15 C
Lahore
Friday, December 13, 2024

Book Store

دوسری شادی

دوسری شادی

سمیرا اِمام

 

ہم میں سے بہت سی خواتین یا مرد حضرات دوسری شادی کے حق میں یا خلاف نعرے لگا رہے ہوتے ہیں ۔
دوسری شادی سے پہلے بھی ایک منزل ہے جسے پوری کیے بغیر دوسری ہو نہیں سکتی اور وہ ہے پہلی شادی ۔
جب بھی کوئی دوسری شادی کے حق میں نعرہ بلند کرتا ہے تو اس نعرے سے پہلے، پہلی شادی پہ بات کرنا انتہائی ضروری ہے ۔
شادی خاندانی نظام کی اکائی ہے ۔ اس کی بنیاد پر ایک خاندان اور معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ لہذا اس کی بنیاد انتہائی مضبوط اور مستحکم ہونا لازمی ہے ۔
یہ فقط ایک عورت اور ایک مرد کے مابین کا تعلق نہیں، بلکہ مستقبل میں وجود میں آنے والی ایک مکمل نسل کی آبیاری پرورش و نشوونما کی ذمے داری بھی ہے ۔
اس نظام میں سب سے زیادہ اور بھاری ذمے داری مرد پر ڈالی گئی ہے ۔
قوام کیا ہے؟
خواتین “قوام ” کے لفظ سے جو تأثر لیتی ہیں وہ کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ مرد کے ہاتھ میں چابک دے کر ظلم کا اختیار اسے دے دیا گیا ہے اور اسے قوام کہتے ہیں ۔ یا عورت اگر ماتحت ہے تو اس پہ لازم ہے کہ چپ چاپ ظلم سہتی جائے اور اف نہ کرے ۔
قرآن میں اف نہ کرنے کا حکم فقط والدین کے لیے آیا ہے۔ کہیں پر بھی کسی دوسرے رشتے کے لیے ایسا کوئی حکم موجود نہیں ہے ۔
مرد کے قوام ہونے کا مطلب ہے نگہبان اور محافظ ہونا ۔
عورت اور اولاد ( جہاں ہم نے صرف بیوی بیوی کی رٹ لگا رکھی ہوتی ہے وہاں اولاد کے کردار کو کیسے بھولا جا سکتا ہے ؟؟؟
ان کی ذمے داریوں سے کیسے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے ؟؟) کی جسمانی ضروریات کی محافظت ۔ گھر مکان روٹی کپڑا ہر چیز کی فراہمی کی کوشش ۔
انکے لیے جذباتی سہارا بننا انکے جذبات کے محافظ ۔
خاندان کی ڈرائینگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلانے کا نام قوام ہونا ہے ۔ یہ نہیں کہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال تو رکھی ہے لیکن باقی خاندان گاڑی سے باہر کھڑا گاڑی کو دھکے لگا لگا کر منزل پر پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اور اندر بیٹھے ڈرائیور صاحب کی گردن کا کلف بڑھتا جاتا ہے کہ جی میں گاڑی چلا رہا ہوں ۔
دوسروں کو ہلکان کر کے ان کی جان کو آزار میں ڈال کر منزل تک پہنچانے والا ڈرائیور ایک ناکام اور پورے معاشرے پر بوجھ قوام ہے ۔
اور اللہ کے ہاں بھی ایسے قوام کے لیے جواب دہی کا قانون موجود ہے ۔
جب ہر طرف معاشرے میں پہلی شادیاں گھسٹ گھسٹ کر منزل مقصود پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں ایسے عالم میں دوسری شادی کا تذکرہ سب کو ہی ناگوار گزرے گا ۔
لیکن ہم اللہ کے حکم پر بات کرنے والے کون ہوتے ہیں ۔
اب اللہ کا حکم کیا ہے ؟؟ اور یہ کن کے لیے ہے یہ سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے ۔
اللہ نے دوسری تیسری شادی کو فرض قرار نہیں دیا ہے ۔ یہ ایک رخصت ہے کہ اگر کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہو تو رخصت سے فائدہ اٹھا لے ۔
لیکن رخصت بھی مشروط ہے ۔ اجازتِ عام نہیں ہے
اس رخصت کے ساتھ عدل کی شرط ہے ۔ اگر کوئی عدل نہیں کر سکتا تو فقط ایک بیوی اور اسکی اولاد کافی ہے پہلی بیوی کو اگر رلنے کے لیے چھوڑ بھی دیا جاۓ تو بھی باپ کی حیثیت سے ذمے داریوں کے متعلق اللہ کے ہاں اور قانون کے ہاں کیا جواب دیں گے ؟؟
شادی محض تفریح کا نام نہیں کہ رنگ برنگی عورتوں سے تمتع حاصل کیا جائے ۔ یہ ذمےداری اٹھانے کا اعلان اور معاہدہ ہے ۔
جو لوگ اللہ کے دین کو محض اپنی خواہشات پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جان رکھیں کہ اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے ۔
موقع پرست اور بدنیتوں کو دوست نہیں رکھتا بلکہ اس کے بندے وہ ہیں جو مخلص ہیں ۔ جن کی نیت میں فتور نہیں جو ہر مقام اور ہر جگہ اللہ کی رضا اور اس کے حکم کو ترجیح دیتے ہیں ۔
یہ نہیں کہ اپنی خواہش کے لیے تو دین کا نام استعمال کریں اور جب دین کا حکم خواہشات کی راہ میں رکاوٹ ہو تو کونسا دین اور کہاں کا دین ۔
دین میں پورا پورا داخل ہونے کا حکم ہے آدھا ادھورا دین صرف بگاڑ کا باعث بنتا ہے ۔
دوسری شادی سے پہلے آپ کی پہلی شادی کس قدر مستحکم خوشحال اور مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہے یہ دیکھنا انتہائی ضروری ہے ۔
اگر آپ کی بیوی آپ پر اعتماد کرتی ہے کہ آپ سچے ہیں، امین ہیں، ذمے دار ہیں، دھوکے باز نہیں، عادل ہیں تو خفیہ شادیوں کی کبھی ضرورت نہیں پڑے گی وہ آپ کے اعلیٰ اخلاق کی بدولت خود آپ کو دوسری شادی کی اجازت دے گی ۔
سمیرا امام
May be an image of 2 people and text

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles