15 C
Lahore
Sunday, December 15, 2024

Book Store

نوک پلک

نوک پلک

شکیل احمد چوہان

 

’’سوری ٹو سے۔۔۔ اثیر تم نے اُس معصوم کے ساتھ بڑی زیادتی کی تھی۔‘‘
’’میں نے زیادتی نہیں ظلم کیا تھا۔۔۔ دانیال!! بس ہوگیا گناہ مجھ سے۔۔۔ اب کیا کروں۔۔۔؟ میں وہ سب بھولنا چاہتا ہوں۔۔۔ مگر تم مجھے بھولنے ہی نہیں دیتے ہو۔۔۔ تم کو فون اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے کرتا ہوں۔۔۔ پر تم ہمیشہ میرے زخموں پر نمک ڈالتے ہو۔‘‘ اثیر کے لہجے میں کرب تھا۔
’’تم مجھے فون اپنے زخموں پر مرہم پٹی کروانے کے لیے ہرگز نہیں کرتے بلکہ تم وہ زخم خود ہرے رکھنا چاہتے ہو۔۔۔ میں اُس کا ذکر نہ بھی کروں تو تم خود چھیڑ لیتے ہو۔۔۔ بھول جائو اُسے اور وہیں کراچی میں کسی لڑکی سے شادی کرلو۔‘‘
’’شادی کیا کروں گا۔۔۔؟ میں ابھی تک وہ بھی نہیں کر سکا جس کے لیے اُسے چھوڑ گیا تھا۔‘‘ اثیر بجھی ہوئی آواز میں بولا۔
سیکنڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھاگتا ہوا اثیر کے پاس آیا اور کہنے لگا:
’’سر آپ کو نور سر بُلا رہے ہیں۔۔۔‘‘
’’تم چلو میں آتا ہوں۔‘‘ اثیر نے اسسٹنٹ کی طرف دیکھ کر جواب دیا۔
’’دانیال!! پھر بات کروں گا۔۔۔ لنچ بریک ختم ہوگئی ہے۔‘‘ اثیر نے فون بند کیا اور سامنے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا اسکرپٹ اُٹھایا اور فلم کےڈائریکٹر نور زیدی کی طرف چل پڑا۔ میک اَپ آرٹسٹ ہنی اور فلم کی ہیروئن فضا تھوڑی دُور بیٹھی اثیر کو ہی دیکھ رہی تھیں۔
’’گڈ لوکنگ ہے۔۔۔مگر بجھا ہوا۔۔۔ٹو دی پوائنٹ بات کرتا ہے ۔۔۔ گوسپ وغیرہ بالکل نہیں۔‘‘
’’بے بی!! گوسپ مجھ سے سنو۔۔۔میں نے پوچھا اثیر تم ہر وقت اُداس کیوں رہتے ہو۔۔۔ کہنے لگا میری فیانسی مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔‘‘ بات کرتے ہوئے ہنی کی باہیں رقص کر رہی تھیں۔ فضا کی نظریں اثیر پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔
’’سنس آف ہیومر اچھا ہے اِس کا۔۔۔تم سے مذاق کیا ہوگا۔کوئی لڑکی اِسے کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہے۔‘‘
٭
’’مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔؟‘‘ سونیا نے پریشانی سے سوال پر سوال پوچھ لیا۔ ایک لمحے کو تو اُسے اپنے کانوں کی سماعت پر بھروسہ نہیں آیا ملازم نے ایک خط اُس کی طرف بڑھا دیا اور روکھی آواز میں کہنے لگا:
’’سائیں نے کہا تھا۔۔۔ خط بی بی کو دے دینا اور ناشتہ وغیرہ کروا کر یہاں سے نکال دینا۔۔۔‘‘ سونیا نے ناشتے کی ٹرے کی طرف نظر ڈالی اور پھر ہاتھ میں پکڑے ہوئے خط کی طرف دیکھا۔ ملازم وہاں سے جا چکا تھا۔
سونیا نے خط کھول کر پڑھنا شروع کیا:
’’تمھارے ساتھ گزارے ہوئے دو ہفتے میری زندگی کے مزیدار دنوں میں سے ہیں۔۔۔ دو راتوں کے بعد عورت میری نظروں سے اُتر جاتی ہے۔۔۔پہلی دفعہ میں نے کسی کے ساتھ دو ہفتے گزارے ہیں۔۔۔تمھارے تکیے کے نیچے اتنے پیسے ہیں کہ دو ہفتوں تک کسی ہوٹل میں آرام سے رہ سکتی ہو۔۔۔ تم نے رحیم یار خان واپس جانا ہے یا کراچی میں رہنا ہے یہ فیصلہ تمھارا ہے ۔ میری مانو تو کراچی میں ہی رُک جائو تمھارے جیسی بے شمار آوارہ لڑکیاں اِس شہر میں آتی ہیںاور پھر واپس کبھی نہیں جاتیں۔‘‘
سونیا کی آنکھوں میں آنسو تھے اُس نے خط کو مسل کر پھاڑ دیا، پھر غصے سے ایک طرف پھینکا۔
٭
’’ریلکس بے بی!! ریلکس بس ہوگیا نا۔۔۔بس فائنل ٹچ ہے۔‘‘ میک اپ آرٹسٹ ہنی نے جھومتے ہوئے فضا کو تسلی دی۔ جو بیٹھ بیٹھ کر تنگ آ چکی تھی۔
’’میڈم!! اثیر صاحب کہہ رہے ہیں۔۔۔آپکا ہی ویٹ ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ سیکنڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بڑے ادب سے پاس آکر اطلاع دی ۔
’’اثیر صاحب سے جا کر بولو۔۔۔ ہنی میری نوک پلک سنوار رہا ہے۔۔۔‘‘ فضا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اُس مسکراہٹ نے قہقہے کی شکل اختیار کر لی ، قہقہے میں ہنی نے اُس کا پورا ساتھ دیا۔
سونیا نے منہ میں کہا:
’’نوک پلک۔۔۔؟‘‘ سونیا وینٹی وین کے ساتھ کھڑی ہوئی ساری باتیں سُن رہی تھی۔ فضا نے اثیر کے متعلق اپنی رائے دی:
’’ ہنی!! پانچ سال ہوگئے انڈسٹری میں۔ ایسا ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر میں نے بھی نہیں دیکھا۔‘‘ ہنی نے بھی آنکھوں کے کاجل کو ٹھیک کرتے ہوئے بتایا:
’’اور میں نے ایسا مرد نہیں دیکھا۔۔۔ اُس نے کبھی گندی نظر کسی ایکسٹرا آرٹسٹ پر بھی نہیں ڈالی ،دسمبر میں اِس پروڈیوسر کی اگلی فلم امریکہ میں شروع ہو رہی ہے اُس نے اثیر کو ڈائریکٹر سائن کیا ہے۔۔۔وہ فلم ہاتھ سے مت جانے دینا۔‘‘
’’آئی نو۔۔۔ مگر کیسے۔۔۔؟اثیر کو تو تم جانتے ہو۔۔۔وہ کام کے معاملے میں کسی کی نہیں سنتا۔۔۔ میں نے اثیر کا اسکرپٹ پڑھا ہے۔۔۔ بلیومی ہنی اگر وہ رول مجھے مل جائے تو ۔۔۔وہ میری زندگی کا یاد گار رول ہوگا۔‘‘
’’رومر ہے کسی نئی لڑکی کو کاسٹ کرے گا۔‘‘
’’اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گی!!‘‘ فضا نے اپنے ارادے ظاہر کیے۔
’’لو بے بی تمھاری نوک پلک بھی ہوگئی۔۔۔۔‘‘ہنی نے اپنی کمر کو بل دیتے ہوئے بڑے اسٹائل سے کہا۔
سونیا چلتی ہوئی ہنی اور فضا کے سامنے آگئی۔
فضا نے سونیا کی خوبصورتی دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔ تم کون ہو؟
سونیا نے ایک بلوچی فراک پہنی ہوئی تھی بھوری آنکھوں میں رات کا کاجل تھا جو قدرے کم ہو چکا تھا۔ کالے سیاہ گیسو کندھے سے ہوتے ہوئے ناف تک لٹک رہے تھے اور آدھے پچھلی طرف کمر تک بکھرے پڑے تھے۔
ہنی نے کھلے منہ کے ساتھ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر صرف ایک لفظ بولا۔
واہ۔
’’میڈم شاٹ ریڈی ہے اثیر سر بُلا رہے ہیں۔‘‘ سیکنڈADپھر سے بھاگتا ہوا آیا۔ جب اُس کی نظر سونیا پر پڑی تو اُس نے جلدی سے پوچھا:
’’تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔‘‘
’’میں۔۔۔ وہ۔۔۔ اثیر۔۔۔ ‘‘ سونیا نے پریشانی سے صرف اتنا ہی کہا ۔
’’بے بی تم اثیر کی فیانسی ہو۔۔۔نا ۔۔۔اُو مائی گاڈ یو آر سو بیوٹی فل۔۔۔‘‘
فضا نے سونیا کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور وہاں سے چلی گئی۔ اسسٹنٹ نے جاتے جاتے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے ہنی کو کہا:
’’ ہنی ۔۔۔!! میم کا خیال رکھنا۔۔۔ میں شاٹ کے بعد اثیر سر کو بھیجتا ہوں۔‘‘
’’بڑا آیا سفارشی۔۔۔تم اِدھر آئو بے بی۔۔۔!!‘‘ ہنی نے جلدی سے بڑی نزاکت کے ساتھ سونیا کی ہتھیلی پکڑی اور اُسے بڑے پیار سے بیوٹی چیئر پر بٹھا لیا۔ سونیا کچھ گھبرائی ہوئی تھی ہنی کی میٹھی میٹھی باتوں سے فوراً ہی اُس کا اعتماد بحال ہو گیا۔
’’بے بی!! تم نے اثیر جیسے بندے کو چھوڑ کر کسی اور سے شادی کیوں کی۔۔۔؟تمھیں اثیر کا ویٹ کرنا چاہیے تھا‘‘ ہنی نے گلے کے انداز میں کہا۔ سونیا کچھ سوچ میں پڑگئی پھر ہنی ہی کے انداز میں بولی:
’’اِسی لیے تو مجھے طلاق ہوگئی۔‘‘سونیا نے مسکراتے ہوئے جھوٹ بولا۔
’’اُو مائی گاڈ تمھیں ڈائیوورس ہوگئی۔۔۔ اور تم اتنے خوش موڈ میں ہو۔۔۔‘‘
’’اثیر سے ملنے کی خوشی ہے۔۔۔‘‘ سونیا نے آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے کہا۔
٭
’’تم نے سارے یونٹ کے سامنے یہ کیوں کہا۔۔۔؟ کہ تم میری ایکس فیانسی ہو۔۔۔؟‘‘ اثیر نے اپنی گاڑی کے پاس پہنچ کر پوچھا ، اثیر کے لہجے میںغصہ تھا اِس کے باوجود سونیا شانت تھی اور ٹکٹکی لگائے اثیر کو دیکھے جا رہی تھی۔
’’ایسے دیکھنا بند کرو!! میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔۔۔؟‘‘
’’میری کہانی سنو گے۔۔۔؟‘‘
’’وَٹ۔۔۔!!!‘‘ اثیر حیرت سے چلایا۔
’’میرے ساتھ انگلش مت بولو۔۔۔ مجھے انگلش نہیں آتی ۔۔۔ دوسری بات اِس وقت مجھے بہت سخت بھوک لگی ہے پہلے کچھ کھانا وانا کھلائو ۔۔۔ سوال جواب بعد میں کر لینا۔‘‘سونیا نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا ۔
!‘‘ اثیر دوبارہ سے چلایا۔
کیا تم پاگل ہوَ
’’انگلش نہیں۔۔۔اُردو میں ڈانٹو۔۔۔‘‘ سونیا پر اثیر کے غصے کا رتی بھر اثر نہیں ہوا ۔
’’میں تمھیں کھانا نہیں کھلا سکتا!!‘‘
’’اگر تمھاری منگیتر کہتی تو اُسے بھی نہ کھلاتے۔۔۔؟‘‘
اثیر یہ بات سُن کر سونیا کی طرف دیکھنے لگا سونیا پہلے سے اثیر کو دیکھے جا رہی تھی جس کی آنکھوں میں شرارت اور ہونٹوں پر تبسم تھا۔
’’بیٹھو گاڑی میں!!‘‘ اثیر نے سنجیدگی سے کہا۔
٭
ایک درمیانے سے ریسٹورینٹ میں کھانا کھانے کے بعد اثیر نے سونیا سے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا:
’’تمھیں کہاں ڈراپ کروں۔۔۔‘‘ سونیا نے جلدی سے اثیر کی طرف دیکھا۔
’’مطلب تمھیں کہاں چھوڑ دوں۔۔۔؟‘‘
’’خیر اتنی بھی ان پڑھ نہیں ہوں ۔۔۔آٹھویں پاس ہوں میں۔۔۔‘‘ سونیا نے بڑے فخر سے بتایا ، پھر آنکھوں سے تیر چلاتے ہوئے بولی:
’’جہاں سمندر کنارے تم لوگوں کی فلم بن رہی تھی۔۔۔وہیں سامنے ہوٹل میں۔‘‘
’’تم ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہو۔۔۔؟‘‘ اثیر نے سوالیہ اندا ز میں پوچھا۔
’’میں تمھیں بتانے لگی تھی۔۔۔تم نے کہا میں کھانا کھاتے ہوئے نہ فون سُنتا ہوں اور نہ ہی باتیں کرتا ہوں میری کہانی سُن لوکام آئے گی۔۔۔ہنی بتا رہی تھی۔۔۔اِس فلم کے بعد۔۔۔تم اپنی فلم بنائو گے!!‘‘
’’ ہنی بتا رہا تھا۔‘‘ اثیر نے سونیا کا صیغہ درست کیا۔
’’تھی۔۔۔ ہنی جیسے عورتوں کے ساتھ خود کو زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔‘‘
’’تو پھر تم میرے ساتھ اکیلی۔۔۔یہاں پر کیا کر رہی ہو۔‘‘اثیر تُرش لہجے میں بولا۔
’’مردوں کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔۔۔تم ویسے نہیںہو۔‘‘ سونیا نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی بات کی۔
’’کتنے مردوں کو جانتی ہو۔۔۔؟‘‘ اثیر نے بغیر توقف کے پوچھا۔
’’میں تو بہت سارے مردوں کو جانتی ہوں۔۔۔ویسے مرد ہوتے صرف دوقسم کے ہیں۔‘‘سونیا نے بغیر کسی جھجھک کے مردوں پر رائے دے دی۔
’’قسم۔۔۔؟‘‘ اثیر نے ایک ہی لفظ بولا تھا سونیا پھر سے بول اُٹھی:
’’اچھے اور کمینے۔۔۔تم اچھے مرد ہو۔۔۔!! کمینے وہ ہوتے ہیں بھلے ہی چار شادیاں کر لیں عورتوں کو تاڑنے سے باز نہیں آتے۔۔۔اُن کی نظریں تلوار کی دھار کی طرح ہوتی ہیں۔۔۔جیسے ہی عورت پر پڑتی ہیں عورت خود کو کٹتی ہوئی محسوس کرتی ہے۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہے ہو ۔۔۔؟کار چلائو سمندر پر چل کے بیٹھتے ہیں۔‘‘
سونیا کی بات سُن کر اثیر شش و پنج میں مبتلا ہوگیا۔ ذرا تامل کے بعد اثیر نے پوچھا:
’’تمھیں ڈر نہیں لگتا۔۔۔؟‘‘
سونیا نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے اثیر کو دیکھا اُس کے اُجلے ماتھے پر چند شکنیں نمودار ہوئیں وہ اضطراب سے بولی:
’’میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس کے لٹ جانے کا ڈر ہو۔‘‘
اثیر نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ڈرائیو کرنے لگا تھوڑی دیر بعد وہ دونوں سیمنٹ کی بنی ہوئی ایک سیٹ پر بیٹھے ہوئے چودھویں رات کی چاندنی میں نہاتے ہوئے سمندرکو دیکھ رہے تھے۔ سیمنٹ کی ٹیک والی سیٹ کے ایک کونے پر اثیر بیٹھا ہوا تھا اور دوسرے کونے پر سونیا اُن دونوں کے درمیان تیسرا شخص آرام سے بیٹھ سکتا تھا۔
’’میرے امی ابّو بچپن میں مر گئے تھے ہم دو بہنیں اور ایک ہمارا بھائی ہے۔۔۔میری بھابھی کا باپ میری بہن کا کھسم ہے۔‘‘ اثیر یہ سُن کر ششدر رہ گیا ۔
’’سچ بول رہی ہوں۔۔۔ ڈھکوسلا نہیں ہے۔‘‘ سونیا کی ملائم آواز یک دم خرخراہٹ محسوس ہونے لگی۔
’’بھائی میرا کباڑیہ ہے۔۔۔اُس نے خود جوان لڑکی سے شادی کرنے کے لیے۔۔۔بہن میری کو اُس بڈھے کھوسٹ کے کھونٹے سے باندھ دیا۔ وٹے سٹے کی شادی تھی وہ۔۔۔ بھابھی گھر میں آئی۔۔۔تو اُسے میرا وجود کھٹکنے لگا۔۔۔اُس نے اپنی ایک سہیلی کے بیوٹی پارلر میں مجھے کام پر لگوادیا۔ اُس بیوٹی پارلر میں میری دُرانی کے ساتھ ملاقات ہوئی وہ مجھے کراچی لے آیا۔۔۔ دُرانی ایک نمبر کا حرامی تھا۔۔۔شادی کا وعدہ کرکے لایا تھا ۔۔۔مجھے لگا مجھے اُس حرامی سے عشق ہوگیا ہے۔ پندرہ دن میرے ساتھ عیش کرنے کے بعد۔۔۔اُس کی عیاشی میری عاشقی کو کھاگئی۔ ایک دن پہلے ہی اِس ہوٹل میں آئی تھی۔ آج صبح میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے تم لوگوں کو دیکھا۔ میں سمجھی کوئی میلہ لگا ہوا ہے۔ جب میں آئی تو ہنی تمھاری ہیروئن کا میک اپ کر رہا تھا میں ویگن کے پیچھے کھڑی ہو کر باتیں سُننے لگی۔ تھوڑی دیر بعد میں اُن کے سامنے آگئی تو ہنی نے جلدی سے پوچھا تم اثیر کی فیانسی ہو۔۔۔میں نے بھی ہاں میں گردن ہلا دی۔‘‘
سونیا بات کرتے ہوئے مسلسل اثیر کو دیکھے جا رہی تھی۔ اُس کے برعکس اثیر مسلسل سمندر کی لہروں کو دیکھ رہا تھا مگر اُس کے کان ہمہ تن گوش تھے۔
’’وہ بیوٹی پارلر نہیں۔۔۔حُسن کی منڈی تھا۔‘‘
سونیا کے جملے نے اثیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔
’’سمجھ گئے ہو۔۔۔یا سمجھائوں۔۔۔؟‘‘
’’کیا سمجھا رہی ہو۔۔۔آدھی رات کو۔‘‘ دو پولیس والوں میں سے ایک منہ میں پان چباتے ہوئے بولا ، دوسرے نے سگریٹ چھوٹی انگلی میں لگایا ہوا تھا ،اُس نے اپنی مٹھی بند کرکے سگریٹ کا لمبا کش لگایا۔ اثیر نے اپنی کمانڈو ٹائپ ویس کوٹ کی بڑی بڑی پاکٹیں ٹٹولیں اور جلدی سے ایک بڑے نیوز چینل کا کارڈ نکالتے ہوئے پولیس والوں کو دکھا کر بولا:
’’میڈیا۔۔۔‘‘ دونوں نے غور سے چینل کے کارڈ کو دیکھا سگریٹ والے نے جلدی سے اپنا سگریٹ سمندر کی ریت پر پھینک کر اُسے پائوں سے مسل دیا اور بڑے مہذب لہجے کے ساتھ مشورہ دینے لگا:
’’سر رات بہت ہوگئی ہے بھابھی جی کو لے کر گھر جائیں۔‘‘
سونیا اور اثیر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور وہاں سے اُٹھ گئے۔
٭
’’چار ماہ ہمیں ساتھ رہتے ہوئے ہوگئے۔۔۔بلڈنگ والے اور تمھارے دوست مجھے تمھاری منگیتر ہی سمجھتے ہیں۔۔۔لیکن میں آج تک تمھیں سمجھ نہیں پائی۔۔۔ ہنی کے پارلر میں مجھے رکھوایا۔۔۔اب مجھے پارلر بنوا کر دے رہے ہو۔۔۔ تم نے پارلر پر اتنے سارے پیسے بھی لگا دیئے ہیں کیوں۔۔۔؟‘‘ سونیا صوفے پر اثیر کے ساتھ چپک کر بیٹھی تھی۔ اثیر نے حرکت کی اور آگے کو کھسک گیا سونیا اپنی شرارت پر خود ہی زیر لب مسکرائی ۔۔۔اثیر نے اپنا لیپ ٹاپ بند کیا اور سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا۔
’’چائے پیو گی۔۔۔؟ اثیر نے اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے کچن کی طرف جاتے ہوئے پوچھا۔ اُس نے سونیا کی بات سُنی اَن سُنی کر دی تھی۔ اثیر چائے بنانے میں مصروف ہوگیا سونیا جا کے اُس کی کمر سے لپٹ گئی اثیر نے اُسے بڑے تحمل سے خود سے الگ کیا اور کہنے لگا:
’’نہ شرارت کیا کرو۔۔۔ تمھیں پتہ ہے یہ سب کچھ مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘
’’کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے کہ تم بھی ہنی جیسے ہی ہو۔‘‘ سونیا نے شرارتی انداز میں کہا۔
’’شادی کروگی مجھ سے۔۔۔؟‘‘ اثیر کی آواز میں سچائی کے ساتھ ساتھ موسیقیت بھی تھی۔ سونیا جیسی لڑکی بھی یہ سُن کر خاموش ہوگئی جیسے کسی نے اُس سے اُس کی قوت گویائی ہی چھین لی ہو۔
٭
’’اثیر مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔۔۔‘‘ سونیا نے ہنی کو بتایا ہنی یہ سُن کر عش عش کر اُٹھا۔
’’رئیلی۔۔۔تم سچ کہہ رہی ہو بے بی۔۔۔‘‘ ہنی نے سونیا کی بات کی تصدیق چاہی تو سونیا نے شرماتے ہوئے گردن کو جنبش دی۔
’’او مائی گاڈ۔۔۔ سونیا!!‘‘ ہنی ایسے خوش ہو رہا تھا جیسے سونیا نے تسخیر قمر کر لیا ہو۔
’’مگر میں اُس سے شادی کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔میں نے تمھیں اپنے بارے میں سب کچھ بتایا تو ہے۔۔۔‘‘ سونیا کی آواز ڈبڈبا رہی تھی۔
’’اثیر نے سب جانتے ہوئے تمھیں پرپوز کیا ہے۔‘‘ہنی جلدی سے بولا۔ سونیا نے اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے جھر جھری لی۔
٭
’’یہ تمھارے پارلر کی چابی۔۔۔سائن بورڈ لگنے والا ہے اور کیٹلاگ اور بروشیئر وغیرہ پرنٹ ہونے باقی ہیں۔۔۔تم نام ڈیسائیڈ کر لیتی تو یہ کام بھی ہو چکے ہوتے پارلر کا کوئی نام سوچا ہے کہ نہیں۔۔۔؟‘‘
اثیر نے صوفے پر سونیا سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے ہوئے پارلر کی چابی کو سونیا کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ۔ سونیا نے اپنی خالی ہتھیلی آگے کی اثیر نے اُس پر چابی رکھ دی۔ سونیا نے کہنا کچھ تھا اور اُس نے بول کچھ اور دیا:
’’جہاں اتنا کچھ کیا ہے۔۔۔نام بھی خود ہی رکھ دو۔۔۔‘‘
سونیا گو مگو کی کیفیت میں مبتلا تھی وہ اثیر سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں کر پا رہی تھی پھر اُس نے بول ہی دیا:
’’اثیر میں تمھارے قابل نہیں ہوں۔۔۔تم کسی اور سے شادی کر لو۔۔۔تم بڑے اچھے انسان ہو۔۔۔‘‘سونیا کی بات سُن کو اثیر کچھ سوچ میں پڑ گیا اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ سونیا کے انکار پر کیا کہے پھِر اُس نے ہمت کرکے اپنے ماضی کے دریچے کھولے اور سونیا کو بتانے لگا:
’’تم نے کہا تھا مرد اچھے ہوتے ہیں یا کمینے۔۔۔میں بھی ایک نمبر کا کمینہ ہو ۔۔۔ہمیشہ خود کی خواہشوں کو اہمیت دی کبھی کسی کے بارے میں نہیں سوچا۔۔۔میں نے آج تک کراچی میں کسی کو اپنی حقیقت نہیں بتائی آج تمھیں بتارہا ہوں۔۔۔میرا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔ میں گدی نشین سید ہوں۔۔۔ہمارا گھرانہ بڑا مذہبی ہے میں گھر سے حفظ کرنے جاتا، مدرسے جانے کی بجائے سینما میں گھس جاتا تھا۔ قرآن تو میں نے حفظ کر لیا مگر میرا سینما کاشوق بڑھتا رہا۔تایا جی کی بیٹی سعدیہ سے میری بچپن ہی سے نسبت طے تھی۔ لاہور سے میں نے میڈیا کمیونی کیشن میں ماسٹر کیا ہے۔ کالج کم ایورنیو باری اور شباب سٹوڈیو میں زیادہ پایا جاتا۔ کالج کے دوران ہی دو تین فلمیں اسسٹ کر چُکا تھا۔ کالج ختم ہوا تو میںلاہور سے لوٹا۔ سالوں بعد سعدیہ کو غور سے دیکھا وہ جوان ہو چکی تھی ہمارے گھر ساتھ ساتھ تھے۔ تایا ابو سعدیہ اور ناذیہ کی شادی اکٹھی کرنا چاہتے تھے ناذیہ کا منگیتر جدہ میں ہوتا تھا اُس کی چھٹی کا مسئلہ تھا اِس لیے شادی میں چھ ماہ کی تاخیر ہوگئی۔ ایک دن تایا کے گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے میں تایا کے گھر چلا گیا سعدیہ گھر میں اکیلی تھی میں نے اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے سعدیہ کو مجبور کیا ۔اُس معصوم نے میری ضد کے آگے ہار مان لی تھی۔ جس کے نتیجے میں سعدیہ پریگنٹ ہوگئی جب دونوں گھرانوں کو اِس بات کا پتہ چلا تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ تب تک تایا کو میرے اِس خفیہ شوق کی خبر بھی مل چُکی تھی۔
’’تایا کہنے لگے۔۔۔سیدوں کا بیٹا اور شوق کنجروں والے ۔۔۔فلم والوں کے ساتھ رہتے ہو۔ اِس وجہ سے تم نے یہ بے غیرتی کی ہے۔‘‘
تایا نے میرے سامنے فلم انڈسٹری چھوڑنے کی شرط رکھ دی۔ اُس وقت تو میں خاموش رہا اگلے دن میرا سعدیہ سے نکاح تھا۔ اُسی رات ہماری فلم کے یونٹ کو تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہونا تھا میں راتوں رات لاہور پہنچا اور تھائی لینڈ چلا گیا۔‘‘ اثیر نے نظریں جھکائے ہوئے ایک ساتھ ساری باتیں سونیا کو بتائیں پھر خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد اُٹھا اور کچن میں پانی پینے چلا گیا۔ اثیر پانی کا گلاس اپنے ہونٹوں سے لگانے ہی لگا تھا سونیا نے جلدی سے اُس کی کلائی پکڑ لی پانی گلاس سے چھلک گیا۔
’’پھر سعدیہ کا کیا بنا۔۔۔؟‘‘ سونیا نے سٹپٹاہٹ سے پوچھا۔
’’سعدیہ نے خود کشی کر لی۔‘‘ اثیر نے شکست ور یخت سے بتایا اور سر پکڑ کر وہیںپر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
٭
اگلے دن صبح ہی صبح اثیر اپنے فلیٹ سے نکل گیا۔ ہمیشہ کی طرح اپنی سنانے اور گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اُس نے اپنے سب سے قریبی دوست دانیال کو گوجرانوالہ کال کی:
’’کیا۔۔۔؟ تم نے اُس لڑکی کو پرپوز کر دیا۔۔۔ جو پہلے کال گرل تھی پھر کسی کے ساتھ کراچی بھاگ آئی۔۔۔تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔کیا پاگل ہوگئے ہو۔۔۔؟‘‘ دانیال کی آواز میں تعجب کے ساتھ ساتھ غصہ بھی تھا۔
’’اُس نے میرا پرپوزل ابھی ایکسپٹ نہیں کیا۔۔۔‘‘اثیر اُداسی سے بولا۔
’’سیدوں کا لڑکا اب ایسی لڑکی سے شادی کرے گا۔۔۔؟‘‘ دانیال کے لہجے میں طنزیہ نشتر تھے۔
’’جو سیدوں کے لڑکے نے ایک معصوم کے ساتھ کیا وہ۔۔۔؟‘‘ اثیر کے زخم پھر سے ہرے ہوگئے ۔
’’آگ سے آگ نہیں بجھتی۔۔۔۔ اثیر!!‘‘
’’جانتا ہوں۔۔۔اِسی لیے اپنے گناہوں کی آگ پر سونیا کی مجبوری کا میلاپانی ڈال کر اُسے بجھانا چاہتا ہوں۔۔۔ دُعا کرو کہ وہ مان جائے۔‘‘
اثیر کے منہ سے یہ سُنتے ہی دانیال نے قہقہ لگایا اور ہنستے ہنستے کہنے لگا:
’’دُعا۔۔۔؟ کس کو دعائوں میں مانگ رہے ہو۔۔۔تمھارا اللہ ہی حافظ ہے۔‘‘ دانیال نے فون بند کر دیا۔
’’میں منافق ہوں اور وہ گناہگار۔۔۔
میں جھوٹا ہوں اور وہ سچی۔۔۔
میں نے دھوکہ دیا ہے اور اُس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔۔
میرے ظاہر باطن میں فرق ہے اور اُس کا ظاہر باطن ایک ہی ہے۔۔۔
میں خواہش کا غلام ہوں اور وہ مجبوری کی باندی۔۔۔
تو پھر کیوں نہ اُسے دُعائوںں میں مانگوں‘‘
اثیر بیٹھا ہوا خیالوں ہی خیالوں میں اپنا اور سونیا کا موازنہ کر رہا تھا۔
٭
سارا دن باہر گزارنے کے بعد آدھی رات کو جب اثیر دبے پائوں فلیٹ پر پہنچا اُس نے ہولے سے فلیٹ کا دروازہ کھولا، وہ لائونج سے گزر کر اپنے کمرے میں جا رہا تھا۔ لائونج میں اندھیرا تھا۔
’’شادی کے بعد۔۔۔میں تمھارے ماں باپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘‘
رات کے سناٹے کو سونیا کی آواز نے توڑا وہ لائونج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اثیر نے جلدی سے لائونج کی لائٹ  جلائی ۔
’’کہاں تھے سارا دن۔۔۔تمھارا موبائل بھی بند تھا۔۔۔ میں نے کتنی بار تمھیں کال کی۔۔۔میں نے اور ہنی نے ہر جگہ تمھیں تلاش کیا۔‘‘ سونیا اپنائیت سے اپنی دُھن میں بولے جا رہی تھی اور اثیر کی نظریں اُس کے مکھڑے پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ بُت بنا اپنی جگہ پر ساکن کھڑا تھا سونیا اُس کے پاس گئی اور اثیر کی شرٹ کو بڑے پیار سے پکڑ کر کہنے لگی:
’’میں بھی تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ سونیا نے اثیر کے گلے لگتے ہوئے اظہار محبت کیا۔ اثیر نے بڑے پیار سے سونیا کو خود سے الگ کرتے ہوئے کہا:
’’ابھی ہمیں ایک دوسرے سے دور رہنا چاہیے۔۔۔میں دوبارہ وہی گناہ نہیں کرنا چاہتا!!‘‘یہ بول کر اثیر اپنی خوشی چھپاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
٭
اگلے دن صبح ناشتے کی میز پر اثیر اور سونیا شرماتے ہوئے ایک دوسرے سے نظریں چُرا رہے تھے۔
’’اگلے ہفتے میری فلم کا یونٹ امریکہ چلا جائے گا، اِس دِن کا میں نے سالوں انتظار کیا ہے۔ فلم میکنگ میرا جنون ہے۔۔۔میں تمھارا شوق بھی پورا کرنا چاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ امریکہ جانے سے پہلے تمھارے پارلر کی اوپننگ بھی ہو جائے ۔‘‘
’’فلم میکنگ تمھارا جنون ہے اور پارلر بنانا میرا شوق تھا۔۔۔اِن جذبوں کے درمیان ہم دونوں کہاں ہیں۔‘‘ سونیا نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ہم دونوں آمنے سامنے ہیں۔‘‘ اثیر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہماری شادی کب ہوگی۔۔۔؟‘‘ سونیا نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’شادی فلم کی ریلیز کے اگلے دن۔۔۔شادی کے بعد ہم کراچی میں ہی رہیں گے، وہ اِس لیے کہ ۔۔۔امی بچپن میں فوت ہوگئی تھیں اور ابو دو سال پہلے۔۔۔پانچ بڑے بھائی ہیں جو اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔ دانیال سے اُن کی خیرخیریت پوچھتا رہتا ہوں۔ پانچوں میں صرف ایک ہی بات کا من ہے!! وہ سب میری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔۔۔اِس لیے گوجرانوالہ جا نہیں سکتے۔‘‘ اثیر نے اتنی تفصیل سے بتایا، سونیا کی طرف سے اگر، مگر، کیوں کا سوال ہی نہیں اُٹھا۔
’’تم مجھے پارلر کا نام بتا دو۔۔۔تاکہ میں آج ہی سائن بورڈ کے لیے کہہ دوں۔‘‘ اثیر نے چائے کا کھونٹ لیتے ہوئے کہا۔
’’سونیا بیوٹی پارلر۔۔۔‘‘ سونیا نے سادگی سے کہہ دیا یہ سُن کر اثیر مسکرا اُٹھا اور سونیا کو محبت سے دیکھ کر بولا:
’تم آرٹسٹ بنو۔۔۔بیوٹیشن نہیں۔۔۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ سونیا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’آرٹسٹ بیوٹیشن ہو سکتی ہے۔۔۔بیوٹیشن آرٹسٹ نہیں۔۔۔ پارلر کا نام ایسا ہو جس میں پارلر کا تذکرہ نہ آئے۔۔۔کیونکہ پارلر تو بیوٹیشن چلاتی ہیں۔۔۔اور تم تو آرٹسٹ ہو۔‘‘
’’نام بھی تم ہی رکھ دو۔۔۔‘‘ سونیا نے محبت کے ساتھ اثیر سے درخواست کی۔
’’نوک پلک‘‘
“The Art of Beauty”
اثیر نے پارلر کا نام تجویز کر دیا جو کہ سونیا کو بہت پسند آیا۔ دو دن بعد پارلر کا سائن بورڈ لگ گیا۔ اور اثیر کے امریکہ جانے سے ایک دن پہلے اثیر نے پارلر کی گرینڈ اوپننگ رکھی جس میں فلم اور ٹی وی کی مشہور سٹارز نے شرکت کی۔ راتوں رات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ’’نوک پلک‘‘کی دھوم مچ گئی۔ اگلے دن ڈیفنس اور کلفٹن کی ساری بیگمات نے ’’نوک پلک‘‘ کا رُخ کیا۔
سونیا کو ہنی کی چار ماہ کی ٹریننگ بڑی کام آئی۔ ہنی نے اثیر کی سفارش پر سونیا کو کام سے لے کر ڈیلنگ تک سب کچھ سکھایا۔ سونیا بہت خوش تھی اُس سے کہیں زیادہ اثیر خوش تھا اثیر کا ایک خواب پورا ہو گیا۔ وہ ڈائریکٹر کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ اثیر ہر روز امریکہ سے سونیا کو فون کرتا۔ کام کی مصروفیت کی وجہ سے اگر فون میں تھوڑی سی تاخیر بھی ہو جاتی تو سونیا خود اثیر کو کال کر لیتی۔اڑھائی ماہ اِسی طرح گزر گئے ۔
٭
’’مسز پٹیل۔۔۔! آپ ہر روز دلہن کی طرح کس کے لیے تیار ہوتی ہیں۔‘‘ سونیا نے کنول خاور پٹیل کی نوک پلک سنوارتے ہوئے پوچھا۔ کنول نے سونیا کی اسسٹنٹ کی طرف دیکھا۔ سونیا کنول کی آنکھ کا اشارہ سمجھ گئی۔
’’تم جائو۔۔۔‘‘ سونیا نے اپنی اسسٹنٹ کو باہر بھیج دیا۔
’’خاور پٹیل کے لیے تمہیں پتہ تو ہے ۔۔۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔‘‘سونیا نے کنول کے پیچھے کھڑے ہو کر شیشے میں کنول کو دیکھا دونوں کی نظریں ملیں۔
’’آج آپ بہت خوبصورت لگ رہی ہیں۔‘‘ سونیا نے رسمً کہہ دیا۔
’’میری خوبصورتی میک اپ کی محتاج ہے اور تمھارا حُسن دیکھنے والے کو محتاج کر دے۔‘‘ کنول نے سونیا کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا،جس پر کچھ پریشانی تھی۔
’’پرسوں ہماری ویڈنگ اینیورسری ہے ایک عالی شان پارٹی کا اہتمام کیا ہے پٹیل صاحب نے تم ضرور آنا۔‘‘
’’جی میں ضرور آئوں گی۔‘‘ سونیا نے اُداسی سے کہا۔ کنول نے اُس کی اُداسی دیکھ کر پوچھا:
’’خیریت تو ہے۔۔۔؟‘‘
’’جی مسز پٹیل خیریت ہی ہے۔۔۔‘‘
’’مجھے بتا سکتی ہو۔۔۔میں بھی تو ہر بات تم سے شیئر کر لیتی ہوں۔۔۔کم آن سونیا ! ٹیل می۔۔۔ کوئی پرابلم ہے تو مجھے بتائو۔۔۔‘‘
’’کل امریکہ سے ہنی کی کال آئی تھی۔۔۔اُس نے بتایا!! اثیر اور فضا کی نزدیکیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔‘‘ سونیا نے رِندھی ہوئی آواز میں خبر سُنائی۔
’’فضا وہ فلم ایکٹرس۔۔۔؟‘‘ کنول نے فکر مندی سے پوچھا۔ سونیا نے ہارے ہوئے جواری کی طرح گردن ہلا دی ۔
’’تم تو کہتی تھی اثیر بڑا شریف آدمی ہے۔۔۔‘‘
’’میں تو اب بھی اثیر کو شریف آدمی ہی سمجھتی ہوں۔۔۔ وہ تو فضا ہی ایسی ہے، پہلے فضا نے اِس فلم کے رول کے لیے ساری حدیں پار کر دی تھیں اور اب اگلی فلم کے چکر میں پڑ گئی ہے۔۔۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ہنی کا جو ہر بات سے مجھے آگاہ کر دیتا ہے۔ میں اِس لیے چاہتی تھی کہ امریکہ جانے سے پہلے میرا اور اثیر کا نکاح ہو جائے۔‘‘ سونیا کی آواز حسرت میں ڈوبی ہوئی تھی۔
’’ڈونٹ وری!! فضا ۔۔۔ اثیر سے شادی کبھی نہیں کرے گی۔ ‘‘ کنول کی بات سُن کر سونیا نے حیرت سے کنول کو دیکھا۔
’’ہیروئن شادی کرلے تو وہ ہیروئن ہی نہیں رہتی ۔۔۔وہ تو بیوی بن جاتی ہے۔ شادی شدہ ہیروئن کی مارکیٹ ویلیو کم ہو جاتی ہے۔‘‘ کنول کی بات سُن کر سونیا کو کچھ تسلی ہوئی۔
’’آنے دو اثیر کو میں بھی اِسی طرح رُلائوں گی۔۔۔ جس طرح اُس نے مجھے رُلایا ہے۔‘‘ سونیا نے ٹشو پیپر سے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی۔
٭
تین ماہ بعد اثیر امریکہ سے لوٹا وہ سونیا کو سرپرائز دینے کے لیے بغیر اطلاع کے آیا تھا۔ ایئر پورٹ سے سیدھا وہ نوک پلک پہنچا۔
’’سونیا کہاں ہے۔۔۔؟‘‘ بے دھڑک اندر داخل ہوتے ہوئے اُس نے رسیپشنسٹ سے پہلا سوال یہی پوچھا۔
’’میڈم اپنے کیبن میں ہیں۔۔۔‘‘ ریسیپشنسٹ نے پریشانی سے اطلاع دی۔ اثیر جلدی سے سونیا کے کیبن کی طرف لپکا اُس نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک درمیانی عمر کی فربہ جسم کی خاتون بیٹھی ہوئی تھی۔
’’آپ کون ہیں۔۔۔؟‘‘ اثیر نے تشویشی انداز کے ساتھ پوچھا ،وہخاتون یہ سن کر مسکراتے ہوئے کہنے لگی:
’’مرجھایا ہوا کنول۔۔۔اثیر صاحب آپ تشریف رکھیں سب بتاتی ہوں۔‘‘ اثیر بیٹھ گیا اور ارد گرد دیکھ کر چُپ نہ رہ سکا:
’’سوری میں سمجھا نہیں۔۔۔‘‘ اثیر کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔
’’سمجھاتی ہوں۔۔۔کنول خاور پٹیل ہوا کرتی تھی میں۔۔۔اور اب صرف کنول ہوں۔‘‘
’’آپ کنول پھول جو بھی ہیں۔۔۔اُٹھیں یہاں سے یہ میری سونیا کی جگہ ہے۔۔۔کلائنٹ ہیں تو ویٹنگ ہال میں جا کر بیٹھیں۔‘‘
’’نوک پلک کی نئی مالکن میں ہوں۔۔۔حق مہر میں ملا ہے مجھے تمھارا نوک پلک۔۔۔تمھاری بھی ایک امانت ہے میرے پاس۔۔۔‘‘ کنول نے اپنی ٹیبل کی دراز سے ایک چیک نکال کر اثیر کے سامنے رکھ دیا۔
’’نوک پلک پر جتنا خرچہ آیا تھا۔۔۔اُس سے ڈبل پٹیل صاحب نے تمھیں واپس کر دیا ہے۔‘‘
’’یہ پٹیل کون ہے۔۔۔؟‘‘ اثیر غصے سے چلایا اُتنی ہی مٹھاس سے کنول نے اُسے بتایا:
’’سونیا کا ہسبینڈ‘‘ کنول کے منہ سے نکلے ہوئے تین لفظ اثیر کے سینے میں ’’نوک‘‘ بن کر لگے اُس کی پلک نہیں پلکوں کے نیچے آنکھوں میں نمکین پانی سے جلن ہونے لگی وہ اپنے اشکوں کو گرنے سے پہلے چھپانا چاہتا تھا اِس لیے جلدی سے کرسی سے اُٹھا۔
’’بیٹھ جائو اثیر!! جانتی ہوں تم میرے سامنے آنسو نہیں گرانا چاہتے۔۔۔؟ ذرا میرے بارے میں سوچو میری دسویں ویڈنگ اینیوورسری پر میرے ہسبینڈ نے مجھے ڈیورس جیسا گفٹ دیا تھا۔۔۔اور یہ گفٹ سونیا کی بدولت مجھے ملا ہے۔۔۔‘‘اثیر کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ کر کنول مسکرائی۔
’’میں نے تو اُسے اپنا گرومان لیا ہے۔۔۔یہ مسکراہٹ جو میرے چہرے پر دیکھ رہے ہو، یہ جیت کے بعد ہار کی ہے‘‘
’’کیسی ہار جیت۔۔۔‘‘ اثیر نے اپنی بھیگی پلکیں صاف کیں۔
’’خاور پٹیل کی پہلی بیوی کی ڈیتھ ہوگئی تو اُس نے اپنے بچوں کو لندن نانا نانی کے پاس بھیج دیا اور خود اپنی سیکرٹری سے دوسری شادی کر لی اُن کی شادی کو چھ سات سال ہی گزرے تھے کہ مجھے خاور کے آفس میں اکائوٹنٹ کی جاب مل گئی ، انہی دنوں خاور اور اُس کی وائف کے درمیان دوسری عورتوں کو لے کر ٹینشن چل رہی تھی۔ خاور ایک وقت میں کئی ساری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتا ہے ۔ جس کا فائدہ میں نے اُٹھایا اور خاور کی دوسری وائف کو ڈیورس دلوا کر خود خاور سے شادی کر لی۔۔۔ میں کنول سے کنول خاور پٹیل بن گئی۔۔۔پر اندر سے رہی اکائوٹنٹ کی اکائوٹنٹ ہی میں 50  ، 60 لاکھ کے بینک بیلنس پر ہی خوش تھی۔۔۔مگر سونیا بزنس مین نکلی اُس نے منہ دکھائی میں ہی مرسڈیز اور کروڑوں کا بنگلہ لیا ہے۔۔۔شادی سے پہلے لاکھوں کی جیولری الگ سے۔۔۔شادی کے ایک ہفتے بعد ہی سونیا کے اکائونٹ میں کروڑوں روپیہ ہے۔‘‘
’’آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔۔۔سونیا ایسی بالکل بھی نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’تو پھر تم سونیا کو جانتے نہیں ہو۔۔۔ میری بھی مت ماری گئی ہے۔۔۔سوال یہ ہے کہ اگر تم سونیا کو جان جاتے تو اِس حال کو نہ پہنچتے۔‘‘ اثیر کو ایسے لگا جیسے کنول اُس کا تمسخر اُڑا رہی ہے اثیر کا دل کرچی کرچی ہو چُکا تھا اس کے باوجود وہ دل کو تھپتھپا کر دلاسے دے رہا تھا۔ آخر کار اثیر ڈگمگاتی ہوئی آواز میں بول اُٹھا:
’’میں آپ کی باتوں پر کیوں یقین کروں۔‘‘
’’تمھیںیقین کرنا بھی نہیں چاہیے۔۔۔‘‘ کنول نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کو دیکھا۔
’’سات بجے وہ آجائے گی تم خود دیکھ لینا۔۔۔‘‘ اثیر نے ٹائم دیکھنے کی غرض سے وال کلاک کی طرف دیکھا جس کے اوپر یکم اپریل کی ڈیٹ تھی ۔ اثیر نے زور دار قہقہہ لگایا اور اپنی جگہ سے اُٹھ گیا ۔
’’آپ کی باتیں سُننے کے بعد میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔۔۔سچ کہوں تو آپ نے مجھے رُولا دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ابھی پرسوں ہی میری سونیا سے فون پر تفصیل سے بات ہوئی تھی۔ آپ سونیا کی فرینڈ ہیں۔ آپ سے کیا پردہ ، تین ماہ کے عرصے کے دُوران صرف کل میں نے سونیا سے بات نہیں کی۔۔۔اب میں سمجھ گیا ہوں۔۔۔آپ دونوں ڈرامہ کر رہی ہیں۔آج یکم اپریل ہے۔۔۔۔آپ مجھے سونیا کے کہنے پر فول بنا رہی ہیں۔‘‘
’’بنا رہی ہوں۔۔۔؟ اثیر صاحب محبت میں انسان ویسے بھی فول ہی بن جاتا ہے۔۔۔میں تو بزنس مین بھی اسٹوپڈ ہی نکلی۔۔۔‘‘
’’بزنس۔۔۔؟ ٹائٹل اچھا ہے ۔۔۔مگر ؟کنول ! !آپ کی اسٹوری میں بہت جھول ہیں۔کہانی بھی بہت کمزور ہے۔ اتنا بڑا بزنس مین اور تین عورتیں پلاننگ کرکے اُس سے شادی کر لیتی ہیں اور اُسے پتہ بھی نہیں چلتا۔۔۔‘‘اب اثیر کنول کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا جیسے کسی نئے رائٹر سے فلم کی کہانی سُن رہا ہو۔
’’ہماری پلاننگ جہاں ختم ہوتی ہے۔۔۔خاور اُس سے آگے سوچنا شروع کرتا ہے۔۔۔اٹھاون کا ہوگیا ہے۔۔۔ خوبصورت لڑکیوں کو دیکھ کر آج بھی اُس کی رال ٹپک جاتی ہے۔۔۔وہ حسن کو دیکھ کر اُس کی قیمت لگاتا ہے۔ کسی کی قیمت چند گھنٹے ہوتے ہیں اور کوئی دس سال۔۔۔ جس حُسن کو میک اپ کی ضرورت پڑنے لگے وہ اُسے چھوڑ دیتا ہے چاہے وہ کنول ہی کیوں نہ ہو۔۔۔مثال تمھارے سامنے بیٹھی ہے۔۔۔سُنا تو ہوگا کیچڑ میں کنول کھلتا۔۔۔وہ کیچڑ کو نہیں دیکھتا۔۔۔ تازے کھلے ہوئے کنول کو دیکھتا ہے۔۔۔‘‘
’’اثیر مسلسل مسکرا رہا تھا جب سے اُسے پتہ چلا کہ آج یکم اپریل ہے وہ کافی ریلکس ہو گیا تھا۔
’’آپ بڑی اچھی ایکٹر ثابت ہو سکتی ہیں۔۔۔کیا عمدہ سین کیا ہے آپ نے۔۔۔اگلی فلم میں آپ کو ضرور چانس دوں گا۔۔۔پرامس۔۔۔‘‘ انٹر کام کی بیل نے اثیر کی باتوں کے سلسلے کو روکا۔۔۔کنول نے مسکراتے ہوئے ریسور اُٹھایا۔
’’سونیا خاور پٹیل آچکی ہیں۔۔۔ اور اثیر صاحب کو بلایا ہے۔‘‘ کنول نے ریسور رکھ دیا۔
’’جائیں اثیر صاحب میڈم آچکی ہیں۔۔۔آپ اُن سے مل سکتے ہیں۔‘‘
٭
اثیر نے جلدی سے دروازہ کھولا ۔۔۔سونیا نے پلٹ کر دیکھا سونیا کا جھلملاتا ہوا رُخِ پرنور سامنے تھا۔ ہونٹوں پر تبسم آنکھوں میں شرارت۔۔۔وہ پہلے سے کہیں زیادہ شوخ اور چلبلی نظر آ رہی تھی۔ اثیر خوابیدہ آنکھوں سے اسے تک رہا تھا، وہ ہکا بکا تھا کیا یہ وہی سونیا ہے جسے تین ماہ پہلے چھوڑ کر وہ گیا تھا۔اثیر سونیا کے مکھڑے کی بھول بھلیوں سے نکلا تو اُس کی نظر سونیا کے گلے میں ڈائمنڈ کے نیکلس پر پڑی پھر کلائی کے کنگن پر اور دوسری کلائی سونے کی چوڑیوں سے بھری پڑی تھی۔
’’ڈائمنڈ کے ساتھ گولڈ کون پہنتا ہے سونیا۔۔۔؟‘‘ اثیر نے بے تابی سے سونیا کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔ سونیا نے بڑی نزاکت سے اثیر سے الگ ہوتے ہوئے جواب دیا:
’’اثیر تم گناہ کر رہے ہو۔۔۔ہماری شادی نہیں ہوئی۔۔۔تم ہی نے تو کہا تھا ابھی ہمیں ایک دوسرے سے دُور رہنا چاہیے۔‘‘
’’بہت دُور دُور رہ لیا۔۔۔اب یہ دُوری برداشت نہیں ہوتی۔۔۔تم چلو میرے ساتھ ہم ابھی نکاح کرتے ہیں۔‘‘ اثیر نے سونیا کی کلائی پکڑتے ہوئے کہا۔ سونیا نے اپنی کلائی اور اثیر کے ہاتھ کی طرف دیکھا پھر دلفریبی سے کلائی چھڑاتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولی:
’’مجھے تیار تو ہونے دو۔‘‘
’’اور کتنا تیار ہوگی تم۔۔۔؟ خود کو نظر لگائو گی کیا۔۔۔پہلے ہی کتنی حسین لگ رہی ہو۔۔۔کیا شاندار ڈریس پہنا ہے اوپر سے جیولری ۔۔۔میک اپ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘ اثیر نے الفت سے حقیقت بتائی۔
’’ اب جس کلاس سے میرا تعلق ہے۔۔۔وہاں میک اپ اُترنے ہی کب دیا جاتا ہے۔۔۔میک اپ کی ضرورت نہ بھی ہو تو ہم نوک پلک ضرور سنوارتے ہیں۔۔۔‘‘
سونیا سے ملنے کے بعد پہلی بار اثیر کے رُخسار پر تشویش نے ڈیرے ڈالے تھے۔
’’کلاس۔۔۔؟‘‘ اثیر کی آواز میں حیرانی ہے۔
’’بیٹھ جائو اثیر۔۔۔میں تمھارے لیے جوس منگواتی ہوں۔‘‘ اثیر سونیا کی ستم ظریفی دیکھتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گیا۔سونیا نے انٹر کام کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ہینڈ بیگ سے آئی فون سیون  نکالا اور بڑے اسٹائل سے کال ملائی۔
’’دو فریش پائن ایپل جوس بجھوائیں۔۔۔‘‘
فون بند کرنے کے بعد سونیا نے اثیر کے چہرے کو دیکھا جس پر تلخیاں آنا شروع ہوگئی تھیں۔ سونیا نے لب سکیڑ کر کہا:
’’میں نے کنول سے کہا بھی تھا۔۔۔کہ تمھیں بتا دے۔۔۔ اُس نے تمھیں کچھ نہیں بتایا۔۔۔؟‘‘
’’بتایا تو بہت کچھ ہے۔۔۔پر مجھے یقین نہیں آیا۔۔۔‘‘
’’کیا کیا بتایا ہے۔۔۔تاکہ میں اُس سے آگے کی کہانی سنائوں۔‘‘
’’خاور پٹیل کے بارے میں۔۔۔‘‘
’’وہ کیا بتائے گی خاور پٹیل کے بارے میں۔۔۔جو 10 سال میں اُس مرد کی فطرت نہیں سمجھ سکی۔۔۔‘‘
’’کیا ہے اُس کی فطرت۔۔۔؟‘‘ اثیر نے جانچتی نظروں سے پوچھا۔
’’وہ پاس کی چیزوں کی قدر نہیں کرتا۔۔۔کنول نے یہی غلطی کی تھی۔۔۔سات دن میں وہ نظر بھر کے مجھے دیکھ بھی نہیں سکا۔۔۔ابھی آجائے گا مجھے تلاش کرتے ہوئے یہاں۔۔۔میں اُس سے جتنی دُور ہوں گی وہ اتنا ہی مجھے دل کے پاس رکھے گا۔‘‘
’’کس لیے کیا تم نے یہ سب کچھ۔۔۔؟‘‘ اثیر نے دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
’’پیسے کے لیے۔۔۔اثیر!! بے شمار پیسے کے لیے۔۔۔تمھیں فلم میکنگ کا جنون تھا۔۔۔ اور مجھے بچپن سے امیر بننے کا۔۔۔جب میری بھابھی نے مجھے پارلر میں رکھوایا۔۔۔تو مجھے پتہ چلا۔۔۔بھابھی کی سہیلی پہلے اُس مالک کے دوسرے پارلر میں بیوٹیشن کی نوکری کرتی تھی اُس نے پارلر کے مالک کو پھانسا اُس سے شادی کی اور اپنا خود کا پارلر بنوایا۔۔۔پر مجھے مینی، پیڈی، فیشل، مساج یہ سب نہیں کرنا تھا۔ رحیم یار خان چھوٹا سا شہر ہے وہاں بڑے بڑے رئیس کہاں۔ میں خود شاہ زیب دُرانی کے ساتھ کراچی آئی تھی یہ جانتے ہوئے کہ وہ چند دن بعد مجھے چھوڑ دے گا۔ اُس نے ایسا ہی کیا، پھر میں تمھاری فلم کی شوٹنگ پر آئی ہنی فضا کا میک اپ کرتے ہوئے تمھارے متعلق باتیں کر رہا تھا۔ تمھیں سیڑھی بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا میں نے۔ ایک خیال اُس وقت میرے ذہن میں یہ بھی آیا کہ میں ہیروئن بن جائوں پھر سوچا دفعہ کرو ہیروئنز تو دو2 کوڑی کے مردوں کے سامنے ڈانس کر کر کے پاگل ہو جاتی ہیں۔ عورت حسین بھی ہو پھر بھی مردوں کے آگے ناچے اِس سے بڑی حماقت کوئی ہو سکتی ہے کیا۔۔۔؟ اگر حُسن کی دولت لڑکی کے پاس ہو، پھرناچا نہیں ۔۔۔نچایا جاتا ہے، جیسے پہلے تم اور اب خاور میرے اشاروں پر ناچ رہا ہے۔۔۔اب تم سوچ رہے ہو گے کہ میں نے خاور کو کیسے پھانسا ہے۔۔۔بتاتی ہوں۔۔۔ نوک پلک کی اوپننگ کے بعد میری پہلی کلائنٹ ہی کنول تھی۔۔۔اُسے اپنی ڈھلتی عمر کی بڑی فکر تھی وہ ہر صورت میں خاور کے دل میں رہنا چاہتی تھی جیسے جیسے کنول کی عمر بڑھ رہی تھی وہ خاور کے نزدیک سے نزدیک تر ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے ڈھائی ماہ میں کنول سے ہر وہ بات معلوم کی جس کی مجھے ضرورت تھی پھر وہ دن آگیا جب کنول نے اپنی شادی کی دسویں سالگرہ پر مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔ ‘‘
٭
سونیا بڑی ادا کے ساتھ خاور پٹیل کے سامنے سے گزرتے ہوئے محل نما گھر کے لائونج سے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔
’’میں نے اوپر آتے ہوئے آپ کو دیکھا تھا۔۔۔ پارٹی چھوڑ کر آپ یہاں اکیلی بیٹھی ہیں۔۔۔ آپ کی تعریف ۔۔۔‘‘خاور پٹیل نے سونیا کے سامنے بیٹھتے ہوئے بڑے مہذب انداز میں پوچھا۔
’’سونیا۔۔۔نوک پلک کی اونر‘‘ سونیا نے بڑے فخریہ انداز میں اپنا تعارف کروایا۔
’’کنول کی بیوٹیشن ہیں۔۔۔۔ ہے نا؟‘‘خاور نے منہ بناتے ہوئے کہا اور واپس جانے لگا۔۔۔ سونیا کے قہقہے نے اُس کے قدم روک لیے۔
’’بیوٹیشن نہیں۔۔۔آرٹسٹ۔۔۔ آپ کے مرجھائے ہوئے کنول کی تازگی اِسی آرٹسٹ کے ہی مرہونِ منت ہے۔‘‘
’’مرجھایا ہوا کنول۔۔۔ انٹر سٹنگ۔۔۔ ویری انٹرسٹنگ۔۔۔‘‘ خاور نے سونیا کا سرتاپیر جائزہ لیا خاور کی سہولت کے لیے سونیا پہلے ہی اپنی جگہ سے اُٹھ گئی تھی۔
’’بائی دا وئے۔۔۔ بیوٹیشن اور آرٹسٹ میں کیا فرق ہے۔۔۔‘‘ خاور نے کچھ کھٹے لہجے میں پوچھا ۔ اُتنی ہی میٹھی مسکراہٹ سونیا کے ہونٹوں پر تھی۔
’’پلیز۔۔۔! ٹیل می۔۔۔‘‘ خاور سونیا کا جواب سُننے کا مشتاق تھا۔
’’پٹیل صاحب!! دنیا گھومی ہے آپ نے۔۔۔میں آپ کو بتاتی ہوئی اچھی لگوں گی۔‘‘
’’میں آپ کی زبان سے سُننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’بیوٹیشن آرٹسٹ کبھی نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہاں آرٹسٹ کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بیوٹیشن بھی ہو۔ آرٹسٹ جوان کو بوڑھی اور بوڑھی کو جوان بنانے کا ہنر جانتی ہے۔۔۔ اپنی بیگم کو ہی دیکھ لیں کیسی ینگ لگ رہی ہیں آج۔۔۔یہ ایک آرٹسٹ کا کمال ہے۔‘‘
سونیا نے مسحور کن انداز میں نرم شگفتہ لہجے کے ساتھ اپنا نقطۂ نظر سامنے رکھا اور چل دی۔
’’ویٹ۔۔۔ویٹ۔۔۔ویٹ۔۔۔‘‘ خاور جلدی سے سونیا کے پیچھے لپکا۔
’’آپ میرے ساتھ کچھ وقت گزار سکتی ہیں۔۔۔ قیمت جو آپ چاہیں۔۔۔‘‘ خاور نے للچائی ہوئی نظروں سے سونیا کو دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ سونیا نے جان لیوا مسکراہٹ کے ساتھ خاور کی بڑھی ہوئی ہتھیلی کی طرف دیکھا۔
’’چھوڑیں پٹیل صاحب!! میں نے تو سُنا تھا آپ بہت بڑے بزنس مین ہیں۔۔۔آپ کو تو یہ بھی نہیں پتہ انمول کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔۔۔دوسری بات میرا وقت میرے ہونے والے شوہر کی امانت ہے!!‘‘ سونیا یہ بول کر پھر سے چل پڑی خاور کی آواز اُس کی سماعتوں سے ٹکرائی:
’’وِل یو میری می۔۔۔‘‘ سونیا کے قدم رُک گئے اُس نے پلٹ کر دیکھا۔ خاور پٹیل نے بڑے ستائشی انداز میں کہا:
’’آپ واقعی انمول ہو۔۔۔میں گولڈ سمتھ کی بجائے بلیک سمتھ کی آنکھ سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔‘‘
سونیا کے ہونٹوں پر قاتلانہ مسکراہٹ بکھر گئی، پھر وہ بڑے ٹھاٹ سے کہنے لگی:
’’آپ اب بھی مجھے بلیک سمتھ کی آنکھ ہی سے دیکھ رہے ہیں۔۔۔میں کیوں کسی کی سیکنڈ وائف بن کے رہوں۔۔۔‘‘
’’پٹیل صاحب!! سونیا آپ دونوں یہاں اوپر ہیں میں نیچے پارٹی میں آپ دونوں کو دیکھ رہی تھی۔‘‘ کنول کی آواز پر وہ دونوں چونکے کنول خاور کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی تھی۔
’’کنول !! میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔‘‘ خاور نے فاتحانہ نظر سونیا پر ڈالی اور اپنا ہاتھ سونیا کی طرف بڑھا دیا۔ سونیا نے مسکراتے ہوئے خاور کا ہاتھ تھام لیا اور اُس کے بازو میں بازو ڈال کر بڑی شان سے محبت کی بلندی سے دولت کی پستی کی طرف سیڑھیاں اُترنے لگی۔
نیچے جا کر خاور نے اپنی نئی ہونے والی بیوی کا اعلان سب مہمانوں کے سامنے کیا۔
ایک ہی لمحے کنول، خاور کی نظروں میں کنول سے کانٹا بن گئی تھی۔
٭
’’تم میں رتی برابر بھی شرم نہیں ہے۔۔۔کیسی بے شرمی سے اپنی بے وفائی کا قصہ سنایا ہے مجھء۔‘‘ اثیر نے بڑی حقارت سے سونیا کے ساتھ شکوہ کیا۔ اُتنے ہی فخر سے سونیا نے جواب شکوہ کیا:
’’شرم کی بات تمھارے منہ سے اچھی نہیں لگتی اثیر صاحب۔۔۔! میں نے تو صرف تمھارے جذبات کا خون کیا ہے۔۔۔تم نے پہلے سعدیہ کی عزت کا جنازہ نکالا پھر اُسے خود کشی پر مجبور کر دیا۔۔۔ تم نے میری ضرورت کے وقت مدد کی اُس کی قیمت کنول کے پاس چیک کی شکل میں موجود ہے جاتے ہوئے اُس سے لے لینا۔‘‘‘
’’بس! تم میری محبت کو مدد سمجھتی ہو۔۔۔‘‘
’’کیسی محبت۔۔۔؟ ہم سب خواہشوں کے غلام ہیں اثیر صاحب تمھاری خواہش میں نے کئی بار پوری کرنی چاہی ، مگر تمھیں ہر بار گناہ یاد آجاتا تھا۔‘‘
’’تم تو مجھے اچھا مرد کہا کرتی تھی۔‘‘
’’تم ابھی اچھے نہیں ہو۔۔۔صرف اچھا بننے کی کوشش کر رہے۔۔۔ تمھاری کوشش تب تک کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔جب تک سعدیہ تمھیں معاف نہیں کر دیتی۔۔۔کبھی سعدیہ کی قبر پر جا کے اُس سے معافی مانگنا۔۔۔اگر اُس نے معاف کر دیا پھر تم اچھا بن سکتے ہو۔۔۔‘‘سونیا کا کرارہ جواب سُن کر اثیر نے نظریں جھُکا لیں۔
’’اثیر!! ہر انسان کے نزدیک کچھ لفظوں کے اپنے مطلب ہوتے ہیں جیسے (اچھا بُرا)۔۔۔ اور وہ مطلبوں ہی سے مطمئن ہو جاتا ہے چاہے اُس میں حقیقت ہو یا نہ ہو ۔ میں نے ایک بار ہنی سے پوچھا۔۔۔یہ نوک پلک کا کیا مطلب ہے تو اُس نے مجھے مسکراتے ہوئے بتایا:
’’ جب اثیر نے میک اپ کو فائنل ٹچ دلوانا ہو تو وہ کہہ دیتا ہے۔۔۔ہنی اِس کی نوک پلک سنوار کے جلدی سے بھیج دو۔۔۔ میرے نزدیک نوک پلک کا اپنا مطلب ہے۔ میں مرد کو نوک اور عورت کو پلک سمجھتی ہوں۔۔۔اچھے مرد اُس نوک سے بہو بیٹیوں کی حفاظت کرتے ہیں اور کمینے مرد اُسی نوک سے عورتوں کو زخمی کرتے ہیں۔ عورتیں پلک کی طرح نازک ہوتی ہیں۔‘‘
’’آج تو بڑی فلاسفر بن رہی ہو۔۔۔‘‘ اثیر نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’دھکے انسان کو فلاسفر بنا دیتے ہیں۔ اثیر صاحب!! دوسری بات پڑھی لکھی ہوں۔۔۔ فلسفہ بول سکتی ہوں۔‘‘ سونیا نے اثیر سے نظریں ملاتے ہوئے کہا۔ اثیر یہ سُن کر بھی چونکا۔
’’میں نے اُردو میں ماسٹر کیا ہے۔۔۔وہ الگ بات ہے اوپن یونیورسٹی سے کیا ہے۔۔۔‘‘
’’کیا فائدہ تمھاری تعلیم کا۔۔۔پڑھ لکھ کے بھی دھوکہ ہی دیا ہے!!‘‘
’’اثیر !! تم پرسنل ہو رہے ہو۔۔۔خیر کوئی بات نہیں دوست ہو۔۔۔ذرا بتائو۔۔۔؟ میں نے کیا دھوکہ دیا ہے تمھیں۔‘‘
’’تم نے شادی کا وعدہ کیا تھا۔‘‘ اثیر نے اپنی طرف سے سونیا کو لا جواب کیا۔
’’میں نے وعدہ کیا تھا ، تم نے وعدہ کرکے دھوکہ دیا ہے۔ میری تمھاری شادی نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ناپاک عورتیں نا پاک مردوں کے لیے ۔ اب جیسا خاور پٹیل ویسی ہی سونیا خاور پٹیل۔۔۔‘‘ سونیا نے خود کو ملامتی انداز کے ساتھ مخاطب کیا۔ اثیر کو سونیا کا ایک اور روپ نظر آیا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خاموش ہوگیا ۔ پھر دل میں آیا ہوا سوال زبان پر لے ہی آیا:
’’تم خود عورتوں کی کون سی قسم سے ہو۔۔۔کبھی خود کو بھی جاننے کی کوشش کی ہے۔‘‘ سونیا یہ سُن کر کھلا کھلا کر ہنسی اور کافی دیر ہنستی رہی۔ پھر ہنستے ہنستے ہی بولی:
’’پلک کے بال گن سکتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘ اثیر کا لہجہ سوالیہ تھا۔
’’جتنے عورت کی پلک میں بال ہیں بلکہ دونوں پلکوں کے ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔اُس سے بھی کہیں زیادہ عورتوں کی قسمیں ہیں۔۔۔مگر انہیں زبان صرف ایک ہی سمجھ آتی ہے۔۔۔‘‘
’’وہ کون سی۔۔۔؟‘‘ اثیر نے تجسس سے پوچھا۔
محبت کی۔۔۔صرف اور صرف محبت کی۔۔۔سعدیہ بے حیا نہیں تھی۔۔۔وہ بیچاری تو تمھاری ہوس ہی کو محبت سمجھ بیٹھی تھی۔۔۔اُس کی قبر پر جا کے آنسو گرائو گے تو تم دونوں کی روحوں کو سکون مل جائے گا۔۔۔ جائو گے نا سعدیہ کی قبر پر۔۔۔؟‘‘ اثیر کی آنکھیں یک دم تالابوں کی طرح بھر گئیں ۔ تھوڑی دیر بعد اُن سے بے ساختہ اشک گرنا شروع ہو گئے۔ سونیا کچھ دیر تو دیکھتی رہی پھر اُس نے اثیر کا موڈ بہتر کرنے کے لیے جلدی سے بات بدلی:
’’رونے دھونے کی ضرورت نہیں۔۔۔پٹیل جلد ہی مرنے والا ہے۔ اُس کے مرنے کے بعد میں تم سے بھی شادی کر لوں گی۔‘‘ اثیر روتے روتے فٹ سے ہنس پڑا اور اپنی پلکوں کو صاف کرتے ہوئے کہنے لگا:
’’سونیا!! ایک نمبر کی کمینی ہو تم۔۔۔واقعی تم عورتوں کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔‘‘
’’سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔خاور پٹیل کو دو ہارٹ اٹیک آ چکے ہیں۔۔۔تیسرے میں ضرور چلتا بنے گا۔‘‘ سونیا مسکراتے ہوئے بولی۔ دروازے پر دستک ہوئی سونیا نے اثیر کو نارمل ہونے کا اشارہ کیا۔
’’یس۔۔۔‘‘ایک ڈیسنٹ سا ہینڈسم آدمی اندر آیا۔
’’پٹیل صاحب!! یہ میرے دوست اثیر ہیں۔۔۔میں نے آپ کو اِن کے بارے میں بتایا تھا۔‘‘
’’اچھا تو آپ ہیں اثیر۔۔۔آپ کی شرافت کی ہماری وائف قسمیں اُٹھاتی ہیں۔۔۔آپ کی وجہ سے ہمارا ہنی مون 5دن لیٹ ہوا ہے۔۔۔اِن کی ضد تھی آپ سے ملے بغیر یہ یورپ نہیں جائیں گی۔‘‘
’’نائس ٹو میٹ یو اثیر!!‘‘ خاور پٹیل نے اثیر سے ہاتھ ملایا۔
’’سیم ہیئر‘‘ اثیر نے مصنوعی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
’’چلیں ڈارلنگ۔۔۔‘‘ خاور پٹیل نے اپنا بازو اآگے بڑھایا۔
’’چلیں۔۔۔‘‘ سونیا نے مسکراتے ہوئے بازو کے اندر بازو ڈالا اور وہ دونوں روم سے نکلنے لگے، تو سونیا نے گردن موڑ کر اثیر کو آنکھ ماری۔
’’کمینی نہ ہو تو۔۔۔‘‘ اثیر نے مسکراتے ہوئے دل ہی دل میںکہا۔
٭
اثیر تھوڑی دیر بعد نوک پلک کی بلڈنگ سے باہر نکلا اور ایک نمبر ملایا۔
’’آگئے امریکہ سے۔۔۔؟‘‘ دانیال نے پوچھا۔
’’تمھیں سعدیہ کی قبر کا پتہ ہے۔۔۔‘‘ اثیر نے جواب دینے کی بجائے اپنا سوال پوچھا لیا۔
’’سعدیہ کی قبر۔۔۔؟ ہاں پتہ ہے۔‘‘
’’میں آج آ رہا ہوں۔۔۔‘‘
’’ تیرے بھائی تجھے قتل کر دیں گے۔ ‘‘ دانیال نے فکر مندی سے کہا۔
اُن کو کون بتائے گا۔۔۔میں سعدیہ کی قبر پر جائوں گا اور کراچی واپس۔۔۔اگر تونے کسی کو بھی میرے آنے کی اطلاع دی تو تجھے میں قتل کر دوں گا۔‘‘ اثیر نے یہ کہہ کر جلدی سے فون بند کر دیا۔ وہ معافی مانگنے سے پہلے ہی خود کو ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے آسمان کی طرف دیکھا، پھر اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔ وہ اپنی گاڑی کا دروازہ کھول کر اُس میں بیٹھنے ہی لگا تھا کہ ایک آوازنے اُس کا تعاقب کیا
’’سر !! آپ کا چیک۔۔۔ کنول میڈم نے دیا ہے۔‘‘سیکورٹی گارڈ نے اُسے چیک پیش کیا۔
اثیر نے مسکراہٹ کے ساتھ وہ چیک تھام لیا پھر کچھ دیر سوچا ۔
’’ہیلو!! بات سنو۔۔۔‘‘ اثیر نے جاتے ہوئے سیکورٹی گارڈ کو آواز دی۔ وہ بھاگتا ہوا واپس آیا:
’’جی سر!!‘‘
’’مجھے جانتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’سر آپ نے ہی تو مجھے نوکری پر رکھا تھا۔‘‘ گارڈ نے ادب سے جواب دیا۔
’’یہ چیک لو۔۔۔اور اِسے کیش کروا کے نوک پلک کے سارے سٹاف میں برابر تقسیم کر دینا۔‘‘
’’سر میرا بھی اِس میں حصہ ہے۔۔۔؟‘‘ گارڈ نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’سب کا برابر حصہ ہے ۔۔۔‘‘ اثیر نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
’’سر !! اللہ آپ کو خوش رکھے۔‘‘ گارڈ دعا ئیں دیتے ہوئے چلا گیا۔
اثیر اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی بجائے اُس کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑا ہوگیا۔ اُس کی نظریں نوک پلک کے سائن بورڈ پر تھیں، پھر اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے:
’’نوک پلک The Art of Beauty‘‘
…٭…

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles