29 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

یوم خواتین اور اسلام

احساس کے انداز

یوم خواتین اور اسلام

“دیکھنا یہ آبگینے ہیں ذرا آہستہ چلو “

تحریر ۔ جاوید ایاز خان

اگر اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کریں تو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور زندگی کے ہر معاملہ میں ہمیں رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔
ہمارے دین اور پیارے نبی نے آج سے ۱۴۰۰ سال قبل عورتوں پر ظلم کے خلاف جو آواز اُٹھائی اور ان کے حقوق کے تحفظ اور عزت وحرمت کا بہترین تصور پیش کیا ۔
اس کی مثال نام نہاد عالمی حقوق نسواں کے ٹھیکیدار اور سیکولر این جی اوز اور سول سوسائٹی تا قیامت پیش کر نے سے قاصر ہیں اور تا قیامت رہیں گے ،
مگر تنگ نظری ،تعصب و عناد کی عینک میں انھیں یہ سب نظر نہیں آتا۔ معلوم نہیں ان کے نزدیک آزادی خواتین کا مطلب کیا ہے ؟
یہ سب پورے سال میں ایک دفعہ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگا کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خواتین کی نمائندگی کر دی ہے اور پھر پورے سال خاموشی کی گہری نیند انھیں گھیر لیتی ہے ۔ان کے نزدیک شاید عالمی یوم خواتین منانے کا مقصد ، دنیا بھر کے مردوں کو خواتین کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے ۔
لوگوں میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کے لیے پیش قدمی کی ترغیب دینا ہے۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ بڑے بڑے ہوٹلوں میں پرتکلف سیمینار منعقد کرنا۔
اخبارت میں رنگ برنگ ضمیموں کی اشاعت اور میڈیا میں بے نتیجہ مباحثے اور پھر ہر سال کی طرح نئی قرار داد اور سفارشات اس عالمی دن کی لاحا صل رویات اور رسومات پر اختتام ہوتا ہے ۔
آج اگر مغرب پسند یہ لوگ ذراسا غورکریں تو انھیں معلوم ہو کہ اسلام نے پوری دنیا کے لیے حقوق نسواں پر ایسا زبردست اور حسین تصور اس وقت پیش کیا تھا ۔جب دنیا میں عورت ظلم و بربریت کی چکی میں پس رہی تھی اور اس کو ذاتی ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔
اس کی آواز کوئی سننے کو تیار نہ تھا ۔
پیدائش باعث شرم و ندامت سمجھی جاتی تھی۔
عزت و حرمت اپنی اہمیت کھو چکی تھی.
سماجی عزت و احترام سے محروم تھی اور کوئی اس کا پرسان حال نہ تھا.
بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔
ایسے میں ظہور اسلام اور اس کی سنہری تعلیمات نے عورت کو جہاں اس ذلت و رسوائی سے نکال کر عزت و احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا۔
وہیں بے شمار حقوق و فرائض سے بھی نوازا۔ معاشرے میں خواتین کو وہ عزت اور بلند مقام عطا کیا جس کا اس قبل کوئی تصور بھی نہ تھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت اور رحمت ہے۔ اس کے بغیر کائنات اور مرد دونوں ادھورے ،ناقص اور نا مکمل رہتےہیں۔
اسی لیے علامہ اقبا ل نے کہا تھا ” وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ ”
اگر خواتین اور ان کا کردار معاشرے میں نہ ہو تو زندگی کا سفر بےکیف ہو جاتا ہے ان کی محبت اور محنت سے ہی یہ گلشن کائنات روشن ہے ۔
دیکھا جائے تو صنف نازک کی شخصیت کے مجموعی طور پر چار پہلو اہم ہیں ۔ماں ، بہن، بیوی ، اور بیٹی ۔ دین اسلام  نے چاروں حیثیتوں میں عورت کے وقار میں اضافہ کیا ہے ۔
اسلام  نے ماں کی حیثیت سے عورت کو سب سے بلند ترین اور مقام عطا فرمایا ۔اور اس کے پیروں تلے جنت رکھ دی اور ماں سے حسن سلوک کی ہدایت فرمائی۔
چاہے وہ کافر بھی کیوں نہ ہو اور ماں کی خدمت کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے ۔باپ کے مقابلے میں ماں کی حیثیت ومرتبہ استحقاق خدمت میں تین گنا زیادہ رکھا ۔
جہاں اسلام  نے دوسرے معاشرتی و سماجی درجات کے حقوق کا تعین کیا،
وہیں بہنوں کے حقوق بھی بیا ن کردیے بہنوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور وارثت میں ان میں ان کا حصہ مقرر کر کے بلند مقام عظا کیا ۔
ظہور اسلام سے قبل بیٹی کی پیدائش کو ذلت و رسوائی کا سبب سمجھا جاتا تھا اور زندہ درگور کرنے کا انسانیت سوز جہالانہ رواج تھا ۔
ہمارے پیارے نبیﷺ نے بیٹی کو وہ عزت و احترام بخشا ۔
جس کی کوئی مثال اس سے قبل اس دنیا میں نہیں ملتی۔
جہاں بیٹی کی پیدائش کو خوش قسمتی قرار دیا، وہیں پرورش پر جنت کی بشارت دی اور انہیں ما ں اور باپ کی وارثت میں حصہ دار بھی قرار دے کر معاشرے میں اعلیٰ مقام سے نوازا ۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی کے تسلسل اور بقا کے لیے ازدواجی زندگی اور خاندانی رشتوں کو اپنی رحمت و نعمت قرار دیا۔
بیوی کے رشتے کی اہمیت کے پیش نظر ہمارے رسولﷺ نے بھی بیوی سے اچھے سلوک اور محبت کی بے حد تلقین فرمائی
اور عملی طور اس کا بہترین نمونہ پیش کیا اور وارثت میں حصہ دار بنایا گیا ۔
اگر ہم قرآن و حدیث پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ
خواتین کے انفرادی و اجتماعی حقوق ، عائلی و ازدواجی حقوق معاشرتی و سماجی حقوق کے حوالے سے اسلام خواتین کے لیے بھی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔
عورتوں کو اپنی پسند کی شادی کا اختیار اور وارثت کا حق صرف اسلام ہی دیتا ہے ۔
اسلام نے تو سب سے پہلے مرد و عورت کو برابری کے حقوق دیے۔
عورتوں کو مردوں پر اور مردوں پر عورتوں کے لیے جو حقوق اسلام دیتا ہے وہ کسی اور مذہب میں نظر نہیں آتے ۔
مکمل راہنمائی کے لیے خواتین کے تمام مسائل و معاملات کا حل قرآن و حدیث میں تفصیل سے موجود ہے ۔
اگر چہ پاکستان میں جہالت اور پسماندگی کی وجہ سے عورت کو وہ مقام حاصل نہیں, جس کا ہمارا دین ان کو حق دیتا ہے ۔
اس لیے جو لوگ یوم خواتین مناتے ہیں۔ آزادی نسواں، مساوات اور عورت کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ خواتین کو تمام حقوق دلوائے جائیں تو
بہتر ہو گا کہ اس دن اسلام کے احکامات پر عملداری پر زور دیں۔ آج کی جہالت کی وجہ سے ہونے والے ظلم وتشدد کے خاتمے اور بندش کی بات کریں ۔
بڑھتی ہوئی بے راہ روی، فحاشی، پر اسلام کے احکامات کے مطابق قدغن لگائیں۔  اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بتائے راستے پر چلنے کا عہد کریں ۔
اب بھی خواتین کے حقوق کی یہ بات ضرور کریں۔  انہیں اسلام کے دئیے گئے حقوق کے مطابق عورتوں کو اپنی زندگی جینے کا حق ہونا چاہیے،
لیکن اس وجہ سے مسلم معاشرت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔
اسلام خواتین کو معاشی ، سماجی اور اقتصادی سرگرمیوں سے منع نہیں کرتا لیکن حدود شرع پامال نہ ہوں ۔
اپنے حقوق کے تحفظ کے حل کی بات ضرور کریں ۔
ریلی و جلوس نکالنا سب کا حق ہے لیکن اس طرز سے کہ دنیا میں خواتین کے عزت و ناموس کی حفاظت میں اضافہ ہو سکے۔
ان کے تقدس اور احترام کو فروغ مل سکے ۔
اس کے لیے کسی مخصوص تاریخ یا دن مقرر کرنے کی ضرورت نہیں ۔
صرف اسلام کا مطالعہ اور اس کے احکامات پر عمل ہی ہے ،
جس کی بدولت ہمارے سال کا ہر دن یوم خواتین بن سکتا ہے۔
کیونکہ ہمارے حضورؐ کی تعلیمات تو خواتین کو “آبگینوں” کے مانند نازک ،
محترم بتلاتی اور ان کی حفاظت اور احترام کا حکم دیتی ہیں ۔
یہاں میں تمام مردوں سے کہتا ہوں کہ عورت خدا کا ایک انمول اور بہترین تحفہ ہے۔
اگر بیٹی ہے تو نعمت اور والدین کے لیے باعث فخر
ماں ہے تو اولاد کے لیے جنت،
بیوی ہے تو شوہر کے لیے محبت اور اس کی زندگی کا ساتھی
بہن ہے تو بھائیوں کے لیے باعث عزت اور پیکر شفقت ہے ۔
اس کی عزت وقدر ہر مرد پر واجب ہے۔
خدارا اس کے بنیادی معاشرتی حقوق کا احترام کریں۔
وہ قدر ومنزلت دیں جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہے،
تاکہ ہمارا یہ معاشرہ کامیاب اور ترقی یافتہ کہلایا جا سکے ۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles