26 C
Lahore
Tuesday, April 16, 2024

Book Store

ہمارا ہوائی سفر

تمام عمر ہمارے ابا نے سمندر پار اور قُربِ سمندر میں واقع شہر میں بیٹی بیاہنے کی شدید مخالفت کی ۔ اس کی واحد وجہ یقیناً لاڈلی بیٹی کو دور نہ بھیجنا ہی رہی ہو گی لیکن اس وجہ کو ہم کبھی خاطر میں نہ لائے تھے سوائے ہر اس دن کے جس دن میکے کا سفر درپیش ہوا کرتا ۔
تو یہ کہانی ہے ایک دور دیس بیاہی بیٹی اور ایک ہوائی سفر کی ۔
میرا بیٹا اپنی خوبصورت آنکھوں میں شوق کا ایک جہان سمیٹ کر مجھ سے گویا ہوتا ہے کہ
” اماں مجھے اڑنا بہت پسند ہے “
اور اس بیٹے کی اماں کو اڑنے سے اسی قدر خوف لاحق ہے ۔
میں نے زندگی میں کبھی اڑنے کے خواب نہیں دیکھے ۔ میں زمین سے ہمیشہ جڑی رہی اور مجھے اڑنے سے ہمیشہ خوف محسوس ہوتا رہا ۔
میں نے جب بھی اترانے والوں کو ہوا میں اڑتے دیکھا ، تو ہمیشہ ان کی فکر میں مبتلا رہی کہ جب یہ منہ کے بل گریں گے تو انکا کیا بنے گا ۔
یہی فکر اپنے ان اسفار میں بھی لاحق رہی جو ہوا کے دوش پہ طے کیے گئے تھے ۔
زندگی کے ہر ہوائی سفر کو ہم  نے اپنی زندگی کا آخری سفر سمجھ کر طے کیا ۔ نہایت بوجھل اور بجھے ہوئے دل سے موت کو نہایت قریب سے محسوس کر کے.
جس روز ٹکٹ ہمارے ہاتھوں میں تھمائے گئے ہم نے شہادت کا پروانہ سمجھ کر قبول کیے ۔ لیکن ہماری دلیری و شجاعت کی داد دیجیے کہ پھر بھی ہم مقتل میں دھج سے ہی گئے ۔
پہلی مرتبہ جانا تھا تو میکے کی پہلی یاترا اور والدہ میرے غم میں بیمار پڑ کر داخل در اسپتال تھیں ۔
ہم  نے خوش باش بیاہتا کا ثبوت پیش کرنے کی خاطر گالوں پہ غازہ رگڑا آنکھوں میں سرمہ بھرا اور باقی قدرتی حسن کو کافی سمجھ کر اڑن کھٹولے میں یہ سوچ کے قدم دھرے کہ وضو کر کے سب گناہوں کی معافی مانگ لی ہے ۔ کلمہ پڑھ لیا ہے اللہ کی رحمت کے سہارے یا تو اللہ کے حضور پہنچ رہیں گے تب بھی نک سک سے تیار شکر گزار بندے بن کر یا اماں کی یاترا کر کے اپنے خوش باش ہونے کا یقین دلا دیویں گے ۔
ٹکٹ کٹانے والی نے ہمیں جو سیٹ عنایت فرمائی وہ پائلٹ کے بالکل بغل میں تھی یعنی کہ بس آگے پائلٹ بیچ میں پردہ اور پھر ہم تشریف فرما تھے ۔
خوف اور دہشت کے مارے نہ جانے اب تک کتنی ہی بار آیت الکرسی پڑھ ڈالی تھی ۔ جی ہی جی میں مرحوم والد کو یاد کر کے اپنی کوتاہی اور ان کی دانشمندی کا اعتراف سینکڑوں مرتبہ کر لیا تھا ۔
ہمارے ساتھ والی دو سیٹیں ابھی خالی پڑی تھیں ۔ چند ہی ثانیے گزرے ایک برقع پوش میاں کا بازو دبوچے ہمارے ساتھ والی سیٹ پہ دھڑام سے آن گریں ۔
ہمارے کالے برقعے کو دیکھ کر جھٹ سے میاں کا بازو چھوڑ ہمارا آن دبوچا ۔
بس ہماری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ ہم تو پہلے ہی دہل کے بیٹھے تھے یہ ایک اور افتاد آن پڑی ۔
ہمارا حلق خشک ۔خدایا پانی کس سے مانگیں گے ۔ زبان کیونکر تر ہو گی ۔
آنکھیں میچ لیں کلمہ دوبارہ پڑھ لیا ۔ آخری نگاہ اپنے بازو پہ ڈالی جو ہاتھ میاں کے ہاتھ میں دے کر جان دینے کے وعدے کیے تھے ۔ وہ دمِ آخر کسی غیر عورت کے ہاتھ میں تھا ۔
ہاتھ کی گرفت کچھ اور مضبوط ہوئی اور وہ شاخ سی لچکتی میرے کاندھے سے آن لگی ۔ کان میں سرگوشی سی محسوس ہوئی ۔ غور کیا تو فرما رہی تھیں
باجی ! آپ مدرسے میں پڑھاتی ہیں نا ۔
جج جی ۔ نن نہیں ۔ ہاں ۔ نہیں ۔ پتا نہیں آپ کون ہیں کیوں پوچھ رہی ہیں ۔ میرے اندر کی استانی جھٹ سے بیدار ہوگئی ۔
باجی آپ استاد ہیں نا ۔
جی بیٹا ۔ آپ کون ہیں ۔
وہ ایک اٹھارہ انیس سالہ کم سن بچی تھی۔ جسے بس ایک استاد کی شفقت بھری تھپکی ہی کی ضرورت تھی اور پاس بیٹھا اس کا میاں، اسے ایک استانی کی پناہ میں دے کر بےفکر ہو چکا تھا اور اپنے موبائل کی دنیا میں گم ۔
ہم حالیہ گود لی گئی بچی کو دیکھ دیکھ کر سوچ رہے تھے ۔ مرتے وقت کلمہ پڑھا دے گی۔ نیک سیرت لگتی ہے ۔
اسی اثناء بچی نے جھٹ ہمارے بازو میں اپنے نہ نظر آنے والے ناخن مزید سختی سے چبھو ڈالے ۔
درد سے کراہے تواسی کالے عبائے والے کی موٹے چشمے کے پیچھے آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں موتی کے قطروں کی طرح گرنے لگ گئیں ۔
بیٹا میرا ہاتھ تو چھوڑ دیں ۔
نہیں باجی ! وعدہ کریں جب تک اسلام آباد نہیں آ جاتا ، آپ میرا ہاتھ نہیں چھوڑیں گی ۔ باجی مینوں بوہت ڈر لگ ریا اے ۔
ہائیں ۔
اب باجی ذرا ذرا بہادر ہوئیں ۔ بچی کے آنسو پونچھے ۔ خود سے زیادہ ڈرپوک کو دیکھ کر دل ذرا مطمئن ہوا ۔ بچی کو تسلی دی ۔ ہاتھ ہاتھوں میں تھاما ۔ کس کو خبر لگنی تھی کہ ڈر کے مارے کون ہاتھ زیادہ دبا رہا ہے ۔ وہ تو خود خوف سے پیلی پڑ رہی تھی ۔
ذرا فاتحانہ نظریں جہاز کے اطراف میں دوڑائیں لوگوں کو دیکھا ۔ جی چاہا اعلان کر دیں
جہاز والو ! میں اکیلی ہی نہیں ڈرنے والوں میں سے ۔ یہ میرے ساتھ بیٹھی مجھ سے زیادہ ڈرتی ہے ۔
کالر اونچے کرنے کا سوچا ہی تھا کہ اعلان گوش گزار ہوا جہاز بس اڑا ہی چاہتا ہے ۔
اب سماں کچھ یوں تھا کہ
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
بچی کو دبوچ کے گلے لگایا ۔ ٹائروں کی آواز کانوں میں
اورزبان چل پڑی ۔ نہ میرا بچہ گھبرانا بالکل نہیں ہے باجی ہے نا
جی باجی ۔
بس پریشان نہیں ہونا
اچھا باجی
اور جہاز نے پرواز بھری
ہائے باجی !
ہائے میری بچی ۔
ہائے باجی میں تے گئی
ہائے بیٹی میں ساتھ ہی ہوں ( جانے کے لیے )
باجی میں ڈگ پینا اے ۔
نہ نہ بیٹا باجی ( دل کانپ رہا ہے آنسو بہہ رہے ہیں ۔ لیکن باجی از اسٹرانگ ۔ دکھانا یہی تھا ورنہ دنیا والے کیا سوچتے ) ہے نا ۔
جہاز اب آسمان میں پرواز کر رہا تھا ۔ بادل ساتھ ساتھ تھے ۔
باجی نے بائیں آنکھ کے کونے سے باہر جھانکا تھا ۔
باجی کلمہ پڑھیں ۔
لا الہ الااللہ ۔
اللہ جی مینوں تے باجی نوں بخش دینا ۔
آمین پتر آمین ۔
( باجی کی آنکھیں چھما چھم برستی ہیں ۔ ہائے اللہ جی میری امی اسپتال میں ہیں ۔ جہاز گرنے کی خبر کیسے سنیں گی ۔ اللہ میرے میاں دوسری شادی کر لیں گے میرے مرنے کے بعد اور میرے سارے نئے کپڑے کوئی اور عورت پہنے گی ۔ ہائے میرے کپڑے )
بات سنو ! تمھارا نام کیا ہے ؟
باجی میر انام عظمی ہے ۔
عظمی یہ ساتھ کون ہے ؟
باجی یہ میرے میاں ہیں ۔ میری شادی کراچی سے اسلام آباد ہوئی ۔ میں اپنی امی سے ملنے آئی تھی ۔ شادی کے بعد پہلی بار
یعنی تمھارے سب کپڑے ابھی نئے ہیں ؟
ہیں باجی ؟
اری کمبخت ! ابھی تو بری اور جہیز دونوں جانب کے کپڑے پورے پہنے بھی نہیں ہوں گے نا ؟؟
ہاں باجی نہیں پہنے ۔
میں نے بھی نہیں پہنے ۔ بری کا تو کوئی سوٹ تھا ہی نہیں ۔ جہیز کا بھی نہ تھا پر میں نے اپنے لیے خود بڑےچاؤ سے بنائے تھے ۔ دیکھو عظمی جو ہم دونوں آج مر گئیں تو ہمارے کپڑے کون پہنے گا ؟
نہ کریں باجی ۔ امی جی نے نیا نیلا جوڑا بھی دیا ہے ۔
وہ نیلا جوڑا تو ساتھ ہی مرے گا ۔
ہائے باجی
چپ کر جاؤ ہائے وائے اب نہیں کرنی ۔ بس دعا مانگو اللہ جی کپڑے پہننا نصیب فرما دیں آمین ۔
اس دعا کے بعد باقی کا سفر بخیر و عافیت گزرا ۔ میں نے چشم تصور میں ان سب کپڑوں کو پہن کر خود کو اتراتے دیکھا جو پیچھے الماری میں ٹنگے ہوئے چھوڑ کر آئی تھی ۔
آخر زندگی جینے کے لیے کوئی تو سہارا درکار ہوا کرتا ہے نا ۔
آپ کا کیا خیال ہے ؟؟
سمیرا امام
No photo description available.
Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles