۔ ذرا یہ تو سوچو کہ اگر تم نہ بتاتیں، تو بھلا مجھے کیسے علم ہوتا۔ کیا تمہارا خیال ہے۔ مجھے ایسی باتیں کوئی غیبی قوت بتاتی ہے؟‘‘

’’غیبی قوت کا تو مجھے علم نہیں۔ مَیں تو اتنا جانتی ہوں کہ سو پاؤنڈ کی رقم کا ذکر مَیں نے تم سے ہرگز ہرگز نہیں کیا تھا۔ بہرحال ….. یہ میرے پاس موجود ہے۔ کہو، تو لے آؤں۔‘‘

’’ارے نہیں باربرا ….. ابھی اتنی جلدی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ لُوسی نے کہا۔
’’فوری طور پر ہم یہاں سے نکل نہیں سکتے۔ میرا مطلب ہے دن کے اجالے میں یہاں سے جائیں گے، تو کوئی ہمیں جاتے ہوئے ضرور دَیکھ لے گا اور جارج کو خبر ہو جائے گی کہ تم میرے ساتھ بھاگ گئی ہو۔
ذرا صبر سے کام لو گڑیا! ایسے خطرناک کام یوں ہتھیلی پر سرسوں جمانے سے نہیں ہوا کرتے۔ ہمیں ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔
اِس مقصد کے لیے ہمیں ایک کار کی ضرورت بھی پڑے گی۔‘‘

’’لیکن یہ کار آئے گی کہاں سے؟‘‘ باربرا نے پوچھا۔

’’کار گیراج میں سے آئے گی۔‘‘ لُوسی نے ہنس کر کہا۔ ’’آج ہی رات ….. جب جارج گہری نیند کے مزے لے رہا ہو گا۔‘‘

’’اُس وقت تک تم کیا کرو گی؟‘‘ باربرا کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اپنے چوری چھپے فرار کے تصوّر ہی سے اُس پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔

لُوسی کی پیشانی پر غور و فکر کی شکنیں نمودار ہوئیں۔ پھر اچانک اُس کا چہرہ رَوشن ہو گیا۔ مَیں تمہارے برابر والے کمرے میں ٹھہروں گی۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔
’’مجھے معلوم ہے نرس اُس کمرے میں نہیں جاتی۔ اچھا باربرا اَب مَیں چلتی ہوں۔ جارج کسی بھی لمحے واپس آنے والا ہو گا۔ تم گھبرانا مت ….. مَیں ہر وقت تمہارے قریب ہی ہوں۔
مَیں نہیں چاہتی کہ وہ مجھے یہاں دیکھے۔ میرا وُہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا، البتہ تمہاری کم بختی ضرور آ جائے گی۔‘‘

یہ کہہ کر لُوسی نے دروازے کی طرف قدم بڑھایا۔ باربرا نے بھی بستر سے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن لُوسی نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے روک دیا۔ پھر وہ بولی:

’’سنو ….. اُن کیپسولوں کے نزدیک بھی نہ جانا، ورنہ سارا معاملہ بگڑ جائے گا۔ وعدہ کرو آئندہ وُہ کیپسول نہیں کھاؤ گی۔‘‘

’’وعدہ کرتی ہوں ….. جو تم کہو گی، ویسا ہی کروں گی۔‘‘ باربرا نے کہا۔

’’اب تم بستر پر اطمینان سے لیٹ جاؤ اور سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘ لُوسی نے مسکرا کر کہا۔
پھر اُس نے ہاتھ بڑھا کر آہستہ سے دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ اُس کے جانے کے بعد دروازہ آپ ہی آپ بند ہو گیا۔ باربرا تحیّر آمیز نظروں سے دروازے کی طرف دیکھتی رہی۔

ایک ثانیے بعد اُس نے لُوسی والے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز بھی سنی۔ اُس نے بےچینی سے اپنے کمرے کے غسل خانے پر نگاہ ڈالی۔ اُس کا دروازہ بھی بند تھا۔
باربرا کو یاد آیا، اِس بند دروازے کے پیچھے بیسن کے قریب، لکڑی کی ایک چھوٹی سی الماری دھری ہے۔ الماری کی دوسری دراز میں پلاسٹک کی بوتل پڑی ہے اور اُس میں نیلے رنگ کے کیپسول بند ہیں۔
نیلے کیپسولوں کے تصوّر ہی سے اُس کی روح کو تسکین سی ملنے لگی۔ کتنے کیپسول ہوں گے وہ؟ اُس نے حافظے کی مدد سے دل ہی دل میں گننے شروع کیے …..
دو تو وہ کھا چکی تھی۔ بقایا ….. ایک ….. دو ….. تین ….. چار ….. پانچ۔ دفعتاً اُس کے ذہن میں تاریکیاں امڈ آئیں۔ نیلے رنگ کے ننھّے ننھّے چمک دار کیپسول عالمِ تصوّر سے ایک دم غائب ہو گئے۔
اُس کے کانوں میں کار کے انجن کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی جیسے کار باہر پورچ میں آ کر رکی ہو۔ غالباً جارج واپس آ گیا تھا۔

پھرتی سے اٹھ کر وہ کھڑکی کے پاس گئی اور پردہ اُٹھا کر باہر جھانکنے لگی۔ اُس نے دیکھا کہ جارج کار میں سے باہر نکل رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکان کے اندر دَاخل ہو گیا۔
باربرا کھڑکی سے ہٹ گئی اور بستر پر لیٹنے کے بعد کمبل اوڑھ لیا۔ بستر سے اٹھ کر کھڑکی تک جانے اور وَاپس آنے ہی میں اُس کا سانس بری طرح پُھول گیا تھا۔
اُسے اپنے سانس پر قابو پانا چاہیے ….. ممکن ہے جارج سیدھا اوپر آئے ….. یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ سو رہی ہے یا جاگ رہی ہے اور اِدھر اُس کا سانس پُھولا ہوا ہو، تب وہ کیا سمجھے گا۔
یہی کہ وہ سو نہیں رہی ہے اور اَگر جارج نے پوچھ لیا کہ وہ سوئی کیوں نہیں، تب اُس کا جواب کیا ہو گا۔

اِس تصوّر ہی سے وہ لرزیدہ ہونے لگی، تاہم اُس نے کوشش کر کے اپنے سانس کی آمد و رَفت درست کر لی ….. پھر اُسے محسوس ہوا جیسے مکان کا نچلا بڑا دَروازہ بند ہوا ہے۔
اُس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ جارج اُسے دیکھنے کے لیے اوپر آنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اِس احساس سے اُس کی بگڑی ہوئی حالت نارمل ہو گئی۔
ایک بار پھر اُس نے غیرشعوری طور پر گردن اٹھائی اور غسل خانے کے بند دروازے کی طرف دیکھا۔ بےاختیار اُس کے دل میں ایک اور کیپسول نگل لینے کی خواہش مچلنے لگی۔

اُس نے دل کو سمجھانا چاہا کہ دو کیپسول نگلنے کے بعد تیسرے کی خواہش اچھی نہیں ….. مگر جس قدر وُہ یہ خواہش دباتی، اُسی قدر شدّت سے تیسرا کیپسول کھانے کا جذبہ اُبھر رہا تھا۔
اب دل کے ساتھ ساتھ اُس کا دماغ بھی اِس خواہش کی تکمیل پر اصرار کرنے لگا۔ دماغ نے دلیل دی کہ تیسرا کیپسول کھا لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ کیپسول تو قطعی بےضرر ہیں۔
اَگر وہ پروگرام کے مطابق لُوسی کے ساتھ بھاگ گئی، تب تو کیپسول کھانے کا موقع ہی نہ ملے گا، لہٰذا کیوں نہ اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ ایک اور کھا لے۔

جی کڑا کر کے وہ اُٹھنے کا ارادہ باندھ ہی رہی تھی کہ اُسے دوبارہ بستر میں دبک جانا پڑا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کے حساس کانوں تک سیڑھیوں پر جارج کے قدموں کی آہٹ پہنچ چکی تھی۔
باربرا نے بدن ڈھیلا چھوڑ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ اُس کے دل کی دھڑکن اگرچہ تیز تھی، تاہم سانس کی آمد و رَفت معمول کے مطابق ہی تھی۔
اُسے یقین تھا کہ جارج کو کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہو گا۔

قدموں کی آواز لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی تھی، پھر باربرا نے سنا کہ اُس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور جارج کی آواز آئی:

’’باربرا ….. باربرا ….. کیا سو رہی ہو؟‘‘

اُس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بھلا گہری نیند میں سونے والے بھی جواب دیا کرتے ہیں۔

جارج نے ایک بار پھر نرم لہجے میں اُسے پکارا:

’’باربرا! کیا میری آواز سن رہی ہو؟‘‘

لیکن باربرا اَپنے بھائی کی آواز سنتے ہوئے بھی نہیں سن رہی تھی۔ چند ثانیے بعد اُس نے دروازہ بند ہونے کی ہلکی سی آواز سنی۔
پھر جارج کے دور ہٹتے قدموں کی آہٹ جو رفتہ رفتہ مدھم پڑتی گئی اور آخر میں بالکل معدوم۔ باربرا نے اپنے مجوزہ پروگرام کی پہلی شق پر کامیابی سے عمل درآمد کر لیا تھا۔ اب وہ محفوظ تھی۔

باربرا اَپنی عجیب و غریب کہانی سناتے ہوئے جب تھوڑی دیر کے لیے چپ ہوئی، تو ڈاکٹر فاسٹر نے کہا:

’’تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ لُوسی کون تھی؟‘‘

’’لُوسی کون تھی؟‘‘ باربرا نے زیرِ لب فاسٹر کا سوال دہرایا۔ ’’ کون تھی؟ ….. لُوہ لُوسی تھی اور کون ہوتی؟‘‘

’’بےشک وہ لُوسی تھی، مگر مَیں پوچھتا ہوں تمہارا اُس سے کیا تعلق تھا؟ کیا وہ تمہاری سہیلی تھی یا کوئی رشتےدار؟‘‘

’’ہاں، ہاں ….. وہ میری سہیلی تھی۔ سہیلی ہی کہنا چاہیے۔‘‘ باربرا نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’کیا لُوسی سے تمہارا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔

اِس جرح پر باربرا کسی قدر مشتعل ہو گئی۔‘‘
اُس نے تیز لہجے میں کہا ’’مَیں نہیں سمجھتی ایسے فضول سوالوں سے تمہارا مقصد کیا ہے؟‘‘

’’آخر کسی مقصد کے تحت ہی مَیں پوچھ رہا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے نرمی سے کہا۔
’’اگر مَیں تمہاری مدد کرنا چاہوں، تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ مجھے ہر نوع کی تفصیلات کا علم ہو۔ اِن اہم سوالوں کا جواب دینے سے تم گریز کرتی ہو، تو مجھے بھی اصرار نہیں ہے۔‘‘

باربرا کی آنکھوں میں پھیلی ہوئی درشتگی جاتی رہی۔

’’لُوسی، بہرحال میری ایسی سہیلی تھی جو خونی رشتےداروں سے بڑھ کر میری ہمدرد اَور غم گسار تھی۔‘‘

’’ہاں ….. ہاں ….. اب مَیں سمجھ گیا۔‘‘ فاسٹر نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔
کیا یہ ممکن ہے باربرا کہ لُوسی کا خارج میں کوئی وجود ہی نہ ہو ….. میرا مطلب ہے کہ لُوسی تمہاری ہی اندرونی شخصیت کا ایک نام ہو ….. شاید!‘‘

باربرا نے اِس سوال پر بَل کھا کر فاسٹر کو جواب دینے کے بجائے رینالڈس کی جانب دیکھا اور کہا:

’’کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ شخص واقعی ڈاکٹر ہے؟
مجھے تو ڈاکٹر کے بجائے بہت بڑا پاگل نظر آتا ہے….. بالکل ویسا ہی پاگل جیسے اِس عمارت کے مختلف کمروں میں تم نے قید کر رکھے ہیں۔

رینالڈس بےاختیار ہنس پڑا، لیکن اُس نے باربرا کی اِس بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ فاسٹر نے ایک لحظے بعد باربرا سے کہا:

’’دیکھو اِس میں خفا ہونے کی کوئی بات نہیں۔ تمہاری کہانی سے مَیں نے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لُوسی کا حقیقت میں کوئی خارجی وجود نہ تھا۔ اُسے تم نے اپنے لاشعور کی مدد سے تخلیق کیا …..
ہو سکتا مَیں یہ اخذ کرنے میں غلطی کر رہا ہوں۔ تاہم تمہارے لیے مناسب نہیں کہ اتنی سی بات پر ناراض ہو جاؤ۔ تم خود غور کرو گی، تو حقائق کا پتہ چل سکتا ہے۔
آخر لُوسی کو وہ رَاز کیسے معلوم ہو گیا جس کا ذکر تم نے کسی سے نہیں کیا تھا؟ لُوسی کو یہ حیرت انگیز قدرت کیونکر حاصل ہوئی کہ وہ تمہارے دلی رازوں تک سے آگاہ ہو جاتی تھی؟
وہ تمہارے خیالات مِن و عَن نہ صرف معلوم کر لیتی تھی بلکہ اُنھیں پوری تفصیل سے بیان بھی کر ڈالتی تھی۔
اِن تمام حقائق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ لُوسی تمہارے ذہن کی ایجاد ہے۔ عملی دنیا میں تم نے اپنی مدد کے لیے لُوسی کو پیدا کر لیا تھا۔‘‘

باربرا اِس مرتبہ مشتعل ہونے کے بجائے زور سے ہنس دی۔

’’بہت خوب ….. تم واقعی بڑے باکمال ڈاکٹر ہو ….. اور لاجواب ماہرِ نفسیات بھی۔‘‘ یہ کہہ کر باربرا نے نہایت بےہودگی سے رینالڈس کو آنکھ کا اشارہ کیا جو فاسٹر کی نگاہوں سے اوجھل نہ رہ سکا۔
کوئی اور ہوتا، تو طیش میں آ جاتا، مگر طیش میں آنا فاسٹر کے پیشے اور وَقار کے خلاف تھا، لہٰذا وُہ چپ بیٹھا باربرا کی صورت تکتا اور خود بھی مسکراتا رہا۔

’’لُوسی کے بارے میں مَیں اتنا اور بتا دوں کہ وہ ایک زندہ اور حقیقی کردار ہے۔‘‘ باربرا نے کہا۔

’’یعنی جسمانی طور پر بھی ایک شخصیت ہے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔

’’ہاں ….. جسمانی طور پر بھی ….. بالکل میری طرح۔‘‘

’’بہت خوب ….. اگر تم کہتی ہو، تو مَیں مانے لیتا ہوں، ورنہ میری جگہ کوئی اور ہوتا، تو شاید اُسے یہ بات ماننے میں تامل رہتا۔
بہرحال، یہ طے ہو گیا کہ لُوسی تمہارے ذہن کی تخلیق نہیں، بلکہ ایک جیتا جاگتا اِسی دنیا کا ایک حقیقی کردار ہے، ایسا کردار جسے تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اُس سے باتیں بھی کیں۔‘‘

’’صرف مَیں نے ہی لُوسی کو نہیں دیکھا، مسٹر …..‘‘ باربرا نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’میرا بھائی جارج بھی اُسے خوب جانتا ہے۔‘‘

گویا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ جارج اُس لُوسی کو جانتا ہے جس لُوسی کو تم جانتی ہو۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔

باربرا نے گہری آہ بھری۔ ’’تم ڈاکٹر لوگ بات کا بتنگڑ بنانا خوب جانتے ہو۔
گھما پھرا کر تم مجھ سے یہ کہلوانا چاہتے ہو کہ لُوسی میرے خیالات کی پیداوار ہے اور چونکہ جارج میرے خیالات سے آگاہ ہے، لہٰذا وُہ لُوسی کو بھی جانتا ہو گا۔‘‘

فاسٹر دل ہی دل میں باربرا کی ذہانت پر اش اش کرنے لگا۔ باربرا نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:

’’دنیا میں بےشمار لوگ ایسے ہیں جو ڈاکٹروں کے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے، کیا اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے سب افراد میرے اپنے ذہن کی پیداوار ہیں؟‘‘

’’نہیں، باربرا! اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو گا۔‘‘ فاسٹر نے آہستہ سے کہا۔
’’بہرکیف مجھے افسوس ہے کہ مَیں اپنی بات تمہارے ذہن تک منتقل نہیں کر سکا، الٹا تم نے مجھے قائل کر لیا۔ اگر زحمت نہ ہو، تو آگے چلو اور اَپنی انتہائی دلچسپ داستان کا باقی حصّہ سنا ڈالو۔‘‘

’’میرا خیال ہے میرے پاس مزید کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا۔‘‘ باربرا نے بےنیازی سے کہا۔

’’مَیں تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں، باربرا! کیا تم بھول گئیں؟‘‘

’’تم میری مدد نہیں کر سکتے، ڈاکٹر!‘‘ باربرا کا لہجہ تلخ تھا۔ ’’میری مدد کوئی اچھا وکیل ہی کر سکتا ہے۔‘‘

’’مَیں تمہارے لیے اچھے وکیل کا بھی بندوبست کروں گا، بشرطیکہ تم مجھے قائل کر سکو کہ تمہیں ڈاکٹر نہیں، وکیل ہی کی ضرورت ہے۔‘‘

باربرا نے فاسٹر کے چہرے پر نگاہیں جما دیں جیسے وہ اُس کے خیالات پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ آخر اُس نے کہا:

’’مَیں آگے تب چلوں گی جب تم لُوسی کے بارے میں طے کر لو کہ وہ فرضی کردار نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی شخصیت ہے۔‘‘

’’چلو مَیں مانے لیتا ہوں کہ لُوسی ایک فرضی کردار نہیں ہے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔

’’ہاں اب تم ڈاکٹروں والی بات کر رہے ہو۔‘‘ باربرا ہنسی اور اُس نے کہانی کا بقیہ حصّہ بیان کرنا شروع کیا۔

اُسی روز سہ پہر کے وقت باربرا نے فون کی گھنٹی کی آواز دوبارہ سنی۔
وہ بستر میں سے نکلی اور دَبے پاؤں چل کر بیرونی گیلری کی سیڑھیوں تک پہنچ گئی۔ وہاں لکڑی کے بنے ہوئے جنگلے کے نیچے دبک کر اُس نے ہال کمرے میں دیکھا۔ جارج نے آن کر ریسیور اُٹھایا اور کان سے لگا لیا۔

’’ہاں ….. مس ہگنز ….. مَیں جارج ہی بول رہا ہوں۔‘‘
باربرا نے جارج کی آواز سنی۔ ’’کیا کہا تم نے؟ اسپتال سے کسی نے فون نہیں کیا تھا۔
اچھا، تمہاری ماں گھر پر موجود ہے۔ اُس کا کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ عجیب بات ہے ….. یہ بےہودہ مذاق آخر کون کر سکتا ہے؟ خیر، خیر ….. تم کتنی دیر میں گھر واپس آ رہی ہو؟ ….. نہیں آ سکو گی ….. مگر کیوں؟
بھئی، یہ تو سوچو باربرا کو کون دیکھے بھالے گا۔ مجھے اُس کی طرف سے قطعی اطمینان نہیں ہے۔
دیکھو مس ہگنز! تمہارا وَاپس آنا بےحد ضروری ہے۔ خواہ رَات کو کسی بھی وقت آؤ، لیکن آ ضرور جانا …..
مَیں باربرا کو گھر میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ تم میری بات سمجھ رہی ہو نا؟ رات کو گیارہ بجے کے لگ بھگ آخری ریل اُدھر سے روانہ ہوتی ہے۔
تم اُس کے ذریعے آسانی سے یہاں پہنچ سکتی ہو ….. اچھا ایسا کرو کہ کسی ٹیکسی پر آ جاؤ، جتنا کرایہ بنے گا، مَیں دے دوں گا۔‘‘

باربرا کا دل بیٹھنے لگا۔ اُسے یہ جان کر خوشی ہو رہی تھی کہ نرس واپس نہیں آ رہی تھی۔
اِس عرصے میں وہ کچھ پروگرام بناتی، لیکن جارج جس انداز میں اُسے واپس آنے پر زور دَے رہا تھا، وہ اَنداز باربرا کے لیے سخت تکلیف دہ تھا۔ اُس نے جارج کو فون پر یہ کہتے سنا:

’’ٹھیک ہے ….. مَیں تمہارا اِنتظار کر رہا ہوں، مس ہگنز!‘‘

اور یہ کہہ کر اُس نے فون بند کر دیا اور مڑ کر سیڑھیوں کی طرف دیکھا جیسے اُسے شک ہو کہ باربرا وَہاں کھڑی تو نہیں ہے۔
وہ پلک جھپکتے ہی پیچھے ہٹ گئی تھی۔ ویسے بھی اگر وہ نہ ہٹتی، تو جارج اُسے دیکھ نہیں سکتا تھا۔ باربرا کو یہ بھی پتہ تھا کہ جارج اُسے دیکھنے پھر آئے گا۔
لہٰذا وُہ کمرے میں گئی اور بستر پر لیٹ کر کمبل اوڑھ لیا۔ چند منٹ تک وہ دَم سادھے نیچے سے آنے والی قدموں کی آہٹ سننے کی کوشش کرتی رہی، مگر جارج اوپر نہ آیا۔

باربرا کو اِس ذہنی مشقت نے سخت تھکا دیا تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے وہ لُوسی کے بارے میں سوچنے لگی۔ لُوسی کا آنا ایک طرح سے اچھا ہی ہوا …..
لُوسی بہت سمجھ دار اَور چالاک ہے۔ اُسے خوب معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کیا کرنا چاہیے۔ وہ بڑے مضبوط اعصاب کی مالک ہے، اگر لُوسی نہ آتی، تو باربرا تنہا کیا کر سکتی تھی؟

باربرا آنکھیں بند کیے اِنہی خیالات میں گم تھی کہ کسی نے آہستہ سے اُس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ ایک جھٹکے سے اُس نے آنکھیں کھول دیں۔

غسل خانے کا دروازہ کھلا تھا اور اَندر ایک بلب جل رہا تھا۔ روشنی کی کرنیں غسل خانے سے نکل کر باربرا کے بستر تک ایک لکیر بن کر آ رہی تھیں۔

اُس نے دو تین مرتبہ پلکیں جھپکیں اور دَیکھا کہ لُوسی غسل خانے کے دروازے پر کھڑی مسکرا رَہی ہے۔

’’اُٹھ جاؤ، باربرا ….. بہت سو چکیں۔‘‘ لُوسی نے باربرا کے قریب آتے ہوئے کہا۔
’’جب مَیں آئی، تو تم گہری نیند سو رہی تھیں۔ مَیں نے تمہیں جگانا مناسب نہ سمجھا، مگر وقت تنگ ہونے لگا، تو مجبوراً تمہیں جگانا پڑا۔ تمہارا بازو دَبا کر مَیں ذرا غسل خانے میں آ گئی تھی …..‘‘

’’لیکن، مجھے تو سخت نیند آ رہی ہے ….. تھوڑی دیر اور سو لینے دو۔‘‘
باربرا نے التجا کی، مگر لُوسی نے نفی میں گردن ہلا کر کہا:

’’اب سونے کا وقت نہیں، باربرا ….. جاگنے کا وقت ہے، اگر تم اِس وقت نہ جاگیں، تو پھر ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سوتی رہو گی۔ اِس لیے اٹھ جاؤ، اچھی بچی۔
اٹھ کر لباس تبدیل کرو اَور چلنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘

باربرا اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ نیند سے اُس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں اور آپ ہی آپ بند ہوئی جا رہی تھیں۔

لُوسی نے ذرا اُونچی آواز میں کہا:

’’اب اٹھتی ہو یا مجھے کوئی اور اِنتظام کرنا پڑے گا؟‘‘

باربرا نے ہونٹوں پر اُنگلی رکھ کر لُوسی کو خبردار کر دیا۔ ’’شش، شش، ذرا آہستہ بولو۔ وہ تمہاری آواز سن لے گا۔‘‘

’’کون سن لے گا، جارج؟‘‘ لُوسی نے قہقہہ لگایا۔
’’اُس کی فکر نہ کرو۔ وہ میری نہیں سن سکتا، اِس لیے کہ مَیں نے اُسے وہی دوا چائے میں گھول کر پلا دی ہے جو مس ہگنز تمہیں پلانے والی تھی ….. ہاہاہا ….. ج
ارج نے اپنے لیے چائے بنا کر رکھی تھی کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ وہ فون سننے ہال میں گیا اور اُدھر مَیں نے اُس کی پیالی میں دوا حل کر دی۔
اب اِس وقت وہ بےہوش پڑا ہے اور کوئی بھی شور اُسے بیدار نہیں کر سکتا۔‘‘

باربرا سُن ہو گئی۔ دیر تک اُس کی زبان سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ اُسے لُوسی سے اتنی مستعدی اور ہوشیاری کی ہرگز امید نہ تھی۔

’’کیا تمہیں پورا یقین ہے کہ جارج سویا رہے گا؟‘‘ باربرا نے پوچھا۔

’’وہ کئی گھنٹے تک اُٹھ نہیں سکتا۔‘‘لُوسی نے کہا۔
پھر اُس نے باربرا کو کار کی چابی دکھائی۔ ’’یہ مَیں نے جارج کی جیب سے نکالی ہے اور اُسے پتہ بھی نہ چلا۔‘‘

باربرا کے بدن میں خون تیزی سے گردش کرنے لگا۔ وہ بستر سے نکل کر باتھ روم کی طرف جانے لگی۔

’’لُوسی! یہ تو بتاؤ کہ مس ہگنز کے لیے تم نے کیا انتظام کیا ہے۔‘‘

’’ہمیں ہگنز کی کیا پروا؟‘‘ لُوسی نے پھر قہقہہ لگایا۔
’’جب تک وہ یہاں پہنچے گی، ہم کوسوں میلوں دور نکل چکی ہوں گی۔ اب تم جلدی سے کپڑے تبدیل کر لو۔‘‘

باربرا غسل خانے میں داخل ہو گئی اور دَروازہ اَندر سے بند کر لیا۔ پھر اُس نے لکڑی کی الماری میں بنی ہوئی دوسری دراز کھولی۔
یہ دیکھ کر اُس کے حواس جاتے رہے کہ جس بوتل میں نیلے کیسپول بھرے تھے، وہ دَراز میں نہیں ہے۔ اُس نے بےتابانہ دراز کی تمام چیزیں دیکھ ڈالیں …..
بوتل نہیں ملی۔ کھڑبڑ کی آواز لُوسی تک پہنچ گئی تھی ….. فوراً ہی غسل خانے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ باربرا نے دروازہ کھولا۔ لُوسی نے کہا:

’’کیا بات ہے پیاری؟ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘

’’کچھ نہیں ….. کچھ نہیں۔‘‘ باربرا نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’یونہی ذرا چکر سا آ گیا تھا۔‘‘

’’اِس نازک موقع پر یہ چکر سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔‘‘ لُوسی نے تشویش آمیز لہجے میں کہا۔

’’تم پریشان مت ہو لُوسی ….. مَیں اب ٹھیک ہو جاؤں گی۔‘‘ باربرا نے جلدی سے اُسے یقین دلایا۔
’’ایسے موقعوں پر مَیں گھبراہٹ کا شکار ہو جایا کرتی ہوں۔
میرے اعصاب زیادہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے ….. مجھے خود کو پُرسکون رکھنا چاہیے، مگر ….. اِس کے لیے …..‘‘

لُوسی نے تیسری مرتبہ قہقہہ لگایا۔ ’’تمہارے برعکس میرے اعصاب بہت مضبوط ہیں اور جب تک ہنگامہ نہ ہو، مجھے مزہ ہی نہیں آتا۔‘‘

باربرا نے ایک بار دَراز میں ہاتھ ڈال کر کیپسولوں کی بوتل ٹٹولی، لیکن اِس مرتبہ اُس کے ہاتھ میں ایک لمبی سی قینچی آ گئی۔ لُوسی نے قینچی دیکھ لی اور باربرا سے کہا:

’’مجھے اِس چیز کی تلاش تھی۔ خوب ہوا کہ تم نے یہ مشکل آسان کر دی۔ لاؤ، یہ قینچی میرے حوالے کر دو۔‘‘

باربرا حیرت زدہ ہو کر لُوسی کی شکل تکنے لگی۔ ’’آخر اِس قینچی کا تم کیا کرو گی؟‘‘

لُوسی نے باربرا کے ہاتھ سے قینچی چھین لی اور اُسے کئی مرتبہ چلا کر دیکھا۔ بالکل نئی قینچی تھی اور اُس کے دونوں بلیڈ خاصے تیز دھار تھے۔

’’مَیں اِس کے ذریعے ٹیلی فون کے تار کاٹوں گی۔‘‘ لُوسی نے باربرا کو بتایا۔
’’یہ کام بہت ضروری ہے، ورنہ تمہارے غائب ہو جانے کے بعد جارج اور مس ہگنز ٹیلی فون کے ذریعے اُدھم مچا دیں گے۔ یہ دونوں نہ جانے کہاں کہاں فون کریں گے اور ہمارے لیے پریشانیاں پیدا کر دیں گے۔‘‘

’’ہاں! یہ بات تو تم نے دور کی سوچی۔‘‘ باربرا نے کہا۔
’’تار اِس طرح کاٹنا کہ آسانی سے جوڑے نہ جا سکیں۔‘‘

’’تم فکر نہ کرو، مَیں اب ہال میں جا رہی ہوں …..
اتنی دیر میں تم کپڑے تبدیل کر لو ….. مَیں تھوڑی دیر میں واپس آتی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ غسل خانے سے باہر چلی گئی۔
پھر باربرا نے دیکھا کہ لُوسی نے کمرے کا دروازہ کھولا، گیلری میں جھانکا اور نیچے اتر گئی۔

لُوسی کے جاتے ہی باربرا دِیوانہ وار نیلے کیپسولوں کی بوتل ڈھونڈنے لگی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شیشی گئی کدھر۔
اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ دو کیپسول کھانے کے بعد اُس نے بوتل دوبارہ وَہیں رکھ دی تھی ….. مگر ….. اب وہ وَہاں نہ تھی۔ اُس نے ذہن پر زور دِیا …..
ہو سکتا ہے اُس نے بوتل دراز میں رکھنے کے بجائے کہیں اور رَکھ دی ہو۔ یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا۔ وہ غسل خانے سے نکل کر بستر تک گئی اور کمبل اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
پھر اُس نے تکیہ اٹھایا اور یہ دیکھ کر اُس کی آنکھیں بےپناہ مسرّت سے چمک اٹھیں کہ بوتل تکیے کے نیچے رکھی تھی۔

قطعی غیرارادی طور پر باربرا نے بوتل کا ڈھکنا کھولا اور تیسرا کیپسول اپنی بائیں ہتھیلی پر الٹ لیا۔
ظاہر ہے تیسرا کیپسول کھانا اُس کے لیے لازمی ہو گیا تھا، ورنہ وہ لُوسی کے ساتھ گھر سے فرار نہیں ہو سکے گی۔ اعصاب پُرسکون رکھنے کے لیے تیسرا کیپسول تو کھانا ہی پڑے گا …..
اِس کے بعد وہ مرتے دم تک اِن کیپسولوں کے قریب بھی نہ پھٹکے گی۔

باربرا کے ہاتھ بری طرح لرز رہے تھے۔ تاہم جُوں تُوں کر کے اُس نے بوتل کا ڈھکنا بند کیا اور وَاپس غسل خانے کی طرف گئی۔ اِس مرتبہ وہ پانی کے بغیر کیپسول اپنے حلق سے نیچے نہیں اتار سکتی تھی۔
مارے پیاس کے اُس کا تالو چٹخ رہا تھا اور زبان خشک ہو رہی تھی۔
پانی کا گلاس دائیں ہاتھ میں تھام کر اُس نے نیلا کیپسول منہ میں رکھنے کے لیے بایاں ہاتھ اٹھایا، لیکن ہاتھ اِس بری طرح کانپا کہ کیپسول مٹھی میں سے نکل کر غسل خانے کے بیسن میں جا گرا اَور دَیکھتے ہی دیکھتے گُھل گیا۔

وہ پتھرائی ہوئی نظروں سے اُسے پانی میں گھلتے دیکھتی رہی۔ وقت گزر رَہا تھا۔ لُوسی کسی بھی لمحے وہاں آ سکتی تھی۔
باربرا میں اب اتنی ہمت نہ تھی کہ چوتھا کیپسول نکال سکتی۔ دفعتاً اُس کے کانوں میں ایسی آواز آئی جیسے لُوسی سیڑھیاں چڑھ رہی ہو۔ باربرا نے جھٹ الماری کی دراز کھولی اور بوتل اُس میں رکھ دی۔
اِس کے بعد وہ لرزتی کانپتی ٹانگوں سے اپنے کمرے میں گئی اور کھونٹی پر ٹنگے ہوئے کپڑے اتارنے لگی۔ کپڑے بدلنے اور جوتا پہننے میں اُسے پندرہ منٹ لگے کہ بدن اُس کے قابو ہی میں نہ تھا۔
اُسے حیرت ہو رَہی تھی کہ جو آواز اُس نے سنی تھی، وہ کیسی تھی۔ لُوسی ابھی تک نمودار نہیں ہوئی تھی اور باربرا کے خون کا دباؤ آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا تھا۔
لُوسی کہاں گم ہو گئی؟ وہ اَب تک ہال کمرے میں کیا کر رہی ہے؟ ٹیلی فون کے تار کاٹنے میں اتنی دیر تو نہیں لگنی چاہیے۔

یکایک ایک نئے خیال کے زیرِ اثر، باربرا کی چلتی ہوئی نبضیں رک گئیں۔ خدا کی پناہ، کہیں ایسا تو نہیں کہ جارج نے بیدار ہو کر لُوسی کو پکڑ لیا ہو۔

یہ خیال ایسا روح فرسا تھا کہ باربرا تقریباً نیم بےہوش ہو کر بستر پر گر پڑی۔ اُس کا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔

کاش! وہ اَپنی اِس ابتر حالت پر قابو پانے کے لیے کسی طرح ایک اور کیپسول نگل سکتی۔ لیکن غسل خانے تک جانا اور اَلماری کھول کر بوتل میں سے کیپسول نکالنا، اُسے پہاڑ کاٹنے کے برابر محسوس ہو رہا تھا۔

کچھ دیر ہانپنے کے بعد وہ بستر سے اٹھی اور لڑکھڑاتی ہوئی کمرے سے باہر نکل کر بیرونی گیلری تک آئی۔ ہال کمرا سنسان پڑا تھا۔ باربرا نے اوپر ہی سے اِدھر اُدھر جھانک کر دیکھا۔
لُوسی کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ سارے مکان پر ایک ہولناک سناٹا طاری تھا اور اِس سناٹے میں باربرا کو اَپنے دل کے دھڑکنے کی آواز تک صاف سنائی دے رہی تھی۔
وہ دَس پندرہ منٹ وہیں بےحس و حرکت کھڑی رہی۔ کوئی مانوس آواز سننے کے لیے اُس کے کان مضطرب تھے، لیکن کہیں سے کوئی آواز نہ آئی۔
یوں لگتا تھا جیسے صدیوں سے یہ مکان خالی پڑا ہے اور یہاں کبھی کوئی ذی روح نہیں آیا۔ اُس نے محسوس کیا کہ اگر وہ کچھ دیر اور اِسی کیفیت میں مبتلا رہی، تو اُس کا دم نکل جائے گا، لیکن ابھی وہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔

اور زِندہ رَہنے کا فی الحال ایک ہی طریقہ اُسے معلوم تھا ….. یہ کہ ایک نیلا کیپسول اور کھا لیا جائے۔

لُوسی کی طرف سے مایوس ہو کر وہ وَاپس کمرے میں آئی اور غسل خانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔ اِس مرتبہ وہ پختہ عزم لے کر آئی تھی کہ چوتھا کیپسول بوتل سے نکال کر کھا لے گی، چنانچہ اُس نے دراز کھولی، ہتھیلی پر کیپسول رکھا اور پھر آنکھیں بند کر کے اُسے حلق میں ڈال لیا۔
پانی کے بغیر کیپسول نگلنے میں اُسے دقت ہوئی، لیکن یہ دقت وہ جھیل گئی۔ ایک ثانیے کے بعد اُس کی ابتر حالت میں عظیم تغیر رونما ہوا۔
ہاتھوں اور پیروں کی کپکپی جاتی رہی اور ذہن سے وہ تمام خدشے اور وَسوسے خارج ہو گئے جو تھوڑی دیر پہلے اُسے حواس باختہ کیے ہوئے تھے۔

اُس نے بےاختیار پلاسٹک کی بوتل دونوں ہاتھوں سے تھامی اور اُسے چوم لیا۔

’’یہ کیا کر رہی ہو تم؟‘‘ معاً اُس نے اپنے عقب میں لُوسی کی کرخت آواز سنی۔ باربرا پتھر بن گئی۔ اُس نے سامنے لگے ہوئے آئینے میں لُوسی کا عکس دیکھا۔

’’میرا خیال تھا تم یہ بےہودہ کیپسول کھانا چھوڑ چکی ہو گی، بلکہ تم نے خود ہی مجھے بتایا تھا کہ اب تم یہ کیپسول نہیں کھاتیں۔‘‘ لُوسی نے ناراض ہو کر کہا۔

’’بس ….. ایک کیپسول کھایا ہے مَیں نے ….. اور وُہ بھی مدتوں بعد۔‘‘ باربرا گڑگڑائی۔
’’اُس وقت میرے اعصاب قابو میں نہ تھے، اِس لیے مجبوراً …..‘‘

لُوسی نے غیظ آلود نظروں سے باربرا کو گھورتے ہوئے پلاسٹک کی بوتل اُس کے ہاتھوں سے چھیننا چاہی۔

’’اِدھر لاؤ۔ یہ بوتل مجھے دے دو۔‘‘

باربرا نے بوتل سینے سے لگا لی اور اُس پر گرفت زیادہ مضبوط کر دی۔ ’’لُوسی! یہ کیا حرکت ہے۔ اِس بوتل کی مجھے اشد ضرورت ہے …..
بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ تم خواہ مخواہ ذرا سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتی ہو …..
کیا غضب ہو گیا۔ اگر مَیں نے ایک کیپسول کھا لیا۔ بہرحال مَیں وعدہ کرتی ہوں کہ اب کئی دن تک دوسرا کیپسول نہ کھاؤں گی۔‘‘

’’تم ایسا وعدہ پہلے بھی کر چکی ہو، لیکن ہمیشہ اِس کے خلاف ہی کیا۔ اِدھر لاؤ بوتل میرے حوالے کر دو۔‘‘ لُوسی نے گرج کر کہا اور اُس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکلنے لگے۔
باربرا نے لُوسی کو غیظ و غضب کے اِس عالم میں کبھی نہیں دیکھا تھا، مگر وہ کسی قیمت پر بھی کیپسولوں سے بھری بوتل اُس کے حوالے نہیں کر سکتی تھی۔

’’نہیں ….. یہ بوتل مَیں ہرگز نہ دوں گی۔‘‘ باربرا وَحشیانہ انداز میں چیخی۔
’’پرے ہٹ جاؤ، لُوسی ….. پرے ہٹ جاؤ۔‘‘
اب اُس کا پورا بدن خشک پتے کی طرح کاپننے لگا تھا۔ ’’دیکھو، تم نے اپنی اِس حرکت سے کیپسول کا سارا اَثر زائل کر دیا۔ اب مجھے ایک اور کھانا پڑے گا۔‘‘

مگر لُوسی پر جنون کی سی کیفیت طاری تھی۔ اُس کا چہرہ آگ کی مانند دہک رہا تھا اور وُہ باربرا سے بھی دگنی آواز میں چلّائی:

’’مَیں کہتی ہوں بوتل مجھے دے دو ….. ورنہ تمہارے حق میں اچھا نہ ہو گا۔ اپنے آپ کو تباہ کرنے کی اجازت مَیں تمہیں ہرگز نہ دوں گی۔‘‘

اور یہ کہتے ہوئے لُوسی کسی درندے کی طرح جھپٹی اور باربرا کی گردن دونوں ہاتھوں میں جکڑ لی۔
باربرا کی آنکھیں حلقوں سے باہر آنے لگیں۔
وہ بےجان سی ہو کر دھڑام سے غسل خانے کے فرش پر گر گئی ….. کیپسولوں کی بوتل اب لُوسی کے قبضے میں تھی۔

باربرا کی آنکھیں کھلی تھیں اور جسم قطعی بےحس و حرکت۔ ایک لمحے کے لیے لُوسی کو شُبہ ہوا کہ وہ مر چکی ہے۔ اُس نے اپنا ہاتھ باربرا کے سینے پر کھا۔
دل دھڑک رہا تھا، لیکن دھڑکن کی رفتار بےحد سُست تھی۔ لُوسی نے جلدی سی بوتل کھولی اور ایک کیپسول نکال کر اُس کے منہ میں ڈال دیا۔

باربرا نے کیپسول نگل لیا اور پانچ سیکنڈ بعد ہی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ لُوسی نے غرّا کر کہا:

’’مرتی ہو، تو مر جاؤ ….. مَیں جا رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے جانے کے لیے غسل خانے سے قدم باہر نکالا۔

باربرا تڑپ گئی اور تھرّائی ہوئی آواز میں بولی ’’لُوسی! خدا کے لیے مجھے تنہا چھوڑ کر مت جاؤ ….. تم جو کہو گی، مَیں مانوں گی۔‘‘

لُوسی نے باربرا کے چہرے پر بوتل دے ماری۔ اُس کا ڈھکنا پہلے ہی ڈھیلا تھا۔ تمام کیپسول غسل خانے کے گیلے فرش پر بکھر گئے۔

’’لُوسی! مت جاؤ ….. لُوسی۔‘‘ باربرا دوبارہ چلّائی، لیکن وہ جا چکی تھی۔
باربرا نے کمرے کا دروازہ زور سے کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ وہ کھڑی ہوئی اور بھاگ کر دروازے تک گئی۔ ’’لُوسی، واپس آ جاؤ ….. مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘
باربرا تیزی سے سیڑھیاں اتر کر ہال میں پہنچی۔ وہ مسلسل چیخ رہی تھی۔

’’لُوسی ….. کہاں ہو تم؟ دیکھو، مَیں آخری بار وَعدہ کرتی ہوں کہ اب کیپسول نہیں کھاؤں گی ….. مجھے تنہا مت چھوڑو۔‘‘

باربرا کی فریاد کا لُوسی نے کوئی جواب نہ دیا۔
مکان کے باہر کار کے انجن کی آواز آئی۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ لُوسی، جارج کی کار میں جا رہی ہے۔ باربرا پاگلوں کی طرح باہر دوڑی۔

’’مت جاؤ، لُوسی ….. میری بات تو سنو ….. لُوسی!‘‘ لیکن جب وہ مکان سے باہر نکلی، تو اُس نے دیکھا کہ کار بیرونی گیٹ سے آگے جا چکی تھی۔
باربرا وَہیں بیٹھ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لان میں اندھیرا تھا جو لحظہ بہ لحظہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ نہ جانے کتنی دیر وہاں بیٹھی آنسو بہاتی رہی۔
آخر تھکے تھکے قدموں سے واپس آئی۔ دفعتاً اُس نے اپنے عقب میں قدموں کی آہٹ سنی۔ اُس نے مڑ کر دیکھا۔ ہال کمرے کے دروازے پر ایک انسانی سایہ حرکت کر رہا تھا۔
باربرا خوش ہو گئی۔ شاید لُوسی واپس آ رہی تھی۔ وہ اُس کے استقبال کے لیے دوڑی ….. مگر ٹھٹک گئی ….. وہ لُوسی نہیں تھی ….. وہ تو …..

’’مس باربرا! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘ مس ہگنز کی آواز اُس کے سر پر ہتھوڑا بن کر لگی۔

’’مجھے باہر جانے دو ….. مجھے جانے دو …..‘‘ باربرا چیخی۔

’’لیکن کیوں؟ ….. کس لیے؟ رات کے اِس وقت بھلا کون باہر جاتا ہے؟‘‘

’’مَیں لُوسی کے پاس جا رہی ہوں ….. وہ مجھ سے روٹھ کر چلی گئی ہے۔‘‘

’’ کون لُوسی؟‘‘

مس ہگنز پرے ہٹ جاؤ ….. مجھے جانے دو ….. فضول جرح میں وقت ضائع نہ کرو۔
لُوسی ابھی زیادہ دُور نہیں گئی ہو گی۔ وہ اَبھی ابھی جارج کی کار لے کر گئی ہے۔‘‘

باربرا نے نرس کو دھکا دے کر دروازے سے باہر جانا چاہا، مگر مس ہگنز نے سختی سے اُس کا بازو تھام لیا۔

’’ہوش میں آؤ باربرا ….. وہ تمہارے بھائی کی کار نہیں تھی …..
یہ تو وہ ٹیکسی تھی جس میں ابھی مَیں واپس آ رہی ہوں۔ باہر کوئی نہیں ہے۔ چلو اوپر چلو۔‘‘

’’آہ ….. تو پھر لُوسی نہیں گئی ….. وہ یہیں موجود ہے اور خواہ مخواہ مجھے تنگ کر رہی ہے۔‘‘ باربرا نے اطمینان کا سانس لیا اور زور سے آواز دی۔

’’لُوسی ….. لُوسی! کہاں چھپی ہوئی ہو؟ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کہیں نہیں گئیں ….. اب آ جاؤ۔‘‘

’’تمہارا بھائی جارج کہاں ہے، باربرا؟‘‘ ہگنز نے پوچھا۔

باربرا ہکا بکا رہ گئی۔ اُسے مس ہگنز کی آواز کسی اندھے کنوئیں میں سے آتی محسوس ہوئی۔

’’جارج ….. جارج ….. ہاں، تم جارج کے بارے میں پوچھ رہی ہو نا؟ مجھے خبر نہیں وہ کہاں ہے ….. ممکن ہے اپنے کمرے میں ہو۔
لُوسی ….. کدھر ہو تم؟ جواب کیوں نہیں دیتیں؟ اب یہ مذاق بند کرو اَور سامنے آ جاؤ۔‘‘
یہ کہہ کر باربرا نے سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں۔ وہ مسلسل لُوسی کو پکار رَہی تھی۔

’’میرا خیال ہے یہ تمہاری سہیلی ….. لُوسی ….. ضرور جارج کے کمرے میں ہو گی۔‘‘
مس ہگنز کی تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔ ’’آؤ، دیکھیں۔‘‘

’’جارج گہری نیند سو رہا ہے۔‘‘ باربرا نے کہا۔ ’’وہ اِتنی آسانی سے نہیں اٹھ سکتا۔‘‘

’’گہری نیند سو رہا ہے؟ لیکن …..‘‘ مس ہگنز نے کہا۔

باربرا نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا:

’’ہاں، ہاں! وہ اَب اٹھ نہیں سکتا۔ اُسے سونے دو۔ لُوسی نے اُسے خواب آور دَوا دَے دی ہے۔‘‘

’’خواب آور دَوا؟‘‘ مس ہگنز کی آواز ہچکولے کھانے لگی۔ ’’یہ کیا کہہ رہی ہو، باربرا؟ اور یہ لُوسی کون ہے؟ کوئی ڈاکٹر ہے کیا؟‘‘

’’لُوسی ….. کہاں ہو تم؟‘‘ باربرا ہسٹیریائی انداز میں چیخ رہی تھی۔
مس ہگنز نے ابھی تک اُس کا بازو اَپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑ رکھا تھا۔

’’آؤ ….. جارج کو دیکھیں۔‘‘ اُس نے باربرا کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔

’’جہنم میں گیا جارج!‘‘ باربرا تلملائی۔
’’مجھے لُوسی کی ضرورت ہے ….. مجھے چھوڑ دو ….. مَیں اُسے ڈھونڈنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’چپ رہو ….. خاموش!‘‘ مس ہگنز نے باربرا کو بری طرح جھنجوڑ ڈالا۔
’’اب اگر تم نے آواز نکالی، تو گلا گھونٹ دوں گی۔‘‘

وہ سہم گئی۔ مس ہگنز اُسے دھکیلتی ہوئی جارج کے کمرے کی طرف لے جا رہی تھی۔ اُنھوں نے دیکھا کہ جارج کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے۔

میز پر ٹیبل لیمپ روشن ہے اور قریب ہی جارج کرسی پر بیٹھا گردن جھکائے گہری نیند سو رہا ہے۔ اُس کا دایاں ہاتھ نیچے لٹکا ہوا تھا۔

’’جارج کو مت جگانا۔‘‘ باربرا نے آہستہ سے کہا۔

’’اُس وقت تک نہ جگانا جب تک مَیں لُوسی کو نہ ڈھونڈ لوں۔‘‘

یکایک مس ہگنز کی بھیانک چیخوں سے مکان کی فضا لرز اٹھی۔ اُس نے دیکھا کہ جارج کی گردن میں لمبی نئی قینچی کے دونوں بلیڈ پیوست ہیں۔
خون کی دھار اُس کے کپڑوں کو سرخ کرتی ہوئی فرش پر گر رہی ہے۔ اُس نے جارج کے لٹکے ہوئے بازو کی نبض ٹٹولی۔ نبض ساکت تھی۔

جارج میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہ تھی۔ وہ مر چکا تھا، مگر اُس کا جسم ابھی تک گرم تھا۔

باربرا حیرت اور خوف کی مِلی جُلی نظروں سے ہگنز کو تَک رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مس ہگنز کس بات پر چیخ رہی ہے ۔
جب اُس کی چیخیں حد سے بڑھ گئیں، تب باربرا نے آگے بڑھ کر اُس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’چپ ہو جاؤ نرس! تم دیکھتی نہیں میرا بھائی گہری نیند میں ہے۔ اِن بےہنگم چیخوں سے اُس کی آنکھ کھل جائے گی۔‘‘

لیکن مس ہگنز نے اُس کی آواز نہیں سنی اور اَپنے منہ پر سے زبردستی اُس کا ہاتھ ہٹا دیا۔ اُس کا چہرہ دَہشت سے سفید تھا۔ پھر اُس نے باربرا کو جارج کی طرف دھکیل دیا۔

’’دیکھو …..خوب غور سے دیکھو۔‘‘ مس ہگنز حلق پھاڑ کر چلّائی۔
’’اِسے کسی نے موت کے گھاٹ اتار دِیا ہے۔ مار ڈالا ہے۔‘‘

اور پھر باربرا نے پہلی بار دَیکھا کہ جارج واقعی مر چکا ہے۔ اُس کی گردن میں لمبی، چمک دار ….. قینچی کے دونوں بلیڈ پوری طرح گھونپ دیے گئے تھے اور ننھے ننھے دونوں سوراخوں سے خون ابھی تک رس رہا تھا۔
جارج کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں …..
جیسے اُسے اپنے قاتل کو دیکھ کر خوف کے بجائے تعجب ہوا ہو۔ اُس کی آنکھوں میں عجب بےبسی تھی ….. جیسے جارج نے اپنے بچاؤ کے لیے کوئی حرکت نہ کی ہو۔
وہ نہایت خاموشی سے موت کے گھاٹ اتر گیا تھا۔ اُس نے غالباً کوئی مزاحمت بھی نہ کی تھی یا وہ کسی قسم کی مدافعت کے قابل ہی نہ تھا۔

ایک بار پھر مکان کی فضا ہولناک نسوانی چیخوں سے گونج اٹھی، مگر اِس مرتبہ یہ چیخیں مس ہگنز کے حلق سے نکلنے کے بجائے باربرا کے حلق سے برآمد ہوئی تھیں، لیکن وہ زیادہ دَیر نہیں چیخ سکی ….. اب وہ چیخ تو رہی تھی، مگر آواز نہیں نکل رہی تھی۔
یوں لگتا تھا جیسے کسی نادیدہ طاقت نے اُسے آواز سے ہمیشہ کے لیے محروم کر دیا ہو۔ خود باربرا کو بھی یہ احساس تھا کہ اُس کی چیخیں بےآواز ہیں، تاہم وہ اُن چیخوں پر قابو نہ پا سکتی تھی۔

کاش! اُس لمحے آئینے میں اپنا چہرہ دَیکھ سکتی۔ دفعتاً وہ خاموش ہو گئی ….. اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے مس ہگنز کو تکنے لگی جو اَپنے حواس میں نہ تھی اور بار بار پولیس کو پکار رَہی تھی۔

’’مجھے پولیس کو اطلاع دینی چاہیے۔‘‘ اُس نے اپنے آپ سے کہا۔
’’پولیس …..‘‘ اور یہ کہتے ہوئے وہ جارج کے کمرے سے باہر نکل گئی۔ عین اُسی لمحے باربرا نے اپنے عقب میں ایک نسوانی قہقہے کی آواز سنی۔
اُس نے پلٹ کر دیکھا اور خوف سے اُس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ آتش دان کے اوپر لگے ہوئے ایک بڑے آئینے میں اُسے لُوسی دکھائی دی۔ باربرا کو اَپنی طرف متوجہ پا کر اُس نے کھنکتی آواز میں کہا:

’’تم اتنی خوف زدہ کیوں ہو؟ حالانکہ تم بخوبی جانتی ہو کہ مَیں تمہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔‘‘

باربرا نے لُوسی کو جواب دینا چاہا، لیکن کوشش کے باوجود اُس کی زبان نہ کھل سکی۔ تب اُس نے انگلی کا اشارہ جارج کی طرف کیا۔

لُوسی نے دوسرا قہقہہ لگایا جو خاصا وحشیانہ تھا۔ اُس کے سفید سفید دانت بجلی کی طرح چمک رہے تھے۔

’’ہاں مَیں نے دیکھا لیا ہے، باربرا! جارج قتل ہو چکا ہے۔ اُسے مَیں نے قتل کیا ہے …..
محض تمہاری خاطر ….. صرف اِس لیے کہ تم جارج کے پھندے سے آزاد ہو سکو۔ اب تم کس لیے خوف زدہ ہو، باربرا؟ کیا تمہیں جارج کا قتل ہونا پسند نہیں آیا؟
اگر یہ بات ہے، تو تمہاری حماقت میں کوئی شبہ نہیں ….. جو کام مَیں نے تمہارے لیے کیا ہے، وہ تمہیں خود کرنا چاہیے تھا، باربرا ….. لیکن تم نہ کر سکیں۔
اِس لیے کہ تم میں ایسے کاموں کے لیے جرأت اور حوصلے کی کمی ہے۔‘‘

باربرا نے دوبارہ بولنا چاہا، مگر اِس مرتبہ بھی اُس کے حلق سے آواز نہ نکلی۔ پھر اُس کے کانوں میں مس ہگنز کی آواز آئی:

’’ٹیلی فون کی لائن تو کٹی ہوئی ہے ….. باربرا ….. کیا تمہیں احساس نہیں کہ تم نے کیا کر دیا ہے؟ خدا رَحم کرے!‘‘

باربرا نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ اُس نے جارج کو قتل نہیں کیا، بلکہ یہ کام لُوسی کا ہے، مگر نرس نے اُس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا۔
وہ مسلسل کہتی رہی کہ تمہیں اپنے بھائی کے خون سے ہاتھ نہیں رنگنے چاہئیں تھے۔ باربرا نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ سارا مکان اُسے گھومتا ہوا دِکھائی دیتا تھا۔
مس ہگنز نے اُسے ایک کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا:

’’دیکھو، باربرا، یہاں بیٹھ جاؤ ….. مَیں گھر سے باہر جا رہی ہوں …..
پاس پڑوس میں سے پولیس کو فون کروں گی۔ میری غیرحاضری میں تم یہاں سے مطلق جنبش نہیں کرو گی۔ سمجھیں! اگر تم نے یہاں سے بھاگنے کا ارادہ کیا، تو اِس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے۔
پولیس تمہیں ڈھونڈ نکالے گی۔ جارج مر چکا ہے۔ اُسے تم نے بڑی بےرحمی سے قتل کیا ہے۔‘‘

اور یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ باربرا پھٹی پھٹی نظروں سے جارج کی لاش تَک رہی تھی۔ اُسے لُوسی سے ایسی سفّاکانہ حرکت کی بالکل توقع نہ تھی۔

’’بےوقوف ….. اب کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ باربرا نے یکایک لُوسی کی آواز سنی۔
اُس نے چونک کر گردن اٹھائی۔ لُوسی قریب ہی کھڑی مسکرا رَہی تھی۔ باربرا نے اُسے پکڑنا چاہا، لیکن لُوسی اچھل کر پرے ہٹ گئی۔ ’’اب کیا سوچتی ہے احمق؟ تُو جو چاہتی تھی، وہ مَیں نے کر دیا۔
یاد رَکھ اگر مَیں جارج کو ٹھکانے نہ لگاتی، تو وہ بہت جلد تجھے ٹھکانے لگا دیتا۔ اب تُو ہر طرح سے آزاد ہے۔‘‘

باربرا نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

باربرا کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے رخساروں پر ڈھلک گئے۔ ڈاکٹر فاسٹر نے گہرا سانس لیا اور چپ چاپ باربرا کی صورت تکتا رہا۔

’’اُمید ہے اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مجھے وکیل کی ضرورت کس لیے ہے؟‘‘ باربرا نے آہستہ سے کہا۔ ’’پولیس بھی یہی کہتی ہے کہ جارج کو مَیں نے قتل کیا ہے …..
بھلا یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟ مَیں اپنے سگے بھائی کو قتل کروں گی؟ سوال یہ ہے کہ آخر کس لیے؟ مجھے جارج سے کوئی شکایت نہ تھی …..
شکایت تھی، تو لُوسی کو تھی اور اُسی نے اُسے قتل کیا۔‘‘

فاسٹر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’بےشک سوال تو یہی ہے کہ لُوسی نے جارج کو کیوں ہلاک کیا؟ اُس نے لُوسی کا کیا بگاڑا تھا؟‘‘

باربرا نے اِس سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
پھر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور آہستہ آہستہ چل کر کھڑکی کے قریب گئی۔ فاسٹر نے اُس کے خیالات میں مداخلت کرنا مناسب نہ جانا۔ آخر باربرا نے کہا:

’’پولیس والے کہتے ہیں کہ جس قینچی سے جارج کو ہلاک کیا گیا، اُس کے اوپر میری انگلیوں کے نشانات پائے گئے ہیں، لیکن میری دانست میں اِس الزام کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
وہ قینچی بہرحال میری ہی ملکیت تھی اور اُس پر میری انگلیوں کے نشانات نہیں ہوں گے، تو پھر کس کے ہوں گے؟‘‘

’’مگر تم کہتی ہو کہ جارج کو لُوسی نے قتل کیا ہے؟‘‘ فاسٹر بول پڑا۔
’’اگر لُوسی نے جارج کو تمہاری قینچی کے ذریعے قتل کیا، تو قینچی پر آخری نشانات لُوسی کی انگلیوں کے پائے جانے چاہئیں …..
اِس کے برعکس تمہاری انگلیوں کے نشانات اُس پر ملتے ہیں، اِس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

’’معلوم ہوتا ہے تم ڈاکٹر نہیں، پولیس کے گُرگے ہو اَور مجھ سے اقبالِ جرم کرانا چاہتے ہو۔‘‘
باربرا ایک دم شیرنی کی طرح بپھر گئی۔ مارے طیش کے اُس کا چہرہ اَنگارہ ہو رہا تھا۔
چند ثانیے فاسٹر کو گھورنے کے بعد وہ پاؤں پٹختی ہوئی آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اَپنے عکس پر نگاہیں جما دیں۔

’’دیکھو ….. خوب غور سے دیکھو۔ کیا یہ چہرہ تمہیں کسی قاتل کا دکھائی دیتا ہے؟‘‘ اُس نے غرّا کر فاسٹر سے کہا۔ ’’مَیں اب مزید بک بک نہیں کرنا چاہتی۔
مَیں تو پہلے ہی سمجھ گئی تھی کہ ڈاکٹر کے بھیس میں تم کوئی بہروپیے ہو۔
خواہ مخواہ میرا وَقت برباد کیا۔ اب بہتر یہی ہے کہ اپنی منحوس صورت لے کر یہاں سے دفان ہو جاؤ، ورنہ مَیں سچ مچ تمہیں قتل کر بیٹھوں گی۔
میری مشکلات کا اندازہ کوئی سمجھ دار وَکیل ہی کر سکتا ہے اور وُہی جانے گا کہ جارج کو کس نے موت کے گھاٹ اتارا۔ مَیں نے یا لُوسی نے …..؟‘‘

’’لیکن ….. مس باربرا ….. ذرا یہ تو سوچو …..‘‘ فاسٹر نے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا ہی تھا کہ باربرا نے اُس کا فقرہ کاٹ دیا۔

’’مَیں جانتی ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ اگر لُوسی نے میری قینچی سے جارج کو قتل کیا، تو پھر قینچی پر میری انگلیوں کے نشانات کیسے آ گئے؟
یہ سوال مجھ سے کیوں کرتے ہو؟ تمہیں لُوسی سے پوچھنا چاہی کہ ایسا کیوں ہوا۔ پوچھو اُس سے ….. لُوسی بھی یہاں موجود ہے …..‘‘

فاسٹر نے انتہائی سنجیدگی سے آئینے میں دیکھا۔ وہاں اُسے باربرا کے بجائے لُوسی نظر آ رہی تھی۔ یہ چہرہ باربرا کا نہیں تھا۔ کسی اور عورت کا تھا۔
فاسٹر پلک جھپکائے بغیر آئینے میں لُوسی کا عکس دیکھ رہا تھا۔ اُس کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ اُبھر رہی تھی۔ فاسٹر نے کچھ کہنا چاہا، مگر آواز اُس کے منہ سے نہ نکلی۔ تحیّر کے ساتھ ساتھ اُس پر خوف اور ہیبت کی عجب کیفیت طاری ہو رہی تھی۔
وہ اَپنی آنکھوں کو جھٹلا نہیں سکتا تھا اور نہ یہ کوئی فریبِ نظر تھا۔ آئینے کے آگے باربرا کھڑی تھی، لیکن اُس کے اندر باربرا کا عکس نہیں تھا، بلکہ وہاں لُوسی دکھائی دے رہی تھی۔
لُوسی ….. جس کے خدوخال باربرا سے مختلف تھے۔

اور پھر فاسٹر نے ہاتھ کے اشارے سے رینالڈس کو آئینے کی طرف متوجہ کیا، لیکن وہ تو پہلے ہی بےحس و حرکت اپنی جگہ کھڑا آئینے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
فاسٹر نے رینالڈس کے چہرے اور آنکھوں کے اندر پھیلے ہوئے خوف سے اندازہ لگایا کہ اُس کی آنکھیں بھی باربرا کو دیکھنے کے بجائے لُوسی کو دیکھ رہی ہیں۔

یہ حالت بہت وقفے کے لیے قائم رہی۔ پھر فاسٹر نے دیکھا کہ آہستہ آہستہ آئینے کے اندر سے لُوسی کا چہرہ مٹنے لگا اور اُس کی جگہ باربرا کے نقوش واضح ہو گئے۔

رینالڈس اور فاسٹر کی آنکھیں چار ہوئیں۔ فاسٹر نے محسوس کیا کہ رینالڈس کا چہرہ دُھواں دھواں ہو رہا ہے۔ دہشت سے اُس کے ہونٹ لرز رہے تھے اور پیشانی پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے جھلملا رہے تھے۔
رینالڈس نے ایک بار پھر آئینے کی طرف دیکھا، مگر اِس مرتبہ بھی اُس کے سامنے باربرا کا عکس تھا۔
فاسٹر کی نظریں بھی رینالڈس کی نگاہوں کا تعاقب کرتی ہوئی آئینے تک آئیں اور اُسے بھی باربرا ہی کا چہرہ نظر آیا۔
فاسٹر نے دروازے کی جانب قدم بڑھایا اور اُس کے قدموں کی آہٹ پر باربرا نے مڑ کر دیکھا۔

’’تم نے لُوسی کو دیکھا؟‘‘ باربرا کا لہجہ خوفناک حد تک سنجیدہ تھا۔
’’اب چپ کیوں ہو مسٹر ڈاکٹر ….. بولتے کیوں نہیں؟‘‘

فاسٹر نے نفی میں گردن ہلائی۔ ’’بےشک مَیں نے ایک چہرے کو آئینے میں ضرور دَیکھا۔
‘‘ اُس نے مدھم آواز میں رُک رک کر کہنا شروع کیا۔ ’’لیکن وہ چہرہ ….. لُوسی کا ہرگز نہ تھا ….. باربرا ….. وہ چہرہ تو تمہارا ہی تھا …..
تاہم مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ تم فطری اداکارہ ہو۔ تمہیں اپنے چہرے کے نقوش بدلنے پر قدرت ہے۔ پہلی نظر میں مَیں دھوکا کھا گیا تھا …..
مجھے شبہ ہوا کہ یہ وہ چہرہ نہیں ہے ….. یعنی تمہارا چہرہ مجھے آئینے میں نظر نہیں آ رہا تھا۔
اُس کے بجائے مَیں نے ایک اور چہرہ دَیکھا …..
جو شاید ….. بقول تمہارے ….. لُوسی کا چہرہ تھا ….. اور میرا خیال ہے وہی چہرہ میرے دوست رینالڈس نے بھی دیکھا۔‘‘

فاسٹر نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا، لیکن رینالڈس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ رُومال سے پسینے سے بھیگا ہوا اَپنا چہرہ پونچھ رہا تھا۔‘‘

’’لُوسی کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے باربرا۔‘‘ فاسٹر نے مسکرا کر کہا۔
’’لُوسی محض تمہارے ذہن کی تخلیق ہے۔ تم نے لُوسی کی تخلیق میں بڑی ذہانت کا ثبوت دیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ تم بہترین اداکارہ بھی ہو۔
تم نے لُوسی کی تخلیق ہی نہیں کی، بلکہ اُسے ایک چہرہ بھی عطا کیا۔ وہ چہرہ جو تمہارا اَپنا ہے۔ بہرحال اِس بارے میں مَیں تم سے پھر کسی وقت گفتگو کروں گا ۔
اُمید ہے تم اُس وقت میری باتیں سننے اور سمجھنے کے قابل ہو جاؤ گی۔ تمہیں ایک وکیل سے زیادہ ماہرِ فن ڈاکٹر کی ضرورت ہے باربرا۔ ایک ڈاکٹر ہی تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔‘‘

باربرا نہایت سکون سے فاسٹر کی تقریر سنتی رہی۔ پھر اُس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ اُبھری۔

’’میرا خیال ہے تمہیں دوبارہ یہاں آنے اور مجھ سے باتیں کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اِس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مَیں دوبارہ تمہاری صورت دیکھنے کی روادار نہیں۔‘‘

’’کیا مَیں پوچھ سکتا ہوں کہ مجھ سے اِس قدر بیزاری کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’وجہ ظاہر ہے۔‘‘ باربرا نے بےپروائی سے شانے اچکائے۔ ’’تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو ….. تم نے میری کسی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیا یہ میری توہین نہیں ہے؟‘‘

’’مجھے افسوس ہے باربرا، تم نے ایسا خیال کیا۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’مَیں نے تمہیں جھوٹا سمجھا نہ تمہاری توہین کی ….. مجھے تمہارے ساتھ ہمدردی ہے۔‘‘

’’چلے جاؤ یہاں سے ….. فوراً نکل جاؤ۔‘‘ باربرا حلق پھاڑ کر چلّائی۔ ’’مجھے کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے ….. مَیں معافی چاہتا ہوں۔‘‘
فاسٹر نے دروازے کی ناب گھمائی اور باہر نکل آیا۔ اُس کے عقب میں رینالڈس تھا۔ رینالڈس نے باہر آتے ہی کسی تاخیر کے بغیر دروازہ بند کر دیا۔

’’اگر ہم زیادہ دَیر وہاں رکتے، تو وہ عورت ضرور ہم میں سے کسی پر حملہ کر دیتی۔‘‘ رینالڈس نے کہا۔

فاسٹر نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ دونوں راہداری میں چلتے رہے۔
باہر طوفانِ باد و باراں اُسی رفتار سے جاری تھا۔ رات طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی تھی۔
چلتے چلتے فاسٹر نے جیسے اپنے آپ سے کہا:
’’عجیب عورت ہے۔ عجیب ….. مجھے اُس کے پاس دوبارہ آنا پڑے گا۔‘‘

رینالڈس نے آہستہ سے گردن گھمائی اور فاسٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا واقعی؟‘‘

’’ہاں ….. مَیں نے اُس کی پوری مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’مَیں محسوس کرتا ہوں کہ باربرا اَبھی اُس اسٹیج تک نہیں پہنچی جہاں سے اُسے واپس لانا ممکن نہ ہو۔‘‘

’’فرمائیے ….. کسی اور مریض سے ملاقات کریں گے یا کچھ دیر دم لیں گے؟‘‘
رینالڈس نے موضوع بدل دیا۔ اِس دوران میں وہ کنجیوں کے گچھے میں سے ایک اور کنجی الگ کر چکا تھا۔

’’مجھے یہ بتاؤ، مسٹر رینالڈس کہ کیا جارج کا بھی کوئی وجود تھا؟‘‘ فاسٹر نے اُس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے ایک نیا سوال کر دیا۔

رینالڈس متحیر ہو کر فاسٹر کی صورت تکنے لگا۔ ’’مَیں سمجھا نہیں جناب، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘

’’مَیں پوچھ رہا ہوں کیا واقعی جارج نام کا کوئی شخص باربرا کا بھائی تھا یا یہ کردار بھی اُس نے لُوسی کی طرح اپنے ذہن کی مدد سے تخلیق کیا ہے۔‘‘

رینالڈس نے گہرا سانس لیا۔ ’’مَیں کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا جناب …..
ہو سکتا ہے لُوسی کی طرح جارج بھی کوئی فرضی کردار ہو اَور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ جیتا جاگتا شخص ہو …..‘‘

’’جسے باربرا نے قتل کر دیا؟‘‘ فاسٹر نے اُس کا جملہ مکمل کر دیا۔

’’مَیں یہ کہنے کا منصب نہیں رکھتا جنابِ والا!‘‘ رینالڈس نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اگر جارج فرضی کردار نہیں تھا، تب بھی کوئی نہ کوئی شخص قتل تو ہوا ہی ہو گا۔‘‘

’’بہرحال ….. بہرحال ….. یہ بےحد پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘‘
فاسٹر نے کہا۔ ’’البتہ یہ تو طے ہے کہ لُوسی کا کوئی وجود نہ تھا۔‘‘

رینالڈس یک لخت ہنس پڑا۔ اُس کے ہنسنے پر فاسٹر کو تعجب ہوا۔
چلتے چلتے رک کر اُس نے میکس سے پوچھا۔ ’’اِس میں آخر ہنسنے کی کیا بات تھی؟‘‘

’’کچھ نہیں جناب ….. کچھ نہیں …..‘‘ رینالڈس اب بھی ہنسی ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
’’بس یونہی ایک بات ذہن میں آئی اور ہنسی نکل گئی۔ معافی چاہتا ہوں۔‘‘

’’لیکن تمہیں بتانا پڑے گا …..‘‘ فاسٹر نے اصرار کیا۔ ’’تمہاری ہنسی بلاوجہ نہ تھی۔‘‘

ایک لحظہ تامل کے بعد رینالڈس نے کہا ’’آپ فرماتے ہیں کہ لُوسی کا کوئی وجود نہ تھا اور مَیں کہتا ہوں اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ خود باربرا کا بھی کوئی وجود ہے۔‘‘

اب فاسٹر کے متحیّر ہونے کی باری تھی۔ اُس نے رینالڈس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے آہستہ سے کہا:

’’مَیں تمہارا مطلب سمجھ گیا ….. غالباً تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ باربرا ڈاکٹر بی اسٹار بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

’’اِس کا جواب ’ہاں‘ میں بھی دیا جا سکتا ہے اور ’نہیں‘ میں بھی۔‘‘ رینالڈس نے مسکرا کر کہا۔
’’مگر یہ مسئلہ آپ کو حل کرنا ہو گا۔ مَیں اِس سلسلے میں کوئی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔‘‘

فاسٹر نے محسوس کیا کہ اُس کا واسطہ انتہائی زیرک اور بےحد محتاط شخص سے ہے۔
ایسا شخص جو اُسے گمراہ تو کر سکتا ہے، صحیح راستہ دیدہ دَانستہ نہیں بتا سکتا۔
تاہم اُس نے دل میں پختہ عزم کر لیا تھا کہ وہ رِینالڈس کو شکست دے کر رہے گا۔
فاسٹر کو یہ اندازہ کرنے میں بھی کوئی دقت نہ ہوئی کہ رینالڈس ایک سدھائے اور پڑھائے فرد کا کردار بڑی خوبی سے ادا کر رہا ہے۔

رینالڈس نے ایک بند دروازے کے قفل میں کنجی ڈالی اور اُسے گھما کر کھولنے ہی والا تھا کہ فاسٹر نے اُسے روک دیا۔

’’پہلے یہ بتاؤ اِس کمرے کے اندر کون ہے؟‘‘ اُس نے رینالڈس سے پوچھا۔

’’اِس کمرے میں جو شخص بند ہے، وہ خود کو ڈاکٹر بائرن کہتا ہے۔‘‘ رینالڈس نے بتایا۔ اُس کا لہجہ بےحد سنجیدہ تھا۔

’’ڈاکٹر بائرن؟‘‘ فاسٹر کے ذہن میں جیسے کوئی کیڑا رِینگا۔ ’’گویا اِس شخص کا نام بھی حرف ’بی‘ سے شروع ہوتا ہے۔‘‘

جاری ہے۔ (بائرن  سے ملیں حصہ پنجم میں)

https://shanurdu.com/pagal-khana-part-5-biron/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles