ڈگری یا تعلیم
رٹا کلچر کا خاتمہ مگر کیسے ؟
تحریر, جاوید ایاز خان
کہتے ہیں تعلیم کا حصول کوئی مقابلہ نہیں ہے نہ ہی یہ زیادہ نمبروں کے حصول کی جدوجہد بلکہ تعلیم کا مقصد کسی علم کو سمجھنا سیکھنا اور اپنے اندر اس کی علم کی صلاحتیں پیدا کرنا ہے ۔
آج سب سے سنجیدہ اور بڑا سوال یہ ہے کہ ہم اپنی آنے ولی نوجوان نسل کو رٹا تعلیمی نظام سے کیسے دور رکھ کر انھیں ایک متوازن شخصیت کا حامل بنائیں۔ جس سے ان میں چھپی صلاحیتوں کو بروئےکار لایا جا سکے اور وہ ہمارے ملک کی سروسز انڈسٹری کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کی لیے کارآمد افرادی قوت بن سکیں ۔
جدید دور کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اپبنے روائتی فرسودہ نظام کو بدلنا پڑے گا جو رٹا کلچر کا شکار ہو کر نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں تعلیم کے اصل مقصد کو کھو چکا ہے ۔
نمبروں کے حصول کے لیے نوجوانوں کے درمیان مقابلے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہی اس مسلے کا حل ہے تاکہ ان میں سیکھنے کی ذاتی صلاحتیوں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فرسودہ رٹا کلچر کے نظام تعلیم اور اس کے نقصانات کو سمجھا جائے کہ رٹا کلچر ہے کیا ؟
گھوٹا لگانا یا رٹنا یعنی تکرار کر کے یاد کرنا کو رٹا لگانا کہتے ہیں ۔کسی تحریر یا مضمون کو بغیر سمجھے یاد کر لینا رٹا کہلاتا ہے۔
گو معاشرہ میں رٹا لگانا اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ بدقسمتی سے ہماری تعلیمی کامیابی کا انحصار اسی پر ہے ۔ توجہ علم حاصل کرنے اور سیکھنے کے بجائے امتحان پاس کرنے اور ڈگری کے حصول پر مذکور ہے ۔ یہی وجہ ہے ہمارے نوجوان تعلیم کو گھوٹ گھوٹ کر پینے کے باوجود علم و عمل سے کوسوں دور ہوتے جاتے ہیں ۔
بچپن میں بچے بڑی تیز رفتاری سے سیکھتے ہیں۔ پہلے پہل وہ صرف دیکھ اور سن سکتے ہیں پھر ہماری حرکات و سکنات اور بول چال کو بڑی تیزی سے اپنا لیتے ہیں اور جلد ہی وہ ا ٓوازوں اور ماحول کو پہچان جاتے ہیں ۔ اسکول جانے سے قبل وہ نہایت تیزی سے ہر چیز صرف دیکھ کر یاد کر لیتے ہیں بولنا شروع کرتے ہیں تو ، تسمیہ ،کلمہ شریف ،نماز ، کچھ قرآنی آیات، نظمیں انہیں یاد ہو جاتی ہیں بہت سی باتیں اور چیزیں یاد کرنا اور رٹنا بھی ضروری ہوتا ہے۔
یہ سب وہ بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں اور یہ ان کے حافظہ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہیں ۔ یہ سب وہ سمجھتے سیکھتے بھی ہیں اور یاد بھی کرتے ہیں، کیونکہ ماں اور باپ اور پورے خاندان صرف اس اکیلے پر مکمل توجہ دے رہا ہوتا ہے ۔ مگر جب اسکول جانا شروع کرتے ہیں ہیں تو ایک نئے سسٹم میں داخل ہوتے ہیں۔
اسکول میں یہ بچہ پابندیوں کی زد میں آ جاتا ہے اب استاد اور نصاب فیصلہ کرتے ہیں وہ کیا کب اور کیسے یاد کرے گا اور سیکھے گا؟
جہاں بہت سے بچوں پر اکیلا استاد مقرر ہوتا ہے جو انفرادی توجہ نہیں دے پاتا جہاں استاد کے پاس ہر بچے کے سوالات کے جواب کا وقت نہیں ہوتا اور جہاں انہیں باور کرایا جاتا ہے کہ امتحان پاس کرنے کے لیے سبق یاد کرنا بہت ضروری ہے اور یاد کرنے کا واحد روایتی طریقہ رٹا لگانا ہے گو یہ طریقہ کافی بورنگ ، غیر دلچسپ اور غیر فطری ہونے کی وجہ سے مشکل ہوتا ہے
لیکن بتایا جاتا ہے کہ لفظ با لفظ جواب سے ہی اچھے نمبر آتے ہیں ۔
حالانکہ تعلیم کے لیے پہلے سمجھنا پھر یاد کرنا اور پھر عملی زندگی میں اس کو استعمال کرنا ہوتا ہے ۔رٹے کے چند نقصانات یہ ہیں رٹا ہوا سبق جلد بھول جاتا ہے ۔امتحان یا انٹرویو کے دوران اس پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا ۔
عملی زندگی میں رٹا شدہ معلومات استعمال کرنا مشکل ہوتا ہے۔ رٹا کیسے اور کیوں فروغ پاتا ہے ؟ اور اس سے کیسے نجات ممکن ہے؟ دراصل ہمارا معاشرہ ہی اسے فروغ دیتا ہے۔ تعلیمی مواد کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے وقت اور محنت چاہیے جس سے طلبا کتراتے ہیں اور اساٹذہ بھی نصاب مکمل کرنے کی جلدی میں ہوتے ہیں سمجھانے کے بجائے یاد کرنے پر زور دیتے ہیں ۔والدین بھی بچوں کے زیادہ سے زیادہ نمبرز کے خواہش مند ہوتے ہیں خواہ وہ جیسے بھی حاصل ہوں امتحان کی پالیسی بھی مدد گار بن جاتی ہے ۔ یہ سب عوامل رٹے کے کلچر کو قائم رکھنے میں نمائیاں کردار ادا کرتے ہیں
ہمارے اسکول سسٹم میں رٹا پہلی جماعت سے ہی چل پڑتا ہے اور اس کا آغاز پہاڑے یاد کرانے سے شروع ہو جاتا ہے اور پھر انہیں بتایا جاتا ہے کہ سبق یاد کرنا ہے اور اس کا روایتی طریقہ، بار بار پڑھنا اور صرف رٹا لگانا ہوتا ہے نہ کہ سیکھنا اور سمجھنا اور پھر اس سبق کو یاد رکھنا ۔
یوں رٹے لگا لگا کر طالب علم کے دماغ پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر یہ زنگ تہ پر تہ جمنا شروع ہو جاتی ہے جو اس کی اصل صلاحیتوں کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتی ۔کچھ بچے رٹا لگانے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو انہیں نالائق سمجھا جاتا ہے ۔
طالب علم اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے رٹے کا سہارا لیتے ہیں اور حرف باحرف رٹے رٹاے لفظ لکھ کر کامیابی حاصل کرتے ہیں اچھے نمبروں کی وجہ سے لائق سمجھے جاتے ہیں ۔اس طرح امتحان پاس کر کے وہ ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں مگر کسی بھی مضموں کی اصلیت اور مقصد سے دور ہو تے چلے جاتے ہیں ۔
جب ان سے سوال پوچھا جاتا ہے تو رٹے کی وجہ سے وہ جیسا کتاب میں لکھا ہوتا ہے سنا بھی دیتے ہیں اور لکھ بھی دیتے ہیں مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ یہ ہوتا کیا اور کیوں ہے تو ان کو اس بارے میں انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے رٹا لگا کر یاد تو کیا ہوتا ہے نہ کہ سوچ سمجھ کر پڑھا ہوتا ہے اس طرح ملک میں رائج ناقص نظام تعلیم کی بدولت ہم تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی علمی لحاظ سے وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں سے چلے تھے ۔
اس لیے ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ طلبا کو رٹے پر نہ لگائیں کیونکہ تعلیمی قابلیت اور علم کی سمجھ بوجھ کے بغیر ڈگری محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہو گی ممکن ہے ان ڈگریوں کی بدولت انہیں نوکری تو مل جاے مگر وہ کامیابی حاصل نہ کر پائیں گے ۔
ترقی کی بلندی تک پہنچنے کے لیے ڈگری کے ساتھ ساتھ قابلیت اور علم کا ہونا اور ان کی اصل اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کا باہر آنا بے حد ضروری ہے ۔
تعلیمی اداروں میں نوجوان طلبا کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ان میں سیکھنے اور سمجھنے کا مثبت رویہ پروان چڑھایا جا سکے۔ جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو پرکھ اور سیکھ سکیں۔
پڑھائی سے زیادہ تربیت اور سکھانے پر توجہ دی جاےُ ۔
دنیا مریخ پر جا پہنچی مگر ہم پرانے رٹا کلچر اور سسٹم کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں ۔
دسمبر ۲۰۲۱ ء میں اچھی خبر آئی کہ پنجاب بورڈ کمیٹی آف چیرمین نے رٹا سسٹم کے بجائے منطقی تعلیمی تیاری کے لیے ایجوکیشن فلسفے کے انٹرنیشنل معیار کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔
پہلے فیز ۲۰۲۲ میں ماڈل پیپرز کے اجراء کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ جس میں سلیبس کے ساتھ سمجھ بوجھ کے بھی نمبر مقرر کیے گیے ہیں۔
انشااللہ ہم سب کی کاوش اور کوشش ہی اس کلچر کو بدل سکتی ہے ۔
موجودہ حکومت یکساں تعلیمی نظام اور نصاب کی پالیسی پر عمل کردے تو یہ رٹے کے خاتمہ کے لیے بھی نہایت
مفید ہو گا ۔
02/19/2022