سلسلے وار ناول
بلال صاحب
چوتھی قسط
عا شق رسولﷺ
شکیل احمد چوہان
اس گھر میں محبت اور نفرت کی جنگ پچھلے کئی سال سے جاری ہے۔ بلال محبت کی فوج کا سپہ سالار ہے اور نوشی نفرت کی فوج کی رانی۔ جمال لیدر سے بنی اشیا کا بہت بڑا ایکسپورٹر ہے۔ اس کی فیکٹری ڈسکہ اور سیالکوٹ کے درمیان مین ڈسکہ روڈ پر واقع ہے۔ اکثر وہ ملک سے باہر رہتا۔
اُس کی بیوی اور بیٹا کوٹ لکھپت میں ٹریک سوٹ بنانے والی فیکٹری کے مالک ہیں اور اُس کی بیٹیاں نوشی اور توشی ڈیفنس کے y بلاک میں واقع اپنی بوتیک چلاتی ہیں۔
ڈیفنس کے فیز III میں S بلاک میں دو کنال کی شاندار کوٹھی ان کی راجدھانی ہے۔ اس گھر میں ملازموں کی فوج موجود ہے جن میں سے 4 بہت اہم ہیں۔
گل شیر خان اس گھر کا سب سے پرانا اور وفادار۔ اس کے عہدے کو کوئی نام نہیں دے سکتے۔ وہ 30سال سے جمال رندھاوا کے ساتھ ہے۔
جمال کے بعد فیکٹری معاملات وہی ہینڈل کرتا ہے، اس کے دو بیٹے بھی جمال کی فیکٹری میں ملازم ہیں۔
وہ جب ملک سے باہر ہوتا تو وہ سیالکوٹ میں اپنے گھر میں رہتا۔ جمال کی پاکستان موجودگی میں وہ سائے کی طرح اُس کے ساتھ ہوتا۔
باجی غفوراں بھی تقریباً اتنے ہی عرصے سے کام کر رہی ہے اس گھر میں وہ صبح سویرے آ جاتی اور رات گئے واپس جاتی۔ وہ کچن کی ہیڈ ہے، وہ ڈیفنس میں واقع چرڑ گائوں کی رہنے والی ہے جوکہ Sبلاک کے پاس ہی واقع ہے۔
شاہد محمود سکھیرا اس گھر میں جوان ہوا ہے۔ سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا اور مزے کی بات سب گھر والے اسے اپنا خاص آدمی سمجھتے ہیں۔ جمال اور بلال کے علاوہ سب اسے SMSکہتے ہیں۔
DJیعنی دلاور جتوئی لاہور ہیرو بننے آیا تھا۔ DJ نوشی اور توشی کا ڈرائیور کم سیکرٹری اگر چمچہ کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔
جہاں آرا بیگم ایک زیرک خاتون جو گھر کے افراد کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ڈوری میں باندھے ہوئے ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ناہید اور شعیب کا رویہ بلال کے ساتھ غیر مناسب ہے اور نوشی کی ستم ظریفی بھی ان سے پوشیدہ نہیں ہے۔
بلال اس گھر میں رہتا تو تھا مگر اُسے گھر کا فرد نہیں سمجھا جاتا۔ وہ اس گھر میں صرف جہاں آرا کے حکم سے رُکا ہوا۔
بلال 26,25 سال کا ایک خوبصورت گبھرو جوان ہے۔ مضبوط قد کاٹھ کا مالک مگر سلم اینڈ سمارٹ اس کی پرسنالٹی دیکھ کر اکثر نظریں راستہ بھول جاتیں۔ گفتار پر جس کو عبور حاصل ہے۔ کردار جس کا اعلیٰ ہے۔ بات کرتا تو جناب اشفاق احمد صاحب یاد آ جاتے ، آواز اتنی رعب دار اور نفیس جیسے گلزار صاحب اپنا کلام اپنی ہی آواز میں سنارہے ہوں …
اس کے رُخِ پُرنور پر نظر پڑتی تو مسکراہٹ آپ کا استقبال کرتی، دھیمی آواز میں بات کرتا نہ کم نہ زیادہ۔
صوم و صلوٰۃ کا پابند، حج اس نے دو سال پہلے ہی کر لیا تھا۔ ہفتے میں کبھی دو اور کبھی تین روزے ضرور رکھتا، جمعرات، جمعہ اور پیر۔ قرآن مجید روز پڑھتا مگر ترجمے کے ساتھ۔ اس کے پاس اردو کے چودہ تراجم کے نسخے موجود ہیں۔ جو الگ الگ مکاتب فکر کے علماء کرام کے ہیں۔ تمام مسالک کی مساجد میں نماز پڑھ لیتا۔ مذہبی بحث سے اجتناب کرتا۔ کافی ساری احادیث کی کتب بھی اس کے پاس ہیں۔ تصوف سے بھی لگاؤ رکھتا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی اس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک ہے۔
اُردو اَدب سے لگاؤ ہے۔ شاعری پڑھتا ضرور ہے مگر شعر کہنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
غالب، اقبال، فیض، فراز سے ہوتے ہوئے گلزار تک سب کے کافی اشعار اُسے یاد تھے۔ اس کے پسندیدہ شاعروں میں اقبال اور گلزار تھے۔
غزلیں اور لائٹ میوزک اسے بہت پسند ہے۔ مہدی حسن اور عابدہ پروین اس کے پسندیدہ سنگرز ہیں۔
کپڑوں کے معاملے میں اس کی پسند الگ ہے۔ لائٹ بلو جینز کے اوپر اکثر وائٹ شرٹ پہنتا۔ اوپر بلیک کوٹ، کوٹ اسے بہت پسند ہیں۔ تقریباً ہر کلر اور ہر سٹف کا کوٹ اس کی وارڈروب میں موجود ہے ۔ لائٹ کلر جینز میں جتنی ورائٹی مارکیٹ میں دستیاب ہیں، سب اُس کے پاس ہے۔ زیادہ تر شرٹس لائٹ کلر میں استعمال کرتا۔
گھر میں شلوار قمیض پہنتا۔ کھانے کا شوقین ہے مگر زندہ رہنے کے لیے کھاتا۔ گرل فش بہت پسند ہے۔ اس کے علاوہ پیاز گوشت، زیادہ تر ہرے بھرے سینڈوچ کھاتا جو وہ خود ہی بناتا ہے۔ چھت پر پڑے گملوں سے پودینہ، دھنیا اور ہری مرچ توڑ کر ان کا پیسٹ بنا لیتا اور فریج میں محفوظ کر لیتا۔ بھوک کے وقت براؤن بریڈ کے اوپر وہ پیسٹ ڈال کر سینڈوج میکر کی خدمات سے فائدہ اٹھاتا۔ دوست بہت کم تھے۔ دل کی بات زباں پر کم ہی لاتا۔ خوددار اتنا کہ خودی اُس کو عقیدت سے سلام پیش کرتی۔
اکثر کہتا: ’’دینے والی ذات صرف ایک ہے۔ اس سے رو کر دل کھول کر مانگو۔ اس لیے کہ کسی اور سے مانگنا نہ پڑے۔ ‘‘
جب بھی شہر سے باہر جاتا، سب گھر والوں کے لیے تحائف لاتا۔
وہ ایک روشن خیال اور حدود میں رہنے والا انسان ہے۔ ہر عمر کی خواتین اسے پسند کرتیں کیونکہ اس کی آنکھوں میں حیا ہے۔ وہ کہتا :
’’ عورت کو آپ جس نظر سے دیکھتے ہو اسے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے حیا کی نظر سے دیکھو۔ ‘‘
شاید اسی وجہ سے لڑکیاں اس کے پیچھے پاگل ہیں۔
جدت پسند تھا۔ تمام جدید اشیا استعمال کرتا، Lcd، Lap Top، Tablet، سوائے دو کے (موبائل اور گاڑی) اس کے پاس ایک پرانا Nokia موبائل فون تھا اور گاڑی Land Cruiser، 1988 ماڈل ۔ یہ چیزیں وہ نہیں بدلتا.وجہ صرف وہی جانتا تھا۔
اندرون لاہور میں ایک بلڈ ڈونر سوسائٹی کا ممبر ہے۔ سال میں 3 بار بلڈ ڈونیٹ کرتا ۔ اس کا بلڈ گروپ Oنیگیٹو ہے۔
بلال ایک سیلف میڈ اور ڈاؤن ٹو ارتھ بندہ ہے۔ اپنے سارے کام وہ خود کرتا ۔ انتہائی صفائی پسند، روزانہ گرم پانی سے نہاتا اور نیم گرم پانی پیتا۔ کلین شیو روز کرتا۔ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتا۔ ورزش روز کرنا، اچھا عطر لگانا اسے بہت پسند ہے۔
اس کے علاوہ انڈونیشیا کی بنی ہیئر کریم Jony Andrean اسے بہت پسند ہے۔ ہمیشہ اپنے گھنگھریالے بالوں میں وہ کریم لگاتا۔ بلال کی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔
دائیں ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھی پہنتا۔ کافی اور گرین ٹی بہت پیتا مگر چینی کے بغیر ۔ رات سونے سے پہلے ایک مگ خالص دودھ پیتا شہد ڈال کر، اُسے اقبال چائے والے سے خالص دودھ مل جاتا ہے۔
ان تمام خوبیوں سے بڑھ کر بلال میں ایک خوبی یہ بھی ہے وہ نبی پاک ﷺ سے بہت محبت کرتا ہے۔
نامِ محمد(ﷺ) سُن کر اُس کی آنکھیں چمک اُٹھتیں اور اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔
اُس کا نام اُس کے باپ ملک جلال احمد نے حضرت بلال حبشی ؓ کے نام پر رکھا ہے۔ اُس کا ماننا ہے کہ اُس کا نام تو بلال ہے، باقی وہ حضرت بلالِ حبشی رضی اللہ عنہ کے پیروں کی خاک جیسا بھی نہیں ۔ بلال کو حضرت بلالِ حبشیؓ عاشقِ رسول ﷺ سے بڑی عقیدت ہے۔
(باقی اگلی قسط میں پڑھیں)
۞۞۞۞