26 C
Lahore
Thursday, March 28, 2024

Book Store

جو کوئے یار سے نکلے

افسانہ

جو کوئے یار سے نکلے

نیلم احمد بشیر

ملیحہ نے اپنے آپ کو اُس حادثے کے بعد کافی اچھی طرح سنبھال لیا تھا جس کے بعد کوئی بھی عورت ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتی ہے۔
اُس کے شوہر فرقان علی نے اُسے پانچ بچوں کی ماں بنا دینے کے بعد آرام سے طلاق دے کر کسی اور سے شادی کر لی تھی۔ وہ بدل گیا تھا۔ اِنقلاب ملیحہ کے اندر بھی آ چکا تھا۔
اب وہ سیالکوٹ کی سیدھی سادی ایف اے پاس لڑکی نہیں بلکہ آروگ برگ پنسلوینیا کی جہاںدیدہ، خوداعتماد، بہادر پاکستانی عورت تھی۔
اُس نے اپنے آپ کو مکمل طور پر اسلامی تعلیمات میں غرق کر لیا ۔ اَپنی آئندہ زندگی کا ہر فیصلہ قرآن کی روشنی میں کرنے لگی۔ وہ کہتی تھی۔
’’اسلام عورت کو بہت زیادہ طاقت دیتا ہے۔ عورتوں کو دبانے والا اسلام نہیں بلکہ برِصغیر کا معاشرتی ڈھانچہ اور معاشی ناہمواری ہے۔ عورت خودکفیل ہو، تو اُسے دبنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
اُس نے اپنے علاقے کی فیملی کورٹ میں فرقان علی کے خلاف خرچے کا مقدمہ درج کرا دِیا ۔ پانچ سال تک ثابت قدمی سے پیشیاں بھگتنے کے بعد کامیاب ہو گئی۔ کہنے والے کہتے تھے اُسے آدھا ملین ڈالر ملے ہیں۔
پنسلوینیا کی پاکستانی کمیونٹی کی عورتیں اور مرد اُس کی ہمت اور اِستقلال پر حیران ہوتے، تو وہ کہتی۔
’’فرقان علی سے پیسہ لینا میرا حق ہے۔ کیا مَیں نے بیس سال تک اُس کی بیوی اور بچوں کی ماں بننے کی ملازمت نہیں کی؟‘‘
لوگ خاموش ہو جاتے کہ کہتی تو وہ سچ تھی۔ مگر عام طور پر عورتیں ایسی آزمائشوں سے بھاگ جاتی ہیں۔ اَپنا حق چھوڑ دیتی ہیں۔ اِس لیے یہ سب کے لیے اچنبھے کی بات تھی۔
اُس نے کیلی فورنیا کے ایک بہت بڑے اسلامک سنٹر کی زیرِنگرانی اپنا ایک چھوٹا اسلامک سنٹر کھول لیا۔
مبلغ حمزہ یوسف کی آڈیو، ویڈیو کیسٹیوں، سی ڈیز اور اِسلامی لٹریچر کی سیلز اور تقسیم کے کام میں خود کو مصروف کر لیا۔
اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کر کے وہ اِس نتیجے پر پہنچی کہ اُسے دوسری شادی کر لینی چاہیے، کیونکہ اللہ کو تنہا عورت کا بغیر نکاح کے رہنا اتنا پسند نہیں۔
ملیحہ نے اپنے لیے نئے شوہر کی تلاش شروع کی، تو کمیونٹی کی عورتوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔ اُسے کچھ برا بھلا تو کہہ نہیں سکتی تھیں کیونکہ وہ حد درجہ مذہبی اور رَاست کردار عورت تھی۔
بس ہائے ہائے کہہ کر، اُس کی باتوں پر تبصرہ کر کے رہ جاتیں ۔ سوچتیں کہ یہ کیسی عورت ہے؟ کیا خناس بھرا ہوا ہے اِس کے سر میں۔
ملیحہ نے چند ایک ایسے پاکستانی مردوں سے رابطہ کیا جو رنڈوے تھے یا جن کی اپنی بیویوں سے علیحدگی ہو چکی تھی۔ اُن سے بات چیت آگے بھی چلی، مگر جب اُن حضرات کو یہ پتا چلتا کہ دلہنیا اپنے ساتھ بچے بھی لائیں گی، تو وہ بھاگ کھڑے ہوتے۔
بچوں والی عورت کسی کو گوارا نہ تھی۔ ماں اپنے بچے چھوڑنے پر کسی صورت رضامند نہ تھی، لہٰذا وُہ اَپنی قوم کے مردوں سے مایوس ہو گئی۔
پھر اُس کی ملاقات نومسلم امریکی طارق سے ہو گئی جو اِسلامک سنٹر کی بڑی سی وین چلاتا تھا۔ پارٹ ٹائم فلائنگ کلاس بھی اٹینڈ کرتا تھا۔
طارق پہلی امریکا عراق جنگ میں بطور اَمریکی فوجی تعینات رہا تھا۔
وہ فارغ وقت میں عراق کی مسجدوں میں اٹھنے بیٹھنے لگا۔ وہیں اُس نے ایک امام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ اُس نے یہ بھی بتایا تھا کہ عراق میں قریباً پچیس ہزار اَمریکنوں نے عیسائیت ترک کر کے اسلام کو گلے لگایا تھا۔
اِس بات کی تشہیر سے امریکی میڈیا نے ہمیشہ کنی کترائی تھی۔ لہٰذا کسی کو اِس بات کا کوئی خاص علم نہیں ہے۔
ملیحہ کی مشکل زندگی کی باتیں سن سن کر اُسے وہ اَچھی لگنے لگی تھی۔ دونوں آپس میں دوست بنتے چلے گئے۔
وہ ملیحہ کو ایک سچی اور بہادر عورت سمجھ کر اُس کی بہت تعظیم کرتا۔ دونوں گھنٹوں اسلامی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے۔
ملیحہ نے اُسے صاف کہہ دیا تھا کہ اسلامی نکتۂ نظر سے مرد عورت صرف نکاح کے بعد ہی ایک دوسرے سے آزادانہ میل جول رکھ سکتے ہیں، لہٰذا اَپنے رسول پاک ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ ؅ کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی اُسے نکاح کا پیغام دینا چاہتی ہے۔
طارق نے کچھ روز سوچا اور پھر یہ کہہ کر اُس سے نکاح کر لیا کہ
’’تم ایک اچھی مسلم عورت ہو ۔ اِس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے۔‘‘
طارق اور ملیحہ ہنسی خوشی رشتہ ازدواج میں بندھ گئے ۔پاکستانی کمیونٹی میں چہ میگوئیاں بڑھ گئیں۔
’’اُس کی جرأت دیکھو! ایک امریکن، دوسرے عمر میں چھوٹا، پھر غیرشادی شدہ ۔‘‘
’’اُس کی تو اپنی بیٹی جوان ہے۔اُس کا سوچنا چاہیے تھا۔ توبہ، حد ہو گئی۔‘‘
ملیحہ کو سب پتا تھا کہ لوگ اُس کے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہیں؟ مگر اُس نے اپنے آپ کو اندر سے اتنا مضبوط کر لیا تھا کہ کسی بات کا اُس پر کوئی منفی اثر ہوتا ہی نہ تھا۔
طارق نے عراق کے سوا دُنیا کا کوئی اور ملک دیکھا نہیں تھا۔ اُسے پاکستان جانے کا بہت شوق ہو رہا تھا۔ ملیحہ کو  مصروفیت مہلت نہیں دے رہی تھی۔
خود ملیحہ کو پاکستان سے کٹے ہوئے تقریباً پندرہ برس ہو گئے تھے۔ وہ زندگی کے جھمیلوں میں اتنی الجھی رہی تھی کہ اُسے ماں باپ بھی بھول گئے تھے۔
وہ تو چند سال پہلے اُس نے اپنے دو بھائیوں کو سپانسر کر کے امریکا بلوا لیا تھا ۔ اَمی ابو اُن کے گھر آنے جانے لگے تھے، ورنہ ملیحہ تو بس امریکا ہی کی ہو کر رہ گئی تھی۔
’’نائن الیون‘‘ کے بعد سے حالات کچھ عجیب ہو گئے تھے۔ ملیحہ اور طارق کے اسلامک سنٹر کے کئی بار شیشے توڑے گئے۔
اُن کی کھڑکیوں پر کالے پینٹ سے Islamic Scum, Go Home لکھا گیا، ٹیلی فون پر دھمکیاں ملیں۔
منصفانہ امریکی معاشرہ بےرحم اور تنگ دل ہو چکا تھا، مگر طارق اور ملیحہ نے بین المذاہب مکالمے شروع کر کے چرچ جانا شروع کر دیا تاکہ اُنھیں کوئی تنگ ذہن، محدود سوچ رکھنے والے مسلمان نہ سمجھنے لگے۔
طارق آرمی ریزرو میں میرین (Marine) گارڈ بھی تھا۔
ایک روز اُس کے کمانڈنٹ نے اُسے بلا بھیجا ، تو وہ اُس کے تفتیشی رویّے سے پریشان سا ہو گیا۔
اُنھیں کہیں سے خبر مل چکی تھی کہ وہ مسلمان ہو گیا ہے ۔
ایک مسلمان عورت سے شادی بھی کر چکا ہے۔
’’تم نے ایسا کیوں اور کیسے کیا؟ اِس کی تفصیل بتاؤ۔‘‘ افسر نے اُسے گھور کر پوچھا۔
’’جناب! یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔ امریکی آئین کے مطابق مجھے مکمل طور پر مذہبی اور شخصی آزادی حاصل ہے۔‘‘ طارق نے احتجاج کیا۔
’’لیکن تمہاری بیوی کوئی اسلامک سنٹر چلاتی ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اُس کا القاعدہ سے کوئی تعلق تو نہیں؟ سنا ہے وہاں کافی میٹنگز وغیرہ ہوتی ہیں۔‘‘
’’آپ جب چاہیں، آ کر چیکنگ کر سکتے ہیں۔ مَیں آپ کو ذاتی ضمانت دیتا ہوں کہ وہاں کچھ غلط نہیں ہوتا۔
میری بات پہ یقین کیجیے۔‘‘ طارق افسروں کو تسلی دے کر چلا آیا، مگر اُس کا دل کھٹا ہو گیا۔
یہ اُس کا اپنا ملک تھا اور وُہ یہاں آزادی سے جو جی چاہے، کر نہیں سکتا تھا۔
امریکا آزادی، آزادی کی رٹ لگائے رکھتا ہے، مگر اب اُن کے ہاں آزادی کے مفہوم ہی بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وہ اَمریکا کا جم پل تھا، مگر اب غیر سمجھا جانے لگا تھا۔ دکھ کے مارے اُس کا کلیجہ پھٹنے لگا۔
اُس نے گھر آ کر ملیحہ اور اُس کی دونوں بڑی بیٹیوں کو بتایا، تو وہ پریشان ہو گئیں۔
نیوجرسی میں رہنے والے ملیحہ کے دونوں بھائی اپنی لمبی لمبی ڈاڑھیوں اور شلوار قمیص کی وجہ سے پہلے ہی ایک بار ائرپورٹ پر گھنٹوں بےلباس کر کے کمرے میں بند کر دیے گئے تھے۔
دونوں چھوٹ جانے کے بعد مغلظات بکتے گھروں کو چل دیے ۔
اُنھوں نے امریکنوں کو جی بھر کے گالیاں تو دے دیں، مگر اب چارہ ہی کیا تھا۔
امریکا میں رہنا اُن کی مجبوری تھی کہ اُن کا کام وہاں تھا۔
بچے وہیں پیدا ہوئے تھے، نئی جڑیں لگ چکی تھیں۔ اُنھیں اکھاڑ کر نئی جگہ لگانا بہت مشکل بلکہ تقریباً ناممکن تھا۔
’’کیوں نہ ہم پاکستان جا کر رہیں؟ ہمارا اَپنا مذہب، اپنے لوگ، اپنا ماحول ہو گا۔‘‘
ایک روز طارق پُراشتیاق لہجے میں کہنے لگا۔
’’ہمیں بھی پاکستان جانے کا بہت شوق ہے۔ ہم بھی دیکھیں ہمارے اپنے ملک میں رہنا کیسا ہوتا ہے۔
اپنے رشتےدار، اپنے لوگ ۔ Lets go‘‘
ملیحہ کی بڑی بیٹی آصفہ نے طارق کے خیال کی تائید کی۔ چھوٹی آمنہ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔
ملیحہ نے ایک نظر اپنے سروں پر حجاب اوڑھے بیٹیوں کو دیکھا ۔
کتنی معصوم اور پاک ہیں یہ دونوں۔ اللہ اِن کے نیک نصیب کرے ۔
اچھے مسلم لڑکوں سے اِن کی شادیاں ہوں۔‘‘
ماں نے کئی بار کی مانگی ہوئی دعا ایک بار پھر مانگی اور پاکستان جانے کے بارے میں سوچنے لگی۔
یہ ٹھیک تھا کہ اب امریکا میں اُن کی حیثیت تیسرے درجے کے شہریوں جیسی ہو گئی تھی، مگر پاکستان سے بچھڑے بھی تو ایک زمانہ ہو چکا تھا۔
چھوٹی سی عمر میں وہ بیاہ کر امریکا آ گئی تھی۔ بلکہ اُس نے تو ہوش بھی امریکا میں ہی آ کر سنبھالا تھا۔ Sesame Street جیسے بچوں کے پروگرام دیکھ دیکھ کر اُس نے انگریزی سیکھی تھی۔
اَب یہ حال تھا کہ اُس سے اردو، پنجابی میں بات نہیں کی جاتی تھی۔ طے یہ ہوا کہ پہلے ایک چکر پاکستان کا لگا آئیں، پھر آ کر سوچیں کہ وہاں کب اور کیسے سیٹل ہونا ہے۔
ملیحہ کو یاد آیا، بھائی جان بھی اپنی بڑی بیٹی نازو کی شادی میں شامل ہونے کے لیے اُسے بہت مجبور کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے:
’’مَیں تو اپنی ننھی بہن ’مَلی‘ کی شکل دیکھنے کو ہی ترس گیا ہوں۔‘‘
ملیحہ کے دل میں ہوک سی اٹھی۔ وُہ سوچنے لگی:
چلے ہی چلتے ہیں۔ اچھا تجربہ ہو گا۔ طارق اور بچے سب سے مل بھی آئیں گے۔ شادی میں شرکت بھی ہو جائے گی۔
اُس کا فیصلہ سن کر سب لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں ۔گھر پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا۔
اپنا ملک پھر اپنا ہی ہوتا ہے۔ ملیحہ نے استغفار پڑھی اور اَمریکنوں پر لعنت بھیجتی ہوئی پاکستان جانے کی تیاریاں کرنے لگی۔
لاہور ایئرپورٹ پہنچتے ہی لمبی سی عبا پہنے، سر پر ٹوپی سجائے گورے چٹے امریکن طارق نے اِدھر اُدھر دیکھ کر زور زور سے سانس لی۔ ’’الحمد للہ مَیں مسلمان ملک میں ہوں۔
سبحان اللہ کتنا خوبصورت ایئرپورٹ ہے۔‘‘ وہ متاثر ہو کر مسکرانے لگا۔
’’السلام علیکم! ہیلو! ہائے‘‘ کی مختلف آوازوں پر اُس نے آنکھیں گھمائیں اور دَیکھا۔ ملیحہ کے کئی قسم کے رشتےدار اُس سے اور بچوں سے بغل گیر ہو رہے تھے۔
طارق کو آگے بڑھتے دیکھ کر کچھ نے ہاتھ بڑھا دیے ۔ کچھ سکڑ کر وہیں کے وہیں کھڑے رہے۔
سب تھکے ہوئے تھے، لہٰذا گھر جا کر کھانا کھاتے ہی سو گئے۔
صبح ہوتے ہی بھائی جان نے ملیحہ کو اَپنے کمرے میں بلوا بھیجا۔ ملیحہ نے غور کیا کہ بھائی جان کا گھر کسی محل سے کم نہیں تھا۔
بہت بڑے کمرے۔ سبز گھاس والے کھلے  لان۔، پورچ میں کھڑی ہر فردِ خانہ کی اپنی گاڑی۔
‘وہ بھائی جان کے پراپرٹی بزنس کی کامیابی کے مظاہر دیکھ کر خوش ہو گئی۔
’’ماشاء اللہ، ماشاء اللہ۔‘‘ ملیحہ نے دل ہی دل میں کئی بار کہا۔
’’دیکھو مَلی! مجھے تمہارے اور بچیوں کے یہاں آنے کی بہت خوشی ہے، مگر معذرت چاہتا ہوں۔
میری بات کا برا نہ منانا، تم اُسے کیوں ساتھ اٹھا لائی ہو؟‘‘ بھائی جان نے ملیحہ سے کہا۔
’’اُسے؟ کون بھائی جان؟‘‘ وہ سمجھی نہیں تھی۔
’’بھئی، وہ اَمریکن اور کون؟‘‘ بھائی جان نے صاف صاف کہہ دیا۔
’’بھائی جان! وہ کوئی غیر نہیں، میرا شوہر ہے ۔ طارق نام ہے اُس کا!‘‘ ملیحہ بھی تیز لہجے میں بولی۔
’’تمہیں شاید احساس نہیں۔ یہاں لوگ بہت اینٹی امریکن ہو رہے ہیں۔ اب ہم کس کس کو سمجھائیں گے کہ یہ گورا اَمریکن مسلمان ہو چکا ہے۔ بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے تم نے ہمیں۔‘‘
’’ویسے ملیحہ! تمہیں اپنی عمر سے اتنا چھوٹا خاوند کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر تم اُسے یہاں لے آئی ہو۔ شادی میں اُسے لے کر ساتھ گھومو گی، تو لوگ سو باتیں بنائیں گے۔‘‘
بھابھی نے بھی ناک چڑھا کر لقمہ دیا اور بولتی چلی گئیں۔ ’’
سچی بات تو یہ ہے ملیحہ کہ ابھی ہم لوگ اتنے ماڈرن نہیں ہوئے کہ اپنے سے دس بارہ سال چھوٹے آدمی سے شادی کر لیں اور کوئی کچھ بھی نہ کہے۔ لوگ کہیں گے، اِسے اپنی عمر، اپنے کلچر کا آدمی نہیں ملا تھا کیا؟‘‘
بیوی کی بات سن کر بھائی جان نے بھی تائید میں سر ہلایا۔
ملیحہ چپکے سے اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے؟ طارق کو شادی کی تقریب سے دُور کیسے رکھے۔ وہ بےچارہ تو آیا ہی رشتےداروں میں گھلنے ملنے کے لیے تھا۔
طارق آنے والے دنوں میں ہر ایک سے تپاک سے ملتا،
My Muslim brother
(میرا مسلمان بھائی!) کہہ کر گلے لگاتا۔ ہر بات پر الحمدللہ، سبحان اللہ کہتا اور گھر کے کاموں میں نوکروں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا، تو سب حیران ہو کر اُسے دیکھتے رہ جاتے۔
’’کیوں نہ ہم لوگ شادی میں شرکت کرنے کے بجائے شمالی علاقوں کی سیر کو نکل جائیں؟‘‘
ایک روز ملیحہ نے موقع پا کر طارق کے سامنے ایک تجویز رکھی جسے وہ قطعاً سمجھ نہ پایا۔
’’ہنی! مَیں تو ابھی اپنے مسلمان بھائی بہنوں سے اچھی طرح ملا بھی نہیں۔ تم مجھے اُن سے دور لے جانے کی باتیں کر رہی ہو۔‘‘
وہ حیران ہو کر بولا۔ ’’مجھے یہاں آ کر لطف آ گیا ہے۔ سبھی لوگ ہم مذہب ہیں۔
کسی کو کسی سے تعصب نہیں، حیرت انگیز بات ہے۔‘‘ وہ خوشی سے بولا۔
ملیحہ کو اُسی وقت یاد آیا کہ کیسے آتے ہی اُس کے بٹوے میں سے رقم چوری ہو گئی تھی۔
بھکاریوں نے اُس کا بازار جانا مشکل کر دیا تھا ۔ خریداری کرتے ہوئے ہر لمحے بےایمانی سے چوکنا رہنا پڑتا تھا۔
بڑی مشکل تھی مگر طارق شاید ہر بات کو مثبت طور پر دیکھنے کا تہیہ کر چکا تھا۔  اُسے پاکستان میں کوئی خرابی ہی نظر نہیں آتی تھی۔
’’نہیں امی! ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ شادی میں شرکت کرنے ہی تو آئے ہیں۔ تو کرنے دیجیے نا ۔
بعد میں سیر کر لیں گے۔‘‘
آصفہ نے ماں سے ضد کی۔ ’’سنا ہے مہندی لگتی ہے، تو بڑا مزا آتا ہے۔ It’s a lot of Fun۔ مَیں تو کزن نازو کی شادی کسی قیمت پر نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
آمنہ نے بھی ماں کو اَپنا فیصلہ سنا دیا۔
(مَیں بہت پُرجوش ہوں) ملیحہ خاموش ہو کر خلاؤں میں گھورنے لگی۔
ایک طرف بھائی اور بھابی کی کڑوی باتیں اور دُوسری طرف طارق اور دونوں بیٹیوں کی معصوم خواہشیں۔
’’آخر ہم پاکستان کو دوبارہ دَریافت کرنے، اِس کے کلچر میں گھلنے ملنے کے لیے ہی تو یہاں آئے ہیں۔ عین شادی کے وقت یہاں سے کھسکنا کتنی نامناسب بات ہو گی۔‘‘
ایسی کی تیسی! دیکھی جائے گی۔ ملیحہ کے اندر سے ایک آواز آئی۔ The truth shall set you free۔ (سچائی آپ کوفتح یاب کر دے گی)
جب مَیں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ سچائی پر ہوں، تو پھر مجھے شرمندہ ہونے اور ڈرنے کی کیا ضرورت؟ اُس نے یک دم اپنے اندر ایک عجیب سی طاقت ابھرتی محسوس کی اور فیصلہ کر لیا کہ وہ شادی میں ضرور شرکت کرے گی۔
بھائی جان، بھابھی نے پھر کوئی بات نہ کی۔
برسوں بعد آنے والی بہن کا لحاظ کر کے خاموش ہو گئے، مگر شادی کے دوران ملیحہ کی وجہ سے اُن کا معذرت بھرا رَویّہ کسی سے چھپا نہ رہ سکا۔
حسبِ توقع مہمانوں نے اُس کی اور طارق کی شادی کے موضوع میں خوب دلچسپی لی۔ اُس سے الٹے سیدھے سوال کرتے چلے گئے۔
’’ہم بھی جوانی میں بیوہ ہو گئے تھے، مگر شرافت سے بچوں کے سر پر زندگی کاٹ دی۔‘‘
پھوپھو زہرہ نے دل کے پھپھولے پھوڑے، مگر اُن کی آنکھیں ملیحہ سے سرگوشی کر کے کہنے لگیں:
’’کاش تیری طرح مجھے بھی ایسی جرأت نصیب ہوتی، تو زندگی کا کٹھن سفر کچھ آسان ہو جاتا۔‘‘
’’ویسے ملیحہ! تم نے دوسری شادی کیوں اور کیسے کر لی؟‘‘
بھابھی کی چھوٹی بہن نے براہِ راست سوال کر دیا۔
’’اِس لیے کہ اللہ کو مرد عورت کا حالتِ نکاح میں رہنا ہی پسند ہے۔ ویسے میرے سابقہ شوہر فرقان علی نے تو میری موجودگی میں ہی دوسری شادی کر لی تھی۔
اُنھیں تو کسی نے کچھ نہیں کہا تھا۔ پھر مجھ سے آپ لوگ کیوں یہ سوال کر رہے ہیں؟‘‘
’’لیکن وہ تو مرد ہیں اور مرد ہمیشہ سے یہ سب کچھ کرتے چلے آئے ہیں۔‘‘ بھابھی نے لقمہ دیا۔
’’اسلام میں مرد عورت ایک جیسے ہی بااختیار ہیں۔ دراصل آپ لوگوں نے اسلام کی صحیح روح کو سمجھا ہی نہیں۔ مَیں نے بہت مطالعہ کیا ہے ۔
مجھے یہ علم ہو چکا ہے کہ اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا مجھے خود حق حاصل ہے۔
پھر آپ کو یہ بھی پتا ہے کہ امریکا میں سارے کام خود کرنا پڑتے ہیں۔
سودا لاؤ، برتن دھوؤ، کھانا پکاؤ، گھاس کاٹو، کوڑا اُٹھا کر باہر لے جاؤ، لمبے فاصلوں کی ڈرائیونگ کرو۔
مَیں نے سوچا ساتھی ہو گا، تو ہاتھ بٹا دے گا۔ میری ذمےداریاں کم ہو جائیں گی، بس اِسی لیے مَیں نے شادی کر لی۔‘‘
’’بس اِسی لیے؟‘‘ کسی نے سوال کیا اور اِس پر ایک زوردار قہقہہ پڑا۔
’’لیکن آپ نے اِس امریکن کو ہی کیوں پسند کیا؟‘‘ بھابی کی بہن بولی۔
’’کیونکہ یہ ایک اچھا مسلمان ہے اور میرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘
ملیحہ بھولپن میں ہر بات کا صاف جواب دیتی چلی گئی کہ اب اُسے جھوٹ بولنے کی حاجت اور عادت نہیں رہی تھی۔ وہ ہر بات دوٹوک کہہ دیا کرتی تھی، چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا۔
ملیحہ کی اتنی صاف گوئی سب کے لیے بڑی اچھنبے کی بات بن گئی تھی۔
برسوں ایک منافقت زدہ معاشرے سے دور رَہ کر وہ بھی بھول گئی تھی کہ رکھ رکھاؤ، دکھاوا اَب یہاں پہلے سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔
لوگ سچ سن کر عجیب سے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں، مگر ملیحہ کو تو کسی کی پرواہ نہیں تھی، صرف سچ کا خیال تھا اور بس۔
مہندی کی رات خوب ڈھول ڈھمکا ہوا۔ سبھی بےحال ہو رہے تھے۔ نوجوان طبقہ سگریٹ اور چرس کے دھوئیں اڑا رَہا تھا اور بڑے انکل اور آنٹیاں بوتلوں سے گھونٹ بھر کے دیوانہ وار رَقص کرتے نظر آ رہے تھے۔ طارق، آمنہ، آصفہ کے لیے یہ سب کچھ بڑا حیران کن تھا۔
حجاب پوش امریکی لڑکیاں اور عبا پہنے ٹوپی والا امریکن ٹکر ٹکر سب منظر دیکھ رہے تھے اور اُنھیں یاد آ رہا تھا کہ امریکا میں تو مسلم شادیوں میں سب سے پہلے علاقے کے امام صاحب آ کر ایک اسلامی لیکچر دیتے ہیں۔
مسلم شادی اور میاں بیوی کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں، مگر یہاں یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تھا، بلکہ کچھ اور ہی ہو رہا تھا۔
’’آؤ بھی تم لوگ بھی ہمارے ساتھ ڈانس کرو۔ آمنہ، آصفہ کو اُن کی کزنوں نے اپنے ساتھ گھسیٹا، تو وہ گھبرا کر ’نہیں شکریہ‘ کہہ کر اٹھ گئیں اور کہا ہماری عشاء کی نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے۔‘‘
کچھ شوقین مزاج خواتین نے طارق سے ہلکا پھلکا فلرٹ کرنا شروع کر دیا۔ اچھا خاصا خوبصورت امریکن تھا، مگر اُنھیں لِفٹ ہی نہیں کروا رَہا تھا۔
طارق نیچی نگاہیں کیے اُن کی باتوں کا مودب انداز میں جواب دیتا رہا، مگر جب خواتین نے اُسے رقص کے لیے کھینچا، تو اُس نے فوراً یہ کہہ کر ہاتھ چھڑا لیا کہ ’’آپ میرے لیے نامحرم ہیں۔‘‘ خواتین حیرت زدہ ہو کر زور زور سے ہنسنے لگیں اور پیچھے ہٹ گئیں۔
ملیحہ نے مضبوطی سے طارق کا ہاتھ تھام لیا جیسے احساس دلانا چاہتی ہو کہ میلے میں کھوئے ہوئے بچے کی ماں کہیں دور نہیں، اُس کے پاس ہی ہے اور سمندر میں ہچکولے کھاتی کشتی سنبھلنے لگی۔ ملیحہ کو یاد آیا طارق نے اُسے بتایا تھا کہ ایک بار فلائنگ سبق کے لیے اُسے لیڈی انسٹرکٹر کے ساتھ کاک پٹ میں بیٹھنا پڑ گیا، تو وہ یہ کہہ کر باہر نکل آیا تھا کہ
’’میرے مذہب میں اجازت نہیں کہ مرد عورت تنہا ایک جگہ اکٹھے ہو سکیں، کیونکہ اُن کے درمیان شیطان آ جاتا ہے۔‘‘
پھر جب تک طارق کو مرد اِنسٹرکٹر نہیں دیا گیا، وہ سبق لینے پر رضامند ہی نہیں ہوا۔
شادی کی تقریب ختم ہونے کے اگلے روز مہمانوں نے واپس جانا شروع کر دیا تھا۔ ملیحہ سوچ رہی تھی کہ کیا کرے۔ پاکستان میں مستقل رہنے کا منصوبہ بنائے یا امریکا واپس لَوٹ جائے۔
بھائی جان سے مشورہ کرنے کو جی چاہا اور کچھ سوچ کر اُن کے کمرے کی طرف چلی، مگر ابھی کوریڈور میں ہی تھی کہ اُس کے کانوں میں آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔
’’تھک گئے مہمان داری کرتے کرتے۔ اب تو بس آرام چاہیے۔‘‘ بھابی کہہ رہی تھیں۔
اُن کی بیٹی پنکی ابو کو متوجہ کر کے زور زور سے کہنے لگی:
’’ابا! یہ پھوپھو ملیحہ کی عجیب فیملی کب واپس جائے گی؟ شادی پر یہ لوگ اتنے غیرمناسب لگ رہے تھے۔ عبائیں، حجاب اور نیچے کام کرنے والے جوڑے! توبہ اور پھر بات بات پہ کہنا ’یہ اسلامی ہے، وہ غیراسلامی ہے۔‘ ہاں ابو یہ تو بتائیں امریکا کے مسلمان اتنے ابنارمل کیوں ہو جاتے ہیں۔
آخر اُنھیں ہو کیا جاتا ہے۔ اتنے جنونی، اتنے پس ماندہ ! یہ نائن الیون کلچر اُنھیں آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ توبہ! مَیں تو ایسی گھٹی ہوئی ذہنیت کو سمجھ ہی نہیں سکتی۔‘‘
دوسری بیٹی روزی نے بھی اپنا اظہارِ خیال شروع کر دیا۔
بھائی جان اپنی بیٹیوں کو ملکوں، مذہبوں، تہذیبوں کے تصادم وغیرہ کے موضوع پہ کچھ لیکچر سا دینے لگے تھے، مگر ملیحہ مزید وہاں کھڑی نہ رہ سکی اور مرے مرے قدموں سے گھر کے لان میں چلی آئی۔
اُس نے اوپر نظر دوڑائی۔ لاتعداد پرندے کھلی فضا میں اڑتے پھر رہے تھے۔ کتنی آزادی محسوس کر رہے تھے وہ۔ پھر ملیحہ کی سوچیں کالے کوے بن کر اُس کے سر میں ٹھونگیں مارنے لگیں۔
’’اے اللہ! تُو کہتا ہے میری زمین میں پھیل جاؤ اور میرا فضل تلاش کرو، تیری کائنات تو اتنی بڑی ہے۔
تیری سلطنت اتنی پھیلی ہوئی ہے، مگر اب ہم جیسے بےوطن کہاں جائیں؟ کیا تیری اتنی وسیع زمین میں ہمارے لیے دو گز جگہ بھی نہیں ہے؟ اے میرے اللہ! مجھے جواب چاہیے۔‘‘

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles