عیدِ قرباں پر زائد گوشت خوری کے طبی و شرعی نقصانات
٭ پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی
پہلا سوال یہ ہے کہ ’’ بقر عید ‘‘ ہے کیا ؟
قارئین کرام کے علم میں ہوگا کہ ماہِ ذی الحج کی دس تاریخ کو حجاج کرام ادائیگیٔ حج کے بعد، سُنتِ ابراہیمی کی پیروی میں اللہ کی راہ میں’’ جان‘‘ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں ۔
کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں، اللہ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا جاتا ہے۔تاریخِ اسلام میں سب سے پہلی قربانی حضرت آدم ؑ کے فرزندان ہابیل اور قابیل نے دی تھی ۔
قربانی کے مقبول ہونے یا قبول نہ ہونے کی پہچان ،انبیاء السلام کے دور میں یہ ہوا کرتی کہ جس قربانی کو اللہ قبول فرماتا تو آسمان سے ایک آگ آتی اور اُس (قربانی )کو جلا دیتی ۔
اُس زمانے میں کفار سے ، جہاد کے ذریعہ جو مالِ غنیم ہاتھ آتا ،اُس کو بھی آسمان سے آگ نازل ہو کر جلا دیا کرتی ۔
یہ عمل ’’جہاد‘‘ کے مقبول ہونے کی علامت سمجھا جاتا ۔لیکن امتِ محمدیہ ﷺ پر اللہ پاک کا یہ خصوصی کرم ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مالِ غنیمت ان کے لئے ’’جائز ‘‘ کردیا گیا ۔
حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے خصوصی فضائل اور انعاماتِ الٰہیہ کا تذکرہ فرماتے ہوئے ،بارہا فرمایا :
بسم اللہ :’’ اُحِلَّتْ لِی اَلْغَنَانِم ‘‘
(ترجمہ :میرے لئے مالِ غنیمت حلال کردیا گیا )
یعنی مالِ غنیم کو استعمال کی اجازت دی گئی ۔
ہم جانتے ہیں کہ صاحبِ حیثیت مسلمانانِ عالم،حضرت ابراہیم ؑ کومتواتر کئی شبوں تک دکھائی دینے والے ایک خواب کی تکمیل (کی اتباعِ سُنّت) میں قربانی کیا کرتے ہیں ۔
حضرت ابراہیم ؑ کو حکم ہوا کہ اللہ کی راہ میں اپنے جواں سال فرزند ، حضرت اسماعیل ؑ کو قربان کر دیں ،
غور فرمائیے، پیغمبر کو خواب دیے گئے حکم میں انسانی نفس کے لیے بڑی تاویلات موجود تھیں، بڑی گنجائشیں تھیں ، لیکن حضرت ابراہیم ؑ نے تاویلات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا اور
بیٹے سے مشورے کے بعد اُسے اللہ کی راہ میں قربان کرنے چلے،
عین بوقتِ ذبیحۂ فرزند ،
جنّت سے ایک دُنبہ یا مینڈھا نازل ہوا اور اُسے اللہ کی راہ میں قربان کردیا گیا،
جب سے یہ عمل سُنّتِ ابراہیمی کہلایا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ عید قرباں پر کتنا گوشت کھانا چاہئیے ؟ کوئی مقدار؟ کوئی پیمانہ ؟
قربانی کا گوشت تو ضرورت مندوں ، رشتے داروں ، ناداروں و دیگر میں تقسیم (کرنے) کے لئے ہوتا ہے .
ایک مناسب مقدار میں خود بھی مختلف مزے دار پکوانوں کی صورت میں کھایا جاتا ہے ،
تاہم بقرعید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے محض قربانی کا گوشت کھاتے چلے جانا تو اپنی شامت کو آواز دینے کے مترادف ہے ۔
طبی ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ گوشت میں انسانی صحت کے لئے ضروری ’’پروٹین ‘‘(لحمیات) ہوتے ہیں ،
اس لئے قربانی کا صاف ستھرا لذیذ گوشت ایک مناسب مقدار میں کھانے میں کوئی مضائقہ نھیں۔لیکن گوشت کے ٹکڑے کرتے وقت اپنے ہاتھوں پر صاف ستھرے پلاسٹک کے دستانے ضرور چڑھا لیں تاکہ اگر ذبیحہ کے گوشت یا خون میں کسی قسم کا وائرس ( عام طور پر کانگو وائرس )ہو
تو اس سے بچا جاسکے ۔اکثر حالتوں میں یہ وائرس گوشت پکنے پر ختم بھی ہو جاتا ہے
( بحوالۂ :انسائکلو پیڈیا میڈیکا، اطالیہ ، سن ۲۰۰۱ء اشاعت )
ڈاکٹر اسپیلن لکھتا ہے :
’’کسی بھی گوشت کو بہت زیادہ کھانے سے احتیاط کریں ، کیونکہ بہت زیادہ گوشت کھانے سے انسانی معدے میں تیزابیت پیدا ہو جاتی ہے.
بہتر ہوگا ،کوئی نباتات یا بیل دار پودا، پکاتے وقت گوشت کے ساتھ شامل کر دیں۔۔۔‘‘
(بحوالۂ : ترجمہ:’’انسانی ہاضمہ اور اس کے افعال ‘‘،سالِ اشاعت ۱۹۹۹ء ، بیکن بکس ، برطانیہ )
دوستو !
ایک غیر مسلم ڈاکٹر کے تحقیقی الفاظوں پر از سر نو غور فرمائیے ،
یہ تحقیق تو ہمارے پیارے سرکارِ دو عالم ﷺ نے صدیوں پہلے بغیر کسی اوزار یا ہتھیار کی مدد کے فرمادی تھی ،کہ، جس کا مفہوم ہے :
’’ مسلمانوں کو گوشت کے ساتھ لوکی یا ٹنڈااور اناج استعمال کرنا چاہئیے ۔‘‘
، پھر دورِ نبوت ؐ میں ’’ ثرید‘‘ نامی ایک کھانے کا بھی تذکرہ ملتا ہے.
یہ ایسا سالن ہوتا جس میں بھیڑ ، بکرا ، اونٹ کا گوشت لوکی یا کسی لوکی خاندان کی سبزی کے ساتھ پکایا جاتا.
پکنے سے کچھ پہلے اُس کے شوربے میں جَو یا گندم کی روٹیوں کے ٹکڑے ڈالے جاتے ، جس سے ’’ثرید‘‘ کا ذائقہ اور تاثیر بڑھ جاتی ، ساتھ ہی طبی افادیت بھی ۔
میں نے DHMS کتابوں میں پڑھا ہے،کہ،
حد سے زیادہ گوشت خوری کے سبب پیدا ہونے والی تیزابیت ,
ذیابطیس ،
ہائی بلڈ پریشر ( بلند فشارِ خون ) ،
دل کی بے ترتیب دھڑکن ،
اختلاج،
بے چینی،
شدید غصہ،
جسمانی و جانی کمزوری ،
نامردی ،
بانجھ پن ،
جگر ،
دل کی بیماریوں
اور ہیپاٹائٹس کے پیچیدہ مسائل کا باعث بن سکتی ہے ۔
ہمارے ہاں مسالے دار گوشت پر کولا مشروبات بھی پینے کا رواج ہے. جس سے انسانی خون میں خطرناک ترین چکنائی ’’ایل ڈی ایل لِپڈز‘‘ میں اضافہ ہوتا ہے .
’’ٹرائی گلیسرائڈز‘‘ بڑھ جاتے ہیں اور دل کی شریانوں کو خون نہ ملنے کے سبب ’’حملۂ قلب ‘‘ واقع ہو جاتا ہے ۔
زیادہ وزن والے افراد ویسے بھی شدید ’’رسک ‘‘( خطرہ) کی لپیٹ میں ہوتے ہیں ۔
کتنا گوشت کھایا جائے ؟
طبی ماہرین کے مطابق ایک انسان کو ہفتہ میں تین دن ،ایک دن میں دو سو تا ۲۵۰ گرام گوشت استعمال کرنا چاہئیے ۔
کوشش کریں ، اس گوشت کو مکمل پکا کر کھایا جائے، کوئلہ یا آگ پر بھون کر کھانے سے شدید طبی پیچیدگیوں کا خطرہ ہے جو پہلے بیان کرچکا ہوں ۔
کیونکہ گوشت کو مناسب طریقے سے نہ پکانا انسانی جسم کے لئے شدید انفکشن کا سب سے بڑا سبب ہے ۔
جس میں ’’معدہ کا سرطان ‘‘ تک شامل ہے ۔
زیادہ گوشت خوری سے انسانی رنگ و رُوپ جھلس جاتا ہے اور چہرہ ویران ہوجاتا ہے ۔
اگر ’’باربی کیو ‘‘ بنانا ضروری ہی ہے تو کبابوں ، تکوں کو بہت زیادہ نہیں جلائیں۔
کیونکہ ایسا کرنے پر گوشت میں مہلک کیمیکلز پیدا ہو جاتے ہیں ۔
’’وائس آف امریکا ‘‘ اپنی ۱۸؍ اکتوبر ۲۰۱۳ء کے اشاعتی مجلہ میں لکھتا ہے :
’’ ہمارے ہاں مقیم پاکستانی ڈاکٹر اقبال کا کہنا ہے ،کہ،
گوشت میں توانائی اور اور لحمیات ہوتے ہیں جو انسانی صحت اور نشو و نما کے لئے ضروری ہیں لیکن گوشت کے زیادہ استعمال سے یورک ایسڈ کا مسئلہ درپیش ہو جاتا ہے
جس سے انسان ہڈیوں کی بوسیدگی اور جوڑوں کے شدید درد میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
حتیٰ کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوسکتا ہے!‘‘
حکیم محمد سعید صاحب کا قول یاد آیا ،
جو ، وہ بطورِ خاص اپنی مطبوعاتِ ہمدرد میں ’’عیدِ قرباں ایڈیشن‘‘میں شائع ہوا، فرماتے ،کہ:
’’گوشت خوری انسانی دل میں قساوت پیدا کرتی ہے !‘‘
شہد حکیم نے ہمیشہ جانوروں کے مقابلے میں پودوں سے حاصل ہونے والی غذا کا استعمال زیادہ کرنے پر زور دیا ، کیونکہ نباتات سے انسان کو ’’ریشہ ، وٹامنز اور معدنیات ‘‘ گوشت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ملا کرتے ہیں۔
یوں انسان چربی اور حراروں ( کیلوریز) کا کم استعمال کرکے’’ وزن ‘‘کو قابو میں رکھ سکتا ہے ، علاوہ ازیں دل کے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
’’ قبض‘‘ جیسے مہلک مرض سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
راقم ، خود، ستّر عشروں کی زائد عمر میں اللہ کا شکر ہے، کہ اپنا بڑا خیال رکھتا ہے ۔
اللہ ، رسول ؐ سے محبت و اُنس کابھرپور تعلق اور اللہ کے بندوں سے محبت اور اُن کے حقوق کی پاسداری میں زندگی گزر رہی ہے ۔
ایک روسی جرنل میں ، ہم نے پڑھا تھا کہ گوشت خور انسان کا مزاج حیوانی ہوجاتا ہے ، وہ بے نُور آنکھ، بے دھڑکن قلب ، بے روح جسم بن جاتا ہے ۔
بھلا ایسے وجود کو ’’ زندہ ‘‘ کون کہے ؟
اگر گوشت کھانا ہی ہے تو ساتھ میں اناج اور سبزیوں کا رواج رکھا جائے ۔
بخدا ، اگر ہم مسلمان ’’ قربانی ‘‘کے احکامات کو سُنّتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں پورا کر لیں تو خوراک کا ہر ذرّہ ہمارے لئے لقمۂ ’’شِفا‘‘بن جائے ،
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں ، شاید ابھی تک ’’ عہدِ نبویؐ کی غذاؤں ‘‘کے موضوع پر کسی پاکستانی جامعہ سے پی، ایچ۔ ڈی کی سطح کا کوئی تحقیقی مقالہ منظر عام پر نہیں آ سکا ہے،
یا،میرے علم میں نہیں۔
کچھ تحقیقی مضامین تو موجود ہیں مارکیٹ میں ، لیکن ، ہم منظور شُدہ پی،ایچ۔ڈی مقالے کی بات کررہے ہیں ۔
ہاں میرے بچّو ! تو مجھے یاد آیا کہ ایک ’’شاپنگ مال ‘‘ میں ایک معصوم سے بچّے نے باپ سے ایک اسٹال کی جانب اشارہ کرکے پوچھا:
’’بابا جانی ! یہ کیا ہے ؟‘‘
باپ نے گردن گُھما کر دیکھا اور بولا : ’’ بیٹا ، یہ گائے کی کھال ہے !‘‘
بچّہ : بابا ۔۔۔پھر، گائے کہاں گئی ؟
باپ : گائے ہمارے پیٹ میں گئی!
بچہ : بابا، لیکن، وہ، ڈاکٹر انکل(ڈاکٹر اقبال میمن ،جو پاکستان میں بچّوں کے معالجین کی جماعت کے ہیڈ ہیں ) تو بتا رہے تھے نا کہ ،زین، اب اگر تم بوٹی کھانے کی ضد کرو گے تو تمہیں ’’پوٹی‘‘ نہیں ہو گی۔
بوٹی آپ کی آنتوں میں جم جائے گی اور ایک انکل کو وہ بتارہے تھے ،ڈاکٹر انکل بابا ، کہ، آپ کو گائے کا گوشت متواتر کھانے سے آنتوں کا کینسر ہو چکا ہے ،ہے نا بابا ؟
معصوم ، بے غرض بچّے نے ایک مکالمہ میں باپ کو ایک ’’ کتاب ‘‘ پڑھا دی۔
میرے ایک پروفیسر صاحب نوّے برس کی عمر میں اس قدر ناتواں ہو چکے تھے ،کہ، چھڑی کے سہارے قریبی مسجد میں جاتے، پوش علاقے میں گھر تھا۔
شاندار مسجد ماشاء اللہ ، لیکن وہ سبزہ زار پر ٹہلتے ’’مسجد‘‘ تک جاتے اور آتے۔
جب کُرسی پر بحالتِ مجبوری بیٹھتے تو
اپنی چھڑی کا زمین پر لگنے والا حصہ مسجد کے احاطے سے باہر سرکا دیا کرتے کہ
اللہ کے گھر میں نجاست شامل نہ ہو سکے ،کیونکہ ’’نماز ‘‘ کا معاملہ ہے۔
میرے عزیز قارئین! میں آپ کی قوم کاسینئر ترین معلم ہوں۔ ماں، باپ، اُستاد ، کتاب ، دعا تو اجتماعی ہوا کرتے ہیں۔
ایک اُستاد پوری قوم کا اُستاد ہوتا ہے۔ اُستاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا ۔
دنیا سے سب سے بڑے معلم ، سب سے بڑے انسان ’’ خیر الوریٰ بد الدجیٰ نُور العلیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ ‘‘ نے ہر ،ہر غذا کے فضائل کو تفصیلی بیان فرما دیا ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ مضمون طویل ہو رہا ہے ، لہٰذا تفصیلات پھر کبھی ۔
یاد رکھئے ، قربانی کی شرعی حیثیت محبت و عقیدت کے ساتھ
قربانی کے مویشی کو پالنے، رکھنے، نگہداشت کرنے ، عید کے دن گھاس ،دانا پانی کھلا کر اُس کے گلے پر اپنے ہاتھ سے بعد از تکبیر ، چُھری پھیرنے کی ہے ،
نہ کہ ، ذبح ہوتے ہی، اُس کے گرم جسم کے مختلف اعضاء سے اپنے پیٹ کا قبرستان آباد کرنے کی۔
جانور ذبح کرنے کے بعد چالیس منٹ ٹھنڈا ہونے دیں۔
زیادہ تاخیر کھال اُتارنے میں دشواری ثابت ہو گی۔
بعد ازاں گوشت کو دھوئے بغیر بوٹیاں بنا لیں یا
کسی ماہر قصاب سے اُس کی صفائی سُتھرائی یقینی بناتے ہوئے ، بنوا لیں۔
بعد ازاں جُوں کا تُوں غریب غرباء ،
مساکین،
یتامیٰ ،
فلاحی اداروں ،
پڑسیوں ،
رشتے ادروں اور دیگر مستحقین میں تقسیم کر دیں۔
اگر ذبیحہ علی الصبح ہوا ہے تو شام کو اُس کا مناسب مقدار میں گوشت کھائیں۔
سونے سے پیشتر، پُرفضا، پُرسکون مقام پر کچھ چہل قدمی کر لیں۔
کبھی بیمار نہیں پڑیں گے، وگرنہ بقرعید کے باسعادت موقع پر، اللہ نخواستہ ،دست،
قے ،
اسہال،
دل کے امراض ،
پیٹ کے امراض و دیگر عارضوں کے سبب معالجین کے مطب خانوں یا منہگے نجی اسپتالوں کے چکر لگاتے رہیں گے ۔
ایسے غیر محتاط رویے کا کیا فائدہ؟
اچھی عادتیں تو چھوٹے بچّوں کی آنکھوں میں لگے سُرمے کی طرح ہوتی ہیں ۔
زیادہ بھی ہو جائے تو مزید حسین لگتا ہے،
کیا خیال ہے ؟