25 C
Lahore
Monday, October 14, 2024

Book Store

شیخ عبد القادر جیلانیؒ


دیگر تمام امتوں کے مقابلے میں امتِ مسلمہ کا ایک مخصوص امتیاز یہ ہے کہ ہر صدی میں اللہ تعالیٰ اپنی حکمتِ کاملہ سے امتِ مسلمہ میں ایک مجدد پیدا فرماتا ہے
جو امت میں کتاب و سنت پر بدعملی، کتاب و سنت کے مطابق اوامر و نواہی میں سستی اور بدعات کو مسلم معاشرے سے دور کر کے دینِ اسلام کو دوبارہ سے زندہ کرتا ہے۔
سید المرسلین ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں اہلِ ایمان کو آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللہَ عَزَّ وَ جَلَّ یَبْعَثُ لِهَذِہِ الْأُمَّةِ عَلَی رَأْسِ کُلِّ مِئَةِ سَنَةٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَهَا دِیْنَهَا
(ابوداؤد:4291؛ المعجم الاوسط:6527؛ المستدرک:8592)
’’بیشک اللہ تعالیٰ اس امت کے لیے ہر سو سال میں اُسے بھیجتا ہے جو اس امت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں علمائے دین نے اپنے اپنے انداز میں تبصرہ کیا ہے۔
امام مناوی رقمطراز ہیں کہ
’’مجدد سنت کو بدعت سے الگ کرتا ہے، علم کی کثیر اشاعت کرتا ہے اور اہلِ علم کی مدد کرتا اور اہلِ بدعت کو شکست دے کر انھیں ذلیل و خوار کرتا ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مجدد صرف وہی ہو سکتا ہے جو ظاہری و باطنی علومِ دینیہ کا عالم ہو۔‘‘ (فیض القدیر:2/281ـ 282) جبکہ علامہ علقمی فرماتے ہیں کہ:
’’تجدید کا معنی ہے:کتاب و سنت پر مبنی مٹنے والے اعمال، اور ان کے مطابق حکم دہی کو زندہ کرنے کا نام تجدید ہے۔‘‘
(حاشیہ فیض القدیر:2/281) امام احمد بن محمد رومی گزشتہ تمام علمائے حق کی آراء کا ملخص دیتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ:
’’امت کے لیے تجدید دین سے مراد ہے:
کتاب و سنت پر عمل میں سے جو اعمال مٹ چکے ہیں اور کتاب و سنت کے تقاضے کے مطابق ان کی حکم دہی کو زندہ کرنا۔
لہٰذا کہا گیا ہے کہ ہر سوسال میں اٹھائے جانے والے مجددِ دین کے لیے لازم ہے کہ وہ علم میں مشہور اور دوسروں پر اپنی فضیلت میں معروف ہو، دین میں اس کا حوالہ دیا جاتا ہو اور وہ اس صدی میں زندہ رہے۔
ہمعصر علماء میں سے ایسے شخص کی پہچان صرف قرائنِ احوال اور اس کے اُس علم سے ہو گی جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ مجددِ دین کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ ظاہری و باطنی علومِ دینیہ کا عالم، سنتِ رسول ﷺ کا حامی و ناصر اور بدعت کو مٹا دینے والا ہو
یہ کہ اُس کا علم اُس کے تمام تر اہلِ زمانہ کے لیے عام ہو۔
ہر صدی میں تجدیدِ دین کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ علمائے دین کی اکثریت ختم ہو چکتی ہے، سنتیں مٹ جاتی اور بدعتیں عام ہو جاتی ہیں
لہٰذا ایسے میں تجدیدِ دین کی احتیاج لاحق ہو جاتی ہے۔
ان حالات میں اللہ تعالیٰ متقدمین کے عوض کے طور پر کسی ایک یا کئی افراد کو سامنے لے آتا ہے۔‘‘ (مجالس الابرار، ص:662)

علمائے امت کی مذکورہ بالا تصریحات کو اگر سامنے رکھ کر منصفانہ فیصلہ کیا جائے تو حتمی طور پر یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ سیدنا غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی شروع سے لے کر اب تک تمام مجددینِ دین و ملت کے بے مثال سرتاج ہیں
کیونکہ قدیم و جدید علمائے حق نے جتنی بھی علاماتِ مجدد بیان کی ہیں وہ جس کمال و اتمام سے سیدنا عبدالقادر جیلانی  (۴۷۰ھ – ۵۶۱ھ) میں موجود ہیں۔
کسی بھی اور مجدد میں نہیں پائی جاتیں۔ اور حق یہ ہے کہ محی الدین کا لقب صرف اور صرف آپ ہی کو جچتا ہے۔ آپ خود اپنے لقب ’’محی الدین‘‘ کا سبب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’۵۱۱ ہجری میں بروز جمعہ ایک مرتبہ میں اپنے کسی سفر سے ننگے پاؤں بغداد کی طرف لوٹ رہا تھا کہ میں ایک ایسے بیمار کے پاس سے گزرا جس کا رنگ بدل چکا تھا اور جسم بہت کمزور تھا۔
اس نے مجھے کہا
: السلام علیک یا عبدَالقادر! میں نے سلام کا جواب دیا تو اس نے کہا
:ذرا میرے قریب تشریف لائیے! میں اس کے قریب ہو گیا۔ کہنے لگا:
مجھے بٹھائیے! میں نے اسے بٹھا دیا، تو اس کا جسم بڑھ گیا، اس کا حال اچھا اور اس کا رنگ صاف ہو گیا۔
یہاں تک کہ میں ڈر سا گیا۔ جب وہ تندرست و توانا ہو چکا تو مجھ سے پوچھنے

لگا: کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا: بالکل نہیں! وہ بول اٹھا کہ
میں دین ہوں، میں پرانا ہوکر مر مٹ چکا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے مجھے میری موت کے بعد زندہ کر دیا۔ یہ سن کر میں اسے وہیں چھوڑ جامع مسجد کی طرف آ گیا۔
وہاں مجھ سے ایک شخص کی ملاقات ہوئی، اس نے اپنا جوتا میرے پہننے کے لیےپیش کیا اور مجھ سے یہ کہتے ہوئے مخاطب ہوا:
یا سیدی محی الدین! پھر جب میں نماز پڑھنے کے لیے نکلا تو لوگ میری طرف بھاگتے ہوئے آئے میرے ہاتھ چومتے ہوئے مجھے پکارنے لگے:
یا محی الدین! حالانکہ اس سے پہلے مجھے کبھی بھی اس نام سے پکارا نہ گیا تھا۔‘‘ (قلائد الجواہر: محمدبن یحییٰ تادفی، ص:57)

اس حقیقت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے کہ محی الدین (دین کو زندہ کرنے والا) صرف وہی ہے
جسے یہ نعمت اللہ کریم عطا فرمائے اور وہ اپنے مکمل ترین جملہ معانی میں صرف اور صرف حضور غوث الثقلین ؄ ہیں
کیونکہ تمام تر مجددینِ امت میں سے صرف آپ ہی کی ذاتِ اقدس کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ آپ سرمدی مجددِ قائم للدین ہیں لہٰذا آپ سے ماقبل و مابعد آنے والے ہر مجدد کی مجدّدیّت آپ ہی کے فیضان و اکرام سے برپا ہوئی اور ہمیشہ آپ ہی کے فیضِ ربانی و سبحانی سے برپا ہوتی رہے گی۔
اس عظیم الشان ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اکمل انداز سے تیار کر رکھا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کی شانِ فضیلت کا اعلان نہ صرف گزشتہ اولیائے حق، آپ کے عہدِ محمود میں موجود اہلِ اللہ اور آپ کے مابعد اولیائے کبار نے کیا بلکہ عین قربِ ولادت اور آپ کے بالکل ایامِ شیر خواری و بچپن میں بھی اس حقیقت کے اثرات نمایاں ہو گئے تھے۔
لہٰذا ولادت باسعادت کی شب حضور سید المرسلین ﷺ مع جمیع اصحاب و اولیاء  حضور غوث پاک  کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوصالح  کے خواب میں تشریف لائے اور آپ کو بشارت دی کہ ’’اے میرے بیٹے ابوصالح! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک بیٹا عطا کیا ہے
جو میرا بیٹا، میرا محبوب اور اللہ سبحانہ کا محبوب ہے اور جس کی شان درمیانِ اولیاء ایسی ہو گی جیسی درمیانِ انبیاء و رسل میری شان ہے۔‘‘
(مناقب ِ غوثیہ: شیخ محمد صادق شہابی، ص:47-48)
اس شان و عظمت کا ظہور براہِ راست اسی وقت سے شروع ہو گیا جب آپ نے اس جہانِ رنگ و بو میں آنکھ کھولی۔
آپ یکم رمضان شریف کو متولد ہوئے اور چونکہ اس دن روزہ تھا اس لیے آپ نے بھی روزہ رکھ لیا لہٰذا دودھ نہیں پیا اور ایامِ شیرخواری میں آپ کا یہی معمول رہا۔
یہاں تک کہ شہرِ جیلان میں مشہور ہو گیا کہ اشراف کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔
یہی وجہ ہے کہ جب بادل وغیرہ کی وجہ سے ہلالِ عید لوگوں پر مبہم ہو گیا تو وہ آپ کی والدہ ماجدہ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے آئے کہ آیا بچے نے آج دودھ پیا ہے۔
جب انھوں نے بتلایا کہ بچے نے آج دودھ نہیں پیا تو ظاہر ہو گیا کہ آج روزہ ہی ہے۔
(قلائد الجواہر، ص:3)
اس معصومانہ واقعہ سے ہر صاحبِ ہوش و خرد پر یہ بات بھی نمایاں ہو جاتی ہے کہ غوث العالمین  اپنی شروعات سے ہی مجسم کرامت تھے اور اللہ تعالیٰ نے کس اندازِ لطیف سے آپ سے احیائے دین کا کام لینا شروع کر دیا تھا۔
حضرت علی بن ہیتی نے حق فرمایا کہ:
’’کرامتوں کا ظہور ہوتا ہے کبھی آپ حضور غوث پاک سے، کبھی آپ کی ذاتِ اقدس میں اور کبھی آپ کے ذریعے سے‘‘
(اخبار الاخیار: امام محقق عبدالحق محدث دہلوی، ص:16)
اسی منظر کی جلوہ گری اس وقت بھی ہوئی جب آپ پانچ سال کی عمر میں مکتب میں قرآنِ مجید حفظ کے لیے داخل ہوئے۔
جب استاد نے آپ کو بسم اللہ شریف پڑھنے کو کہا تو آپ نے بسم اللہ پڑھی اور ساتھ ہی قرآنِ پاک فاتحہ شریف سے لے کر اٹھارویں پارے کے اختتام تک سنا دیا۔
استادِ مکرم نے پوچھا:
آپ کو قرآن کا اتنا کثیر حصہ کیسے یاد ہے؟
جواب دیا:
جب میں اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں تھا تو انھوں نے صرف اتنا ہی قرآن پڑھا اور جب انھوں نے پڑھا تو میں نے یاد کر لیا۔ (الحقائق فی الحدائق:
فیض احمد اویسی 1/106) اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کو احیائے دین کے جس مقصد کے لیے پیدا فرمایا تھا وہ ابتدا سے انتہا تک اسی طرح سے قائم و دائم نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ آغازِ حیات سے ہی ربوبیتِ الٰہی کے دامن میں پرورش پاتے رہے اور ہمیشہ اسی ربوبیت و رحمانیت کی شان آپ پر سایہ فگن رہی۔
آپ کی حیاتِ نورانی میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب آپ آغوشِ رحمانیت کی نور افشاں جلوہ گری سے جدا ہو گئے ہوں۔
یہی حقیقت شاہد ہے کہ غوث الثقلین  کو اللہ تعالیٰ نے ہمہ جہت احیائے دین کے لیے عالمِ رنگ و بو کی زینت بنایا تھا۔
اس سرِّ ازلی کا انکشاف آپ کی حیاتِ مقدس کے گوناگوں کئی واقعات سے ہوتا ہے۔
اللہ سبحانہ نے آپ کے حفظ و امان کے لیے کیا کیا اہتمام فرمایا تھا اس کا اندازہ آپ کے بچپن میں اس الٰہیاتی امان و نگرانی سے ہوتا ہےجسے آپ خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’جب میں بچپن میں مکتب میں پڑھتا تھا تو روزانہ ایک فرشتہ میرے پاس آتا تھا حالانکہ میں نہیں جانتا تھا وہ انسانی صورت میں کوئی فرشتہ ہے۔
یہ فرشتہ مجھے گھر سے مکتب میں پہنچایا کرتا تھا اور بچوں سے کہا کرتا تھا کہ میرے بیٹھنے کے لیے جگہ بناؤ! وہ میرے ساتھ ہی بیٹھا رہتا تھا حتیٰ کہ میں اس کے ساتھ اپنے گھر کو لوٹ آتا تھا۔
ایک دن میں نے اس سے پوچھا:تم کون ہو؟ وہ بولا:
میں فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لیے بھیجا ہے کہ آپ جب تک مکتب میں رہیں میں آپ کے ساتھ رہوں جبکہ میں ایک دن میں اتنا پڑھ لیتا تھا کہ کوئی دوسرا ایک ہفتہ میں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا۔
‘‘ (قلائد الجواہر، ص:134-135) اسی طرح سے آپ سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ:
’’آپ کو کب پتہ چلا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟
آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں دس سال کی عمر میں اپنے گھر سے مدرسہ جانے کے لیے نکلتا تھا تو اپنے گرداگرد فرشتوں کو چلتے ہوئے دیکھتا تھا۔
جب میں مدرسے پہنچ چکتا تو فرشتوں کو بچوں سے یہ کہتے ہوئے سنتا: اللہ کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ بناؤ!
ایک دن ہمارے قریب سے ایک آدمی گزرا جسے اس وقت میں نہیں جانتا تھا۔ اس نے فرشتوں کو یہی کلمات کہتے ہوئے سنا تو ایک فرشتے سے پوچھا:
یہ بچہ کون ہے؟ ایک فرشتے نے جواب دیا:
اس کا تعلق اشراف گھر سے ہے۔ بڑا ہی ذیشان ہو گا، اسے بے روک عطا کیا جائے گا؛ اسے بے حجاب تمکین دی جائے گی اور بے مکر اسے مقرب بنایا جائے گا۔
چالیس سال بعد مجھے اچانک پتہ چلا کہ وہ شخص اس وقت کے ابدال میں سے تھا۔‘‘ (بہجۃ الاسرار: امام شطنوفی، ص:48)
شانِ ربانی کی یہ جلوہ گری بے وجہ نہ تھی بلکہ احیائے دین و ملت کے لیے جو سب بڑی خوبی مطلوب ہے وہ ہے صدق و صفا، اور حضور غوث العالمین کواسی وصفِ باکمال پر پیدا فرمایا گیا تھا۔ کسی نے آپ سے استفسار کیا کہ:
’’آپ کے اس امر کی بنیاد کس پر ہے؟
تو آپ نے ارشاد فرمایا:
عَلَی الصِّدْقِ، مَا کَذِبْتُ قَطُّ ’’صدق پر،
میں نے کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا،‘‘
جب مکتب میں پڑھتا تھا تب بھی کبھی نہیں۔
صغر سنی میں ایک مرتبہ یومِ عرفہ کو میں اپنے شہر کے بیرون کھیتوں وغیرہ کی طرف نکل گیا اور وہاں ہل چلاؤ گائیوں کے پیچھے ہو لیا۔
ایک گائے میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی،
عبدالقادر! آپ نہ تو اس کام کے لیے پیدا کیے گئے اور نہ ہی آپ کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔
میں گھبراہٹ کے عالم میں اپنے گھر لوٹ آیا اور چھت پر چڑھ گیا جہاں سے میں نے عرفات میں کھڑے لوگوں کو دیکھا۔ سو میں نے نیچے آکر اپنی والدہ سے عرض کی:
مجھے اللہ کے واسطے ہبہ کر کے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیے تاکہ میں علم میں مشغول اور صحبتِ صالحین سے فیض یاب ہو سکوں۔
انھوں نے مجھ سے ایسا کرنے کا سبب دریافت فرمایا تو میں نے سارا قصہ بیان کر دیا۔
اسے سن کر وہ آبدیدہ ہو گئیں اور اٹھ کر اسّی دینار لینے چلی گئیں
جنہیں میرے باپ نے ورثہ میں چھوڑا تھا۔
انھوں نے چالیس دینار میرے بھائی کے لیے چھوڑ دیے اور چالیس دینار میرے لیے میری گدڑی میں سی دیے اور مجھے سفر کی اجازت دے دی۔
روانہ کرتے وقت انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں ہر حال میں صرف سچ ہی بولوں گا۔ پھر وہ مجھے خداحافظ کہنے کے لیے کچھ دور میرے ساتھ گھر سے باہر تک تشریف لائیں۔
بالآخر فرمانے لگیں:
بیٹے! جاؤ، میں اللہ کے لیے تم سے جدا ہو چکی۔ اب میں یہ رخِ محمود صرف قیامت کو ہی دیکھ پاؤں گی۔
میں بغداد کو جانے والے ایک چھوٹے سے قافلے کا ہمسفر ہو گیا۔
جب ہم ہمذان عبور کر کے ایک کیچڑزدہ زمین میں پہنچے تو ہم پر ساٹھ گھڑسوار ڈاکؤوں نے حملہ کر کے قافلے کو پکڑ لیا۔
مگر انھوں نے مجھ سے تعرض نہ کیا، تاہم ایک ڈاکو میرے پاس سے گزرا اور مجھے پوچھنے لگا:اے فقیر! آپ کے پاس کیا ہے؟
میں نے جواب دیا:
چالیس دینار!
اس نے استفسار کیا:
وہ کہاں ہیں؟
میں نے کہا:
بغل کے نیچے میری اس گدڑی میں سلے ہوئے!
اس نے سمجھا میں کوئی مذاق کر رہا ہوں لہٰذا وہ مجھے چھوڑ چل دیا۔
پھر ایک اور ڈاکو میرے پاس سے گزرا۔
اس نے بھی وہی سوال کیا جو پہلے نے کیا تھا اور میں نے بھی وہی جواب دیا۔
وہ دونوں اپنے سردار کے پاس گئے اور اسے میرے بارے میں بتلایا۔ سردار نے کہا:
اسے میرے پاس لے آؤ! سو مجھے اس کے پاس لے جایا گیا۔
دیکھا کہ وہ ایک ٹیلے پر بیٹھے ہوئے قافلے سے لوٹا ہوا مال آپس میں تقسیم کر رہے تھے۔ سردار نے مجھ سے پوچھا:
کیا ہے تمہارے پاس؟ میں نے جواب دیا:
چالیس دینار! اس نے کہا:
وہ کہاں؟ میں نے بتلایا:
بغل کے نیچے میری اس گدڑی میں سلے ہوئے! اس نے گدڑی کو ادھیڑ کر کھولنے کا حکم دیا۔
کھولنے پر جب انھیں ۴۰ دینار مل گئے تو سردار نے پوچھا:
آپ کو کس بات نے ان دیناروں کا اعتراف کرنے پر ابھارا؟ جواب دیا:
میری ماں نے مجھ سے ہمیشہ سچ بولنے کا وعدہ لیا تھا اور میں ان سے وعدہ خلافی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ سن کر وہ روتے روتے گویا ہوا:
آپ نے اپنی والدہ سے کیے وعدے کا خلاف نہ کیا جبکہ میں ہوں کہ فلاں فلاں سن سے آج تک اپنے رب سے کیے وعدے کی خلاف ورزی کر رہا ہوں۔
تو اس حال میں اس نے میرے دستِ صدق پر توبہ کر لی۔ اس کے ساتھیوں نے کہا:
تم ڈکیتی میں ہمارے سردار تھے اور اب توبہ میں بھی ہمارے سردار ہو۔ سو ان سب نے میرے دستِ حق پرست پر توبہ کر لی اور لوٹا ہوا مال اہلِ قافلہ کو لوٹا دیا۔
یہ وہ اولین افراد تھے جنہوں نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ (مرآۃ الزمان: سبط ابن الجوزی، 21/81-82)
اہلِ نظر پر مخفی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی کسی بھی زمانے میں کسی بھی مجدد یا مجتہد کو احیائے دین و ملت کا کارِ خیر اس طریق سے تفویض نہیں فرمایا کہ
ابتداء تا انتہاء اس کی زندگی ہر لمحہ اس کارِ عظیم کے لیے وقف ہو ، سوائے اُس ذاتِ لازوال کے جنہیں غوث العالمین سیدنا عبدالقادر جیلانی کے اسمِ مقدس سے پکارا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ  نے اعلان فرما دیا تھا کہ:أَنَا شَیْخُ الْمَلٰئِکَةِ وَ الْإِنْسِ وَ الْجِنِّ ’’میں فرشتوں اور انس و جنّ کا پیر ہوں
(قلائد الجواہر، ص:26) کیونکہ أَنَا حُجَّةٌ عَلَیْکُمْ وَ نَائِبُ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَ وَارِثُهُ ’’
میں تم سب پر حجت ہوں، میں اللہ کے رسول کا نائب اور زمین میں ان کا وارث ہوں‘‘ (ایضاً)
اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعزازِ ہمہ جہتی عطا کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
جَعَلْتُ أَسْمَاءَكَ مِثْلَ أَسْمَائِیْ فِی الثَّوَابِ وَ التَّاثِیْرِ وَ مَنْ قَرَءَ اِسْمًا مِنْ أَسْمَاءِكَ فَهُوَ کَمَنَ قَرَءَ اِسْمًا مِنْ أَسْمَائِیْ ’’
میں نے ثواب و تاثیر میں تمہارے ناموں کو اپنے ناموں کی طرح کر دیا۔
پس جس نے تمہارے اسموں میں کسی اسم کا ورد کیا گویا اس نے میرے اسموں میں کسی اسم کا ورد کیا
‘‘ (تفریح الخاطر: امام اربلی، ص:21)
تو پھر کیوں نہ ہو:یَا شَیْخُ عَبْدُ الْقَادِرْ شَیْئًا لِلّٰه۔
گروہِ قزاقین کی زبان پر چونکہ آپ کے اسمائے مبارکہ میں سے کوئی اسمِ پاک جاری ہوا تھا اس لیے اللہ سبحانہ نے فوراً توجہ فرمائی اور انھیں توفیقِ توبہ عطا فرما دی۔
یہ وہ شانِ سبحانہ لایموت ہے جس میں سید الاولیاء غوث العظماء القائم کو تخصصِ ربانی حاصل ہے جو ازل سے قائم تا ابد دائم رہے گا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الْقَادِرِ الْقَدِیْرِ الْقُدُّوْسِ۔
یہاں پر یہ گمان پیدا ہو سکتا ہے حضور غوث الثقلین  میں آخر وہ کونسی صلاحیتیں، کونسی لیاقتیں تھیں جن کی بدولت اللہ تعالیٰ نےانھیں اعزازات و اکرامات کی بے پایاں و بے خزاں بہاریں مرحمت فرمائیں۔
اس گمان کے ازالہ کے لیے ضروری ہے کہ آپ  کے مندرجہ ذیل امتیازات کومدِّ نظر رکھا جائے جو خلائق میں سے آپ سے پہلے اور آج تک آپ کے بعد کسی کو بھی عطا نہ کیے گئے:
a غوثیتِ عظمیٰ:
اللہ تعالیٰ نے حضور غوث پاک  کو باقی تمام خلائق پر یہ فضیلت عطا فرمائی کہ آپ کو اتمام کے ساتھ غوثیتِ عظمیٰ عنایت ہوئی۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خطابِ عظیم میں ’’یَا غَوْثَ الْأَعْظَمِ‘‘ کہہ کر تخاطب فرمایا (ملاحظہ ہو: الفیوضات الربانیہ:
امام اسماعیل سعید ص:4تا12)
لہٰذا آپ  نے قیامت تک آنے والے اپنے تمام مریدین اور سارے صوفی سلاسل میں اپنے دائمی فیضان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

أَفَلَتْ شُمُوْسُ الْأَوَّلِیْنَ وَ شَمْسُنَا
أَبَـدًا عَلَی فَـلَكِ الْعُلَی لَا تَـغْـرُبُ
’’پہلوں کے آفتاب غروب ہو گئے مگر ہمارا آفتاب ہمیشہ کے لیے بلند آسمان پر درخشاں رہے گا کبھی غروب نہ ہو گا‘‘
(نزہۃ الخاطر: امام علی القاری، ص:80)
حضرت ابوالوفاء  نے غوث العالمین سے تخاطب کرتے ہوئے اسی حقیقت کی وضاحت میں فرمایا:
یَا عَبْدَ الْقَادِرِ! کُلُّ دِیْكٍ یَصِیْحُ وَ یَسْکُتُ إِلَّا دِیْکُكَ فَإِنَّهُ یَصِیْحُ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ
’’یا عبدالقادر!
ہر مرغ بولے گا اور خاموش ہو جائے گا سوائے تمہارے مرغ کے کہ وہ قیامت تک بانگ دیتا رہے گا‘‘ (مرآۃ الزمان، 21/120)
کیونکہ حضور غوثِ پاک کی ذاتِ اقدس میں غوثیتِ عظمیٰ اور غوثیتِ حقیقی دونوں کا اجتماع ہے اور یہ اجتماع نہ آپ سے پہلے کسی میں ہوا اور نہ آپ کے بعد کسی میں ہو گا۔

b کثرتِ مجاہدات:
سیدنا غوثِ سبحانی اپنے مجاہدات اور بھاری ریاضتوں کے دوران میں اس قدر مصائب و آلام اور کڑی آزمائشوں سے گزرے کہ کوئی بھی ولی آپ سے پہلے یا تا حال آپ کے بعد نہیں گزرا۔

آپ خود اپنے مجاہدات و ریاضات کی تفصیلات بیان فرماتے ہیں کہ
’’میں پچیس سال عراق کے جنگلوں اور ویرانوں میں تنِ تنہا گھومتا رہا۔
چالیس سال تک میں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی اور اس دورانیہ میں میں روزانہ ایک پاؤں پر کھڑا،
نیند کے خوف سے دیوار میں لگی ہوئی کھونٹی میں اپنا ہاتھ ڈال قرآن پاک شروع سے پڑھنا شروع کرتا تھا اور سحر کے قریب ختم قرآن کرتا تھا۔
ایک دن میں سیڑھی پر چڑھ رہا تھا کہ نفس گویا ہوا:
’’کاش تم ذرا بھر سو لیتے۔ تو میں اسی سیڑھی پر رک کر ایک پاؤں پر سیدھا کھڑا ہو گیا اور شروع سے قرآنِ پاک پڑھنے لگا۔
یہاں تک اسی طرح کھڑے کھڑے میں نے ختمِ قرآن کیا۔
گیارہ سال تک میں برجِ عجمی میں ٹھہرا رہا
یہاں تک کہ میری طویل اقامت ہی کی وجہ سے اس کا نام برجِ عجمی پڑا تھا۔
ایک بار میں نے اسی برج میں اللہ سے وعدہ کیا کہ جب تک مجھے کوئی کھلائے پلائے گا نہیں
میں کھاؤں پیوں گا نہیں۔ اسی بھوک اور پیاس کے عالم میں چالیس دن گزر گئے۔
اتنے دنوں بعد ایک شخص آیا جس کے پاس روٹی اور کھانا تھا جسے وہ میرے آگے رکھ کر چلا گیا۔ میرا نفس اس پر ٹوٹا چاہتا تھا مگر میں نے کہا:
بخدا اللہ سے کیا گیا وعدہ میں نہیں توڑوں گا۔
میں نے اپنے اندر سے چیخ و پکار کرنے والے کو سنا جو بھوک بھوک! کی رٹ لگا رہا تھا مگر میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔
اسی لمحے میرے پاس سے حضرت ابوسعید مخرمی گزرے تو وہ اس چیخ وپکار کو سن کر میرے پاس تشریف لائے پوچھنے لگے:
عبدالقادر! یہ کیا ہے؟
میں نے عرض کیا:
یہ نفس کی بے قراری ہے لیکن روح اپنے مولا تعالیٰ میں گُم بالکل پرسکون ہے۔ پھر آپ نے فرمایا:
بابِ ازج کی طرف آؤ۔ یہ کہہ کر وہ مجھے اسی حال پر چھوڑتے ہوئے رخصت ہو گئے۔
میں نے خود سے کہا کہ:امر کے بغیر میں ہرگز یہاں سے نہیں نکلوں گا۔
اس کے بعد حضرت خضر تشریف لے آئے۔ فرمانے لگے:
اٹھو اور ابوسعید کی طرف چلو۔
میں اٹھا اور اُن کی طرف چل پڑا جب پہنچا تو دیکھا کہ حضرت ابوسعید دروازے پر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے فرمانے لگے:
عبدالقادر! کیا تمہارے لیے میرا کہنا کافی نہ تھا؟
اس کے بعد آپ نے مجھے اپنے ہاتھوں سے خرقہ پہنایا۔ بعد ازاں میں انھی کی خدمت میں رہنے لگا‘‘ (قلائد:18-19)
اسی طرح سے تمام مراجع متفق ہیں کہ آپ نفس کو اللہ تعالیٰ کا مطیع بنانے اور شہوات کو چکناچور کرنے کے لیے جنگلوں اور صحراؤں میں نکل گئے جہاں انھیں خطرناک سختیوں اور شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کو برداشت کیا حتیٰ کہ آپ خاردار کیرب، سبزیوں کا کَرکٹ اور دریا کے کنارے پر سے گھاس کے پتے بطور غذا کھاتے تھے
یہاں تک کہ وہ دن بھی گزرے جن میں آپ نے لوگوں کی پھینکی ہوئی چیزوں کے سوا کچھ نہ کھایا
(الاعلام: امام ذہبی، 15/185)
مجاہدات کے اس دورانیے میں جو احوال آپ  پر گزرتے تھے
اس کا ہلکا سا اندازہ آپ کے اپنے ہی بیانِ واقعہ سے ہو سکتا ہے۔
فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ مجھ پر جنونِ عشق طاری ہو گیا۔ تو مجھ پر ایسے احوال وارد ہوئے کہ میں بیہوش ہو گیا۔ لوگ مجھے مردہ گردانتے ہوئے علاج گاہ میں لے گئے۔
بات یہاں تک پہنچی کہ لوگ کفن لے آئے اور مجھے تختۂ غسل پر لٹا دیا گیا۔
عین اسی وقت مجھ سے وہ حالت سمیٹ لی گئی تو میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ پھر میں بوجہِ فتنہ بغداد چھوڑنے کی غرض سے باب حلبہ کی طرف نکلا تو مجھے ایک ندا آئی کہ:
کہاں جا رہے ہو؟
اور ساتھ ہی مجھے اس زور سے دھکا دیا کہ میں گر کر خُرخُرا اٹھا اور مجھے کہا گیا:اِرْجِعْ، فَإِنَّ لِلنَّاسِ فِیْكَ مَنْفَعَةً ’’
واپس جائیے کیونکہ بلاشبہ لوگوں کو آپ سے فائدہ ہو گا‘‘
میں نے عرض کی:
مجھے اپنے دین کی سلامتی مطلوب ہے تو جواب ملا:
لیجیے وہ تمہیں عطا ہوئی۔‘‘ (تاریخِ اسلام: امام ذہبی، 39/94)
ان گوناگوں عظیم مصائب و بلایا کو پامردی اور استقامت سے برداشت کرنے کا ثمرہ آپ کے طریق کے استقرار میں برآمد ہوا جس کے نمایاں خطوط ہیں:
اپنے حول و قوت سے یکسر براءت کرتے ہوئے تفویض و موافقت،
تجریدِ توحید،
بلا مقصد مقامِ عبودیت میں سرِّ قائم سے موقفِ عبودیت میں حضوری کے ساتھ توحیدِ تفرید،
کمالِ ربوبیت کے مشاہدہ سے حاصل شدہ عبودیتِ صحیحہ،
موافقتِ قلب و روح کے ساتھ تقدیر کے دھاروں تلےپژمردگی،
ظاہر و باطن میں اتحاد،
نفع و نقصان اور قرب و بعد سے قطع نظر کر کے صفاتِ نفس سے علیٰحدگی،
شکوک و شبہات اور تشویش و تنازع سے فارغ قلب و سرّ کے ساتھ ربِّ حاضر کا مشاہدہ،
اخلاص و تسلیم سے معانقہ،
ہر حال میں کتاب و سنت سے فیصلہ لینا،
ثبوت مع اللہ، اور احکامِ شریعت پر پابندی کے ساتھ مصاحبتِ تفرقہ سے مطالعۂ جمع کی طرف بلند ہونا۔
اسی طریق کا نتیجہ تھا کہ آپ نے ملکوتِ اکبر کو اپنے پیچھے اور ملکِ اعظم اپنے قدموں کے نیچے ڈال رکھا۔ (بہجۃ الاسرار:ص:163-164)
آپ حضور کا یہی کمال و تمام تھا کہ شیخ عقیل نے فرمایا تھا کہ
’’عبدالقادر کا معاملہ زمین سے زیادہ آسمان میں مشہور ہے۔
اس بلند مرتبت نوجوان کو ملکوت میں بازِ اشہب کے نام سے پکارا جاتا ہے‘‘ (قلائد الجواہر، ص:76)
c مجددیتِ قائمہ: غوثِ اعظم  کو تمام خلائق میں یہ خصوصی امتیاز بھی حاصل ہے کہ مجددیتِ قائمہ آپ سے مخصوص ہے
لہٰذا ہر مجدد کا ظہور اس کے اپنے عہد و زمان کے لیے ہوا مگر حضور غوث پاک کا فیضان بذاتِ خود تجدید میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
لہٰذا آپ کی مجددیت کبھی بھی منقطع نہ ہو گی بلکہ ہرعہد اور ہر زمانہ میں ہمیشہ جاری و ساری رہے گی کیونکہ ہر مجددِ حق، خواہ اس کا کوئی بھی زمانہ یا مقام ہو،
آپ ہی کے زیرِ ارشاد و نگرانی اپنا کام انجام دیتا ہے۔
اس حقیقت سے واضح ہو جاتا ہے کہ غوث العالمین کے احیائے دین کے دو پہلو ہیں:
ایک وہ جو آپ کی حیاتِ ظاہرہ کے دور (چھٹی صدی ہجری) سے مخصوص ہے جس میں آپ نے اس عہد میں تمام اعلیٰ شعبوں کی تجدید کر کے دینِ الٰہی کا اِحیاء کیا؛
دوسرا وہ جو قدرتِ الٰہی اور انعامِ عام کی وجہ سے ہر دور میں ابھرنے والے مجدد پر آپ کے فیضان کے سبب آپ کی تجدیدِ قائم کے جاری ہونے سے متعلق ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کو ’’محی الدین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔
اور بیشک اللہ تعالیٰ نے اس دشوار و عظیم کام کے لیے آپ کو فائق و اعلیٰ صلاحیتوں سے مزین فرما کے تیار کر رکھا ہے۔ ان میں سے اہم ترین مندرجہ ذیل ہیں:
۱ سیدنا بازِ اشہب  اخلاق و آدابِ نبویؐ کا فی الحقیقت اصلی نمونہ تھے۔
آپ کی یہ خصوصیت اس قدر نمایاں تھی کہ آپ کا کوئی بھی ملاقاتی یا آپ کو کوئی بھی دیکھنے والا بہرحال اس بلند اخلاقی کا اقرار کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔
جیسا کہ حضرت معمر جرادہ  فرماتے ہیں کہ
مَا رَأَتْ عَیْنَایَ أَحْسَنَ خُلُقًا وَ لَا أَوْسَعَ صَدْراً وَ لَا أَکْرَمَ نَفْساً وَ لَا أَعْطَفَ قَلْباً وَ لَا أَحْفَظَ عَهْداً وَ وُدّاً مِنْ سَیِّدِنَا الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ

’’میری آنکھوں نے کبھی بھی سیدنا شیخ عبدالقادر سے زیادہ حسنِ خلق کا حامل،
وسیع الصدر،
کریم النفس،
لطیف القلب اور عہد و دوستی کو پالنے والا نہیں دیکھا۔

اپنی جلالتِ قدر، بلندیِ مرتبت اور وسعتِ علم کے باوجود آپ  چھوٹوں کے ساتھ قیام فرماتے اور بڑوں کا احترام کرتے تھے،
سلام میں پہل فرماتے،
کمزوروں سے ہم نشینی کرتےاور فقراء سے تواضع فرماتے،
جبکہ کسی سرکش اور تونگر کے لیے کھڑے نہ ہوتے تھے اور نہ ہی کسی وزیر یا بادشاہ کے دروازے سے چپکتے تھے‘‘ (زبدۃ الاسرار: امام عبدالحق محدث دہلوی، ص:90)
جبکہ مفتیِ عراق ابوعبداللہ محمد فرماتے ہیں کہ
غوث العالمین  ’’بکثرت گریہ کناں، بہت ہی گداز قلب،
نہایت پروقار و جلال،
مجاب الدعوات،
کریم الاخلاق،
پاکیزہ اوصاف،
لوگوں میں سے سب سے زیادہ برائی سے دور
اور حق سے قریب تھے۔
محارمِ الٰہیہ کی بے حرمتی ہو تو آپ شدید گرفت کرتے؛
آپ اپنی خاطر کبھی غصہ نہ کرتے اور نہ ہی ماسوائے رب کی حمایت فرماتے؛
سائل کو کبھی نہ دھتکارتے خواہ اپنے دو کپڑوں میں سے ہی ایک اسے دینا پڑے۔
توفیق آپ کا رہنما،
تائید آپ کا معاون،
علم آپ کا تہذیب کنندہ،
قُرب آپ کا ادب آموز،
حاضرجوابی اور خوش گفتاری آپ کا خزانہ،
معرفت آپ کا قلعہ،
خطاب آپ کا مشیر،
ملاحظہ آپ کا سفیر،
انس آپ کا ندیم،
کشادگی آپ کی نسیم،
صدق آپ کا جھنڈا،
فتح آپ کا سرمایہ،
حلم آپ کا فن،
ذکر آپ کا وزیر،
فکر آپ کا شبینہ ہمکلام،
مکاشفہ آپ کی غذا،
مشاہدہ آپ کی شفا،
آدابِ شریعت آپ کا ظاہر
اور اوصافِ حقیقت آپ کا باطن تھا‘‘
(بہجۃ الاسرار، ص:200)
کرم گستری اور ایثاروسخاوت آپ کی فطرت تھی
لہٰذا اپنے ہاں حاجت مندی کے باوصف جو کچھ ہاتھ میں ہوتا خرچ کر دیتے۔
عین اسی فطرت کے مطابق آپ کو دوسروں کو کھانا کھلانے اور مصیبت زدگان اور حاجت مندوں پر خرچ کرنے کا شدید اشتیاق تھا بالکل اپنی اس بات کے مصداق کہ:
فَتَّشْتُ الْاَعْمَالَ کُلَّهَا، فَمَا وَجَدْتُ فِیْهَا أَفْضَلَ مِنْ إِطْعَامِ الطَّعَامِ؛ أَوَدُّ لَوْ أَنَّ الدُّنْیَا بِیَدِیَّ فَأُطْعِمُهَا الْجِیَاعَ. کَفِّیْ مَثْقُوْبَةٌ لَا تَضْبِطُ شَیْئًا، لَوْ جَاءَنِیْ أَلْفُ دِیْنَارٍ لَمْ أُبَیِّتْهَا
’’میں نے تمام اعمال کی تفتیش کی تو کھانا کھلانے سے زیادہ افضل عمل مجھے کوئی نہ ملا۔
چاہتا ہوں کہ کاش کُل دنیا میرے ہاتھ میں ہوتی اور میں اسے بھوکوں کو کھلا دیتا۔
میری ہتھیلی میں سوراخ ہیں لہٰذا کوئی شے بھی اس میں نہیں ٹکتی، اگر میرے پاس ایک ہزار دینار بھی آجائیں تو میرے ہاں ان پر ایک رات بھی نہیں گزرتی‘‘ (الاعلام: ذہبی،15/187)
لہٰذا
آپ ہر رات دسترخوان بچھانے کا حکم فرماتے اور مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھاتے تھے۔
کمزوروں کے ساتھ بیٹھتے، بیماروں کی خبرگیری کرتے اور طالبعلموں کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔
کسی بھی ہم مجلس کو یہ گمان نہ گزرتا تھا کہ آپ فلاں کو اس سے زیادہ عزیز گردانتے ہیں۔
آپ کے اصحاب میں سے کوئی حاضر نہ ہوتا تو آپ اسے تلاش کرتے اور دوسروں سے ان کے حالات کی بابت دریافت کرتے تھے۔ آپ ان سے دوستی نبھاتے،
ان کی غلطیوں کو معاف فرما دیتے اور جو کوئی آپ کے سامنے کسی بات کی قسم کھا لیتا آپ اس قسم کو سچ مان لیتے اور اس کی بابت اپنے علم کو ظاہر نہ فرماتے تھے‘‘
(بہجۃ الاسرار، ص:200)

آپ میں اخلاقِ الٰہیہ اور آدابِ نبویؐ کی یہی تجسیم تھی کہ شیطان کی کوئی چال بھی آپ کے باب میں کامیاب نہ ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ جب آپ جنگل میں اپنے سفر کے دوران میں شدید پیاس کا شکار ہو گئے تو آپ پر ایک بادل سایہ فگن ہو گیا،
جس میں سے شبنمی قطرے برسنے لگے اور آپ کی پیاس فرو ہو گئی۔
بعد ازاں ایک روشنی ظاہر ہوئی جس میں ایک صورت دکھائی دی جو آپ سے مخاطب ہوئی کہ:
’’اے عبدالقادر! میں تیرا رب ہوں، قَدْ أَحْلَلْتُ لَكَ الْمُحَرَّمَاتِ
(بے شک میں نے تیرے لیے محرمات کو حلال کر دیا ہے)‘‘
آپ نے فی الفور تعوذ پڑھتے ہوئے جواب دیا:

’’اے لعین! دفع ہو جا‘‘
اس کے بعد وہ روشنی دھوئیں میں بدل گئی، اور شیطان دوبارہ مخاطب ہوا کہ:
’’اے عبدالقادر! تم اپنے علم، اپنے رب کے حکم اور منازلات کے بارے میں اپنی سمجھ بوجھ کی وجہ سے مجھ سے نجات پا گئے
حالانکہ میں اسی طرح کے واقعات سے ستّر اہلِ طریق کو گمراہ کر چکا ہوں۔‘‘

حضور غوث پاک نے پھر ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’اپنے رب کے فضل و احسان کی وجہ سے میں بچ گیا‘‘ (قلائد الجواہر، ص:20)

الغرض یہ وہ اخلاقِ عالیہ اور آدابِ سامیہ ہیں جو حضور غوث الاعظم  کی طبیعت و فطرت میں گنجیدہ تھے
اور اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فطری ولی، طبعی داعی اور مجددِ قائم پیدا فرمایا تھا۔

۲ سیدنا عبدالقادر  کی کرامات ثابت شدہ اور بے شمار ہیں۔
ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ:
لَمْ أَسْمَعْ عَن أَحَدٍ یُحْکَیٰ عَنْهُ مِنَ الْکَرَامَاتِ أکْثَرَ مِمَّا یُحْکَیٰ عَنْهُ، وَ لَا رَأَیْتُ أَحَداً یُعَظِّمُهُ النَّاسُ لِلدِّیْنِ أَکْثَرَ مِنْه ’’
میں نے نہیں سنا کہ سیدنا عبدالقادر سے زیادہ کرامات کسی کی بیان کی گئی ہوں،
اور نہ ہی میں نے کسی ایسے شخص کو دیکھا کہ لوگ بوجہِ دین جس کی تعظیم آپ سے زیادہ کرتے ہوں
‘‘ (الاعلام 20/442) جبکہ حضرت عثمان صریفینی ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’بخدا اللہ تعالیٰ نے وجود میں شیخ محی الدین عبدالقادر  جیسا کوئی ظاہر کیا ہے نہ کرے گا۔
آپ کی کرامات یکے بعد دیگرے موتیوں کی مربوط لڑی کی مانند تھیں۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص انھیں روزانہ گننا چاہتا تو یقیناً ایسا کر لیتا‘‘
(بہجۃ الاسرار، ص:57)
اسی کی تائید میں فقیہِ شافعی عبدالعزیز بن عبدالسلام فرماتے ہیں کہ:
مَا نُقِلَتْ إِلَیْنَا كَرَامَاتُ أَحَدٍ بِالتَّوَاتُرِ إِلَّا الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ
’’شیخ عبدالقادر کے سوا کسی اور کی کرامات تواتر کے ساتھ ہم تک نقل نہیں کی گئی ہیں‘‘ (الاعلام 20/443) اسی کی تصدیق کرتے ہوئے امام علی قاری رقمطراز ہیں کہ
’’غوث الثقلین کی کرامات حدِّ تواتر کو پہنچ چکی ہیں اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ کی کسی کرامات و خوارق کا ظہورآفاق میں کسی بھی شیخ سے نہیں ہوا۔
‘‘ (نزہۃ الخاطر، ص:23)

کراماتِ غوث الثقلین کی بابت بحث سے متعلق یہ بات یاد رہے کہ آپ کی کرامات کے حیطہ میں جسم و جان اور علم و عرفان دونوں شامل ہیں۔
جہاں تک جسم و جان کا تعلق ہے تو آپ کے دستِ دعاء سے ہزاروں مریضوں کو فی الفور شفاء عطا ہوئی۔ حضرت خضر موصلی فرماتے ہیں کہ ’’جب کسی مریض کے علاج سے طبیب عاجز آ جاتے تو اسے آپ کی بارگاہ میں لایا جاتا تھا۔
آپ اس کے لیے دعا فرماتے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیر دیتے۔ وہ مریض فوراً شفایاب ہو کر آپ کے سامنے کھڑا ہو جاتا۔‘‘ (قلائد الجواہر، ص:34)
احیائے جسمانی کی ایک عمدہ اور مشہور و معروف مثال وہ ہے
جس میں آپ نے دریا کنارے بیٹھی ایک بڑھیا کو انتہائی تکلیف میں دیکھا تو اپنے ساتھ خدمتگار سے اس کی وجہِ تکلیف دریافت فرمائی۔

پتا چلا کہ بارہ (اور ایک روایت کے مطابق بیس سال) پہلے یہ بڑھیا اپنے بیٹے کی بارات باندھ کر بیاہنے کے لیے دریا کے پار گئی تھی مگر واپسی پر پورا بیڑا دریا میں غرق ہو گیا۔ صرف یہی ایک بڑھیا بچ نکلی۔
بڑھیا کی دردناک کہانی سن کر بحرِ غوثیت موجزن ہو گیا
لہٰذا آپ نے پورے بیڑے کے احیاء کی دعا فرمائی۔
قدرتِ خداوندی کہ اتنی دیر کا غرق شدہ بیڑا مع ہر فرد و شے، دوبارہ اُبھر آیا اور بڑھیا اپنے دلہا بیٹے، دلہن اور تمام باراتیوں کے ساتھ خوش و خرم گھر واپس آ گئی۔
(مناقبِ غوثیہ، ص:56-65) کتبِ تاریخ میں حضور غوث پاک سے متعلق احیائے اموات کے اور بھی کئی واقعات مندرج ہیں،
لیکن آپ کی سب سے بڑی کرامات کا تعلق قلوبِ مردہ،
نفوسِ نیم جان اور ارواحِ مُکَدَّرہ کو انوارِ الٰہیہ کے ساتھ خالص تعلیماتِ اسلامیہ سے مُزین کر کے، ان میں ایمان و ایقان پھونک کر انھیں دوبارہ زندہ کرنے اور جِلا بخشنے سے ہے۔
حضرت شہاب الدین عمر سہروردی، جو اپنے شباب میں علمِ کلام میں گہری دلچسپی لیتے تھے کو آپ کی مجلس میں لایا گیا۔
آپ کو بتایا گیا کہ منع کرنے کے باوجود یہ علمِ کلام نہیں چھوڑتے،
لہٰذا ان پر کرم فرمائی کی جائے۔ آپ  نے ان کے سینے پر ہاتھ پھیر کر علمِ کلام کے سارے مسائل انھیں بھلا دیے وَ أَقَرَّ اللّٰہُ فِیْ صَدْرِیْ عمر سہروردی خود فرماتے ہیں
الْعِلْمَ اللَّدُنِیَّ فِی الْوَقْتِ الْعَاجِلِ، وَ قُمْتُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ أَنَا أَنْطِقُ بِالْحِکْمَۃِ…
فَکَانَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ سُلْطَانَ أَهْلِ الطَّرِیْقِ الْمُتَصَرِّفِ فِی الْوُجُوْدِ عَلَی التَّحْقِیْقِ

’’اور اللہ تعالیٰ نے اسی وقت میرے سینے میں علمِ لدنی کو ٹھہرا دیا۔ نتیجتاً میں ان کے سامنے سے اس حال میں اٹھا کہ علمِ حکمت میں بات کر رہا تھا…
لہٰذا علی التحقیق شیخ عبدالقادر اہلِ طریقت کے سلطان اور وجود میں متصرّف تھے‘‘ (قلائد الجواہر، ص:29ـ-30)
اسی طرح سے امام جدادہ آپ کی بارگاہ میں فلسفہ و علوم روحانیات پر مبنی ایک کتاب لے گئے تو آپ نے فرمایا:
’’تمہاری یہ کتاب بہت برا ساتھی ہے!‘‘
یہ کہہ کر آپ نے جدادہ کو اسے ضائع کر دینے کا مشورہ دیا، مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔
آپ نے ان سے کتاب لے کر اس کی ورق گردانی کی اور پھر واپس کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’یہ کتاب فضائل القرآن از ابن ضریس محمد ہے۔
میں نے دیکھا تو واقعی وہ نفیس خط میں لکھی ابن ضریس کی فضائل القرآن تھی‘‘ پھر آپ نے فرمایا
’’کھڑے ہوجاؤ! تو جب کھڑا ہوا تو فلسفہ و روحانیات کے تمام مسائل میرے ذہن سے یوں محو ہو گئے
گویا میرے باطن سے ان کا کبھی گزر تک نہ ہوا تھا۔‘‘ (قلائدالجواہر، ص:21)
اسی طرح سے شیخ عمر بزاز بیان فرماتے ہیں کہ
’’آپ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا تو میرے دل میں نورِ آفتاب کی بقدر نور روشن ہو گیا تو اسی وقت میں نے حق کا مشاہدہ کر لیا۔
میرے اس نور میں آج تک متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
(قلائد الجواہر، ص:70)

حضور غوث الثقلین  کے نور و عرفان کے لامتناہی فیضانِ عام کے یہی وہ چشمے ہیں جن کی بدولت آپ کے دستِ حق پرست پر پانچ ہزار سے زیادہ یہود و نصاریٰ نے اسلام قبول کیا
ایک لاکھ سے زیادہ اسلحہ بندوں اور نفس رانوں نے توبہ کی۔
حضرت عمر کیمانی فرماتے ہیں
’’سیدنا شیخ عبدالقادر کی مجالس کبھی بھی اسلام لانے والے یہود و نصاریٰ اور فساد و دنگا وغیرہ سے توبہ کرنے والے قزاقوں اور قاتلینِ نفس اور بدعقیدگان سے خالی نہ ہوتی تھیں۔
‘‘ (قلائد الجواہر، 18ـ-19)
کثرتِ کرامات کی یہی وہ دائمی بہاریں تھیں جن کی ہمہ جہت تقسیم کے لیے آپ نے دعوتِ عام دے رکھی تھی
تاکہ ہمہ جہت غوثیتِ قائمہ اپنے احیائے عالمگیر کی حجت کو سب پر قائم کر دے۔

ایک جگہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اے نوجوان! ہزار سال کا سفر کر کے میرے پاس آ تاکہ تو مجھ سے ایک لفظ ہی سن لے؛
اے ولایت کے دیوانے!
یہاں ہیں درجات!
یہاں میری مجلس میں خلعتیں تقسیم ہوتی ہیں؛
اللہ کا پیدا کردہ کوئی نبی یا ولی ایسا نہیں جو میری اِس مجلس میں شریک نہ ہوتا ہو،
زندہ اپنے جسموں کے ساتھ اور رفتگان اپنی ارواح کے ساتھ؛
اے جوان! جب تیری قبر میں منکر اور نکیر آئیں تو ان سے میرے بارے میں پوچھ۔
وہ تجھے میری بابت مکمل بتا دیں گے۔‘‘
(بہجۃ الاسرار، ص:54) کیونکہ
إِنَّ قُلُوْبَ النَّاسِ بِیَدَیَّ إِنْ شِئْتُ صَرَفْتُهَا عَنِّیْ وَ إِنْ شِئْتُ جَذَبْتُهَا إِلَیَّ
’’بلاشک و شبہ لوگوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ چاہوں تو خود سے موڑ دوں اور چاہوں تو اپنی طرف کھینچ لوں‘‘ (قلائد الجواہر، ص:67)
یہاں یہ بات یاد رہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کسی کو لوگوں کے قلوب پر تصرف عطا نہیں فرماتا احیائے دین و ملت کا کام ناممکن ہے۔
حضور غوث پاک  کو اس تصرف کا پورا اختیار عطا کیا گیا تھا، وہ جامع کراماتی تصرفات ہی ہیں جن کا فیضان آج تک جاری ہے
اور آپ کی غوثیتِ عظمیٰ اور مجددیت قائمہ پر شاہد ہیں۔

۳ اللہ تعالیٰ نے سیدنا غوث الاعظم کو علوم و معارف کے وہ خزانے عطا کیے تھے کہ آپ سے پہلے یا بعد میں آج تک کسی کو عنایت نہیں ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے ایک ہی آیتِ کریمہ کے چالیس معانی مع حوالۂ جات بیان فرمائے تو مجلس میں براجمان ابن الجوزی مبہوت رہ گئے اور جب آپ نے فرمایا
’’اب ہم قال کو چھوڑ حال طرف آتے ہیں‘‘
تو ابن الجوزی پر وہ اضطرابِ شدید طاری ہوا کہ انھوں نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ (بہجۃ الاسرار، ص:224ـ-225)
اپنی احیائی جدوجہد میں آپ جس مرکزی نکتہ پر زور دیتے تھے وہ تھا علمِ فقہ،
کیونکہ علمِ فقہ کے بغیر مختلف شعبۂ جاتِ حیات کے امور کو بخوبی انجام دیا جا سکتا ہے نہ باطنی احوال کو صحت کے ساتھ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب شیخ جبائی نے انقطاع کا ارادہ کیا تو حضور غوث العالمین نے انھیں فرمایا:
لَا تَنْقَطِعْ حَتَّی تَتَفَقَّهَ، وَ تُجَالِسَ الشُّیُوْخَ، وَ تَتَأَدَّبَ بِهِمْ
’’جب تک فقہ کی تعلیم حاصل نہ کرلو، شیوخ سے مجالست اور ان کے ذریعے سے ادب نہ سیکھ لو، خلوت اختیار نہ کرو‘‘ کیونکہ فقہ کے بغیر تمہارا حال ’’ننھے منے بےپر چوزے‘‘ کا سا ہو گا۔
لہٰذا
’’جب تمہیں دینی امور سے متعلق کوئی مشکل پیش آئے گی تو تُو اپنے زاویہ (آستانہ) سے نکل کر دوسروں سے پوچھتا پھرے گا جبکہ صاحبِ زاویہ کو اس شمع کی مانند ہونا چاہیے
جس سے نور حاصل کیا جاتا ہے۔‘‘ (مرآۃ الزمان21/86)
اسی بات پر زور دیتے ہوئے آپ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ
’’فقہ حاصل کر پھر گوشہ نشینی اختیار کر، جس نے علم کے بغیر اللہ کی عبادت کی اس نے اصلاح سے زیادہ فساد پھیلایا،
جو اپنے حاصل کردہ علم پر عمل کرے گا اللہ اسے وہ علم عطا فرمائے جسے وہ جان نہیں سکتا‘‘ (قلائد الجواہر، ص:64)
تعلیمِ فقہ پر تاکید صرف زبانی نہ تھی بلکہ آپ علمِ فقہ و اصول میں تمام اہلِ زمانہ پر حاوی اور افضل تھے۔ اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ فقہِ اسلامی کے چاروں مذاہب میں فتویٰ دیتے تھے (نزہۃ الخاطر، ص:13)
اگرچہ آپ زیادہ تر امام شافعی اور احمد کے مذاہب پر فتویٰ دیا کرتے تھے
جبکہ آپ کی فتویٰ دہی میں فطانت و ذہانت اور حاضر جوابی کا عالم یہ تھا کہ
جب علمائے عراق پر وہ فتوے پیش کیے جاتے، تو وہ ان فتاویٰ کی درستی اور آپ کے سرعتِ جواب پر حیران رہ جاتے تھے۔
آپ کی بارگاہ میں ایک مرتبہ عجیب و غریب فتویٰ آیا جس کا جواب دینے سے تمام علمائے عراق عاجز آ گئے۔
فتویٰ یہ تھا کہ ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم کھالی کہ
اگر وہ کوئی ایسی عبادت انجام نہ دے جو اس کے وقتِ عبادت میں دنیا بھر میں کوئی اور نہ کر رہا ہو۔
آپ  نے سنتے ہی فتویٰ رقم فرما دیا کہ وہ شخص کعبۃ اللہ میں جائے اور مطافِ کعبہ کو خالی کروا کے ہفتہ بھر طواف کرے قسم پوری ہو جائے گی۔
تو متعلقہ شخص نے ایسا ہی کیا۔
(مرآۃ الزمان:21/92)
اسی طرح سے ایک مرتبہ آپ کے ایک محب نے قسم کھا لی کہ
اگر وہ ابویزید بسطامی سے افضل نہ ہوا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں۔
تمام علمائے بغداد اس کے جواب سے عاجز آ گئے تو اسے مشورہ دیا گیا کہ
’’تم حضور غوث پاک سے ہی رجوع کرو۔‘‘
لہٰذا وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے مسئلہ سن کر ارشاد فرمایا کہ
’’جا اور اپنی بیوی سے صحبت رکھ
کیونکہ ہر وہ درجہ جس تک ابویزید بسطامی پہنچے تم بھی اس تک پہنچ چکے ہو۔
جبکہ تمہیں اُن پر فضیلت حاصل ہے
۱فتویٰ دہی میں، کہ وہ فتوی نہ دیتے تھے،
۲ تم نے شادی کی جبکہ انھوں نے شادی نہ کی تھی،
۳ تم بچوں کو کما کر رزق کھلاتے ہو جبکہ وہ ایسا نہ کرتے تھے‘‘ (قلائد الجواہر، ص:135)
اور اہلِ نظر کو علم ہے ساری کائنات میں حضور غوث الثقلین کے سوا یہ فتویٰ کوئی اور مفتی نہ دے سکتا تھا
کیونکہ اس فتویٰ کے لیے جو علم درکار ہے وہ صرف اور صرف آپ ہی سے مخصوص ہے۔
ظاہری و باطنی علوم و معارف میں یہی وہ کمال تھا
جس کی وجہ سے آپ کی مجالسِ ذکر و تقریر میں ستّر ہزار تک شرکاء کی تعداد ہوتی تھی۔

(تاریخِ اسلام:
امام ذہبی، ص:39/96)
اتنے عظیم الشان مجمع پر قابو رکھنے کے لیے آپ کو یہ نعمت عطا کی گئی تھی کہ

’’کثرت کے باوجود آپ کی آواز جس قدر آپ کے قریب بیٹھے ہوئے لوگ سنتے تھے
اسی قدر آپ سے دور بیٹھے والے سنتے تھے،
آپ اہلِ مجلس کے دل میں واقع خیالات پر گفتگو فرمایا کرتے تھے
اور بذریعہ کشف ان کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔‘‘
(مرآۃ الزمان:21/93) لہٰذا
بقول ابن قدامہ اِنْتَهَتْ إِلَیْهِ الرِّیَاسَةُ عِلْمًا وَ عَمَلًا وَ حَالًا وَ اسْتِفْتَاءً ’’
آپ پر علم و عمل اور حال و استفتاء کی سلطنت کی انتہاء تھی‘‘
(قلائد الجواہر، ص:6)
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوربیع سلیمانی مالقی  نے مجمع عام میں فرمایا کہ
’’شیخ عبدالقادر اپنے اہلِ زمانہ کے سردار ہیں‘‘
جبکہ شیخ قرشی نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اضافہ فرمایا کہ
’’جہاں تک اولیاء کا تعلق ہے تو
غوث الاعظم ان سب کے سرتاج اور کامل ترین ہیں؛
جہاں تک علماء کی بات ہے تو وہ ان میں سب سے زیادہ زہدو ورع کے حامل ہیں؛
جہاں تک عارفین کا معاملہ ہے،  بہترین زیادہ صاحبِ علم و تمام ہیں؛
اور اگر مشائخ کی بات کریں،
اُن میں انتہائی صاحبِ تمکین و قوت ہیں۔‘‘
جبکہ حضرت خضر نے آپ کا مقام و مرتبت واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’آپ فرد الاحباب، قطب الاقطاب اور صاحبِ سرّ ہیں۔‘‘ (قلائد الجواہر، ص:66)
علم و عرفان کا یہی وہ فیضانِ لا متناہی تھا کہ حضور غوث پاک  کی مجلسِ پاک میں صرف عام و خاص، علماء و اولیاء ہی کسبِ فیض کے لیے حاضر نہ ہوتے تھے،
بلکہ آپ کی مجالسِ خاص میں سید المرسلین ﷺ، دیگر انبیائے کرام، فرشتے، رجال الغیب حضرت خضر وغیرہم بھی رونق افروز ہو کر ان کی محافل کی خیروبرکت میں بے حساب اضافہ فرماتے تھے۔
آپ  کی مجلسِ پرنور کا وہ منظر کیسا دیدنی تھا
جب حضور ﷺ مع خلفائے راشدین تشریف فرما ہوئے اور آپ ﷺ کے یمنِ قدم سے حضور غوث پاک پر تجلیاتِ مبارکہ کا نزول ہوا ۔
جن میں ایک دفعہ تو آپ گرا چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے پکڑ کر آپ کو سنبھالا دیا ،
جبکہ آخری تجلیات میں آپ پہلے چڑیا کی بقدر چھوٹے اور پھر انتہائی جسیم ہو گئے۔
(قلائد الجواہر، ص:74ـ-75) اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ بقول خلیفہ نہری
قَدْ قُلِّدَ الْأَمْرُ إِلَی الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ فِی الْأَوْلِیَاءِ وَ أَسْرَارِهِمْ
’’اولیاء کا معاملہ اور ان کے اسرار شیخ عبدالقادر کے سپرد ہیں‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سب کو دعوتِ عام دے رکھی تھی کہ جس مقصد کے لیے بھی کسی نے آنا ہو، آئے اور نعمتیں لے جائے۔ کیونکہ کُل کائنات آپ کے تصرف میں ہے یہاں تک کہ سورج، مہینے، ایام سب کے سب آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے،
آپ کو اس کے بارے میں بتاتے ہیں؛ بدبختوں اور خوش بختوں کو آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے؛
آپ کی آنکھ لوحِ قلم پر ہے
اور آپ اس کے علم کے سمندروں اور اس کے مشاہدہ میں غوطہ زن ہیں ،کیونکہ ہر ولی کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے اور
’’میں اپنے جدّ ﷺ کے قدم پر ہوں۔
لہٰذا آپ ﷺ نے جہاں بھی قدم رکھا تو آپ ﷺ نے جونہی اٹھایا تو میں نے وہیں قدم رکھ دیا،
سوائے قدم نبوت کے‘‘ (قلائد الجواہر، ص:26)
اسی شان کے بیان میں شیخ احمد نے فرمایا تھا
مَنْ یَبْلُغُ مَبْلَغَ الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ، ذَاكَ بَحْرُ الشَّرِیْعَةِ عَنْ یَمِیْنِهِ وَ بَحْرُ الْحَقِیْقَةِ عَنْ یَسَارِہِ
’’کون ہے جو شیخ عبدالقادر کو پہنچے!
ان کے دائیں طرف شریعت کا سمندر اور بائیں جانب حقیقت کا سمندر ہے‘‘ (مرآۃ الزمان:21/128)
اور اسی شانِ فضیلت کا اظہار آپ نے بحکمِ الٰہی کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ

قَدَمِیْ هَذِہِ عَلَیٰ رَقَبَةِ کُلِّ وَلِیٍّ لِلّٰہِ (قلائد الجواہر، ص:22)
’’میرا یہ قدم ہر ولی اللہ کی گردن پر ہے‘‘
۴ احیائے دین و ملت ناممکن ہے
جب تک مجدد اختیارِ غلبہ کے ساتھ حکمرانِ وقت کے خلاف کلمۂ حق کہنے اور اس پر عمل کروانے کے اہل نہ ہو۔

امتِ مسلمہ میں سے صرف اور صرف غوث الاعظم محی الدین کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ
آپ خلیفۂ وقت اور دیگر سلاطینِ حاضرہ پر ان کے ظلم و تشدد اور ناانصافی پر علی الاعلان کڑی تنقید بھی کرتے تھے،
انھیں حکم بھی صادر فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی کرواتے تھے۔
لہٰذا جب خلیفہ مقتفی نے ظالم ابن مزحم کو قاضی مقرر کر دیا تو
آپ نے سرِ ممبر خلیفہ کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’تم  نے سب سے زیادہ ظالم شخص کو قاضی مقرر کر دیا ہے۔
کل کو ربّ العالمین کی بارگاہ میں کیا جواب دو گے؟‘‘
یہ سن بادشاہ کانپ اُٹھا۔
لہٰذا اس نے اسی وقت قاضی کو برطرف کر دیا (رجال الفکر و الدعوۃ، 1/320)
اس طرح سے رعب و احتشام کے ساتھ آپ کا دبدبہ تمام خلائق پر جاری تھا ۔
یہ صرف اسی کے لیے ہو سکتا ہے،
جو ہمیشہ کے لیے نائب رسول اللہ ﷺ اور جس کا فیضانِ احیائی سب مسلمین میں دائماً تا ابد جاری ہو۔

۵ آپ کے احیائے دین کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ نے فقہ اور تصوف کے مابین پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں ظاہر ہونے والی تفریق کو یکسر ختم کر دیا
اور بار بار تاکید فرمائی کہ
کُلُّ حَقِیْقَةٍ لَا تَشْھَدُ لَهَا الشَّرِیْعَةُ فَھِيَ زَنْدَقَةٌ ’’
ہر وہ حقیقت جس پر شریعت گواہ نہ ہو وہ زندقہ ہے‘‘
(الفتح الربانی: الغوث الاعظم، ص:203)
مذکورہ بالا شواہد سے واضح ہو جاتا ہے کہ احیائے قائم صرف آپ  سے مختص ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ کے احیائے دین و ملت کی تاثیر
صرف آپ کے عہدِ جسمانی تک محدود نہیں،  بلکہ نسل در نسل آج تک جاری ہے۔
اسی بناء پر آپ نے قیامت تک آنے والے اپنے تمام
عقیدت مندوں اور مریدین کے لیے عام اعلان فرما دیا تھا کہ
مَنْ اسْتَغَاثَ بِیْ فِیْ کُرْبَةٍ کُشِفَتْ عَنْهُ وَ مَنْ نَادَی بِاسْمِیْ فِی شِدَّةٍ فُرِجَتْ عَنْهُ، وَ مَنْ تَوَسَّلَ إِلَی اللہِ بِیْ فِیْ حَاجَةٍ قُضِیَتْ حَاجَتُهُ

’’جس نے مصیبت میں مجھے پکارا وہ مصیبت اس سے دُور کر دی جائے گی؛
جس نے شدت میں میرا نام  لے کر مجھے پکارا اسے سکون حاصل ہو گا
اور جس نے اللہ سے میرے توسُّل سے حاجت روائی طلب کی
اس کی حاجت روائی ہو گی‘‘ (قلائد الجواہر، ص:36)
اس حکمِ عام کے بعد اپنے مریدین کی بابت، بقول حضرت عمر بزاز:

ضَمِنَ سَیِّدُنَا الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ لِمُرِیْدِیْهِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ أَنْ لَا یَمُوْتَ أَحَدٌ مِنْھُمْ إِلَّا عَلَی تَوْبَةٍ
’’سیدنا عبدالقادر نے قیامت تک آنے والے اپنے تمام مریدوں کے ضامن ہیں کہ
ان میں سے کوئی بھی توبہ کے بغیر نہ مرے گا‘‘

پھر آپ کو ہی یہ نعمت عطا کی گئی ہے کہ
آپ کے مریدین اور سات پشتوں تک آپ کے مریدوں کے مرید جنت میں داخل ہوں گے۔
لہٰذا ’’میں سات پشتوں تک اپنے مرید کے مرید کا کفیل ہوں۔
اگر مغرب میں بیٹھے میرے مرید کی بے پردگی ہو جائے
تو میں مشرق میں بیٹھا ہوا بھی اس کی سترپوشی کر دوں گا۔ …
لہٰذا کتنا خوش بخت ہے وہ ، جس نے مجھے دیکھا اور حسرت ہے اس پر جس نے مجھے نہ دیکھا!‘‘ (مرآۃ الزمان:21/99)
آپ سے پوچھا گیا کہ ’’آپ کے مریدین میں نیک اور فاجر دونوں ہیں؟‘‘
آپ نے جواب دیا:’’نیک میرے لیے اور میں فاجر کے لیے ہوں‘‘ لہٰذا :

أنَا لِکُلِّ مَنْ عَثَرَ بِهِ مَرْکَبُهُ مِنْ أَصْحَابِیْ وَ مُرِیْدَیَّ وَ مُحِبِّیَّ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ آخِذٌ بِیَدِهِ
’’میں قیامت تک آنے والے اپنے اصحاب، مریدین اور محبین میں سے اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہوں۔ جس کی سواری اسے لڑکھڑا کر گرا دے‘‘
(قلائد الجواہر، ص:17) اور احیائے دائم اور غوثیتِ عظمیٰ کے یہی شایانِ شان ہے۔

۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles