صرف پچیس تیس برس قبل چین غربت کی چکی میں پس رہا تھا
طارق محمود مرزا، آسٹریلیا
چینی مزدور نیوزی لینڈ کے تاریخی اور دلکش قصبے ایرو ٹاؤن کی سونے کی کانوں میں مزدوری کرنے 1860 ء میں آئے تھے۔ 1930ء تک وہ وہاں موجود رہے۔
اس وقت تک سونے کی تلاش کا کام ختم ہو چکا تھا۔ اس لیے ایک حکم کے ذریعے تمام چینیوں کو ملک بدر کر دیا گیا۔ 1984ء میں ایروٹاؤن کو خالی کر کے اس کا آرکیالوجی آپریشن کیا گیا۔
کئی تاریخی عمارتیں منہدم ہو گئیں مگر انہیں اسی مواد کے ساتھ اسی شکل میں دوبارہ بنایا گیا۔ ایسی عمارتیں ایروٹاؤن کے چائنیز ولیج میں موجود ہیں۔
چینی کان کنوں کے ہاتھوں کے بنے یہ گھر ڈیڑھ سو سال بعد بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں۔ نہ صرف پتھروں کو جوڑ کر بنائے گئے یہ گھر اصلی حالت میں ہیں بلکہ یہ چینی گاؤں بھی اسی شکل میں موجود ہے۔
ہم اس چینی گاؤں میں گئے تو خود کو ڈیڑھ سو سال پیچھے لے گئے۔ جب پہاڑ کی ڈھلوانوں کے ساتھ پتھروں اور لکڑی سے بنے ان چھوٹے چھوٹے غار نما گھروں میں چینی مرد رہتے تھے۔ جن کے بیوی بچے اور دیگر عزیز و اقارب ہزاروں میل دور چین میں بستے تھے۔
یہ کان کن اہل خانہ کی کفالت کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر طویل اور جانگسل سفر کر کے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور امریکہ تک پہنچ جاتے تھے۔ ان دنوں یہ سفر مہینوں اور سالوں کا ہوتا تھا۔
چینی کان کن جو کچھ کماتے، وطن میں موجود عزیز و اقارب کو بھیج دیتے تھے۔ خود سردی سے ٹھٹھرتے، برفانی موسموں سے لڑتے، انگریز آقاؤں کے ظلم و زیادتی برداشت کرتے، زندگی کی صعوبتیں سہتے، وطن سے دوری کا دکھ جھیلتے، تنہائیوں کے کرب سے گزرتے، کنبے کی آسائش کی خاطر سالہا سال تک خون پسینہ ایک کرتے تھے۔
ایروٹاؤن میں چینیوں کے متروکہ گھر تو آج بھی نمائش کے لئے موجود ہیں۔ انہیں دکھا کر حکومت سالانہ کروڑوں ڈالر کماتی ہے، لیکن ان چینیوں کا کوئی ذکر یا نام و نشان باقی نہیں جنہوں نے پہاڑی کانوں کے اندر، سخت اور لمبے سفروں کے دوران اور موسم کی سختیوں سے لڑتے ہوئے اپنی جانیں دے دی تھیں۔
چین کے اندر غربت و افلاس کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے صرف پچیس تیس برس قبل چین غربت کی چکی میں بری طرح پس رہا تھا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں چین میں بھوک سے مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔
آسٹریلین چینی مصنف لی کین شین نے اپنی کتاب ماؤز لاسٹ ڈانسر میں لکھا ہے ”ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہمارے گاؤں کا کوئی خاندان ایسا نہیں تھا جہاں بھوک کی وجہ سے موت واقع نہ ہوئی ہو۔
یہ دور ایسا تھا کہ میرا اور میرے جیسے کروڑوں لوگوں کا بچپن انتہائی غربت، افلاس اور تنگی میں گزرا۔
کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانے کو نہیں ملا۔ گھر کو گرم رکھنے کے لئے لکڑی تک دستیاب نہیں تھی۔ مناسب لباس نہ ہونے کی وجہ سے میرے دو بھائیوں کو اسکول سے اٹھا دیا گیا۔ اکثر رات کے وقت ہم درختوں کی جڑیں ابال کر کھاتے تھے۔
کئی مرتبہ وہ بھی نہیں ملتی تھیں اور ہم بھوکے سو جاتے تھے۔ بھوک، سردی اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے میری نانی مر گئی تو اس کے کفن دفن کے لئے ہمارے پاس کچھ نہ تھا۔ ناچار اسے اپنے خستہ اور پرانے لباس میں ہی دفن کر دیا گیا۔
اس نے مزید لکھا ہے کہ جو لوگ بھوک کے ہاتھوں مرنے سے بچ جاتے تھے وہ ماؤ کے انقلاب کی نذر ہو جاتے تھے۔ ہر صبح ہمارے گاؤں کے چوراہے میں کسی نہ کسی شخص کی لاش لٹکی ملتی تھی۔ ان پر مقدمہ چلتا تھا نہ ان کے جرم کا علم ہوتا تھا۔
لوگ ڈر کے مارے لاش کے قریب نہیں جاتے تھے۔ اس اندھے انقلاب کی نذر ہونے والے اکثر لوگ بے گناہ ہوتے تھے۔ لیکن وہاں کون سنتا اور دیکھتا تھا۔“
جنگ، سیاسی ابتری اور حکومتوں کی بد انتظامیوں کی وجہ سے ملک غربت اور افلاس کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں۔ انیسویں صدی میں اوپیم جنگ کے نتیجے میں چین میں غربت اور بے روزگاری زور پکڑ گئی۔ لوگ بھوکے مرنے لگے۔
بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر ہزاروں چینیوں نے امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی سونے کی کانوں میں مزدوری کرنے کے لئے ان دور دراز ملکوں کا رخ کیا۔ وہاں جا کر بھی ان کی زندگیاں آسان نہیں تھیں۔
یہاں وہ غلام تو نہیں تھے مگر غلاموں کی سی زندگی بسر کرتے تھے۔ انہیں شہری حقوق اور مکمل آزادی حاصل نہیں تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر معتوب ٹھہرائے جاتے تھے۔ کئی ایک کو تو محض بدمعاشی دکھانے اور رعب ڈالنے کے لئے مار دیا جاتا تھا۔
باقیوں کو معاشرتی اور قانونی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ یوں یہ نسل امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پنپ نہ سکی اور انہیں اپنے آبائی ملک میں لوٹنا پڑا، جہاں پر حالات جوں کے توں تھے۔
چین میں اگرچہ غربت کا چکر ابھی بھی پوری طرح ختم نہیں ہوا لیکن پچھلے بیس پچیس برس میں بہت بہتری آئی ہے۔
موجودہ لیڈر شپ کے تحت معاشی خوشحالی کی طرف سفر تیزی سے جاری ہے۔ چیئرمین ماؤ کے دور میں چین صرف دوست ممالک کے ساتھ تجارت کرتا تھا جو ظاہر ہے محدود تھی۔ جب سے چین میں آزادانہ تجارت کی اجازت ملی ہے ملک میں زر مبادلہ کے انبار لگ گئے ہیں۔
جدید چین اگرچہ بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرا ہے لیکن وہ امریکہ کے برعکس دوسروں کے معاملات میں مداخلت سے گریزاں ہے۔
چین جنگ و جدل اور طاقت کی سیاست سے دور رہ کر امن کی فضا میں ملک کی معیشت کو بہتر سے بہتر اور اپنی عوام کو خوشحالی کی منزل تک پہنچانے میں تن دہی سے مصروف ہے۔
موجودہ چینی صدر شی جن پینگ نے ملک میں غربت اور کرپشن کے خاتمے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ان کا منصوبہ یہ ہے کہ سن دو ہزار پچیس تک ملک سے غربت کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس کے لئے چین میں دور رس معاشی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خاتمے اور صاف ستھری حکومت کی طرف خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
کرپشن کے خلاف اس بہت بڑی مہم میں چھوٹے بڑے کسی کی تفریق نہیں ہے۔ کئی سیاسی لیڈر اور وزرا کرپشن کے الزام میں دھر لیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ہزاروں افراد کو گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا ہے ۔
اس عمل سے عوام کے درمیان خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ وہ زیادہ محنت اور جانفشانی سے ملک کی تعمیر و ترقی میں جت گئے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب بے پناہ آبادی والا یہ ملک ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے ہو گا۔
نوے کی دہائی سے لے کر اب تک دنیا کے بہت سے ملکوں میں بہت معاشی تبدیلیاں آئی ہیں۔ اس دوران کئی ملک غربت اور افلاس کے گرداب سے آزاد ہو کر خوشحالی کی راہوں پر چل پڑے ہیں۔ ان خوش قسمت ملکوں کے درمیان ایک قدر مشترک ہے کہ ان کی سرحدوں پر یا ملک کے اندر جنگ و جدل نہیں ہے۔
دوسری طرف انہی بیس پچیس برسوں میں کئی ملک ترقی معکوس کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ سب اندرونی اور بیرونی جنگوں کا شکار ہوئے ہیں۔ جنگ انسانیت کی سب سے بڑی دشمن اور امن اس کی معراج ہے۔
ان ممالک میں وطن عزیز پاکستان، افغانستان، عراق، شام اور یمن شامل ہیں۔ جہاں امن ہو گا وہاں ترقی اور خوشحالی ہوگی۔ جہاں جنگ ہو گی وہاں موت اور تباہی ہو گی۔ دنیا کو امن کی سخت ضرورت ہے۔
( دُنیا رنگ رنگیلی۔ ص 91۔ 93)