( 36 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان
۞۞۞
رات ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود چھت پر مدہم روشنی اتنی تھی کہ وہ دونوں ایک دُوسرے کا چہرہ بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ وہ دونوں انھی کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔
بیوی بچے کہاں ہیں تمھارے … ؟ امداد نے پوچھا۔
’’شادی نہیں کی میں نے ‘‘
’’کیوں … ؟‘‘
سونو سوچ میں پڑ گیا، چند لمحوں بعد کہنے لگا
ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ پچھلے ڈھائی تین گھنٹوں کے دوران امداد، سونو کو کافی حد تک جان چکا تھا۔ امداد سمجھ کر حقیقت تک نہیں پہنچنا چاہتا تھا بلکہ صاف صاف اُس کے منہ سے سننا چاہتا تھا، اس لیے اُس نے سونو سے پوچھا
’’تم نے یہ کیوں کہا تھا کہ میں ہر روز اس معاشرے سے گوری کا بدلا لیتا ہوں۔‘‘
’’کل میں ماڈل ٹاؤن کا چکر لگانے کے بعد یہاں سے چلا جاؤں گا، اس لیے بتا دیتا ہوں۔‘‘
کہاں… ؟ امداد کو اُسی وقت احساس ہو گیا تھا کہ اُس نے خود ہی بات کا رُخ بدل دیا ہے۔
’’کسی بھی شہر میں ‘‘
’’مطلب …؟‘‘
ٹرین میں چڑھ جاتا ہوں … جس شہر کی عورتیں اچھی لگیں وہیں اُتر جاتا ہوں۔۔۔ پچھلے بیس سال سے ایسا ہی کر رہا ہوں۔
پھر…؟ امداد نے سوال کیا۔
’’پھر اُس شہر کے سب سے مشہور بازار میں چلا جاتا ہوں اور سب سے بڑی چوڑیوں کی دکان پر پہنچ کر ایک دن کے لیے مفت کام کرنے کی آفر دیتا ہوں۔ جو عورت ذات چوڑیاں چڑھوانے کے لیے ایک بار اپنی کلائی سونو کے ہاتھوں میں دے دیتی ہے وہ ساری زندگی سونو کے ہاتھوں کا لمس بھول نہیں پاتی
صرف کلائی کو پکڑ کر عورت کے دل کو جکڑ لیتا ہوں۔ جس عورت کی کلائی میرے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اُس کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اب تک لاکھوں کلائیاں پکڑ چکا ہوں اور ہزاروں کو رنگ دیا ہے میں نے
امداد نے کرسی سے اُٹھ کر ایک زور دار تھپڑ سونو کے گال پر جڑ دیا۔ رنگ دینے کی بات پر اُسے طلال کی بات یاد آ گئی تھی۔
اُس دن طلال نے گھٹیا بات کی تھی اور اب تُو نے۔ امداد ثاقب نے آتشی لہجے میں بتایا۔ سونو شرمندہ ہونے کے بجائے مسکراتے ہوئے اپنی جگہ سے اُٹھا اور امداد کے روبرو کھڑا ہو گیا۔ امداد نے لفظ چباتے ہوئے کہا
’’بے غیرتی ہے یہ ‘‘
جو گوری کے ساتھ چراغ والی میں ہوئی وہ کیا تھی …؟ سونو نے امداد سے کڑوے کسیلے لہجے میں ایک بات پوچھی، اُس بات کا امداد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، اس لیے امداد فوراً سونو کی ذات پر آ گیا
’’اُن بھیڑیوں اور تم میں کیا فرق ہے … ؟ ‘‘
کیوں بھیڑیوں کو بدنام کرتے ہو امداد ثاقب ! بھیڑیا مادہ کی مرضی کے خلاف اُس سے زبردستی نہیں کرتا… اور یہاں … ؟ زبردستی ہی زبردستی!‘‘ امداد کے پاس سونو کی اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں تھا۔ سونو بڑے فخر سے بتانے لگا
مجھ میں اور چراغ والی کے مردوں میں بہت فرق ہے… میں عورت کو اُس کی مرضی کے بغیر نہیں چھوتا
بزدل تو تم تھے ہی اب بے غیرت بھی ہو گئے ہو۔‘‘ امداد نے تضحیک آمیز لہجے میں بتایا۔ غصہ کرنے کی بجائے سونو مسکرا دیا۔ یکایک اُس کی فاتحانہ مسکراہٹ شکست خوردہ ہو گئی، وہ کہنے لگا
’’نا تو میں بزدل تھا اور نہ ہی بے غیرت ہوں ۔ ‘‘
بے غیرتی اور کسے کہتے ہیں … تم جیسوں کی وجہ سے شریف لوگ اپنی بہو، بیٹیوں کو بازار نہیں آنے دیتے۔ جو عورت اپنی کلائی چوڑیاں چڑھانے کے لیے تمھارے ہاتھ میں دیتی ہے تم اُسے ہی رنگ دینا چاہتے ہو۔
امداد کی بات سننے کے بعد سونو نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر کہنے لگا
سب کو نہیں … اِس دور میں بھی رنگین مزاج کم ہیں اور ایمان والیاں زیادہ۔ مجھے عورت کی آنکھ میں ایمان بھی نظر آ جاتا ہے اور رنگینی بھی۔ گوری کی قسم ! جس دن اِن ہاتھوں نے کسی ایمان والی کی کلائی بری نیت سے پکڑی اُس دن یہ ہاتھ ہی کاٹ دوں گا۔
یہ بولنے کے بعد سونو اپنے دونوں ہاتھوں کی طرف دیکھنے لگا۔ امداد یہ سوچ رہا تھا
’’ اتنے لائق طالب علم نے اپنی صلاحتیں کس کام میں ضائع کر دیں۔‘‘
ہر برادری کے کچھ اصول ہیں۔ سونو کی بات سے امداد کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹا۔
’’ کس برادری کے …؟‘‘ امداد نے پوچھا۔
’’تمھیں میری بات بری لگے گی امداد ‘‘
’’پہلے بھی کوئی اچھی نہیں لگی !‘‘امداد نے صاف صاف بتا دیا۔ سونو نے جلدی سے بات بدلی۔
’’چلو اندر چلتے ہیں … یہاں ٹھنڈ ہو گئی ہے‘‘
’’تمھاری باتیں سننے کے بعد جو آگ میرے سینے میں لگی ہے۔ یہ ٹھنڈ بھی اُسے بجھا نہیں سکتی۔‘‘
امداد کے جذباتی ہونے کے باوجود سونو اُسے کندھے سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ ٹوٹے ہوئے ٹیبل پر بڑی سی ایل سی ڈی والا ایک کمپیوٹر پڑا تھا۔ اُس کے سامنے ایک بوسیدہ سا لیدر کا صوفہ تھا۔ صوفے کے ساتھ ایک مضبوط پائیوں والا پلنگ تھا۔ پلنگ پر گدے کے اوپر ایک سفید بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی۔ امداد کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ اُسی دوران امداد کے کان میں سونو کی آواز پڑی
’’بیٹھو۔۔۔!
امداد نے سونو کی طرف دیکھا، اُس نے پلنگ کی طرف اشارہ کر دیا۔ امداد نے بے چینی سے اِرد گرد دیکھا۔ سونو سمجھ گیا، وہ جلدی سے باہر گیا اور پلاسٹک کی کرسی اُٹھا لایا۔ امداد کرسی پر بیٹھ گیا۔
انگلش یا انڈین فلمیں دیکھتے ہو کیا… ؟ سونو نے امداد کے سامنے لیدر کے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
میں پاکستانی بھی نہیں دیکھتا! امداد نے رُوکھے لہجے میں بتایا۔
’’مجھے فلموں سے پتا چلا انڈر ورلڈ والوں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں ‘‘
کیسے اصول … ؟ امداد نے فوراً پوچھا۔
وہاں دشمن کے بیوی بچوں کو نہیں مارا جاتا۔ طوائف کے کوٹھے اور بدمعاش کے ڈیرے کے بھی اصول ہیں۔ اگر نہیں ہیں تو تمھارے اس نام نہاد شُرفا کے معاشرے کے کوئی اصول نہیں۔ یہاں چور چوکیدار کے بھیس میں ہیں۔
تم کیا ہو … ؟ امداد نے تلخی سے پوچھا۔
’’میں وہ چور ہوں ۔۔۔ جو چوکیداری بھی ایمانداری سے کرتا ہے۔‘‘
میں سمجھا نہیں … ؟ امداد نے بتایا۔
مجھے حاجی صاحب نے یہ رہائش اپنے کروڑوں کے مال کی چوکیداری کے لیے دے رکھی ہے۔ میں اکثر اس کمرے میں بھی چوری کر لیتا ہوں۔
لعنت تمھاری شکل پر… کتنے فخر سے اپنی بے غیرتی کے قصے سُنا رہے ہو۔ امداد نے ہاتھ کے اشارے سے بھی سونو پر لعنت بھیجی، مگر وہ مسکرا دیا۔ امداد کی لعنت ملامت پھٹکار سے سونو کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
کرتے کیا ہو … ؟ سونو نے اگلا سوال پوچھ لیا۔
’’آڈٹ کرتا ہوں ‘‘
سونو نے شعوری طور پر بات کا رُخ بدلا۔ امداد کی نسبت اُسے اپنے غصے پر زیادہ قابو تھا۔
رشوت نہیں لیتے نا ! سونو نے یقین کے ساتھ بتایا۔
تمھیں کیسے پتا … ؟ امداد نے بھی غصے کو قابو میں رکھتے ہوئے بڑے تحمل سے پوچھا۔
رشوت لے رہے ہوتے تو اچھرہ بازار شاپنگ کرنے نہ آتے۔ امداد سوچ میں پڑ گیا، سونو نے ساتھ ہی پوچھ لیا
’’گاڑی بینک سے لی ہے کیا … ؟‘‘
میں اُسے سود سمجھتا ہوں ! امداد نے بتایا۔
مطلب گاڑی بھی اپنی نہیں ہے ! سونو کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ کو دیکھنے کے بعد امداد نے بتایا
’’گاڑی تھی۔۔۔ بیچ دی۔‘‘
وہ کس کی تھی؟ سونو نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔ امداد کا پارہ پھر سے چڑھ گیا۔ وہ تیکھے لہجے میں بولا
رمضان چپڑاسی کی ہے۔ وہ بینک سے گاڑیاں نکلوا کر رینٹ پر چلاتا ہے ! سونو کے مسکرانے پر امداد کو مزید تپ چڑھ گئی۔ وہ ملامتی انداز میں بولا
’’مجھے تو خود پر غصہ آ رہا ہے کہ میں تمھارے جیسے بندے کے ساتھ یہاں اس جگہ بیٹھا ہوں۔‘‘
کروڑوں کی بلڈنگ ہے یہ۔۔۔ اور کروڑوں کا ہی مال بھرا ہے اس کے اندر ! جہاں تک میری بات ہے میں تمھارا سب سے اچھا دوست ہوں! سونو نے کندھے اُچکاتے ہوئے بڑے مزے سے بتایا۔
دوست …؟ تم دوست کہلوانے کے قابل ہو…؟ امداد نے حقارت سے کہا۔ سونو سنجیدہ ہو گیا وہ اُسی سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگا
امداد ثاقب ! آج بڑے دین دار بن گئے ہو۔ سود سے بچتے ہو۔ رشوت بھی نہیں لیتے۔ تمھارے سمیت سارے گاؤں کو پتا تھا کہ گوری کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ کسی نے سرداروں کے خلاف آواز اُٹھائی کیا …؟
ماسٹر صاحب نہ ہوتے تو گوری کی لاش وہیں پڑی پڑی سڑ جاتی۔ جن دس بارہ لوگوں نے گوری کے جنازے میں شرکت کی اُس میں سے سات کو ماسٹر صاحب لائے تھے۔ مان لیا میں بے غیرت بن گیا ہوں۔ تم لوگ کیا تھے … ؟
ہم لوگ کمزور تھے … یہ لڑائی مردوں اور عورتوں کی نہیں بلکہ کمزوروں اور طاقت وروں کی ہے۔ سردار، نواب، وڈیرے، چوہدری، مرد ہو کر اپنے کاموں (مزارعوں) کے ساتھ کیا کیا ظلم نہیں کرتے۔ ساس اپنی ساس کے بدلے بہو سے لے رہی ہوتی ہے۔
وہ عورت ہوتے ہوئے بھی عورت کو نہیں بخشتی۔ سب کے سب طاقت کے نشے میں چوُر ہیں۔ کوئی طاقت ور ہی رحم کرنا سیکھ لے۔ سب کے سب ظلم کیے جا رہے ہیں۔ میں مانتا ہوں چچی کے ساتھ ظلم ہوا تھا۔ تم کیا کر رہے ہو … ؟ امداد نے غصے سے پوچھا۔
میں اس معاشرے سے اُسی ظلم کا بدلہ لے رہا ہوں۔ سونوبھی غصے سے چلّایا۔
واہ سونو واہ … ! ظلم بھی عورت ذات پر ہو۔۔۔ا اور بدلہ بھی اُسی سے لیا جائے… عورت ہی سے کیوں…؟ امداد کی باتیں سننے کے بعد سونو سوچ میں پڑ گیا۔ چند لمحوں بعد کہنے لگا
مرد غیرت کے نام پر مرنے مارنے پر آ جاتا ہے۔ جبکہ عورت نہیں آتی۔ اس معاشرے کے مرد کی غیرت صرف عورت کے معاملے سے جڑی ہے۔ اپنے معاملے سے نہیں۔ میں مرد کی اُسی غیرت کو مار رہا ہوں۔
تم کسی کی غیرت کو نہیں مار رہے۔ اپنی غیرت کو مار چکے ہو۔ امداد نے سونو کو تلخ لہجے میں بتایا۔ اُس نے کوئی جواب نہیں دیا تو امداد نے بولنا شروع کر دیا
’’غیرت مند بھاگتے نہیں ہیں۔ غیرت مند ہوتے تو سردار بلاج سے بدلہ لیتے۔‘‘
لیا اُس سالے سے بھی بدلہ لیا ہے۔ سونو نے چیختے ہوئے بتایا۔ اُس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں۔
تمھارے ہاتھوں سے نہیں، دل کا دورہ پڑنے سے اُس کی موت ہوئی تھی۔ امداد نے سونو کو اطلاع دی تو اُس کے ہونٹوں پر گھائل مسکراہٹ اُبھر آئی، وہ خرخراہٹ بھری آواز میں کہنے لگا
بیٹی کی ننگی تصویریں دیکھنے سے دل کا دورہ پڑ ہی جاتا ہے۔ سونو کی بات سنتے ہی امداد پر سکتہ طاری ہو گیا۔ چند منٹ تک تو وہ سونو کے جملے پر غور کرتا رہا پھر اُس کی طرف نگاہ اُٹھائی۔ وہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ امداد نے جانچتی نظروں سے اُس کی طرف دیکھ کر کہا
تم جھوٹ بول رہے ہو! گھائل مسکراہٹ اب گھاتک ہو چکی تھی، مگر سونو خاموش رہا۔ امداد اپنے ذہن میں کڑی سے کڑی ملانے لگا، جب اُسے بات سمجھ آئی تو اُس نے افسردگی سے کہا
’’رمشا شریف لڑکی تھی، باپ کے سامنے اُس کا تو پردہ رہنے دیتے۔‘‘
گوری طوائف زادی ہونے کے باوجود پردہ کرتی تھی۔ سونو نے تحمل کے ساتھ معنی خیز انداز میں بتایا۔ امداد سب کچھ سمجھ جانے کے بعد بھی چاہتا تھا کہ سونو خود ہی بول دے کہ یہ سب جھوٹ ہے، اِس لیے اُس نے خود کو تسلی دینے کے لیے کہا
تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔نا۔۔۔ ماڈل ٹاؤن میں سردار بلاج کی کوٹھی پر کئی گارڈ تھے اور یونیورسٹی جاتے ہوئے بھی اُن کے ساتھ دو گارڈ ہوتے تھے۔
عورت اگر خود زخمی ہونا چاہے تو کوئی بھی گارڈ اُسے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔۔۔ ہم صرف لباس دیکھ کر لوگوں کو کریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں۔۔۔ امداد ثاقب۔۔۔! میں نے دستار والوں کے گندے کردار اور حجاب والیوں کے شباب دیکھے ہیں۔
ایک حجاب والی خاتون تم جیسے گھٹیا آدمی کو کیوں اپنا شباب دکھائے گی… ؟ امداد نے حقارت بھرے لہجے میں پوچھا۔
جس بیوی کا شوہر غیر قانونی طور پر یورپ پہنچا ہو۔ وہ سالوں بعد بھی گھر نہ آئے، اس کی بیوی کیا کرے …؟جس لڑکی کو اُس کی مرضی کے خلاف ایک بڈھے سے بیاہ دیا جائے اور وہ بڈھا شادی کے قابل ہی نہ ہو وہ لڑکی کیا کرے …؟
جس عورت نے مرد کی محبت کی جگہ صرف اُس کی ضرورت ہی دیکھی ہو۔ وہ عورت کیا کرے؟
جس معاشرے میں مرد اپنی بیویوں کو اپنے معاشقے بتائیں ۔۔۔ وہ بیویاں کیا کریں؟
اِس معاشرے کا مرد خود بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے اور طلاق کا طوق عورت کے گلے میں ڈال دیتا ہے۔۔۔ ایسے ہوتے ہیں غیرت مند کیا؟ ارے میں ہوں اُن مظلوم عورتوں کا ہمدرد۔۔۔ سوشل ورکر ہوں میں۔۔۔
بند کرو اپنی بکواس۔ امداد کے گرم ہونے پر سونو چپ ہو گیا۔ وہ سونو کی بے ہودہ باتیں سن سن کے تنگ آ چکا تھا۔
کسی کو چپ کروانے سے بھی حقیقت نہیں بدلتی۔ سونو پھر بول پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ تم انتہائی غلیظ ، نیچ اور خبیث انسان ہو۔ امداد نے اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے کہا اور کمرے سے باہر نکل آیا، اُس کے کانوں میں سونو کا اعتراف پڑا
یہ سب ہوں میں۔۔۔ امداد نے پلٹ کر دیکھا۔ سونو اُس کے پیچھے کھڑا تھا وہ انتہائی کرب کے عالم میں بولا
میں غلیظ ہوں۔۔۔ نیچ ہوں۔۔۔ خبیث ہوں۔۔۔ بے غیرت ہوں۔۔۔ بھگوڑا ہوں۔۔۔ کافر ہوں میں۔۔۔ کافر۔۔۔ تم لوگ کیا ہو۔۔۔؟
بتایا تو تھا ہم کمزور ہیں۔ امداد نے بھی اعتراف کیا۔
نہیں۔۔۔ نہیں تم لوگوں کا رتبہ مجھ سے اعلیٰ ہے۔۔۔ منافق ہو تم سب منافق۔۔۔!! ملاوٹ، دھوکا، بے ایمانی کیا کام نہیں کرتے تم لوگ۔ دودھ، دوا، غذا کچھ بھی خالص نہیں ملتا یہاں۔۔۔ شریف وہ ہے جس کا داؤ نہیں لگتا۔ سارا معاشرہ منافقوں سے بھرا پڑا ہے۔ سونو کے لہجے میں شدید نفرت تھی۔
اِسی معاشرے کے دس شریف افراد نے تمھاری ماں کا جنازہ پڑھا تھا۔ سردار بلاج کے مقابلے میں ہم کمزور تھے اس کے باوجود ہم تینوں باپ بیٹوں نے تمھاری ماں کے جنازے میں شرکت کی۔ ہر شخص سے اُس کی طاقت کے مطابق ہی سوال پوچھا جائے گا۔ ہیڈ ماسٹر فیض رسول صاحب نے اپنی طاقت کے مطابق تمھاری مدد کی اور میں نے اپنی طاقت کے۔
تم نے میری کوئی مدد نہیں کی۔ سونو نے تلخی سے امداد کی بات کاٹ دی۔
میں تمھیں پکڑ سکتا تھا، مگر نہیں پکڑا… ظلم تمھاری ماں کے ساتھ ہوا تھا اور ظالم تم بن گئے۔ عورت کو مجروح کرنے والا میرا دوست نہیں ہو سکتا۔
امداد ثاقب یہ بولتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔ سونو چھت پر ہی کھڑا رہا۔ چھت کے بیچوں بیچ پہنچ کر امداد ثاقب پلٹا۔ اُس وقت امداد کی حالت جنگلی بلے کے سامنے کبوتر جیسی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کا سب سے عزیز دوست جھوٹ موٹ ہی کہہ دے کہ وہ مذاق کر رہا ہے، اِس لیے اُس نے جاتے جاتے بھی سونو کو ایک موقع دیا
عورت کی کلائی تو مرد فوراً پکڑ لیتا ہے، اُس کا ہاتھ تھامنے میں ہی دیر کر دیتا ہے۔ کاش! تُم بھی زندگی میں اپنی ماں جیسی کسی ایک عورت کا ہاتھ تھام لیتے۔۔۔ جھوٹے قصے سنانے والے بزدل آدمی۔۔۔
امداد کی بات کاٹتے ہوئے سونو چلّایا
’’بزدل نہیں ہوں میں۔‘‘
سونو دہکتے چہرے کے ساتھ امداد کی طرف چل دیا۔ چھت کے وسط میں دونوں ایک دُوسرے کے روبرو کھڑے ہو گئے۔ امداد نے سونو سے نظریں ملاتے ہوئے بڑے تحمل سے بتایا
بہادر وہ جو دشمن کے ساتھ بھڑ جائے۔۔۔ اُسے مار نہ بھی سکے۔۔۔ خود تو غیرت سے مر جائے۔۔۔ بزدل بھگوڑے ہو تُم۔۔۔!‘‘
امداد خاموش ہوا تو سونو نے اپنی صفائی دی
’’ماسٹر صاحب نے بھگایا تھا مجھے۔۔۔‘‘
تُم نہ بھاگتے۔۔۔ ایک بار میں نے ماسٹر صاحب سے گِلہ کیا کہ آپ کو سونو کو بھگانا نہیں چاہیے تھا۔۔۔ کہنے لگے
اُس جیسا قابل طالبِ علم میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔۔۔ وہ زندگی میں ضرور کچھ بڑا کرے گا۔
کتنے خوش ہوں گے۔۔۔ نا۔۔۔ ماسٹر صاحب تمھارے کارنامے سُن کر۔
ماسٹر صاحب کے حکم پر ہی میں نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی تھی۔ اپنی شناخت چھپاتے ہوئے کچھ کرنے کی کوشش کی تو اس سسٹم نے مجھے قبول ہی نہیں کیا۔ پڑھنا چاہا تو بورڈ والے کبھی ب فارم مانگ لیتے تو کبھی ڈومیسائل۔۔۔ جھوٹے سچے کاغذات بنوا کر میں شناختی کارڈ بنوانے گیا تو بائیو میٹرکس مشین میں میرے فنگر پرنٹ ہی نہیں آئے۔۔۔
امداد نے سونو کی بات کاٹتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا
’’کس وجہ سے۔۔۔؟‘‘
لمحوں میں ہی سونو کے حسین رخسار پر ایک بھیانک وحشت آن ٹپکی۔ یکایک کوئی درد اُس کے دل میں راسخ ہو گیا۔ وہ بلبلا اُٹھا۔ اُس نے جلدی سے ایک جھرجھری لی، پھر نم آواز میں بولا
چوڑیوں کے کارخانوں میں کام کرنے والوں کے جسم تو جسم، روحیں بھی جل جاتی ہیں۔۔۔ میں نے کارخانے سے کام چھوڑ کر چوڑیوں کی ایک دُکان پر نوکری کر لی، مگر کوئی بھی عورت مجھ سے چوڑیاں چڑھوانے کے لیے تیار نہ ہوتی۔
کیوںــــــ۔۔۔؟ امداد نے حیرت سے پوچھا۔
عورتوں کا کہنا تھا میرے ہاتھ بہت سخت ہیں۔۔۔ اُس دُکان والے نے مجھے نوکری سے نکال دیا۔ سونو یک دم خاموش ہو گیا۔ امداد نے بھی کوئی بات نہیں کی۔ تھوڑی دیر بعد سونو نے بڑی محبت سے امداد کا سیدھا ہاتھ تھام لیا، پھر ہاتھ کے اُوپر تل کو دیکھنے کے بعد التجائیہ انداز میں گویا ہوا
مادو۔۔۔! میرے بارے میں ماسٹر صاحب کو کچھ مت بتانا۔
امداد کچھ نرم پڑ گیا۔ وہ سونو کو ایک بات بتانا چاہتا تھا، مگر اُس نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ وہ آج کے دن سونو کو مزید دُکھی نہیں کرنا چاہتا تھا، اِس لیے امداد نے دُوسری بات کہی
ماسٹر صاحب آج کل بیمار ہیں۔۔۔ وہ بھی تمھیں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔۔۔ اُن سے رابطہ کر لینا۔
امداد یہ بول کر چلا گیا۔ سونو گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞