22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

اچھے دن|afsana|shanurdu|ache din

افسانہ

اچھے دن

نیلم احمد بشیر

سننے میں آیا کہ عروس البلاد کی تقدیر بدل گئی ہے۔ دن پہلے جیسے نہیں رہے۔ امن، چین، سُکھ، شانتی کا دور دَورہ ہے۔ فکر فاقہ ختم ہو گیا ہے۔
پیادہ صدیوں، قرنوں کا سفر کرتا، فاصلے چاٹتا، دنیائیں پھلانگتا، ایک نگر سے دوسرے نگر گھومتا سوچتا تھا۔
شام ہو رہی ہے، کیوں نہ شہر کی سیر کو نکلوں اور خود اَپنی آنکھوں سے اِس بدلی ہوئی صورتِ حال کا جائزہ لوں؟
کیا خبر واقعی اچھے دن آ چکے ہوں؟
وہ ڈیفنس کی اِک کشادہ سڑک خیابانِ مجاہد سے سمندر کو جانے والی سڑک پہ ہو لیا۔ سمندر اَور فنا ہی بالآخر ہر ذی روح کی منزل تھے۔
ایک کے بعد ایک کوٹھی آتی اور پیادہ اُس کے سامنے سے سیٹی بجاتا، ہر فکر کو دھوئیں میں اُڑاتا چلا گیا۔ یکدم اُسے احساس ہوا کہ پوری سڑک پہ اُس کے علاوہ کوئی دوسرا نفس موجود نہیں۔
یہ سب لوگ کہاں چلے گئے؟ اتنی ویرانی کیوں ہے؟ شہر کی آبادی کو کون سی بلا کھا گئی ہے؟
پل بھر کو وہ ٹھٹکا، مکانوں کے اندر سے آنے والی روشنیاں بتا رہی تھیں کہ مکین اندر موجود ہیں، مگر گھر کے باہر کے ماحول میں سراسیمگی اور ایک غیرمرئی سا احساس خوف زدہ کیے دے رہا تھا۔
اُسے لگا وہ کسی سائنسی فکشن فلم یا انتظار حسین کے افسانے کا کردار ہے جو پوری بستی میں اکیلا رہ گیا ہے۔
وہ سوچنے لگا، یہ محلوں میں بیٹھ رہنے والے کیا اب سمندر کے رخساروں کو چھو کر آنے والی ہوا سے ہم آغوش ہونے کی خواہش سے آزاد ہو چکے ہیں؟
سنسان سڑک پہ ہُو کا عالم تھا۔ نہ کوئی آدم، نہ آدم زاد اور نہ کوئی نظارۂ دلنشیں۔
اُس نے دیکھا شام اتر رہی ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ نیلی نیلی وردیوں والے بندوق بردار محافظ۔
ایک بڑی سی نیلی وین ہر ایک کوٹھی کے آگے رکتی، اپنا کارندہ اُتارتی اور چل دیتی۔
وہ پیادے کو دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور طنزیہ انداز میں مسکراتے جیسے کہہ رہے ہوں
’’یہ کون پاگل ہے آج کے زمانے میں جو تنہا سڑک پہ چل رہا ہے۔”
پیادے پہ اچانک یہ راز کھلا کہ اب اِس شہر میں صرف خوف کا بسیرا ہے۔ بستی میں بس یہی رہتا ہے۔
وہ ڈھلتے سورج کے نارنجی تھال کی طرف سرپٹ بھاگنے لگا۔ سمندر نے شور مچا کر اَپنی آغوش وا کر دی۔
بگلے چیخ چیخ کر کہنے لگے
’’مورکھ یہ شہر ہول ہے جہاں شہری محبوس اور تحفظ عنقا ہے۔
لوٹ جا اُن ایام کی طرف جہاں سے گزر کر تُو یہاں تک پہنچا ہے۔ اب انسان خوف کے اسیر ہیں۔
اُنھیں سانس نہیں آتا ہے۔‘‘
پیادہ تھک کر سمندر کنارے بنی فصیل پہ بیٹھ گیا اور سوچنے لگا یہ کیسا شہر ہے جہاں چور خودمختار اَور عوام بےاختیار ہیں۔
دولت مندوں کی دولت کی رکھوالی کو بینک لاکر پھن پھیلائے بیٹھے ہیں۔
پہرے کے بغیر کوئی چَین کی نیند سو نہیں سکتا۔ اُس نے آج کا تازہ اَخبار کھول کر پڑھنا شروع کر دیا۔
خبر تھی کہ ملک ترقی کی راہ پہ گامزن ہو چکا ہے۔
ٹیلی کام کے شعبے میں اتنی زیادہ پیش رفت ہوئی ہے کہ اب ہر شہری کے پاس موبائل فون آ گیا ہے۔
فراوانی کا سہانا موسم ہے۔ پٹرول ذرا مہنگا ہے، مگر کچھ لوگ اُسے اپنے اوپر انڈیل کر ضائع کر دیتے ہیں۔
شاید اِس لیے کہ ماچس اب بھی سستی ہے۔ آگے اخبار میں راوی چَین ہی چین لکھتا تھا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles