32 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

شجر سایہ دار

“شجر سایہ دار”

ازقلم : فوزیہ بشیر ملک

پچھلے دنوں ایک معروف کالم نگار جاوید چوہدری کی تحریر “دس روحانی ٹپس ” کی سوشل میڈیا پر بڑی دھوم تھی۔ کئی بار یہ تحریر واٹس ایپ / فیس بک کے ذریعے مجھ تک پہنچی ہے ۔
میں ہر بار اس تحریر کو مکمل طور پر پڑھتی ہوں۔ اس میں دیئے گئے روحانی ٹپس پڑھنے کے بعد یہ تحریر آپ کے دل پر اثر کرتی ہے اور آپ اس کی کسی بھی بات سے انکار نہیں کر پاتے مگر آج میرا دل چاہا کہ اس تحریر میں ایک اضافہ اور بھی کر دوں جو میری ذاتی زندگی کا تجربہ ہے ۔
کالم نگار  نے سب سے پہلے نمبر پر جو ٹپ بتائی ہے وہ یہ کہ کبھی اپنے گھر سے کسی سایہ دار درخت کو نہ کٹوائیں خواہ وہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو جائے ۔

جب بھی کس گھر یا خاندان کی تباہی و بربادی کا آغاز ہوا تو یہ بات بھی مشاہدے میں آئی کہ متعلقہ گھر میں سایہ دار پرانا شجر ہوا کرتا تھا، جسے بعد میں کٹوا دیا گیا ۔
پرانے سایہ دار شجر جو شائد پھل دینے کے قابل تو نہیں رہتے مگر ٹھنڈک، سایہ اور رونق ضرور فراہم کرتے ہیں ۔
انھی پرانے سایہ دار درختوں کا سا حال ہمارے خاندان میں بوڑھے اور بزرگ افراد جیسا ہے۔
خواہ وہ دادا دادی ہوں یا نانا، نانی، یا پھر بوڑھے ماں باپ، جس گھر سے ان بزرگوں کا وجود اٹھ جاتا ہے یا ان کو گھروں سے نکال دیا جائے تو پھر اس گھر سے اللہ کی رحمت اور برکت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔

ہمارے یا ہمارے بچوں کے ہاتھوں سے انجام دیئے گئے کاموں کے نتیجے میں وہ ہمیں گھنٹوں دعائیں دیتے ہیں بار بار ہماری اچھائی کا ذکر کرتے ہیں دوران نماز، نماز کے بعد دعائیں یونہی سوتے جاگتے میں ان کے منہ سے ہر وقت ہمارے لیے جو دعائیں نکلتی ہیں وہ دیوار بن کر ہمارے اور ہمارے اوپر نازل ہونے والی مصیبتوں اور پر یشانیوں کے درمیان کھڑی ہو جاتی ہیں۔

وہ دعائیں ہماری حفاظت کرتی ہیں اللہ کے قہر و غضب کو ہم پر نازل ہونے سے روکتی ہیں اور ہر وقت ہمارے لئے سایہ داری شجر کی طرح ٹھنڈک اور سکون کا باعث بن جاتی ہے۔
جب یہ بزرگ کسی خاندان میں نہیں رہتے یا انھیں پوتے پوتیوں یا نواسے نواسیوں کے ذریعے ستایا جائے، انھیں تنگ کیا جائے یا تکلیف دی جائے تو اللہ کی ناراضگی قہر و غضب بن کر ہم پر ٹوٹ پڑتی ہے۔

میں  نے اپنی آنکھوں سے ایک مکمل خاندان کو ان بزرگوں کی دعاؤں کی وجہ سے دنیا میں ایک مثالی عروج پر فائز ہوتے دیکھا ۔ مگر جب یہ بزرگ جو میرے دادا اور دادی اماں تھے اور جب و ہ اس عمر کو پہنچے کہ ایک بچے کی طرح ان کا خیال رکھا جائے اور  خدمت کی جائے تو انھیں خوب نظر انداز کیا گیا۔
بچوں کے ہاتھوں ان کو کھلونا بنا دیا گیا ۔ان بزرگوں کا مذاق اڑانا، ان کو تکلیف دینا اور ان کے ہر حکم سے انکار کرنا ایک عادت بن گئی تو میں نے ان کو خوب روتے ہوئے بھی دیکھا۔

جب دادا ابو دادی اماں اپنی طبعی موت کے بعد اس دنیا سے چلے گئے تو ان کی دعاؤں کا وہ حصار جس  نے سارے خاندان کو اپنی حفاظت میں لے رکھا تھا، ٹوٹ گیا۔ مصیبتوں اور پریشانیوں  نے تسبیح کے ٹوٹے ہوئے دانوں کی طرح گرنا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خاندان، جس کی ترقی اور عروج مثالی تھا، پے در پے زوال اور بلاؤں میں ایسا گھِرا کہ سارے علاقے سے میں عبرت و افسوس کا مقام بن گیا۔

میں آج بھی جب ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو اس زوال کی سب سے بڑی وجہ، ان بزرگوں سے محرومی اور ان کی دعاوں کی وجہ سے جو رحمت اور برکت اس خاندان پر تھی۔  ان سب چیزوں کے ختم ہو جانے کو سمجھتی ہوں۔ لہذا پرانے درخت اور بزرگوں کی ہمیشہ قدر کریں اور عبادت سمجھ کر ان کی خدمت کریں ۔

۞۞۞۞۞۞۞۞۞

رائٹر کا تعارف
مصنفہ فوزیہ بشیر ملک وقار النساہ گرلز کالج راولپنڈی کی گریجوایٹ ہیں۔ وہ ہسٹری اور ایجوکیشن میں ماسٹرز ڈگری رکھتی ہیں۔ ادب کے ساتھ گہرا لگاؤ ہے ۔ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات بہت دلچسپ طریقے سے پیش کرنے کا ہنر رکھتی ہیں۔ ایک گھریلوخاتون ہیں ۔ حال ہی میں اُنہوں نے چھوٹے چھوٹے افسانے لکھنے شروع کیے ہیں ۔ جن کو اُن کے قریبی حلقوں میں بہت پزیرائی مل رہی ہے

یہ بھی پڑھیں
https://shanurdu.com/old-parents-behaviour/

۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles