( 54 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
ضادو نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ اُس کے قہقہے میں غرور کی جھنکا رتھی۔ منشا کے وفادار مولوی کا بھی انگ انگ خوشی سے جھوم رہا تھا۔ چراغ والی سے لوگ ٹولیوں کی شکل میں قبرستان پہنچ رہے تھے۔ ہیڈماسٹر فیض رسول صاحب بھی ایک پیٹر والے رکشے پر وہاں پہنچے۔ اُن کے ساتھ اُن کے چند چاہنے والے بھی تھے۔
ہیڈماسٹر صاحب کو سہارے سے رکشے سے اُتارا گیا۔ اُن کے ہاتھ میں اُن کی لکڑی کی چھڑی تھی۔ وہ سرمد کی طرف جانے لگے تو ایک نوجوان نے اُن کا سہارا بننا چاہا تو ہیڈماسٹر صاحب نے اُسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ وہ اپنی لکڑی کی چھڑی کی مدد سے ہولے ہولے چلتے ہوئے سرمد کی طرف بڑھنے لگے۔ ضادو نے ہیڈماسٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے تکبر سے کہا:
’’ماسٹر۔۔۔!! یہ آیا تھا اپنے ماں پیو کی قبروں پر مٹی ڈالنے۔۔۔ دیکھ خود ہی مٹی ہو گیا ہے۔‘‘
ہیڈماسٹر صاحب نے ضادو کی بات پر دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ چُپ چاپ چلتے رہے، جب کہ چندا کو وہ بات کٹار کی طرح سیدھی دل پر لگی۔ اُس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے۔ وہ کپکپاتی ہوئی آواز میں بولی:
’’گوہر باجی۔۔۔! کیا پایا تُو نے شریف زادی بن کے۔۔۔ اِس ملک میں شریف زادی بننا مشکل اور طوائف زادی ہونا آسان ہے۔۔۔ ہم طوائفیں ہی اچھی۔۔۔‘‘ چندا نے یہ کہا اور اپنے دونوں باڈی گارڈز کو اشارہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہوئے بولی:
’’میں ڈالوں گی اپنی بہن کی قبر پر مٹی۔۔۔‘‘
کشمالہ نے چندا بائی کی کلائی پکڑتے ہوئے کہا:
’’نہ باجی نہ۔۔۔ جب تک وہ طوائف زادہ زندہ ہے، تُم کچھ نہیں کرو گی۔۔۔ آج دیکھتے ہیں کہ ایک حرام زادے میں زیادہ کپیسٹی ہے یا طوائف زادے میں۔۔۔‘‘
چندا نے کشمالہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اُس کے رخساروں پر بھی اشک پھیل چکے تھے۔
۞۞۞
ہیڈماسٹر صاحب سرمد کے پاس پہنچے۔ اُنھوں نے سرمد کے منہ کے پاس اپنی چھڑی کو زمین پر مارتے ہوئے نظریں اُوپر اُٹھا دیں، پھر آنکھوں میں عاجزی سجاتے ہوئے اُوپر آسمان کی طرف دیکھ کر گویا ہوئے:
’’میرے مالک۔۔۔! مجھے جو بہتر لگا۔۔۔ میں نے وہی کیا۔۔۔ جیسا بھی ہوں تیرا بندہ ہوں۔۔۔ تیرا یہ بندہ مرنے سے پہلے اُن دو قبروں پر مٹی ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘
ضادو نے یہ سنتے ہی ایک زوردار قہقہہ لگایا تو ہیڈماسٹر صاحب نے اُس کی طرف دیکھا۔ اُن کی ایک آنکھ سے دو آنسو قبرستان کی بنجر زمین پر ٹپکے۔ آنسوؤں کے ٹپکتے ہی زوردار بادل گرجے، پھر بجلی چمکنے لگی۔ یکایک سرمد کے بے جان جسم میں بجلی کی گرج سرائیت کر گئی۔
سرمد ہیڈماسٹر صاحب کی عام سی لکڑی کی چھڑی کو تھامتے ہوئے کھڑا ہو گیا، پھر اُس نے اپنے سامنے پڑے ہوئے بیلچے کے اُٹھے ہوئے منہ پر پنجا مارا تو بیلچے کا دستہ اُس کے ہاتھ میں آگیا۔
بیلچا اُس کے ہاتھ میں آتے ہی ضادو کے بندے ایک ایک کر کے زمین پر گرنے لگے۔ کوئی بیلچے کی مار سے اور کوئی اپنے ہی اوزار سے۔ اب ضادو اور سرمد آمنے سامنے تھے۔ جیسے ہی ضادو نے اپنے کندھے سے AK-47 اُتاری، سرمد نے دُور سے ہی اُسے بیلچا دے مارا۔ ضادو کو Gun چلانے کا موقع ہی نہ ملا۔
ضادو زمین پر گر گیا۔ سرمد نے اُس کی Gun ہی اُس کے سر پر مار مار کر اُس کاسر کچل دیا۔ یہ دیکھتے ہی کشمالہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بڑے فخر سے کہا:
’’حرام زادے کو طوائف زادے نے ڈیلیٹ کردیا باجی۔۔۔!!‘‘
٭
سرمد نے ضادو کی لاش کے پاس سے بیلچا اُٹھایا اور زمین سے مٹی کھود کھود کر قبروں پر ڈالنے لگا۔ یہ دیکھتے ہی چراغ والی کے لوگ پورے جوش کے ساتھ کُھرپے اور بیلچے لے کر سرمد کے والدین کی قبروں کی طرف لپکے۔ لوگوں نے آناًفاناً ہی دونوں نام کی قبروں پر مٹی ڈال کر اُنھیں پھر سے قبروں کی شکل دے دی۔
کشمالہ نے یہ دیکھا تو اپنے بالوں میں لگے ہوئے پھول اُتار لیے۔ اُسے دیکھتے ہی چندا نے بھی اپنی کلائیوں کے گجرے اور بالوں کے پھول نکال کر کشمالہ کو تھما دیے۔ کشمالہ وہ پھول لے کر قبروں کی طرف بھاگی۔ چندا بھی اُس کے پیچھے چل دی۔ کشمالہ نے اُن پھولوں کی پتیاں بنا کر دونوں قبروں پر ڈال دیں۔
ہیڈماسٹر صاحب نے شکر بجا لاتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا، پھر دُعا کے لیے اپنا دایاں ہاتھ اُٹھا دیا۔ اُن کا بایاں ہاتھ چھڑی پر تھا۔ اُن کی دیکھا دیکھی سارے مجمعے نے دُعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیے۔ سرمد کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا مولوی چار دیواری کے احاطے سے باہر نکل آیا اور اُس نے بھی دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا دیے۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞