22 C
Lahore
Wednesday, April 24, 2024

Book Store

نیم کی مسواک

نیم کی مسواک

زندگی میں خواتین کا انتھک کردار اور اہمیت

تحریر ۔ جاوید ایاز خان

بچپن میں میرے دادا جان مرحوم روزانہ صبح صبح نماز کے لیے اُٹھاتے اور نماز کے بعد اپنی روزمرہ کی تلاوت اور دعا کے بعد صبح کی سیر ان کا معمول ہوتا تھا۔ ہم سیر کرتے کرتے بہت دور تک نکل جاتے۔
راستے میں وہ کسی نہ کسی نیم کے درخت سے چاقو سے دانت صاف کرنے کے لیے دو مسواک ضرور بناتے ایک وہ خود استعمال کرتے اور دوسری مجھے دے دیتے، استعمال کرنا سکھاتے۔
مجھے اس سے بےحد چڑ تھی کیونکہ ایک تو وہ بہت سخت ہوتی دوسرے اس قدر کڑوی کہ زبان پر رکھنا مشکل ہوتا، پورے دن میں میرے لیے یہ سب سے تکلیف دہ لمحات ہوتے۔
پہلے اس کو دانتوں میں چبا کر نرم کرنا اور پھر دانتوں کی اچھی طرح سے صفائی بڑا مشکل مرحلہ ہوتا۔
میں جان چھڑانے کی بہت کوشش کرتا، میں جانتا تھا کہ دانتوں کی صفائی کے بغیر ناشتا نہیں ملے گا مگر نیم کی کڑواہٹ جان نکال لیتی تھی ۔
ایک دن میں  نے بڑا احتجاج کیا اور التجا کی کہ بڑے ابا کیوں نہ منجن وغیرہ استعمال کریں یا پھر کسی اور درخت کی مسواک استعمال کر لیں جو کڑوی نہ ہو تو انہوں نے بڑے پیار سے مجھے مسواک کے روحانی اور طبی فائدے بتائے۔
کہنے لگے پہلی بات تو یہ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔
مسواک کرنا سنت رسولﷺ ہے۔
نیم کی مسواک منہ کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔
ایک جانب تو یہ منہ میں موجود جراثیم اور بیکٹیریا کا خاتمہ کرتی ہے تو دوسری طرف لعاب میں الکلائن کی سطح کو برقرار رکھتی ہے ۔
نیم کی مسواک دانتوں کو اُجلا بناتی ہے اور دانتوں کو کیڑا لگنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ مسوڑھوں کو انفیکشن سے بچاتی اور منہ کی بدبو کو بھی ختم کر دیتی ہے ۔
غرض انہوں  نے نیم کی مسواک کو صحت کا خزانہ قرار دیا اور کہنے لگے اتنے فائدے ہوں تو کڑواہٹ کیا معنی رکھتی۔ ہم بخار کیے لیے کڑوی کونین بھی تو کھاتے ہیں۔ ان کی بات میری سمجھ میں آ گئی۔ میں  نے پھر کبھی نیم کی مسواک کو برا نہ سمجھا۔ تمام زندگی جب بھی مسواک کرنے کا موقع ملا، میں تازہ نیم کی مسواک ہی استعمال کرتا ہوں ۔
ہماری دادی اماں بڑی سخت گیر، تیز مزاج خاتون اور بےحد تلخ خاتون تھیں ۔
گھر پر بڑا رعب و دبدبہ تھا۔ بیٹے بیٹیاں بہوئیں، اور بچے سب ان سے ڈرتے تھے۔ غصے میں بڑے ابا تک کا لحاظ نہ کرتیں تھیں لیکن وہ کبھی جواب نہ دیتے ۔
ایک دن تو بڑے ابا سے کسی گھر کے اخراجات مسئلے پر بہت جھگڑیں اور جو منہ میں آیا کہتی چلی گیں۔ حالانکہ بڑے ابا حق پر تھے، چپ رہے ۔
بڑے ابا صرف اتنا بولے:
”اللہ کی بندی آہستہ بولو۔ بچوں اور بہوؤں کا تو کچھ احساس کر لیا کرو اور مجھے لے کر باہر نکل گئے ۔میں بچہ تھا۔ مجھے بڑا غصہ آیا ۔
میں  نے راستے میں کچھ کہنا چاہا تو وہ میرے لہجہ اور چہرےکے تاثرات سے بھانپ گئے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں ۔
مجھے دیکھ کر حسب عادت مسکرائے اور بولے:
آؤ تمہیں ایک بات بتاتا ہوں ۔ پہلے میرے چند سوالوں کا جواب دو ۔ میں  نے غصہ میں اپنی گردن ہلا کر ہاں میں جواب دیا تو بولے۔ یہ بتاؤ صبح سب سے پہلے کون اُٹھتا ہے؟ اور سب سے آخیر میں کون سوتا ہے ؟
میں تو سارا دن گھر سے باہر رہتا ہوں۔ پورے گھر کا نظام کون چلاتا ہے؟ بہوؤں اور بچوں کی نگرانی ، کھانا پکانا، پانی بھرنا، گھر کی صفائی، برتن اور کپڑوں کی دھلائی، سلائی کڑاہی، یہ سب کون کرتا ہے؟
میں نے کہا ” یہ سب بڑی اماں کرتی ہیں ۔”
بولے، یہ بتاؤ روز چارپائیاں صحن میں کون نکالتا اور روز صبح واپس کمروں میں واپس بچھاتا ہے؟ بستر کون بچھاتا اور لپیٹتا ہے ؟
میں نے کہا، بڑی اماں، اور کون ہے؟
بولے، میرے اور تمہارے جوتے کون صاف کرتا ہے؟ کپڑوں پر استری کون کرتا ہے؟ ہم اپنی چیزیں بے ترتیب ڈال دیتے ہیں، پھر بھی ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ملتی ہے۔ وہ کیسے؟ یہ سب کچھ خود بخود کیسے ہو جاتا ہے؟
گھر کی لپائی اور صاف ستھرائی کون کرتا ہے؟ میرے آٹھ بچے کس نے پالے، جوان کئے، اور ان کی شادیاں کس نے کیں؟ اب میرے پوتوں اور نواسوں کو کون کھلاتا ہے؟ کون بیماری میں ان کی صحت اور دوائی کا خیال رکھتا ہے؟ بیماری میں ساری ساری رات کون جاگ کر تیمارداری کرتا ہے؟
پورے گھر میں کسی کو کوئی تکلیف ہو تو وہ کس سے شکایت کرتا ہے؟ کون اس کا ازالہ کرتا ہے؟ تمام رشتے داروں ، مہمانوں اور عزیزوں کی خاطر مدارت کون کرتا ہے؟
تمام رشتےداریاں اور تعلقات  کون نبھاتا ہے؟
میں حیران و پریشان ان کی بات سن رہا تھا۔ ان کے چہرے سے ان کے دل میں موجود بڑی اماں کے لیے احترام ، عزت اور محبت محسوس کر رہا تھا۔
وہ بولے، تمہیں پتا ہے پچھلے ساٹھ سال سے تمہاری بڑی اماں نے کوئی چھٹی نہیں کی۔
اس کے روزمرہ کے معمولات میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی ۔ وہ چاہے بیمار ہو یا اداس، اپنا کام نہیں چھوڑتی ۔وہ ہر فرد کا خیال اپنی ڈیوٹی سمجھ کر کرتی ہے کیونکہ وہ ہم سب سے دلی لگاؤ رکھتی ہے ۔
میرے گھر یا خاندان کے لیے یہ سب کچھ وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں کرتی بلکہ ہم سب سے اس کی بے پناہ محبت سے کا نتیجہ ہے ۔
اس سب کے بدلے وہ ہم سے کیا چاہتی ہے؟ ہاں وہ صرف اس عزت و احترام کی خواہش مند جو اسے ملنا چاہیے۔ اس کے لیے یہ فخر ہی بہت ہے کہ گھر کا پورا نظام اور افراد اسی کے گرد گھوم رہے ہیں ۔
کیا ہم اس قربانی اور محبت کے بدلے ان کی کڑوی اور تلخ بات برداشت نہیں کر سکتے؟
میں  نے بڑے ابا کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی محسوس کی۔ میں ان کی بات سمجھ چکا تھا ۔
بڑی اماں کا وقار میرے دل میں اور بڑھ گیا ۔ میں  نے مسکرا ان کی جانب دیکھا اور معصومیت سے کہا۔
بڑے ابا پھر تو بڑی اماں بھی نیم کی مسواک ہی ہیں ؟
۔وہ ہنس پڑے اور کہا:
ہاں وہ نیم کی مسواک ہے۔ اس کی تھوڑی سی کڑواہٹ برداشت کرنے کے بے شمار فوائد ہیں ۔ وفادار عورت اپنی پوری زندگی اپنے گھر اور اپنے خاندان پر کسی مجبوری سے نہیں، محبت سے وار دیتی ہے ۔ اس کی قربانی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں بھی اس کے جذبات کا احترام کرنا چاہیے ۔
یہ سن کر مجھے بڑے ابا بہت اچھے لگے۔
میں ایک دم ان کے گلے لگ گیا۔ واپس گھر آئے تو بڑی اماں اپنی گول عینک سے جھانک کر مصنوعی غصے سے بولی۔
”کہاں چلے گئے تھے؟ آج تو آپ نے پان بھی نہیں کھایا۔ اس بچے کو بھی بھوکا مار دیا ۔جلدی جلدی ناشتا کر لیں اور گوشت لا دیں۔ آج آپ کا پسندیدہ آلو گوشت بناؤں گی ۔”
شاید یہی ان کی بڑے ابا سے معذرت کا اظہار تھا ۔
عام طور پر کہتے ہیں کہ شریف لوگ اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں لیکن مجھے تب احساس ہوا کہ وہ ڈرتے نہیں بلکہ ان کے احسانات تلے اس قدر دبے ہوتے ہیں کہ ”احتراما” بولنے اور جواب دینے سے گریز کرتے ہیں ۔

۞۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles