میں ایک میاں ہوں
پطرس بخاری
میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار۔ اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔ چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کررکھا ہے انھیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔
آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔
مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیے، اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا…وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا انھیں شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں۔ انھی سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوترباز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوترباز بننے لگا۔
اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔
ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے
’’اندر آ جاؤ۔‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے تم باہر آؤ۔‘‘ خیر اندر گئے۔ وہ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لیے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے: ’’بیٹھ جاؤ۔‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں۔‘‘ آخر بیٹھ گئے۔
معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے، ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا، ’’کچھ نہیں۔ ‘‘کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘
اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا:
’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘
یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکا تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کر کے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل فشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہو گئی۔ ہم نے کہا: ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہو گئی۔
لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہو چکی ہے۔
شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اُٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔ اب کتنے بجے اُٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن کے گھر ناشتا زبردستی صبح کے سات بجے کروا دیا جاتا ہے اور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔
ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا اور پھر گانے لگے ’ ’’توری چھل بل ہے نیاری……۔‘‘اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیالیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔
تین چار دن پہلے کا ذکر ہے۔ صبح کے وقت روشن آرا نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے روشن آرا صرف دو دفعہ میکے گئی ہے اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کر سکا۔ کہنے لگی
’’تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟‘‘ میں نے کہا: ’’اور کیا؟‘‘
وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہو گئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات چکر لگانے لگے۔ یعنی اب بے شک دوست آئیں، اودھم مچائیں۔ میں گاؤں، جب چاہوں اُٹھوں۔ چاہے تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا:
’’روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘
ساتھ اسٹیشن گیا۔ جب گاڑی میں سوار کروا چکا تو کہنے لگی:
’’خط روز لکھتے رہیے۔‘‘ میں نے کہا: ’’ہر روز اور تم بھی۔‘‘
’’کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔
آخر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہ کر کے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا، پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔
کہتے ہیں جب افریقا کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لیے رکھا جاتا ہے تو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجے میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر اس میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہو گیا۔
راستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آ گیا ۔ تانگا موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکرکو آواز دی۔
’’امجد!‘‘
’’جی حضور!‘‘
’’دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘
’’گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھے بجے وارد نہ ہو جائے۔‘‘
’’بہت اچھا حضور۔‘‘
’’اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔‘‘
یہاں سے کلب پہنچے ۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام ونشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈالے۔ بلیئرڈ کا کمرا خالی، شطرنج کا کمراخالی، تاش کا کمرا خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کر رہا تھا۔
اس سے پوچھا: کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟‘‘
کہنے لگا: ’’حضور آپ تو جانتے ہی ہیں۔ اس وقت بھلا کون آتا ہے؟‘‘
بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا، ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا۔ کہنے لگے: ’’تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو۔ تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ بس ابھی بھگتا کے تمہارے ہی ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’تھیٹر۔‘‘
کہنے لگے۔ ’’بس بالکل ٹھیک ہے۔ تم باہر بیٹھو۔ میں ابھی آیا۔‘‘
باہر کے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی۔ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور اب بھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کر دیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالے اور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔ آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پر جمائی حتٰی کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔
اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیں لیکن اس سے بھی تھک گیا۔ پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آ گیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ ’’ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔‘‘
وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بےہوش کر دیا۔
صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی میں وقت دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اُٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔
گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا: ’’حضور حجام آیا ہے۔‘‘
ہم نے کہا: ’’یہیں بلا لاؤ۔‘‘ یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوا لیں۔ اطمینان سے اُٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی جس کی اُمید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال دل میں بھر آیا۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی ڈوپٹا نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آ رہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھر آیا۔ گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہو گیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔
آخر نہ رہا گیا۔ باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا :’’میں بہت اُداس ہوں۔ تم فوراً آ جاؤ!‘‘
تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آرا جس قدر جلد ہو سکے گا آ جائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔
دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔
اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جوا کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے، قواعدوضوابط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کر دیے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہے پر قہقہے اُڑنے لگے۔
تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مزاحیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے لیکن تاش برابر ہو رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہو گیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کر دیا، جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا:
’’واہ واہ! کیا بات کہی۔‘‘ ایک بولا:
’’پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آ جائے گی۔‘‘
دوسرے نے کہا: ’’اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں، سلطنتوں کے۔‘‘
کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، ’’ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے۔‘‘
کوئی کہے، ’’نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔‘‘ دوسرے نے کہا: ’’نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔‘‘
آخر میں بادشاہ سلامت بولے: ’’ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے۔ یہ اسی حالت میں جا کر اندر سے حقے کی چلم بھر کر لائے۔‘‘ سب نے کہا:
’’کیا دماغ پایا ہے حضور نے! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ واہ۔‘‘
ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے سو کہا:’’تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آ جائے گی۔‘‘
نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اُٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے۔ ہمارے پیچھے کمرا قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
صحن میں پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقع پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ اُلٹا تو روشن آرا۔
دم خشک ہو گیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہو گیا۔ زبان بند ہو گئی۔ سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ’’تم فوراً آ جاؤ میں بہت اُداس ہوں۔‘‘ اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اُٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سے قہقہوں کا شور برابر آ رہا ہے۔ روح منجمد ہو گئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔
روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی……۔
بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔
اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کر سکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔
’’خط ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘
’’ناخن تراش دو۔‘‘
’’بھاگ جاؤ۔‘‘
بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھئے تو سہی!
٭٭٭