22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

ہتک عزت

ہتک عزت

شکیل احمد چوہان 

 

حیا نے رائے اکبر کے ہاتھ سے اپنی کلائی چھڑواتے ہوئے گیلی آواز میں کہا
سر! میں نے پہلے بھی عرض کی تھی کہ میں ایسی نہیں ہوں۔ آپ کو کوئی دوسری لڑکی مل جائے گی اور مجھے کسی دوسری جگہ نوکری۔
حیا اپنا سبز ڈوپٹا درست کرتے ہوئے یہ بول کر رائے اکبر کے آفس سے نکل آئی۔ اپنی ٹیبل پر پہنچی، کرسی کی پشت سے اپنی سفید چادر اُٹھا کر اُسے اُوڑھ لیا اور نظریں جھکائے فیکٹری سے باہر آ گئی۔
قائداعظم انڈسٹریل ایریا کی ایک سڑک کنارے حیا اپنے آنسوئوں کو صاف کرتے ہوئے چلی جا رہی تھی۔
سیاہ، اپلائیڈ فار کرولا اُس کے برابر میں آ کر رُکی۔ کار کا شیشہ نیچے اُترا، اُس میں سے ایک ہاتھ نمودار ہوا جس نے حیا کے سر سے وہ چادر کھینچ لی۔
چادر اُس شخص کے ہاتھ میں تھی اور حیا کا ڈوپٹا سڑک پر ۔
یکِے بعد دیگرے تین آوازیں بلند ہوئی
اوئے، کمینے، بے غیرت، تین آدمی پہچاننے کے لیے وہ شخص شاہانہ انداز کے ساتھ سے باہر نکلا۔
اُس نے اپنے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ تین کی جگہ تیس چوبیس افراد تھے۔ اُن سب نے جیسے ہی رائے اکبر کو دیکھا، وہ سب کے سب ’’گاندھی جی ‘‘کے تین بندر بن گئے۔  اُنہوں نے کچھ دیکھا، سنا اور نا ہی وہ کچھ بولے۔
رائے اکبر کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ نے بڑے فخر سے قدم رکھے۔ اُس نے بڑے تکبر سے حیا پر نظر ڈالی۔
حیا نظریں جھکائے اپنی بانہوں کو چھاتی سے لگائے سہمی سمٹی سی بے یارو مدد گار کھڑی تھی۔
اُس کی آنکھوں سے اشک انصاف کی آرزو میں ’’پاک سر زمین ‘‘ کے سینے پر گر رہے تھے۔
رائے اکبر اپنی ’’سیاہ ‘‘ کار میں بیٹھا ،گاڑی اسٹارٹ کی اور کھڑکی سے بازو نکال کر حیا کی سفید چادر ہوا میں لہراتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
چند لمحوں بعد حیا نے فرش سے اپنا سبز ڈوپٹا اُٹھایا اور عرش کی طرف دیکھا، پھر آہ بھرتے ہوئے اُس سبز ڈوپٹے سے خود کو ڈھانپ لیا اور ارد گرد دیکھے بغیر وہاں سے چلی گئی۔
اگلے دن حیا فیکٹری نہیں گئی۔ دن بارہ بجے کے آس پاس اُسے نوکری سے نکالے جانے کے پروانے کے ساتھ ساتھ 14لاکھ کے ہرجانے کا نوٹس بھی ملا۔
حیا نے ہرجانے والے نوٹس کو پڑھنا شروع کیا اُس نوٹس کی پہلی لائن تھی
آپ نے اس ملک کے معزز شہری جناب رائے اکبر کی ’’ہتک عزت‘‘ کی ہے۔

…٭…

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles