دیوار محبت
شہباز اکبر الفت
محبت انسانی خمیر میں گندھا ہوا وہ آفاقی جذبہ ہے جو کبھی اور کسی زمانے میں بھی اظہار کا محتاج نہیں رہا۔ اظہار کے ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ محبت ہمیشہ محبت ہی رہتی ہے۔ یہ تو دل کی بنجر زمین پر پھوٹنے والا وہ خودرو پودا ہے جو آنسوﺅں کی نمی سے سیراب ہو کر بھی پھل پھول جاتا ہے۔
رابعہ بشیر سے اس کا رابطہ فیس بک پر ہوا تھا۔ دوستی کی زیر التواء درخواستوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کی نظر اس کے نام پر بھی پڑی۔ تصویر اتنی خوبصورت تھی کہ لمحہ بھر کو تو اس کا دل ہی دھڑکنا بھول گیا۔
”ضروری تو نہیں کہ اس کی اپنی ہی تصویر ہو؟“
اس نے اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ یہ بات پہلے سے ہی اس کے ذہن میں تھی کہ اکثر لڑکیاں اپنی اوریجنل تصاویر نہیں لگاتیں۔
سو سے زائد مشترکہ دوستوں کے نام دیکھ کر بھی ذرا تسلی تو ہوئی لیکن پھر بھی درخواست کو منظور کرنے سے پہلے دیوار کا جائزہ لینا ضروری تھا۔
دیوار پر ان گنت تصاویر، افسانوں کے عکس اور اقتباسات دیکھ کر انکار کی گنجائش ہی نہ رہی۔ اسی اثناءمیں اس کی نظر ایک تصویر پر ٹھہر گئی۔
تصویر میں وہ کسی پارک کی گھاس پر اس طرح سے لیٹی ہوئی کیمرے کی طرف دیکھ رہی تھی، جیسے اس کا تعلق کسی اور ہی دنیا سے ہو اور وہ افق کے اس پار سے زمین پر جھانکنے کی کوشش کر رہی ہو۔ چہرے پر بلا کا سکون اور سادگی، مخمور نگاہوں میں کوئی ایسی بات ضرور تھی کہ وہ اپنے آپ سے ہی جھینپ کر رہ گیا۔ اب اس شوخ کی دیوار اسے کوئی دیوار محبت لگنے لگی تھی۔
۞۞۞۞
اگلے کئی روز وہ نہ چاہنے کے باوجود رابعہ بشیر کے آس پاس ہی پایا گیا۔ اس کی دیوار مشترکہ دوستوں کی دیواروں سے جڑی ہوئی تھی۔ ہر ادبی گفتگو میں حصہ لینا اس کا جنون تھا۔ اپنے حسن و ادا کی بہ نسبت گفتگو میں اسے کمال حاصل تھا۔
مشکل سے مشکل موضوع پر بھی نپے تلے لفظوں اور مدلل انداز میں اپنی بات کہہ دینا اس کی ایسی خصوصیت تھی، جس نے واقعی اس کا دل جیت لیا۔ دوستوں کی فہرست میں شامل ہونے کے باوجود ابھی تک ایک دیوار درمیان میں حائل تھی۔
یہ دیوار تھی اجنبیت کی۔ وہ ہر گفتگو میں حصہ لیتا لیکن کبھی براہ راست اسے مخاطب نہ کر پایا۔ وہ اپنے انداز و اطوار اور نظریات میں اسے بالکل اپنے جیسی لگتی۔ سادہ، معصوم اور بے لوث۔
زندگی اور زندگی سے جڑے رشتوں بارے اس کے احساسات بھی ایک جیسے ہی تھے۔ کئی بار اسے بلانا چاہا۔ ذاتی پیغام بھیجنے کا بھی سوچا لیکن ہمت نہ پڑتی۔ اس نے اپنی ساکھ بڑی محنت اور من مار کر بنائی تھی۔
ایک بلا کی حسین لڑکی میں دلچسپی لینے کا تاثر اس کے کردار پر انگلی اٹھا سکتا تھا۔ دل پر ضبط کا بھاری پتھر رکھ کر ازخود رابطہ کا ارادہ ترک کرنے میں ہی عافیت تھی۔ خود کو حالات کے دھارے پر ڈال دینے کے باوجود جذبوں کی یکطرفہ آمدورفت پرکوئی قدغن نہ لگا سکا۔ آخر ایک دن قدرت مہربان ہو گئی۔ دل کی مراد ہی بر آئی تھی۔ فیس بک کھولتے ہی اس کی نظر ذاتی پیغامات والے حصے کی طرف اٹھی اور جم کر ہی رہ گئی۔ رابعہ بشیر کا ذاتی پیغام آ گیا تھا۔
” ہیلو سر۔“
۞۞۞
محبتوں کا سفیر کہلائے جانے کے باوجود عرفان سعید کو اس امر کا تعین کرنے میں بڑی دقت ہوئی کہ رابعہ بشیر کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے؟
اجنبیت کی دیوار کب ڈھے گئی؟ اسے پتا بھی نہ چلا۔ دونوں میں دوستی بھی خوب ہو گئی۔ کوئی امر مانع نہ رہا۔ مشترکہ موضوعات پر بےتکان گفتگو کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا۔
کب صبح ہوئی اور کب رات؟ رات کے کسی پچھلے پہر جب آنکھیں نیند سے بوجھل ہو جاتیں تو وہ سرہانے پڑی بوتل سے پانی کے دو گھونٹ پی کر باقی سر پر انڈیل لیتا کہ کہیں آنکھ لگ جانے کی وجہ سے جواب نہ دے پایا تو اسے برا نہ لگ جائے۔
۞۞۞
پاﺅں ٹکتے کہاں زمینوں پر
میں نے اک آسمان کو چاہا
”واہ بھئی واہ، بہت خوب۔“ اس نے حسب معمول تعریف کی تو عرفان سعید کا حوصلہ اچانک ہی بڑھ گیا اور اس نے سوچے سمجھے بغیر ہی دل کی بات کہہ دی۔
” تمہارے لئے لکھا ہے۔“
”صحیح۔ “ اتنا مختصر جواب۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ کتنی ہی دیر دھڑکتے دل کے ساتھ اگلے جملے کا منتظر رہا مگر دوسری جانب مکمل خاموشی چھائی رہی۔
” کیا ہوا ؟“
”کچھ نہیں۔ “
”پھر بھی ، کچھ غلط کہہ دیا ؟“
” نہیں، لیکن اگر میں شادی شدہ ہوتی، تب بھی یہی کہتے۔“
” مذاق کر رہی ہو نا؟“
”نہیں۔“
”کبھی بتایا ہی نہیں۔“
”تم نے کبھی پوچھا ہی نہیں۔“
بات تو سچ تھی۔ اس قدر بے تکلفی اور بے ساختگی کے باوجود اس نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور نہ ہی کبھی اس کے دل کا حال پوچھنے کی کوشش کی تھی۔
اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اس دھچکے سے سنبھلنے کے لئے حسب معمول کپکپاتے ہاتھوں سے سگریٹ سلگا لیا۔ غم کو دھوئیں میں اڑا دینے کی یہ پرانی عادت بھی آج کام نہ آئی تو اس نے سگریٹ کا منہ ایش ٹرے میں کچل دینے کے بعد دوبارہ اسکرین کی طرف دیکھا۔
اب نظروں کے سامنے اس کی شادی کی تصویر موجود تھی۔ جس میں میاں بیوی بڑے خوشگوار موڈ میں نظر آ رہے تھے۔ خوشی دونوں کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
” میں نے ارباز کے ساتھ محبت کی شادی کی ہے۔ اسے پانے کے لئے مجھے پورے زمانے سے لڑنا پڑا لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میری محبت سچی تھی اور آخر میں نے اسے حاصل کر لیا۔“
آخری جملہ دل کے ایموجی کے ساتھ موصول ہوا تھا۔
۞۞۞
بہت دنوں سے ان کی گفتگو میں ٹھہراﺅ سا آ گیا ہے۔ دونوں اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں ہیں لیکن بات چیت ایک دوسرے کا حال و احوال دریافت کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔ کبھی کبھار ایک آدھ ایموجی کا بھی تبادلہ ہو جاتا ہے۔
رابعہ بھی اب زیادہ بات نہیں کرتی البتہ کبھی کبھی ایسے اسکرین شاٹس ضرور دکھا دیتی ہے جس میں اس کی کسی دوسرے کے ساتھ گفتگو، بحث یا باقاعدہ جھڑپ میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہوتی ہے اور وہ حسب معمول پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ” اوکے “ کہہ دیتا ہے۔
۞۞۞۞
”مجھے آج تک اس بات کہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم کسی سے محبت کرکے بھلا اس پر کیا احسان کرتے ہیں؟ جسے چاہتے ہیں، اسے اپنی مرضی کے تابع کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ خود کو کوئی عامل اور اسے اپنا معمول بنا لینے پر کیوں تل جاتے ہیں؟
اس حقیقت کو خوشدلی سے قبول کیوں نہیں کر لیتے کہ آپ کی طرح دوسرے کو بھی دل کے معاملہ میں اپنی مرضی کا پورا حق حاصل ہے۔“
بہت دنوں بعد اس نے دیوار محبت پر اپنے احساسات درج کئے اور ساتھ ہی حسب معمول لکھ دیا
”زیر تحریر افسانے سے اقتباس“
حالانکہ اسے پتا بھی تھا کہ اب وہ محبت پر کبھی کچھ نہیں لکھ پائے گا۔
۞۞۞۞۞۞۞