Home اردو ادب جنات کا بچہ

جنات کا بچہ

وہ جن کا بچہ تھا اور بہت معصوم بھی مگر چالاک میاں بیوی نے اسے ہی پھنسا لیا اور اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے لگے

0
547

تحریر، جاوید راہی

میرا نام محمد بشیر ہے اور میں ذات کا اوڈ ہوں۔ ہمارا روز اول سے خاندانی روزگار بھیڑیں پالنا اور محنت مزدوری کرنا ہے۔ ہماری عورتیں بھی ہمارے ساتھ مل کر زیر تعمیر بلڈنگوں میں کام کرتی آرہی ہیںمگر نئی نسل نے بھیڑوں کے ساتھ ساتھ گائے کے بھی ریوڑ بنالئے ہیںاورساتھ میں چوری اور ڈکیتی کا بھی دھندہ شروع کر دیا ہے ۔
پولیس مقابلے میں قتل وغارت گری بھی عام ہو کر رہ گئی ہے ۔ خدا کا شکر ہے میرے گھر میں کوئی بھی ایسا کام نہیںجس میں شرمندگی اٹھانی پڑے ۔والد صاحب سعودی عرب میں بطور کاریگر گئے اور کچھ ماہ بعد مجھ سے بڑے دونوں بھائیوں کو بھی اسی کمپنی میں لیبر کے ویزہ پربلوا لیا ۔ پیچھے چھوٹا ہونے کے ناطہ میں گھر میں رہ گیا، مال ڈھور کو سنبھالنا میری ذمہ داری تھی ۔سب سے بڑی بہن کی شادی ہوگئی تھی۔ ایک مجھ سے بڑی بہن اور میں اپنی بھیڑوں کو دن بھر چراتے پھرتے۔ والدہ پیچھے رہ جاتی اس کے ذمہ گھرداری تھی۔
باہر سے والد روپیہ پیسہ بھجواتا تو والدہ بینک میں ڈال دیتی۔ جب بھیڑوں کے چھترے ذرا بڑے ہوجاتے تو میں بکر منڈی میں جا کر بیچ دیتا ، ہم اوڈ برادری ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھتے کبھی اس گائوں تو کبھی اس شہر۔ ہمارے مکان نہیں ہوتے ہم عارضی چھپر ڈال کر اس میں ہی رہتے آرہے ہیں۔مال کیلئے بڑے بڑے باڑے اور ان کی رکھوالی کیلئے خونخوار کتے پالنا بھی ہماری ریت میں شامل ہے۔ ہمارے کتے شیروں تک کامقابلہ کرنے میں مشہور ہیں۔
نوری اور میں بھیڑوں کا ریوڑ لے کر پرانے قرستان کی طرف جارہے تھے میری بہن نوری نے مجھے آواز دی
’’بُوزو دکھائی نہیں دے رہا ۔‘‘
بُوزو ہمارے کتے نکا نام تھا بوزو صرف بول نہیں سکتا تھا مگر ہر بات سمجھ کر باقاعدہ اس پر عمل بھی کرتا میں نے اِدھر ُادھر دیکھا مگر بوزو دکھائی نہیں دیا تو مجھے بھی پریشانی لاحق ہو گئی کہ وہ ہمارے آگے پیچھے ہی مال کے ساتھ ہوتا تھا۔ جب ہم گھر سے مال لے کر چلے تھے اس وقت توساتھ تھا مگر اچانک کہاں غائب ہو گیا۔
قبرستان قریب آگیا تو بوزو مخالف سمت سے ہماری طرف آتا دکھائی دیا۔
’’ یہ بھی اب آوارہ گردی کرنے لگا ہے‘‘ نوری نے مجھے مخاطب کر تے کہا ۔
جواباً میں اپنی بہن کی بات پر زور سے ہنس پڑا۔ہم دونوں بہن بھائی مال کو چرنے کیلئے چھوڑکر برگد کے بڑے درخت کی چھائوں میں آن بیٹھے ۔
’’بشیر،اماں تیری شادی۔۔۔۔‘‘میں نے بات کاٹتے اپنی بہن کا فقرہ پکڑ لیا ہم دونوں کی شادی۔
’’ہاں ہاںاماںحاجی ابراہیم کی گھر والی سے اسی کی بات کر رہی تھی،اماں کو فکر تو ہے نا ‘‘نوری نے مجھے جواباً پھر بتایا۔
میں نے اٹھتے ہوئے مال کا رُخ جو آگے کی طرف جارہا تھا واپس موڑنے کیلئے آواز لگائی۔ساتھ ہی بوزو اُٹھ کر بھیڑوں کی طرف بھاگا جو قبروں کے اوپر اِدھر ُاُدھر منہ مار رہی تھیں۔ ایک دو بار قبروں کے متولی سے ہمارااس بات پر جھگڑابھی ہو چکا تھا ۔ بھیڑوں کو دوبارہ قبرستان کے کونے کی طرف موڑتے میں نوری کے پاس آن بیٹھا جو ہاتھ میں پکڑی ٹہنی سے زمین پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی۔
نوری مجھ سے دو سال بڑی تھی مگر ہم دونوں میں بڑی بنتی تھی جب وہ اماں کے ساتھ شہرسودا سلف لینے جاتی تو میرے لئے جوبھی کپڑے خرید تی وہ اسی کی پسند کے ہوتے۔ میں اپنی بہن کی لائی ہوئی ہر چیز کو پسند کر لیتا تھا چاہے مجھے اچھی لگے یا نہ مگر اس کے سامنے میں تعریف ضرور کر دیتا۔
مال چرتے ہوئے جب بیٹھنے لگ جاتا تو ہمیں پتہ چلتا کہ اب ہمیں گھنٹہ بھر آرام کا موقع مل گیا ہے۔ نوری بہن ساتھ لائی ہوئی روٹی کھولتے مجھے پانی لانے کا کہتی اور میں قبرستان کے ہینڈ پمپ سے جو متولی کی کوٹھڑی کے قریب لگا تھا سے پانی لانے اُٹھ جاتا۔
جب سے ہم سکھ پور گائوں میں آکر آباد ہو ئے تھے اپنا مال زیادہ تر اس پرانے قبرستان میں ہی لایا کرتے تھے جبکہ ہماری پکھی کے دوسرے لوگ اپنا اپنا مال شہر کی طرف لے کر جاتے تھے ۔ان کے مال میں ڈنگر ڈھور بھی تھے مگر ہمارے پاس اپنے گزارے کی صرف بھیڑیں ہی تھیں یاان کے چھترے جو ہم عیدِ قربان پر فروخت کرنے کیلئے پالتے تھے ۔
میں جب پانی بھر کر نوری کے پاس آیا تو اس کے قریب سات آٹھ سالہ لڑکے کو بیٹھے پایا جو اس سے باتیں کر رہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھاکہ شاید وہ قبرستان میں فاتحہ پڑھنے والوں کے ساتھ ہو مگر دوردور تک کوئی بھی نظر نہ پڑا تومیں نے نوری کی طرف دیکھا میری آنکھوں میں اس بچے کے بارے سوال تھا۔
’’بشیر !یہ اپنی ماں کی قبر پر آیا ہے گائوں میںہی رہتا ہے ‘‘نوری نے میرے چہرے پر اٹھنے والے سوال کو پڑھتے مجھے بتایا۔ پھر ہم کھانے میں لگ گئے ۔نوری نے اسے بھی روٹی اور چٹنی جو روٹی کیساتھ تھی دیتے ہوئے کھانے کیلئے کہا۔
ایک دو نوالے لیتے ہی تیز مرچ کے باعث اس کی زبان جل گئی او ر اس نے مجھ سے پانی مانگا ۔میں نے ڈولنی سے پانی ڈال کر دیتے اس کا نام پوچھا نام تواس نے میرے ہاتھ سے گلاس لیتے اپنا نام بتایاکہ شہبازنام ہے سارے شبی کہتے ہیں ۔
’’گائوں میں کس سائیڈ پررہتے ہو؟‘‘ میرے سوال پر اس نے جواب کہ دیا مسجد والی گلی میں ہمارا گھر ہے ۔اتنابتاکر وہ اٹھنے لگا تو نوری نے اسے روک لیا۔
’’شبی بہت تیز دھوپ ہے تھوڑی دیر رُک جائو ہم بھی واپسی کیلئے اٹھنے والے ہیں‘‘۔
’’ نہیں ،گھر والے پریشان ہوجائیں گے پہلے ہی کب کا نکلا ہوا ہوں ‘‘کہتے ہوئے وہ اُٹھ کر قبرستان سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑا۔
’’نوری! اسے ڈر نہیں لگا یوں اکیلے قبرستا ن آتے ‘‘۔میں نے اسے قبرستان سے نکل کر گائوں کی طرف جاتے دیکھ کر پوچھا۔
’’بچہ ہے ،ابھی اسے ڈر ور کا کیا پتہ ‘‘نوری نے پانی والی ڈولنی اور برتن باندھتے میری بات کا جواب دیا۔
دن ڈھلنے سے پیشتر ہم دونوں بہن بھائی مال ہانکتے اپنی پکھیوں کی طرف چل پڑے تھے گائوں سے باہر شام الاٹ والی پڑی خالی زمین پر ہمارا قبیلہ کئی سالوں سے رہتا آرہا تھا اور ہم لوگ سکھ پور کے ہی رہائشی اوڈجانے جاتے تھے۔ اپنے مال کو باڑہ میں بند کر کے میں بھائی خلیل کی پکھی کیطرف آگیا نوری کھانا وغیرہ بنانے کیلئے اماں کا ہاتھ بٹانے لگی ۔
روز مرہ کی طرح ہماری پکھی کی سب سہیلیاں کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دور گپ شب لگانے نکل جاتی تھیں ۔ہم مرد قبیلہ کے پنج حاجی غفور کی پکھی کے سامنے اکھٹے ہو جاتے یوں رات گئے تک اِدھر اُدھر کی باتوں کا سلسلہ جاری رہتا۔
یکدم لڑکیوں کی گھبرائی ہوئی آواز یں سن کر ہم سب جو حاجی غفور کی پکھی کے آس پاس پڑی چار پائیوں پر بیٹھے تھے اٹھ کر ان کی طرف بھاگے۔ سامنے آتی لڑکیوں نے نوری کو اپنے بازوں میں اٹھایا ہوا تھا اور وہ بُری طرح مچل رہی تھی بار بار وہ سر گھما کر حلق سے بچوں جیسی آوازیں نکالتی اور ’’مجھے چھوڑو میں نے جانا ہے مجھے چھوڑو میں نے جانا ہے ‘‘کی تکرار کر رہی تھی ۔
میں نے آگے بڑھ کر اسے اپنے مضبوط بازئوں میں سمیٹتے ہوئے لاکر اپنی پکھی کی چارپائی پر ڈال دیا۔
حاجی غفور اور دوسرے لوگ بھی میری پکھی پر جمع تھے ،نوری کی آنکھیں اُلٹی ہوئی تھیں اور وہ بدستور وہی فقرہ بولے جارہی تھی کہ’’ مجھے چھوڑو میں نے جانا ہے ۔‘‘
حاجی غفور کچھ پڑھنے میں مصروف تھے وہ حافظ قرآن بھی تھے پھر انہوںنے پانی کا گلاس جو انہوںنے میری اماں سے منگوایا تھا نوری پر اُلٹ دیا۔
پانچ سات منٹ بعد نوری جیسے ہوش میں آگئی اور جلدی جلدی اپنا آپ درست کر نے لگ گئی۔ اماں گھبراتی ہوئی حاجی صاحب سے پوچھ رہی تھی کہ کیا ہوا میری بیٹی کو؟تو انہوںنے آہستہ آواز میں بتایا کہ اسے سایہ کی شکایت ہو گئی ہے فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائیگا میں پانی دم کر دیتا ہوں اسے وقفہ وقفہ بعد پلاتی رہنا۔
جب سب اپنی اپنی پکھی میں چلے گئے تو میں نے نوری کی چارپائی پر بیٹھتے پوچھا نوری یہ سب کیا تھا؟
اس نے میری طرف دیکھتے بڑی نقاہت بھری آواز میں بتایا کہ’’ وہ لڑکا جو قبرستان میں آج ملا تھا وہ درحقیقت جنات تھا اور اس کا خاندان بھی اسی قبرستان میں رہتا ہے۔ ہم جب واپس گھر لوٹ رہی تھیں تو وہ اچانک مجھے اپنے سامنے کھڑا دکھائی دیا اور پھر میرے کندھوں پر اِدھر اُدھر ٹانگیں رکھ کر سوار ہو گیا ۔ میری گردن کو اس نے اپنے ہاتھوں میں اس طرح آہستگی سے پکڑ رکھا تھا کہ مجھے تکلیف بھی نہیں ہو رہی تھی مگر میں اپنی گردن گھما نہیں سکتی تھی جب حاجی صاحب پڑھ رہے تھے تو وہ مجھ سے یہی تکرار کر رہا تھا کہ میرے ساتھ چلو میرے گھر میں اپنے گھر والوں کو تم سے ملانا چاہتا ہوں‘‘بتا کر نوری چپ ہو گئی۔
میرے لئے یہ سب سن کر پریشان ہونا ایک لازمی بات تھی میری اماں نوری کو ساتھ لگاتے اس کی چارپائی پر ساکت بیٹھی تھی ۔پوری رات تمام پکھیوں کے لوگ نوری کیلئے پریشان رہے۔
اماںنے نوری کومیرے ساتھ جانے سے روک لیا تھااورمیرے ساتھ خلیل کو بھیج دیا ۔ہم دونوں چچا زاد تھے اور ایک دوسرے کے پکے دوست بھی ۔اماں نوری کو خلیل کیساتھ اور خلیل کی بہن سمو کو میرے ساتھ بیاہنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ خلیل بھی نوری کوچاہتا تھا اور خاصا پریشان تھا میں نے جان بوجھ کراس سے شبی جن کے بارے میں کوئی تبصر ہ نہیں کیا۔
شام کو ہم واپس آئے تو ہماری پکھی میں آس پڑوس کی پکھیوں کی عورتیں جمع تھیں اور نوری اپنی چار پائی پر بیٹھی سب سے بے نیاز عجیب عجیب حرکتیں کررہی تھی جیسے وہ کسی کو پکڑتی اور کوئی اسے پکڑتا کبھی لیٹ کر اور کبھی بیٹھ کر اور کبھی چارپائی سے نیچے اُتر کر اِدھر اُدھر بھاگنا شروع کر دیتی ۔مجھے اور خلیل کو دیکھ کر وہ بھاگتی ہوئی پکھی کے اندر چلی گئی اور پیچھے بچھی چٹائی پر لیٹ کر اوپر چادر اوڑھ لی جیسے ہم سے چھپ گئی ہو۔ میں سمجھ گیا تھا کہ شبی اسے دکھائی دے رہا ہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کو سب سے دور رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
میں نے اماں سے حاجی غفور کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ کہہ رہا ہے میرے بس کی بات نہیں کسی عامل کو لانا پڑے گا اماں نے اپنی آنکھوںمیں آئے آنسو اپنے ڈوپٹے سے صاف کرتے مجھے بتایا۔
نوری کی حالت کل سے بھی بُری ہورہی تھی۔ میںچلتاہواحاجی غفور کی پکھی میں آگیااور نوری کے بارے میں جوحالات بن چکے تھے کی بابت پوچھا تو حاجی صاحب نے کہا کہ میں مسجد کے امام کے پاس گیا تھامگر اس نے بھی یہی مشورہ دیا ہے کہ کسی ایسے عامل کے پاس جائو جو جنات اور بد روحوں کو اتارنے کا ماہر ہو ہمارے بس کی بات نہیں ،ابھی تو پانی سر سے اوپر نہیں گیا اور اس کا سدباب ہو جائیگا جوں جوں دن گزرتے رہے نوری اس کے قبضہ میں آتی جائیگی۔ حاجی صاحب کے لہجہ میں پریشانی کا عنصر نمایاں تھا ۔
’’حاجی صاحب مجھے توپتہ نہیں کہ عالم ،عامل کہاں ملے گا؟‘‘ میں نے تذبذب میں ہاتھ مسلتے اپنی بے بسی کااظہار کیاساتھ ہی میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
میری حالت دیکھ کر حاجی غفور نے میری ڈھارس بندھائی اور مجھے شہر میںسائیں شیر علی کا پتہ بتایا کہ اس کے پاس جا کر ساری حقیقت بیان کروشائد وہ کوئی مدد کر سکے۔
وہ رات تو ہم نے جوں توں کر کے کاٹی صبح میں مال خلیل کے سپرد کرتے ہوئے خود شہر جانے کیلئے ویگن سٹاپ پر آ گیا۔
سائیں شیر علی ریلوے پھاٹک کے پاس اسلام بلڈنگ میں کرایہ کی دکان میں اپنا آستانہ بنائے ہوئے تھا اور کافی سارے لوگ اِرد گرد موجود تھے میں نے ان کے قریب بیٹھتے بڑے دُکھ کے ساتھ اپنی بہن کیساتھ گزرنے والے حالات سے انہیں آگاہ کیا۔
انہوںنے کہا کہ ’’میں تو چل پھر نہیں سکتا میں تمہیں ایک عامل کا پتہ بتا تا ہوں تم اس کے پاس چلے جائو پھاٹک کے دوسری طرف شہزاد دواخانہ کے قریب وہ ملے گا۔لیاقت عرف عامل شہباز نام ہے اس کا ،سنا ہے وہ جادو ٹونہ اور جنات اُتارنے کادھندا کر تا ہے ‘‘
میں سائیں شیر علی خان کا شکریہ ادا کر تے عامل شہباز کو تلاش کرتا اس کی جادو نگری میں پہنچ گیا۔ باہر دوکان کے چاروں جانب خوفناک شکلوں کے جنات کی تصاویر آویزاںتھیں۔ دوکان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا پہلے حصہ میں ایک نوعمر اٹھارہ سالہ عامل کرسی میز پر موجود تھا جس سے میں نے لیاقی عرف عامل شہباز کالے علم کی کاٹ ،محبوب آپ کے قدموںمیں، امتحا ن میں بغیر پڑھے کامیابی وغیرہ وغیرہ کے بارے میں پوچھا۔ اس نے آنے کا مقصد پوچھا تو میں نے سارے حالات اس کے گوش گزارے ۔وہ اٹھ کر اندر گیا اورآکر مجھے انتظار کرنے کا کہا۔ مجھ سے چائے پینے کا پوچھا میں نے پینے کیلئے ہاں کر دی تو اس نے اُٹھ کر باہر کسی کو اشارہ کیا اور اندر آکر پھر اپنی کرسی پر آن بیٹھا۔ تھوڑی دیر بعد چائے آگئی اور میں کپ پکڑ کر پینے لگا۔
اسی دوران اندر سے ایک سترہ اٹھارہ سالہ لڑکی نکلی جس کا چہرہ اُترا ہوا تھا اور کے بال اُلجھے ہوئے تھے جس کے ہاتھ میں پکڑی کتابیں دیکھ کر یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کوئی سٹوڈنٹ ہے اور بغیر پڑھائی کے لئے عامل شہباز لیاقو سے امتحان میں فسٹ کلاس نمبر لگوانے آئی تھی۔
میں نے جلدی جلدی چائے کا کپ ختم کیا اور لڑکے نے مجھے اندر جانے کا کہا ۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے ناگوار سی بدبو کا احساس ہوا، میرے سامنے گائو تکیہ کا سہارا لئے ایک دو من وزنی پہلوان نما عامل بیٹھا تھا جس کے چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔
’’ آئو بیٹا‘‘، اس نے خمار آلود آواز میں میرا خیر مقدم کیا اور کارپٹ کے اوپر پڑی گدیوں میں سے ایک پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’ہاں بتائو میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ ‘‘عامل شہباز لیاقو نے میرے آنے کا مقصد پوچھا۔
میں نے سارا واقعہ پرانے قبرستان سے لیکر جو جو نوری کو پیش آیا اسے بتایا تو اس نے پچاس ہزار روپے کڑاہی کے نام پر اور آنے جانے کا خرچہ الگ مانگا۔
ٹیکسی اسٹینڈ ساتھ ہی تھا۔اس نے لڑکے کو بھیج کر گاڑی کے مالک کو بلوا یا اور سکھ پور کا کرایہ پوچھا۔ اُس نے آنے جانے کے تین ہزار علاوہ پٹرول اور روٹی پانی مانگے ۔عامل لیاقت نے خود ہی بھائو تائو کیا اور پچیس سو روپے پر بات پکی کرلی۔
گھر سے چلتے وقت میں نے تھوڑے بہت پیسے پاس رکھ لئے تھے ان میں سے دو ہزار گاڑی والے کو دیئے اور باقی سکھ پور جا کر ادائیگی کرنے کا کہا۔
عامل شہباز آگے ،میںاور لڑکا پیچھے بیٹھ گئے۔ گاڑی پٹرول پمپ پر آرُکی ،دو ہزار کا پٹرول ڈلوانے کے بعد عامل صاحب نے لڑکے کو اور مجھے پٹرول پمپ کی شاپ سے کھانے پینے کی اشیاء لانے بھیج دیا۔میرا سات آٹھ سو روپے کا خرچہ ہوا ۔ پتہ نہیں اس کے جسم سے اتنی ناگوار بدبو کیوں اُٹھ رہی تھی۔ کھانے پینے کے بعد وہ خراٹے لینے لگا ۔اگر گاڑی کے اندر اے سی آن نہ ہوتا تو میں اس گندی بدبو جو عامل کے بھینسے نما جسم سے اُٹھ رہی تھی سے نجات پانے کیلئے گاڑی کا شیشہ نیچے کر دیتا۔
سُکھ پور آتے نیم تاریکی پھیل چکی تھی اور ہم اپنی پکھیوں میںپہنچ گئے۔ اماںنے مجھے بتایا کہ نوری دن بھر اسی عالم میں رہی ہے اب تھوڑی دیر پہلے ہی اس کی آنکھ لگی ہے۔ گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کروا کر میں نے خلیل کو چار پائی لانے کا کہا اور اماں کو چائے بنانے کا کہہ دیا۔
عامل لیاقی نے سب موجود لوگوں کو ہماری پکھی سے دو ر ہٹا دیا اورساتھ ہی بکس سے ایک بڑی سی چادر جس پر خوفناک تصویر بنی ہوئی تھی جس کے بارے میں اس نے بتایا کہ شہنشاہ جنات کی تصویر ہے جو میں حاضرکرونگا اور اس کے ذریعہ سے نوری پر عاشق جن کو قابو کر کے ساتھ لے جائوں گا تاکہ وہ پھر کبھی نوری کو تنگ نہ کرے ۔کچھ ایسا ہی لڑ پڑ اور بھی سامان تھا جو اس نے ہماری پکھی کے چاروں جانب پھیلا دیا اور خود اپنے جسم پر سیاہ رنگ کا ریشمی لبادہ پہن لیا۔
اس کیساتھ آیالڑکا پکھی کے باہر چٹائی پر بیٹھ گیا اور کوئی عمل پڑھنے لگا جبکہ عامل شہباز لیاقی ہمیں پکھی سے دور رہنے کی تلقین کرتا میری پکھی کے اندر داخل ہو گیا اور اکٹھاکیا ہوا پردہ اس نے کھول کر پکھی کا داخلی حصہ کور کر دیا۔نوری اُٹھ بیٹھی تھی اور سہمی نظروں سے عامل شہباز لیاقت کی جانب دیکھ رہی تھی۔
میں نے اپنی بہن کو تسلی دیتے کہا کہ ’’یہ بہت بڑے عامل ہیں یہ اس جن کو پکڑنے آئے ہیں ۔‘‘
’’بشیر، تم یہ سب کیوں کر رہے ہو وہ مجھے کچھ نہیں کہتا وہ تو سارا دن میرے ساتھ ہنستا کھیلتا پھرتاہے مجھے آپی کہہ کر مخاطب کرتا ہے خود ہی چلا جائیگا۔ میں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی ‘‘۔ اس سے پہلے کہ میں بولتا عامل شہباز لیاقو نے نوری کے منہ پر تھپڑ جڑ دیا۔
’’ بد بخت چکمہ دیتے ہو میں بندوبست کرتا ہوں تمہارا ‘‘نوری کو یہ توقع نہیں تھی کہ اس کے ساتھ یہ برتائو ہو گا وہ مارے ڈر کے سہم گئی۔
’’بشیر تم کڑاہی کی رقم کا بندوبست کرو میں اس بد بخت کو قابو کرتا ہوں ‘‘اس نے ساتھ لائی مٹی کی ہنڈیا کا ڈھکن اُتارتے ہنڈیا زمین پر رکھتے جیب سے بڑا سارا چاقو نکالتے اسے کھولا۔
’’اور ہاں تم پکھی سے دو سو قدم دور رہو گے اور جو حصار میں نے کھینچا ہے اس کے اندر کوئی نہ آنے پائے تمہیں سختی سے ہدایت ہے ورنہ اگر کسی کا نقصان ہو گیا تو وہ خود ذمہ دار ہوگا‘‘۔
جی بہتر۔ میں نے اپنی بہن کی طرف دیکھتے کہا اور پکھی سے باہر آگیا۔
باہر وہ لڑکا اوٹ پٹانگ کچھ اونچی آوازمیں پڑھ رہا تھا سارے قبیلہ کے لوگ ایک جگہ بیٹھے نوری کیلئے دُعائیں مانگ رہے تھے پکھی کے اندر مکمل خاموشی تھی۔ میرے سمیت ہر کسی کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا کہ دیکھیں اب کیا ہو؟
یکدم میری پکھی سے نوری کے گالی گلوچ اور مار پیٹ کی آوازیں آنے لگیں ہم سب نے سمجھا کہ اندر عامل شہباز لیاقی جنات کیساتھ ہاتھا پائی کر رہا ہے ۔اسی اثنا میں نوری درختوں سے لکڑیاں کاٹنے والا کاپا لہراتی عامل شہباز کے پیچھے بھاگتی پکھی سے باہر نکلی ۔ عامل کی شلوار پیروں میں تھی اور وہ چیخ و پکار کررہا تھا۔
نوری نے بتایا کہ ’’یہ مجھ سے بد تمیزی کر نے لگا تھا یہ کوئی عامل وامل نہیں یہ تو کوئی بدکار مسٹنڈا ہے ‘‘اُس کے منہ سے یہ سب کچھ سن کر ہم سب قبیلہ والوں نے دونوں استاد شاگردکو جوتوں پر رکھ لیا۔ حاجی غفور نے بڑی مشکل سے ہم سب پر قابو پایا اور وہ اپنا سارا جادو ٹونہ چھوڑکر گاڑی میں نودو گیارہ ہوگئے۔
نوری نے مجھے بتایا کہ’’ بشیر، اس بچے سے مجھے کوئی خطرہ نہیں جتنا تم اس کے پیچھے پڑو گے وہ مجھے تنگ کرے گا‘‘۔
میں اپنی بہن کی بات پر رضا مند ہو گیا اور زندگی آہستہ آہستہ پرانی ڈگر پر چل پڑی ۔
اب نوری دوبارہ میرے ساتھ مال لے کر جانے لگ گئی تھی۔ قبیلہ کی دوسری لڑکیاں جو نوری کی ہم عمر تھیں اس سے ملتے کتراتی تھیں۔ میرا دھیان اپنی بہن پر رہتا،مجھے پتہ چل جاتا تھا جب شبی ہمارے درمیان آجاتااکثراوقات وہ مختلف شکلیں اختیار کر لیتا تھاکبھی کسی جانور کی شکل کبھی بڑے سے سانپ کی شکل ،نوری ان سب کو پہچان لیتی تھی۔ میں اس دوران نوری سے دور جاکر مال کی نگرانی میں لگ جاتا۔
نوری اور شبی کی دوستی کو دوسرا سال جا رہا تھا میرے والد اور بھائی اس صورت حال سے خاصے پریشان تھے مگر میری اماں اور میں انہیں مطمئن کر دیتے کہ نوری کی جان کو کوئی خطرہ وغیرہ نہیں وہ جنات کا چھوٹا سا بچہ ہے اور نوری کو آپی کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ ہماری باتوں کے باوجود میرے والد مطمئن نہیں ہو پاتے تھے۔
اب یہ ہونے لگا تھا کہ نوری راتوں کو پکھی سے نکل کر قریبی کھیتوں کی طرف چلی جاتی اور گھنٹوں شبی کے ساتھ گھومتی پھرتی۔ ہم ماں بیٹا بھی اس بات کے عادی ہو چکے تھے۔ جب کبھی نوری کے پاس شبی آتا تو میری اماں کو اماں اور مجھے بشیر بھائی کہہ کر مخاطب کر تا نوری کی آواز اس وقت بچے کی آواز میں بد ل جاتی تھی اور وہ اسی لب و لہجہ میں ہم سے باتیں کرتی رہتی۔نوری نے بتایا کہ شبی سے چھوٹا اس کا بھائی شاہ زیب بھی ہے کل رات کو اسے بھی ساتھ لایا تھا وہ بھی مجھ سے بڑے پیار سے ملا اور ہم تینوںکھیلتے رہے تھے۔
اب یہ سلسلہ آگے بڑھتا جا رہا تھا ۔نوری مجھے مال کے پاس چھوڑ کر قبرستان کے آخری حصہ کی جانب چلی جاتی جہاں پہاڑی کیکروں کے گنجان جھنڈ تھے ۔ نوری کی زبانی پتہ چلا کہ شبی اور اس کے گھرو الے اس گنجان جھنڈ میں رہتے تھے اور وہ اس کے سارے گھروالوں کو مل چکی تھی۔ اس نے مجھے یہاں تک بتایا تھا کہ وہ بھی ہماری طرح زندگی بسر کرتے ہیں وہ باقاعدہ انسانوں میں رہ کر کام دھندہ کر کے اپنی روزی کماتے ہیں نماز قرآن کی پابندی کرتے اورسب انسان دوست ہیں۔
میں نے نوری سے اظہار کیا کہ وہ شاہ زیب کو میرا دوست بنا دے مگر اس نے یہ کہہ کر مجھے خاموش کروا دیا کہ’’ شبی تم سے سخت ناراض ہے جو تم اس بدمعاش پاکھنڈی موٹے بھینسے کو لے آئے تھے جس نے مجھے بے آبرو کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔ وہ تو خیر ہوئی کہ شبی اور شاہ زیب جا چکے تھے اگران کی موجودگی میں آجاتا تودونوںنے اسے جان سے مار دینا تھا۔‘‘
جب سے نوری جنات میں رہ رہی تھی اس میں دن بہ دن بہت سی تبدیلیاں آگئی تھیں کھانا کم کھاتی تھی سوتی بھی بہت کم تھی الگ تھلگ اپنے آپ میں مگن رہتی تھی ۔پہلے ہم بہن بھائی جب مال نکالتے تھے تووہ چلتے چلتے دنیا جہان کی باتیں کرتی جاتی مگر اب وہ خاموشی سے آگے چلتی رہتی ۔پہلے پہلے بوزو شبی پر بھونکتا تھا مگر آہستہ آہستہ وہ بھی ان کا عادی ہو گیا نہ ان کے آنے کا کوئی نوٹس لیتا نہ جانے کا۔
میرے والد اور بھائی دو ماہ کی چھٹی پر آئے ہوئے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ نوری کی اور میری شادی کر کے جائیںمگر ان کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ نوری کی بات چلائیں۔ نوری پر شبی کا دَبا پڑا ہوا تھاکہ میں نے ہمت کر کے شبی کو مخاطب کیا ۔
’’ہاں بولو بھائی ‘‘اس نے اپنی آواز میں جواب دیا۔
’’ابو نوری کی اور میری شادی کرنا چاہتے ہیں تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟‘‘۔ جواباً اس نے خاموشی اختیار کر لی اور تھوڑی دیر بعد نوری کو چھوڑ کر چلا گیا۔
نوری جب ہوش میں آتی تھی تو اسے بالکل بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ شبی سے کیا باتیں ہوئیں یا کیا چلتا رہا۔
میرے والد صاحب نے نوری پر سختی کر دی تھی کہ خبردار جو رات کو اُٹھ کر اکیلی باہر گئی، اپنی اماں کو ساتھ لے کر جایا کرو۔ نوری حاجی صاحب سے بہت ڈرتی تھی ۔
’’ جی ابا جی‘‘۔
نوری بے چینی کی حالت میں اپنی چارپائی پر کروٹیں بدل رہی تھی میں نے محسوس کر لیا تھا کہ شبی کہیں قریب ہی ہے۔ ابا جی پکھی کے باہر پڑے سو رہے تھے اور اماں کی چارپائی میرے دوسری جانب تھی میںنے کروٹ لیتے اپنی ماں کا کندھا ہلایا تو وہ ہڑ بڑا کر اُٹھ گئی ۔میں نے اشارے سے انہیں بتایا کہ نوری باہر جانا چاہتی ہے۔ اماں نے نوری کیجانب دیکھا جو اب اٹھ کر بیٹھ گئی تھی اماں سر ہلاتی اٹھی اور دونوں ماں بیٹی پکھی سے باہر نکل گئیں۔
میں پڑا اپنی بہن کی زندگی میں اٹھنے والی اس صورتحال کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے لئے سوچتا رہا ۔کافی دیر ہو چکی تھی انہیں گئے ہوئے ابھی تک ان کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ جب سے نوری کی شادی کے بارے میں مَیں نے شبی سے بات کی تھی اس کے آنیکی روٹین ذرا کم کم ہو گئی تھی ۔ آج بھی وہ تین دن کے بعد آیا تھا ۔نوری اس کے نہ آنے پر کافی پریشان تھی کہ کہیں وہ ناراض تو نہیں ہو گیا ۔ اماں اور نوری واپس پکھی میں آئیں تو اماں کے پاس کپڑے میں کچھ تھا میرے پوچھنے پر انہوںنے بتایا کہ شبی اور اس کے ماں باپ آئے تھے اور جاتے ہوئے یہ دے گئے ہیں۔ اماں نے کپڑے میں بندھے چاندی کے زیورات میرے سامنے رکھتے بتایا۔وہ زیورات پرانے تھے مگر دیکھنے میں اچھے نظر آئے ۔ یہ شبی نے نوری کی شادی کیلئے دیئے ہیں۔شبی کی والدہ بتا رہی تھی کہ وہ زیورات اس کے ہیں اور اپنی بیٹی نوری کو اپنی خوشی سے دے رہی ہے۔
’’اماں سن رکھا ہے کہ جنات جو کچھ دیتے ہیں بعد میں غائب ہو جاتا ہے ‘‘میں نے سنی سنائی بات دہرائی تو نوری بیچ میں بول اٹھی۔
’’ بشیر! وہ میرے ماں باپ کی جگہ ہیں بہت پیار کرتے ہیں تم نے شبی سے میری شادی کی بات کی تھی تو اس نے واپس جاکر اپنے گھروالوں کو بتایا تھا یہ جو اس کے آنے میںکئی دن لگ گئے وہ یہاں سے کسی اور جگہ گئے ہوئے تھے‘‘ بتا کر وہ خاموش ہو گئی۔
ہمارے لوگ سونا بہت کم استعمال کرتے ہیں زیادہ تر ہماری شادیوں پر ہماری عورتیں اور لڑکیاںچاندی کے ہی بھاری بھر کم زیورات پہنتی ہیں ۔ جو دھڑکا میرے دل میں لگا ہوا تھا وہ ختم ہو گیاکہ شبی نوری کی شادی میں روڑے نہ اٹکائے۔ میرے سر پر سے بوجھ اُتر گیا تھا۔ دو چار روز بعد نوری کا خلیل سے اور میرا خلیل کی بہن روشنی سے رشتہ پکا ہو گیا اور شادی کی تاریخ بھی طے ہوگئی۔
جوں جوں شادی کی تاریخ قریب آرہی تھی ہم بہن بھائی جہاں اپنی اپنی شادی کیلئے خوش تھے وہاں خلیل کی طرف سے بھی پریشان ہو رہے تھے جس نے دبی زبان میں اپنی برادری کے لوگوںکو نوری پر جن عاشق کا بھی شوشہ چھوڑا ہوا تھا جبکہ شبی نوری کو آپی کہہ کر پکارتا تھا۔ میں اور اماں شبی کے والدین کی طرف سے دئیے گئے گہنے جو خاصے سال خودرہ تھے کو لیکر سنار کے پاس آئے کہ ان کو دھو دے مگر سنار وہ خریدنے پر بضد تھا کہ میں ان کے بدلے جدید انداز کے زیورات آپ کو دوگنے وزن میں دے دیتا ہوں آپ انہیںمجھے دے دیں کیونکہ مجھے پرانی چیزیں اکٹھی کرنیکا شوق ہے مگر ہم نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور آخر کار اس نے ہمارے سامنے ان زیورات کو مختلف محلول میں ڈبو کر نکالا تو ان کے نکھار میں چمک آگئی۔ زیورات لے کر ہم ماں بیٹا دوسری خریداری میں لگ گئے۔
آخر کار نوری خلیل کی بیوی بن گئی اور روشنی میری۔ وہ بارات لیکر ہماری پکھی میں آئے اور دوسرے روز میری بارات ان کی پکھی میں گئی۔ خوب خوشی منائی جارہی تھی نوری کی شادی میں شبی سمیت اس کے گھر والوں نے بھی شرکت کی اور دعوت میں ہمارے ساتھ شریک رہے۔
نوری خلیل کے ساتھ بہت خوش تھی۔ جومال پہلے روشنی اور خلیل لے کر جاتے تھے اب روشنی کی جگہ نوری اور میرے ساتھ روشنی تھی۔ روشنی کے آجانے پر میری پکھی کے طور طریقے بدل گئے تھے نوری کا میل سب سے الگ تھاجبکہ روشنی کی عادتیں مختلف تھی ۔ جب سے شادی ہوئی میری سات بھیڑیں معمولی اونچ نیچ کی بنا پر ذبح ہو چکی تھیں۔ کبھی اپھارہ ہو گیا کبھی چارہ لڑ گیاکبھی منہ خور ہو گیا میرے والد اس صورتحال سے بہت دلبرداشتہ ہو چکے تھے ان کا دھیان شبی کی طرف تھا کہ یہ سب کچھ جنات کی کارستانیاں ہیں مگر میرا دل نہیں مان رہا تھا لیکن اندر سے میں بھی پریشان تھا کہ صرف یہ سارا کچھ میرے مال کیساتھ کیوں ؟دوسرے لوگوں کے بھی تو سینکڑوں بھیڑ چھترے تھے۔
گائوں کے مولوی صاحب سے دم جھاڑا بھی کروایا حاجی غفور صاحب سے بھی تعویز لے کر بھیڑوں کے گلے میں ڈالے کوئی کہہ رہا تھا کہ روشنی کا پیربھاری نکلا وغیرہ وغیرہ۔ جتنے منہ اتنی باتیں مگر میں کوئی نوٹس نہیں لے رہا تھا ۔ حاجی صاحب کے جانے کاوقت ہو گیا وہ مجھے کئی ہدایتیں دیتے واپس چلے گئے ۔
اب میں اور روشنی اپنے مال کو سنبھالنے میں لگ گئے تھے ۔ خلیل نوری کے معاملات میں دخل نہیں دیتا تھا وہ اگر رات کو اٹھ کر پکھی سے نکل جاتی تو وہ بیٹھ کر اتنظار کرتا رہتا مگر اس کے پیچھے ہر گز نہیں جاتاتھا۔ شبی نے دو چار بار خلیل سے بات بھی کی تھی جس کی وجہ سے اس کا ڈر قدرے کم ہو گیا تھا پھر ان کی خانگی زندگی میں شبی کی کوئی مداخلت نہیں تھی۔
رہنے سہنے کا ڈھب قدرے بدلتا جارہا تھا۔ ہوسِ زر نے دونوں کو اپنا غلام بنا ڈالا تھاپہ در پہ بھیڑ چھترے بکنے لگے تھے قصابوں کے پاس۔ میں نے دبی زبان میں اس بات کا تذکرہ روشنی سے کیا تو اس نے یہ کہہ کر مجھے چپ کروا دیا کہ
’’ بشیر تم نوری اور خلیل کو ان کے حال پر چھوڑ دو خلیل اپنی مرضی کا مالک ہے گھر پر اس کا ہی کنٹرول ہے ابا اماں اوردوسرے گھر کے لوگ اس کے معاملہ میں بالکل بھی دخل نہیں دیتے‘‘ روشنی نے مجھے سمجھایا۔میں نے روشنی کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔
خلیل اور نوری نے اپنی پکھی ذرا دو ر ہٹ کر بنا لی تھی ۔گو کہ وہ قبیلہ میںہی تھے مگر سب سے الگ تھلگ ویسے بھی نوری پر جن کی وجہ سے سبھی ملنے جلنے سے کتراتے تھے۔
شبی کو نوری اور خلیل نے اپنے اشاروں پر چلانا شروع کر دیاتھا وہ دونوں اس سے سودا سلف منگوانے لگے تھے ۔ پہلے پہل تو اسے پیسے دیکر بھیجتے پھر پیسوں کا سلسلہ بندکر دیا گیا۔ اب جو بھی کھانے پینے کی چیز مانگتے شبی پل بھر میں لاحاضر کرتا ۔ شبی نے دونوں کو سختی سے منع کر رکھاتھا کہ جب کبھی شاہ زیب میرے ہمراہ آئے تو تم لوگ کوئی بھی ایسی بات یا فرمائش نہیں کرنا میرے والد ین اس بات پر سخت ناراض ہو نگے ۔ وہ صوم و الصلوۃ کے پانبد ہیں اور ان کو یہ بات ناگوارلگے گی۔
دونوں نے مجھے جب بات بتائی تو میں نے نوری کو منع کر دیا کہ وہ تمہیں بہن کی طرح پیار کرتا ہے اور پھر وہ مافوق الفطرت مخلوق ہونے کے ناطے کبھی ناراض ہو گیاتو تمہیں نقصان پہنچائے گا جیساکہ مجھے پہنچا رہا ہے میرا مال پراسرار بیماری کا شکار ہے ۔
’’ ارے نہیں بشیر ،وہ بھلا بچہ تمہارے مال کا کیوں نقصان کریگا؟۔‘‘ نوری نے میرے وسوسے کو مسترد کر تے شبی کی طرفداری کی۔
خدا کر ے ایسا ہی ہو میں نے خاموشی اختیار کر لی کہ جو بھی ہو اس سے سمجھوتہ تو کرنا پڑیگا ۔
خلیل کے ٹھاٹھ باٹھ بدل رہے تھے نوری بھی اس کے ساتھ شامل تھی اور اس نے دبی زبان میں یہ اظہار کر دیا تھا کہ بہت مال کی خدمت کر دیکھی اب ہم سکھ پور سے نقل مکانی کرکے شہر جانا چاہتے ہیں خلیل اب کوئی اور کام کریگا۔
اب نوری اپنے گھر والی تھی میں اس پر اپنی مرضی نہیں ٹھونس سکتا تھا اس لئے میں نے چپ سادھ لی کہ جو مرضی آئے کرو۔
خلیل تھوڑا بہت راج گیری کا کام جانتا تھا دونوں میاں بیوی سکھ پور سے شہر شفٹ ہو گئے۔ کوئی بڑی بلڈنگ بن رہی تھی دونوںکو کام مل گیا۔نوری مزدوری کا اور خلیل کو مستریوں کا ۔
اسی بلڈنگ میں انہوںنے مالک سے پوچھ کر رہائش اختیار کر لی ۔انہیں سکھ پور سے گئے تین ماہ سے اوپر ہو گئے تھے میں کبھی کبھار ان کو جا کر مل آتا تھا کئی بار میں نے خلیل کو واپسی کا کہا مگر وہ دونوں میری بات نہ مانے اور میں مایوسی ہوگیا۔
خلیل اور نوری شبی سے ایسے کام لینے لگے تھے جس میں خلیل کی چالاکی شامل تھی وہ خود کو بڑا عامل ماننے لگا تھا ۔سب سے پہلے بلڈنگ مالک حاجی نور احمد کو اس نے قائل کیا پھر یہ سلسلہ اس کے دو ستوں رشتہ داروں تک پھیل گیا۔
شبی ان کے سامنے جو بھی کوئی ہوتا مختلف چیزیں اِدھر اُدھر کرتا تاکہ ان کو یقین آجائے کہ خلیل کے ہاتھ میں جنات ہیں اور وہ ان سے کام لے سکتا ہے۔ کم عقیدہ کے لوگ تو دونوں میاں بیوی کو پوجنے تک جاتے۔ اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس سے یہ کہا جاتا کہ تم پر کالے جادو کا وار کیا گیا ہے یہ ختم کرنے کیلئے جنات کو حاضر کرنا پڑے گا وہ اس کا توڑ کریں گے ان کو بلوانے کیلئے کچھ چیزیں درکار ہونگی اس پر یہ خرچ آئے گا۔
شبی کو بلایا جاتا اور طرح طرح کے ہتھکنڈے دکھاکر سائل کو قابو کیا جاتا تھا۔ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی چل رہی تھی ۔ دونوںمیاں بیوی دھڑا ھڑ چاندی سمیٹ رہے تھے۔ جب لوگوں کے سامنے شبی کو بلایا جاتا تو خلیل اسے گالی گلوچ کرتا تاکہ وہاں موجود کام کر وانے والوں پر اس کی دھاک جمے۔ نوری نے بھی وہ رویہ اختیارکرلیا تھا ۔
ایک دن شبی کو حاضر کرنے کیلئے آوازیں دیں تو وہ شاید کہیں دور تھایا ویسے ہی وہ جان بوجھ کر سُنی اَن سُنی کر رہا تھا۔ جب وہ نوری کے پاس آیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئی ۔ شبی نے غصہ سے خلیل کو دھکا دیا جو اس سے بد تمیزی کر رہا تھا اور واپس چلا گیا۔
کئی دن تک شبی واپس نہ آیا دونوں کو تشویش ہوئی اور دونوں پریشان ہو گئے نوری دن رات شبی کو واپس بلانے کی کوشش کر تی رہی مگر وہ نہ آیا۔ اگر کوئی کام کے سلسلہ میں آتا تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتے۔
اب ان کی توجہ صرف بلڈنگ میں کام کی طرف تھی جب شبی کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو وہ نوری کو ملنے آگیا دونوں بلڈنگ کی چوتھی منزل پر فرنٹ کی طرف لگے بڑے بڑے لکڑی کے پھٹوں پر کام کر رہے تھے۔خلیل کو اس کی آمد کا پتہ چل گیاتھا اس نے پھنکار کر اسے ڈانٹا کہ کہاں گئے تھے اتنے دن ۔ نوری نے مداخلت کی تو اسے بھی اس نے جھڑک دیا۔
یکدم خلیل ہوا میں اچھلا اور بیچ سڑک پر گرتے تربوز کی طرح بکھر گیا۔ نوری سکتہ کی حالت میں اوپر کھڑی اس کی لاش کے گرد ہجوم کو دیکھ رہی تھی۔ نوری کیمطابق شبی کوئی بات کئے بغیر چلا گیا تھا۔ ہمیں پتہ چلا تو ڈیرہ کے دوسرے لوگوں سے مل کر ہم اس کی لاش اور نوری کو لے کر واپس سُکھ پر آگئے۔
نوری آج بھی شبی کو یاد کر کے دُکھی ہو جاتی ہے اسے اُمید ہے کہ ایک دن شبی اچانک آکر کہے گا ۔
’’آپی کیا حال ہے؟‘‘۔
٭٭٭٭٭

NO COMMENTS