22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

(مجروح (دوسری قسط

 

(مجروح (دوسری قسط
شکیل احمد چوہان

لاہور کے علاقے گلبرگ میں واقع ایک عالی شان بلڈنگ کی ساتویں منزل کے ایک کوریڈور میں منشامزاری بڑے وقار سے چلی جا رہی تھی۔ ’’عطاوریاہ‘‘ آفس بیگ اُٹھائے اُس سے دو قدم پیچھے تھا۔ منشا نے یکایک کوریڈور میں واقع ایک دروازے کو کھولا اور آفس کے اندر داخل ہو گئی۔ آفس میں موجود تین رُکنی اسٹاف اُسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا۔ سب کے ماسک اُترے ہوئے تھے۔ منشا کو دیکھتے ہی سب نے اپنے اپنے ماسک لگا لیے۔ منشا نے سب پر طائرانہ نظر ڈالی پھر کٹیلے لہجے میں گویا ہوئی
’’تم تینوں پچھلے ایک سال سے ایک بندے کو نہیں ڈھونڈ سکے۔۔۔‘‘
اُن تینوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
وہ ملتا کیوں نہیں۔۔۔؟ منشا نے لفظوں کو چباتے ہوئے پوچھا۔
میم۔۔۔! جو تصویر آپ نے دی تھی اُس چہرے سے ملتے جلتے سینکڑوں سیمپل آپ کو دکھائے تو ہیں۔
وہ چہرہ سینکڑوں میں نہیں، لاکھوں میں ایک ہے۔ منشا نے وجاہت ورک کی بات کاٹتے ہوئے اضطراب سے بتایا۔ منشا کے حسین چہرے پر سلوٹیں پڑ گئیں۔ اُن تینوں نے چور نظروں سے ایک دُوسرے کو دیکھا۔ منشا سے دو قدم پیچھے کھڑے عطا نے صورتِ حال کا جائزہ لیا تو بڑے شائستہ لہجے میں منشا کے کان کی طرف منہ کر کے کہنے لگا
’’بی بی سرکار۔۔۔! آپ کی بلڈر سے میٹنگ ہے۔‘‘
منشا نے لمحہ بھر عطا کو دیکھا پھر واپس پلٹی۔ عطا نے جلدی سے سیدھے ہاتھ سے دروازہ کھول دیا۔ آفس بیگ اُس کے اُلٹے ہاتھ میں تھا۔ منشا آفس سے باہر نکل گئی۔ عطا نے آفس سے باہر جانے سے پہلے سرزنش بھری نگاہ اُن تینوں پر ڈالی۔ عطا کے باہر جاتے ہی وہ تینوں سُکھ کی سانسیں بھرتے ہوئے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
شکر ہے بلا ٹلی! لڑکے نے اپنے چہرے سے ماسک اُتارتے ہوئے کہا۔ دُوسروں نے بھی اپنے اپنے ماسک اُتار دیے۔
ایسی حسین بلا۔۔۔ ورک نے ٹھرکی انداز میں خودکلامی کی۔ لڑکے کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آٹپکی۔ لڑکی اپنی ہی دُھن میں کہنے لگی
’’آج پھر ڈائمنڈ کا نیا نیکلس تھا اُس کے گلے میں۔‘‘
اربوں کی پراپرٹی کی اکیلی وارث ہے وہ۔۔۔ لڑکے نے لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے اطلاع دی۔ ورک مچلتے لہجے میں بولا
اُوپر سے کنواری۔۔۔!
اُن دونوں نے سوالیہ نظروں سے ورک کو دیکھا۔ تینوں کی آنکھوں ہی آنکھوں میں گفتگو ہوئی۔ پھر وہ تینوں ہنسنے لگے۔

۞۞۞

بڑے سے کانفرنس ہال میں دو سوٹڈ بوٹڈ لڑکے ماسک لگائے باری باری منشا کو بریفنگ دے رہے تھے۔ اُن کے ساتھ بیٹھا ہوا تیسرا شخص جو اُن دونوں سے عمر میں بڑا تھا، اُس نے عطا اور منشا کی طرح ماسک نہیں لگایا تھا۔ وہ اپنے ملازموں کی بریفنگ سننے کے ساتھ ساتھ حریص نظروں سے اپنے سامنے ٹیبل کے دُوسری طرف بیٹھی ہوئی منشا کے حسن کے جلوؤں سے اپنی آنکھوں کی جلن دُور کر رہا تھا۔ منشا کی طرف ایک کرسی چھوڑ کر اُس کا ایک ملازم لیپ ٹاپ پر اُن کی گفتگو کے پوائنٹ لکھ رہا تھا۔ منشا کی کرسی سے دو قدم پیچھے کھڑا عطا کاٹ ڈالنے والی نظروں کے ساتھ بلڈر کو دیکھ رہا تھا۔

۞۞۞

ساتھ والے سوشل میڈیا کے آفس میں وہ تینوں چائے کی چسکیوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔
کون ہے یہ آدمی جسے یہ تلاش کر رہی ہے؟‘‘ لڑکے نے ورک کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ اس سے پہلے کہ ورک اپنی رائے دیتا لڑکی بول اُٹھی
جو بھی ہے۔۔۔ ہے بڑا ڈیشنگ۔‘‘ لڑکی نے رومانوی انداز میں کہا۔ ورک کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ لڑکے نے خود ہی اندازہ لگایا
مجھے تو کوئی دشمن لگتا ہے۔ لڑکے کی بات سننے کے بعد ورک نے یقین سے بتایا
نہیں۔۔۔ دشمنِ جاں ہے وہ
اتنا حسین دشمن۔۔۔! لڑکی نے سرد آہ لیتے ہوئے کہا۔

۞۞۞

کانفرنس ہال میں میٹنگ ختم ہو چکی تھی۔ دونوں سوٹڈ بوٹڈ لڑکے اور منشا کا ملازم جب ہال سے نکل گئے تو بلڈر منشا کے روبرو کھڑا ہو گیا۔ منشا نے اُسے پہلے جانچتی نظروں سے نظر بھر کر دیکھا پھر تیکھے لہجے میں کہنے لگی
’’چٹھہ صاحب۔۔۔! ہمارا تیسرا پلازہ بنانے سے پہلے آپ دُوسری شادی بھی کر ہی لیں۔‘‘
چٹھہ نے بھولی صورت بناتے ہوئے پوچھا
’’وہ کیوں میڈم۔۔۔!!‘‘
وہ اِس لیے کہ آپ کی نظروں کی ہوس تو کم ہو۔ منشا نے چٹھہ سے نظریں ملاتے ہوئے کہا۔ مگر یہ سنتے ہی چٹھہ کی نظریں جھک گئیں۔
جو بھی مجھے کھا جانے والے نظروں سے دیکھتا ہے، پھر وہ دیکھ نہیں سکتا۔
منشا کے منہ سے میٹھی دھمکی سنتے ہی چٹھہ نے چونک کر منشا کی طرف دیکھا۔ پھر اُس نے اپنے حواس بحال کرتے ہوئے بڑی عاجزی سے پوچھا
’’دیکھ نہیں سکتا۔۔۔ مطلب۔۔۔؟‘‘
آپ نے کبھی کسی اندھے کو دیکھتے ہوئے دیکھا ہے کیا۔۔۔؟
منشا نے چٹھہ کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اُلٹا اپنا ہی سوال داغ دیا۔ سردی میں بھی چٹھہ کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ چٹھہ نے ہلکا سا کھانستے ہوئے اپنے خشک گلے کو تر کرنے کی کوشش کی، پھر عقیدت سے سرشار نظروں سے منشا کو دیکھا ۔ منشا نے اپنے پیچھے کھڑے ہوئے عطا کو دیکھے بغیر اپنے سیدھے ہاتھ کی مٹھی کو بند کرتے ہوئے انگوٹھے کا اشارہ اُس کی طرف کرتے ہوئے کہا
’’عطاوریاہ۔۔۔! میری سنتا ہی نہیں۔۔۔ یہ اُس بندے کی آنکھیں ہی نکال دیتا ہے۔‘‘
عطا نے شلوار کے نیچے اپنی سیدھی ٹانگ کے ساتھ لگی ہوئی میان سے اِک لمبا چمکتا خنجر نکالا اور اُسے چٹھہ کو دکھایا۔
خنجر دیکھتے ہی چٹھہ کی گھبراہٹ میں اضافہ ہو گیا۔ اُس نے اپنی ٹائی کی گرفت ڈھیلی کی پھر نظریں چراتے ہوئے کہنے لگا
’’میڈم۔۔۔! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، میں چلتا ہوں۔‘‘
چٹھہ دفتر سے نکل گیا۔ منشا نے گرم سانسیں اپنے نتھنوں سے خارج کیں، پھر پلٹ کر عطا کی طرف دیکھا۔ چھوٹی داڑھی اور لمبی مونچھیں، دراز قد، مضبوط جسامت کا حامل عطا نظریں جھکائے اُلٹے ہاتھ میں آفس بیگ پکڑے کھڑا تھا۔
منشا ٹکٹکی باندھے تھوڑی دیر عطا کو دیکھتی رہی، مگر عطا کی نظریں اپنے قدموں پر جمی رہیں۔ منشا نے لمحہ بھر سوچا پھر چلتے ہوئے بولی
’’کچھ کہنا چاہتے ہو۔۔۔؟‘‘
عطا نے کچھ کہنے سے پہلے کانفرنس ہال کا دروازہ کھول دیا۔ منشا کوریڈور کے شروع میں لفٹ کی طرف جانے لگی۔ عطا اُس سے دو قدم پیچھے چلنے لگا۔
بولو۔۔۔!! منشا نے چلتے چلتے قدرے نرم لہجے میں کہا۔ اِس سے پہلے کہ عطا بولتا وہ دونوں لفٹ تک پہنچ چکے تھے۔ عطا نے لفٹ کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ کا دروازہ کھلا۔ منشا کے لفٹ میں داخل ہوتے ہی عطا بھی داخل ہو گیا۔ لفٹ کا دروازہ بند ہوتے ہی عطا نے گراؤنڈ فلور کا بٹن دبا دیا۔ پھر اُس نے بڑے شائستہ انداز میں نظریں جھکا کے بولنا شروع کیا
’’بی بی سرکار۔۔۔!پرسوں ہم گاؤں جا رہے ہیں اور اُس سے اگلے دن ڈیڑھ دو مہینے کے لیے کینیڈا۔‘‘
عطا۔۔۔! کام کی بات پر آؤ۔۔۔! منشا مزاری نے بات کاٹتے ہوئے روکھے انداز میں کہا۔ عطا نے منہ نیچے کرتے ہوئے اپنا گلا صاف کیا ۔ پھر بڑے ادب سے کہنے لگا
’’بی بی سرکار۔۔۔! ایک انسپکٹر کا ذکر میں کئی بار کر چکا ہوں۔‘‘
عطا۔۔۔! تم جانتے ہو کہ پولیس کی مدد نہیں چاہیے مجھے۔۔۔ منشا نے ڈانٹ کے انداز میں کہا۔
بی بی سرکار۔۔۔! وہ اکثر سسپنڈرہتا ہے۔‘‘ عطا نے دھیمے لہجے میں کہا ہی تھا کہ منشا بھڑک اُـٹھی۔ اس سے پہلے کہ وہ عطا کی طبیعت صاف کرتی لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔ سامنے اپنے کچھ ملازمین کو دیکھتے ہوئے اُس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ ایک ساتھ کئی ہائے ہیلو اور سلام دُعا کی آوازیں بلند ہوئیں۔
وعلیکم السلام!‘‘ منشا نے کسی کو بھی دیکھے بغیر جواب دیا اور چل دی۔
ماسک لگائے ہوئے استقبالیہ دروازے پر کھڑے سیکورٹی گارڈ نے منشا کو دیکھتے ہی سیلوٹ کیا۔ آٹومیٹک دروازہ کھل گیا۔ منشا بلڈنگ سے باہر نکل آئی۔ بلڈنگ کے سامنے سیڑھیوں سے نیچے سفید اور سیاہ ٹویوٹا کھڑی تھیں۔ سیاہ گاڑی کے اردگرد چار باڈی گارڈ اور دو ڈرائیور کھڑے تھے۔ ڈرائیور باڈی گارڈز ہی کی طرح ہٹے کٹے تھے۔
ڈرائیور بھی اصل میں باڈی گارڈ ہی تھے۔ عطا کے بعد وہ دونوں منشا کے خاص آدمی تھے۔ گارڈز کے پاس بڑی ساخت کا اسلحہ تھا اور ڈرائیوروں کے پاس چھوٹی ساخت کا۔ ایک ڈرائیور  نے ملائیشیا کپڑے کی وردی پہن رکھی تھی اور دُوسرا ڈرائیور سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ وہ سب منشا کو دیکھتے ہی چوکس ہو گئے۔
منشا نے آسمان کی طرف دیکھا۔ دسمبر کے مہینے میں بھی سورج نکلا ہوا تھا۔ سورج کو دیکھنے کے بعد اُس نے لمحہ بھر سوچا جیسے ماہ و سال کا حساب کتاب کیاہو۔ پھر وہ اپنی سفید گاڑی کی طرف چل پڑی۔
منشا کے گاڑی کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی سفید کپڑوں والے ڈرائیور نے گاڑی کی پچھلی سیٹ کا دوازہ کھول دیا۔ منشا کے گاڑی میں بیٹھتے ہی سارے باڈی گارڈز بھی کالی گاڑی میں سوار ہو گئے۔ عطاور یاہ چند سیکنڈز کی تاخیر کے ساتھ سفید گاڑی کی اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ آ بیٹھا۔ سفید گاڑی کے چلتے ہی اُس کے پیچھے کالی گاڑی بھی چل دی۔ جب منشا کی گاڑی گلبرگ مین بلیووارڈ سے کلمہ چوک انڈر پاس کی طرف جانے لگی تو عطا نے منشا سے پوچھا
’’بی بی سرکار۔۔۔! اب کدھر جانا ہے؟‘‘
’’گھر۔۔۔‘‘
منشا کی بات سنتے ہی عطا نے ڈرائیور کو نظروں ہی سے ماڈل ٹاؤن جانے کا حکم دے دیا۔
’’اُس انسپکٹر کو آج رات ہی بلا لو۔۔۔ پرسوں بابا اور رمشا کی برسی ہے۔‘‘
منشا کی بات پر پہلے تو عطا بہت حیران ہوا، پھر اُس نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد کہا
’’جی بہتر۔۔۔‘‘
عطا ونڈ اسکرین سے سامنے دیکھ رہا تھا۔ ڈرائیور  نے گاڑی کلمہ چوک کے انڈر پاس سے گزارنے کے بجائے اُلٹے ہاتھ ہلکا سا خم کھاتی ہوئی سڑک کی طرف موڑ دی۔ فیروزپور روڈ پر رش تھا جسے منشا دیکھ چکی تھی۔فیروز پور روڈ پر چڑھتے ہی منشا نے ترش انداز میں کہا
’’اب اُس انسپکٹر کو کال کیوں نہیں کر رہے؟‘‘
عطا نے اپنی گردن کو موڑتے ہوئے لمحہ بھر منشا کو دیکھا، پھر نظریں جھکا کے بولا
’’بی بی سرکار۔۔۔! وہ کسی کا بھی فون نہیں سنتا، صرف وائس میسج سے بات کرتا ہے۔‘‘
منشا نے عطا کے جملے کا تو تھوڑی دیر لطف اُٹھایا پھر سرشاری سے کہنے لگی
’’پھر کرو میسج۔۔۔!‘‘
عطا نے اپنا موبائل تھاما اور اپنے منہ کے پاس لاتے ہوئے بڑے نپے تُلے انداز میں بولا
’’جپہ صاحب۔۔۔! بی بی سرکار  نے اُسی کام کے سلسلے میں آج رات آپ کو کوٹھی پر بلایا ہے۔‘‘
عطا کے میسج کے چندلمحوں بعد ہی اُس کے موبائل پر واٹس ایپ میسج کی بیپ سنائی دی۔ عطا نے موبائل کی طرف دیکھنے کے بعد پورے چہرے، مگر جھکی نظروں کے ساتھ منشا کی طرف دیکھا، پھر کہنے لگا
’’بی بی سرکار۔۔۔! اُس کا جواب آ گیا۔‘‘
منشا نے کچھ سوچتے ہوئے صرف اتنا کہا
’’جواب۔۔۔‘‘
لمحہ بھر توقف کیا، پھر کہنے لگی
’’مجھے بھی سناؤ اُس کا جواب۔۔۔‘‘
عطا نے تھوڑی اُلجھن کے ساتھ وائس میسج چلادیا۔
سرکار ہی سے تو اپنی نہیں بنتی۔۔۔ تمھاری بی بی سرکار کو مجھ سے کام ہے تو خود میرے پاس آئے۔
میسج ختم ہوتے ہی عطا کا سر شرم سے جھک گیا۔ لمحہ بھر کو منشا کے چہرے کے بھی تیور بدلے۔ پھر وہ اپنے اوسان قابو کرتے ہوئے ہلکی سی درشتی سے بولی
رات دس بجے ہم اُس سے ملنے جائیں گے۔ منشا نے اپنا فیصلہ سنانے کے بعد اپنی گردن سیٹ کی پشت پر ٹکا دی۔
منشا کے اِس فیصلے سے عطا مطمئن نہیں تھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر اُسے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ پھر اُس  نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ جیسے ہی گاڑی اشفاق احمد انڈر پاس میں داخل ہوئی گاڑی کے اندر روشنی کم ہوگئی۔ منشا  نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ پھر اُس کے دل سے ایک ہوک اُٹھی
’’کہاں ہو تم بھگوڑے۔۔۔‘‘

(بقیہ اگلی قسط میں)
۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles