31 C
Lahore
Sunday, November 3, 2024

Book Store

کیاایمو فلپس لیجنڈ ہے؟

لندن کا مشہور رائل البرٹ ہال تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں پردے پر گڑی ہوئی تھیں۔ ہر ایک آنکھ اپنے پسندیدہ سٹینڈ اپ کامیڈین کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھی۔ چند ہی لمحوں بعد پردہ اٹھا اور اندھیرے میں ایک روشن چہرہ جگمگایا۔
اسے دیکھ کر تماشائی اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گئے اور تالیاں کی گونج میں اپنے پسندیدہ
کامیڈین کا استقبال کیا۔
یہ گورا چٹا آدمی مشہور امریکی سٹینڈ اپ کامیڈین ایمو فلپس تھا۔ اس نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر اپنے چاہنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور بڑی ہی گمبھیر آواز میں بولا
“دوستو میرا بچپن بہت ہی کسمپرسی کی حالت میں گزرا تھا، مجھے بچپن سے ہی بائیکس کا بہت شوق تھا۔ میرا باپ کیتھولک تھا، وہ مجھے کہتا تھا کہ خدا سے مانگو وہ سب دیتا ہے۔
میں نے بھی خدا سے مانگنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور دن رات اپنے سپنوں کی بائیک کو خدا سے مانگنا شروع کر دیا۔
میں جب بڑا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ میرا باپ اچھا آدمی تھا لیکن تھوڑا سا بے وقوف تھا، اس نے مذہب کو سیکھا تو تھا لیکن سمجھا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں سمجھ گیا تھا”۔
اتنا کہہ کر ایمو فلپس نے مائیکروفون اپنے منہ کے آگے سے ہٹا لیا اور ہال پر نظر ڈالی تو دور دور انسانوں کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے لیکن ایسا پِن ڈراپ سائلنس تھا کہ اگر اس وقت سٹیج پر سوئی بھی گرتی تو شاید اس کی آواز کسی دھماکے سے کم نہ ہوتی۔
ہر شخص ایمو فلپس کی مکمل بات سننا چاہتا تھا کیونکہ وہ بلیک کامیڈی کا بادشاہ تھا، وہ مذاق ہی مذاق میں فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دیتا تھا۔
ایمو نے مائیکروفون دوبارہ اپنے ہونٹوں کے قریب کیا، اور بولا
“میں بائیک کی دعائیں مانگتا مانگتا بڑا ہو گیا لیکن بائیک نہ ملی، ایک دن میں نے اپنی پسندیدہ بائیک چرا لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائیک چرا کر گھر لے آیا اور اس رات میں نے ساری رات خدا سے گڑ گڑا کر معافی مانگی اور اگلے دن معافی کے بعد میرا ضمیر ہلکا ہو چکا تھا۔ مجھے میری پسندیدہ بائیک مل چکی تھی۔ میں جان گیا تھا کہ مذہب کیسے کام کرتا ہے”۔
اتنا کہہ کر جیسے ہی ایمو فلپس خاموش ہوا تو پورا ہال قہقوں سے گونج اٹھا، ہر شخص ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا اور کیا آپ جانتے ہیں اس لطیفے کو اسٹینڈ اپ کامیڈی کی تاریخ کے سب سے مشہور لطیفے کا اعزاز حاصل ہے۔
اتنا کہہ چکنے کے بعد ایمو فلپس نے پھر سے مائیکروفون ہونٹوں کے قریب کیا اور بولا
“اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنا کہہ کر ایمو فلپس پردے کے پیچھے غائب ہو گیا اور لاکھوں شائقین ہنستے ہنستے رو پڑے کیونکہ یہ ایسا جملہ تھا جس نے بہت سارے فلسفوں کی گھتیاں سلجھا دی تھیں۔
وہ تمام لوگ جن پر پاکستان میں کرپشن، پیسہ چوری، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور معاشی دہشت گردی کے عدالتی کیس چل رہے ہیں، وہ مکہ مدینہ میں قران پاک پڑھتے ہوئے، نماز پڑھتے ہوئے، جالیوں کو چومتے ہوئے اور ہزار طرح کی مناجات کرتے ہوئے تصویریں کھنچوا کھنچوا کر پاکستان بھیج رہے ہیں اور لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے نیک اور مذہبی ہیں، ہم تو ہر لمحہ اللہ سے توبہ استغفار کرتے رہتے ہیں۔
اور میرے کانوں میں بار بار ایمو فلپس کا وہ جملہ گونج رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اگر تم کبھی کسی مال دار شخص کو خدا سے معافی مانگتے دیکھو تو یاد رکھنا وہ مذہب سے زیادہ چوری پر یقین رکھتا ہے”۔
(ماخوذ)

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles