Home اسلام عشق جب گہرا ہوتا ہے

عشق جب گہرا ہوتا ہے

عشق جب گہرا ہوتا ہے تو محبوب پر جان نچھاور کرنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ اس کے قدموں کی خاک کو چوما جاتا ہے ۔ اپنے تمام مقام و مرتبے اس کے قدموں میں لٹا دٸیے جاتے ہیں۔ جب بھی نام نامی اسم گرامی ﷺ آتا ہے تو زبان سے نکلتا ہے

عشق جب گہرا ہوتا ہے
ishq jab gehra hota haii عشق جب گہرا ہوتا ہے www.shanurdu.com

عشق جب گہرا ہوتا ہے

تاریخ کے سنہرے اوراق کا مطالعہ کیجیے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ زمانہ قدیم میں مسجد نبویﷺ کو مور اور شتر مرغ کے پروں سے بنے ہوئے برشوں اور جھاڑُوؤں سے صاف کیا جاتا تھا۔
ایک طویل مدت کے بعد دھول اور فرش صاف کرنے کے لیے استعمال ہونے والے ان برشوں سے مور اور شتر مرغ کے پروں کو نکال کر عثمانی سلاطین کے پاس بھجوایا جاتا۔
جنہیں وہ اپنی آنکھوں اور چہروں سے مس کرتے اور انہیں اپنی پگڑیوں کے اُوپر لگاتے ۔ عثمانی سلطان آنسو بہا کر کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے خادم ہیں ۔ ان کے مبارک شہر کی خاک کے لائق نہیں ہیں۔’
دنیا کے بادشاہ ہیرے جواہرات سے جڑے ہوئے تاج پہننے میں اعزاز محسوس کرتے، جبکہ مسلمان حکمران ان پروں کو اپنی پگڑییوں اور تاجوں میں لگانا اعزاز سمجھتے تھے۔
ان سے روزہ رسولﷺ اور مسجد نبویﷺ کی صفائی ہوتی تھی ۔ یہی وہ محبت و عشق رسول ﷺ تھی جس کی برکت سے سلاطین اور عثمانی خلفاء نے کئ صدیوں تک تین بر اعظموں پر حکومت کی ۔
عشق جب گہرا ہوتا ہے تو محبوب پر جان نچھاور کرنے کا مرحلہ آتا ہے ۔ اس کے قدموں کی خاک کو چوما جاتا ہے ۔ اپنے تمام مقام و مرتبے اس کے قدموں میں لٹا دٸیے جاتے ہیں۔ جب بھی نام نامی اسم گرامی ﷺ آتا ہے تو زبان سے نکلتا ہے
فدِاکَ اَبی و امی یا رسول اللہ ﷺ ❤
اے کریم آقا ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔
آپ ﷺ سے زیادہ مجھے دنیا میں کوٸی عزیز نہیں۔
عشق کی دولت انسان کو نکھارتی، سنوارتی ہے مگر جب اس میں صداقت ہو ۔ خاص کر جب یہ عشق حقیقی ہو۔
حقیقی اور مجازی کے فرق کو اس سطر سے سمجھ لیجیے ہر وہ چیز جس کو فنا ہے اس کا عشق مجازی ہے اور ہر وہ چیز جس کو بقا ہے، عشق حقیقی کہلاتا ہے۔
دولت شہرت عورت سلطنت سب کو فنا ہے۔ بقا ہے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ۔ان کے نام ، کتاب کو ۔ جس نے بھی اس عشق میں غوطہ زنی کی ہے اسے ناموری بقا عزت شہرت نامی سبھی ہیرے جواہرت حاصل ہوۓ ہیں ۔ ابو بکر سے صدیق
عمر سے فاروق
عثمان سے ذوالنورین
علی سے حیدر کرار
حبشہ سے بلال موذن رسول
روم سے صہیب رومی
فارس سے سلمان فارسی
عام مسلمان سے عشرہ مبشرہ
بننے والے اسی راہ عشق کے مسافر تھے جنہوں نے شاہراہ حیات پر اپنی منزل اپنے کریم آقا ﷺ کو رکھا ۔
آبروۓ ما زنام مصطفی است
مجھے جتنی بھی عزت ملی وہ آپ ﷺ کے نام پاک کے صدقے میسر ہے۔
ذرا عروہ بن مسعود ثقفی (جو صلح حدیبیہ (۶ھ) کے موقع پر کفار مکہ کا ایلچی بن کر آیا تھا) ۔دیکھیے وہ اپنے بادشاہ کی بارگاہ میں عشاق کے عشق کی کیا منظر کشی کرتا ہے ۔
عروہ ہاتھ باندھے اپنے بادشاہ کی بارگاہ میں کھڑا ہے۔ سر جھکا ہوا اور جان کی امان طلب کرنے کے بعد یوں عرض کناں ہوتا ہے ۔
“اے بادشاہ سلامت ! بہ خدا میں شاہان عالم، قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس بھی گیا ہوں لیکن کسی بادشاہ کے درباری اس کی اس قدر تعظیم نہیں کرتے جتنی محمدﷺکے ساتھی محمدﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔
خدا کی قسم جب بھی وہ تھوکتے ہیں اور ان کا لعاب کسی کے ہاتھ پڑتا ہے تو وہ اس کو اپنے چہرے اورجسم پر مل لیتا ہے۔
اگر وہ کوئی حکم دیں تو اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔
اگر وہ وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی لینے کے لیے ایسا لگتا ہے کہ وہ لڑ پڑیں گے۔
جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آواز پست کر لیتے ہیں اور احترام کی وجہ سے انہیں نظر بھر نہیں دیکھتے۔‘‘ عشق کا تقاضا ہی یہ ہے کہ محبوب اور محبوب سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے پیار ہو ۔
اگر یہ انتہا ٕ نہ ہو تو عشق کی کاملیت کون مانے گا۔ عشق کا یہ پہلو تو عروہ کی آنکھ نے دیکھا مگر اس سے کہیں پہلے یہ منظر آسمان دیکھ چکا تھا ۔
کریم آقا ﷺ کے عاشق صادق حضرت زید بن دثنہ رض کو کفار مکہ نے پکڑ رکھا تھا۔ ذرا ان کے عشق کا معیار دیکھیے جس پر کفار نے بھی حیرت واستعجاب کا اظہار کیا ہے۔
جب حضرت زید رض کو تختہ دار پر چڑھایا جا رہا تھا تو اس موقع پر ابو سفیان نے کہا :
“اے زید ! کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم اپنے گھر والوں کے ساتھ اطمینان سے رہو اور تمہاری جگہ پر محمدصلی الله علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) تختہ دا ر پر چڑھا یا جائے؟”
اس موقع پر حضرت زید رض نے ابو سفیان کو جو جواب دیا وہ سیرت کی کتابوں میں جلی عنوان والفاظ کے ساتھ موجود ہے۔
حضرت زید رض نے فرمایا:
“قسم بخدا! میں تواس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے مقام ہی پر رہیں اور انہیں وہیں کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں۔”
حضرت زید رض کے اس جواب سے حواس باختہ ابو سفیان نے کہا کہ کوئی انسان کسی انسان سے اتنی محبت نہیں کرتا جتنی محمدصلی الله علیہ وسلم کے ساتھی محمدﷺ سے کرتے ہیں ۔
عشق کے یہ سلسلے کوٸی آج سے نہیں بلکہ اس کا آغاز تو اماں حلیمہ نے جب آمنہ کے لال کو گود میں لیا تب سے ہی کر دیا تھا ۔
اماں اپنی آنکھوں سے جدا نہیں ہونے دیتی تھی۔ صحابہ جب تک اپنے کریم آقا ﷺ کی زیارت نہ کر لیتے انہیں نیند نہ آتی ۔
جس کو سکون نہ ملتا وہ زیارت چہرہ والضحی کے لیے چلا آتا ۔
نبوی ﷺ زمانہ کے بعد ۔خلفا ٕ راشدین اور پھر تابعین تبع تابعین اور اولیا ٕ امت کا عشق رسول ﷺ ہزار ہا امثلہ سےروشن ہے۔
اقبال رح نے فرمایا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ﷺ سے اجالا کر دے

اور عشق کی وہ کون سی گہراٸی تھی جو بڑے بڑے شعرا کو میسر نہیں تھی۔ وہ کون سا راز تھا جس نے اقبال رح کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یورپ میں جا کر بھی عشق کی تمازت اقبال کے لہو کو گرم رکھتی ہے۔ مادیت پرست ہوس زدہ براٸی کا سہولت کار یورب بھی اقبال کو نہ ڈگمگا سکا ۔فرمایا ۔

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

“He who loves my Sunnah has loved me , and he who loves me will be with me in Paradise.”
ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم کی کتاب کامیاب زندگی کے راز سے انتخاب: ابرش نور گلوبل ہینڈز

https://www.facebook.com/Dr.M.AzamRazaTabassum/

NO COMMENTS