32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

جزیروں کے دیس میں|سفرنامہ ڈنمارک

خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک

جزیروں کے دیس میں

طارق مرزا، سڈنی

جنگ و جدل والے بد قسمت علاقوں سے واپس آتے ہیں اور اس سرزمین کا ذکر کرتے ہیں جس کا ماضی خونی جنگوں سے عبارت ہے مگر اب وہاں امن کی فاختہ ڈالی ڈالی چہکتی پھرتی ہے۔ جہاں وادیاں پھولوں سے مہکتی ہیں۔ جہاں روئی کے گالوں کی طرح برف گرتی ہے تو زمین کی سبز چادر سفیدی میں ڈھل جاتی ہے۔ اشجار سفید پیرہن پہن لیتے ہیں۔ جہاں سمندر کا نیلا پانی شہروں کے اندر تک شاخ در شاخ پھیلا ہے۔ جہاں سرِ شام گھروں کی چمنیوں سے دُھواں اُٹھتا ہے۔ جہاں گھنے جنگل ہیں، رنگین وادیاں ہیں ، سرسبز پہاڑ ہیں اور یخ بستہ ہوائیں سیٹیاں بجاتی ہیں۔ یہ یورپ کا شمالی حصّہ اسکینڈے نیویا ہے۔
.ہمارا طیارہ اس خطّے کے سب سے اہم ملک ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے گرد و نواح میں پہنچ چکا تھا
تھوڑی دیر قبل سپیدۂ سحر نمودار ہوا تھا جو دھیرے دھیرے ارضِ ڈنمارک کو منور کر رہا تھا۔ اس نور کے پیچھے اس نور کا مآخذ آفتا ب افق سے نمودار ہونا شروع ہوا۔
اس کا چہرہ حیا سے لال سُرخ تھا۔ شاید آسٹریلیا سے ڈنمارک کی دوڑ میں شکست کا اثر تھا۔ سارے راستے وہ ہمیں چُھو بھی نہیں سکا تھا اور ہم اُس کے آگے آگے چلتے اُس سے پہلے ڈنمارک پہنچ گئے تھے۔ تیئس گھنٹے کے اس سفر کے سوران سُورج کہیں طلوع بھی ہوا اور غروب بھی ہو گیا مگر ہمیں دکھائی نہیں دیا۔
یُوں میری زندگی سے ایک دن غائب ہو گیا۔ اُس کی جگہ تئیس گھنٹے لمبی رات نے  لے لی۔ اب تک ہزاروں عُشاق نے درازی شبِ وصل کی دُعا مانگی ہو گی مگر آ ج تک کسی عاشق کو اتنی طویل شب نصیب نہیں ہوئی، جتنی مجھے ملی تھی۔
فرق صرف اتنا تھا کہ ان عشاق کے پہلو میں اُن کا محبوب ہوتا ہو گا جبکہ میرے پہلو والی سیٹ پر ایک پٹھان براجمان تھا۔ اُ ن کے کانوں میں کوئی محبت بھری سرگوشیاں کرتا ہو گا۔ جبکہ میرے کانوں میں طیارے کی گھوں گھوں کی صدا گونجتی تھی۔ اُن کے چہروں پر کسی کی دراز زُلفیں سایہ فگن ہوں گی۔ آنکھوں میں شبِ وصل کا خمار ہو گا جبکہ میری آنکھیں نیند اور بدن تھکن کا شکار تھا۔ جتنی بھی طویل تھی، بہرصورت رات گزر گئی۔
؎ رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑئیے رات گئی بات گئی
اُدھر چاند جو تئیس گھنٹے قبل آسٹریلیا کی فضاؤں سے ہمارے ساتھ چلا تھا، ہمیں منزل پر پہنچا کر اپنا چہرہ ڈھا نپ چکا تھا۔ کسی پری چہرہ کا نہ سہی، اصل چاند کے رُخِ روشن کا شب بھر ساتھ رہا ۔جس سے تنہائی اور طوالتِ شب دونوں کا گلہ جاتا رہا کہ یہ بھی نصیب کی بات ہے۔
ہمارا طیارہ زمین کے قریب محوِ پر واز تھا۔ صبح کی سنہری کرنوں میں ڈنمارک کی سرسبز و شاداب سرزمین، جگہ جگہ بہتے چشمے، جھیلیں، پگھلتی برفیں ، اشجار کے جُھنڈ، پھولوں کے رنگین قطعات، مویشیوں کی چراہ گاہیں اور سُرخ ٹائلوں والے دلکش مکانات نظر آ رہے تھے۔ پانی اور سبزہ سارے منظر پر حاوی تھا۔ جھیلوں، ندیوں، نالوں، تالابوں اور نہروں میں بہتا پانی سُورج کی کرنوں میں خوب چمک رہا تھا۔
پانی کے ساتھ ساتھ ہر سو سبزے کی بہار تھی۔ وسیع و عریض چراگاہیں جہاں گھوڑے، گائیں اور بھیڑ بکریاں چر رہے تھے۔ یہ فارم اتنے بڑے تھے کہ ان کا درمیانی فاصلہ میلوں پر محیط تھا۔ ان سبزہ زاروں کے علاوہ نیلے پانیوں والا دلکش سمندر بھی جیسے محوِ خواب تھا۔ ادھر کوپن ہیگن شہر کی عمارتیں سر اٹھائے کھڑی تھیں۔
شہر پر ایک چکر لگا کر ہمارا طیارہ شہر سے قدرے باہر ایئرپورٹ پر اُتر نے لگا۔ زمین پر اُتر نے سے پہلے پائلٹ  نے دانستہ کوپن ہیگن اور اس کے گرد و نواح کے دلکش نظاروں پر نچلی پرواز کی تاکہ مسافر ان مناظر سے شادمان ہو سکیں۔
مجھے گھر سے نکلے ستائیس گھنٹے گُزر چکے تھے۔ دوران پرواز بس نیند کے جھونکے ہی نصیب ہو ئے تھے کیونکہ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سونا خاصا مشکل ہے۔ بیٹھے بیٹھے میرا بدن اکڑ چکا تھا۔ بےخوابی اور تکان کی وجہ سے حالت خاصی خستہ تھی۔ جی چاہتا تھا کہ آرام دہ بستر ہو۔ جاتے ہی جس پر لمبی تان کر سو جاؤں۔ لیکن بستر ابھی میری قسمت میں نہیں تھا کیونکہ کوپن ہیگن میں میرے ہوٹل کا چیک اِن سہ پہر دو بجے سے پہلے ممکن نہیں تھا۔ جبکہ ابھی صبح کے سات بجے تھے۔ مزید یہ کہ آ ج شام پانچ بجے میری کتاب ’’ دُنیا رنگ رنگیلی‘‘ کی تقریبِ رونمائی ہو رہی تھی۔ گویا آ ج پورا دن بلکہ شام دیر تک آرام کا موقع نہیں تھا۔
اس کے علاوہ بھی کئی فکریں دامن گیر تھیں۔ سب سے پہلا مرحلہ ڈنمارک میں داخل ہو نے کا تھا۔ میں  نے کسی مُلک کا ویزہ نہیں لے رکھا تھا۔ آسٹریلین پاسپورٹ کے ساتھ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مگر ہر ملک کے قواعد و ضوابط اور جانچ پڑتال کے طریقے جُدا ہو تے ہیں۔ ان کی وجہ سے کہیں بھی اور کوئی بھی انہونی مسئلہ جنم  لے سکتا ہے جو میرے جیسے مسافر کے لیے باعثِ پریشانی بن سکتا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل میرا ایک پاکستانی نژاد آسٹریلین دوست چین گیا تو اُسے ٹرانزٹ ویزہ نہیں دیا گیا حالانکہ آسٹریلین شہریوں کو چین میں داخلے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہوٹل میں کمرا بُک ہو نے کے باوجود اس دوست کو بائیس گھنٹے ایئرپورٹ کے تکلیف دہ ماحول میں گزار نے پڑے۔ لہٰذا سفر میں ہمیشہ انگریزی والے سفر کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔
دوسری فکر یہ تھی کہ دو بجے تک چھے سات گھنٹے کہاں گزاروں۔ ہوٹل کی لابی میں اتنی دیر تک بیٹھنا مشکل تھا۔ خصوصاً جب آپ کے پاس سامان بھی ہو اور تھکے بھی ہوں۔ یہ سوچ کر مجھے ان یورپین لوگوں کی اُصول پسندی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ انہوں نے دو بجے کا وقت دیا تھا تو دو بجے سے پہلے چیک اِن ناممکن تھا۔ اگر وطنِ عزیز پاکستان میں ہوتے تو سو طریقے نکل آتے۔ ان طریقوں کا ذکر نہیں کروں گا کیونکہ تمام پاکستانی
بخوبی آگاہ ہیں۔
تیسری سوچ اپنے میزبانوں کے متعلق تھی۔ اگرچہ میں یورپ میں بغرضِ سیاحت آیا تھا مگر اُن تینوں ملکوں کی ادبی تنظیموں سے میرا رابطہ تھا اور تینوں جگہ احباب میرے لیے خصوصی تقریبات منعقد کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں ڈنمارک میں’’بیلی‘‘ نامی ادبی تنظیم میری میزبان تھی۔ اس تنظیم کے رُوحِ رواں رمضان رفیق صاحب مجھے لینے ایئرپورٹ آ رہے تھے۔ تاہم ان سے بالکل ابتدائی رابطہ تھا۔
میری نظر یں ارضی نظا روں پر جمی تھیں اور ذہن میں یہی افکار و خیالات محوِ گردش تھے۔ اُ س دوران ہمارا جہاز رن وے پر اُترا اور تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد ساکت ہو گیا۔ ایئرپور ٹ کے گرد و نواح میں دلکش سبزہ زار اور جھیلیں اور پھولوں کے رنگین قطعے انتہائی دِل نواز تھے۔

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے
https://shanurdu.com/in-the-land-of-the-islands/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles