(مجروح (تیسری قسط
شکیل احمد چوہان
راولپنڈی کے راجا بازار میں ہزاروں لوگوں میں سے صرف چند ایک نے ماسک لگائے ہوئے تھے۔ روپ سنگھار نامی ایک بڑی سی دُکان پر خواتین کا رش تھا۔
اُس دُکان پر خواتین کی زیب و زینت کا سارا سامان موجود تھا۔ دُکان کے مالکان میاں بیوی کاؤنٹر پر کھڑے تھے۔ اُن کے چار ملازم گاہکوں کے ساتھ مصروف تھے۔ تین خواتین سرمد سے چوڑیاں چڑھوانے کے لیے قطار میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ چوتھی کو وہ اپنے نرم ہاتھوں سے چوڑیاں پہنا رہا تھا۔
سرمد اصل میں ایک ساحر تھا، جوبھی عورت یا لڑکی اپنی کلائی اُس کے ہاتھ میں ایک بار تھما دیتی، پھر وہ اُس کے سحر میں مبتلا ہو جاتی۔
سرمد نے لائٹ بلیو جینز کے ساتھ گرے رنگ کی گرم شرٹ پہن رکھی تھی۔ اُس کے اُوپر ایک ہڈ والی ایمپورٹڈ لیدر کی جیکٹ تھی۔
صرف دس مہینے ہوئے ہیں اسے آئے ہوئے اور ہماری دُکان کی سیل ڈبل ہو گئی ہے۔
پچپن سالہ شیخ نے سرمد کی طرف دیکھ کر کہا۔ اُس کی چالیس سالہ بیوی شبنم جلدی سے بول اُٹھی
شیخ صاحب۔۔۔! یہ بندہ ہمارے لیے بڑا لکی ثابت ہوا ہے، اس کے آنے کے بعد ہی میری گود ہری ہوئی ہے۔
شبنم اپنے میاں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے پھولے ہوئے پیٹ پر ہاتھ رکھ کے ہلکا سا مسکرائی۔ شیخ بھی کھل اُٹھا، ساتھ ہی کہنے لگا
’’بڑا ہی شریف بندہ ہے۔۔۔ کبھی کسی عورت کو آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا۔‘‘
یہ تو ہے۔ شبنم نے بھی نظر بھر کر اُس کی طرف دیکھا۔ سرمد نے انتظار میں بیٹھی ہوئی دُوسری عورت کا ہاتھ چوڑیاں پہنانے کے لیے تھاما ہی تھا کہ عصمت نے جلدی سے تعارف کراویا
سرتاج صاحب۔۔۔! یہ آبرو ہے۔۔۔ میری کزن جس کا ذکر کیا تھا۔
یہ سنتے ہی چوڑیاں پہن کر جاتی ہوئی عورت کے کان کھڑے ہو گئے۔ وہ رُک کر بولی
’’مجھے تو سلیم بتایا تھا۔‘‘
میرا پورا نام سلیم سرتاج ہے۔ سرمد نے کسی کو بھی دیکھے بغیر بڑے اطمینان سے بتایا۔
آبرو ، سلیم سرتاج کو دیکھ ہی رہی تھی اور وہ اُس کی کلائی کو۔ عصمت اُن دونوں پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ جانے والی عورت چلی گئی۔ سلیم سرتاج کے بائیں بازو کی کلائی میں رنگ برنگے کچھ دھاگے بندھے ہوئے تھے۔ اُس ہاتھ سے اُس نے آبرو کی کلائی کو تھاما ہوا تھا۔ سیدھے ہاتھ کی کلائی میں اسٹیل کا ایک کڑا تھا۔ سیدھے ہاتھ سے آبرو کے ہاتھ کو مسلتے ہوئے سلیم سرتاج نے آبرو کو دیکھے بغیر پوچھا
’’آبرو صاحبہ۔۔۔! کیا پہناؤں آپ کو؟‘‘
یہ۔۔۔ عصمت نے اپنی کلائی سلیم سرتاج کی طرف کر دی۔
سلیم سرتاج نے پہلے عصمت کی طرف دیکھا تو اُس نے آبرو کی طرف آنکھ کا اشارہ کیا۔ سلیم سرتاج نے بڑی پریت بھری نظروں سے آبرو کو نظر بھر کے دیکھا۔ آبرو کی آنکھوں میں کالے کاجل کے ساتھ ساتھ خمار بھی تھا۔
سلیم سرتاج کی نظروں کی میٹھی کٹار نے آبرو کے دل کو گھائل کر دیا۔ آبرو نظروں کی دھار سے ہی کٹی جا رہی تھی۔ سلیم سرتاج نے کنگن شیشے کے کاؤنٹر سے نکالا اور بڑی اپنائیت سے آبرو کو پہنانے کے بعد کہا
پے منٹ میڈم کو دے دیجیے گا۔ یہ بول کر سلیم سرتاج نے ایک دراز سے اپنے گرم اُونی دستانے، گرے کلر کا ماسک نکالا اور اُن دونوں سے پہلے ہی کاؤنٹر پر پہنچ کر شبنم سے کہنے لگا
میڈم۔۔۔! میں جا رہا ہوں۔
یہ بتاتے ہی سلیم سرتاج نے اپنے اُونی دستانے پہنے اور ماسک اپنے چہرے پر لگایا، پھر جینز کی سیدھے ہاتھ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر موٹے پلاسٹک کے اندر لپٹے ہوئے چند خطوط کی تصدیق کی۔
’’ہمارے کتنے ہوئے؟
عصمت کی آواز پر شبنم کی نظروں کا تسلسل ٹوٹا۔ اُس نے جانچتی نظروں سے عصمت کو دیکھا۔ وہ زیرِلب مسکرائی۔ اُس کے برعکس آبرو کچھ سہمی ہوئی تھی۔
’’تیرہ سو تیس۔۔۔
شبنم نے خشک لہجے میں بتایا۔ عصمت نے اپنے پرس سے پورے تیرہ سو تیس روپے نکال کر دیے اور مٹکتی مٹکتی وہاں سے چل دی۔ آبرو بھی چل پڑی۔ اب کی بار شبنم کی نظر اُن کا تعاقب کر رہی تھی۔
۞۞۞
آبرو کی پیاس بجھانے کے بعد جب سلیم سرتاج اُس کے پہلو سے اُٹھ کر کپڑے پہننے لگا تو آبرو اُس سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سلیم سرتاج سوچ میں پڑ گیا۔ وہ دھیرے دھیرے آبرو کے بالوں کو سہلانے لگا۔
چند منٹ اسی طرح گزر گئے۔ جب آبرو کا سارا درد آنسوؤں میں بہ گیا تو سلیم سرتاج نے اُسے خود سے جدا کیا۔ آبرو کے اوسان ٹھیک ہوئے تو اُس نے جلدی سے خود کو اپنی ہی چادر سے ڈھانپ لیا اور بجھ سی گئی۔ اب کی بار اُس کی آنکھوں سے خاموش اشکوں کی رِم جھم ہونے لگی۔
سلیم سرتاج نے اُسے دلاسہ دینے کے لیے اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو اُس نے ناگواری کا اظہار کیا۔ سلیم سرتاج افسردہ سا ہو کر پھر سے کپڑے پہننے لگا۔ بوٹ پہننے کے بعد اُس نے صوفے پر پڑی اپنی لیدر کی جیکٹ اُٹھاتے ہوئے آبرو کی طرف دیکھا۔
اُس کے اشک تو رُک چکے تھے، مگر نظریں جھک گئی تھیں۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں غرق تھی۔
سب کچھ آپ کی مرضی سے ہی ہوا ہے۔
سلیم سرتاج کے بتانے پر آبرو نے گردن اُٹھا کر اُس کی طرف دیکھا پھر گیلی آواز میں کہنے لگی
’’سات سال سے اپنے اوپر میں نے من کی مرضی نہیں چلنے دی۔‘‘
پھر آج کیوں۔۔۔؟ سلیم سرتاج نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔
سات سال ہو گئے میرے اور عصمت کے شوہر کو ترکی کے رستے یورپ گئے ہوئے۔ پیسے بھیج دیتے ہیں، مگر خود نہیں آتے۔
آبرو کا توقف لمبا ہوا تو سلیم سرتاج نے پوچھ لیا
’’کیوں نہیں آتے۔۔۔؟‘‘
کہتے ہیں ابھی ہمارے کاغذ مکمل نہیں ہوئے۔ میرا اور عصمت کا شوہر آپس میں فرسٹ کزن ہیں۔ عصمت نے تو پانچ سال پہلے ہی من مرضیاں شروع کر دی تھیں اور آج میں نے بھی من کی مان ہی لی۔
نہیں ماننی چاہیے تھی۔ سلیم سرتاج نے کہا۔
تو کیا کرتی میں۔۔۔؟ وہ کمینہ یورپ میں رنگ رلیاں منا رہا ہے اور میں یہاں پل پل تڑپ رہی ہوں۔۔۔ اُسے تڑپتی ہوئی عورت اچھی لگتی ہے۔
آبرو نے بھڑکتے ہوئے بتایا، پھر یک دم شانت ہو گئی جیسے جلتی ہوئی آگ پر کسی نے پانی ڈال دیا ہو۔ آبرو نے شگفتہ نظروں سے سلیم سرتاج کو دیکھا، پھر بڑی حسرت سے کہنے لگی
’’کاش۔۔۔!! میری شادی تم سے ہوئی ہوتی۔‘‘
سلیم سرتاج نے آبرو کی بات سنی اَن سنی کر تے ہوئے اپنی کہہ دی
’’آپ کو اپنے شوہر سے بے وفائی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘
میں ہی سالوں سے ایک بے وفا سے وفا کر رہی تھی۔ وہ ہماری شادی کے چند ماہ بعد ہی بے وفا ہو گیا تھا۔ میرے پوچھنے پر مجھے جھوٹی قسمیں کھا کر یقین دلا دیتا کہ وہ صرف میرا ہے۔ پرسوں تو حد ہی ہو گئی۔۔۔ آبرو بات کرتے کرتے کھو گئی۔ اُسے پرسوں اپنے شوہر کے ساتھ موبائل پر ہونے والی گفتگو پھر سے سنائی دینے لگی
ہاں۔۔۔ میرا لڑکیوں سے چکر ہے۔ شادی سے پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔ آبرو۔۔۔! میں جب تک عورت کے ساتھ سو نہ لوں، مجھے نیندہی نہیں آتی۔
آبرو نے اپنے شوہر کی بات سننے کے بعد جھرجھری لی، پھر تلخی سے بولی
’’میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘‘
آبرو کی بات سنتے ہی سلیم سرتاج کھڑا ہو گیا۔ جیسے ہی وہ بیڈروم کا دروازہ کھولنے لگا آبرو نے بڑے رومانوی انداز میں پوچھا
’’پھر کب ملو گے؟‘‘
کبھی نہیں۔۔۔ سلیم سرتاج نے آبرو کو دیکھے بغیر جواب دیا اور بیڈروم سے نکل آیا۔
بیڈ روم سے باہر عصمت کھڑی تھی۔ وہ سلیم سرتاج کو دیکھتے ہی اُس سے لپٹ گئی۔ وہ بے تابی سے سلیم سرتاج کو چومنے لگی۔ سلیم سرتاج بُت بنا کھڑا رہا۔ جب عصمت کے ہونٹوں کی پیاس بجھ گئی تو وہ کہنے لگی
’’آج رات یہیں رُک جاؤ۔۔۔ آج ہی ہم دونوں کے گھر والے لاہور شادی پر گئے ہیں۔‘‘
لاہور۔۔۔ لاہور کا نام لیتے ہوئے سلیم سرتاج نے ایک سرد آہ بھری، جیسے بہت کچھ یاد آگیا ہو۔ عصمت نے اُس کے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا
’’کہاں کھو گئے ہو۔۔۔؟ میں نے تم سے کچھ کہا ہے۔‘‘
’’آج نہیں۔۔۔ مجھے ایک دوست سے ملنے اسلام آباد جانا ہے۔
سلیم سرتاج کی بات کے دوران ہی آبرو بھی کپڑے پہن کر بیڈ روم سے نکل آئی۔ سلیم سرتاج کے خاموش ہوتے ہی وہ مچلتی آواز میں بولی
’’تو پھر کل کی رات تم ہمارے ساتھ ہو۔‘‘
سلیم سرتاج نے اپنے سر کو ہلکی سی جنبش دی، پھر اپنی جیکٹ کا ہڈ اپنے سر پر لیتے ہوئے جیکٹ کی پاکٹ سے دستانے اور ماسک نکالا۔ دستانے پہنے، ماسک لگایا اور وہاں سے چل دیا۔ آبرو اُسے جاتا دیکھ کر کہنے لگی
’’کیا بندہ ہے یار۔۔۔!! جسم کو چھوئے تو ایسا لگتا ہے جیسے پھول نے چھوا ہو۔‘‘
پہلی بار میں ہی اُس کی دیوانی ہو گئی ہو۔ عصمت نے کہا۔
چلو اس کے ساتھ بھاگ چلیں۔ آبرو نے بغیر کسی جھجھک کے ہی بول دیا۔ عصمت نے بڑے کرب سے کہا
’’پردیس بھاگے ہوئے اب بھی لوٹ آئیں تو ہمیں بھاگنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
۞۞۞
شیخ حساب کتاب والا رجسٹر دیکھ رہا تھا۔
’’تین گھنٹے ہو گئے ہیں اُسے گئے ہوئے شیخ صاحب۔۔۔
شبنم نے اُسے بتایا۔ شیخ رجسٹر پر نظریں جمائے ہی بولا
’’کئی بار وہ ایسے ہی دُور نکل جاتا ہے۔‘‘
اگر وہ نہ لوٹا تو؟ شبنم نے فکرمندی سے کہا۔ شیخ نے رجسٹر سے نظریں ہٹا کر شبنم کے چہرے کو پڑھا، پھر بے فکری سے کہنے لگا
’’نہ لوٹے۔۔۔ چار مہینے کی تنخواہ بچ جائے گی۔‘‘
شبنم نے شیخ کو جانچتی نظروں سے دیکھا، پھر اُس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نے انگڑائی لی۔
(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞