( 50 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
کشمالہ کی Toyota Vigo بادامی باغ سے نکل کر اب رِنگ روڈ پر سفر کر رہی تھی۔ اُس کے دو گارڈپیچھے ڈالے میں تھے۔ پچھلی سیٹ پر کشمالہ کے ساتھ سرمد بیٹھا ہوا تھا اور اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے برابر میں چندا بائی ہشاش بشاش براَجمان تھی۔ سرمد اپنی ہی سوچوں میں گُم تھا۔ کشمالہ نے بات شروع کی:
’’تمھاری بیٹری کیوں Low ہے؟‘‘
سرمد نے سنجیدگی سے کشمالہ کو دیکھا، پھر اپنے دائیں ہاتھ اور کشمالہ کے بائیں ہاتھ میں لگی ہتھ کڑی پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا:
’’آپ جانتی ہیں میں کون ہوں؟‘‘
کشمالہ نے جان لیوا مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے کہا:
’’تمھارا اسٹیٹس جاننے کے بعد ہی تمھیں Tag کیا ہے۔‘‘
’’آپ مجھے کہاں لے جا رہی ہیں؟‘‘ سرمد نے تحمل سے پوچھا۔
’’ ہنی مون کے لیے سوات۔۔۔‘‘ کشمالہ نے خمار سے بھری آنکھوں کے ساتھ سرمد کو بتایا۔
’’ ہنی مون کے دن آپ کی زندگی کے سب سے یادگار پل بن سکتے ہیں۔‘‘ سرمد نے وثوق سے بتایا۔ کشمالہ نے لمحہ بھر اپنی موٹی موٹی آنکھوں کو گھمایا، پھر پوچھا:
’’کیسے بن سکتے ہیں؟‘‘
’’آپ کی خالہ گوہر جان کی قبر پر بارہ سالوں سے کسی نے مٹی نہیں ڈالی۔‘‘ سرمد چُپ ہوا تو کشمالہ سوچنے لگی۔ ساتھ ہی سرمد بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا:
’’سوات جانے سے پہلے میں آپ کی خالہ کی قبر پر مٹی ڈالنا چاہتا ہوں۔‘‘ کشمالہ نے مشاورتی نظروں سے چندا بائی کو دیکھا۔ چندا بائی نے جلدی سے گردن نفی میں ہلادی۔
’’تُم ہمیں ہیک کر کے کیوں مٹی ڈالنے نہیں چلے جاتے؟‘‘
سرمد نے سوالیہ نظروں سے کشمالہ کی طرف دیکھا تو وہ وضاحت کرنے لگی:
’’ہیک۔۔۔ مطلب ہم سے بھاگ کر۔۔۔‘‘
’’میں بھاگوں گا تو آپ دونوں بھی زخمی ہو سکتی ہیں۔‘‘ سرمد نے ہتھ کڑی کو اُوپر اُٹھاتے ہوئے بتایا۔
’’ زندگی میں کبھی کسی عورت کو زخمی نہیں کیا؟‘‘ کشمالہ نے ذومعنی انداز میں پوچھا۔
’’صرف اُسے جو خود زخمی ہونا چاہتی تھی۔‘‘ سرمد نے بتایا۔ یہ سنتے ہی چندابائی نے بڑے مزے سے پوچھا:
’’ہمارے زخموں کی اتنی فکر کیوں؟‘‘
’’آپ خالہ زاد بہن ہیں میری ماں کی اور یہ بھانجی۔۔۔‘‘ سرمد کے یہ کہتے ہی چندابائی اور کشمالہ سوچنے لگیں، پھر کشمالہ نے اپنا فون چندا کو دکھاتے ہوئے کہا:
’’باجی سے پوچھوں؟‘‘
’’باجی نہیں مانے گی۔۔۔ میری طرف سے اجازت ہے۔‘‘ چندا نے اپنے پرس سے ہتھ کڑی کی چابی نکالتے ہوئے کہا۔ کشمالہ نے چابی پکڑی اور سرمد کی ہتھ کڑی کھول دی۔ اُس کے بعد چندا نے ڈرائیور سے کہا:
’’ملتان کی طرف چلو۔۔۔‘‘
ڈرائیور نے چُپ چاپ گردن ہاں میں ہلا دی۔ سرمد نے سکون سے آنکھیں مُوند لیں اور اپنا سر سیٹ کی پشت پر ٹکا دیا۔ وہ ہوش میں آنکھیں بند کیے بارہ دسمبر کی رات کو دیکھنے لگا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞