ازدواجی بھول بھلیوں میں پھنسے ایک جوڑے کی عام ڈگر
ممتاز مفتی
ہمارا سامان بندھا ہوا تھا۔ ہم دونوں ٹیکسی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ آصفہ ٹوکری کے منہ پر رسی باندھ رہی تھی۔ میں اخبار کی سرخیاں دیکھ رہا تھا۔ میں نے منہ سے اخبار ہٹائے بغیر پوچھا، ’’کیوں آصفہ تیاری مکمل ہو گئی نا؟
جی ہاں۔‘‘ اس کی مدہم آواز آئی۔
اس کے جی ہاں کے باوجود مجھے پتا تھا کہ وہ شہر چھوڑ کر گاؤں جانا نہیں چاہتی۔ شہر کی رونق چھوڑ کر کس کا جی چاہتا ہے کہ گاؤں میں رہے؟ اگرچہ آصفہ کے لیے شہر کی رونق کبھی پیش منظر میں نہ تھی کہ طبعاً وہ اکیلی تھی۔ پھر بھی پس منظر کی رونق تو تھی اور رونق چاہے پیش منظر میں ہو یا پس منظر میں وہ بہرحال رونق ہوتی ہے۔
پھر ہمارا گاؤں بھی تو برائے نام گاؤں تھا۔ آپ جانتے ہیں پہاڑی علاقوں میں گاؤں نہیں گھر ہوتے ہیں۔ ویڑے ہوتے ہیں۔ دو یہاں، دو وہاں اس ٹیلے پر اور چار نیچے کھڈ میں۔
ان بکھرے گھروں کو گاؤں نہیں کہا جا سکتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہمارا گاؤں بہت دُور پاکستان کے ایک دُور افتادہ کونے میں واقع، شہروں سے دور، سڑکوں سے دور، ہنگاموں سے دور جہاں امن ہی امن ہے۔
لوگ امن سے اس قدر بیزار ہیں کہ رونق کے لیے انھوں نے برادری میں باہمی اختلافات کا سہارا لے رکھا ہے۔ ٹھہرے ہوئے پانیوں کو سڑاند سے بچانے کے لیے لہریں پیدا کرنی ہی پڑتی ہیں۔
لیکن نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد میں روز سوچا کرتا تھا کہ اب شہر میں رہنے کا مقصد کیا ہے؟ اس سوچ میں ڈب جھلکیاں کھاتے ہوئے چھے مہینے گزر چکے تھے۔ کیا کروں؟
میں طبعاً سوچنے والا آدمی ہوں، کرنے والا نہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ سوچ میں ڈب جھلکیاں کھانے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ ایسا کہ پھر فیصلہ کرنے کو جی نہیں چاہتا اور خود فریبی کے تحت فیصلہ کر ہی لو تو عمل میں لانے کی توفیق نہیں ہوتی۔
پھر یہ ہوا کہ مالک مکان نے ہمیں نوٹس دے دیا کہ یا تو مکان خالی کر دو۔ نہیں تو اگلے مہینے سے کرایہ دگنا ادا کرنا ہو گا۔ دگنا کرایہ دینے کی توفیق نہ تھی۔
سستا گھر تلاش کرنے کی ہمت نہ تھی۔ لہٰذا گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہاں ایک قابل رہائش مکان بھی تھا۔ تھوڑی سی زمین بھی تھی۔
’’مجھے پتا ہے آصفہ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’تو گاؤں جانا نہیں چاہتی۔‘‘
’’چپ۔‘‘ اس کی آواز آئی۔
مجھے علم تھا کہ وہ میری بات کا جواب دے گی۔ اس نے کبھی مجھے نہیں جی نہ کہا تھا۔ ایسے موقع پر وہ چپ ہو جایا کرتی تھی۔ چپ اس کا واحد انکار تھا۔ واحد ہتھیار تھا۔
اس کے منہ سے چپ سن کر مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ میں نے اخبار ہٹا کر اس کی جانب دیکھا۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھی ہوئی تھی۔ اور آنکھوں میں چمک لہرا رہی تھی۔
’’وہ۔‘‘ اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’جیدا۔‘‘ وہ بولی۔ ’’وہ رو رہا ہے۔‘‘
واقعی باہر سے جیدا کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔ حسب معمول سسکیاں بھرتے وہ چلا رہا تھا۔ ’’میں نہیں کروں گا، میں نہیں کروں گا۔‘‘
جیدا بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ ساتھ ہی بہت خود سر اور ضدی۔ عمر تین سال ہو گی۔ ماں باپ ایک حادثے میں فوت ہو چکے تھے۔ دُور کے رشتے دار نے ازراہِ ہمدردی اسے اپنے گھر میں رکھ لیا تھا۔
یہ ہمدردی دکھاوے کی زیادہ تھی جذبے کی کم کم۔ ان کے اپنے تین بچے جو تھے۔ گھر والی جیدا کو کام پر لگانا چاہتی تھی لیکن وہ اپنی مرضی کا مالک تھا۔ بڑا ہٹ دھرم تھا۔ صاف انکار کر دیتا۔ ’’نہیں کروں گا۔
جیدا دن میں تین چار مرتبہ ہمارے گھر آیا کرتا تھا۔ سیدھا میرے پاس آتا۔ نہ سلام نہ دعا۔ نہ جان نہ پہچان آتے ہی حکم چلاتا، انکل، آنٹی کو بولو مجھے سویٹ دے۔ آصفہ سے گولیاں ٹافیاں لے کر وہ واپس چلا جاتا۔ آصفہ نے کئی بار کوشش کی تھی کہ اسے پاس بٹھائے۔ اس سے باتیں کرے۔
آصفہ اسے پکڑنے کی کوشش کرتی تو وہ چلا کر اسے ڈانٹتا، نہیں۔ آصفہ نے اس کے لیے کھلونے بھی منگوائے لیکن اسے کھلونوں سے کھیلنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے جیدا کی آواز سن کر کہا
’’آصفہ! باہر کی کنڈی لگا دو، کہیں جیدا اندر نہ آ جائے۔‘‘
آصفہ نے اثبات میں سر ہلا دیا لیکن جوں کی توں بیٹھی رہی۔ دو ایک دن پہلے میں نے جیدا سے کہا تھا۔ ’’جیدا ہم جا رہے ہیں۔‘‘
’’کہاں۔‘‘ وہ چونکا۔
’’نہیں‘‘ وہ بولا۔ ’’تم نہیں جاؤ گے۔‘‘
’’ہم تو جا رہے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے چیخ کر کہا۔ پھر اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ دھیمی آواز میں بولا۔ ’’تم چلے گئے تو میں سویٹ کس سے لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سویٹ لیے بغیر باہر نکل گیا۔
وہ چلا گیا تو کمرے پر دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ پُرنم خاموشی۔
جیدا کے رونے کی آواز ختم ہوئی تو میں نے پھر سے بات چھیڑی۔ میں نے کہا، ’’آصفہ! اگر گاؤں میں تیرا جی نہ لگا تو ہم قصبے میں رہائش کر لیں۔ وہاں ناڑا پل کافی بڑا قصبہ ہے وہاں سو گھر ہوں گے۔ گاؤں سے دس میل دور ہے۔ بڑی سڑک پر ہے۔ دریا پر پل ہے۔ غلے کی منڈی ہے۔ ٹرک آتے ہیں۔ بسیں چلتی ہیں۔ بڑی چہل پہل رہتی ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ آصفہ بولی۔
جی ہاں، جی ہاں سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں۔
صاحبو میرا المیہ یہ ہے کہ میں نے ایک ’جی ہاں‘ سے شادی کر رکھی ہے۔ اس بدنصیبی کی تمام تر ذمہ داری خود مجھ پر ہے۔ میں تین سال جانے اَن جانے میں دعائیں مانگتا رہا تھا کہ یا اللہ میں اپنی بیوی کے منہ سے کبھی جی ہاں بھی سنوں۔ لوگو، کبھی بن سوچے سمجھے دعا نہ مانگنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ دعا منظور کر لے۔
آصفہ میری دوسری بیوی ہے۔ پہلی شہزادی تھی۔ وہ واقعی شہزادی تھی۔ اس نے کبھی کسی بات پر مجھ سے اتفاق نہ کیا تھا۔ میں اسے کہا کرتا تھا، شہزادی کبھی تو میری بات مان لیا کر، لیکن میری یہ خواہش کبھی پوری نہ ہوئی۔ پھر شہزادی ایک حادثے میں ہلاک ہو گئی۔
آصفہ میرا چناؤ نہیں، یہ احسان مجھ پر خالہ نے کیا۔ کہنے لگی۔ ’’سلیم، میں نے تیرے لیے ایسی بیوی تلاش کی ہے جو تیرے گھر کو جنت بنا دے گی۔‘‘ خالہ سچ کہتی تھی۔ آصفہ کے آنے کے بعد واقعی ہمارا گھر جنت تو بن گیا لیکن گھر نہیں بنا۔ دوستو میں جنت میں رہتا ہوں۔ مجھے گھر نصیب نہیں ہوا اور میں اَن جانے میں چوری چوری دعائیں مانگتا ہوں کہ کوئی سانپ آ نکلے۔ مانا کہ نیک خاتون کی سبھی عزت کرتے ہیں۔ میں بھی کرتا ہوں لیکن نیک بیوی… اب میں نے جانا ہے کہ نیک بیوی ایسی ریوڑی ہے کے مصداق ہے جس میں کڑاکا نہیں ہوتا۔ پتا نہیں میاں کڑاکے کا متمنی کیوں ہوتا ہے۔ خالی مٹھاس کیوں اچھی نہیں لگتی۔ آصفہ کی مٹھاس اگر شوگر کوٹنگ جیسی ہوتی تو بھی بات بن جاتی لیکن اس کی نیکی تو شہد کی طرح گاڑھی تھی۔
اللہ نہ کرے آپ کو کسی نیک آدمی کے ساتھ زندگی گزارنی پڑے۔ سیانے کہتے ہیں، خبردار نیکی کے تفاخر سے بچو۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہے مگر ایسا ہوتا ہے نیک لوگ جانے یا اَن جانے میں اپنی نیکی کو تمغہ بنا کر چھاتی پر ٹانک لیتے اور لقہ کبوتر بن جاتے ہیں مگر آصفہ لقہ کبوتری نہ بنی۔ اس نے اپنی نیکی پر کبھی مان نہیں کیا تھا۔
بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ اتنے اُجلے نہ بنو کہ دوسرے میلے میلے نظر آئیں۔ بے شک آصفہ کو میں کبھی میلا نظر نہ آیا تھا لیکن اس کا کیا کروں کہ آصفہ کے اُجلے پن کو محسوس کر کے میں خود… خود کو میلا سمجھنے لگا۔ آصفہ کے ساتھ رہ کر میں گنہگار بن گیا… خواہ مخواہ حالانکہ یقین جانیے میں گنہگار نہیں۔
اچھا نہ سہی لیکن میں بُرا بھی تو نہیں۔ گنہگار بننا کوئی آسان کام نہیں۔ انسان کے خمیر میں ضمیر کا عنصر اس قدر حاوی ہے کہ اس سے جان چھڑانا بڑی مشقت کا کام ہے۔
گھر میں ہم دو جی رہتے ہیں، آصفہ اور میں۔ میں 60 کے لگ بھگ ہوں وہ 50 کی ہو گی لیکن شاید اپنی نیکی کی وجہ سے یوں لگتی ہے جیسے مجھ سے پانچ سال بڑی ہو۔ جب وہ جوان تھی اس وقت بھی اس کے نسانی دیے کی لو اتنی مدہم تھی کہ اس کی چمک کبھی مجھ تک نہیں پہنچی۔ ہمارے ہاں اولاد نہ ہوئی تھی۔ اس بات نے آصفہ کو بالکل ہی بجھا دیا۔
کہتے ہیں بیویاں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو میاں کے لیے جیتی ہیں۔ دوسری وہ جو اولاد کے لیے جیتی ہیں۔ آصفہ دونوں طرف سے محروم تھی۔ میاں کی نہ اسے طلب تھی نہ خواہش۔ جب بھی میں اس کی بانہہ پکڑتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے گناہ کر رہا ہوں۔ اولاد ہمارے نصیب میں نہ تھی۔ بڑے جتن کر دیکھے۔
شادی کے بعد شروع شروع میں آصفہ سے لڑا کرتا تھا۔ محلے والے اپنے اپنے گھر بیٹھے ہماری لڑائی پر رننگ کمنٹری کیا کرتے۔ وہ حیران ہوتے کہ یہ کیسی لڑائی ہے جس میں صرف ایک پارٹی بولے جا رہی ہے۔
دوسری پارٹی جیسے موجود ہی نہیں۔ انھوں نے ہماری لڑائی کو ایک ہاتھ کی تالی کا نام دے رکھا تھا۔ دراصل میں لڑتا نہیں تھا بلکہ آصفہ کو سمجھانے کی کوشش کیا کرتا کہ بی بی کچھ کرو، کچھ بولو، لڑو جھگڑو۔ اس کھڑے پانی میں کوئی حرکت پیدا ہو۔
دوستو ہم مرد بھی کتنے احمق ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دلیل دے کر ہم بیوی کو سمجھا سکتے ہیں۔ اب میں جان گیا ہوں۔ اس لیے میں نے ایک ہاتھ سے تالی بجانا چھوڑ دیا۔
آصفہ کے پاس بیٹھ کر وقت گزارنا بھی مشکل تھا۔ کوئی کب تک جی ہاں جی ہاں کی گردان سنے؟ آصفہ باتیں کرنے والی عورت نہ تھی۔ پڑوسیوں کی غیبت کرنا اسے گوارا نہ تھا۔ محلے کے اسکینڈل سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ کبھی کبھی تو مجھے شک پڑتا تھا کہ وہ ناعورت ہے۔
باہر سے پام پام کی آواز آئی۔ میں اُٹھ بیٹھا۔ ’’ٹیکسی آ گئی آصفہ!‘‘ میں نے کہا۔ وہ جواب دیے بغیر بادل ناخواستہ اُٹھی۔ (عین اس وقت جیدا بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا)…
بندھے سامان کی طرف دیکھ کر وہ بوکھلا گیا۔ کبھی سامان کی طرف دیکھتا کبھی آصفہ کی طرف۔ وہ اس قدر بوکھلا گیا کہ اسے سویٹ مانگنا بھی یاد نہ رہا۔
’’جیدے!‘‘ میں نے کہا۔ ’’ہم جا رہے ہیں، گاؤں۔‘‘
’’میں بھی جاؤں گا۔‘‘ وہ چیخ کر بولا۔
’’پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘ میں نے کہا۔
’’آؤ میں تمہیں سویٹ دوں۔‘‘ آصفہ بولی۔
’’جاؤں گا… جاؤں گا۔‘‘ وہ چلایا۔ اس نے سویٹ کی طرف توجہ نہ دی۔
’’تیری آنٹی کیا کہے گی!‘‘ آصفہ بولی۔
’’کچھ نہیں کہے گی۔‘‘ وہ رو نکھا ہو کر بولا۔
دفعتاً میرے دل میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔
’’آصفہ!‘‘ میں چلایا اور دیوانہ وار میں نے آصفہ کی طرف دیکھا۔
پہلی مرتبہ آصفہ کی آنکھ میں چمک لہرائی، ایسی چمک جو صرف گنہگار کی آنکھ میں لہرا سکتی ہے۔
’’آصفہ!‘‘ خوشی سے میری چیخ نکل گئی۔
آصفہ نے بڑھ کر جیدے کو کمبل میں لپیٹ لیا۔
٭٭٭