15 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

fashion trends Addiction| اُف یہ فیشن

 فیشن کے نام پر چند چیتھڑوں کا بے تُکا استعمال

آج کے دور میںــ’’جدت پسندی‘‘ کہلاتا ہے

بیہودہ ملبوسات اور ماڈرن طرزِ زندگی

ہمیں ترقی کی طرف لے جا رہے یا۔۔؟

عافیہ مقبول جہانگیر

مکمل یک جہتی کا عالیشان مظاہرہ

اُف یہ فیشن:

کیمرے کی چکاچوند فلیش لائٹیں آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہی ہیں۔ پورا ہال مع سٹیج بقعۂ نُور بنا ہوا ہے۔
پسِ پردہ چلتی ہیجان انگیز موسیقی حواس پر طاری ہے۔

ایک کے بعد ایک طرح دار حسینائیں رنگارنگ ملبوسات زیب تن کیے، فخر و غرور سے گردنیں اکڑائے باری باری حاضرین کے سامنے جلوہ افروز ہو رہی ہیں۔

ایسا رومان پرور اور ہوشربا منظر دیکھنے کے لیے شہر بھر کے معززین اور مشہور شخصیات ایک چھت تلے جمع ہیں۔
نہ یہاں فرقوں کا جھگڑا، نہ مسلک کا۔ سب مکمل یک جہتی کا عالیشان مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی اتفاق و سلوک کی عمدہ مثال بنے’’ایک قوم ہیں ہم ‘‘کی زندہ تفسیر بنے ہوئے ہیں۔

کچھ لوگ حسیناؤں کو داد دینے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے پیغام بھی دیتے ہیں۔
سب جانتے ہیں پھر بھی انجان بنے ہوئے ہیں کیونکہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔

کون کس کی پردہ پوشی کرے اور کون کس کے راز کھولے؟ اس سے کسی کو کچھ سروکار نہیں۔

یہ کون سا مقام ہے جہاں اس قدر’’اعلیٰ ظرفی‘‘ اور یک جہتی کا مظاہرہ دیکھنے میں آ رہا ہے؟یہ کوئی پیرس، لندن یا امریکا نہیں؟

چلیے ہم بتائے دیتے ہیں۔
یہ ہمارے اپنے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مشہور برانڈ کے بینر تلے ہونے والا ’’فیشن شو‘‘ ہے اور عوام کو ٹی وی پر براہِ راست بھی دکھایا جا رہا ہے۔

جدید تراش خراش کے ملبوسات، زیورات اور جسموں کی نمائش کا بازار سرِعام، ڈنکے کی چوٹ پر گرم ہے۔
کون ہے جو اسے فحاشی اور بیہودگی کا نام دے کر اس کے خلاف آواز اُٹھائے؟
کوئی نہیں کیونکہ یہ ’’آج‘‘ کا زمانہ ہے ۔
فیشن کے نام پر یہ سب کچھ کرنا کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پزیر ملک کے لیے ضروری ہو چکا۔

یہ بھی پڑھیں
https://shanurdu.com/why-we-dance-in-ads/

اس کے بغیر توہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے قاصر رہیں گے ۔
ہم پر دقیانوسی، فرسودہ اور بوسیدہ قوم ہونے کا لیبل لگ جائے گا۔
ہمیں تو ترقی کرنا ہے،بھلے عزت نہ رہے۔ بدنام ہی سہی مگر نام تو ہو!

ایک طرف اگر کشمیر کی بیٹیاں، مائیں اور بہنیں اپنی عزتیں بچانے کے لیے آج بھی خوداپنے ہاتھوں موت کو گلے لگا رہی ہیں
تو دوسری طرف برما، شام، فلسطین اور بوسنیا کی مسلمان خواتین یہودی یا عیسائی بننے کے بجائے اپنی اور اپنے بچوں کی جان، جانِ آفریں کے سپرد کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔

وہ سڑکوں، فٹ پاتھوں پر بے گھر ہونے کے باوجود اپنی عزت و آبرو چادروں اور پردوں میں چھپا کر زندگی کے دکھ درد جھیل رہی ہیں
مگر خود کو بے پردہ نہیں ہونے دیتیں ۔
ایک ہم ہیں کہ شوقیہ، محض چند پیسوں اور سستی شہرت اور ترقی کے چور راستے تلاش کرنے کے لیے خود اپنی عزتیں نیلام کر رہے ۔

why do girls love this kind of fashion
why do girls love this kind of fashion? is this really nice?

 ہماری خواتین اپنی مرضی اور خوشی سے خود کو نمائش کے لیے سجا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔

یوں وہ اُن تمام عظیم مسلمان خواتین کا مذاق اُڑاتی ہیں جنہوں نے ضرورت پڑنے پر اپنی زندگیاں تو داؤ پر لگا دیں مگر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے اپنی ذات کو بے پردہ نہیں ہونے دیا ۔

وہ بین الاقوامی رپورٹر اور فوٹوگرافر جو ایک طرف کشمیر و فلسطین کی کوریج کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اس فیشن زدہ قوم کی رنگین شاموں کی، سوچتے تو ہوں گے کہ کیا ہم بھی مسلمان ہی ہیں؟

لیکن بعض پاکستانیوں پر تو غفلت کی نیند کا غلبہ ہے۔
اب وہ شاید روزِ قیامت ہی جاگیں۔ ابھی تو انہوں نے دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم دقیانوسی اور’’جاہل‘‘ قوم نہیں، ہم بھی جدید طرزِ زندگی اور اس کے لازم و ملزوم تمام ہتھیاروں سے لیس ہیں۔

Traditional #Trends

’’فیشن شوز‘‘

اب بات صرف ’’فیشن شوز‘‘ تک محدود نہیں رہی۔
لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ اب یہ #کلچر اور فیشن کے نام پر بیہودگی ٹی وی ، فلموں اور مخصوص بدنام #طبقوں اور علاقوں تک محدود  نہیں رہی بلکہ پوری #قوم کو بلا تفریق و امتیاز اپنی لپیٹ میں لے چکی۔

جس طرح کے ملبوسات ہم پہلے صرف پردۂ سکرین پر یا #پڑوسی ملک میں دیکھ کر #توبہ توبہ کرتے تھے،
اب وہی ملبوسات عوام و خواص کی زندگیوں کا حصہ بننے لگے ہیں۔

بازاروں، پارٹیوں، شادی بیاہ ،یہاں تک کہ #اسکول #کالجز اور #دفاتر میں بھی ان بے تُکے فیشن ایبل ملبوسات کا بے باکانہ اور آزادانہ استعمال ہو رہا ہے۔

fashion shows outfits
what kind of culture, fashion industry is promoting

روائش ہے کیا؟

روائش ہے کیا؟
اس کی تعریف و تاریخ کیا ہے؟
اس کا مطلب ہے: ایسی پوشاک جوکسی خاص وقت میں کسی مخصوص موقع پر رائج ہوئی ہو۔چونکہ، اس میں روزمرہ لباس سے ہٹ کر کچھ الگ نیا پن ہوتا ہے ،

اس لیے اسے جدید لباس کا نام دیا گیا جو بعد میں فیشن کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔
لیکن روائش اور فیشن کے معنی میں وقت کے ساتھ ساتھ زمین آسمان کا فرق آتا گیا۔

روائش میں قومی روایات، ثقافت، مذہب اور اخلاقیات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے جبکہ ’’فیشن‘‘نامی یہ کیڑا ان تمام پابندیوں سے مادر پدر آزاد ہو چکا۔

عقل حیران و پریشان ہے۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، کوئی حد مقرر نہیں۔ جس کا جو دل چاہتا ہے ، اُلٹا سیدھا لباس فیشن کے نام پر پہن کر نکل کھڑا ہوتا ہے۔

کچھ ہی دن بعد وہی لباس جدید فیشن (latest #trend) کہلانے لگتا ہے۔
ایک دوسرے کی اندھی تقلید اور فیشن کا یہ بخار مرد و عورت پر یکساں چڑھ چکا۔
ایسی یکجہتی  اور کسی معاملے میں ہو نہ ہو مگر فیشن کے معاملے میں تو جیسے پُوری قوم متحد اور یکجان ہے۔

پہلے پہل فیشن کی اصطلاح صرف لباس تک محدود رہی پھر اس کی لپیٹ میں نہ صرف بال، جوتے، بیگز، میک اپ ، آئے بلکہ مردوں کے لیے بھی نت نئی مصنوعات قدم جمانے لگیں۔

جی ہاں! عورتیں ہی نہیں اب مرد حضرات بھی اس مُوذی بیماری کا شکار ہو چکے۔
دل اور دُکھی ہو گیا۔
پہلے تو مبہم سی اُمید باقی تھی کہ عورت بھٹکے گی تو مرد اُسے سمجھا بُجھا کے صحیح غلط کا فرق بتا کے ،کبھی پیار تو کبھی سختی کر کے اُس کا محافظ بن کر گمراہی سے بچائے گا۔

قدم قدم پر اُس کی راہنمائی بھی کرے گا لیکن اب یہ اُمید بھی دم توڑتی نظر آتی ہے ۔

جب مرد ہی بریسلیٹ،
پھٹی پتلونیں،
کٹی ہوئی قمیصیں،
کانوں میں بالیاں،
گلوں میں جھولتے لاکٹ،
اُونچی نیچی عجیب و غریب ڈاڑھیاں،
آدھا سر گنجا لیے گھومنے پھرنے لگیں،
یہ خاک سنبھالیں گے صنفِ نازک کو!

ایک دفعہ بازار جانا ہوا تو سوچا عید پر بچیوں کے لیے چوڑیاں لے لوں۔
دوکاندار نے پوچھا، باجی سنگل پیکٹ یا کپل والا؟

حیران ہوئی اور پوچھا
،بھائی!یہ کپل پیکٹ کیا بلا ہے؟
مجھے جاہل سمجھتے ہوئے اُس  نے مسکراتے ہوئے ایک پیکٹ نکالا جس میں ایک طرف چوڑیاں اور دوسری طرف انہی چوڑیوں سے میچ کرتا تھوڑا بڑے سائز کا کڑا بھی موجود تھا۔ کہنے لگا،

یہ چوڑیوں کا سیٹ خواتین کا اور یہ اس کے ساتھ بالکل ہم رنگ کڑا اُن کے میاں کا۔
ایک جیسے پہنیں گے تو اچھا لگے نا۔ آج کل تو یہ’’فیشن‘‘ ہے باجی آپ کو نہیں پتا؟‘‘

اور باجی اپنی کم علمی پر ماتم کرتی رہ گئی۔

Men in gold fashion is trending
it is trending A man wearing gold , it is called addiction also

گھر آ کر مجھے ایک حدیث یاد آتی رہی جس سے میں اور بھی مغموم ہو گئی۔

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ
ایک دن رسول اللہﷺ  نے ایک شخص کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپﷺ  نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی کو اُتار کر پھینک دیا اور پھر فرمایا:

کتنے تعجب کی بات ہے کہ تم میں سے کوئی شخص دوزخ کی آگ کے انگارے کو حاصل کرے اور اُس کو اپنے ہاتھ میں پہن لے

‘‘،پھر جب رسول کریمﷺ وہاں سے تشریف لے گئے تو اُس شخص سے کہا گیا کہ
تم اپنی انگوٹھی کو اُٹھا لو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ (یعنی چاہو تو فروخت کر ڈالو اور چاہو تو کسی عورت کو دے دو) لیکن اُس شخص نے کہا کہ
نہیں! اللہ کی قسم میں اس کو کبھی نہیں اُٹھاؤں گا جسے رسول اللہﷺ نے پھینک دیا ہے۔ (رواہ مسلم)۔

ہم کس طرف جا رہے؟

اور ہم کس طرف جا رہے؟
مجھے یاد آیا کہ ہم تو وہ ہیں جو ایک ایسے شخص کی سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھ کر حسرت سے ’’ہوکے‘‘ بھرتے ہیں جو سونے کے انباروں سے لدا پھندا رہتا ہے۔
جس کی وجۂ شہرت سونے کے زیورات سے عشق ہے۔

وہ ہے تو پاکستانی مگر بیرونِ ملک رہائش پزیر ہے۔
جب بھی وہ پاکستان آئے ہمارا میڈیا اُس کے آگے پیچھے پھرتا ہے کہ کسی طرح وہ انٹرویو کے لیے آمادہ ہو جائے۔
راہ چلتے لوگ اُسے دیکھتے ہی کھٹا کھٹ اُس کے ساتھ #سیلفیاں لینا باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے پیارے #نبیﷺ  نے مردوں کے لیے #طلائی #زیورات زیب تن کرنا #ممنوع قرار دیا ہے۔
مگر ہم کم فہم آپﷺ  کے حکم کی کھلے عام #منافی کرنے والے کے قدموں میں بچھے چلے جا رہے۔ تب کہاں جاتا ہے ہمارا عشقِ رسولﷺ؟

fashion is addiction

 فیشن کے نام پر ایک اور نئی #وبا پھوٹ پڑی ہے۔
کسی کے مرنے پر #تعزیت اور اظہارِ افسوس کا ماڈرن طریقہ چوکوں اور اہم مقامات پر مجمع کی صورت اکٹھے ہو کر موم بتیاں روشن کرنا بن چکا۔

یہی نہیں، ہندو رسومات کے دلدادہ #پاکستانی ،#بھارتی فلموں ڈراموں سے  #ہندوانہ #رسم و #رواج کھینچ تان کر اپنے گھروں میں لے آئے۔

اب ہمارے #ڈراموں میں بھی اگر کسی کی موت کا سین دکھانا ہو تو تمام کرداروں کو سفید یا کالے کپڑے پہنے دکھایا جاتا ہے۔

ڈراموں کے علاوہ حقیقت میں بھی اگر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ غیر محسوس انداز سے یہ رواج فروغ پاتا جا رہا ہے کہ
تعزیت کے لیے جانے والے اکثر لوگ سفید یا کالا لباس پہن کر جاتے ہیں۔

ایک ہی مخصوص رنگ کے لباس کو سوگ کی نیت سے اجتماعی طور پر پہننا غلط اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
ہمارے پیارے رسولﷺ  نے اس سے بہت سختی سے منع فرمایا ہے ۔

حضرت عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ  کے ساتھ ایک جنازے میں گئے تو کچھ لوگوں کو دیکھا کہ چادریں پھینک کر قمیصیں پہنے چل رہے ہیں۔

اس پر رسول اللہﷺ  نے فرمایا’’کیا جاہلیت کے کام کر رہے ہو۔
میں ارادہ کر چکا تھا کہ تمہارے لیے ایسی بددعا کروں کہ صورتیں مسخ ہو کر لوٹو‘‘۔

کہتے ہیں کہ لوگوں نے چادریں لے لیں اور دوبارہ ایسا نہ کیا۔ (سنن ابن ماجہ جلد اول باب جنازوں کا بیان حدیث :۱۴۸۵

اب ذرا سوچیے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے نبی اکرمﷺ جس رسم اور #روایت کو جہالت کا نام دے کر منع فرما رہے ہیں ،
انہی رسومات کو ہم جدت پسندی سمجھ کر اپنا چکے۔ استغفراللہ۔

یعنی جو چیز آپﷺ کے زمانے میں جاہلیت کی علامت تھی، وہ آج کے زمانے میں ہمیں جدید لگنے لگی ۔ اسلام جو کہ ہر زمانے کے لیے ہے اور رہتی دنیا تک پرانا نہیں ہو گا،
جس کی تعلیمات اور #قرآنی #علوم کو #جدید #سائنس اب دریافت کر رہی اور مان رہی ہے اُس کی #تعلیمات پر عمل کرتے ہمیں شرم آتی ہے اور ہمیں اپنا آپ #قدیم لگتا ہے۔

ملبوسات کی بات تو ایک طرف ہم  نے ہر انداز میں #جدت اور بے تکے #فیشن کو اپنانا #فرض عین سمجھ لیا ہے۔
بالوں کا #اسٹائل ہو یا دیگر #لوازماتِ زندگی، بس جدت ہونی چاہیے، چاہے وہ کتنا ہی بے ڈھنگا اور #بیہودہ کیوں نہ ہو۔

آج کل #کٹنگ کے نام پر لڑکے طرح طرح کے نقش و نگار سر پر بنوا کر خود کو نہ جانے کس سیارے کی مخلوق ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔

 جب اسلام نیا نیا پھیلا تب بھی ہمارے حضورﷺ باخبر تھے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا ،جب لوگ بال عجیب و غریب انداز میں کٹوائیں گے۔

حالانکہ تب دُور دُور تک فیشن نامی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا مگر آخری نبی الزماںﷺ سب جانتے تھے۔
اسی لیے ایک حدیث شریف میں انہوں  نے انتباہ کرتے ہوئے ایسا کرنے سے منع فرمایا ۔

عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ’’قزع‘‘ سے منع فرمایا۔
کسی نے پوچھا قزع کیا چیز ہے ؟
کہا، سر کے بعض حصے کو منڈوانا اور بعض کو چھوڑ دینا‘‘ (بخاری ۵۹۲۱،مسلم ۲۱۲۰)۔

Another #trend

اسی طرح عورتوں میں اُونچا جُوڑا پیچھے کی طرف یوں طرح باندھنا کہ سر کے پیچھے اونٹ جیسی کوہان بن جائے،
اس سے بھی حضورﷺ نے سختی سے منع فرمایا اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بھی واضح طور پر منع کیا۔

لیکن ہر پارٹی میں خواتین ایسے جوڑے مہنگے داموں پارلر سے بنواتی ہیں،
چاہے وہ حجاب والی ہوں یا بغیر حجاب کے۔

خاص طور پر حجاب والی خواتین اس بات کی طرف قطعاً دھیان نہیں دیتیں۔ دلہن کو تیار کرنے میں ایسا جوڑا بنانا عام بات ہو چکی۔

ہم کھلے عام اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کرتے ہیں جن پر عمل کرنا نہ تو مشکل ہے نہ ہی ناممکن۔
لیکن ہم بدنصیب جان بوجھ کر خود کو جہنم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

کھلے عام اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی

ساری ساری رات عبادت کرنے والے صحابۂ کرامؓ اُن گناہوں کی معافی اللہ سے طلب کیا کرتے تھے جو شاید انہوں نے کیے بھی نہ ہوں لیکن اللہ کا ڈر و خوف اور آنحضورﷺ سے محبت میں آپﷺ کی سنّت پر عمل کرتے ہوئے ، وہ اللہ سے رحم کے طلبگار رہتے تھے۔

اتنی پاکیزہ زندگی گزارنے والے صحابۂ کرامؓ بھی جہنم کی آگ سے خوفزدہ رہتے تھے
اور ہم، جو اپنے پیارے نبیﷺکی وہ امت ہیں،
جس کی مغفرت کی فکر میں وہ ساری ساری رات روتے رہتے اور اللہ سے ہماری مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے،

وہی امت آج شوقیہ خود کو جہنم کا ایندھن بنانے پر تل چکی۔

ایک فیشن نت نئے ڈیزائن کے عبایا اور برقع کا بھی رواج پا چکا۔
ایسی خواتین نے کیا کبھی سوچا ہے کہ اللہ نے اگر پردے کے ذریعے خود کو چھپانے کا حکم دیا، تو آخر کس لیے؟ تاکہ وہ مردوں کی نظروں میں نہ آئیں اور غیر محرم اُن کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں۔

لیکن جب یہی خواتین چست، تنگ اور طرح طرح کے ڈیزائن دار عبایا پہنتی ہیں ،تو یقین کریں بے حجاب  عورت سے زیادہ توجہ کی مرکز بن جاتی ہیں۔

عبایا کے کناروں پر گوٹے کناری، پھول بوٹے کا دلکش کام، بازوؤں پر گھنگھرو لگے ہوئے، یہاں تک کہ حجاب لیا ہوا لیکن چہرہ میک اپ زدہ ،اتنا کہ انسان دیکھنے پر مجبور ہو جائے ۔
اب خود سوچیں کہ پردے کا اصل مقصد تو فوت ہو گیا اور مرد کی توجہ پھر بھی حاصل کر لی۔

why Fashion trends continuously changing day by day

عبایا یا برقع  لے لینے سے پردے کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔
عبایا اتنا کھلا ضرور ہونا چاہیے کہ اس میں عورت کی جسامت کا صحیح اندازہ نہ ہو پائے
جبکہ آج کل کے نام نہاد فیشن ایبل عبایا اور برقعے قمیص کی طرح ہی چست اور ڈیزائن شدہ ہوتے ہیں۔

بعض خواتین اس طرح اپنے فیشن کے ’’شوق‘‘ کی تسکین کرتی ہیں کہ پردے کا حکم مان لیا اور اپنی خوشی بھی پوری کر لی۔
میری نظر میں یہ سراسر پردے کے حکم کا کھلا مذاق اور بے ادبی ہے۔

اس سے تو اچھا کہ وہ کھلے ڈُلے لباس کے ساتھ اپنے دوپٹے یا چادریں ہی ٹھیک سے اوڑھ لیا کریں تاکہ حجاب کے معنی کی بے حرمتی نہ ہو۔

میں نے خود ایسی کئی خواتین دیکھی ہیں
جو سر پر اسکارف لے کر سمجھتی ہیں کہ بس اللہ کے حکم کی پیروی ہو گئی۔
سر پر اسکارف اور ساتھ تنگ ٹائٹس نما جدید جینز
جسے فیشن کی زبان میں سگریٹ پینٹ کا نام دیا گیا ہے۔

کیا نوعمر اور کیا بڑی عمر کی خواتین،
سب ہی عمر کے فرق کا لحاظ بالائے طاق رکھ کر اس میں ملبوس نظر آتی ہیں۔
ان کو بتانے والا ، ٹوکنے والا کیا کوئی نہیں
جو انہیں سمجھا اور بتا سکے کہ یہ کس قدر بیہودہ لگتا ہے۔

some fashions trends are touching vulgarity

لمبے چاکوں والی چھوٹی قمیص کے ساتھ ٹانگوں سے چپکی ہوئی ٹائٹس اور سر پر حجاب نما سکارف۔ سبحان اللہ۔ بس ہو گیا پردہ!

میں حیران ہوں کہ جب یہ لڑکیاں گھروں سے نکلتی ہیں
تو کیا گھر میں ایسا کوئی فرد نہیں جو ان کو منع کر سکے اور ایسے ملبوسات کا بائیکاٹ کر سکے۔
کیا ماؤں نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے؟
یا چونکہ انہیں خود بھی یہ سب پہننا اچھا لگتا ہے،
اس لیے وہ اپنی اولاد کو بھی نہیں ٹوکتیں۔

بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔
شاید یہ تصویر کا ایک ہی رخ ہے۔
دوسرے رُخ کو جاننے کے لیے میں نے کچھ لڑکیوں سے گفتگو کی۔
جاننا چاہا کہ وہ ایسا لباس کیوں پہنتی ہیں۔

پتا چلا کہ سب ہی شوقیہ ایسا نہیں کرتیں۔
کچھ کو مجبوراً اپنا لباس ماڈرن اور اپ ٹو ڈیٹ رکھنا پڑتا ہے۔

یہ مجبوری مجھے پتا چلی ایک سپر اسٹور پر سیلز گرل کا کام کرنے والی نوعمر لڑکی سے،
جو انتہائی چست لباس ، تنگ جینز اور چھوٹی سی ٹی شرٹ پر مشتمل ’’یونیفارم‘‘ پہن کر کاؤنٹر پر بیچارگی کی تصویر بنے خریداری کرنے والے گاہکوں میں مصروف تھی۔

اُس نے مجھے بتایا کہ ایسا لباس پہننا مجبوری ہے ، کیونکہ اسے ایسا ہی یونیفارم دیا گیا ہے۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگی
یہ پاکستانی مسلمان معاشرہ ہے ،پھر بھی ہمیں ایسے بیہودہ لباس پر مشتمل وردی پہننے کو دی جاتی ہے۔

کیا شلوار قمیص پر مبنی یونیفارم نہیں بنوایا جا سکتا ؟
لیکن مالکان کی سوچ یہ ہے کہ اگر شریف لباس میں پردے والی لڑکی کو کاؤنٹر پر بٹھایا تو لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور یوں اسٹور پر گاہکوں کا رش کیسے لگے گا؟

کون لڑکی چاہے گی کہ بھانت بھانت کے لوگوں کی نظریں اپنے وجود پر برداشت کرے؟
لیکن مجبوری اور غربت ہمیں ایسی گھٹیا نوکری کرنے پر مجبور کر دیتی ہے‘‘۔

میں بوجھل دل لیے آ تو گئی لیکن اس سوال نے کئی دن میرے دل کو بے چین کیے رکھا کہ جب ملٹی نیشنل اسٹورز اور فاسٹ فوڈ کی شاخیں ہمارے ملک میں کھولی جاتی ہیں۔
کیا یہ ضروری ہے کہ وہاں کام کرنے والی خواتین  کو یونیفارم کے نام پر بیہودہ لباس ہی پہنایا جائے؟

جس ملک کی جو روایات اور ثقافت ہو، اسی کی مناسبت سے وہاں کی ملازم پیشہ خواتین کو  یونیفارم بنوا دیا جائے تو اس میں کیا قباحت ہے؟

 میں ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرنے والی ایک اور لڑکی سے ملی اور پوچھا کہ اتنے فیشن ایبل ملبوسات پہننے کی کیا وجہ ہے؟
اُس نے جو وجہ بتائی میں اسے بھی نہ جھٹلا سکی۔
اُس نے تلخ لہجے میں بتایا

 شروع میں، مَیں یہاں اسکارف اور مناسب لباس میں ہی آئی تھی مگر
مجھے میرے حلیے کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔
کمپنی مالکان کا خیال تھا کہ میرا حجاب اور سادہ لباس اُن کی فرم کے لیے شرمندگی کا باعث بنے گا۔
نہ ہی میں اُن کے ساتھ چار لوگوں میں اٹھتی بیٹھتی اچھی لگوں گی۔
انہیں ایسی ماڈرن لڑکی چاہیے تھی ،
جو بیرون ملک سے آئے وفود کے ساتھ بات چیت کرے اور کمپنی کی عزت و شہرت پر اچھا اثر پڑے‘‘۔

اُس کا آخری جملہ یہ تھا ’’ پردے والی عورت کو مرد عزت تو دے دیتے ہیں ملازمت نہیں‘‘۔
اس سے زیادہ سننے کی مجھ میں تاب نہ تھی لہٰذا وہاں سے چل پڑی۔

ویسے تو مردوں کا کہنا ہے کہ عورت کو آزادی دی جانی چاہیے کہ
وہ بھی اپنی زندگی میں کچھ بن جائے ،
آگے بڑھ سکے اور گھر کے مالی حالات میں معاون بن کر اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔
مگر مردوں کا ہی یہ معاشرہ باعزت طریقے سے نوکری کرنے کی خواہش رکھنے والی خواتین کو ملازمت دینے پر تیار نہیں ہوتا۔

مردوں کی دوسری قسم وہ ہے،
جن کا زور صرف اس بات پر ہے کہ عورت خود کو پردے میں رکھے۔
انہوں نے پردے سے متعلق تمام آیات و احادیث رٹی ہوئی ہیں،
مگر اسلام کا یہ حکم انہیں یاد نہیں کہ انہیں بھی اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
پردے کا حکم تو مرد پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

https://shanurdu.com/digital-mother/

مختصر یہ کہ جیسے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی
ویسے ہی اس فیشن نامی بلا کو بڑھاوا دینے میں کوئی ایک فریق نہیں بلکہ پورا معاشرہ، پوری قوم ہی ذمہ دار ہے۔
کیا کوئی ایسا شعبہ نہیں ،
ایسی حکمتِ عملی یا پالیسی نہیں جو فیشن کے اس طوفان کو کنٹرول کر سکے؟

نہ ہی کوئی ایسا لائحہ عمل یا قانون حکومتی سطح پر بنایا گیا ہے
جو اس بڑھتی ہوئی وبا پر قابو پانے کے لیے
کچھ حدود و قیود یا اصول و ضوابط مرتب کر سکے۔

قرآن و سنت میں لباس سے متعلق واضح احکامات موجود ہیں۔
مگر آج کی خصوصاً پاکستانی نوجوان نسل ان احکامات کو خاطر میں نہیں لاتی۔
ایسا نہ ہو کہ اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت سے کٹ کر
ہم ایسی قوم بن جائیں جو نہ دین کی ہوتی ہے نہ دنیا کی!

قرآن و حدیث نے ہمیں جو راہ بتلائی ،اُس پر چلنے اور ماننے سے ہم گریزاں ہیں۔
قوم کی تربیت کی ذمہ داری اُٹھانے والا کوئی نہیں۔
تو آخر ہمارا انجام کیا ہو گا اور آخر اس کی حد کہاں جا کر ختم ہو گی؟ یہ کون طے کرے؟

you may also read this
https://www.voguebusiness.com/sustainability/is-fast-fashion-an-addiction

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles