بوڑھے آدمی کا خواب
مصنف: محمدجمیل اختر
بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آ گئی تھی ، اِس سے پہلے کہ میں آپ کو اِس تبدیلی کے بارے کچھ بتاؤں مجھے آپ کو اِس تبدیلی سے پہلے کی زندگی کے بارے بتانا ہو گا ورنہ یہ افسانہ جھول کا شکار ہو جائے گا اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا۔۔۔
تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ صادق حسین کو ریٹائرڈ ہوئے دو سال ہو گئے ہیں۔ بیوی پانچ سال پہلے فوت ہو گئی تھی اور دونوں بچے اپنی گوری بیویوں کے ساتھ کینیڈا ہوتے ہیں۔ آخری بارپانچ سال پہلے آئے تھے۔ اب کبھی کبھار اُن کا فون آ جاتا ہے۔
صادق حسین کی زندگی دو ٹیلی فونوں کے درمیانی وقفے میں معلق رہتی ہے۔
پہلے پہل صادق حسین ریٹائر ہوئے تو پھر بھی ایک آدھ دن چھوڑ کر دفتر چلے جاتے، پرانے دوستوں سے ملاقات ہو جاتی اور ان کا دل بہل جاتا، پھر رفتہ رفتہ انہیں محسوس ہوا کہ دفتر کے لوگ اب تنگ آتے جا رہے ہیں۔ جیسے وہ دفتر جا کر اُن کے کام میں مخل ہوتے ہیں سو انہوں نے دفتر جانا چھوڑ دیا ، گھر کا زیادہ تر کام گھر کی پرانی ملازمہ نسرین کر دیتی، صادق صاحب صبح اُٹھتے ، ناشتہ کرتے، اخبار پڑھتے۔
یونہی ٹی وی پر چینل بدلتے رہتے ایک آدھ چکر باہر گلی کا لگا کر آ جاتے اور پھر سہ پہر تک بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے ۔ سہ پہر کو وہ گھر سے تھوڑی دور بنے پارک میں جاتے واک وہ بہت کم کرتے تھے بس ایک بنچ پر بیٹھ کر بچوں کو کھیلتا ہوا دیکھتے رہتے یا پھر باغ میں اُڑتے پرندوں کو دیکھتے ۔
وہ سوچتے کہ کاش وہ بچہ ہوتے اور بچوں کے ساتھ کھیلتے یا پھر پرندہ ہوتے اور ایک قطار میں اُڑا کرتے لیکن وہ تو ایک تنہا اُداس بوڑھے تھے کہ جس سے سارا دن کوئی بات نہیں کرتا تھا سو انہوں نے اِس کا حل نکالا کہ وہ ہر شے سے باتیں کرنے لگے مثلا گھر کی دیواروں ، برتنوں ، کتابوں ، ٹی وی، غرض گھر کی ہر چیز سے وہ باتیں کرتے تھے۔
اُن کے ڈرائنگ روم کی دیوار میں دراڑ پڑتی جارہی ہے سو وہ روز کئی منٹ تک اُس دیوار سے باتیں کر کے اُسے حوصلہ دیتے ہیں
پریشان نہیں ہونا، ٹوٹنا ہرگز نہیں ۔ میں اِس دفعہ پنشن ملتے ہی مستری بلا لاؤں گا۔ تم بس خود کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔۔
اگر کبھی چائے کا کپ گندا ہی پڑا رہ جاتا تو وہ کہتے ’’ اوہ ہو ! آج نسرین نے تمہیں دھویا نہیں ؟ آہ کتنے میلے ہو گئے ہو ۔ آؤ میں تمہیں کچن میں چھوڑ آؤں۔ کل نسرین کو آتے ساتھ ہی میں کہوں گا کہ سب سے پہلے وہ تمہیں دھوئے
پھر ایک دن بوڑھے صادق حسین کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی آ گئی ۔
وہ ایک ایسی ہی اداس شام کو اُسی پرانے بنچ پر بیٹھے تھے جب ان کے ساتھ والے بنچ پر ایک تیس پینتس سال کی ایک اداس سی خاتون آکر بیٹھ گئیں ۔ صادق حسین کو اُن آنکھوں کو دیکھ کریوں لگا کہ جیسے وہ اُداس آنکھیں اِن کی اپنی آنکھیں ہیں اور وہ خود کو دیکھ رہے ہیں کہ روز انہیں ایسی آنکھیں شیشے میں دکھائی دیتی تھیں ۔۔۔
انہوں نے سوچا معلوم نہیں یہ خاتون کون ہیں ،میں تو بالکل اکیلا ہوں، سو اداس ہوں۔
اِس خاتون کو بھری جوانی میں کیا ہو گیا یہ کیوں اتنی اداس ہے ۔۔۔ لیکن انہوں نے کچھ نہیں پوچھا، ساری رات خواب میں وہ آنکھیں اُن کے سامنے آنسو بہاتی رہیں، وہ بار بار پریشان ہو کر جاگ جاتے آخر یہ خواب کیا ہے اور وہ خاتون کون ہے ۔۔وہ بھلا کیسے جان سکتے تھے کہ وہ کون ہے کل سے پہلے تو انہوں نے اُسے کبھی پارک میں نہیں دیکھا تھا۔
وہ اگلے دن وہ سہ پہر سے بھی پہلے پارک پہنچ گئے اور بے چینی سے انتظا ر کرنے لگے وہ خاتون شام سے ذرا پہلے آئیں اور آ کر ساتھ کے بنچ پر بیٹھ گئیں۔ صادق صاحب آج بھی یہ سوچتے رہے کہ آخر وہ کس طرح ان سے پوچھیں کہ وہ اتنی اداس کیوں کر ہے؟ آخر وہ ان کی کون ہے ، کچھ بھی تو نہیں۔
ایک ہفتہ یونہی گزر گیا۔ اس ہفتے کے دوران صادق صاحب نے در و دیوار سے کوئی بات نہ کی اور دیوار و در انہیں حیرت سے تکتے تھے کہ بوڑھے کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔ کئی دنوں بعد انہوں نے تازہ شیو بنایا تھا لیکن وہ اِس سارے ہفتے اُس خاتون سے کچھ بھی نہ پوچھ سکے۔ ہاں لیکن ہر رات خواب میں وہ اُسے دیکھتے اُسے حوصلہ دیتے اور وہ خاتون صادق صاحب کو حوصلہ دیتیں ۔۔۔
صادق صاحب عُمر کے اُس حصے میں تھے جب زندگی انسان سے سب کچھ لے جاتی ہے اور انسان کے حصے میں سوائے تجربے کے کچھ نہیں آتا سو اُن کے پاس تجربہ تھا ،شعور تھا ۔وہ جب اپنے اندر اِس تبدیلی کو دیکھتے تو اِس نتیجے پر پہنچتے کہ اُن کی اُس خاتون کے لیے انسیت ایسی ہے جیسی وہ بچپن میں گاؤں سے باہر ہائی سکول جایا کرتے تو مئی جون کی تپتی دوپہر میں جب وہ چھٹی کر کے لوٹ رہے ہوتے تو اسکول اور گاؤں کے درمیان راستے میں ایک بہت بڑا شیشم کا درخت آتا کہ جس سے پہلے اور بعد میں سارے راستے پر دھوپ ہی دھوپ ہوتی تھی ۔ تو جب وہ اُس گھنے پیڑ کی نیچے پہنچتے، سب بچے اپنے پسینے خشک کرتے پھر دور گاؤں کی جانب دیکھتے ۔ سب نے گھر جانا ہوتا تھا لیکن انہیں اس تھوڑی دیر کے سائے سے عجیب سی اُنسیت ہو جاتی تھی وہ اُس پیڑ کو گاؤں تک ساتھ تو نہیں لے جا سکتے تھے لیکن اُس تپتی دوپہر میں آدھے راستے میں جو سایہ اُس پیڑ سے ملتا تھا وہ اِن کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا تھا۔۔۔
ایسے ہی صادق حسین صاحب بھی اُس اداس آنکھوں والی خاتون کو گھر لے کر نہیں جانا چاہتے تھے۔ وہ اُسے حاصل تو نہیں کرنا چاہتے تھے، وہ تو صرف اُس کی اداسی ، اُس کا دکھ اور اپنی تنہائی اور اداسی اس سے کہنا سننا چاہتے تھے لیکن پھر ایک ہفتے بعد اُس خاتون نے پارک میں آنا چھوڑ دیا۔ اِدھر صادق حاحب کا یہ حال کہ بیچارے دوپہر کو ہی بنچ پر آ کر بیٹھ جاتے کہ آج تو ضرور بات کروں گا لیکن جس روز خاتون پارک میں نہ آئیں تو صادق صاحب بے حد پریشان ہوئے۔
شام کو دکھی دل کے ساتھ لوٹے ، اگلے روز وہ پھر نہ آئیں اور ایسے ہی ایک ہفتہ گزر گیا۔ صادق صاحب کی یہ حالت کہ خود کو دن رات کوستے رہتے کہ آخر انہوں نے ان خاتون سے پریشانی کی وجہ کیونکر نہ پوچھی ۔ شاید وہ ان کے کچھ کام آ سکتے ۔ وہ اپنی اِس بزدلی پر خود کو بہت برا بھلا کہتے۔ ایک ہفتے میں شیو بڑھ گیا تھا۔ دیوار و در سے باتیں پھر معمول پر آنے لگی تھیں سوائے رات کے خوابوں کے، کہ جس میں اب بھی وہ خاتون آتیں اور رو کر کہتیں’’ صادق صاحب پلیز مجھے بچایئے ، پلیز میری مدد کیجیے‘‘ اور صادق صاحب ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتے اور سوچتے کاش کہ وہ اُس خاتون سے اُس کے بارے پوچھ لیتے یا اب بھی وہ کہیں انہیں مل جائے تو وہ ضرور اُس کی مدد کریں ۔۔۔۔
یہ خاتون کو غائب ہونے کے دس دن بعد کا واقعہ ہے کہ ایک شام صادق صاحب پارک میں بنچ پر بیٹھے تھے کہ انہیں دور سے وہی خاتون آتی دکھائی دیں ۔ صادق صاحب کو پہلے پہل لگا کہ شاید اب وہ دن میں بھی خواب دیکھنے لگے ہیں لیکن وہ خاتون برابر چلتی آرہی تھیں ۔ صادق صاحب نے چشمہ اتارا ،صاف کیا پھر لگایا۔ وہ اٹھے اور تقریباً دوڑتے ہوئے اُس تک پہنچے لیکن قریب جاکر اُنہیں معلوم ہوا کہ یہ کوئی اور خاتون ہیں اُس موقع پر انہیں اور تو کوئی بات نہ سوجھی کہا
میں معذرت چاہتا ہوں ۔ میری ایک عزیزہ گُم ہوگئیں ہیں۔ کیا آپ نے انہیں دیکھا؟یہی کوئی پینتیس سال عمر ہوگی سیاہ دوپٹا اوڑھ رکھا تھارنگ گندمی اور آنکھیں بالکل میری آنکھوں جیسی تھیں‘‘یہ کہہ کر صادق صاحب نے چشمہ اتارا اور دو انگلیوں کی مدد سے آنکھوں کو پھیلا کردکھایا۔۔۔’’ بالکل ایسی آنکھیں تھیں، آپ نے کبھی انہیں دیکھا ، اِس پارک میں وہ روز آتی تھیں ‘‘
خاتون قدرے گھبرائے لہجے میں بولیں ’’ نہیں میں نے نہیں دیکھا‘‘
’’ اوہ اچھا شکریہ، میں تلاش کرتا ہوں یہیں کہیں ہوں گی‘‘
یہ پہلی بار تھا کہ انہوں نے اُس اداس آنکھوں والی خاتون کے بارے کسی سے پوچھا تھا پھر اُس کے بعد یہ اُن کا معمول بن گیا۔ وہ روز پارک میں گیٹ نمبر ۲ سے داخل ہوتے۔ لوگوں کو یہی نشانیاں بتاتے اور پوچھتے کہ شاید انہوںنے کہیں دیکھا ہو۔
آہستہ آہستہ لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ بوڑھا اُن سے کیا سوال کرے گا، سو وہ نظریں چرا کر تیزی سے گزر جاتے۔ کئی لوگ بوڑھے صادق حسین کی آواز سنی ان سنی کر دیتے ۔۔ پارک میں آنے والے کچھ نوجوانوں کے ہاتھ یہ شغل لگا کہ وہ صادق حسین صاحب کے پاس آتے اور کہتے
انکل کیا آپ اُس خاتون کو ڈھونڈھ رہے ہیں جنہوں نے سیاہ ڈوپٹا اوڑھ رکھا ہے۔ عمر پینتیس سال ہے اور اُن کی آنکھیں بالکل آپ کے جیسی ہیں
ہاں ہاں بالکل وہ میری عزیزہ ہیں۔ کیا تم نے انہیں کہیں دیکھا ہے؟‘‘ صادق صاحب بے چینی سے پوچھتے
جی بالکل وہ گیٹ نمبر ایک پر آپ ہی کے بارے پوچھ رہی تھی
اور صادق حسین صاحب تیزی سے گیٹ نمبر ایک کی طرف جاتے، پیچھے لڑکے تالیاں بجاتے، خوش ہوتے۔
اگلے دن کوئی اور لڑکا یہی بات دہراتا ، صادق حسین صاحب ہر بار یقین کرلیتے ۔۔۔۔
اُن کا شیو بھی ڈرائینگ روم کی دیوار کی طرح بڑھ چکا ہے۔ گھر کی ہردیوار حیرت سے بوڑھے کو دیکھتی ہے جو اب اُس سے اب بات نہیں کرتا اور ایک ایسی خاتون کو ڈھونڈتا ہے جو کبھی تھی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔
ختم شُد
یہ کہانی بھی پڑھیں
https://shanurdu.com/kharij-e-mazou/