29 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

(بلال صاحب) نصیب

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

بیسویں قسط
(20)

شکیل احمد چوہان

بلال نے پہلے سنوکر کلب کا رخ کیا جو بند تھا۔ چھٹی کی وجہ سے یا پھر گوگی بٹ نے خود بند رکھا ہوا تھا۔ وجہ اسے پتا نہیں چلی۔ اس کے بعد اس نے شادی ہال کا رخ کیا، سکیورٹی گارڈ سے ملا پھر آفس میں منیجر سے ملا لیکن کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔ اس کے بعد وہ اپنے اسکول چلا گیا جو شادی ہال کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف تھا۔
بلال اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ تین بج رہے تھے اس نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔ موبائل پر بیل ہوئی۔ بلال نے کال ریسیو کی۔
’’خیریت تو ہے …آپ ٹھیک تو ہیں…میں پریشان تھی…آپ آج آئے کیوں نہیں؟‘‘
فون کرنے والی کوئی لڑکی تھی جس نے میٹھی اور نفیس آواز میں بہت سارے سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔
’’میں مصروف تھا …اس لیے آج نہیں آ سکا…Next sunday I will come اللہ حافظ۔‘‘
بلال نے کال ڈس کنیکٹ کر دی اور ایک بار پھر سوچوں کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ وہ ان کمینوں کا پتا لگانا چاہتا تھا ۔ جلد سے جلد۔

۞۞۞

’’تم دیکھ لینا…کوئی لڑکی کا چکر ہے…بڑی چمچی بنی پھرتی ہو اس کی …‘‘ ناہید نے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے توشی کو سنایا۔ نوشی اور توشی اس کے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ شعیب اور ناہید کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ نوشی توشی ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔
’’دیکھ لیا اس کا رویہ؟ مجھ سے نہیں پوچھا۔ اتنی چوٹیں لگی ہیں مجھے۔ ماما سے افسوس نہیں کیا میں اور ماما کتنا سٹریس فیل کر رہے ہیں…اس انسی ڈینس کے بعد۔‘‘ شعیب سوپ پیتے ہوئے بولا۔
’’وہ تو میں دیکھ رہی ہوں۔‘‘ توشی نے تیور دکھاتے ہوئے کہا۔
’’اس کے پیچھے کیوں پڑی ہو…دیکھو کیا حال ہوگیا ہے…میرے بچے کا‘‘ناہید نے توشی کو غصے سے جواب دیا۔
’’وہ جو صبح سے دفع ہو گیا ہے …اُسے تو کچھ نہیں کہا تم  نے…‘‘
’’بھائی یہ ہے میرا۔ وہ نہیں اُسے کیا کہوں؟‘‘ توشی غصے سے چلائی۔
’’اس کا تو منگیتر ہے۔ وہ بھی بچپن سے۔ کیا اس سے بھی کوئی رشتہ نہیں ہے۔ ‘‘ ناہید آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔
’’شکر ہے۔ آپ اسے منگیتر تو مانتی ہیں۔ ہاں ایک اور بات وہ بولتا کم ہے اور کرتا زیادہ ہے۔ مجھے یقین ہے وہ کچھ کر رہا ہو گا۔ اس وقت بھی۔ آپ لوگوں کی طرح۔ ‘‘ کھا جانے والی نظروں سے اُن کے سامنے پڑے ہوئے کھانے کو دیکھتی ہوئی توشی وہاں سے جا چکی تھی۔
’’کوئی مرجائے۔ کھانا تو پھر بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ انسان ہیں۔ ‘‘ ناہید نے جواز پیش کیا۔

۞۞۞

بلال نے فوزیہ کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اسے فون کیا تھا۔
’’سرمیں تو…خود آپ سے بات کرنا چاہتی تھی…میں عصر کی نماز کا انتظار کر رہی تھی کب آپ کا نمبر کھلے تو آپ کو اطلاع دوں ‘‘فوزیہ نے کال ریسیو کرتے ہی اپنی باتیں کہہ دیں۔
’’کیوں خیریت ہے…؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’سر ! … کل رات کو جوہوا آپ کو پتہ ہے کچھ… ؟ میں بھی وہاں تھی ‘‘
’’تم گھر پر ہو‘‘بلال نے پوچھا۔
’’جی سر‘‘فوزیہ نے بتایا۔
’’میں آتا ہوں ‘‘بلال نے جواب دیا وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا، مجھے فوزیہ کا خیال کیوں نہیں آیا، خیال آتا بھی کیسے DJ اور توشی نے فوزیہ کا ذکر ہی نہیں کیا تھا ساری گفتگو کے دوران۔ بلال جلدی سے فوزیہ کے گھر پہنچا مغرب کی اذان سے کچھ دیر پہلے ۔ فوزیہ نے رات والی بات بتانا شروع کی ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی، کہ مغرب کی اذان شروع ہوچکی تھی۔
’’میں نماز پڑھ کر آتا ہوں‘‘بلال اٹھا اور نواں پنڈ گائوں کی مسجد کی طرف روانہ ہوگیا، مسجد جاتے ہوئے اس نے DJکو فون کیا:
’’اگر طبیعت ٹھیک ہے تو فوزیہ کے گھر آجائو‘‘ DJ نے بلال کی بات سننے کے بعد بتایا :
’’ خان صاحب بھی موجود ہیں ‘‘
’’ان سے میری بات کراؤ… ‘‘ DJ نے خان صاحب کو فون پکڑا دیا۔ خان صاحب…! آپ DJ کے ساتھ جوہر ٹاؤن آ سکتے ہیں کیا…؟‘‘
’’کیوں نہیں…ضرور‘‘ خان صاحب بولے۔
بلال نماز پڑھ کر واپس آیا تو فوزیہ کی والدہ نے چائے اور بسکٹ وغیرہ کا بندوبست کر رکھا تھا۔ پندرہ منٹ بعد DJ نے فون پر اطلاع دی :
’’ہم باہر خان صاحب کی گاڑی میں ہیں‘‘
بلال نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور انہیں بٹھایا جو چائے اس کے لیے فوزیہ کی والدہ نے بنائی تھی، ان کو دی۔
’’آپ چائے پئیں میں پانچ منٹ میں آتا ہوں ‘‘بلال یہ بول کر واپس فوزیہ کے کمرے میں چلا گیا۔
’’سر ایک کا نام وقاص ہے ، اسے وکی کہتے ہیں اور دوسرا ارسلان ہے، اسے سنی کہتے ہیں۔ ان دونوں کی بہنیں ہمارے اسکول میں پڑھتی ہیں…
سابقہ MNA چوہدری یعقوب کا ایک بیٹا ہے اور دوسرا بھتیجا ہے‘‘
فوزیہ نے ساری بات تفصیل سے بتادی۔ آج بلال کو فوزیہ پر پیار آرہا تھا ہمیشہ اس نے اسے BBC کہہ کر تنگ کیا تھا مگر آج BBC کی تفصیلی رپورٹ اسے اچھی لگی، اس نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
’’خوش رہو…ہمیشہ…‘‘ بلال نے کسی درویش کی طرح دعا دی اور کمرے سے نکل گیا۔ ثریا چائے کا مگ ہاتھ میں لیے ہوئے بولیں:
’’بیٹا چائے تو پی لو…‘‘
’’امی…! وہ نہیں پئیں گے جب تک …‘‘
’’کیا جب تک…؟ ‘‘ ثریا نے پوچھا۔
صحن میں نصرت سے بلال کی ملاقات ہوگئی وہ رکا اور خالہ کو غور سے دیکھا اور ان کا دائیاں ہاتھ چوم لیا وہ بغیر کچھ کہے سب کچھ کہہ گیا۔ نصرت اسے مڑ کر دیکھ رہی تھیں جاتے ہوئے۔ وہ گھر سے باہر آگیا اور گلی والے دروازے سے DJاور گل شیر خان کو چلنے کے لیے کہا۔
’’آپ میرے پیچھے آجائیں‘‘تھوڑی دیر بعد وہ محل نما ایک کوٹھی کے باہر تھے۔ DJ گاڑی کی ونڈ اسکرین سے کوٹھی کو دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ سکیورٹی گارڈ نے انٹرکام پر اطلاع دی :
’’بلال صاحب آئے ہیں، زینت اور مہوش بی بی کے اسکول والے۔‘‘ بڑی مونچھوں والے چھے فٹ سے زیادہ لمبے شخص نے اجازت ملنے کے بعد بلال کو سلیوٹ کیا اور گیٹ کھول دیا گیا۔
بلال کی گاڑی کے پیچھے خان صاحب اور DJ کی گاڑی اندر داخل ہو گئی۔ کوٹھی کے اندر دیو قامت قد والے کئی سکیورٹی گارڈ تھے جن کے ہاتھ میں جدید اسلحہ تھا ۔
ایک ملازم بلال کے استقبال کے لیے کھڑا تھا، وہ سب کو بڑے سے ڈرائنگ روم میں لے گیا، ڈرائنگ روم کی دیواروں پر تلواریں، شیر کی کھال اور بڑی بڑی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ تصویریں چوہدری یعقوب کے آبائو اجداد کی تھیں۔
’’آپ تشریف رکھیں میں چوہدری صاحب کو اطلاع دیتا ہوں‘‘ملازم ادب سے کہہ کر اندر چلا گیا چند منٹ بعد ایک بڑی سی ٹرالی نمودار ہوئی جس کے اوپر چائے کے ساتھ کیک، فروٹ، بسکٹ، ڈرائی فروٹ اور نہ جانے کیا کیا تھا۔ وہی ملازم پھر بولا:
’’آپ چائے پئیں چوہدری صاحب ابھی تشریف لاتے ہیں ‘‘DJاور خان صاحب چائے پینے میں مصروف ہوگئے۔
’آج تو ہمارے گھر بڑے لوگ تشریف لائے ہیں ’‘‘چوہدری یعقوب اندر داخل ہوتے ہوئے بولا اور بلال کو گلے لگا لیا۔
ان کے پیچھے پیچھے زینت اور مہوش بھی آگئی تھیں۔ ان کی نظروں میں اپنے سر کے لیے بڑی عزت و احترام تھا جیسے ان کے گھر ان کا پیرومرشد آگیا ہو۔
’’بابا آپ کو پتا ہے پچھلے مہینے ایک لڑکے نے میری سہیلی کی کلائی زبردستی پکڑی تھی سر نے اس سے کہا چھوڑ دو اور ابھی معافی مانگو مگر وہ نہ مانا تو پھر سر نے اسے بہت مارا اور پولیس کو اطلاع دی۔‘‘ مہوش اپنے باپ کو بتا رہی تھی۔
’’اور وہ تو تم نے تو بتایا نہیں…جب پولیس والے نے کہا …بلال صاحب…! آپ نے قانون ہاتھ میں لیا ہے۔‘‘ زینت اپنے تاؤجی کو بتا رہی تھی۔
’’تو سر نے جواب دیا نہیں میں نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا ابھی تو صرف مارا ہے اگر قانون ہاتھ میں لیتا تو جان سے ماردیتا‘‘
’’بلال صاحب آپ چائے پیو‘‘ چوہدری یعقوب بولا۔
’’پہلے آپ سے ایک فیصلہ کروانا ہے۔ ‘‘بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
چوہدری یعقوب سیاست دان تھا وہ سمجھ گیا بات کچھ سنجیدہ نوعیت کی ہے
’’بیٹا آپ دونوں اندر جاؤ۔‘‘ چوہدری یعقوب نے زینت اور مہوش کو حکم دیا۔
’’چوہدری صاحب میرے اسکول میں 127 بچیاں نویں دسویں کی ہیں جو سب کی سب جوان ہیں، اُن میں سے یہ دو بچیاں آپ کی بھی ہیں۔ یہ سب بچیاں میری عزت ہیں۔ اگر کسی ایک بچی کے ساتھ میرے اسکول میں یا اس کے آس پاس کوئی بدتمیزی کرے، کسی بچی کی عزت پر ہاتھ ڈالے تو میں اس کا منہ توڑ دوں۔ ‘‘چوہدری یعقوب نے DJ کی طرف دیکھا جس کے چہرے اور ماتھے پر پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔
’’بلال صاحب آپ کھل کر بات کرو۔ میں فیصلہ کروں گا۔ ‘‘ چوہدری یعقوب نے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
’’DJ بتاؤ…! چوہدری صاحب کو ساری بات۔‘‘
بلال نے DJ کی طرف دیکھ کر اعتماد سے کہا۔ DJ نے ساری بات بتائی۔ شادی ہال سے لے کر سنوکر کلب تک۔ گل شیر خان غور سے بلال کو دیکھ رہے تھے۔
چوہدری یعقوب نے ساری بات اطمینان سے سنی اور تھوڑی دیر کی اجازت مانگ کر ڈرائنگ روم سے باہر چلا گیا۔ چوہدری یعقوب اچھی طرح جانتا تھا  بلال کے تعلقات کو۔
شہر کی ساری ایلیٹ کلاس کے بچے اس کے اسکول میں پڑھتے تھے اور سب سے بڑھ کر اس کی نیک نامی اور سوشل ورک سے بھی سب واقف تھے۔
چوہدری یعقوب نے اپنے قانونی مشیر سے رابطہ کیا، اس نے مشورہ دیا کہ صلح کر لیں ورنہ بات دور تک جائے گی۔ آپ اپوزیشن میں ہیں اور حکومتی حلقوں میں اس لڑکے کی بڑی چلتی ہے۔ معافی تلافی سے معاملہ حل کر لیں۔ سنی اور وکی گھر پر ہی تھے۔ گوگی بٹ کا مشورہ تھا دو چار دن کے لیے گھر سے نہ نکلو۔
تقریباً بیس منٹ بعد چوہدری یعقوب سنی اور وکی کو گندی گالیاں دیتا ہوا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا۔
’’یہ لو جی۔ بلال صاحب آپ کے ملزم حاضر ہیں۔‘‘ چوہدری یعقوب نے جلال سے کہا تھا۔
’’کیوں بھئی جوان یہی ہیں۔‘‘ DJ کو مخاطب کیا چوہدری یعقوب نے۔ ’’
چلو اوئے معافی مانگو اس شریف آدمی سے۔‘‘ ان دونوں نے DJ سے معافی مانگی۔
’’دفع ہو جاؤ  میری نظروں سے دور۔ ٹھیک ہے بلال صاحب؟!‘‘
’’نہیں چوہدری صاحب۔ آپ کا فیصلہ ٹھیک نہیں۔ کسی کو مارنا اور کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنا دو الگ باتیں ہیں۔
جس کی عزت پر ہاتھ ڈالا وہ میری ہونے والی بیوی ہے۔ ‘‘ بلال سرخ آنکھوں کے ساتھ بولا جیسے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا ہو۔ غصے کی وجہ سے اس کا چہرہ آگ اگل رہا تھا۔ اس نے غصے کے منہ زور گھوڑے کی لگام صبر کے ساتھ پکڑی ہوئی تھی۔
’’اب…آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘ چوہدری یعقوب بھی غصے سے بولا۔  بلال اٹھا اپنی جگہ سے اور سنی اور وکی کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
’’ان دونوں کو معافی مانگنا پڑے گی۔ ہرحال میں اس سے، جس کی عزت پر انہوں نے ہاتھ ڈالا تھا ‘‘
’’اگر نہ مانگیں تو …؟‘‘ وکی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’یہ ہو نہیں سکتا۔‘‘ بلال کھنکتی آواز سے بولا۔ چوہدری یعقوب نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا۔
’’نا…کاکا…نا…بیٹا گناہ کیا ہے تو معافی تو مانگنا پڑے گی۔‘‘ چوہدری یعقوب وکی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ’’
چلو ان کے ساتھ جائو اور ہماری بیٹی سے معافی مانگ کر آئو…ابھی اسی وقت…یہ میرا حکم ہے ‘‘
ایک گھنٹہ بعد وہ DJاور گل شیر خان کے ساتھ نوشی کے حضور معافی مانگ رہے تھے۔ ہاتھ جوڑ کر یہ الگ بات ہے کہ ان کی معافی اپنی سیاسی ساکھ بحال رکھنے کی خاطر تھی نہ کہ توبہ کی وجہ سے مگر جو بھی تھا وہ گھر آکر معافی مانگ رہے تھے وہ بھی ہاتھ جوڑ کر، شعیب اور ناہید بھی موجود تھے، گھر کے تمام افراد کے ساتھ سوائے بلال کے جو کہ بابا جمعہ کے گھر جاچکا تھا۔
نوشی اور شعیب نے بھی انہیں معاف کردیا سنی اور وکی جاچکے تھے…
’’بلال تو بہت غیرت مند اور دلیر بچہ ہے…پختونوں کی طرح…وہ اگر ہمارے علاقے میں ہوتا تو جرگے کا امیر ہوتا…ماں جی ایسا دلیری سے بات کیا …چوہدری کا گھر میں جاکر…اونچا آواز میں بات بھی نہیں کیا…اور غصہ بھی دکھایا…میں تو قربان ہوگیا…بلال صاحب پر…‘‘گل شیر خان ڈرائنگ روم میں ان کے جانے کے بعد جہاں آرا بیگم سے مخاطب تھا۔
’’بیٹی تم بڑا نصیب والا ہے…ایسا ہیرا تم سے منسوب ہے…ہم نے دنیا دیکھا ہے، کہاں ملتا ہے …؟ ایسا بچہ…بہادر، شریف،،  خوددار ‘‘ گل شیر خان نوشی کے سر پر ہاتھ رکھ کر بول رہا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ توشی فاتحانہ انداز میں کھڑی ہوئی اپنی ماں اور بھائی کو دیکھ رہی تھی۔ ناہید نے توشی کی فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر منہ پھیر لیا اور شعیب نے گردن جھکالی۔
’’آنے دو جمال کو میں جلدی سے جلدی تم دونوں کی شادی کرواتی ہوں۔ ‘‘ جہاں آرا بیگم نے اپنے ارادے بتائے۔ نوشی اور توشی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
’’وہ خود کہاں ہے …DJ…‘‘جہاں آرا نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں جی ‘‘ DJ نے بتایا۔
بلال بابا جمعہ کے گھر پہنچا اس نے پہلے سے فون کرکے اجازت لے لی تھی ۔
’’دو دن سے آپ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اس لیے حاضر ہوگیا۔ ‘‘بلال نے آنے کی وجہ بیان کی۔
’’اچھا کیا…میرا بھی دل چاہ رہا تھا…تم سے ملنے کو‘‘بابا جمعہ محبت سے بولے۔
’’کل نسیم آئی تھی میرے پاس چھوٹی تسلیم بھی تھی ساتھ میں…‘‘
’’آپ سے ملی وہ…؟‘‘بلال نے جلدی سے پوچھا۔
’’نہیں وہ گاڑی میں تھی…دُور سے دیکھا تھا…بلال بیٹا شادی کرلو‘‘
’’جی…ٹھیک ہے ابھی کچھ کھانے کو ملے گا بہت بھوک لگی ہے۔ ‘‘
’’فریج میں کھچڑا ہے…وہ گرم کرلو…‘‘بابا جمعہ نے بتایا۔ بلال گرم کرنے کے بعد، کھچڑا کھاتے ہوئے بولا :
’’زبردست بڑا مزیدار ہے آپ اسے ہریسہ کہا کریں، کھچڑا بڑا عجیب سا لگتا ہے‘‘بابا جمعہ مسکرائے۔ کھانے سے فارغ ہوکر بلال نے اجازت مانگی۔
’’چائے نہیں پلائو گے…اپنے ہاتھ سے‘‘بابا جمعہ نے فرمائش کردی ۔
’’بھینس کا تازہ دودھ پڑا ہے اس کی چائے بنائو اور یہ گڑ بھی آج ہی آیا ہے…گڑوالی چائے بنائو‘‘
’’جی ضرور…‘‘ بلال نے فرماں برداری سے کہا۔ بابا جمعہ چائے پیتے ہوئے بولے:
’’کل اقبال کی دکان پر جاکر اسے بھی چائے بنانا سکھانا اگر ہم دونوں چائے کی دکان کھول لیں تو اقبال کا کاروبار تو ٹھپ ہوگیا نا ‘‘
بلال پچھلے چودہ سال سے جب بھی پریشان ہوتا وہ بابا جمعہ کے پاس گھر آجاتا آج بھی جب بلال نے فون پر اجازت مانگی تو بابا جمعہ سمجھ گئے کوئی با ت ہے۔ اسی لیے وہ اس سے ہنسی مذاق کی باتیں کر رہے تھے 12بجنے والے تھے بلال نے اجازت لی اور گھر چلا گیا۔

۞۞۞

وہ دسمبر کی سرد ٹھنڈی رات میں جب آسمان پر کالے سیاہ بادل برسنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بجلی چمک کر بادلوں کے تیور دکھا دیتی۔ ہوا کے سرد جھونکوں سے دانت بجنے لگتے مگر اس کو انتظار تھا، کسی کے آنے کا اور وہ آگیا۔
بلال کی گاڑی پورچ میں آ کر رُکی۔ وہ گاڑی سے اترا۔ اسی لمحے بجلی چمکی۔ فلیش لائٹس اس کے مکھڑے پر پڑی اور نوشی کی نظروں نے وہ تصویر محفوظ کر لی اپنے دل کے کورے کاغذ پر…
بلال نے اپنے کمرے میں پہنچ کر لائٹس On کیں اور پردے پیچھے ہٹائے۔ نوشی کو اس وقت سردی کا احساس ہوا، جب اس نے بلال کو گیس ہیٹر لگاتے ہوئے دیکھا۔
وہ اپنے ٹیرس پر کھڑی تھی۔ نوشی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ بلال نے الیکٹرک کیٹل On کی اور لائٹ میوزک لگا کر واش روم چلا گیا۔
شہنشاہِ غزل جناب مہدی حسن صاحب کی آواز کمرے سے آ رہی تھی۔
عظیم شاعر جناب فیض احمد فیض صاحب کا کلام مہدی حسن ایسے گا رہے تھے کہیں فیض صاحب کے خوبصورت اشعار کو چوٹ نہ لگ جائے ۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلو…
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
اسی لمحے نوشی کمرے میں داخل ہوئی ۔ وہ Pink کلر کا سلکی نائٹ ڈریس پہنے ہوئے تھی۔ اس کے گولڈن بال کھلے تھے، بلال واش روم میں گرم پانی سے نہا رہا تھا۔
وہ آئی۔ اپنی سلطنت کا جائزہ لیا اور دیوان پر ایسے بیٹھ گئی جیسے شہزادی تخت نشین ہو۔
بلال کی کالی گرم چادر Press کی ہوئی اس نے دیوان کے بازو پر رکھ دی۔ اس کی موٹی موٹی برائون آنکھیں نیند کی وجہ سے سرخ تھیں مگر ان آنکھوں میں نیند سے زیادہ دیدار کی بھوک تھی۔ بلال کے دیدار کی…
بلال واش روم سے نکلا۔ اس کے کالے سیاہ گھنگھریالے بال چمک رہے تھے۔ نوشی اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ بلال نے اسے سرتا پیر غور سے دیکھا۔
وہ اتنی سخت سردی میں بھی صرف سلکی نائٹ ڈریس پہنے ہوئے تھی۔ بلال نے اپنی وارڈروب سے دوسری کالی گرم چادر نکال کر اس کے شانوں پر ڈالی۔ انگلیوں کے پوروں کی مدد سے مگر پوروں نے نوشی کے جسم کو چھوا تک نہیں۔ اس ڈر سے کہیں دودھ سے زیادہ سفید بدن میلا نہ ہو جائے۔ بلال نے میوزک بند کر دیا۔ وہ کالی چادر میں ایسے چمک رہی تھی جیسے کالی سیاہ رات میں گہرے کالے بادلوں میں بجلی چمکتی ہے۔
شہزادی کالی چادر اوڑھ کر اب ملنگنی بن چکی تھی۔ وہ اسی جگہ کھڑی ہوئی بلال کو دیکھ رہی تھی، جو کچن میں کافی بنانے میں مصروف تھا۔
بلال نے اسے کافی کا مگ تھمایا اور آنکھوں سے بیٹھنے کا کہا اور خود کرسی لے کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ بلال کافی پی رہا تھا اور نوشی کو دیکھ رہا تھا۔ نوشی نے بھی کافی کے دو چار گھونٹ لگائے اور اپنے نینوں سے بول پڑی:
’’کدھر تھے آپ؟ میں کب سے انتظار کر رہی تھی؟ ‘‘
’’میں …کچھ مصروف تھا۔‘‘ بلال نے آنکھوں سے جواب دیا۔
’’اگر آپ میرا ہاتھ نہ تھامتے تو میری عزت کا جنازہ نکل جاتا۔‘‘نوشی نے نینوں سے کہا۔
’’میں نے تو کبھی ہاتھ چھوڑا ہی نہیں۔‘‘ بلال کی آنکھوں نے جواب دیا۔
’’مگر مجھے تو کبھی خبر نہیں ہوئی کہ آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘ نوشی کے معصوم نین بولے۔
’’ہاتھ کو دل سے تھامتے ہیں…ہاتھ سے نہیں…‘‘
’’اگر میں ہاتھ چھوڑدوں تو…؟‘‘ نوشی کے نین بے رخی سے بولے۔
’’آپ ہاتھ چھوڑ بھی دو تو اس دل سے نہیں چھوٹے گا۔ جب تک اس میں دھڑکن ہے۔‘‘
’’محبت کرتے ہو مجھ سے …؟‘‘ نوشی کے نینوں نے پوچھا۔
’’اپنے من سے پوچھ لو۔‘‘ بلال کی آنکھوں نے ادب سے جواب دیا۔
’’اگر اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے ۔ تو مجھ سے محبت کیوں نہیں مانگی ؟‘‘
’’محبت کشکول لے کر مانگتے ہیں اور نہ ہی محبت کشکول میں ڈالی جاتی ہے۔ بس محبت کی جاتی ہے۔ خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ۔‘‘
’’آپ اگر دل کی بازی ہار گئے، تو ؟‘‘نوشی کے نینوں نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’محبت بازی نہیں، محبت فرض ہے۔ فرض میں ہار جیت نہیں ہوتی۔
دُعا ہے، بس، فرض قبول ہو جائے۔‘‘
ایک دھماکے کے ساتھ دروازہ کھلا اور توشی کمرے میں داخل ہوئی۔
’’یہ لو۔ قیامت کی نشانیاں۔ کیا سین چل رہا تھا؟ وہ بھی رات کے دو بجے۔‘‘ توشی نے اپنی چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کو منہ میں ڈالتے ہوئے سیٹی ماری اور خوشی سے جھوم اٹھی ۔
’’پاگل ہو۔ اس وقت شور مچارہی ہو۔‘‘ بلال نے ڈانٹا۔ نوشی گردن جھکائے اپنی آوارہ لٹیں جو چہرے پر تھیں کان کے پیچھے کر رہی تھی۔
’’ایسا کچھ نہیں ہے، جو تم سوچ رہی ہو۔‘‘ بلال نے صفائی دی۔
’’تو کیسا ہے؟ بتاؤ جلدی سے…ورنہ میں سب کو بتادوں گی‘‘توشی نے وارننگ دی۔
’’جلدی جلدی بتاؤ کیا چل رہا تھا؟  غضب خدا کا رات کے دو بجے دسمبر کی رات، ایک خوبصورت لڑکی ایک جوان لڑکے کے ساتھ اور ایسا کچھ نہیں ہے۔ ‘‘
’’میں ان کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ ‘‘ نوشی نے بھی صفائی پیش کی۔
’’شکریہ…مہربانی…وہ بھی ان کا۔ جن کی تم نے ہمیشہ تذلیل کی۔ ہرجگہ، ہر موقع پر۔
آج اچانک یہ ہمدردی وہ بھی ان کے لیے ۔ ابھی چند گھنٹے پہلے ہی کیا کچھ نہیں کہا تم نے اور ماما نے ان کی شان میں۔ ‘‘ توشی نے الفاظ چبا چبا کر طنز سے کہا۔
’’توشی جی…! جانے دو کیوں تماشا لگا رہی ہو۔ چھوڑو پرانی باتیں۔‘‘ بلال دونوں بہنوں کو چپقلش سے بچانا چاہتا تھا۔
’’ان سب نے پوری زندگی تمہارا تماشا بنایا۔ تمہارا مذاق اُڑایا۔ آج میں نے اپنے بھائی اور ماں کو دیکھ لیا ہے۔ مجھے پتا ہے۔ تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ DJ نے تمہیں فون کیا کہ وہ معافی مانگ کر جا چکے ہیں تب تم نے کھانا کھایا۔
میری ماں اور بھائی 3بجے کھانا ٹھوس رہے تھے …اور یہ دوموہی…کس منہ سے تمہارے پاس آئی ہے…اور کیا لینے آئی ہے…‘‘توشی نے اپنی ماں اور بھائی کا غصہ نوشی پر نکالا۔
’’تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی…یہ میرا منگیتر ہے تم کیا لگتی ہو اس کی؟ ‘‘نوشی غصے سے چیخی۔
’’میں اس کی کزن ہوں ، دوست ہوں اور جہاں تک رشتے کا سوال ہے…ہمارا محبت کا رشتہ ہے …غور سے سن لو محبت کا رشتہ‘‘توشی نے دعوے اور مان سے جواب دیا۔
’’اور مجھے عشق ہے …ہاں عشق ہے …بلال سے‘‘نوشی زور سے چیخی۔
’’یہ لو…محبت کی میم سے واقف نہیں اور دعوے عشق کے …وہ کیا کہتے ہو تم…بلال صاحب…کہ ہم چھوٹے لوگ محبت ہی کرلیں تو بڑی بات ہے…عشق بڑے لوگوں کا کام ہے…اور یہ محترمہ عشق کرنے چلی ہیں‘‘نوشی غصے سے وہاں سے چلی گئی دروازہ زور سے مارتے ہوئے۔
’’توشی جی …! کیوں تم نے دل دکھایا اس کا …‘‘بلال سنجیدگی سے بولا۔
’’دل نہیں ہے، اس کے پاس…میری ماں نے ساری زندگی نفرت کا درس دیا ہے جو سینے میں دھڑکتا ہے… وہ گوشت کا لوتھڑا ہے …میں نے کوشش کی ہے کہ وہ دل بن جائے دوبارہ سے ‘‘
’’میں نے تمہیں پہلے تو کبھی ایسی بڑی بڑی باتیں کرتے نہیں دیکھا…توشی جی…! بیٹھ جائو اور پانی پیو‘‘ بلال دیوان پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’پانی نہیں کافی پلاؤ۔ سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے… جیجا جی سمجھے کیا؟ ‘‘پانچ منٹ بعد وہ کافی پی رہے تھے۔
’’یہ بیس گھنٹے میں نے انتہائی کرب میں گزارے پاپا یہاں نہیں تھے۔ ماما اور بھائی مجھے اپنے لگے ہی نہیں… دادو کو میں نے خود نہیں بتایا…تم بھی خاموشی سے اٹھ کر چلے گئے۔ یہ حادثہ نوشی کے ساتھ نہیں میرے ساتھ ہوا ہے، میں ایسے محسوس کر رہی تھی اتنا پیسہ تعلقات ہونے کے باوجود کچھ نہیں…سچ کہوں تو بلال…!
میں واقعی بڑی آج ہوئی ہوں میں اکثر تم کو کہتی تھی کہ تم اپنی عمر سے بڑی باتیں کرتے ہو…آج سمجھ آ گئی…میں نے صرف دس گھنٹے ماں باپ کے بغیر گزارے، باپ یہاں تھا نہیں اور ماں ہو کے بھی نہیں تھی … واقعی ماں باپ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔‘‘
توشی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، اس نے بلال کی طرف دیکھا جو خاموشی سے چہرے پر بغیر کسی تاثر کے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’ویسے میں نے آج ایک اور حساب لگایا ہے…تمہارے اندر بھی کوئی دل شل نہیں ہے… میں رو رو کر ہلکان ہو رہی ہوں …اور تم بت بنے بیٹھے ہو۔‘‘ بلال کے چہرے پر توشی کی بات سن کر جان لیوا مسکراہٹ آ گئی تھی۔
’’مجھے اس کے نصیب پر رشک ہے…جس کے نصیب میں تم ہو…مجھ سے اگر کوئی پوچھے خوش قسمت لڑکی کون ہے تو میں کہوں گی جو بلال کی دلہن بنے گی…میں نے بھی تم کو ٹوٹ کر چاہا تھا بچپن سے آج تک پھر دادو نے مجھے سمجھایا پر میں نہیں مانی پھر میں نے خود تجربہ کیا تو دادو کی بات سچ نکلی…!‘‘
بلال اپنی ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھ کے دایاں ہاتھ اپنی ٹھوڑی کے نیچے رکھے ہوئے خاموشی سے توشی کی باتیں سن رہا تھا۔
’’اس کے بعد میری بڑی خواہش تھی کہ تمہاری شادی نوشی سے ہو جائے مگر آج میں خود کہتی ہوں نوشی سے بالکل شادی مت کرنا۔ ‘‘
’’تم بہن ہو کہ ڈائن ہو، اپنی بہن کے منگیتر کو غلط پٹیاں پڑھا رہی ہو۔‘‘ بلال نے شرارت کی۔
’’شٹ اَپ۔ میں واقعی سیریس ہوں۔ وہ تمہارے قابل نہیں ہے…‘‘
’’کیا کل تمہارا آخری دن ہے؟ ‘‘ بلال نے پوچھا۔
’’میں سمجھی نہیں۔ ‘‘ توشی سوالیہ نظروں سے بولی۔
’’مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے کل تم فوت ہو جاؤ گی … اسی لیے ساری نصیحتیں اور وصیتیں آج کر رہی ہو۔‘‘ بلال نے پھر توشی کو چھیڑا۔
’’فوزیہ تمہارے بارے میں بالکل صحیح کہتی ہے ، سر بڑے چالو اور کھوچل ہیں۔ ایویں مت سمجھنا۔‘‘ توشی نے حساب برابر کر لیا۔ فجر کی اذان شروع ہو گئی تھی ۔
’’چلو اب جاؤ…اور نماز پڑھ کر سونا…‘‘ بلال نے توشی کو کہا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles