15 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 7

 

( 7 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

پنڈی ریلوے اسٹیشن کے داخلی دروازے سے تھوڑی دُور ٹیکسی رُکی۔ ساحل نے اس بار اپنی جینز کی پینٹ کی پچھلی پاکٹ سے بٹوہ نکال کر ٹیکسی والے کو پیسے دیے۔ وہ ٹیکسی سے اُترا تو اُس کے پاس سے ایک پٹھان لڑکا اپنی ریڑھی کو دھکا لگاتے ہوئے جا رہا تھا۔
اُس لڑکے کی ریڑھی پر جرابیں گرم ٹوپیاں، گرم دستانے، سرجیکل ماسک کے ساتھ ساتھ کپڑے کے ماسک بھی تھے۔ ساحل نے اُس لڑکے سے ایک کالی، لمبی گرم ٹوپی اور کپڑے کا ایک کالا ماسک خریدا۔ لڑکے نے وہ دونوں چیزیں ایک کالے شاپر میں ڈال دیں۔ ساحل  نے پلٹ کر فقیر اور شمیم کی طرف دیکھا۔ وہ اُس سے بہت دُور تھے۔ ہلکی سی دُھند کی وجہ سے اُن دونوں کی ساحل پر نظر پڑنا ناممکن تھی۔
ساحل اسکین والے دروازے سے گزرتا ہوا اسٹیشن کے اندر داخل ہو گیا۔ اسٹیشن کے اندر پہنچتے ہی اُس نے اردگرد نظر دوڑانا شروع کر دی۔
جلد ہی اُس کی تلاش ختم ہوئی۔ واش روم کا سائن بورڈ دیکھنے کے بعد وہ اُس کی طرف چل دیا۔ واش روم کے اندر داخل ہو کے اُس نے کالا شاپر دروازے پر لگے ایک کیل سے لٹکایا، پھر جیکٹ اُتار کر اُس کا ہڈ زِپ کھولتے ہوئے اُس سے الگ کیا۔
اس کے بعد جیکٹ کی سائیڈ بدل کر پہنی۔ اب پھر سے جیکٹ کا کالا حصہ اُوپر آ چکا تھا۔ اُس  نے نوٹوں کی کاپی سے بیس ہزار نکال کر اپنے بٹوے میں رکھے۔ کاپی جیکٹ کی اندرونی پاکٹ میں رکھتے ہوئے اُس پاکٹ کی زپ بند کر دی۔
آخر میں اُس نے کیل کے ساتھ لٹکے ہوئے کالے شاپنگ بیگ کو اُتارا۔ اُس میں سے ٹوپی نکال کر پہنی اور اپنے چہرے سے ماسک اُتار کر اُس کی جگہ قدرے بڑا کالا ماسک اپنے چہرے پر چڑھایا۔ خالی شاپنگ بیگ میں جیکٹ کا ہڈ ، ماسک، نوکیا کا پُرانا موبائل اور فقیر سے خریدی ہوئی سم اپنی کلائی پر بندھے ہوئے رنگ برنگے دھاگے اور اسٹیل کا کڑا اُتار کر اُس میں ڈالا اور واش روم سے نکل آیا۔
باہر نکل کر اُس نے اردگرد دیکھا۔ ایک کونے میں کچرے والی بڑی سی بالٹی رکھی ہوئی تھی۔ کچھ واش روم کے دروازے بند تھے اور کچھ کے کھلے ہوئے تھے۔ واش روم والا ٹھیکے دار بھی باہر تھا۔ ساحل نے وہ کالا شاپنگ بیگ اُس کچرے والی بالٹی میں ڈال دیا اور خود وہاں سے نکل گیا۔

۞۞۞

ٹکٹ کاؤنٹر پر چند لوگ ہی تھے، مگر ٹکٹ شناختی کارڈ دکھانے کے بعد ہی مل ر ہے تھے۔ ساحل اس صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد وہاں سے چل دیا۔ وہ پلیٹ فارم پر چلتا ہوا جا رہا تھا کہ ایک چہرے پر یکایک اُس کی نظر جم گئی۔
ایک خاتون  نے بڑی سی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اُس کے ساتھ آٹھ اور دس سال کی دو بچیوں کے علاوہ ایک دراز قد قاتل چہرے والی لڑکی تھی جو خاتون کی نسبت بڑی ماڈرن تھی۔
اُس نے جینز کی پینٹ کے اوپر گرم اونی شرٹ کے ساتھ ایک لمبا گرم کوٹ پہن رکھا تھا اور اُس کے گلے میں گرم اسکارف لپٹا ہوا تھا، جب کہ خاتون شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ خاتون نے جب اپنی بڑی سی چادر درست کی تو اُس کی کلائیوں میں کانچ کی چوڑیوں کو ساحل نے بڑے غور سے دیکھا۔ وہ چوڑیاں اور  چہرہ اُسے کسی کی یاد دلا رہا تھا۔
لمحوں میں ہی ماضی کی دریچے کھول کر وہ سالوں پیچھے چلا گیا۔ اُس کے سامنے ایک شفیق چہرہ آ گیا۔
اُس کا دل چاہ رہا تھا وہ اُس خاتون کے پاس جائے اور اُس سے بات کرے۔ گاڑی کے آنے سے پہلے ہی پلیٹ فارم پر رش تھا۔ قاتل چہرے والی لڑکی کو پیچھے سے آتے ہوئے دو لڑکوں میں سے ایک نے جان بوجھ کر کندھا مارا۔
اُس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا تو کندھا مارنے والے لڑکے نے لڑکی کو آنکھ مار دی۔ لڑکی نے طیش میں آتے ہوئے اُس لڑکے کو تھپڑ جڑ دیا۔ اُس لڑکے نے تھپڑ کھانے کے بعد لڑکی کو جوابی تھپڑ مارنے کی کوشش کی، مگر اُس کا ساتھی اُسے وہاں سے  لے گیا۔
ساحل نے یہ سارا منظر دیکھا۔ وہ دونوں لڑکے ہجوم کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہاں سے تتربتر ہو گئے۔ اس کے باوجود وہ ساحل کی نظروں کے سامنے ہی تھے۔
پنڈی سے کراچی جانے والی تیز گام پلیٹ فارم دو پر آ رہی ہے۔
ایک نسوانی آواز میں اناؤنسمنٹ ہوئی۔ سست پڑے لوگ یکایک چوکس ہو گئے۔ صبح کے آٹھ بجنے والے تھے۔ جیسے ہی گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچی، اُس کے رُکنے سے پہلے ہی عوام اُس پر ایسے ٹوٹی جیسے بارات کے کھانے پر ٹوٹتی ہے۔ خاتون  نے گاڑی میں اپنا سامان رکھوانے کے لیے ایک قلی کو اشارہ کیا۔ قلی کے پاس سامان والی ریڑھی تھی۔ قلی نے پاس آتے ہی کہا
’’باجی۔۔۔! ٹکٹ دکھائیں۔‘‘
خاتون نے اُسے ٹکٹیں دکھا دیں۔
سلیپر۔۔۔ چار والا کوپا. قلی نے ٹکٹیں دیکھنے کے بعد کہا، پھر خاتون کو ٹکٹیں واپس دیتے ہوئے بیگ اُٹھا اُٹھا کر ریڑھی پر رکھنے لگا۔ اُس نے ایک بڑا سا اٹیچی اور دو بڑے بڑے بیگ بڑی ترتیب سے اُٹھا کر ریڑھی پر رکھے۔
یہ بھی ہے۔  لڑکی نے ایک اوربیگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
قلی نے وہ بیگ بھی اُٹھا کر ریڑھی پر رکھا۔ لڑکی نے کھانے والی ٹوکری احتیاطاً اپنے سیدھے ہاتھ میں پکڑ لی۔ اُس کے دُوسرے کندھے پر اُس کا شولڈر بیگ تھا۔ خاتون کے کندھے پر اُس کا پرس لٹکا ہوا تھا اور اُس نے اپنی دونوں بچیوں کے ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔
وہ چاروں قلی کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔ قلی نے ایک ڈبے کے سامنے ریڑھی کھڑی کی۔ لڑکی اُدھر ہی کھڑی رہی۔ وہ تینوں ماں بیٹیاں قلی کے پیچھے اُس ڈبے میں داخل ہو گئیں۔ ایک کیبن کا دروازہ کھولتے ہوئے قلی نے کہا
’’یہ ہے آپ کا کوپا۔‘‘
قلی نے ایک ایک کر کے سیٹوں کے نیچے سارا سامان رکھ دیا۔ تب وہ لڑکی کیبن کے اندر آئی۔ ونڈو سیٹس کی طرف جلدی سے دونوں بچیاں بیٹھ گئیں۔ قلی نے پیسے لیے اور کیبن سے نکل گیا۔
قلی کے جانے کے بعد خاتون اٹیچ باتھ کے اندر چلی گئی اور لڑکی لمبی سانس بھرتے ہوئے سیٹ پر بیٹھ کر کیبن کا جائزہ لینے لگی۔
ایل سی ڈی والی جگہ سے  ایل سی ڈی غائب تھی۔ اُس نے برتھ کے ساتھ بنے ہوئے ریکس کو دیکھا جن میں سفری کمبل اور تکیے بھی نہ تھے۔ اتنے میں ٹرین کے چلنے کا سائرن بج اُٹھا۔ تھوڑی دیر بعد ہولے ہولے ٹرین چلنے لگی۔ خاتون بھی واش روم سے نکل آئی۔ ابھی ٹرین پنڈی کے مضافات سے نکلی بھی نہ تھی کہ ٹکٹ چیکر آن ٹپکا۔
لڑکی پہلے ہی سے تپی پڑی تھی۔ وہ ٹکٹ چیکر کو دیکھتے ہی بولی
وہ تو اچھا ہوا آنٹی نے زبردستی کمبل دے دیے۔۔۔ ریلوے کے سہارے رہتے تو سردی میں قلفی جم جاتی۔
ٹکٹ چیکر نے اپنے چشمے کے اُوپر سے خالی ریکس کو دیکھا، پھر خاتون سے مخاطب ہوتے ہوئے بڑے تحمل سے بولا
’’بیٹی۔۔۔! اپنی ٹکٹیں دکھا دو۔۔۔‘‘
خاتون نے ٹکٹیں چیکر کو تھما دیں۔ اُس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے کلپ بورڈ پر پرنٹ لسٹ پر نظر ڈالی اور نیلی پینسل سے ٹِک کا نشان لگا کے ٹکٹیں واپس کر دیں۔ وہ جانے لگا تو لڑکی پھر سے بول اُٹھی
اُوپر سے ایل سی ڈی بھی غائب ہے۔
ٹکٹ چیکر ہلکا سا مسکرایا، پھر شائستہ لہجے میں کہنے لگا
ریلوے والے کمبل رکھتے ہیں۔۔۔ سواریاں اپنے بیگ میں ڈال کے  لے جاتی ہیں۔۔۔ یہ  بھی کسی مسافر کا ہی کارنامہ ہے۔
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں مسافروں نے ریلوے کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔
لڑکی نے تو اپنے باپ کی عمر کے ٹکٹ چیکر سے محاذ کھول لیا، مگر ٹکٹ چیکر ہوش مند تھا۔ وہ بڑے پیار سے کہنے لگا
حسبِ توفیق سب نے ریلوے کو لوٹا ہے، پھر بھی ہیں سارے متقی۔ ہم ایسی قوم ہیں جو ریلوے بنانے والے انگریزوں کو تو کافر بول کر گالی دیتے ہیں اور لوٹ کر کھا جانے والے نام نہاد مسلمانوں کو ووٹ۔۔۔
ٹکٹ چیکر نے جان بوجھ کر توقف کیا۔ وہ اِس لیے کہ لڑکی اپنا مزید غصہ نکال لے، مگر لڑکی خاموش رہی، پھر وہ خود ہی بول پڑا
غصہ زیادہ دیر اندر رہے تو اچھا نہیں ہوتا بیٹی۔۔۔! کراچی پہنچتے ہی اپنے کسی دوست کے کندھے پر سر رکھ کر دل ہلکا کر لینا۔
ٹکٹ چیکر یہ بولنے کے بعد مسکرانے لگا، پھر کیبن کا دروازہ بند کر کے باہر نکل گیا۔
لڑکی نے شکایتی نظروں کے ساتھ خاتون کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔ دونوں بچیاں کھڑکی سے باہر اپنی نظریں جمائے ہوئے تھیں۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی اپنی سیٹ سے اُٹھ کر لاک لگانے ہی لگی تھی کہ وہ دونوں لڑکے اندر گھس آئے۔ لڑکی اُنھیں دیکھ کر گھبرا گئی۔
وہ اُلٹے قدموں سے پیچھے ہٹنے لگی۔ اُدھر ٹرین کی رفتار بڑھنے لگی، اِدھر لڑکی کے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔ خاتون اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولی
یہ کیا بدتمیزی ہے؟
بدتمیزی تو ابھی کرنی ہے۔
تھپڑ کھانے والے لڑکے نے کہا۔ اُس نے دُوسرے لڑکے کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ اُس لڑکے نے لڑکی کے گلے میں لپٹا ہوا گرم اسکارف کھینچ لیا۔
بھابھی۔۔۔! لڑکی چلائی۔ تھپڑ کھانے والے لڑکے نے لڑکی کو اپنی مضبوط بانہوں میں دبوچتے ہوئے کہا
بھابھی کی جگہ آج بھائی بھی ہوتا تو مجھ سے تمھیں بچا نہ پاتا۔
دُوسرا لڑکا اندر سے کیبن کو لاک لگانے ہی لگا تھا کہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔
ساحل کیبن میں داخل ہوا۔ اُس نے کیبن بند کرنے والے لڑکے کو گریبان سے پکڑا اور کیبن سے باہر گلی کہہ لیں یا پھر کوریڈور میں کھینچ لایا۔ ساحل نے اُس پر گھونسوں کی بارش کر دی۔ ساحل اُسے مار رہا تھا اور اردگرد کے کیبن والے گردنیں نکال نکال کر باہر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے بھی اس پنگے میں پڑنے کا جوکھم نہیں اُٹھایا۔ اِسی اثنا میں لڑکی چلّائی
’’بچاؤ۔۔۔‘‘
ساحل اُسے چھوڑ کر کیبن میں داخل ہوا تو خاتون کے سر سے خون بہ رہا تھا اور وہ ایک کونے میں نیم بے ہوشی کے عالم میں پـڑی تھی۔
دونوں بچیاں ایک ہی سیٹ کے کونے میں دُبک کر بیٹھی ہوئی تھیں۔ لڑکے نے لڑکی کو سیٹ پر دراز کر رکھا تھا اور وہ اُس سے زبردستی کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
یہ دیکھتے ہی ساحل کا خون کھول اُٹھا۔ ساحل نے اُس لڑکے کو گردن سے دبوچا، پھر اُسے زور سے ٹکر ماری۔ اُس لڑکے کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔  وہ تکلیف سے چلّانے لگا۔ اُس کی آواز سن کر دُوسرا لڑکا پھر کیبن میں داخل ہوا اور ساحل پر ہلّہ بول دیا۔
اُس نے ساحل پر مُکّوں کی بارش کر دی۔ ساحل کی ناک سے خون بہنے لگا۔ اُس کا کالا ماسک سرخ ہو گیا۔ اس کے باوجود ساحل نے ماسک نہیں اُتارا، پھر ساحل کو دُوسرے لڑکے نے گردن کے پیچھے سے دبوچ لیا۔
ساحل نے بھی تھپڑ والے لڑکے کو گریبان سے پکڑ لیا۔ دُوسرے لڑکے نے ساحل کو کیبن سے باہر کھینچا تو تھپڑ والا لڑکا باہر کھنچتا چلا گیا۔ جیسے ہی وہ کیبن کے سامنے والی تنگ سی کوریڈور میں ایک دُوسرے پر گرے، کھینچا تانی میں ساحل کی ٹوپی دروازے کے پاس گر گئی۔ دُوسرے لڑکے نے ساحل کو بالوں سے پکڑ کر اندر جانے کی کوشش کی تو ساحل لڑکی کو دیکھ کر چلّایا
’’اندر سے لاک لگا لو۔۔۔‘‘
لڑکی نے جلدی سے دروازہ بند کرتے ہوئے لاک لگا لیا۔ ساحل نے اُٹھ کر دُوسرے لڑکے کو پوری طاقت کے ساتھ ایک لات ماری۔ وہ دُور جا گرا۔ ساحل ایک بار پھر سے تھپڑ والے لڑکے کو مارنے لگا۔
اس  نے اُسے اتنے مُکے مارے کہ وہ آدھ موا ہو کر گر پڑا۔
ساحل نے کمر کے بل فرش پر پڑے ہوئے تھپڑ والے لڑکے کے نازک اعضا کو  اپنے بوٹ کی ایڑی سے مسلا تو وہ شدید تکلیف سے چلّایا۔ اُس کا ساتھی لڑکا ایک بار پھر اُس کی مدد کو پہنچا۔
اس بار ساحل اُس کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے تیار تھا۔ اُس کے قریب آتے ہی ساحل نے اپنے گھٹنے سے اتنی شدت سے مارا کہ اُس کی پورے ڈبے میں آواز گونجی۔
ایک بار پھر سے دُوسرے کیبنز سے چند گردنیں کونجوں کی طرح باہر نکلیں۔ ساحل نے اُن کو دیکھا تو دُوسرے لڑکے کو گریبان سے پکڑ کر گرجا
’’عورتوں سے زبردستی کرنے والوں سے مجھے شدید نفرت ہے۔‘‘
اُس لڑکی اور خاتون  نے بھی اپنے کیبن کا دروازہ کھول کر دیکھا۔ اُنھوں نے بھی ساحل کا یہ جملہ سُن لیا تھا۔ ساحل دُوسرے لڑکے کو گھسیٹتا ہوا دروازے کے پاس لے گیا اور دروازہ کھول کر چلتی ٹرین سے باہر دھکا دے دیا۔
جب تھپڑ والے لڑکے نے یہ دیکھا تو اُس نے خود ہی دُوسری طرف والے دروازے سے باہر چھلانگ لگا دی۔ ساحل گرتا پڑتا واپس خاتون کے کیبن کی طرف آیا۔ ساحل نے دروازے کے پاس پڑی اپنی ٹوپی اُٹھائی۔ لڑکی نے جب دروازے کی درز سے یہ دیکھا تو اُس نے جلدی سے ساحل کے لیے سارا دروازہ کھول دیا۔ وہ اندر چلا گیا۔ ساحل نے لڑکی کو نظر انداز کرتے ہوئے خاتون سے پوچھا
’’آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
’’جی بھائی۔۔۔! آپ بیٹھیں۔۔۔ آنیہ آپ کی پٹی کر دیتی ہے۔‘‘
آنیہ دروازے کو لاک لگانے کے بعد دُوسری سیٹ پر بیٹھ گئی۔ بچیاں اُسی جگہ گُم سُم بیٹھی تھیں۔ خاتون کھڑی ہو چکی تھی۔ ساحل نے بیٹھتے ہوئے ایک نظر آنیہ کو دیکھا۔
آنیہ ڈاکٹر ہے۔ خاتون نے جلدی سے بتایا۔ آنیہ نے اپنا شولڈر بیگ اپنے اُلٹے ہاتھ  سے پکڑا اور اُس میں سے ایک چھوٹا سا فرسٹ ایڈ باکس نکال لیا، جس میں مرہم پٹی کا سارا سامان موجود تھا۔
اسی اثنا میں ٹرین کی رفتار کم ہونے لگی۔ ساحل نے اپنی گردن کو خم دیتے ہوئے کھڑکی کے بند شیشے سے باہر دیکھا، پھر بولا
’’کوئی اسٹیشن آنے والا ہے۔۔۔ میں چلتا ہوں۔‘‘
کیوں؟ آنیہ نے بڑے معنی خیز انداز میں پوچھا۔
ساحل نے اُسے نظر بھر کے دیکھا تو آنیہ کا اگلا سوال تھا
’’ماسک آپ خود اُتاریں گے یا میں اُتاروں؟‘‘
ساحل نے اپنا ماسک اُتارا تو آنیہ نے بھی اُس کو بڑے غور سے دیکھا۔
ساحل کی ناک اور ہونٹوں سے خون رس رہا تھا۔ آنیہ نے روئی کو ڈیٹول لگایا اور رکوع کی حالت میں کھڑی ہو کر اُس کے خون کو روئی سے صاف کرنے لگی۔ ٹرین کے رُکنے سے ہلکا سا جھٹکا لگا۔ آنیہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اور اُس پر جا گری۔
ساحل نے آنیہ کو شانوں سے تھامتے ہوئے خود سے الگ کیا اور سیٹ پر بٹھا دیا۔ آنیہ اب بھی کچھ خوف زدہ سی تھی۔ اُس نے خود کو بہتر ظاہر کرنے کے لیے اپنی بکھری زلفوں کو درست کیا۔ خاتون کھڑی کھڑی آنیہ اور اُس کو دیکھ رہی تھی۔ اس اثنا میں دروازے پر دستک ہوئی۔ سب چونک گئے۔ ساحل نے بڑے اعتماد سے پوچھا
’’کون؟‘‘
پولیس۔۔۔ باہر سے آواز آئی۔ خاتون جلدی سے دروازہ کھولتے ہوئے اُن پر بھڑک اُٹھی
اب آئے ہیں آپ لوگ۔۔۔ اگر پولیس والوں کی اپنی بہو بیٹیاں محفوظ نہیں تو ہم  نے خاک دُوسروں کی حفاظت کرنی ہے۔۔۔
میرے ڈیڈی بھی پولیس میں تھے اور میرا بھائی بھی انسپکٹر ہے۔ خاتون  نے سانس لی تو دو میں سے ایک پولیس والا جلدی سے کہنے لگا
’’میڈم۔۔۔! ہمیں بھی کچھ پوچھنے دیں۔‘‘
آپ نہ ہی پوچھیں۔۔۔ میں خود ہی بتا دیتی ہوں۔۔۔ دو چور لڑکے تھے۔۔۔ اُنھیں لگا ہم اکیلی ہیں۔۔۔ اُنھوں نے میرا پرس چھیننے کی کوشش کی۔۔۔ اُوپر سے میرے بھائی آ گئے۔۔۔ پھر چوروں اور میرے بھائی کے درمیان مارپیٹ شروع ہو گئی۔۔۔
مار کھانے کے بعد اُن دونوں نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی۔۔۔ بس اتنا ہی وقوعہ ہے۔
خاتون چُپ ہوئی تو دُوسرے پولیس والے نے اندر جھانکتے ہوئے کہا
’’ہمیں آپ کے بھائی اور اُس لڑکی سے کچھ سوال پوچھنے ہیں۔‘‘
خاتون کو پولیس والے کی اِس بات پر تپ چڑھ گئی۔
’’سوال پوچھتے پوچھتے۔۔۔ آپ کو جواب دینے نہ پڑ جائیں۔
خاتون دروازے سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولی۔
پولیس والوں نے ایک دُوسرے کی طرف دیکھا، پھر اندر نظر ڈالی۔ آنیہ کا ہاتھ ساحل کے کان کے اُوپر اُس کے بالوں میں تھا۔ وہ سر پر آئے ہوئے زخم سے خون صاف کر رہی تھی۔ پولیس والوں نے آنیہ کا چہرہ تو دیکھ لیا، مگر ساحل کے رخسار کو نہ دیکھ پائے، کیونکہ آنیہ کا بازو درمیان میں تھا۔ ریلوے پولیس والے وہاں سے چل دیے۔ ساتھ والے کیبن سے ایک شخص نے جاتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو کہا
’’ہمیشہ لیٹ آتے ہیں۔‘‘
دونوں پولیس والوں نے شرمندگی سے پلٹ کر دیکھا، پھر وہاں سے نو دو گیارہ ہو گئے۔
(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles