Home ممالک پاکستان لنڈا بازار

لنڈا بازار

0
1252

لاہور کا مشہور بازار ،جو اب غریبوں کی پہنچ سے دور ہو چکا

کمر توڑ مہنگائی کا شکار کون؟خریدار یا دکاندار

عافیہ مقبول جہانگیر

اوائل نومبر میں موسم کافی تبدیل ہو چکا تھا اور سردی کی آمد آمد تھی۔ گھر پر کام کے لیے آنے والی میڈ اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے بتا رہی تھی کہ اسے اپنے بچوں کے لیے سویٹر، جرسیوں اور موٹے کپڑوں کی ضرورت ہے لیکن پانچ بچوں کے لیے نئے کپڑے خریدنا اس کی استطاعت سے باہر ہے۔

میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ نئے کپڑوں کے بجائے کیوں نہ لاہور کے مشہور لنڈا بازار سے خریداری کر لے تاکہ سستے داموں ہر ضرورت پوری ہو سکے۔ میں نے اس کی کچھ مالی امداد کی جو بہت زیادہ تو نہیں البتہ اتنی ضرور تھی کہ وہ اپنے پانچوں بچوں کے لیے سویٹر اور جوتے خرید سکے۔ وہ خوش خوش چلی گئی۔ دو دن بعد وہ اترے منہ کے ساتھ مجھے بتا رہی تھی کہ اب کوئی جگہ غریبوں کی جائے پناہ نہیں رہی۔

اس کا کہنا تھا کہ لاہور کا وہ مشہور بازار جو کسی زمانے میں غریبوں کی ضروریات پورا کرنے میں پیش پیش ہوتا تھا اب وہاں بھی مہنگائی نے اپنے قدم جما لیے ہیں اور ہر چیز کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے لہٰذا وہاں سے صرف دو بچوں کے ہی جوتے اور سویٹر لانے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہاں ایک سویٹر کتنے کا ہے؟

مجھے لگا شاید وہ کسی اور جگہ چلی گئی ہو۔ اس کے جواب نے مجھے حیرانی سے دو چار کر ڈالا۔ ایک درمیانے درجے کا پتلا سا سویٹر اسے سات سو میں ملا اور سردیوں کے گرم جوتے کی جوڑی کا ریٹ آٹھ سو تھا۔ اسی طرح پینٹوں، قمیصوں اور جیکٹوں کی قیمتیں بھی کسی اعلیٰ درجے کی مارکیٹ کے برابر تھیں یعنی عام نرخ چھ یا سات سو سے شروع ہو رہا تھا اور سولہ سے اٹھارہ سو پر ختم ہوتا تھا۔

میں یہ سن کر ورطۂ حیرت میں پڑ گئی اور مجھے شک گزرا کہ شاید کام والی مجھ سے غلط بیانی کر کے مزید پیسے اینٹھنے کے چکر میں ہے اس لیے اتنی زیادہ قیمتیں بتا رہی ہے۔ میں نے پہلی فرصت میں خود اس مارکیٹ کا سروے کرنے کا منصوبہ بنایا اور اگلے ہی ہفتے میں وہاں موجود تھی جو لاہور شہر میں سب سے بڑا اور مشہور سیکنڈ ہینڈ اور پرانے کپڑوں کا سب سے پرانا بازار کہلاتا ہے، یعنی لنڈا بازار۔
٭٭٭
اسّی یا ۹۰ء کی دہائی میں باقاعدہ سردیوں کا آغاز ماہ اکتوبر سے ہو جایا کرتا اور فروری تک شدید ٹھنڈ کا عالم رہتا۔ مارچ میں سردی میں گو وہ شدت نہ رہتی مگر شام اور صبح کی ٹھنڈی ہوائیں جاتی سردیوں کی یاد دلایا کرتیں۔

مارچ کے وسط میں موسمِ بہار اپنے جوبن پر ہوتا اور مختلف باغات اور پارکوں میں پھولوں کی نمائش کا سلسلہ شروع ہو جایا کرتا۔ جیسے جیسے دنیا کا درجۂ حرارت (Global Climate) بدلتا گیا سردیوں کا موسم بھی سکڑتا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ سردی کی اصل خوبصورتی محض دسمبر اور جنوری تک محیط ہو کر رہ گئی ہے۔
لنڈا بازار کی تاریخ
کسی بھی لنڈا بازار کا نام سنتے ہی شاید آپ کے ذہن میں پھٹے پرانے، ناقابلِ استعمال پرانے گندے اور میلے کچیلے کپڑوں کے ڈھیر کی تصویر ابھرتی ہو گی مگر اطلاعاً عرض ہے کہ یہ صرف آپ کی غلط فہمی ہے۔ وہ دور فاختہ ہوا جب لنڈے بازار کو صرف غریبوں کا بازار سمجھا جاتا تھا۔

یہ تبدیلی کیسے، کیوں اور کب آئی اس کے لیے ہم ذرا پیچھے جائیں گے جب اس بازار کی شروعات ہوئی اور پروان چڑھتے چڑھتے باقاعدہ ایک بڑے منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گئی۔

اس بازار کی تاریخ بہت پرانی ہے۔

مشہور ہے کہ انگریز دور میں، قیامِ پاکستان سے قبل ایک سلطان نام کا ٹھیکیدار تھا جس نے ریلوے اسٹیشن لاہور تعمیر کروایا اور اسی کے ساتھ مسافروں کے مختصر قیام و طعام کے لیے ایک سرائے بھی تعمیر کی جسے سلطان سرائے کا نام دیا گیا۔ اس سرائے کے ساتھ چند دکانیں اور کچھ رہائشی مکانات بھی تعمیر کیے گئے تھے۔

یہ بازار استعمال شدہ جیکٹیں، سویٹر، اونی جرسیاں، جرابیں، ٹوپیاں، دستانے، اوورکوٹ، برساتیوں، گرم سوٹوں اور ہیٹ جیسی اشیا پر مشتمل تھا اور وہ سب جن کا اس زمانے میں پہننے کا عام رواج تھا فروخت کرنے کے لیے بہت جلد مشہور ہو گیا۔ یہ پرانا مال امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے پرانے کپڑوں کے بنڈلوں کی صورت آتا اور کراچی کی بندرگاہ پر اُترتا تھا۔(اب زیادہ تر مال چائنا سے آتا ہے)۔
اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال پچاس کروڑ روپے سے زیادہ مالیت کے کپڑے درآمد ہو رہے ہیں۔ ایک دور میں پرانے کپڑوں کی خریداری کے لیے لاہورکے لنڈا بازار کا ہی رخ کرنا پڑتا تھا اب نہ صرف لاہور بلکہ اس سمیت بڑے شہروں میں ایک نہیں کئی کئی لنڈا بازار وجود میں آ چکے۔
مہمان سرائے کی روایت
پرانے زمانے میں ریسٹ ہاؤس گیسٹ ہاؤس یا ہوٹلوں کے بجائے مہمان خانے یا مہمان سرائے ہی بنائے جاتے تھے۔ یہ مہمان سرائے اسٹیشنوں، بسوں کے اڈوں کے قریب بنائے جاتے تاکہ مسافر اگلی ٹرین یا بس کے انتظار میں خوار نہ ہوں اور آرام کے ساتھ ساتھ انھیں کھانا پینا بھی سستے داموں مہیا کیا جا سکے۔

چھوٹے شہروں اور قصبوں میں آج بھی ایسی سراؤں اور مہمان خانوں کا رواج ہے اور یہ بہت خوبصورت رواج ہے۔ سفر کی تھکن سے چور بھانت بھانت کے شہروں سے آئے مسافر جب ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، گپ شپ کا دور چلتا، چائے قہوے کے ساتھ اپنے اپنے شہر کے قصے سفر کی روداد ایک داستان کا سماں بندھ جاتا اور آپس میں میل جول اور محبت کے تعلقات استوار ہوا کرتے۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہوٹلوں، بڑے بڑے گیسٹ ہاؤسز نے اس روایت کو تقریباً معدوم کر دیا اور اب عالم یہ ہے کہ مسافر دورانِ سفر یا تو اپنے موبائلوں پر مصروف رہتے ہیں یا اجنبیت اور احتیاط نے انھیں اس قدر محدود کر دیا ہے کہ کوئی اجنبی دوسرے سے زیادہ بات کرنے میں خطرہ محسوس کرتا ہے۔ عدم تحفظ کے احساس نے تعلقات اور روایتوں کی گرمی کو بھی گہنا دیا ہے۔
لنڈے بازار کا قیام
اسی طرح کی ایک سرائے کو کچھ ریڑھی بانوں نے آباد کر دیا اور رفتہ رفتہ یہاں باقاعدہ ایک بازار قائم ہوتا چلا گیا جہاں پرانے کپڑے اور جوتے انتہائی سستے داموں ملنے لگے اور غریب طبقے کی گویا چاندی ہو گئی۔ انھیں اپنی ضرورت کا ہر لباس باقی بازاروں کی نسبت یہاں سے تین گنا کم نرخوں پر مل جاتا تھا۔

انھیں اس بات سے کوئی غرض نہ ہوتی کہ یہ ملبوسات کسی کی اترن ہیں۔ انھیں تو ستر پوشی اور ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے یہ پرانے کپڑے بھی مالِ غنیمت محسوس ہوتے۔ یہ بازار اب حاجی کیمپ کے نام سے مشہور ہے۔
دکانوں کی اقسام
یہاں پر آپ کو دو طرح کی دکانیں ملیں گی۔ ایک وہ جو پکی جگہ پر ہیں یعنی باقاعدہ دکانیں بنی ہوئی ہیں جن میں دکانداروں نے اپنا مال دیواروں پر لٹکا رکھا ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو نسبتاً کچھ اچھی حالت میں کپڑے لٹکے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ کپڑے ہیں جنہیں مال چھانٹی کرتے وقت بہترین حالت کی وجہ سے الگ کر لیا جاتا ہے اور ان کی قیمت ذرا زیادہ رکھی جاتی ہے۔
دوسری قسم وہ ہے جو آپ کو ریڑھیوں پر لدی نظر آئے گی۔ یہ ملبوسات انتہائی پرانے مگر قابلِ استعمال حالت میں ہوتے ہیں۔ جن میں خراب مٹیریل، ادھڑے ہوئے، کہیں کہیں سے ایک آدھ سلائی نکلی ہوئی ،اس طرح کے کپڑے مل جاتے ہیں۔ ان کی قیمت دکانوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔
مال چھانٹنے کا طریقہ کار
لنڈا بازار میں آپ کو دکانیں بھی ملیں گی اور اسٹال بھی اور عارضی ریڑھیاں بھی۔ ان میں کافی فرق پایا جاتا ہے؟ مال بانٹنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ جب بڑی گٹھڑیاں جب کھولی جاتی ہیں تو ان میں سے اچھا مال چھانٹ کر دکانوں میں رکھا جاتا ہے۔ باقی بچ جانے والے مال کوا سٹال پر کھلے عام ڈال کر ہر پیس کی ایک قیمت لگا دی جاتی ہے جیسے کہ دس، بیس، پچاس یا سو روپے۔ بظاہر یہ اچھا خاصا منافع بخش کاروبار نظر آتا ہے مگر بات اتنی بھی سیدھی نہیں۔ اس تصویر کے بھی دو رُخ ہیں۔
پہلا رُخ،ٹھیکیدار کی چاندی
چھانٹی کے بعد ریڑھیوں پر پڑا بے کار مال بھی دکان دار کو ٹھیک ٹھاک منافع دیتا ہے۔ اس بارے میں جب ایک ریڑھی بان سے گفتگو ہوئی تو اس نے بتایا کہ ریڑھی پر موجود جوتوں کا ڈھیر اس کا اپنا ذاتی مال نہیں۔ یہ سب مال ایک ٹھیکیدار کا ہے اور اس نے دکاندار کو پانچ سو روپے کے عوض اشیا بیچنے پر معمور کر رکھا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بے چارہ ملازم محض پانچ سو میں کیسے گزارا کرتا ہو گا؟

 

کمر توڑ مہنگائی میں پانچ سو روپے میں روزانہ گھر کی دال روٹی کا خرچہ، اپنا دوپہر کا کھانا، دیگر اخراجات کیسے پورے ہوتے ہوں گے؟ میں نے دل ہی دل میں حساب لگایا۔ پانچ سو روزانہ کا مطلب پندرہ ہزار ماہانہ۔ اس دکاندار نے بتایا کہ وہ شہر کوئٹہ سے لاہور روزی کمانے کی غرض سے آیا ہے اور اس کے بیوی بچے کوئٹہ ہی رہتے ہیں۔ ایک لگی بندھی تنخواہ میں سے آدھے سے زیادہ حصہ اپنے گھر بھجوانے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچتے ہیں جن میں وہ دن میں دو بار کچھ کھا لے اور اس کوٹھڑی کا کرایہ بل بھی دینا اسی کی ذمہ داری ہے جہاں وہ رہائش پزیر ہے۔ یعنی دکاندار ’بے چارہ‘ ہے۔ یہ کہانی ہر ریڑھی والے کی ہے۔ اب دیکھتے ہیں اسی تصویر کا دوسرا رُخ۔
دوسرا رُخ، چالاک دکاندار
ریڑھی والے دکانداروں کی نسبت دکانوں کے اندر مال سجا کر بیچنے والے دکاندار کافی فائدے میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا مال کسی اکا دکا گاہک کو بیچنے کے بجائے آگے ایسے دکانداروں کو اچھی قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں جن کی اپنی دکانیں شہر کے اچھے نامور بازاروں میں ہوتی ہیں۔ وہ دکاندار یہاں سے جینز کی پینٹیں، شرٹس، جوتوں کے جوڑے اور جیکٹیں وغیرہ جتنی قیمت پر خرید کر لے جاتے ہیں اس کو ٹیگ لگا اور لیمینیشن لفافے میں پیک کر کے دگنی قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ ایسے دکاندار جو آگے دکانوں پر مال سپلائی کرتے ہیں، کافی فائدے میں رہتے ہیں کیونکہ ان کا مال منہ مانگی قیمت پر بک جاتا ہے۔

انھیں اس بات سے غرض نہیں ہوتی کہ وہی مال دوسرے دکاندار دگنی قیمت پر بیچتے اور زیادہ منافع کماتے ہیں۔ اسی بارے میں جب میں نے ایک دکاندار سے پوچھا، جس کی ٹی شرٹوں اور جرسیوں کی دکان تھی، تو اس نے بتایا کہ اس میں ہم بے بس ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ دوسرے دکاندار ہمارا مال زیادہ منافع پر فروخت کرتے ہیں مگر ہم بھی کیا کریں۔ ان کے پاس بڑی جگہیں، بڑے نام اور بڑی دکانیں ہیں جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ ہم ایسی دکانیں ’’افورڈ‘‘ نہیں کر سکتے اس لیے اپنا مال کم قیمت پر ہی بیچ دیتے ہیں۔ ایک دکاندار نے سچائی اور ایمانداری سے مجھے بتایا کہ سچی بات ہے ہمیں اس میں بھی فائدہ ہے۔ میری حیرانی کو بھانپتے ہوئے اس نے کچھ ’رازوں‘ سے پردے اٹھانے شروع کیے۔
لنڈا بازار، امرا ء کا بھی شوق ہے


اب چونکہ روپے پیسے والے گاہک بھی یہاں کا رخ کرتے اور من پسند چیز دکان داروں کی منہ مانگی قیمت پر لے جاتے ہیں اس وجہ سے ہر چیز کے دام سیانے دکانداروں نے کافی زیادہ کر دیے ہیں۔ وہ جان چکے کہ ان کا مال اب کوڑیوں کے مول نہیں بلکہ مہنگے داموں بھی بک سکتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین بھی یہاں آتی ہیں اور اپنی خریداری کرتی ہیں۔ یہ اور بات کہ اس بات کی بھنک وہ کسی کو نہیں لگنے دیتیں کہ ان کے جسم پر موجود خوبصورت فر والا کوٹ یا بہترین بنائی والی رنگ برنگی جرسی کسی بڑے شاپنگ مال سے نہیں بلکہ لنڈے بازار کی مرہونِ منت ہے۔

بظاہر یہ بات بری معلوم نہیں ہوتی مگر اس کی وجہ سے غریب ایک بار پھر ہارتے اور امرا جیتتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح ایک سستا بازار جو غریبوں کی کبھی جائے پناہ ہوا کرتا تھا، اور ان کے لیے ’لندن‘ کے لقب سے مشہور تھا، اب وہ بھی ہاتھوں سے نکلتا دکھائی پڑتا ہے۔
بوتیک مالکان اور انارکلی کے دکاندار بھی گاہک ہیں
میں نے دیکھا کہ اچھے بڑے گھرانوں کے لڑکے جن کے لیے ہزار دو ہزار کوئی معنی نہیں رکھتے، یہاں سے اسپورٹس جاگر، مکیشن، لیدر اور ریکسین کے جوتے اور کافی دوسری چیزیں خرید کر لے جاتے ہیں اور دکان دار پھر اپنا ریٹ کم کرنے اور سستے میں مال بیچنے کے لیے قطعی راضی نہیں ہوتا۔
یہاں ان خواتین کی بڑی تعداد آتی ہے جو مہنگے بوتیک چلاتی ہیں۔ وہ چُن چُن کر ریڑھیوں سے صاف اور اچھا ’’پیس‘‘ یعنی لوٹ (Lott) میں آئے مال میں سے سارا دن یا کئی گھنٹے صرف کر کے اچھے ٹکڑے چھانٹ کر لے جاتی ہیں اور پھر انھیں اپنے ڈیزائنر ملبوسات میں استعمال کرتیں اور وہی سوٹ ہزاروں میں بیچ دیتی ہیں۔ ایک دکاندار نے بتایا کہ کچھ خواتین نے باقاعدہ ڈیل کر رکھی ہوتی ہے کہ جس دن تازہ مال آئے گا، دکاندار سب سے پہلے انھیں اطلاع دے گا تاکہ وہ دوسرے خریداروں سے پہلے اچھی چیز نکال کر لے جائیں۔


زیورات اور میک اپ بھی موجود
لنڈا بازار میں آپ کو انتہائی دیدہ زیب اور رنگ برنگی جیولری اور بیگ بھی مل جاتے ہیں اور ان کی قیمت مناسب ہے۔ ایک دکاندار سے میں نے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ یہ سارا مال کراچی سے یہاں لایا جاتا ہے اور کافی خواتین پورے پورے ڈبے خرید کر لے جاتی ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ بعد میں دو سو روپے مالیت کی انگوٹھی پانچ سو میں بیچتی ہیں یا آٹھ سو میں۔
میرا ان سوال تھا کہ اگر یہ جیولری مہنگے داموں بکنے کی خاصیت رکھتی ہے تو آپ اسے کم دام یا گھاٹے پر کیوں بیچ دیتے ہیں؟ اس پر اس بزرگ دکاندار کا جواب مجھے افسردہ کر گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ بھی کسی بڑے شاپنگ مال یا ائیر کنڈیشنڈ دکان میں شیشے کے شوکیس سجا کر یہ مال بیچتا تو شاید یہی خواتین منہ مانگے مہنگے داموں خوشی خوشی خرید لیتیں، لیکن چونکہ یہ جگہ ایسی ہے کہ جس کا نام ہی لنڈا پڑ چکا تو بیشتر امیر و کبیر خواتین حیثیت ہوتے ہوئے بھی کنجوسی کرتیں اور دو سو کی چیز میں بھی بھاؤ تاؤ کرتی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ٹیگ لگا کر یہی چیز خوبصورت ڈبوں میں پیک کر، بڑے دکاندار تین گناہ زیادہ قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں اور فکس پرائس کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔


شادی بیاہ کے کپڑوں کی فروخت کا مرکز
یہ لنڈا بازار اب نہ صرف پرانے کپڑے خریدنے کا مرکز ہے بلکہ یہاں شادی بیاہ پر پہنے گئے بھاری بھرکم کامدار جوڑے بھی اچھی قیمت پر بک جاتے ہیں۔ ان استعمال شدہ کپڑوں کو پھر پالش کر کے چمکایا جاتا اور ڈرئی کلین کر کے دوبارہ بانو بازار یا انارکلی کی دکانوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں یہ ہاتھوں ہاتھ بکتے ہیں۔
الغرض وہ کاروبار جو کبھی صرف غریبوں کے تن ڈھانپنے کے لیے سستے کپڑوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ جہاں سفید پوش طبقہ خریداری کر کے اپنے کنبے کو سردیوں کی شدت سے بچانے کے لیے چھپ کے خریداری کرتا اور اپنی عزت رکھتا تھا، اب وہی بازار ایک بڑے کاروباری مرکز کا روپ اختیار کر چکا جہاں دکانداروں اور کھاتے پیتے گھرانوں کی اجارہ داری نے ایک بار پھر غریب کا حق سلب کر لیا ہے۔ ایک دوڑ لگی ہے منافع کمانے کی، ایک مقابلے کی فضا قائم ہے جس میں نقصان صرف غریب طبقے کا ہے کہ وہ آخر جائیں تو کہاں جائیں؟


احتیاطی تدابیر اختیار کیجیے
لنڈے بازار میں چونکہ پرانے کپڑوں اور اترن کا کاروبار ہوتا ہے نیز یہ کپڑے ایک لمبا سفر طے کر ،پوٹلیوں اور بنڈلوں کی صورت دکانوں تک پہنچتے ہیں اور کبھی زمین پر ڈھیر کی صورت بکھرے پڑے رہتے ہیں لہٰذا ان میں جراثیم اور گرد و غبار کا ایک طوفان چھپا ہوتا ہے جو بظاہر محسوس نہیں ہوتا۔ یہ پرانا مال قابلِ استعمال ضرور ہوتا ہے لیکن اگر چند احتیاطی تدابیر اختیار کر لی جائیں تو کافی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ یہ مال جس نے پہلے پہنا وہ کہیں کسی خوفناک بیماری میں تو مبتلا نہیں تھا۔
٭ بازار سے یہ کپڑے لانے کے بعد انھیں تیز گرم پانی میں تھوڑا سا ڈیٹول ڈال کر بھگو دیجیے۔ گھنٹا دو گھنٹا انھیں بھیگا رہنے دیجیے اس کے بعد صاف پانی سے نتھار کر تیز دھوپ میں سکھائیے۔ یاد رہے کہ کپڑوں کو اچھی طرح تیز دھوپ لگ جائے۔ اس کے بعد ہی یہ کپڑے استعمال کیجیے۔
٭ اگر آپ نے جوتے وغیرہ خریدے ہین اور دکاندار نے آپ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ یہ بالکل نئے ہیں تو آپ ہرگز یقین نہ کریں اور جوتوں کی جوڑی کو اچھی طرح پورا ایک دن تیز دھوپ لگا لیں۔ اگر کپڑے کے بنے جوتے ہیں یا ایسے مٹیریل کے جو بآسانی دھل سکیں تو بہتر ہے کہ انھیں بھی دھو لیں۔ اس کے بعد ہی استعمال کریں۔
جھگی واسیوں اور ضرورت مندوں کی مدد کیجیے

جھگی واسیوں کی زندگی

سردی اپنے عروج پر ہے۔ آپ بے شک مستحق غریب اور نادار لوگوں کو اگر نئی چیزیں لے کر نہیں دے سکتے تو کوئی بات نہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق لنڈا بازار سے اونی جرابیں، جرسیاں، گرم شالیں اور چھوٹے بچوں کے لیے جوتے اور ٹوپیاں خرید کر ان میں بانٹ سکتے اور دعائیں لے سکتے ہیں۔
فٹ پاتھ پر بے یار و مددگار بزرگوں، فقیروں اور بے سہارا بچوں کو گرم چادر اور دستانوں کا تحفہ دے کر آپ ان کے لیے اتنی مدد تو کر ہی سکتے ہیں کہ وہ ٹھٹھری ہوئی سرد راتیں کچھ آرام سے گزار لیں۔ ننگے پیر پھرتے ننھے بچوں کو آپ اس بازار سے چھوٹے چھوٹے جوتے لا کر پہنا سکتے ہیں۔ جب آپ کوئی چیز زیادہ تعداد میں خریدیں گے تو یقیناً آپ کو رعایتی قیمت پر کافی سامان مل سکتا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہم صاحبِ حیثیت لوگ جنہیں اللہ نے بہت نعمتیں عطا کر رکھی ہیں، اگر اللہ کے دیے میں سے کچھ حصہ ان مستحق لوگوں کے لیے خرچ کریں گے، جو ان کا ہم پر حق بھی ہے، تو یقیناً اللہ ہمیں مزید نوازے گا۔
حکومت کی ذمہ داریاں اور فرائض
کچھ دن قبل اخبار کی شہ سرخی میں یہ خبر بھی نظر سے گزری کہ ڈالر کا ریٹ گرنے سے لنڈا بازار میں بھی مہنگائی نے سر اٹھا لیا اور غریبوں کے لیے سردیوں کی خریداری کرنا بہت مشکل ہو چکا۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ جہاں وہ اور کئی ترقیاتی اور تعمیری منصوبے ذہن میں رکھے ہوئے ہے جیسے بے گھروں کے لیے سستے گھروں کی فراہمی کا منصوبہ، جھگی واسیوں کے لیے بھی کئی تعمیری پراجیکٹ منصوبہ بندی کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں، اسی طرح بازاروں میں آسمان سے باتیں کرتے دام اور نرخوں پر بھی حکومت کی کڑی نظر ہونی چاہیے۔ ایک ایسا قانون تشکیل دیا جائے کہ دکاندار اپنی من مرضی سے دام وصول کرنے کے بجائے قانون کے پابند ہوں اور جس طرح اتوار بازار میں سرکاری نرخوں پر سبزی اور پھل فروخت کیے جاتے ہیں اسی طرح لندا بازار ہی نہیں دوسری مارکیٹوں میں بھی ایک حد مقرر کی جانی چاہیے جس سے آگے دکاندار، ٹھیکیدار اور کاروباری افراد نہ بڑھیں۔ اگر ایسا قانون موجود بھی ہے تو تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ اس پر کہیں عملدرآمد نہیں ہو رہا۔
جب ٹھیکیدار پابند ہو گا تو وہ لازمی دکانداروں کو مقرر کردہ منافع کی رُو سے ہی مال فروخت کرے گا اور جب دکاندار ذہنی اور مالی طور پر آسودہ حال ہوں گے تو نتیجتاً وہ بھی لالچ کرنے کے بجائے مناسب دام لگائیں گے، اور جب بازار میں اشیا مناسب داموں یا سستے داموں ملیں گی تو ظاہر ہے عوام دوسروں کے لیے بھی دل کھول کر مدد کی مد میں خریداری کر پائیں گے۔ ابھی تو کمر توڑ مہنگائی میں سب اپنے ہی گھروں کو پورا کرنے میں ہلکان ہوئے جاتے ہیں۔ حالات میں بہتری آئے گی، مگر اس کے لیے حکومت اور عوام، دونوں کو کندھے سے کندھا ملا کر وطنِ عزیز کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہو گا۔ اسی شمارے میں قارئین ایک کہانی پڑھیں گے ’’ایماندار لوگ‘‘۔ جس میں ایک واضح سبق آموز پیغام موجود ہے کہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر پہنچ چکا اور یہ بدعنوانی اور نفسا نفسی کا عالم کتنے گھروں کو سالم نگل رہا ہے۔ آخر ہم کب جاگیں گے؟
٭٭٭

NO COMMENTS