29 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

پپو پائیلٹ

پپو پائیلٹ

شکیل احمد چوہان

نادیہ کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تو شازیہ کو یہ فکر ستانے لگی کہ اب نادیہ کالج کیسے جایا کرے گی۔ ہمیشہ کی طرح اِس مسئلے کا حل بھی باؤ حمید  نے ہی نکالا جو نثار احمد کا بچپن سے دوست تھا۔ باؤ حمید کیٹرنگ کا کاروبار کرتا تھا۔
جب سے نثار احمد دبئی گیا، اُس کے سارے معاملات باؤ حمید ہی دیکھتا تھا۔ شازیہ کو وہ بھابھی کی بجائے باجی کہتا۔ سعود، داؤد اور نادیہ ۔۔۔شازیہ اور نثار کے تینوں بچے بھی اُسے ماموں ہی کہتے۔
نادیہ جلدی سے ناشتہ کر لو۔ کالج سے دیر ہو جائے گی۔‘‘ شازیہ نے کچن سے آواز لگائی۔
ممّی دیر تو ہو ہی جائے گی۔ ماموں حمید کا رکشے والا، ابھی تک جو نہیں آیا۔ اتنے میں گھر کی بیل بجی۔
داؤد باہر دیکھو۔۔۔!! شازیہ نے پھر سے کچن سے آواز دی۔
ماما میں ناشتا کر رہا ہوں۔‘‘ داؤد نے فٹ سے کہہ دیا۔
میں بھی ناشتا کر رہا ہوں۔‘‘ سعود  نے بھی جلدی سے اپنی مصروفیت بتا دی۔
نادیہ نے خود سے نظریں ہٹا کر سعود اور داؤد کی طرف دیکھا وہ دونوں معصوم بچے اسکول یونیفارم میں ملبوس بول تو سچ ہی رہے تھے۔
نادیہ نے شیشے میں ایک بار پھر سے اپنا میک اپ چیک کیا۔ دوبارہ ڈور بیل ہوئی۔
کون ہے صبح صبح۔۔۔؟‘‘ نادیہ بے زاری سے بولی۔
رکشے والا ہوگا۔۔۔؟‘‘ شازیہ چائے والی ٹرے اُٹھائے نادیہ کے پاس سے گزری۔
مجھے ہی دیکھنا پڑے گا۔ شازیہ نے چائے کی ٹرے ڈائیننگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
ممّی میں دیکھتی ہوں۔ یہ جڑواں تو ایک نمبر کے کام چور ہیں۔ نادیہ نے ہال سے باہر جاتے ہوئے داؤد اور سعود کو گھُوری ڈالی۔
کون ہو تم۔۔۔ کس سے ملنا ہے۔۔۔؟ نادیہ نے بیرونی گیٹ کھولتے ہی تلخی سے پوچھا۔
پپو پائیلٹ۔۔۔ لڑکے نے بڑے اسٹائل سے جواب دیا۔ اُس کا دوسرا جملہ منہ میں ہی تھا۔
یہ ایئر پورٹ نہیں نادیہ نثار کا گھر ہے۔ نادیہ نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر زور سے گیٹ بند کر دیا۔
گیٹ اتنی زور سے مارا گیا تھا کہ اُس کی دھمک ہال تک آئی۔
نادیہ کے ہاتھوں آج صبح صبح کس کی شامت آئی ہے۔ شازیہ کو فکر لاحق ہوئی۔
ممّی مانگنے والا ہو گا۔ داؤد نے اندازہ لگایا۔ نادیہ ہال میں واپس لوٹی۔ سعود نے نادیہ کو دیکھتے ہی کہا
ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ جب سے اُس لنگڑے فقیر کی نادیہ آپی نے وائپر سے دھلائی کی ہے۔ کوئی بھی فقیر اب صبح صبح ہمارے گھر کی بیل نہیں بجاتا۔
لنگڑا کدھر سے تھا وہ۔۔۔جب میں نے اُس کی ٹانگوں پر وائپر مارے کیسے گھوڑے کی طرح بھاگا تھا۔
نادیہ کے موبائل پر بیل ہوئی، نادیہ نے موبائل اسکرین دیکھتے ہوئے کہا
ماموں حمید کی کال، پھر موبائل کے سینے پر اپنی اُنگلی سے گُدگُدی کی ۔
ماموں جی آپ کا رکشے والا تو ابھی تک نہیں آیا؟ کالج کے پہلے دن ہی میں لیٹ ہو جاؤں گی، آپ نے تو کہا تھا وہ ٹائم پر پہنچ جائے گا۔ نادیہ نے بولتے بولتے سانس لی تو باؤ حمید کی باری آئی
پپو پائیلٹ رکشے والا ہی ہے۔ باؤ حمید نے اطلاع دی اور کال کاٹ دی۔
وہ نمونہ رکشے والا ہے۔۔۔؟ نادیہ نے حیرت سے کہا۔
ناشتہ میں نے پیک کر دیا ہے، کالج میں کھا لینا۔۔۔یہ تمھارا بیگ ، اب چلو شاباش۔۔۔ شازیہ باہر تک نادیہ کو چھوڑنے آئی۔
پپو اپنے رکشے کے سامنے کالا چشمہ لگائے بڑے اسٹائل سے کھڑا تھا ۔ شازیہ  نے پپو کو اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا جیسے کچھ یاد آ گیا ہو، پھر مسکرائی۔
نادیہ کو رکشے میں بٹھایا، رکشہ کیا تھا تین ٹائروں والی دوڑتی بھاگتی دلہن ہی تھی۔ نادیہ نے رکشے میں بیٹھنے کے بعد اُسے اندر سے غور سے دیکھا پھر پپو پر نظر ڈالی۔ وہ پائیلٹ نہیں تھا مگر اسٹائیلش ضرور تھا۔ رکشہ چل پڑا ۔ شازیہ رکشے کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ رکشے کی بیک پر لکھا تھا۔ ’’پپو پائیلٹ‘‘ رکشہ گلی کا موڑ مڑا تو شازیہ گیٹ سے اندر آئی۔
٭٭٭
یہ لیں باجی جی! آپ کے ٹائم سے 5 منٹ پہلے ہی آپ کو پہنچا دیا۔  پپو نے کالج کے سامنے بریک لگاتے ہوئے کہا، پپو نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی رکشے کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ نادیہ باہر نکل آئی اور پپو کے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگی
’’سارے رستے تم مجھے باجی باجی کہتے آئے ہو۔۔۔ تم سے بہت چھوٹی ہوں میں ‘‘
’’باجی جی! وہ تو آپ ہیں۔۔۔ میں بائیس سال کا ہوں۔ آپ زیادہ بھی ہوئیں تو ستارہ ، اٹھارہ سال کی ہوں گی۔‘‘
سترہ پورے نہیں ہوئے ابھی۔۔۔ تم سے پورے پانچ سال چھوٹی۔۔۔ ٹھیک دو بجے پہنچ جانا۔۔۔‘‘ نادیہ نے کالج کے گیٹ کی طرف پلٹتے ہوئے پانچ انگلیوں کا پنجہ دکھا کر ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
باجی جی! آپ مجھ سے عمر میں چھوٹی ہیں مگر عزت میں بہت بڑی ہیں۔‘‘ پپو نے رکشہ گیئر میں ڈالتے ہوئے کہا۔ نادیہ نے یہ سُنا تو پلٹ کر دیکھا۔ پپو رکشہ موڑ رہا تھا۔ جس کے پیچھے لکھا ہوا تھا۔ پپو پائیلٹ
٭
دو بجنے سے پانچ منٹ پہلے ہی پپو کالج کے باہر پہنچ گیا۔ وہ رکشے سے اُترا اور کپڑا  لے کر رکشے کی اندر باہر سے صفائی میں لگ گیا۔ نادیہ کالج سے باہر آئی تو۔۔۔ اپنے پورے جلوؤں کے ساتھ چمکتا ہوا رکشہ تو کھڑا تھا مگر پپو نہیں تھا۔ نادیہ نے ارد گرد دیکھا۔ پیپل کے پیڑ کے نیچے پان والے کھوکھے سے پپو پان خرید رہا تھا۔ ایک پان اُس نے منہ میں ڈالا۔ کوئی چار پانچ پیک کروائے اور بھاگتا ہوا رکشے کے پاس آیا۔
’’باجی جی ! میں تو پانچ منٹ پہلے ہی آگیا تھا۔‘‘
۔۔۔ چلو۔۔۔! نادیہ نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
باجی جی! پان کھائیں گی۔۔۔؟‘‘ پپو نے رکشے کے سینٹر والے مِرر میں نادیہ کو دیکھ کر پوچھا۔
نہیں شکریہ۔ نادیہ نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔ پپو مزے سے پان کھا رہا تھا۔ جیسے ہی رکشہ کنال روڑ پر آیا۔ نادیہ نے پپو سے پوچھا
’’تم نے اپنے رکشے کے پیچھے پپو پائیلٹ کیوں لکھوایا ہوا ہے۔۔۔؟‘‘
پپو نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا
باجی جی! بچپن میں میرا ابّا مجھے پپو کہتا تھا۔ میں بڑا گول مٹول جو ہوا کرتا تھا۔ امّاں کو ابّا کے پپو کہنے پر بڑا غصہ آتا تھا ۔ امّاں مجھے عرفان پائیلٹ کہا کرتی تھی۔ امّاں مجھے پائیلٹ بنانا چاہتی تھی۔ میں پڑھائی میں اچھا بھی تھا۔ آٹھویں میں تھا کہ رکشہ چلاتے ہوئے ابّا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ وہ موقع پر ہی ڈھیر ہو گیا۔ میری دو چھوٹی بہنیں ہیں۔ میں بڑا تھا۔ اسکول چھوڑا اور رکشے کی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تب سے رکشہ چلا رہا ہوں۔
رکشہ اپنا ہے۔۔۔؟ نادیہ نے رکشے کی سجاوٹ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
جی جی اپنا ہے۔۔۔ اِس کے علاوہ تین اور ہیں۔۔۔ پپو نے بڑے مان سے کہا۔
’’وہ بھی اِسی طرح کے ہیں۔۔۔؟‘‘
’’رکشے تو اچھی حالتوں میں ہیں۔۔۔ مگر سجاوٹ ایسی نہیں۔‘‘
’’پھر تم نے اس رکشے کے اوپر اتنی فضول خرچی کیوں کی ہوئی ہے۔‘‘
’’باجی جی! شوق کو فضول خرچی نہیں کہتے۔‘‘
یہ کیسا شوق ہے۔۔۔؟ نادیہ کو پپو کا یہ شوق بیوقوفی لگا۔ وہ زیرِ لب مسکرائی۔
ابّا کہا کرتا تھا۔۔۔ گڈی اور بُڈی ایسی ہو کہ پاس کھڑے ہوئے وہ تمھاری مالکی اور تم اُس کے مالک لگو۔۔۔ باجی جی آپ کا گھر آ گیا۔ پپو نے رکشے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
نادیہ اپنا اگلا سوال منہ میں لیے ہی رکشے سے اُتر گئی۔
نادیہ کو گھر کی بیل دینی ہی نہیں پڑی۔ شازیہ جیسے اُسی کے انتظار میں کھڑی تھی ۔ شازیہ نے جلدی سے گیٹ کھولا۔ نادیہ اندر آ گئی ۔
’’ممّی جی! السلام علیکم۔۔۔!‘‘
وعلیکم السلام۔۔۔! سلام کے جواب کے بعد شازیہ نے گردن گیٹ سے نکال کر دیکھا۔ پپو گیٹ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ شازیہ اور پپو  نے مسکراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے سلام دُعا کی۔
٭
نادیہ واش روم سے فریش ہو کر نکلی تو ڈائیننگ ٹیبل پر کھانا لگ چُکا تھا۔
آپ کے جڑواں نظر نہیں آ رہے۔ نادیہ نے کُرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’اکیڈمی گئے ہیں۔۔۔‘‘
’’دبئی کی ساری کمائی اِن پر ہی لگا دیں۔‘‘
بھائی ہیں تمھارے۔۔۔ شازیہ نے بھائی پر زور دے کر کہا۔
پتا ہے بھائی ہیں میرے۔۔۔ ڈیڈی اور آپ کی آنکھوں کے تارے۔ میری تو اِس گھر میں کوئی اہمیت ہی نہیں۔
نادیہ نے سنجیدگی سے شازیہ کو دیکھ کر کہا۔ شازیہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’نادیہ تمہیں کیوں ایسا لگتا ہے۔۔۔چلو بریانی تو ڈالو۔۔۔ میں نے بھی کھانا نہیں کھایا۔۔۔‘‘
’’آپ دونوں کے رویوں کی وجہ سے۔۔۔ یہ بریانی بھی سعود کی فرمائش پر ہی بنی ہو گی۔‘‘
’’تمھاری فرمائش پر بھی تو بناتی ہوں۔‘‘
’’مجھ سے کہیں زیادہ آپ کو اپنے یہ جڑواں بچے پیارے ہیں۔‘‘
چھے سال دن رات اِن کے لیے دُعائیں مانگی تھیں۔ اگر یہ پیدا نہ ہوتے تو تمھاری دادی نے مجھے گھر سے نو دو گیارہ کر دینا تھا۔
’’مگر ڈیڈی تو ہمیشہ آپ سے کہتے ہیں ہم دل دے چُکے صنم۔۔۔‘‘
’’ارے چھوڑو اپنے ڈیڈی کی۔۔۔ تمھارے ڈیڈی تو دوسری کو گھر میں لانے کے لیے ریڈی بیٹھے تھے۔‘‘
ممّی جی ! تُسی گریٹ ہو۔۔۔ جو ایسے صنم بے وفا ہسبینڈ اور دبنگ ساس کے ساتھ گزارا کیا۔۔۔ میں سونے جا رہی ہوں۔
نادیہ نے چاولوں کا آخری نوالہ لیا اور کُرسی سے اُٹھ کر ہال میں سے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کر دیا۔
تم بھی اپنی دادی کی طرح دبنگ ہی ہو۔۔۔ مگر تمھارے پاپا صنم بے وفا ہر گز نہیں۔۔۔ شازیہ نے کچھ یاد کرتے ہوئے نادیہ کو اوپر جاتے ہوئے دیکھا۔ جب نادیہ نظروں سے اُوجھل ہو گئی تو شازیہ نے ٹھنڈی سانس بھری اور زیر لب مسکراتے ہوئے خیالوں میں کھو گئی۔
٭
کن خیالوں میں کھوئی ہوئی ہے۔۔۔؟ میری مجاجن۔۔۔!‘‘ پپو نے چھالا کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا۔
نیلا گنبد سے تمھارے لیے پان لایا ہوں۔۔۔ پپو نے پان والا شاپر بیگ دکھاتے ہوئے اطلاع دی۔
وہ پیپل والے کھوکھے سے۔۔۔؟ چھالا نے لوہے کی بڑی ٹیک والی کرسی سے اُچھلتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں ساڈے دل دے مالکو۔۔۔!‘‘
پپو!! میرے سامنے شان بننے کی کوشش مت کیا کرو۔۔۔ کاٹ کے رکھ دوں گی۔۔۔‘‘چھالا نے لکھنو کی کسی بیگم کی طرح بڑی ادا کے ساتھ پان منہ میں ڈالتے ہوئے وارننگ دی۔
ہائے ہائے میری کترینہ۔۔۔ تیرا غصہ بھی مجھے پیار ہی لگتا ہے۔‘‘ پپو نے چھالا کے ہاتھ کا بوسہ لیتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کیا۔
چھوڑو۔۔۔کوئی آ جائے گا۔۔۔ ساری کاریگر چھت پر کھانا کھا رہی ہیں۔ چھالا نے جلدی سے شرماتے ہوئے اپنا ہاتھ چھُڑا لیا۔
ویسے سلّو  نے کترینہ کو چھوڑ دیا ہے! چھالا نے اپنی ایک ابرو کو بڑے انداز سے اُٹھاتے ہوئے بتایا۔
جب تم اُسے پیار سے سلّو کہتی ہو۔۔۔ میرے دل کو ہاتھ پڑتا ہے۔۔۔ تم دیکھ لینا۔۔۔ رنڈوا ہی مرے گا۔۔۔ان شاء اللہ۔۔۔!پپو نے چڑتے ہوئے جواب دیا۔
رنڈوے مرو تم ۔۔۔! چھالا نے ادائے بے نیازی سے کہہ دیا۔ پپو نے جلدی سے چھالا کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ چھالا کی بڑی بڑی سرخ ڈوروں والی آنکھیں کھُلی ہوئیں تھیں۔ پپو کی گہری سیاہ آنکھوں میں غصہ تھا۔ وہ دونوں اتنے قریب تھے کہ چھالا اور پپو کے ہونٹوں کے درمیان صرف پپو کا ہاتھ تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں کھو چکے تھے۔ چھالا کی بڑی بڑی سرخ ڈوروں والی آنکھوں میں نمی آ گئی۔
آنکھوں میں سے چند اشک ٹپکے جنہوں نے پپو کے دل کی دھرتی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ پپو نے ہولے سے اپنا ہاتھ چھالا کے ہونٹوں سے ہٹا لیا اور سیدھا کھڑا ہو کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ چھالا جذباتی انداز میں پوری شدت کے ساتھ پپو کی کمر سے لپٹ گئی۔
سوری پپو! منہ سے نکل گیا تھا۔ مریں تمھارے دشمن، میرے منہ میں خاک۔ چھالا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
معاف کر دو۔۔۔ نا۔۔۔ اگر تم نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔؟ تو میں خود کو کاٹ کے رکھ دوں گی۔ چھالا کی آواز میں محبت کا درد تھا۔
مرنے سے ڈر نہیں لگتا میڈم! کنوارہ مرنے سے لگتا ہے۔ پپو نے مڑتے ہوئے چھالا کو خود سے الگ کیا۔ پپو کا ڈائیلاگ سُن کر چھالا کھِل اُٹھی، جو اُس کے سامنے ہی کھڑی تھی۔
میں تمھارے ساتھ جینا چاہتا ہوں، زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔۔۔ جب ہم دونوں بوڑھے ہو جائیں گے تو تمھارے مرنے کے اگلے دِن ہی میں تمھاری جُدائی کی وجہ سے خودبخود مر جاؤں گا۔
مجھے بھی اپنے پپو سے پیار ، محبت، عشق سب کچھ ہے۔ سلّو کو تو صرف پسند کرتی ہوں۔تمھارے لیے جان دے بھی سکتی ہوں اور کسی کی جان لے بھی سکتی ہوں۔
چھالا نے پپو کی آنکھوں میں دیکھ کر جذباتی ہو کر اپنے دل کا حال سنایا۔ پپو  نے چھالا کا جذباتی انداز دیکھ کر خود ہی بات بدل دی اور ہال کے اندر لگے ہوئے سلمان خان کے بڑے سے پوسٹر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’تمھاری پسند کی وجہ سے اُس کی طرح کے کپڑے مجھے پہننے پڑتے ہیں۔‘‘
اور سینے ہمیں پڑتے ہیں۔ ہال کے ایک کونے سے چند آوازیں ایک ساتھ بُلند ہوئیں۔ پپو اور چھالا نے چونک کر دیکھا چھالا کی کاریگر عورتیں اور لڑکیاں کھانا کھا کر آ چکی تھیں۔
تم سب کب آئیں۔۔۔؟ چھالا نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا۔
اُجالا باجی! جب تم نے کہا تھا۔۔۔ رنڈوے مرو تم۔۔۔! ایک لڑکی نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
چلو سب اپنی اپنی مشینوں پر بیٹھ جاؤ۔۔۔ پرسوں تک عالیہ کا آرڈر پورا کرنا ہے۔ چھالا نے جلدی سے بات بدلی، پھر اپنے ٹیبل کی دراز کھولی اور اُس میں سے روپے اور ایک لسٹ نکال کر پپو کو تھماتے ہوئے کہا
’’کل پرسوں جب بھی شاہ عالمی کی کوئی سواری ملے یہ سامان لیتے آنا۔
چھالا نے پپو سے ایسے کہا جیسے وہ اُسے جانتی ہی نہ ہو۔ اُس کی سب کاریگر اپنی اپنی سلائی میشنوں پر بیٹھنے کے باوجود چور اکھیوں سے اُن دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔
’’اب تو ہر روز ہی اُس طرف جانا ہو گا۔‘‘
کیوں۔۔۔؟ چھالا نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’پکی سواری لگ گئی ہے۔‘‘
کس جگہ کی۔۔۔؟‘‘چھالا نے فٹ سے پوچھا۔
اُسی کالج کی۔۔۔!‘‘ پپو نے کالج کو لمبا کھینچا تھا۔
’’وہ اُستانی واپس آ گئی ہے۔۔۔؟‘‘
اُستانی نہیں پروفیسر صاحبہ تھیں۔‘‘ پپو نے ماتھا پکڑتے ہوئے سمجھایا۔
ایک ہی بات ہے۔۔۔ اُستانی بھی پڑھاتی ہے اور پروفیسر بھی پڑھاتی ہے۔‘‘
’’خود کو فیشن ڈیزائنر کہلواتی ہو۔ کوئی درزن کہے تو کیسے بھڑک جاتی ہو۔۔۔ میری درزن۔۔۔
پپو یہ بولتے ہی وہاں سے بھاگا۔ چھالا نے درزن سُنتے ہی ٹیبل پر پڑی ہوئی دھاگے والی کون پپو کو پیچھے سے ماری اور پھر بڑے رومینٹک انداز میں منہ ہی میں بولی
’’کاٹ کے رکھ دوں گی۔‘‘
٭
تھپڑ ماروں گی۔۔۔!‘‘ نادیہ نے غصے سے سعود کو آنکھیں دکھائیں۔
نادیہ!! کبھی پیار سے بھی بات کر لیا کرو۔‘‘ شازیہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
پیار وہ بھی نادیہ آپی۔۔۔؟ یہ تو ہر وقت ہمیں مارتی ہی رہتی ہیں۔‘‘ داؤد سلائس منہ میں ڈالتے ہوئے بھولے پن سے بولا۔ ڈور بیل بج اُٹھی
رکشے ولا آ گیا۔۔۔تمھارا ناشتہ نہیں ہوا۔ شازیہ نے فکر مندی سے کہا۔
یہ پانچ منٹ پہلے ہی آ گیا ہے۔ نادیہ نے وال کلاک کی طرف دیکھ کر ہلکی سی خفگی کے ساتھ کہا۔
نادیہ کالج کے لیے نکلی۔ ہمیشہ کی طرح شازیہ اپنی بیٹی کو بیرونی گیٹ تک چھوڑنے گئی ۔ پپو گیٹ کے سامنے اپنے رکشے میں ریڈی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا۔ کھُلتے گیٹ کی آواز پر پپو کی نظروں نے گیٹ کی طرف دیکھا۔ نادیہ گیٹ کے اندر سے برآمد ہوئی۔ شازیہ نے پپو کو آج پھر غور سے دیکھا۔
آج پپو نے چشمہ لگانے کی بجائے اپنی کالر کے پیچھے لٹکایا ہوا تھا۔ نادیہ کے لیے پپو  نے رکشے کا دروازہ کھولا۔ شازیہ نے مسکراتے ہوئے پپو کو دیکھا۔ پپو نے بھی مسکراہٹ سے جواب دیا اور رکشہ چلا دیا۔
نادیہ آدھے رستے چپ رہی۔ اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی، پھر اُس کی نظر کالر کے پیچھے لٹکتے ہوئے چشمے پر پڑی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے پپو سے پوچھ ہی لیا
’’تم بھی سلمان خان کے فین ہو۔۔۔؟‘‘
’’نہیں باجی جی!‘‘
’’شاہ رخ کے ہو۔۔۔؟‘‘
نہیں شاہ رخ کا بھی نہیں۔۔۔‘‘ پپو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
تو پھر عامر خان کے ہو گے۔‘‘ نادیہ نے جلدی سے پوچھا۔ جیسے وہ ہو۔
’’باجی جی میں بالی وڈ کے کسی خان کا فین نہیں ہوں۔ میں تو اپنے شان کا فین ہوں۔‘‘
شان۔۔۔؟ نادیہ نے شان بڑا عجیب سا منہ بنا کر کہا۔
’’مجاجن میں نے پتہ نہیں کتنی بار دیکھی ہے۔‘‘
مجاجن۔۔۔یہ کون ہے۔۔۔؟‘‘ نادیہ نے حیرت سے پوچھا۔ پپو نے زور سے قہقہ لگایا پھر کہنے لگا
’’باجی جی!شان اور صائمہ کی بڑی ہٹ فلم کا نام مجاجن ہے۔‘‘
’’میں نے تو شان کی صرف ایک فلم  وار ہی دیکھی ہے۔۔۔ تم نے دیکھی ہے کیا؟‘‘
کیوں نئی جی۔۔۔ پہلے دن پہلا شو۔۔۔‘‘ پپو نے بڑے فخر سے بتایا۔
’’وہ تو انگلش میں ہے۔۔۔‘‘
’’یہی تو میں چھالا کو سمجھاتا ہوں۔۔۔ کہ اپنا شان پنجابی کے ساتھ ساتھ انگلش فلموں کا بھی ہیرو ہے۔‘‘
کس کو سمجھاتے ہو۔۔۔؟نادیہ نے الجھے لہجے کے ساتھ پوچھا۔
باجی جی کالج آ گیا۔۔۔ پپو نے بریک لگاتے ہوئے کہا ساتھ ہی رکشے کا دروازہ بھی کھول دیا۔ نادیہ نیچے اُتر گئی وہ پپو سے کچھ کہنے والی تھی کہ پپو بول پڑا
باجی جی! پانچ منٹ پہلے پہنچ جاؤں گا۔‘‘ نادیہ یہ سُن کر کالج کے اندر چلی گئی۔ پپو وہاں سے شاہ عالم ہول سیل مارکیٹ چلا گیا۔
٭
نادیہ کالج سے باہر نکلی تو پپو رکشہ اسٹارٹ کیے ہوئے تیار کھڑا تھا۔ پپو نے عادت کے مطابق بیٹھے بیٹھے ہی دروازہ کھولا۔ نادیہ خاموشی سے بیٹھ گئی۔ رکشہ چل پڑا۔
’’Stop…Stop‘‘ نادیہ نے جلدی سے کہا۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟ باجی جی!!‘‘
یہ بڑا سا شاپنگ بیگ کوئی سواری بھول گئی ہے۔‘‘ پپو نے سینٹر مرر میں نادیہ اور بڑے سے شاپنگ بیگ کو دیکھا جو نادیہ کے پہلو میں سیٹ پر پڑا ہوا تھا۔
یہ سامان کسی سواری کا نہیں میری چھالا کا ہے۔۔۔ پپو نے اطمینان سے اطلاع دی۔
چھالا کا۔۔۔؟ اب یہ چھالا کون ہے۔۔۔‘‘ نادیہ نے ناک چڑھاتے ہوئے پوچھا۔ چھالا سُن کر پپو کا چہرہ قندھاری انار کی طرح لال ہو گیا۔
باجی جی!! چھالا میری سگی خالہ کی بیٹی ہے اور منگیتر بھی۔‘‘ پپو نے شرماتے ہوئے بتایا۔
تم لوگوں کے کوئی ڈھنگ کے نام نہیں ہوتے۔۔۔ پپو ، چھالا۔‘‘ نادیہ نے بازپرس کے انداز میں کہا۔
باجی جی!! میں نے کل آپ کو بتایا تو تھا میرا اصل نام عرفان ہے اور چھالا کا صحیح نام اُجالا ہے۔ وہ تو صرف میں پیار سے چھالا کہتا ہوں۔ اگر اور کوئی کہے تو چھالا قینچی سے اُس کی زبان کاٹ دے۔
اس شاپر میں ہے کیا۔۔۔؟ نادیہ نے شاپنگ بیگ کی طرف دیکھ کر جاننا چاہا۔
’’سلائی کا میٹریل ہے۔۔۔۔نلکیاں، بٹن، بکُرم، لیس اور پتہ نہیں کیا کیا۔۔۔مجھے تو نام بھی نہیں آتے۔۔۔‘‘
’’وہ اتنے زیادہ میٹریل کا کیا کرے گی۔۔۔؟‘‘
’’اُس کا سلائی والا کارخانہ ہے۔۔۔سات مرلے کے ہال کے اندر اُس نے بڑی بڑی سلائی کی مشینیں لگا رکھی ہیں۔‘‘
’’کہاں ہے یہ کارخانہ۔۔۔؟‘‘
گھر کی تیسری منزل پر۔۔۔‘‘ پاس سے ایک کار تیز ہارن مارتے ہوئے گزری۔
’’کیا کہا تم  نے۔۔۔؟ ٹریفک کا اتنا شور ہوتا ہے کچھ سنائی بھی نہیں دیتا۔‘‘
’’باجی جی!! چائے پئیں گی۔۔۔؟‘‘
چائے۔۔۔کیا مطلب ہے تمھارا۔۔۔‘‘ نادیہ کی یک دم آواز اور لہجہ بدل گیا۔ پپو نے نادیہ کے لہجے کی طرف توجہ ہی نہیں دی۔
وہ سامنے بالّے چائے والی کی دُکان ہے۔۔۔‘‘ پپو نے رکشہ روکتے ہوئے انگلی کا اشارہ کیا۔ ایک لڑکا جلدی سے اُن کے پاس آ گیا۔
ایک دودھ پتی ملائی کے ساتھ۔۔۔باجی جی!! آپ نے بتایا نہیں۔۔۔‘‘ اِس سے پہلے نادیہ کوئی فیصلہ کرتی پپو پھر سے بول اُٹھا
دو دودھ پتی ملائی کے ساتھ۔۔۔ یہ جو گاڑیوں کا شو روم ہے۔۔۔یہاں پہلے سینما ہوا کرتا تھا۔ اِن چائے والوں کے دادا کا چھوٹا سا کھوکھا تھا سینما کے اندر۔۔۔ اور آج پتہ نہیں کتنے من دودھ آتا ہے اِس چائے کی دُکان پر۔۔۔ پورے لاہور سے لوگ یہاں چائے پینے آتے ہیں۔۔۔ کل میں بڑی مشکل سے یہاں سے گزرا تھا چائے پیئے بغیر۔۔۔
پپو نان سٹاپ بولے جا رہا تھا۔ نادیہ پپو کے یک طرفہ فیصلے پر خائف تھی۔ وہ ابھی کچھ کہنے ہی والی تھی کہ چائے والا لڑکا چائے لے کر آ گیا۔
پپو نے پہلے چائے نادیہ کو پیش کی پھر خود پرچ میں ڈال کر شر شر پینے لگا۔ نادیہ غصے سے بھری پڑی تھی۔ اُس نے غصے میں چائے کا ایک گھونٹ لے لیا پھر دوسرا پھر تیسرا۔ اُسے چائے بہت مزے کی لگی۔ نادیہ نے بھی جلدی سے چائے ختم کر دی اور اپنے بیگ سے سو کا نوٹ نکال لیا۔ پپو نے چائے والے کو رکشے میں بیٹھے بیٹھے ہی اشارہ کیا۔ وہ جلدی سے کپ لینے آ گیا۔ پپو نے اُسے ساٹھ روپے دیئے۔
چائے کے پیسے میں دوں گی۔‘‘ نادیہ جلدی سے بولی۔
کمال کرتی ہیں باجی جی!! آپ کیوں دیں گی۔۔۔ شہزادے تجھے پیسے مل گئے ہیں۔۔۔تو نکل۔
پپو نے چائے والے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ وہ لڑکا چلا گیا۔ پپو نے بھی رکشہ اسٹارٹ کیا اور محمود غزنوی روڑ کی طرف چل پڑا۔
پپو یہ پیسے رکھ لو۔ نادیہ نے سو کا نوٹ بازو لمبا کرتے ہوئے پپو کے دائیں کندھے کے پاس کیا۔
نا کرو باجی جی۔۔۔! عارفہ اور آصفہ میرے ساتھ ہوتیں تو کیا میں اُن سے پیسے لیتا۔
’’عارفہ اور آصفہ کون۔۔۔؟‘‘
’’میری چھوٹی بہنیں ہیں جی۔۔۔‘‘
’’وہ بھی سلائی کرتی ہیں۔۔۔؟‘‘
’’نہیں جی! وہ دونوں تو گیارہویں بارہویں میں پڑھتی ہیں۔‘‘
’’اُنہیں کون کالج چھوڑنے جاتا ہے۔‘‘
’’کالج کی بس آتی ہے گھر کے پاس!‘‘
’’کون سے کالج میں پڑھتی ہیں۔۔۔؟‘‘
نام تو پتہ نہیں جی!! وہ شوکت خانم ہسپتال کے سامنے لال سی بلڈنگ ہے۔ جس کے اوپر بڑی سی گھڑی بھی لگی ہوئی ہے۔۔۔وہاں پڑھتی ہیں۔
پنجاب کالج! نادیہ نے جلدی سے بات کاٹتے ہوئے بتایا۔
پتہ نہیں سندھ ہے کہ پنجاب۔ پپو نے سڑک پر نظریں جمائے ہی بغیر کسی تاثر کے کہہ دیا۔
’’وہ تو پرائیویٹ کالج ہے اور مہنگا بھی۔‘‘
کیا کہا آپ نے۔۔۔؟‘‘ ٹریفک کے شور کی وجہ سے پپو کو نادیہ کی بات سنائی نہیں دی تھی۔
سرکاری کالجوں کے مقابلے میں وہ تو مہنگا ہے۔۔۔نادیہ نے چلاتے ہوئے بتایا۔
اللہ کا شکر ہے باجی جی۔ ہم بھی کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ اپنی چار گڈیاں چلتی ہیں۔۔۔ چھے دکانوں کا کرایہ آتا ہے۔ 10 مرلے کا ذاتی گھر ہے۔۔۔! پپو نے اپنی کالر کو پکڑ کر بڑے انداز سے جواب دیا۔
رہتے کہاں ہو تم۔۔۔؟‘‘ نادیہ نے تجسس سے پوچھا۔
بیڑ پنڈ میں‘‘ پپو نے بڑے فخر سے بتایا۔
’’اور تمھاری چھالا۔۔۔؟‘‘
’’شادے وال پنڈ میں!‘‘
ٓاچھا اچھا گاؤں میں رہتے ہو تم دونوں۔۔۔‘‘ نادیہ نے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
لاہور سے کتنی دُور ہیں یہ دُونوں گاؤں۔۔۔؟‘‘پپو نے قہقہ لگاتے ہوئے بریک لگائی اور باؤحمید کی طرف دیکھ کر کہنے لگآ
باجی جی! وہ آپ کو باؤ حمید صاحب بتائیں گے۔‘‘ باؤ حمید نادیہ کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ وہ گھر کی بیل بجانے ہی لگا تھا کہ نادیہ اُس کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔
’’السلام علیکم ماموں جی!!‘‘
وعلیکم السلام۔ کیسی ہے ماموں کی جان؟‘‘ سر پر پیار دیتے ہوئے باؤ حمید محبت سے بولا۔
’’ٹھیک ہوں۔۔۔!!‘‘
پپو رکشہ تو زیادہ تیز نہیں چلاتا۔۔۔؟‘‘ باؤ حمید نے پپو کی طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز میں نادیہ سے پوچھا۔ نادیہ نے جواب دینے کی بجائے گھر کی بیل بجا دی۔
باؤ جی آپ کا حکم تھا۔۔۔ پھر بھی پوچھ لیں۔‘‘ پپو یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ اتنے میں شازیہ نے گیٹ کھول دیا۔
٭
کھانا کھاتے ہوئے باؤ حمید نے مسکراتے ہوئے بتایا
’’بیڑ اور شادے وال جوہڑ ٹاؤن کے اندر دو گاؤں ہیں۔‘‘
واپڈا ٹاؤن میں ہمارا صرف پانچ مرلے کا گھر ہے اور یہ رکشے والا دس مرلے کے گھر میں رہتا ہے۔‘‘ نادیہ  نے حیرانی سے کہا۔
’’نادیہ بیٹا دیہاتوں کے گھر بڑے ہی ہوتے ہیں۔‘‘
’’آپ تو کہہ رہے تھے کہ جوہر ٹاؤن میں ہیں یہ گاؤں۔‘‘
بیٹا یہ گاؤں پاکستان بننے سے بھی پہلے کے آباد ہیں۔ اس سارے علاقے کو آباد ہوئے تو 20 پچیس سال ہی ہوئے ہیں۔‘‘باؤ حمید نے نادیہ کی اُلجھن کو دُور کرنے کی پوری کوشش کی۔
’’اچھا باجی میں چلتا ہوں۔‘‘ باؤ حمید وہاں سے چلا گیا۔
رات کو جب شازیہ دوسری منزل پر نادیہ کے کمرے میں دودھ لے کر گئی تو نادیہ پڑھ رہی تھی۔
نادیہ دودھ پی لو۔۔۔ کل بھی تم سے پوچھا تھا کہ یہ رکشے والا کیسا ہے۔۔۔؟‘‘ شازیہ کرسی لے کر نادیہ کے ساتھ بیٹھ گئی اور دودھ کا مگ رائٹنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ نادیہ  نے بغیر کسی تاثر کے کہہ دیا۔ اُس کی نظریں کتاب پر ہی رہیں۔
میں نے حمید بھائی سے کہا بھی تھا، کوئی بزرگ آدمی ہو مگر انہوں نے اس کو بھیج دیا۔ شازیہ فکر مندی سے بولی۔
میں نے کہا نا ٹھیک ہے۔۔۔ آپ کیوں فکر کرتی ہیں۔ آپ بس اپنے داؤد سعود کی فکر کیا کریں
شازیہ نے پیار سے نادیہ کو تھپکی مارتے ہوئے کہا
’’دُکھی آتما۔۔۔ہر وقت بھائیوں سے حسد کرتی رہتی ہے۔‘‘
کل اُس نے باڈی گارڈ میں جو سلمان نے شرٹ پہنی تھی، ویسی پہن رکھی تھی اور آج دبنگ کی طرح نظر آ رہا تھا۔
’’دُعا کریں شرٹ پہنے رکھے۔ کسی دن یہ بھی اُس چھچھورے خان کی طرح بغیر شرٹ کے ہی نہ آ جائے۔‘‘
سلمان کا فین لگتا ہے۔ شازیہ زیر لب مسکراتے ہوئے بولی۔
سلمان کا نہیں۔۔۔شان کا فین ہے۔ نادیہ نے دودھ کا گھونٹ لیتے ہوئے بتایا۔
’’پھر سلمان کی طرح ڈریسنگ کیوں کرتا ہے۔۔۔؟‘‘
٭
ایک تھا ٹائیگر۔۔۔‘‘ چھالا دوسری منزل پر کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ہوئی بولی۔ پپو نے سڑک پر کھڑے ہو کر چھالا کو ایک پوز دیا۔ پھر اِرد گرد دیکھا لوگ تھے۔ وہ چپ چاپ رکشے میں بیٹھ گیا اور اپنے موبائل سے چھالا کا نمبر ملایا۔ چھالا نے جلدی سے کال رسیو کی ۔
پپو  نے جلدی سے آئی لو یو کہہ دیا۔
کام پر جاؤ میرے ٹائیگر۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ کاٹ کے رکھ دوں گی۔‘‘چھالا ادا سے بولی۔
جا تو رہا ہوں۔۔۔ پپو  نے رکشہ میں گیئر میں ڈالتے ہوئے اپنی ہتھیلی پر پھونک مار کر چوما ،ہوا کے حوالے کیا۔
نادیہ آپی رکشے والا آ گیا۔۔۔ سعود داؤد نے اسکول وین میں بیٹھتے ہوئے آواز لگائی۔ شازیہ گیٹ پرہی کھڑی تھی۔ اُس نے پپو کو دیکھ کر اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور اپنے ہی گھر کی بیل بھی بجا دی۔
السلام علیکم باجی جی! پپو نے شازیہ کے پاس آتے ہوئے سلام کیا۔
وعلیکم السلام۔ کیسے ہو بھائی۔۔۔؟ شازیہ نے پپو کے ڈریس کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہوں باجی جی‘‘
تم باڈی گارڈ ہو، دبنگ ہو یا پھر ٹائیگر۔۔۔ شازیہ نے رُک رُک کر پوچھا۔
بجرنگی۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔پپو بھائی جان! پپو نے زبان دانتوں تَلے دباتے ہوئے جلدی سے بات بدلی۔
سلمان جیسے کپڑے کیوں پہنتے ہو۔۔۔؟ شازیہ کو پتہ نہیں چلا، نادیہ اُس کے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
باجی جی، میری منگیتر ڈیزائنر ہے۔ وہ سی دیتی ہے، میں پہن لیتا ہوں۔ وہ چاہتی ہے کہ میں اچھے اچھے کپڑے پہنوں۔ یہ سب اُس کی خوشی کے لیے کرتا ہوں۔
سو سویٹ۔ شازیہ  نے محبت سے کہا۔ نادیہ نے اپنی ماں کو کندھے سے ہلایا اور کہنے لگی
ممّی سائیڈ پر ہٹیں۔۔۔ کالج سے دیر ہو رہی ہے۔۔۔ آپ نے پتا نہیں یہ جاننے کے لیے رات کیسی کاٹی ہے۔۔۔
شازیہ سائیڈ پر ہٹ گئی اور نادیہ کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہنے لگی
’’شریر نہ ہو تو‘‘
باجی جی! پپو پائیلٹ کے ہوتے ہوئے آپ کو کالج سے دیر نہیں ہو سکتی۔ پپو نے رکشے کا دروازہ کھولتے ہوئے تسلی دی۔
ممّی کو بھی باجی جی اور ممّی کی بیٹی کو بھی باجی جی۔ نادیہ نے رکشے میں بیٹھتے ہوئے اپنی ماں کو بائے بائے کیا۔
٭
کالج سے واپسی پر پپو نے پانچ چھے پان بھی پیک کروا لیے تھے۔
باجی جی!! یہ پان بھی کھا کر دیکھیں۔ پپو نے ایک پان نادیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ نادیہ نے عجیب نظروں سے پپو کو دیکھا۔
نہیں کھانا تو کوئی بات نہیں۔ پپو وہ پان شاپر میں ڈالنے لگا تو۔
دے دو کھا لیتی ہوں۔ نادیہ نے ایسے کہا جیسے وہ پان کھا کر پپو پر احسان کر رہی ہو۔رکشہ چل پڑا۔
’’تم روز اتنے پان کھاتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’باجی جی!! یہ تو چھالا کے لیے ہیں۔۔۔!!‘‘
تمھاری درزن کے لیے۔‘‘پپو یہ سن کر مسکرا دیا۔
’’باجی جی!! میری خیر ہے۔ چھالا کے سامنے اُسے درزن مت کہہ دینا۔‘‘
اب فیشن ڈیزائنر تو نہیں کہہ سکتی۔۔۔۔ درزن بُرا لگتا ہے تو لیڈیز ٹیلر کہہ دیتی ہوں۔
آپ کے لاہور کی جو بڑی بڑی مشہور فیشن ڈیزائنرز ہیں، اُن سب کے کپڑے میری چھالا کے کارخانے سے تیار ہوتے ہیں۔ پپو نے جذباتی انداز میں بتایا۔
کون کون سی ہیں۔۔۔ وہ مشہور فیشن ڈیزائنرز۔۔۔؟‘‘ نادیہ نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا۔
پپو نے سینٹر مرر میں نادیہ کو دیکھا پھر کہنے لگا
عالیہ، ای ڈیفنس میں، زارا زی، گلبرگ میں اور بسما بی ماڈل ٹاؤن میں۔۔۔۔ ان سب کے کپڑے چھالا کے کارخانے سے تیار ہوتے ہیں۔۔۔یہ مجھے کسی نے نہیں بتایا۔ میں خود کپڑوں کی ڈلیوری لے کر جاتا ہوں۔
’’اب تو تمھاری چھالا سے ملنا ہی پڑے گا۔۔۔ پپو ایک بات تو بتاؤ۔۔۔؟‘‘
’’ باجی۔۔۔! پوچھیں۔۔۔؟‘‘
’’تم اپنی منگیتر کو چھالا کیوں کہتے ہو۔۔۔؟‘‘
باجی جی!! اُجالا بچپن میں چھَلا کو چھالا کہتی تھی۔ اور میں اُس کا مذاق اُڑایا کرتا تھا۔ وہ توتلی زبان میں باتیں کیا کرتی تھی۔ پتا ہی نہیں چلا کب ہم دونوں جوان ہو گئے۔‘‘ پپو بڑی خوشی سے نادیہ کو سب کچھ بتا رہا تھا۔ نادیہ نے اگلا سوال پوچھ لیا
’’اُس کے گھر میں کون کون ہے۔۔۔؟‘‘
خالو چند سال پہلے مر گیا۔ وہ بھی درزی تھا۔ وہ اُسی کارخانے میں بڑی بڑی فیکٹریوں کا مال سیتا تھا ۔ ایک بڑی بہن ہے، اُس کی شادی ہو چُکی ہے ۔ دو چھوٹے بہن بھائی ہیں۔ وہ دونوں اسکول میں پڑھتے ہیں۔ میری خالہ بھی بڑی اچھی ہے۔ میری چھالا کی امّی۔۔۔
چھالا سے بھی اچھی۔۔۔؟ نادیہ نے فٹ سے پوچھا ۔ پپو نے مسکراتے ہوئے نہ میں گردن ہلائی۔
اچھا یہ بتاؤ، چھالا سے تمھاری منگنی کیسے ہوئی۔۔۔؟ نادیہ نے اشتیاق سے پوچھا۔
’’منگنی تو نہیں ہوئی۔ بس ہم دونوں بچپن سے سُنتے آ رہے ہیں کہ ہم دونوں کی شادی ہو گی۔‘‘
’’شادی کب ہے۔۔۔؟‘‘
بڑی عید کے بعد۔‘‘ پپو نے جلدی سے کہہ دیا ۔
’’ابھی تو کئی مہینے پڑے ہوئے ہیں تمھاری شادی کو۔۔۔ شادی کے بعد بھی رکشہ چلاؤ گے۔۔۔؟‘‘
نہیں ۔۔۔چھالا خود کی ایک بڑی سی بوتیک بنانا چاہتی ہے۔۔۔ چھوٹی عید کے بعد ایک کمیٹی میری ہے اور آخری چھالا کی ۔ اُس سے ہم اپنی بوتیک کھولیں گے۔
واہ واہ پپو پائیلٹ، تم نے تو شادی کی ساری پلاننگ کی ہوئی ہے۔‘‘ نادیہ نے بڑے مزے سے کہا۔
یہ ساری پلاننگ بھی چھالا کی ہے۔ وہ کمیٹی بھی چھالا  نے اپنے پاس ڈال رکھی ہے۔ باتوں باتوں میں سفر کا پتا ہی نہیںچلا۔۔۔ باجی جی ہم پہنچ گئے۔
٭
وقت کو بھی رکشے کے پہیوں کی طرح پہیے لگ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند ماہ گزر گئے۔ نادیہ اور پپو میں دوستی ہو چُکی تھی، جیسے بہن بھائیوں میں ہوتی ہے۔ اِس عرصے کے دوران نادیہ اور شازیہ کا پپو اور چھالا کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔
چھالا بھی کئی بار نادیہ کے گھر جا چکی تھی۔ چھوٹی عید سے ہفتہ پہلے نادیہ کے ڈیڈی نثار احمد دبئی سے عید کرنے کے لیے آئے۔ آتے ہی انہوں  نے ایک چھوٹی زیرو میٹر کار نادیہ کے لیے خریدی۔ چھوٹی عید آن پہنچی۔
عید سے اگلے روز شازیہ اور چھالا  نے سلمان خان کی نئی فلم ’’سلطان‘‘  سینما میں دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ اُن کے ساتھ باقی لوگ بھی زبردستی تیار ہو گئے۔ پپو اپنی چھوٹی بہنوں اور چھالا کے ساتھ اپنے رکشے پر سینما پہنچا اور نثار اپنی فیملی کو نئی گاڑی میں  لے کر گیا۔
فلم دیکھ کر واپسی گھر جاتے ہوئے نثار احمد نے نادیہ کو خوش کرنے کے لیے شازیہ کو تنگ کیا
’’شازیہ بیگم!! سلمان خان کچھ بھی کر  لے، عامر خان سے اچھا ایکٹر نہیں ہے۔۔۔‘‘
واہ ڈیڈی۔۔۔آج آپ نے کی نا کھری بات۔‘‘ نادیہ نے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔ شازیہ نے نثار کو کُہنی مارتے ہوئے جواب دیا
تمھارے پاپا سلمان سے چھوٹے ہیں۔۔۔ اور لگتے سلّو کے ابّو ہیں۔‘‘ داؤد اور سعود کی بتیسی نکل آئی۔
میری عمر بتانے کی کیا ضرورت تھی بچوں کے سامنے ۔۔۔‘‘ نثار نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
بتائیں نا۔۔۔ آپ سلمان سے چھوٹے نہیں ہیں۔۔۔؟’’میں نے پیار کیا ‘‘ جب آئی تھی، میں آٹھویں میں تھی اور آپ دسویں میں تھے۔۔۔
میں نے پیار کیوں کیا۔۔۔؟ تم سے۔۔۔‘‘ نثار احمد مصنوعی غصے سے چلایا۔
٭
پپو اور چھالا دونوں ہی اپنے بہن بھائیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ اُن کو دیکھ دیکھ کر نادیہ بھی بدل گئی۔ وہ اب نہ تو انپے بھائیوں کو مارتی اور نہ ہی ڈانٹتی ۔
ایک مہینے کی چھٹی تھی، تو پھر یہ گاڑی کیوں خریدی۔۔۔؟‘‘ شازیہ  نے نثار کو اُداس نظروں سے دیکھ کر گلہ کیا۔
نادیہ کے پاپا۔۔۔! چھوڑ دیں دبئی۔۔۔ساری زندگی ہم  نے الگ الگ ہی گزار دی۔‘‘ شازیہ نے نم آنکھوں کے ساتھ نثار سے کہا۔ یہ سُن کر نثار سوچ میں پڑ گیا۔ اُس نے شازیہ کی اُداسی دور کرنے کے لیے بات بدلی
’’نادیہ مجھے ڈیڈی کہتی ہے اور تم مجھے اُس کا پاپا بنا دیتی ہو۔
سعود ،داؤد تو ہمیں ماما پاپا ہی کہتے ہیں نا۔۔۔ نادیہ تو من موجی ہے۔ بچپن سے سکھا رہی ہوں کہ ماما پاپا کہا کرو۔۔۔وہ تو ممّی ڈیڈی ہی کہے گی۔
’’میں تم سب کے پاسپورٹ بنوانا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
وہ کیوں ۔۔۔؟ پہلے فضول میں گاڑی خریدی۔۔۔ اب پچیس،تیس ہزار اور برباد کریں گے۔‘‘ شازیہ نے جلدی سے کہہ دیا۔
میں بھی تمھارے اور بچوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔۔۔ دیکھو نا، گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔۔۔ میں کاروبار کا حرج کر کے تم لوگوں کے پاس آیا ہوں۔۔۔ گرمیوں کی چھٹیوں اور دسمبر کے چھٹیوں میں تم لوگ میرے پاس آ جایا کرو۔
آپ ہی کیوں نہیں دُبئی چھوڑ دیتے۔۔۔؟‘‘ شازیہ چڑتے ہوئے بولی۔
بھولی عورت۔۔۔ کیسے چھُوڑ دوں۔ لگا لگایا کاروبار ۔۔۔ ان شاء اللہ ایک دو سال میں واپس آ جاؤں گا۔‘‘ نثار  نے شازیہ کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر کہا۔
ٹھیک ہے۔۔۔ پھر یہ گاڑی بیچ دیں، ورنہ گیراج میں کھڑی کھڑی برباد ہو جائے گی۔‘‘ شازیہ نے حتمی انداز میں کہا۔
خریدنے کا سوچا کرو۔۔۔ بیچنے کا نہیں۔۔۔ نادیہ ڈرائیونگ سیکھ تو رہی ہے۔۔۔جب اُسے آ جائے گی تو پھر اپنی گاڑی پر کالج بھی چلی جایا کرے گی۔
’’نادیہ کے پاپا۔۔۔!! آپ کی سب میں نے مانی ہیں۔ نادیہ کو کالج اکیلے نہیں جانے دوں گی۔‘‘
پپو تو کہتا ہے۔۔۔کہ وہ شادی کے بعد رکشہ چلانا چھوڑ دے گا۔‘‘ نثار نے اطلاع دی۔
’’پپو کی ایسی کی تیسی میں دیکھتی ہوں وہ اپنی باجی کو کیسے انکار کرے گا۔‘‘
٭
چھٹیوں کے بعد نادیہ کا کالج شروع ہوا۔ پپو اور نادیہ اب روز ایک ایک میٹھا پان کھاتے اور کالج سے واپسی پر ایک ایک کپ چائے بھی ضرور پیتے۔
ایک دن نادیہ پیسے دیتی اور دوسرے دن پپو۔ ایسے ہی کالج سے ایک دن واپسی پر پپو اپنا رکشہ سڑک کنارے کھڑا کر کے چائے پی رہا تھا۔ پپو رکشے کے ساتھ کھڑا تھا اور نادیہ اندر بیٹھی ہوئی تھی۔ پپو کے رکشے کے ساتھ ایک کار والے  نے اپنی کار پارک کر دی جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہو گئی۔ہارن پہ ہارن بجنے لگا۔ ایک شخص اپنی کار سے اُتر کر پپو کو مخاطب کرکے غصے میں چلایا
اوئے بے غیرتا اپنے ابّے نوں سائیڈ تے کر لے۔‘‘ اُس آدمی نے پپو کو دو چار گالیاں بھی نکالیں۔ پپو نے گالیاں سُن کر بھی اُف نہیں کہا اور خاموشی سے رکشہ اسٹارٹ کر کے چل پڑا۔
تم نے اُسے جواب کیوں نہیں دیا۔۔۔ میں تمھاری جگہ ہوتی تو اُس کا منہ نوچ لیتی۔۔۔‘‘ نادیہ جذباتی ہو کر بولی۔
باجی جی غلطی تو میری ہی ہے۔۔۔ میری وجہ سے ساری ٹریفک جام ہو گئی تھی۔۔۔‘‘ پپو نے ہولے سے اعتراف کیا۔
غلطی تمھاری نہیں تھی۔۔۔ غلطی اُس کار والے کی تھی جس نے رکشے کے ساتھ اپنی کار کھڑی کی تھی۔‘‘ نادیہ نے چیختے ہوئے کہا۔
باجی جی!! سائیکل والا ریڑھی والے کو گالی دیتا ہے اور موٹر سائیکل والے سے کھاتا ہے۔ موٹر سائیکل والے کو کار والے سے گالی پڑتی ہے۔ کار چھوٹی ہو تو بڑی کار والا اُسے سُنا جاتا ہے، بڑا افسر اپنے سے چھوٹے افسر کو گالی دیتا ہے اور اپنے بڑے سے کھاتا ہے۔ دعائیں دینے والے مرتے جارہے ہیں اور گالیاں دینے والے بڑھتے جا رہے ہیں۔
ہم رکشے والوں کو تو پیدل سے لے کر مرسڈیز والے تک سب ہی گالیاں دیتے ہیں۔ ہم لوگ انسان کی سواری دیکھ کر اُس کی عزت کرتے ہیں۔ سواری معمولی ہو تو کم عزت سواری اعلیٰ ہو تو زیادہ عزت۔
باقی رستے پپو نے کوئی بات نہیں کی نادیہ نے بھی مزید بات کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
٭
بڑی عید کے چار دن بعد پپو اور چھالا کی شادی تھی۔ عید کی چھٹیوں سے پہلے لاسٹ ورکنگ ڈے کی صبح پپو تیار ہو کر چھالا کی کھڑکی کے نیچے پہنچا ، پپو رکشے سے اُترا بھی نہیں تھا کہ چھالا سامنے آ گئی۔ چھالا تو جیسے پپو کے دیدار کے لیے پہلے سے تیار بیٹھی تھی۔ ہلکی ہلکی بُوندا باندی ہو رہی تھی۔ پپو آج سلطان بن کر آیا تھا اپنی ملکہ کے دیدار کے لیے۔ دونوں  نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ ہمیشہ پپو چھالا کو کال کرتا تھا آج چھالا کی کال آ گئی ۔ پپو نے چھالا کو دیکھتے ہوئے کال ریسیو کی۔
پپو آئی لو یو۔‘‘چھالا نے شرماتے ہوئے کہا۔ پپو نے چھالا کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر جواب دیا
’’آج سورج کدھر سے نکلا ہے۔‘‘
آج تو سورج نکلا ہی نہیں آج تو بارش ہو رہی ہے۔۔۔‘‘ چھالا نے کھڑکی سے باہر اپنی دائیں ہتھیلی نکالی۔ اُس پر بارش کے چند قطرے پڑے، پھر اُس نے اپنی ہتھیلی کو اپنے دائیں گال پر رکھتے ہوئے کہا
’’پپو!! میری ایک خواہش یہ بھی ہے کہ میں بارش میں تمھارے ساتھ بھیگوں۔۔۔‘‘
ابھی اوپر آ جا تا ہوں۔ چھت پر بھیگتے ہیں۔‘‘ پپو چہکتے ہوئے بولا۔
کاٹ کے رکھ دوں گی ۔۔۔ تمھیں کتنی بار سمجھایا ہے، ابھی نہیں شادی کے بعد۔۔۔‘‘ چھالا  نے منہ پھیرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں اپنا فیصلہ سنایا۔
’’شادی کے بعد نہ جانے کب بارش ہو۔۔۔ میں تو کہتا ہوں آج ہی بھیگ لیتے ہیں۔‘‘
تمھیں کام پر نہیں جانا۔۔۔‘‘ چھالا نے بغیر دیکھے ہی کہا۔
چہرہ دکھاؤ، چلا جاتا ہوں۔‘‘ چھالا نے کھڑکی کی طرف منہ کیا اور نظریں جھکا کر کہنے لگی
آج تم بڑے اچھے لگ رہے ہو۔ پپو نے یہ سُنا اور وہاں سے چلا گیا۔
کہاں تھے۔۔۔ چھالا کے سلطان!!‘‘ جیسے ہی پپو  نے رکشہ روکا، شازیہ نے فٹ سے کہہ دیا۔ نادیہ جلدی سے رکشے میں بیٹھ گئی۔ شازیہ اور نادیہ گیٹ پر ہی کھڑی تھیں۔
کیسی ہیں۔۔۔ باجی جی!! پپو نے رکشے میں بیٹھے بیٹھے ہی شازیہ سے پوچھا۔
پہلے ہی تم پورے پانچ منٹ لیٹ ہو۔۔۔اب چلو بھی۔۔۔ اپنی باجی جی کا حال واپسی پر پوچھ لینا۔۔۔
کیوں فکر کرتی ہیں باجی!! پپو پائیلٹ کہتے ہیں۔ مجھے پانچ منٹ پہلے ہی پہنچا دوں گا۔‘‘ پپو نے رکشہ گیئر میں ڈالتے ہوئے اپنے ارادے ظاہر کیے۔
٭
آج موسم بڑا سہانا ہے۔۔۔ چوہدری!!‘‘ امجد نے تیمور کی طرف دیکھ کر اپنے دل کی بات سنائی۔
تیمو ر نے پجارو کے سائیڈ مرر میں اپنی مونچھوں کو طائو دیتے ہوئے کمینی مسکراہٹ چہرے پہ لاتے ہوئے کہا
’’صبح ہی صبح۔۔۔‘‘
موسم اچھا ہو تو کیا صبح کیا رات۔‘‘ امجد پھر سے بولا۔
بات تیری دل پہ لگی ہے جانی۔ تیمور نے کچھ سوچتے ہوئے موبائل اُٹھایا۔
’’نا چوہدری نا۔۔۔آج خود کا شکار لاتے ہیں۔‘‘
کوئی ہے نظر میں۔۔۔‘‘ تیمور نے امجد کو غور سے دیکھ کر پوچھا۔
نظر میں تو نہیں، نظر آ جائے گا۔‘‘ امجد نے قہقہ لگاتے ہوئے اپنی کمینگی بتائی۔
انارکلی اور نیلا گنبد کے درمیانی چوک پر ٹریفک جام تھی۔ دوسری طرف سے گاڑیاں آ رہی تھیں ۔ میو ہاسپٹل سے جو سڑک کنگ ایڈورڈ کالج کی طرف جاتی ہے، پپو کا رکشہ وہاں پہنچ گیا تھا۔
’’باجی جی!! گھڑی دیکھ لو، پانچ منٹ پہلے ہی پہنچا دیا۔۔۔ میں رکشہ چلاتا نہیں اُڑاتا ہوں۔‘‘
’’آگے تو رش ہے۔۔۔تم ایسے کرو مجھے یہیں اُتار دو۔۔۔‘‘ نادیہ خود ہی جلدی سے رکشے سے اُتر گئی۔
باجی جی!! بارش بھی ہو رہی ہے اور کیچڑ بھی ہے۔ آپ بیٹھو، یہ دیکھیں سامنے سے گاڑیاں آ رہی ہیں۔ میں پچھلی گلی سے گھوم کر آپ کو کالج کے گیٹ کے پاس اُتار دیتا ہوں۔
ہلکی ہلکی بارش ہے، میں چلی جاؤں گی۔۔۔‘‘ نادیہ جلدی جلدی کالج کی طرف قدم اُٹھانے لگی۔۔۔ کالج کی طرف جاتی ہوئی نادیہ کو پپو دیکھنے لگا۔
چوہدری شکار مل گیا۔ امجد نے ونڈ اسکرین سے دیکھتے ہوئے تیمور کی توجہ نادیہ پر مبذول کرائی۔ تیمور کی پجارو سامنے کی طرف سے آ رہی تھی۔
پتہ ہے نا۔۔۔کیا کرنا ہے۔۔۔ تیمور نے امجد کی طرف دیکھا، جو پہلے سے ہی رومال پر لیکوڈ ڈال رہا تھا۔
اب تو تجربے کار ہو گئے ہیں۔ امجد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
لے پھر۔۔۔ تیمور  نے نادیہ کے پاس پہنچ کر بریک لگائی۔ امجد نے جلدی سے دروازہ کھول کر وہ رومال نادیہ کے منہ پر رکھا۔
نادیہ پرندے کی طرح پھڑ پھڑانے لگی۔ پپو یہ دیکھ کر جلدی سے اپنے رکشے سے نکلا اور نادیہ کی طرف بھاگا۔ اس سے پہلے کہ یہ باز اِس معصوم فاختہ کو اپنے پنجوں میں لے کر اُڑتا، پپو نے پوری طاقت سے ایک مکا امجد کے منہ پر مارا۔ امجد نادیہ کو اُٹھانے کی بجائے خود زمین پر تھا۔ نادیہ ہوش میں تھی، ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ۔ پپو امجد کی چھاتی پر بیٹھ گیا اور مکے مار مار کر امجد کا منہ لہولہان کر دیا۔ تیمور گاڑی سے اُترا اور آتے ہی پپو کو دو گولیاں مار دیں۔
پپو بھائی!!۔۔۔‘‘ نادیہ درد سے چیخی اور پپو کی طرف لپکی۔ ہلکی بارش کے باوجود جنگلی کبوتر گولیوں کے آواز سے اُڑ پڑے مگر اشرف المخلوقات اپنی اپنی جگہ سے نہیں ہلے، بلکہ ڈر سے دُبک گئے۔
ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا۔ تیمور  نے ٹانگ سے پپو کو دھکا دیا۔ پپو ایک طرف پر گر گیا۔ امجد زمین سے جلدی سے اُٹھا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ تیمور نے باری باری دونوں اطراف دیکھا۔ نادیہ پپو کو سنبھالے ہوئے تھی۔ تیمور  نے نادیہ کو بالوں سے پکڑ کر امجد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
جانی شکار کے بغیر ہی۔۔۔پکڑ اِسے تیمور نے نادیہ کو پجارو کی پچھلی سیٹ پر دھکا دیا۔
پپو اُٹھا اور پیچھے سے اپنے بازو سے تیمور کی گردن کو جکڑ لیا۔ تیمور نے خود کو پپو کی گرفت سے چھڑاتے ہوئے دانت پیس کر کہا
’’اوئے تیری جان نکلی نہیں ابھی تک۔‘‘
بے غیرتا!! جان چھوٹی ہے۔۔۔ اورعزت بہت بڑی ہے۔‘‘ پپو کے منہ سے خون نکل رہا تھا۔
’’لے پھر تیری جان نکال دیتا ہوں۔‘‘ تیمور نے موذر کو پیچھے کی طرف کرکے چلا دیا۔
مت مارو پپو بھائی کو۔۔۔‘‘ نادیہ نے امجد کی گرفت سے خود کو چھڑاتے ہوئے تیمور کو زور سے دھکا دیا۔ پپو کو بچانے کے چکر میں نادیہ اور تیمور گتھم گتھا تھے۔ تیمور پاگلوں کی طرح گولیاں چلائے جا رہا تھا۔ دو گولیاں نادیہ کو بھی لگیں۔ نادیہ اور پپو زمین پر گر گئے۔ تیمور نے وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔ وہ سارے لوگ جو اپنی اپنی جگہ پر کھڑے بیٹھے یہ اصلی شوٹنگ دیکھ رہے تھے۔ تیمور کے جانے کے بعد سب اُس طرف بھاگے۔ ایک شور مچ گیا۔
’’دونوں ابھی زندہ ہیں۔‘‘
’’میو ہسپتال لے چلو۔۔۔!!‘‘
’’1122 کال کرو۔۔۔!!‘‘
’’پولیس کو بلاؤ۔۔۔یہ پولیس کیس ہے۔‘‘
تمام خاموش آوازیں ایک ساتھ بلند ہو گئیں۔ چند اللہ کے بندوں نے پپو اور نادیہ کو ہسپتال پہنچا دیا۔
٭
اگلے دن نادیہ کو ہوش آیا۔ وہ ہسپتال کے بستر پر تھی۔ اُس نے اِرد گرد دیکھنے کی کوشش کی۔ سب دُھندلا دُھندلا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے شازیہ کو پہچانا۔
ممّی!! پپو بھائی کیسا ہے۔ شازیہ نے نثار کی طرف دیکھا جو دُبئی سے آ گیا تھا۔
نثار نادیہ کے پاس آیا اور اُس کے ماتھے پر شفقت سے ہاتھ رکھ کر کہنے لگا
’’پپو ٹھیک ہے۔۔۔ آئی سی یو میں ہے۔‘‘
اُن کی عید ہاسٹپل میں ہی گزری۔ عید کے چوتھے دن پپو اور چھالا کی شادی والے دن نادیہ کو ہاسپٹل سے چھٹی ملی۔
نادیہ نے ضد کر رکھی تھی کہ وہ پپو کو ملے بغیر اپنے گھر نہیں جائے گی۔ نثار اُسے پپو کے گھر  لے گیا۔ پپو کے گھر کے باہر اُس کا رکشہ کھڑا تھا۔ نادیہ ویل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اُسے گھر کے اندر  لے جایا گیا۔ نادیہ نے پپو کی ماں سے پوچھا
باری باری سب کی طرف دیکھا۔ چھالا اور پپو کے سب گھر والے موجود تھے ۔ چھالا اور پپو ہی نہیں تھے۔ نادیہ سمجھ گئی۔ وہ بڑی ہمت کر کے اتنا ہی بول پائی
ڈیڈی مجھے پپو بھائی کی قبر پر جانا ہے۔‘‘ نادیہ کی آنکھوں میں خاموش آنسو تھے۔۔۔ نثار اُسے قبرستان لے گیا۔ باؤ حمید اُس کے ساتھ تھا۔
یہ پپو کی قبر ہے۔۔۔اور یہ۔۔۔؟‘‘باؤ حمید نے دو قبروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
اور یہ چھالا کی۔۔۔‘‘ نادیہ نے یقینِ کامل سے کہا۔
نادیہ کافی دیر دونوں قبروں کو دیکھ کر روتی رہی، پھر باؤ حمید  نے نثار کو اشارہ کیا تو وہ نادیہ کی وئیل چیئر کو دھکا لگا کر قبرستان سے باہر  لے گیا۔
رات کو نادیہ اپنے بیڈ پر گُم سُم لیٹی ہوئی تھی۔ شازیہ اُس کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ کرب سے بولی
’’کچھ بات تو کرو۔۔۔نادیہ!!جب سے قبرستان سے آئی ہو۔۔۔ ایسے ہی بُت بنی لیٹی ہوئی ہو۔‘‘
بات۔۔۔ممّی !میں آپ کو پپو بھائی کی بہادری کی داستان سناتی ہوں اور آپ مجھے چھالا بھابھی کی وفا کی کہانی سنائیں۔
پپو  نے تو ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم دے دیئے تھے۔۔۔ اُسی دن عشاء کے بعد پپو کا جنازہ تھا۔۔۔ چھالا نہ روئی نہ ہی اُس نے کوئی بین ڈالے۔۔۔ ایک آنسو نہیں اُس کی آنکھ سے نکلا۔۔۔
اگلے دن صبح وہ اپنے بستر پر مردہ حالت میں ملی۔ شازیہ نے ٹشو سے نادیہ کے آنسو صاف کیے ۔
٭
دو دن بعد نثار احمد دبئی چلا گیا اور ہفتے بعد پھر واپس آ گیا۔ جب وہ آیا تو اُس کے پاس اپنی ساری فیملی کے ویزے تھے۔ نثار اور شازیہ  نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دبئی شفٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
ڈیڈی میں تب تک دبئی نہیں جاؤں گی جب تک آپ مجھے اُن بے غیرتوں کے متعلق نہیں بتاتے۔۔۔۔ اُن کو سزا ہوئی یا نہیں۔۔۔؟
نہیں۔۔۔ نثار نے گردن جھکا کر کہا۔
کیوں ڈیڈی۔۔۔؟ آخر کیوں۔۔۔؟اُنھوں نے دو قتل کیے ہیں۔۔۔ پپو اور چھالا کا۔۔۔‘‘ نادیہ نے زخمی لہجے میں دو سوال پوچھے اور ایک بات بتائی۔
اِس لیے کہ یہ پاکستان ہے!! یہاں بے قصور جیلوں میں سڑتے ہیں اور قصور وار آزاد گھومتے ہیں۔۔۔۔جس نے پپو کو قتل کیا اُس کا باپ وفاقی وزیر ہے اُن لوگو ں نے پپو کے گھر آ کر اُس کی ماں کو ڈرایا۔۔۔اُس کی جوان بیٹیوں کو اُٹھانے کی دھمکی دی۔۔۔
وہ بیچاری بیوہ عورت آخر کیا کرتی اُس نے اپنا کیس ہی واپس لے لیا۔
’’ڈیڈی آپ کی بھی بیٹی کی عزت پر حملہ ہوا تھا۔۔۔آپ نے کیا کیا۔۔۔؟‘‘
میں نے تمھاری ماں اور اپنے رشتے داروں کے کہنے پر ایف آئی آر ہی نہیں کٹوائی تھی۔‘‘ نثار نے شازیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ شازیہ نے بھی اپنی گردن کو ہاں میں جُنبش دی۔
یہ آپ دونوں کے وہی رشتے دار ہیں نا۔۔۔؟ جنہوں نے آپ دونوں کی لو میرج کے بعد آپ دونوں سے کوئی تعلق نہیں رکھا۔ صرف دادی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نہیں چھوڑا تھا، باقی سب نے آپ دونوں کو چھوڑ دیا تھا ۔
ڈیڈی جی! رشتے ہوتے نہیں ہیں۔۔۔بنائے جاتے ہیں، نبھائے جاتے ہیں۔۔۔ جیسے ایک اجنبی رکشے والا میرا بھائی بن گیا اور بڑی شان سے اپنا رشتہ نبھایا ۔‘‘ نثار کی گردن جھکی ہوئی تھی ۔ شازیہ کے آنسو بہہ رہے تھے۔
ڈیڈی !! میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا ہرگز نہیں، میں تو آپ کو حقیقت بتا رہی ہوں۔میں پپو کو بزدل سمجھتی تھی مگر وہ تو بڑا بہادر نکلا ۔
آپ بھی بڑے اچھے انسان ہیں۔۔۔کبھی کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔۔۔خود غرض بھی نہیں ہیں مگر اِس معاملے میں آپ خود غرضی دکھا رہے ہیں۔۔۔ جس نے آپ کی عزت بچائی آپ اُس کی عزت کو اِس ملک میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یا تو آپ پپو کی فیملی کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔۔۔اگر ایسا نہیں کر سکتے پھر مجھے بھی یہیں چھوڑ دیں۔
شازیہ سمجھاؤ اِسے۔۔۔‘‘ نثار غصے سے بولا۔ شازیہ کچھ دیر سوچتی رہی پھر بولی
نادیہ کے پاپا! بات تو ٹھیک ہے ہم دُبئی نہیں جائیں گے۔ شازیہ نے بھی اپنا فیصلہ سُنایا ۔
تم تو بے وقوف مت بنو۔  نثار پھر سے غصے میں بولا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ تو پھر رہو تم سب اِس جہنم میں۔۔۔  نثار یہ کہتے ہوئے غصے سے اُٹھ کر چلا گیا۔
’’اللہ کرے میرا ملک بھی جنت بن جائے۔ جہاں پر سب کو انصاف ملے۔‘‘
انشاء اللہ۔۔۔ایسا ضرور ہو گا۔۔۔‘‘ شازیہ نے نادیہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔
اگلے دن نثار دبئی اکیلے ہی چلا گیا۔ ایک مہینے بعد نادیہ بالکل تندرست ہو گئی۔ اُس نے باؤ حمید سے کہہ کر پپو اور چھالا کی قبروں پر کتبے لگوائے۔
نادیہ قبرستان  گئی تو چھالا کی قبر پر کتبہ نصب تھا جس پر لکھا ہوا تھا
وفا کی علامت
’’عرفان کی اُجالا‘‘
اور پپو کی قبر پر کتبہ نصب تھا
عزتوں کا محافظ
شہید پپو پائیلٹ

…٭…

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles