جن کی ایک ’’آہ‘‘ آپ کی زندگی الٹ اور
ایک دعا آپ کی زندگی پلٹ سکتی ہے
عافیہ مقبول جہانگیر
سڑک پر بے ہنگم ٹریفک کے ہجوم کے درمیان وہ کمزور لاغر بوڑھا شخص بے یارومددگار کسی بچے کی مانند سہما کھڑا تھا۔ آس پاس سے کچھ تنہا، کچھ ٹولیوں کی شکل میں ہنستے باتیں کرتے لوگ گزر رہے ہیں.
چند ایک کی نظر اس بوڑھے پر ٹھہرتی ہے۔طنزیہ نظریں، غصیلی نظریں، ترس کھاتی نظریں اس بوڑھے بزرگ کو مزید حواس باختہ کیے جا رہی ہیں۔ مگر لوگوں کے اس ہجوم میں ایک بھی نظر شفقت، محبت کی نہیں۔
نجانے کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جانا چاہتا ہے؟ ہمیں کیا؟ ہمارا کیا لگتا ہے؟ بھلا ضرورت ہی کیا تھی اس عمر میں بھری سڑک پر منہ اٹھا کر نکل آنے کی؟ نہ راستہ پتا ہے نہ ہی ٹھیک سے نظر کام کر رہی ہے۔ پھر بھی بڑے میاں گھر میں ٹک کے بیٹھ نہیں سکے۔نہ خود آرام سے جیتے ہیں نہ لوگوں کو جینے دیتے ہیں۔
ساری ٹریفک جمع کر دی، تماشا لگا رکھا ہے۔ یہ آوازیں کھسر پھسر کی صورت بوڑھے کے کانوں تک پہنچ رہی ہیں، کچھ منچلے تو تہذیب و ادب کی حدود و قیود کو تقریباً پھلانگتے ہوئے آوازے کس رہے ہیں کہ ارے او بڑے میاں آپ جیسے لوگ ہی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ کسی گاڑی سے ٹکرا گئے تو بدنام تو ہم نوجوان ہی ہوتے ہیں نا کہ ہمیں گاڑی موٹر سائیکل چلانے کی تمیز نہیں۔
لیجیے! آگے بڑھتے ہی ان بدتمیز نوجوانوں کی ٹولی میں سے کسی ایک کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا کرتاایک اور بزرگ نظر آیا۔
اب کے تمام نوجوانوں نے پھر سے وہی ہنسی، طنزیہ جملے اچھالنے کا قصد ہی کیا تھا کہ ایک نوجوان چلا اٹھا۔
خاموش! یہ میرے دادا ہیں۔
لڑکوں کی ہنسی کو بریک لگ گیا۔ تقریباً سبھی لڑکے بھاگتے ہوئے اس بزرگ کے پاس پہنچے۔ نوجوان نے نہایت فکرمندی سے پوچھا۔
ارے دادا! آپ یہاں، اتنی بڑی سڑک کے بیچ و بیچ یوں کیوں کھڑے ہیں؟ کیا ہوا؟ اور یہ ہاتھوں میں اتنا سامان کاہے کا ہے؟ مجھ سے کہا ہوتا، میں لا دیتا، آپ کیوں اس عمر میں تن تنہا گھر سے نکلے؟ کہیں گر گرا جاتے تو؟ چوٹ لگ جاتی۔
وہ بوڑھا مسکرایا اور بولا ’’بیٹا میں گھر میں فارغ ہی تھا سوچا کیوں نہ ایک تو پیدل چلنے کا شغل ہو جائے۔ لگے ہاتھ گھر کا سودا سلف بھی لے لوں گا۔ بس یہ ٹریفک کا رش اتنا تھا کہ گھبراہٹ کے مارے سڑک پار نہ کر سکا اور گھبرا کے قدم وہیں جم گئے۔
نوجوان نے اپنے دادا کے ہاتھ سے سامان کے تھیلے پکڑے۔ اس کے دوستوں نے دادا کا ہاتھ پکڑا اور پھر وہ دادا کو بڑی محبت اور احتیاط سے گھر کے قریب لے گئے۔ کسی نے سہارا دیا کسی نے باتوں سے دل بہلایا، یوں بڑے میاں کی حالت تھوڑی بہتر ہوئی اور کچھ لمحوں پہلے کی جو گھبراہٹ تھی وہ بھی ختم ہوتی گئی۔
اچانک اس نوجوان کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔
اوہ! یہ ہم نے کیا کر دیا۔ اگر آج اپنے دادا کو اس طرح سڑک پر حیران پریشان کھڑا دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھا اور پچھلے سگنل پر ایک بابا جی بالکل ایسی ہی صورت حال کا شکار لوگوں کی جھنجھلاہٹ اور غصے کا سامنا کر رہے تھے۔ وہ بھی تو کسی کے دادا، نانا اور باپ تھے۔
کیا پتا وہ بھی اپنے گھر سے یونہی اپنے بچوں کی محبت میں، ان کے کام آنے کے خیال سے نکلے ہوں اور ہم نے بجائے ان کی مدد کرنے کے ، ان کا مذاق اڑا دیا۔ ان پہ طعنے کسے، بدتمیزی کی۔ کیا تھا جو ہم ان کی بھی مدد کر دیتے۔
ان سے ایک دفعہ محبت سے، اپنائیت سے پوچھتے تو سہی کہ آپ کو کہاں جانا ہے بابا؟ آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں؟ آئیے ہم آپ کو سڑک پار کرا دیں۔
یہ سوچ کر وہ نوجوان شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔ اگر میں وقت پر نہ پہنچتا تو شاید میرے دادا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا۔
وہ خود سے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا۔
جی ہاں! اپنے اردگرد اگر نظر دوڑائی جائے، مشاہدہ کیا جائے تو ایسی ہزاروں کہانیاں ، واقعات بالکل ہمارے آس پاس نہ صرف نظر آئیں گے بلکہ بیشتر میں ہم نے خود بھی کافی ’’حصہ‘‘ ڈالا ہو گا۔
بزرگوں سے محبت تو دور کی بات، ہم میں تو ان کا احترام بھی تقریباً مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ کالج میں، یونیورسٹی میں، اگر کوئی بزرگ استاد پڑھانے آ جائے تو ہمارا منہ بن جاتا ہے۔
ہم کہتے ہیں اف ان سے ہم کیا پڑھیں گے؟
آپ کے آفس میں بزرگ کام کرتا ہو تو آپ بیزار ہو جاتے ہیں۔ کیا کبھی یہ سوچا ہے کہ آخر بوڑھوں سے اتنی بیزاری کیوں؟
ان کے وجود سے اتنا گریز کیوں؟ ان سے اتنی چڑ کیوں؟
یہ بزرگ بھی آپ کی ہماری طرح زندگی جینے کا اتنا ہی حق رکھتے ہیں جتنا کہ ہم بلکہ میری نظر میں شاید ہم سے کہیں زیادہ۔ کیونکہ ان کے پاس زندگی کا نچوڑ، تجربوں، مشاہدوں کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔
عمر کے اس حصے میں جب وہ ہم سے زیادہ اچھا اور بہترمشورہ نہ صرف دے سکتے بلکہ زیادہ اچھے طریقے سے مسائل کو سمجھ کر انھیں حل کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہم انھیں فالتو سامان کی طرح بے کار انسان سمجھ کر ان کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھتے۔ ہمیں ان کی باتیں دقیانوسی لگتی ہیں۔
ہم کھل کر اپنے والدین سے نہ صرف اختلاف رائے کرتے ہیں بلکہ انھیں یہ بھی جتا دیتے ہیں کہ
آپ چپ رہیں، ابا جی! آپ کو آج کے زمانے کا کیا پتا؟
آپ بیچ میں نہ بولا کریں اماں! آپ کو کیا پتا؟
اس قدر ظالم اور سفاک جملے بولتے ہوئے ہم حضور اکرمﷺ کا یہ فرمان فراموش کر دیتے ہیں کہ
آپﷺ نے فرمایا ’’وہ برباد ہوا، برباد ہوا، برباد ہوا۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے سوال کیا ’’یارسول اللہﷺ کون؟‘‘
آپﷺ نے فرمایا ’’جس نے بوڑھے والدین پائے اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی۔‘‘
ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی عمر کے اس دور میں ہوں گے اور ہماری آنے والی نسل ہمیں کہہ رہی ہو گی ’’چپ رہیں آپ کو کیا پتا۔‘‘
ہمارے پاس تعلیم ہے بلکہ جدید تعلیم مگر ہمارے پاس ابھی وہ تجربات و مشاہدات نہیں جو تعلیم سے نہیں بلکہ عمر سے آتے ہیں۔
تعلیم ہنر سکھاتی ہے مگر اس ہنر کو کس طرح استعمال کیا جائے یہ زندگی کے تجربات سکھاتے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے ہم نادان نوجوان یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف اعلیٰ اور جدید تعلیم سیکھنا ہی کامیابی نہیں جب تک آپ کے پاس اس تعلیم کو استعمال کرنے کا شعور نہ ہو۔ شعور، تجربہ، کامیابی تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے بزرگوں سے ان کے تجربات و مشاہدات سنیں، سیکھیں اور پھر ان کی روشنی میں اپنی تعلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کے فیصلے کریں۔
بزرگوں سے کچھ سیکھنا تو درکنار ہم نے تو انھیں اپنی زندگی سے الگ تھلگ کرنے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے۔
وہ بوڑھے ہیں، بزرگ ہیں، تو کیا وہ ایک اچھی نارمل اور بھرپور زندگی جینے کے حقدار نہیں رہے؟
آپ ذرا سوچیں، آپ کی ذرا سی محبت، ذرا سی توجہ نہ صرف ان کو اس عمر میں جینے کی نئی راہ دے سکتی بلکہ آپ کی زندگیاں بھی خوبصورت بنا سکتی ہے اور ثواب الگ۔
ہمارا مذہب تو اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ جس میں صرف بوڑھے ماں باپ کو ایک محبت بھری نگاہ سے دیکھ لینے سے ہی ہمارے حصے میں کتنا ثواب لکھ دیا جاتا ہے تو سوچیں۔ اگر ان کی خدمت، دیکھ بھال کی جائے تو کیوں نہ ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی ملے ۔ آپ یقین کریں کہ یہ بوڑھے وجود آج بھی اپنے اندر اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ ان کی ایک آہ ہماری زندگی الٹ اور ایک دعا ہماری زندگی پلٹ سکتی ہے۔
تو پھر جس ہستی کا وجود اتنا طاقتور ہو تو کیا ہمیں ان سے پہلو تہی کرنی چاہیے؟ کیا انھیں بوجھ سمجھنا چاہیے؟ چلیے اپنی ہی غرض کے لیے سہی، کیا ان کی خدمت اور دیکھ بھال ہم نہیں کر سکتے؟
یہ وہ معصوم، شفیق ہستیاں ہیں جن کو بہلانا، پیار دینا، خیال رکھنا بے حد آسان ہے۔ بالکل ایسے جیسے ایک بچے کو آپ بہلا لیتے ہیں۔ اسے خوش کر دیتے ہیں۔ اسے کسی بڑی چیز کی تمنا یا خواہش نہیں ہوتی۔ وہ تو ایک ذرا سے کھلونے، آپ کے محبت بھرے لمس سے، آپ کی ایک میٹھی نظر سے ہی پرسکون اور مطمئن ہو جاتا ہے۔ ہاں بعض بچے ضدی اور چڑچڑے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی آپ اپنے ماتھے پر ایک بھی شکن لائے بغیر، اس کی ہر ضد پوری کرتے ہیں ۔
نہ صرف یہ، بلکہ دوسروں کو بھی بہت فخر سے بتاتے ہیں کہ میرا بچہ تو بہت ضدی ہے۔ اپنی بات منوا کر ہی چھوڑتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے آپ کے لہجے میں ایک احساسِ تفاخر نمایاں ہوتا ہے۔ آپ اپنے ملنے جلنے والوں کو بہت فخر سے بتاتے اور جتاتے ہیں کہ آپ اپنے بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
یہی ضد کا عنصر یا چڑچڑاپن اگر اپنے بوڑھے والدین یا دادا دادی، نانانانی میں دیکھیں تو آپ بے زاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو کہتے ہیں کہ بھئی انھوں نے تو زندگی عذاب کر دی۔
خود چین سے رہتے نہ ہمیں رہنے دیتے ہیں۔ ایک پل کو سوچیے، وہ بچہ جس نے ابھی آپ کے لیے کچھ نہیں کیا، آپ کو کچھ نہیں دیا، اس کی خواہشیں اور ضدیں آپ کو کتنی عزیز ہیں، اور وہ بوڑھے ’’بچے‘‘ جنھوں نے تمام عمر آپ کو دیا ہی دیا ، ان کی ضدیں آپ کو بوجھ لگنے لگیں؟
بہت چھوٹی چھوٹی باتیں مدنظر رکھنے سے آپ اپنے بزرگوں کو نہ صرف ان کی من چاہی زندگی واپس لوٹا سکتے ہیں، بلکہ دعائیں سمیٹ کر اپنی زندگی کو بھی خوشیوں، کامیابیوں اور طمانیت سے بھرپور بنا سکتے ہیں۔
بزرگوں سے مشورہ لیجیے
اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں اپنے بزرگوں کو نظرانداز مت کریں۔ اس طرح آپ خود وجہ بن رہے ہیں ان کی ضد اور چڑچڑے پن کی۔ آپ کا یہ رویہ ہی انھیں ضدی بننے پر اکساتا ہے۔ گھر کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر ان سے مشورہ لیں، ان کو شامل کریں۔ ان کو احساس دلائیں کہ زمانہ جتنا بھی بدل چکا ہو یا جدید دور ہو، ان کی باتیں اور مشورے اب بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنا کہ ان کی جوانی کے دور میں ہوا کرتے تھے۔
اہمیت کا احساس دلائیں
اپنی باتوں سے انھیں احساس دلائیں کہ آپ زندگی کی موجودہ جس بھی سیڑھی پر کھڑے ہیں، یہاں تک پہنچنے میں آپ کے بزرگ آپ کے معاون رہے ہیں، ان کے بغیر آپ کچھ نہیں بن سکتے تھے۔ آپ کی موجودہ کامیابی صرف انھی کی مرہون منت ہے۔ جس طرح اپنے بچپن میں آپ ان سے ضد کیا کرتے تھے کہ وہ آپ پر اعتماد کریں کیونکہ آپ ’’بڑے‘‘ ہو چکے ہیں، اسی طرح اب آپ کی باری ہے کہ آپ ان پر اعتماد کریں کیونکہ بہرحال آپ کے بڑے وہی ہیں۔
اپنے بچپن کی باتیں کریں
بزرگوں کے پاس یادوں کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو اپنے والدین یا گھر کے کسی بھی بزرگ کے پاس بٹھا کر، بزرگوں سے اپنے بچپن کی باتیں سنانے کو کہیں۔ زمانہ جدید ہو یا قدیم، بچپن سب کا ہی دلچسپ اور بھرپور ہوتا ہے۔ آپ کے بچے نہ صرف لطف اندوز ہوں گے بلکہ ان کے اور بزرگوں کے درمیان ایک لطیف سا رشتہ بنے گا۔ بزرگوں کو بھی احساس ہو گا کہ ان کی یادیں اور باتیں سننے والے آج بھی ہیں اور بچے بوڑھوں سے دوستی کا رشتہ استوار کر لیں گے۔ یوں بزرگوں اور نوجوانوں کے بیچ دوری اور فاصلہ کم ہو گا۔
خاندانی تقریبات میں شمولیت
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی گھرانے نے شادی پر جانا ہو تو گھر کے افراد اپنے بزرگ چاچا، دادا، نانی اور تو اور ماں یا باپ کو بھی گھر چھوڑ جاتے ہیں اور عذر یہ پیش کرتے ہیں کہ آپ تھک جائیں گے، بور ہو جائیں گے۔بظاہر آپ کے بزرگ منہ سے کچھ نہ کہیں، یا آپ کا دل رکھنے کو کہہ دیں کہ ہم وہاں جا کر کیا کریں گے بیٹا آپ لوگ جائو اور آپ مطمئن ہو کر چلے بھی جاتے ہیں۔ رکیے! سوچیے ذرا اس جملے کی گہرائی اور دردناک حقیقت۔ ’’ہم وہاں جا کر کیا کریں گے۔‘‘ ایسا کیوں؟ یہ نوبت کیوں آ گئی کہ ہمارے عزیزبزرگ، ایسا کہنے پر مجبور ہو گئے۔ کیا اب ان کے کرنے کو کچھ نہیں رہا؟ کیا وہ اتنے بے کار، غیرضروری ہو چکے کہ ان کا کسی تقریب سے میں جانا تک ضروری نہیں۔ جن اولادوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کی پیدائش پر ان کی خوشی دیدنی تھی۔ کیا ان کی شادیوں میں شامل ہونے کے بھی وہ حقدار نہیں رہے؟ صرف اس لیے کہ وہاں آپ سب لوگ اپنے ہنگاموں میں اس قدر مصروف ہو جاتے ہیں کہ ان کو یکسرفراموش کر دیا جاتا ہے۔ یا اگر ساتھ لے بھی جائیں تو کسی خالی کونے میں بٹھا کر اپنے بچے ان کے حوالے کر دیے جاتے ہیں تاکہ آپ خود آرام سے تقریب میں گھومیں پھریں، اور وہ آپ کے بچوں کے بچوں یا سامان کی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار کی طرح بیٹھے رہیں۔ آپ انھیں ساتھ لے کر جائیں، انھیں سب سے آرام دہ اور نمایاں جگہ پر بٹھائیں تاکہ وہ سب طرف دیکھ سکیں۔ اپنے آپ کو ماحول سے الگ نہ سمجھیں، بزرگوں کے لیے اہتمام سے کھانا لگوائیں اور تمام لوگوں سے انھیں ملوائیں اور سب کو احساس دلائیں کہ اس تقریب میں آپ اپنے بزرگوں کے ساتھ آئے ہیں ناکہ بزرگ آپ کے ساتھ۔
۵۔ گھر میں انھیں مصروف رکھیں
مصروفیت سے کئی لوگ یہ مطلب نہ لیں کہ ان سے گھر کے کام کروانا، اس نازک عمر میں ان کے کمزور کندھوں پر بوجھ ڈالنا ہے بلکہ ایسے تفریحی اور دلچسپ کاموں میں ان کو مصروف رکھیں کہ وہ اپنے آپ کو ناکارہ یا آپ پر بوجھ نہ سمجھیں۔ خواتین گھریلو امور پر ان سے چھوٹے چھوٹے مشورے لے سکتی ہیں۔ پرانے زمانے میں پکائے جانے والے سادہ مگر لذت سے بھرپور کھانوں کی تراکیب پوچھ کر پکا سکتی ہیں تاکہ منہ کا ذائقہ بھی تبدیل ہو اور پرانی روایات بھی زندہ رہیں اور کم خرچ بالانشین والا معاملہ بھی ہو جائے۔ کیونکہ پرانے وقتوں میں نہایت سادہ غذا کھائی جاتی تھی جو نہ صرف لذیذبلکہ حفظانِ صحت کے تقاضے بھی پورا کرتی اور کم خرچ بھی ہوتی ۔ مرغن کھانے، بدیسی تراکیب معدے کے ساتھ ساتھ، جیب پر بھی بھاری پڑتی ہیں۔ یوں آپ کو بھی سہولت ہو گی اور بزرگوں کی رائے کو اہمیت دے کر آپ ان کا کھویا ہوا اعتماد بھی بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نہ ہی انھیں یہ شکوہ رہے گا کہ اب باورچی خانے میں ان کی ضرورت نہیں رہی۔ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کی خواتین کو باور کرائیں کہ مہینے میں دو چار دفعہ کھانا بزرگوں کی پسند اور مرضی کا ہی پکے گا۔ یوں بوڑھی خواتین بھی راضی اور آپ کے اہلِ خانہ بھی آسان اور سستے کھانے پکا کر اور کھا کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ اگر بزرگ حضرات آپ کے من پسند چٹ پٹے مرغن کھانے کھا کر اپنا گزارہ کر سکتے ہیں، حالانکہ ان کا کمزور معدہ اور نظامِ ہضم اس کی اجازت نہیں دیتا، پھر بھی وہ یہ سب کرتے ہیں صرف آپ کے لیے، تو کیا آپ مہینے میں چند ایک دفعہ ان کی بتائی ہوئی من پسند غذا نہیں کھا سکتے؟ جس میں فائدہ بھی سراسر آپ کا ہی ہوگا۔ وقت اور پیسے کی بچت الگ اور ہمارے بوڑھے بچے بھی خوش ہو جائیں گے اور آپ کو کچھ زیادہ تردد بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
اپنے بچوں کے لیے بھی تو مائیں سارا سارا دن باورچی خانے میں گھسی، نت نئی ڈشیں تیار کرتی رہتی ہیں۔ تو بوڑھوں کی فرمائش پوری کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ آخر عمر کے اس دور میں وہ کس سے فرمائش کریں۔ ان کا تو سب کچھ اب آپ ہی ہیں۔ ان کے اپنے والدین تو اب رہے نہیں، وہ آپ سے ہی اپنی تمام امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ جیسے اپنے بچپن میں آپ ان سے کرتے تھے۔
۶۔ ذہنی اور جسمانی صحت
آپ سب اپنی اپنی زندگیوں کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں، اس ترقی یافتہ دور میں ہر کام جلدی جلدی انجام دیا جانے لگا ہے، وقت کسی کے پاس نہیں، عجب افراتفری کا دور ہے۔ لیکن زمانہ کوئی بھی ہو، اپنے پیاروں کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ جیسے آپ، جتنے بھی تھکے کیوں نہ ہوں، اپنے بچوں کو سیر پر لے جانے کا وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ لیکن اپنے بزرگوں کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہیں حالانکہ ضروری نہیں کہ آپ سارا دن ہی ان کے ساتھ بیٹھے رہیں۔ ان کو خوش کرنے اور خیال رکھنے کے لیے وقت کی نہیں، ذرا سی نرم مسکراہٹ، توجہ اور ہلکی پھلکی باتوں کی ہی بس ضرورت ہے۔ آپ اپنے آفس کا کوئی کام کر رہے ہیں، تو آپ اپنی فائلیں اور کاغذات لے کر الگ تھلگ، یا اپنے کمرہ میں بیٹھنے کے بجائے ان کے پاس آ کر بیٹھ جائیں۔ یقین جانیں، وہ جانتے ہیں کہ کام آپ کے لیے کس قدر ضروری ہے، وہ کبھی آپ کو ڈسٹرب نہیں کریں گے، ان کے لیے تو یہی خوشی بہت ہے کہ آپ آ کر ان کے پاس بیٹھے ہیں۔ یاد کریں، جب آپ اپنے بچپن میں اپنے اسکول کے کام، یا پرچوں کے لیے جاگا کرتے تھے، تو آپ کے والد یا ماں، آپ کے پاس آ کر بیٹھ جاتے تھے تاکہ آپ کو اکیلاپن محسوس نہ ہو اور آپ زیادہ مستعدی اور دل لگا کر پڑھائی کر سکیں۔ اسی طرح آج بھی وہ آپ کا ساتھ دیں گے۔ آپ کا ان کے پاس بیٹھنا ہی کافی ہو گا، آپ ان سے کہیں کہ وہ آرام سے لیٹ جائیں یا آپ انھیں کوئی اخبار یا رسالہ تھما دیں، یوں ماحول میں خوبصورتی، تسلسل اور یکسوئی پیدا ہو جائے گی۔ یاد رکھیں، ماں باپ یا بزرگوں کا وجود کبھی بھی ہمارے لیے باعث اذیت تھا نہ ہو سکتا ہے۔ ان کے پاس بیٹھ کر کام کرنے سے آپ خود کو مزید ہشاش بشاش تازہ دم اور توانا محسوس کریں گے۔
۷۔ ہلکی پھلکی جدید ٹیکنالوجی سکھائیں
آپ کے بزرگوں نے تمام عمر زندگی کا سفر بہت قابلیت، سمجھ بوجھ اور ذہانت و محنت کے ساتھ طے کیا ہے۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آج کل کے جدید نظام کو وہ نہیں سمجھ پائیں گے تو یہ آپ کی بھول بھی ہو سکتی ہے۔ انھیں کمپیوٹر یا موبائل فون کا استعمال آسان طریقے سے سمجھائیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا تنہائی کی اچھی ساتھی ثابت ہوتی ہے اور اب تو اُردو زبان کے بھی سافٹ وئیر اور ویب سائٹس موجود ہیںجہاں ہر طرح کا تفریحی اور معلوماتی مواد موجود ہوتا ہے۔ یہ یقینا ان کے لیے دلچسپ اور بھرپور وقت گزاری کا سبب بن سکتا ہے۔
۸۔ گھر کی بناوٹ اور بیت الخلا کی سہولت
بعض گھروں میں اونچے نیچے فرش ہوتے ہیں یا کسی کمرے اور برآمدے میں آنے جانے کے لیے دو یا تین سیڑھیوں کا استعمال کیا جاتا ہے جن گھروں کے کمرے اونچے بنے ہوں وہاں عموماً ایسی بناوٹ دیکھنے میں آتی ہے۔ کوشش کریں کہ بزرگوں کو ایسا کمرہ رہائش کے لیے دیں جہاں کا فرش برابر سطح کا ہو تاکہ ان کو ٹھوکر لگنے یا گرنے کا خدشہ نہ ہو۔ جتنا ممکن ہو ان کے آرام کا خیال رکھیں۔ بیت الخلا میں اگر کموڈ نہیں بھی ہے اور آپ زیادہ خرچے کے متحمل نہیں ہو سکتے تو بازار میں بنی بنائی کرسیاں نہایت مناسب نرخ پر مل جاتی ہیں جو بالکل کموڈ کا ہی کام دیتی ہیں اور صفائی کرنے میں بھی آسان ہوتی ہیں وہ لا کر رکھ دیں اور بیت الخلا میں انھیں تنہا نہ چھوڑیں۔ بلکہ خاص تاکید کر دیں کہ آپ دروازے کے باہر ہی موجود ہیں وہ اندر سے کنڈی نہ لگائیںاور جہاں کموڈ یا کرسی رکھنے کی جگہ ہو اس دیوار پر ایک لوہے کا سٹینڈ ضرور لگوا دیں تاکہ اٹھتے بیٹھتے وقت وہ بآسانی اس کا سہارا لے سکیں اور گرنے کا احتمال نہ رہے۔
۹۔ قریبی ڈاکٹر اور طبی سہولیات
آپ جہاں اپنا فون رکھتے ہیں یا سائیڈ ٹیبل پر، جو جگہ آپ کے اور ان کے قریب ترین ہو، وہاں ڈاکٹر کا نمبر لکھ کر لازمی رکھیں یا ان کے کمرے، بستر کے ساتھ والی دیوار پر چسپاں کر دیں تاکہ خدانخواستہ ایمرجنسی کی صورت میں آپ یا وہ خود فوراً قریبی ڈاکٹر کو فون کر سکیں۔ گھر میں بھی ایک میڈیکل باکس (فرسٹ ایڈ) بنا کر رکھیں اور دھیان رکھیں کہ طبی امداد کا ڈبہ آپ کی پہنچ کے قریب ترین اور بچوں کی پہنچ سے دور رہے۔
اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے عوامل آپ کے ان معصوم بوڑھوں کو زندگی کی نئی حرارت دے سکتے ہیں۔ اخبارات و رسائل کے کوئز، پزل، مختلف قسم کے کھیل جیسے لڈو، کیرم، ریڈیو سننا، خبریں دیکھنا، انھیں گھر کے کسی فالتو چھوٹے غیرآرام دہ کمرے کے بجائے گھر کا بہترین حصہ رہنے کو دیں۔ تاکہ انھیں احساس رہے کہ ابھی زندگی کے خوبصورت ترین دور کی شروعات ہوئی ہے۔ یہ زندگی کا اختتام نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کی تھکا دینے والی بھاگ دوڑ کے بعد، سکون سے بیٹھ کر زندگی سے لطف اندوز ہونے کا وقت ہے۔ تمام عمر انھوں نے آپ کو اپنا وقت، پیسا، محبت دی ہے اور بدلے میں آپ سے نہ پیسا مانگا ہے نہ عیش و آرام۔ صرف تھوڑی سی محبت اور توجہ، جس کے وہ حقدار ہیں۔ تھوڑا سا وقت بالکل اتنا ہی جتنا آپ موبائل پر ادھرادھر فضول پیغامات بھیجنے پڑھنے پر لگا دیتے ہیں، اس سے بھی کم وقت آپ اپنے ان ننھے منھے پیارے بوڑھے بچوں کو دیں، تو یقین کریں آپ کی زندگی بھی خوشیوں اور کامیابیوں سے ہمکنار ہو گی، اور آخرت کی کامیابیوں کا نہ تو شمار نہ حساب کہ یہی بچے آپ کو جنت میں لے جائیں گے۔