افسانہ
انجوائے یور ڈنر
نیلم احمد بشیر
’’اف کتنی ٹھنڈ ہے!‘‘ عثمان بڑبڑایا اور کانوں کو ڈھکنے کے لیے اپنی ٹوپی کو ماتھے سے مزید نیچے سرکا دیا۔ ہموار ہائی وے پر تیزی سے دوڑتی ہوئی، چاروں طرف سے بند وین کو چلاتے ہوئے اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا،
جیسے وہ منطقہ بادہ شمالی میں واقع کسی ٹھنڈے دیس کی لمبی سرنگ کا سفر طے کر رہا ہو اَور منزل دور سے دور ہوتی چلی جا رہی ہو۔
عثمان کو اب اِس سردی کا پانچ سالہ تجربہ ہو چکا تھا، مگر جنوری کے مہینے کی ’’نیویارکی سردی‘‘ اُسے پہلے ہی کی طرح خوفناک اور ظالم لگتی تھی۔
وہ بہت چاہنے کے باوجود اَب تک خود کو اِس کا عادی نہ بنا سکا تھا۔ ہیٹر کا درجہ حرارت بڑھانے کی خاطر اُس نے اپنا ہاتھ بڑھایا، تو وہ بےاختیار ساتھ والی سیٹ پر پڑے سفید رنگ کے چپٹے گتے کے ڈبے سے ٹکرا گیا۔
اُس نے جلدی سے اُسے یوں جھٹک کر پرے کیا جیسے انجانے میں اُس نے کسی کنواری کا بدن چھو لیا ہو۔ رگ و پے میں سنسنی سی دوڑ گئی۔
ڈبے کے لمس نے اُسے بےچَین کر دیا۔ وہ اُس کے بارے میں سوچنا نہیں چاہتا تھا۔
اپنا دھیان ہٹانے کی کوشش میں اُس نے سڑک کنارے جمع برف کے میلے میلے ٹیلوں پر نظریں جما دیں، مگر ڈبے میں سے اٹھتی ہوئی گرم گرم اشتہاانگیز مہک کو نظرانداز کرنا اُس کے لیے ممکن نہ رہا تھا۔
اُس نے ہتھیار پھینک دیے اور ڈبے کو بغور دیکھنے لگا۔
’’Dominos Pizza ….. لارج سائز!‘‘
سرخ رنگ کی عبارت کو اُس نے مکمل توجہ سے یوں پڑھا جیسے وہ راجہ اشوکا کی جانب سے نصب شدہ کسی کتبے پر لکھی وہ اَہم تحریر ہو, جو اُس نے اپنے زمانے میں پرجا کی راہنمائی اور اَخلاقی تعلیم کے لیے سڑکوں پر لگوائے تھے۔
ڈبے کی گرم سطح پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرنے سے اُس کے اندر زندگی کی حرارت منتقل ہونے لگی، مگر اِس حرارت کے ساتھ ہی خوف کی ایک بیل سی لپٹی محسوس کر کے اُس نے اپنا ہاتھ پھر سے ہٹا لیا۔
وہ ڈر گیا۔ اُسے پتا تھا کہ اگر اُس نے ڈبے کو پھر سے چھوا، تو اُس کے دل میں ذرا سا سائیڈ سے کھول لینے کی امنگ ٹکریں مارنے لگے گی۔
وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے گا۔ ہو سکتا ہے وہ پیزا کے ایک سلائس کا منا سا ٹکڑا کتر کر منہ میں ڈال ہی لے۔ سائیڈ پر گرا ہوا کوئی مشروم یا پگھلی ہوئی پنیر کو تھوڑا سا چکھ ہی لے۔
آخر وہ صبح سے بھوکا تھا اور کھٹے ساس والے تازہ پیزا کی خوشبو کو نظرانداز کرنا اتنا آسان بھی نہ تھا، لیکن اُسے یہ بھی پتا تھا کہ اگر وہ اِس حالت میں مسز بریڈلی کو پیزا پہنچائے گا، تو وہ یقیناً اِس میں نقص نکالے گی۔
اُس کے مالک کو شکایت کا فون کر کے خود تو مفت پیزا کی حق دار ٹھہرے گی۔
مالک اُسے سرزنش کرنے کے بعد نوکری سے برخواست کرنے کی دھمکیاں بھی دے گا جو وہ بالکل افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔ مسز بریڈلی کی پیزا ڈلیوری سے اُسے اِس شام کوئی ٹپ بھی نہیں ملے گی۔
اُسے امریکا آئے ہوئے اتنے سال گزر چکے تھے، مگر حالات اب تک اُس کے قابو میں نہیں آ سکے تھے۔ پاکستان میں کتنے اچھے دن تھے۔
ابو کا لاہور میں اچھا خاصا کاروبار تھا۔ گھر، گاڑی، بینک بیلنس سبھی کچھ تو تھا، مگر اچانک نہ جانے کہاں سے ایک سرخ آندھی آئی کہ سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔
ابو کاروبار میں سب کچھ ہار بیٹھے، تو اُنھوں نے جائےنماز بچھا لی اور سال بھر بیٹھے تسبیح پھیرتے رہے۔ پھر ایک روز دروازے پہ چند مولویوں نے دستک دی۔
تو ابا جان اُس دستک کے جواب میں خلقِ خدا کو رَاہِ حق کی طرف بلانے، تبلیغ کے جوش میں گھر سے بہت دور نکل گئے۔
اتنی دور کہ اُن کے ذہن میں پیچھے رہ جانے والوں کے چہرے بھی دھندلا گئے۔ امی نے تین بھوکے بچوں کے پیٹ میں روٹی ڈالنے کے لیے مجبوراً دوسری شادی کر لی۔
سولہ برس کا ہوتے ہی عثمان نے امریکا جانے کے خواب کی پرورش کرنا شروع کر دی تھی۔ خوش قسمتی سے اُسے نیویارک کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔
وُہ اَمی اور چھوٹے بہن بھائی کو چھوڑ کر چلا آیا۔ گلابوں کی سیج دِکھنے والی امریکا کی زندگی نے اُسے تگنی کا ناچ نچا دیا، مگر اُس نے حوصلہ نہیں ہارا۔
رہنے کو گھر، نہ جیب میں پیسہ، اسٹوڈنٹ ویزے پر کام کرنے کی محدود سی آزادی۔
حالات دشوار تھے، مگر اُس کے دل میں اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کر گزرنے کی آرزو اتنی طاقتور تھی کہ وہ آسانی سے سب کچھ جھیلتا چلا گیا۔
امی نے کہہ دیا تھا کہ اُنھیں منیر صاحب یعنی اپنے دوسرے شوہر سے اپنے بچوں کے لیے کچھ مانگنا اچھا نہیں لگتا، لہٰذا وُہ اَپنی ذمےداریاں پہچانتے ہوئے امریکا پہنچتے ہی اُنھیں کچھ نہ کچھ بھیجنے لگ جائے۔
عثمان نے امی کی بات کی لاج رکھی اور ہر ماہ جتنی رقم ممکن ہوئی، بھیجنے لگا۔
رہتا تو وہ ہاسٹل کے ایک مختصر سے کمرے میں تھا، مگر اُس میں ٹک کر بیٹھنا اُسے کم ہی نصیب ہوتا۔
کلاسیں ختم ہوتے ہی وہ فوراً اَپنی پیزا ڈلیوری کے لیے نکل جاتا اور رَات گئے لَوٹتا۔
یہ ملازمت دو لحاظ سے اچھی تھی۔ ایک تو پیزا پہنچانے کے بعد اُسے پانچ سے دس ڈالر تک کی معقول ٹِپ مل جاتی تھی۔
پھر کبھی کبھار اُس کا مالک اُسے دیر ہو جانے پر پیزا ڈلیوری وین میں سو جانے کی بھی اجازت دے دیتا تھا جو بہرحال خوفناک سرد موسم میں کسی ویران پارک کے بینچ پر جم جانے سے بہت بہتر تھا۔
دس ڈالر کی ٹِپ سے اُس کے روئیں روئیں میں خوشی کے دیپ جھلملانے لگتے۔ پاکستان میں تو دس ڈالر کے کافی زیادہ پیسے بن جاتے تھے۔
امی کے گھر میں چند روز کا سودا سلف آ سکتا تھا۔ چھوٹوں کی فیسیں، کپڑے، جوتے وغیرہ آخر کچھ کم اخراجات تو نہیں تھے۔
عثمان کی خواہش تھی کہ اُس کے بہن بھائی اور ماں کو کسی محرومی کا ذائقہ نہ چکھنا پڑے۔ وہ لوگ ہرے بھرے اور سُکھی، ہنستے مسکراتے رہیں۔
وہ ہر لحاظ سے بچت کی کوشش کرتا۔ اکثر دن میں ایک ہی وقت کا کھانا کھا کر گزارہ کر لیتا۔
’’جی! کون؟‘‘ گھنٹی بجانے پر ونٹر کاسل بلڈنگ کے اپارٹمنٹ نمبر بیس بی کے سپیکر سے آواز آئی۔
’’ڈامینوز پیزا ڈلیوری میڈم!‘‘ عثمان نے سپیکر کے قریب منہ لے جا کر آہستہ سے کہا۔
’’او کے!‘‘ ایک بٹن دبا اور بز (Buzz) کی آواز کے ساتھ ہی دروازہ کھل گیا۔
زنجیر لاک میں سے لونگ روم کافی حد تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ عثمان نے دیکھا حسبِ معمول بوڑھی خاتون اور اُس کا کتا گھر میں اکیلے تھے۔
ٹی وی باتیں کر رہا تھا اور آتش دان کی دھیمی دھیمی آگ خاموشی سے سُن رہی تھی۔
’’ینگ مین! آخر تم پہنچ ہی گئے۔ اتنی دیر لگا دی؟ مَیں نے تو گھنٹہ بھر پہلے فون کیا تھا۔ کہاں رہ گئے تھے تم؟ مَیں تمہاری شکایت کروں گی۔‘‘ سر پر اُونی ٹوپی پہنے بڑھیا حسبِ معمول بڑبڑانے لگی۔
’’سوری میڈم! دراصل سردی کی وجہ سے وین نے اسٹارٹ ہونے میں کچھ دیر لگا دی تھی، اِسی لیے۔‘‘ عثمان معذرتانہ لہجے میں بولا۔
’’اچھا، اچھا، ٹھیک ہے لاؤ اِدھر اور یہ لو۔‘‘
بڑھیا نے پیزا کا گرم گرم ڈبہ لیتے ہوئے اپنے ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھوں سے اُس کے ہاتھ میں ٹِپ تھما دی۔
’’شکریہ میڈم Enjoy your dinner (آپ رات کے کھانے سے لطف اندوز ہوں۔)
عثمان یہ کہہ کر روایتی امریکی انداز میں مسکرا کر اپنی وین کی طرف چل دیا۔ وین میں بیٹھنے سے پہلے ہی اُس نے سبز سبز ڈالر گننے شروع کر دیے۔ ا
نہیں چھوتے ہی اُس کے شکم میں گرماگرم روٹیوں کی لذت بھری تسکین سی اترنے لگ گئی تھی۔
’’دھت تیرے کی! بڑھیا کنجوسی کر گئی۔‘‘ دس کی جگہ آج اُس نے محض سات ہی ڈالر دے کر اُسے ٹرخا دیا تھا۔ عثمان کا پیٹ یک دم روٹیوں سے جیسے خالی ہو گیا۔ بھوک بلا بن کر اُس پر حملہ آور ہو گئی۔
یہ اُس کی آخری گاہک تھی۔
اُس کے حساب سے آج اُسے مجموعی طور پر کم ٹِپ ملی تھی جس کی وجہ سے اُس کا بجٹ خراب ہو گیا تھا۔
اب وہ آج رات کے کھانے پر محض پانچ ڈالر ہی خرچ کر سکتا تھا۔
اُس نے میکڈونلڈ کا رخ کیا اور اُن کی سب سے سستی ڈیل کا مینو دیکھتے ہوئے آرڈر دَے کر انتظار کرنے لگا۔ سارا کھانا پل بھر میں ہی ختم ہو گیا، مگر بھوک بدستور برقرار رَہی۔
خستہ بھربھرے آلوؤں کی آخری قاش کو وہ دَیر تک کیچپ میں بھگو کر دانتوں سے کترتا رہا۔
’’کیوں نہ ایک اور بڑا برگر لے لوں!‘‘ اُس کے دل میں خواہش ابھری۔
’’نہیں!‘‘ اندر سے جواب آیا۔
پچھلے ہفتے امی نے کہا تھا گھر میں نیا روغن کروانا ہے۔ پرانا پلستر ہر وقت اکھڑ اکھڑ کر گرتا رہتا ہے۔ کوئی آیا گیا ہو، تو بہت شرمندگی ہوتی ہے۔
پھر امی نے یہ بھی کہا تھا کہ ماموں کی بیٹی کی شادی آ رہی ہے ۔ اُن کے ہاتھ میں سونے کی کوئی چیز نہیں۔ اُنھیں لازماً ایک کڑا بنوانا ہے، ورنہ لوگ کیا کہیں گے بیٹا امریکا میں ہے اور ماں کے ہاتھ سُونے۔
چھوٹا بھائی رضوان بھی نئے ڈی وی ڈی پلیئر کے لیے ضد کر رہا تھا۔ اُس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر بٹوے کو ٹٹولا اور پھر کچھ سوچ کر ہاتھ باہر نکال لیا۔
میکڈونلڈ میں بیٹھے لوگ مزے سے آئس کریم، ایپل پائی اور شوگر کوکیز سے لطف اندوز ہوتے نظر آ رہے تھے۔ عثمان نے اپنی نظریں باہر گرتی ہوئی سفید برف پر ٹکا دیں۔
ایک تیز غصیلی آواز نے یکایک اُس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی:
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟ نان سینس۔ یہ میرے ساتھ دوسری بار ہوا ہے۔ آپ لوگوں کی کوئی کوالٹی کنٹرول بھی ہے یا نہیں۔ اپنے مینیجر کو بلائیے۔‘‘
عثمان نے پلٹ کر دیکھا، درمیانی عمر کا ایک سوٹڈ بوٹڈ آنکھوں پر چشمہ، سر پر ہیٹ پہنے معزز شخص کاؤنٹر پر کھڑا کیشئر لڑکی سے بلند آواز میں شکایت کر رہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں مینیجر بھی آ گیا۔
’’لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ہم تو پیش کرنے سے پہلے ہر برگر کو فروزن سیکشن سے نکال کر اُسی وقت تیار کرتے ہیں۔
خراب گوشت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہمارا سسٹم تو خودکار (آٹومیٹک) ہے۔‘‘
مینیجر نے تحمل سے صفائی پیش کی۔
’’تو آپ کا خیال ہے، مَیں جھوٹ بول رہا ہوں؟ مَیں آپ کو بتا رہا ہوں کہ کل شام جو بگ میک مَیں نے یہاں سے خرید کر کھایا تھا، وہ انڈر کُک تھا یا وہ میڈ کاؤ کا گوشت تھا۔‘‘
’’میڈ کاؤ؟‘‘ مینیجر اور لڑکی نے بیک وقت حیرت کا اظہار کیا۔
مینیجر نے جلدی سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ دوسرے گاہک بھی متوجہ ہونے لگے تھے۔
’’مَیں معذرت چاہتا ہوں۔ ایسا تو ممکن ہی نہیں۔‘‘ مینیجر گاہک کو کچھ خبطی سا سمجھ کر ہولے سے مسکرایا۔
’’اُس برگر میں سے ناخوشگوار بُو آ رہی تھی، مگر مَیں پھر بھی کھا گیا کہ آخر میکڈونلڈ کا ہے۔ خراب کیسے ہو سکتا ہے؟
گھر جاتے جاتے میری طبیعت خراب ہو گئی اور مجھے قے آ گئی۔ وہ تو شکر ہے، مَیں نے گاڑی پارک کر دی ور سڑک کے ایک جانب ہو کر قے کر دی، ورنہ میری گاڑی کا ستیاناس ہو جاتا ۔
آپ لوگوں کو اُس کی صفائی کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے۔‘‘
’’ویری سوری! آپ کو تکلیف ہوئی۔ اب بتائیے ہم آپ کی کس طرح خدمت کر سکتے ہیں؟‘‘ مینیجر نے معاملہ نبٹانا چاہا۔
’’کیا آپ ایک بالکل تازہ میل (meal) پسند کریں گے جو خاص طور پر آپ کی پسند کے مطابق بنایا جائے گا۔
فری آف چارج، آف کورس! (بالکل مفت) کیشئر لڑکی نے مہذب انداز میں درخواست کی۔
گاہک نے پل بھر کو کچھ سوچا، اپنی گھڑی دیکھی اور سر ہلا کر اپنی پسند کا برگر بنوانے لگا۔
’’آپ بیٹھیے، ہم خود ہی کھانا لے آتے ہیں۔‘‘ یونیفارم پوش لڑکی مسکرائی ۔
معزز شخص میز پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔
’’انجوائے یور ڈنر!‘‘ لڑکی نے تازہ بنے ہوئے ویل ڈن برگر اور فرنچ فرائز مع کمپلیمنٹری ایپل پائی سے سجی ٹرے گاہک کے آگے رکھ دی اور مسکرا کر اپنے کاؤنٹر کے پیچھے جا کھڑی ہوئی۔
عثمان اپنا کھانا کب کا ختم کر چکا تھا۔ اُس نے اٹھ کر اَپنا کوڑا، کوڑےدان میں پھینکا، سر پہ سرخ ٹوپی پہنی، پیزا ڈلیوری کی جیکٹ پہنی اور باہر نکل گیا۔
اگلی شام جب وہ سوٹڈ بوٹڈ، سر پر ہیٹ، آنکھوں پر چشمہ لگائے اپنے ہاسٹل کے کمرے سے نکلا، تو اُس کے ساتھ والے کمرے والا رالف اُسے پہچانے بغیر یونہی Hi کہہ کر پاس سے گزر گیا۔
عثمان پوری دوپہر لگا کر سیکنڈ ہینڈ کلاتھنگ شاپ سے کی گئی شاپنگ یاد کر کے مسکرا مسکرا کر منہ سے سیٹی بجائے گیا اور اَپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔
راہ میں پڑنے والے پہلے ہی میکڈونلڈ پر اُس نے گاڑی پارک کر دی اور کھانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ پُرشکم ہو کر واپس آتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا، آج کے برگر جتنے مزےدار تھے، اتنے پہلے کبھی کیوں نہیں لگے۔
مفت کھانا کھانے کا مزا اِتنا زبردست تھا۔
اُس نے ایک فیصلہ کر لیا کہ اُسے منہ کا ذائقہ بدلتے رہنا چاہیے۔ آخر نیویارک شہر ہر طرح کے ریستورانوں سے بھرا پڑا ہے۔
کبھی اطالوعی، کبھی میکسیکن، کبھی فرانسیسی، کبھی چائنیز، اچھا ہے جگہیں بھی بدلتی رہیں گی۔
ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑے مزے سے برداشت کرتے ہوئے اُس نے حساب لگایا۔
اب کی بار اَمی کو رنگ روغن کروانے کے اخراجات کے ساتھ ساتھ وہ سونے کے کڑے کی رقم بھی بھیج سکے گا۔
چھوٹا بھائی رضوان تو ڈی وی ڈی پلیئر لے کر اچھلتا پھرے گا۔
’’انجوائے مائی ڈیئر!‘‘
وہ دِھیمے سُروں میں گنگنانے لگا اور پیزا ڈلیوری کے لیے گاڑی تیز بھگا دی۔