( 5 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
میم۔۔۔! کوئی سلمان صاحب ہیں۔۔۔ آئی ڈی کارڈ بھی اُن کے پاس نہیں ہے۔۔۔ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
ریسپشن پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے سلیم سرتاج کا جائزہ لیتے ہوئے انٹرکام پر کسی کو بتایا۔ دُوسری طرف سے آواز آئی
’’بھیج دو۔۔۔!‘‘
لڑکی نے انٹرکام کا ریسیور رکھتے ہوئے سلیم سرتاج کو بتایا
’’تھرڈ فلور۔۔۔ روم نمبر 11۔‘‘
اسلام آباد کے سیکٹر ایف کے قریب ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے ایک کمرے میں جیسے ہی سلیم سرتاج داخل ہوا، کمرے میں پہلے سے انتظار کرتی ہوئی ایک چالیس سالہ قبول چہرہ خاتون اُسے دیکھتے ہی اُس سے لپٹ گئی۔
اُس نے سلیم سرتاج کو اپنا فیس ماسک اُتارنے کا بھی موقع نہیں دیا۔ کچھ دیر وہ ماڈرن سی خاتون سلیم سرتاج سے لپٹی رہی، پھر اُس سے جدا ہو کر اُس کا فیس ماسک اُتارتے ہوئے صوفے پر پھینک دیا، پھر اُس کے لبوں کو چومتے ہوئے، لپ اسٹک سے لت پت اپنے خشک ہونٹوں کو تر کرنے لگی۔
سلمان! لاک ڈاؤن کے دنوں میں تمھیں بہت مس کیا، پھر تم غائب ہو گئے۔۔۔ تمھارا نمبر بھی آف تھا ۔ خاتون نے سلیم سرتاج کو سلمان کہہ کر مخاطب کیا۔ جب اُس نے سلمان کا ہاتھ پکڑا تو اُس نے دستانے پہن رکھے تھے۔ وہ سلمان کے دستانے اُتارتے ہوئے کہنے لگی
اِن ہاتھوں کی حفاظت کرنی بھی چاہیے! سلمان کے دستانے فرش پر اور اُس کے ہاتھ خاتون کے گالوں پر تھے۔ سلمان نے اپنے ہاتھوں میں اُس خاتون کے رخساروں کو جیسے ہی لیا وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی
’’جادو ہے تمھارے ہاتھوں میں۔۔۔‘‘
سلمان نے اُس خاتون کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اُٹھایا اور بستر پر لے گیا۔ ساری رات اُس خاتون نے سلمان کو جگائے رکھا۔ رات کے آخری پہر سلمان واش روم میں گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی کمر پر تولیا باندھے گیلے بالوں کے ساتھ برآمد ہوا۔ خاتون آنکھوں میں جمالیاتی ذوق سجائے اجنتا کی مورت جیسے بدن کو تکتے ہوئے کہنے لگی
ایک تم ہو اور ایک وہ بڈھا میرا شوہر۔۔ تمھارے ساتھ وقت کا پتا ہی نہیں چلتا اور اُس کے ساتھ رات کٹتی ہی نہیں۔
سلمان نے من موہنی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے اُس خاتون کی طرف دیکھا، پھر چُپ چاپ کپڑے پہننے لگا۔ وہ خاتون اپنی بات پر زور دیتے ہوئے بولی
’’پلیز۔۔۔! اب اپنا نمبر مت چینج کرنا۔‘‘
سلمان نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ خاتون نے جانچتی نظروں کے ساتھ سلمان کی طرف دیکھا، جو خاتون سے بے نیاز اپنے لیدر کے شوز پہن رہا تھا۔ اُس نے لمحہ بھر میں فیصلہ کیا، پھر بولی
’’تمھارے لیے پرس میں ایک کاپی رکھی ہے، وہ لیتے جانا۔‘‘
سلمان نے نظر بھر کے اُس خاتون کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی جیکٹ کو اُلٹا کیا۔ لیدر کا اُوپری حصہ نیچے چلا گیا۔ وہ جیکٹ گرے اور بلیک لیدر کی تھی، جس کی سائیڈ بدلنے سے پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ یہ وہی جیکٹ ہے۔ خاتون نے اپنے دیے ہوئے تحفے کی عزت دیکھی تو کہنے لگی
’’جانتی ہوں تم پیسوں کے لیے مجھے نہیں ملتے۔ میرے شوہر کے پاس حرام کا بہت پیسہ ہے۔‘‘
سلمان نے اُس کے پرس سے ہزار ہزار کے نوٹوں والی ایک لاکھ کی کاپی نکال کر اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب میں رکھ لی، پھر صوفے پر پڑا ہوا اپنا ماسک لگایا۔ اس کے بعد سلمان نے فرش پر پڑے ہوئے اپنے دستانوں کی طرف دیکھا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد سلمان نے اُنھیں بھی اُٹھا کر پہن لیا۔
چلتا ہوں میم۔۔۔! سلمان نے اُس خاتون کی طرف دیکھ کر کہا۔
تمھیں کچھ کام بھی تھا؟ خاتون نے پوچھا۔
کام بھی ہو گیا ہے۔ سلمان نے جیکٹ کے اندر رکھی لاکھ والی کاپی کے اُوپر ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا۔
آج تمھیں کچھ کھلایا بھی نہیں۔ خاتون نے کہا تو سلمان پھیکا مسکراتے ہوئے بولا
آپ کی بھوک تو مٹ گئی نا۔۔۔
اِس کے بعد لمحہ بھر بھی سلمان اُس کمرے میں نہ رُکا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞