31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

خارِجِ موضوع

خارِجِ موضوع
مصری ادب سے انتخاب
تحریر : اَبو ا لمعا طیٰ ابو ا لنجا
ترجمہ : رِمثہ شاہد

 

ماسٹر حسین نے آخری کاپی کی تصحیح کے بعد جھنجھلاہٹ کے ساتھ اسے کاپیوں کی ایک چھوٹی ڈھیری پر دے مارا۔پھر گہرا سانس لے کر کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ اُن کی آ نکھیں  اِن آڑھی تِرچھی لکیروں کو دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھیں جن کے لئے طالبات کا اصرار ہوتا ہے کہ صرف ان کی تصحیح کی جائے، اور وہ غلط کام دوبارہ صحیح لکھنے کی ذحمت نہ کرتیں ۔
اُستاد حسین نے گرم گرم چائے کی پیالی سے ایک گھونٹ لیا جو ابھی ابھی ان کا ملازم لے کر آیا تھا۔ پھر انہوں نے ہاتھ میں تھامی پیالی سے نکلتے دھوئیںپر نظریں جما دیں۔ انہیں جب بھی کسی گھمبیر مسئلے کا سامنا ہوتا تو وہ ایسا ہی کرتے تھے۔ اُستاد حسین طویل عرصے سے درس و تدریس سے منسلک تھے۔ طالبات کے تدریسی مسائل کو احسن طریقے سے حل کر دیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ جو مسئلہ د رپیش تھا اُس نے ماسٹر صاحب کے اعصاب کو شل کر دیا تھا۔ طالبات کے اس گروہ میں ساری کی ساری طالبات دیے گئے موضوع سے باہر نکل جاتی تھیں۔ آخر کیا چیز انہیں موضوع سے بھٹکاتی ہے، یہ بات وہ نہ سمجھ سکے۔ سونے پر سہاگہ کہ طالبات اصل موضوع سے باہر نکلتیں تو ہر ایک کا اپنا ہی کوئی نیا موضوع ہوتا۔ اتنے موضوعات کو پڑھنا پھر ان کی تصحیح کرنا ماسٹر صاحب کی ذمّہ داری تھی۔
گرم چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ماسٹر صاحب کسی ایسے موضوع کو سوچنے لگے جِس سے طالبات باہر نہ نکل سکیں۔ چائے کے اختتام تک ماسٹر صاحب کے تنے ہوئے اعصاب بحال ہو گئے اور اُنہوں نے طالبات کے آئندہ مضمون کے لئے ایک عمدہ موضوع کا انتخاب کر لیا۔
آپ نے نئے اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ اپنے والد کے نام خط لکھیں اور انہیں
وضاحت سے بتائیں کہ آپ کو اس اسکول میں کیا اچھا لگا اور کیا اچھا نہیں لگا اور
جو پسند نہیں آیا اُسے آپ کیسا دیکھنا پسند کریں گی؟ ‘‘
اُستاد حسین طالبات کو یہ موضوع لکھواتے ہوئے بہت مطمئن تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس موضوع سے باہر نکلنا طالبات کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ مقررہ دِن ماسٹر طالبات کی کاپیاں جمع کر کے گھر  لے  آئے تا کہ اِطمینان سے ان کی تصحیح کر سکیں۔ شام کو تازہ دم ہو نے کے بعد ماسٹر صاحب کاپیوں کی ڈھیری کے پاس آئے۔ سب سے اوپر زرد رنگ کے نفیس غلاف کی کاپی رکھی تھی۔

اُنہوں نے کاپی اُٹھائی۔ اُس پر ’’ اَحلام ‘‘ لکھا تھا۔نام دیکھ کر اُن کے سامنے طالبہ اَحلام آ کھڑی ہوئی۔ بچپن کی معصومیت اور ضِد کا امتزاج لئے ایک تر و تازہ چہرہ، جو اُس کے جذ بات کا عکّاس تھا۔معمولی سی بات کا بھی ایسا تاثر پیش کرتا تھا کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنا دیتا۔ نِچَلّا بیٹھنا تو جانتی ہی نہ تھی اس پر مستزاد باتوں پر باتونی پن لیکن تھی حد درجہ ذہین اور ہر زمانے کے اساتذہ اپنے ذہین طالبِ علم کی فضول حرکتوں کو نظر انداز کرتے چلے آئے ہیں۔اور ماسٹر حسین بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
احلام کو سوچتے ہوئے اُنہوں نے کاپی کھولی تو حسبِ عادت لا شعوری طور پر ان کے مونہہ سے نکلتے نکلتے رہ گیا ’’ خاموش ہو جائیں بیٹا ‘‘
ماسٹر صاحب نے سُرخ قلم نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔
’’ پیارے ابو! السلام علیکم! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکینڈری اسکول برائے طالبات میں داخلہ لے لیا ہے۔ یہ بہت اچھا اسکول ہے۔ ابو! یہ اسکول سمندر والی سڑک پر ہے جہاں ہم بچپن میں سیر و تفریح کرتے تھے۔ مجھے وہ دن یاد ہیں جب آپ مجھے وہاں لے جاتے تھے۔ ہم وہاں کھیلتے پھر آپ مجھے بھنے ہوئے چنے اور گُڑیا خرید کر دیتے تھے۔ پھر ہم پروفیسر منصور سے ملنے جاتے تو وہ مجھے گود میں اُٹھا کر پیار کرتے۔ پھر جب وہ چاکلیٹ کا ڈبہ لاتے تو میں چاکلیٹیں نکال کر اپنی جیبوں میں بھر لیتی اور پروفیسر صاحب یہ دیکھ کر ہنستے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
ماسٹر صاحب نے احلام کی کاپی تحمل سے بند کی ۔یہ موضوع منتخب کر تے وقت بھی ماسٹر صاحب کو احلام کا خیال آیا تھا۔ پہلے اُنہوں نے سوچاکہ اسے کوئی اور موضوع دیں پھر یہ سوچ کر خیال ترک کر دیا کہ اس سے احلام کو مزید تکلیف ہو گی۔ ہوا کچھ یوں کہ کچھ دن پہلے ماسٹر صاحب نے اسی موضوع پر طالبات کو بولنے کے لئے کہا۔جب احلام کی باری آئی تو اُس نے اپنی مسکراہٹ دبا تے ہوئے کہا ’’ پیارے ابو! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے‘‘ یہ کہ کر وہ لمحہ بھر رکی ، طالبات اسی کو دیکھ رہی تھیں کہ یکا یک وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔اس وقت ماسٹر صاحب کو علم ہوا کہ احلام کے والد کا اسی سال انتقال ہوا ہے۔
ماسٹر صاحب نے اگلی کاپی اٹھائی۔سرخ رنگ کے غلاف پر ’’ نوال ‘ ‘ لکھا تھا۔ماسٹر صاحب مسکرائے۔وہ نوال کو اچھی طرح جانتے تھے۔گندمی رنگت ، پُر سُکون شخصیت اور ذہانت سے بھر پور چہرہ بلکہ اس کی ذہانت اس کی پوری شخصیت سے جھلکتی تھی۔ماسٹر صاحب نے سکون سے کاپی کھولی اور میز پر رکھا لال قلم تک نہ اآٹھایا۔’’ میرے پیارے ابو! آپ کے لئے بہت سلام اور پیار: میں نے اس سال لڑکیوں کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ سیکینڈری اسکول میں داخلہ لیا ہے۔یہ اسکول بہت اچھا ہے لیکن جگہ کی تنگی ہے اور تمام طالبات کے لئے ناکافی ہے۔ لہٰذا ہم دو شفٹوں میں پڑھتے ہیں ، صبح و شام کی شفٹیں۔میری شام کی شفٹ ہے‘‘۔
ماسٹر صاحب نے لال قلم اُٹھا کر یک چھوٹی سی اِملا کی غلطی درست کی اور دِل میں کہا کہ

 یہ ایک معقول بات ہے شاباش نوال! اور آگے پڑھنے لگے۔ ہمیں شام سات بجے چھٹی ہوتی ہے۔ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ آٹھ بجے والی ریل گاڑی کا انتظار کرتی ہوں۔ اس وقت موسم سرد ہو رہا ہوتا ہے اور انتظار کا یہ گھنٹہ بہت طویل محسوس ہوتا ہے ۔ابو! برائے مہربانی مجھے ایک سویٹر دِلوا دیں تا کہ سردی کی شدت سے محفوظ رہوں۔
اور ابو! ہماری کھیلوں کی استانی مِس تحیہ نے بھی ساری طالبات کو کھیل کا مخصوص لباس خریدنے اور کھیلوں کے دن پہن کر آنے کی تاکید کی ہے اور مجھے خاص طور پر کہا ہے کہ کیوں کہ نہ مجھے کھیلوں سے دلچسپی ہے اور نہ ہی میں کبھی کھیل کے میدان میں گئی ہوں۔ شاید اسی لئے مجھے خصوصی تاکید کی ہے کہ میں ہفتے والے دن کھیل کا لبا س ضرور پہن کر آؤں ورنہ پھر آئندہ اسکول میں شکل نہ دکھانا۔
ابو! نہ مجھے کھیل پسند ہے نہ میں لباس لینا چاہتی ہوں جبکہ وہ لبا س ، سویٹر سے کہیں زیادہ مہنگا ہے اور وہ رات کو گرم بھی نہیں رکھتا۔
ابو! مجھے مِس عفاف بہت پسند ہیں۔ وہ بہت اچھی ہیں اور ہمارے ساتھ بہنوں جیسا سلوک رکھتی ہیں ۔اور مِس تحیہ کی طرح غصّہ نہیں کرتیں اور اگر کبھی کسی وجہ سے ڈانٹ بھی دیں تو بعد میں ہمیں پیار بھی کرتی ہیں۔اِس لئے ہمیں بھی اُن کی ڈانٹ بُری نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ــ
ماسٹر صاحب نے ایک گہری سانس لی اور بڑبڑائے ’’ نوال ! تُم بھی؟ ‘‘
پھر بقیہ مضمون پر سرسری نظر دوڑا کر آخر میں روائیتی عبارت لکھی: ’’ یہ مضمون دوبارہ لکھیں ‘‘ اور اگلی کاپی اُٹھا لی۔ یہ کاپی بغیر غلاف کے تھی۔ جگہ جگہ سیاہی کے دھبے لگے تھے۔ ماسٹر صاحب نے کاپی کو ہاتھ میں اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور نام پڑھ کر کہا ’’ اچھا تو یہ تُم ہو فکیھہ
اور اُن کی آنکھوں کے سامنے ایک سادگی بھرا چہرہ آ گیا۔ اس کے چہرے پر ہر وقت کسی انجانی چیز کا خوف محسوس ہوتا تھا۔ انتہائی محتاط رویہ، خاموش طبع ۔۔۔۔۔ اس کے ہونٹ صرف اس وقت حرکت کرتے جب ماسٹر صاحب اس کا نام لے کر صرف اُسی سے جواب طلب کرتے۔ اس کی لمبی چٹیا کے آخر میں ایک سفید دھجّی سے گرہ بندھی ہوتی تھی جو نام کی ہی سفید ہوتی۔ لڑکیاں اس کے ساتھ شرارت کرتے ہوئے اُس کی دھجی کو کھول کر چھپا دیتی تھیں۔ فکیھہ ہر جگہ اسے ڈھونڈتی پھر نہ ملنے پر مِس کو شکایت کرنے چلی جاتی۔ مِس اسے دیکھتے ہی کہتیں ’’ جی چوٹیوں کی ملکہ اب کیا ہوا؟ ‘‘ اور چوٹیوں کی ملکہ فکیھہ کا لقب بن گیا۔
ماسٹر صاحب نے پڑھنا شروع کیا
محترم چچا جان! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاۃ ! چچا جان ! برائے مہربانی یہ خط ابو کو حرف حرف سُنا دیجیے۔
ابو! میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ سیکینڈری اسکول برائے طالبات میں داخلہ لے لیا ہے ۔ اسکول بہت اچھا ہے۔ اس میں مُفید عُلوم اور اخلاق سِکھائے جاتے ہیں۔ مجھے پورا اسکول اچھا لگتا ہے لیکن میری ہم جماعت لڑکیاں بہت بد تمیز اور بے ادب ہیں۔ وہ ہمارے گاؤں کی لڑکیوں جیسی نہیں ہیں۔ مطالعہ کی کلاس میں وہ ہنستی ہیں جب میں کچھ حروف اُن کی طرح ادا نہیں کر پاتی۔
انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ یہ بد تہذیبی ہے ۔اور جب ماسٹر صاحب اُن پر ناراض ہوتے ہیں تو وہ چھُپ چھُپ کر ہنستی ہیں۔اِس لئے مجھے مطالعہ کی کلاس بالکل پسند نہیں۔ البتہ مجھے ٹائیپنگ کی کلاس بہت پسند ہے۔میری مِس کہتی ہیں کہ تُم ٹائیپنگ میں سب سے ذہین طالبہ ہو۔ لیکن یہ کلاس ہفتے میں ایک مرتبہ ہوتی ہے اور مطالعہ کی کلاس دو مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِس کہتی ہیں اگلے سال ٹائیپنگ کی کلاس ہفتے میں دو مرتبہ ہو گی۔
نوٹ: میں چھٹیوں میں آؤں گی انشاء اللہ ۔خالہ آپ کو سلام کہہ رہی ہیں۔ میں اُن کے پاس بہت آرام سے رہ رہی ہوں۔ مجھے سب بہن بھائی بہت یاد آتے ہیں۔ مجھے ان سے ملنے کا شدّت سے انتظار ہے۔ مجھے اپنی بہنوں سے اور زیادہ محبت ہو گئی ہے۔خصوصاََ جب سے میں نے یہاں کی بد اخلاق لڑکیاں دیکھی ہیں۔ سب عزیز و اقارب کو سلام ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ نسبتاََ چھوٹا مضمون تھا اِس لئے ماسٹر صاحب نے مکمل پڑھ لیا لیکن اختتام تک اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔
اِس مضحکہ خیز عمل کو جاری رکھنے کے لئے ضروری تھا کی ایک چائے کی پیالی پی جائے۔ کاپیوں کا ڈھیر ان کے صبر و برداشت کا امتحان لینے اُن کے سامنے موجود تھا۔ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر جانتے تھے کی تصحیح کی اُلجھنوں سے نبٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ تصحیح کا کام جاری رکھا جائے یہاں تک کہ تمام کاپیاں مکمل ہو جائیں۔
اُنہوں نے ایک کاپی اُٹھائی۔ نیلے رنگ کے غلاف پر ’’ عطیات ‘‘ لکھا تھا۔
کون سی عطیات؟ اِس نام کی تین طالبات تھیں۔ اُنہوں نے دوبارہ نام پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا وہ کمزور سی لڑکی جو ہمیشہ پڑھائی میں پیچھے رہ جاتی ہے۔ صحت کا یہ حال ہے کہ کمزور جسمانی حالت پر نوحہ کناں ہوا جائے۔ دراصل لڑکی کو عِلم سے زیادہ عِلاج کی ضرورت ہے۔
اچھا دیکھیں اب یہ کیا لکھتی ہیں۔ماسٹر صاحب نے کاپی کھولی
’’ پیارے ابا جان! آپ کے لئے سلام اور دعائیں اور امّی کے لئے بھی اور سب چھوٹے بہن بھائیوںکے لئے بھی۔ نرگِس، ۔۔۔ محموداور محمد ۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس سال میں نے نئے اسکول میں داخلہ لیا ہے اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ سیکینڈری اسکول برائے طالبات ہے۔ یہ بہت اچھا اسکول ہے۔ ہم یہاں مُفید عُلوم سیکھتے ہیں۔ روزانہ چھ کلاسیں ہوتی ہیں اور درمیان میں پندرہ منٹ کی بریک ہوتی ہے تا کہ ہم کھانا کھا سکیں۔ کھانے میں پنیر، انڈے اور چنوں کا سالن ہوتا ہے۔ یہ بہت اچھا کھانا ہے اور ہمارے لئے اللہ کی نعمتوں میں سے ہے اِس لئے ہم اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔
ابو! مجھے اپنی سب ہم جماعتیں پسند ہیں۔خاص طور پر فتحِیّہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی طالبہ ہے۔ ہم دونوں بالکل بہنوں کی طرح ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی ضرورتوں کا خیال رکھتی ہیں۔ پچھلے ہفتہ اس کے ابو نے اسے ایک سیاہی والا قلم خرید کر دیا تھا۔ اور جب اُس نے دیکھا کہ میرا قلم ٹوٹا ہوا ہے اور لکھنے میں مُشکِل ہے تو اُس نے مجھے اپنا پرانا سیاہی والا قلم دے دیا جو بالکل ٹھیک حالت میں تھا۔ میں نے منع کیا تو وہ ناراض ہونے لگی کہ اگر تُم  نے نہ لیا تو میں ناراض ہو جاؤں گی۔ اِس لئے میں نے قلم لے لیا تا کہ وہ ناراض نہ ہو جائے ۔۔۔۔

ماسٹر صاحب کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ـ’’ دوبارہ لکھیں ‘‘ لکھ کر غصّہ سے کاپی بند کی اور کرسی کی پشت سے سر ٹِکا دیا ۔۔۔۔۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں!
اُنہوں  نے گہری سانس لی اور سوچا کہ اِن سب فضولیات کو چھوڑ کر کچھ دیر صرف اپنے لئے جینا چاہیے۔ کچھ سکون آتے ہی ماسٹر صاحب کو یاد آیا کہ اُنہیں اپنے دوست متولی کے خط کا جواب دینا ہے۔

اُن کے دوست دوسرے شہر بنی سویف کے اسکول میں اُستاد تھے اور اُن کی زمینوں کی دیکھ بھال ماسٹر حسین کرتے تھے۔ دو ہفتے پہلے متولی کا خط آیا تھا جِس میں اُس نے اپنے ملازم ، حاجی امین پر بد اعتمادی ظاہر کی اور ماسٹر صاحب کو درخواست کی کہ وہ خود زمینوں پر جا کر حاجی امین سے کھاد بیجوں اور پودوں کی جانچ پڑتال کرے۔ ماسٹر صاحب یہ کام کر آئے تھے اب صرف اپنے دوست کو اس کی روداد بتانا تھی۔
اپنے دوست کا خیال آتے ہی ماسٹر صاحب کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ انہیںمنصو رہ میں گُزارے دِن یاد آئے جب وہ اور متولی ہا ئی اسکول میں پڑھتے تھے۔ اُنہوں نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور زیرِ لب کہا ’’ کیا دِن تھے وہ !‘‘
پھر اُنہوں نے اپنے ذہن میں حاجی امین کے ساتھ کی گئی گفتگو دہرائی اور اور کاغذ قلم سنبھال کر لکھنے کے لئے تیار ہو گئے۔
’’ پیارے متولی! بہت سلام اور محبت کے ساتھ۔ تمہارے کہنے کے مطابق میں حاجی امین کے پاس گیا تھا تا کہ تمہیں تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کر سکوں۔ اور وہیں میں اُس کیفے بھی گیا جہاں ہم جوانی میں جایا کرتے تھے۔ کیا تمہیں وہ دِن یاد ہیں؟ جب ہم یہاں وہاں گھوما کرتے ۔ گویا زندگی ایک گیت تھی جو ہم دونوں گنگناتے تھے۔ خیر ان تفصیلات میں جانے کا موقع نہیں۔
میں تمہیں یہ خط پوری رات جاگنے کے بعد لکھ رہا ہوں۔ جانتے ہو پوری رات کِس لئے جاگا؟ طالبات کی کاپییوں کی تصحیح کے لئے ۔ ذرا سوچو بھائی! ساری ساری رات خلط ملط اور آڑھی تِرچھی سیاہ تحروروں کو دیکھنے میں گزر جاتی ہے۔ جِن کے متعلق طالبات کا خیال ہے کہ وہ ان کی عقل کے کرشمے ہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا حال میرے حال سے کچھ مختلف ہو گا۔ بلکہ زیادہ ہی دگرگوں ہو گا۔ خیر بتاؤ تُم ’’ بنی سویف ‘‘ کی راتیں کیسے گزارتے ہو؟
اوہ معذرت میں تو بھول ہی گیا کہ میں تُم سے حاجی امین کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ میں اُن سے مِلا تھا اور مجھے اُن سے معلوم ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles